2024 April 25
امام رضا (ع) نے خدا کی شناخت کے لیے کس چیز سے استدلال کیا تھا؟
مندرجات: ١١٣ تاریخ اشاعت: ١٣ August ٢٠١٦ - ١٨:٢٧ مشاہدات: 2180
خبریں » پبلک
امام رضا (ع) نے خدا کی شناخت کے لیے کس چیز سے استدلال کیا تھا؟

عالم اسلام کے جلیل القدراستادمفسر قرآن حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی کی ایک تحریر کو جو کتاب فلسفہ الہی امام رضا (ع) کی نظر میں ہے اور جو امام رضا علیہ السلام کے کلام میں عقلی بنیادوں پر استدلال کے بارے میں ہے  اور نیوزنور نے آٹھویں امام المومنین و وارث المرسلین و حجت رب العالمین علی ابن موسی رضا علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے اس کے ترجمے کا اہتمام کیا ہے ۔

 بغیر کسی شک کے ایسا موجود کہ جس کا وجود غیر سے وابستہ ہو اور وہ اپنے وجود میں مستقل نہ ہو اس کو ایسے موجود کا سہارا لینا پڑتا ہے کہ جس کا وجود ذاتی ہو اور غیر سے وابستہ نہ ہو ۔ یہ قاعدہ موجود خارجی اور موجود ذہنی دونوں پر لاگو ہوتا ہے اس لیے کہ وجود علمی ایک طرح سے وجود عینی اور خارجی ہے ۔اس لیے کہ ذہن بذات خود عالم خارج میں تحقق رکھتا ہے اور ذہنی صورتیں بھی ذہنی وجود کے ساتھ عالم خارج میں ہوتی ہیں ۔اس بنا پر وہ معلوم کہ جو اپنے علمی وجود میں غیر سے وابستہ ہو اور معلوم بالذات نہ ہو اس کو معلوم مستقل اور بالذات کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔معلوم بالذات ایسی چیز ہے کہ عقل کے پاس اس کی تصدیق کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے یعنی بدیھیات اور ضروری اور اولی قضیے کہ عقلی مسائل میں جن کو “مبادی تصدیقی” کہا جاتا ہے جیسے دو ضد و نقیض کے یکجا ہونے کا محال ہو نا یا دونوں نقیضوں میں سے کسی کا نہ ہونا (وجود اور عدم کہ جو ایک موضوع میں جمع نہیں ہو سکتے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو ) نیز اگر کوئی قضیہ صادق ہو تو اس کے نقیض کا عکس بھی صادق ہو گا اور اس جیسے موارد کہ جو عقلی مبادی میں سے ہیں یقینی معارف کے دائرے میں کار آمد ہیں ۔

ظاہری آنکھ سے خدا کو نہ دیکھا جانا عقلی معرفت کی بنیاد پر ہے  

حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے اپنے نورانی بیانات میں اس روش پر استدلال کیا ہے  مثال کے طور پر خدا کے دیکھے جانے کے محال ہونے کی بحث میں فرماتے ہیں : وہ شناخت جو ظاہری آنکھ سے دیکھے جانے سے حاصل ہوتی ہے ،وہ ایمان ہے یا نہیں ہے ،اگر یہ شناخت وہی ایمان ہو تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ شناخت جو دیکھنے کے علاوہ یعنی غور و فکر سے حاصل ہوتی ہے وہ ہر گز ایمان نہیں ہو گی ۔اس طرح کی شناخت یعنی غور و فکر سے حاصل ہونے والی شناخت کے خدا وند متعال کے مجرد ہونے پر دلالت کرنے کے پیش نظر کہ آنکھیں جس کو دیکھ نہیں سکتیں (جیسے مادے سے عاری ہر موجود کہ آنکھیں جس کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتیں ) اس لیے کہ یہ شناخت کہ جو غورو فکر سے حاصل ہوئی ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کو ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا ،اس شناخت سے کہ جو حس کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کو ظاہری آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے ،مختلف ہے اور یہ دونوں ایک دوسرےکی ضد ہیں اور دو مخالف چیزیں کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتیں (۱) خاص کر اس مقام پر کہ جب دو میں ایک ضد نقیض کی مانند ہے ،اس لیے کہ ایک و”جودی چیز” ایک” عدمی چیز” کے مقابلے میں واقع ہو جاتی ہے ۔اس طرح کہ حسی شناخت اس امر کی ترجمان ہے کہ خدا کو آنکھوں سے  دیکھا جا سکتا ہے ،لیکن عقلی معرفت اس امر کی گواہ ہے کہ خدا کو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا ۔

ارادہ حادث ہے قدیم نہیں

حضرت رضا علیہ السلام کے استدلال کی روش کا ایک اور نمونہ کہ جو مبادی عقلی کے ذریعے ہے آپ کا ارشاد ہے کہ جو  اس بارے میں ہے کہ ارادہ حادث ہے نہ کہ قدیم «أَ لَا تَعْلَمُ أَنَّ مَا لَمْ يَزَلْ لَا يَكُونُ مَفْعُولًا وَ حَدِيثاً و قَدِيماً فِي حَالَةٍ وَاحِدَةٍ» (۲) کیا تم نہیں جانتے ہو کہ قدیم اور ازلی موجود ایک ہی آن میں نہ مفعول ہو سکتا ہے اور نہ حادث  اور قدیم ؟ حضرت علیہ السلام کی مراد یہ ہے کہ حدوث اور قِدم ایک دوسرے کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ۔اس لیے کہ وہ منفصلہ قضیہ کہ جو یہ کہتا ہے کہ : وجود حادث ہے یا قدیم وہ قضیہ منفصلہ حقیقیہ ہے کہ جس کی تشکیل میں دونوں طرف نقیض ہیں ۔

یہ ایسے ہی ہے کہ جیسا ہم یہ کہیں کہ عدد یا جفت ہوتا ہے یا طاق ،اس قضیے کے دونوں جوانب یعنی زوجیت اور فردیت ایک دوسرے کے نقیض ہیں اور جمع نہیں ہو سکتے ۔

پس “حدوث” اور” قِدم” کا ایک موضوع میں جمع ہو نا محال ہے جیسا کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ایک موضوع میں دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو ۔اس لیے کہ دو نقیض نہ ایک موضوع میں جمع ہو سکتے ہیں اور نہ دونوں ایک موضوع سے جدا ہو سکتے ہیں ۔

ارادہ خدا کی تعریف

حضرت رضا علیہ السلام کے استدلالات کا ایک اور نمونہ کہ جن میں آپ نے مبادی عقلی کے استعمال کی روش کو اختیار کیا ہے خدا کے ارادے کے بارے میں آپ کا بیان ہے کہ جو عین ذات نہیں ہے ۔ جب “سلیمان مروزی” نے آپ کی خدمت میں عرض کی :خدا کاارادہ عین ذات نہیں ہے لیکن اس کا ارادہ خدا کے علاوہ بھی کچھ نہیں ہے ؛ تو حضرت رضا علیہ السلام  نے اس کے جواب میں فرمایا : «يَا جَاهِلُ إِذَا قُلْتَ لَيْسَتْ هُوَ، فَقَدْ جَعَلْتَهَا غَيْرَهُ وَ إِذَا قُلْتَ لَيْسَتْ هِيَ غَيْرَهُ فَقَدْ جَعَلْتَهَا هُوَ» (۳) اے نادان ! جب یہ کہتے ہو کہ خداکا ارادہ عین ذات نہیں ہے  تو اس کو اس کے علاوہ ہو نا چاہیے اور جب یہ کہتے ہو کہ ارادہ خدا کے علاوہ کچھ نہیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ خدا کاارادہ عین ذات ہے ۔

یہاں حضرت رضا علیہ السلام نے یاد دلایا ہے کہ عینیت اور غیریت دو ایسی چیزیں ہیں کہ جو ایک دوسرے کی نقیض ہیں کہ جو دونوں ایک موضوع سے جدا نہیں ہو سکتیں ۔ اس لیے کہ اگر ایک موجود بعینہ دوسرا موجود نہیں ہو گا تو مجبورا اس کا غیر ہو گا ،اگر “عینیت” و “غیریت” دونوں کو ایک ساتھ سلب کر لیں تو گویا نقیض کے دونوں جوانب کو سلب کر لیا گیا ہے حالانکہ نقیض کے دونوں جوانب کو اٹھا لینا محال ہے جس طرح کہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کرنا بھی محال ہے ۔

اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اچھی طرح بیان فرمایا ہے : «إِذْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْإِثْبَاتِ وَ النَّفْيِ مَنْزِلَةٌ» (۴) جب نفی و اثبات کے درمیان کچھ نہ ہو تو مثبت و منفی دونوں امر ایک دوسرے کے نقیض ہو جاتے ہیں ۔ حضرت رضا علیہ السلام کے استدلال کی ایک اور مثال کہ جس میں مبادی عقلی سے استفادہ کیا گیا ہے خدا کے ارادے کے ازلی نہ ہو نے کے بارے میں ہے اور اس امر پر تاکید ہے کہ خدا کا ارادہ حادث ہے ؛«فَإِنَّ الشَّيْ‏ءَ إِذَا لَمْ يَكُنْ أَزَلِيّاً كَانَ مُحْدَثاً وَ إِذَا لَمْ يَكُنْ مُحْدَثاً كَانَ أَزَلِيّاً» (۵) اگر کوئی موجود قدیم اور ازلی نہ ہو تو وہ قطعا حادث ہو گا اور اگر کوئی موجود حادث نہ ہو تو وہ ضرورتا ازلی اور قدیم ہو گا ۔

قدیم ہو نا اور حادث ہونا ایک دوسرے کے نقیض ہیں کہ ایک موضوع میں جن کا جمع ہونا یاایک موضوع سے جن کا جدا ہو نا محال ہے ۔

نیز حضرت رضا علیہ السلام کا بیان اس چیز کے بارے میں کہ خدا اس کے علم کے علاوہ ہے اور ارادہ عین علم نہیں ہے ؛جس وقت سلیمان نے کہا : خدا وند متعال کا ارادہ بعینہ اس کا علم ہے ؛ تو حضرت رضا علیہ السلام نے فرمایا : «يَا جَاهِلُ فَإِذَا عَلِمَ الشَّيْ‏ءَ فَقَدْ أَرَادَهُ»؛اے نادان ! خدا پہلے کسی چیز کا علم پیدا کرتا ہے اس کے بعد اس کا ارادہ کرتا ہے ،سلیمان نے کہا : جی ہاں اس کے بعد حضرت نے فرمایا : «فَإِذَا لَمْ يُرِدْهُ لَمْ يَعْلَمْهُ» (۶) اور جب وہ کسی چیز کا ارادہ نہ کرے تو اس کا علم بھی نہیں رکھتا ۔حضرت رضا علیہ السلام کے بیان کی روشنی میں اگر پہلا قضیہ کہ منطق میں جس کو” اصل “کہتے ہیں صادق ہو تو اس کے “نقیض” کا عکس بھی صادق  ہونا چاہیے چونکہ “نقیض” کا عکس “اصل قضیہ” کا لازم ہو تا ہے ۔اس بنا پر حضرت علیہ السلام کا استدلال یہ ہو گا : چونکہ خدا چیزوں کے بارے میں آگاہ ہے چاہے اس نے ان کا ارادہ کیا ہو یا نہ ؛تو یہ کہنا پڑے گا کہ ارادہ خدا بعینہ علم خدا نہیں ہے ۔

کیوں خدا کی ذات کو نہیں پہچانا جا سکتا ؟

حضرت رضا علیہ السلام کا ایک اور استدلال مبادی عقلی کا استعمال کرتے ہوئے خدا کی ذات کی شناخت کے ممکن نہ ہونے کے بارے میں ہے اور یہ کہ اس کی ذات تک نہیں پہنچا جا سکتا اور یہ کہ خدا ماہیت نہیں رکھتا ؛«كُلُّ مَعْرُوفٍ بِنَفْسِهِ مَصْنُوعٌ» (۷) ہر وہ چیز کہ جس کی ذات پہچانی جاسکے وہ حقیقت میں انسان کی بنائی ہوئی ہوتی ہے ،اور خدا کسی کے ہاتھ کا بنایا ہوا نہیں ہے ،بلکہ وہ خود ہر چیز کا بنانے والا ہے ؛اس کی ذات اور ماہیت قابل شناخت نہیں ہے ۔چونکہ خدا ماہیت نہیں رکھتا بلکہ صرف وجود محض ہے کہ انسان کی عقل جس کی حقیقت کو درک نہیں کر سکتی ۔خدا کی کوئی صورت نہیں ہے جو اس کی حکایت کرے اور اس کی کوئی مثال نہیں ہے جو اس کی برابری کرے ۔اس لیے کہ کوئی چیز اس کے مثل اور مانند نہیں ہے ؛«لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ» (۸)

نقیض اصل علیت مستقل وجود کی حامل ہوتی ہے

امام رضا علیہ السلام کا ایک اور استدلال خدا وند متعال کا اپنے غیر کا محتاج نہ ہونے کے بارے میں ہے ؛اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی کا محتاج نہیں ہے اور کسی پر ٹکا ہوا نہیں ہے «كُلُّ قَائِمٍ فِي سِوَاهُ مَعْلُولٌ» (۹) جو چیز بھی اپنے غیر پر استوار ہو وہ معلول ہوتی ہے ۔

امام رضا علیہ السلام نے اصل علیت کی جانب اشارہ کیا ہے ۔یعنی اگر کسی چیز موجود کا وجود عین ذات نہ ہو دوسرے لفظوں میں وہ اپنے وجود میں مستقل نہ ہو تو وہ اپنے علاوہ دوسرے موجود پر ٹکا ہو گا اور اس کے ذریعے موجود ہو گا اور اس پر ٹکا ہو گا اور مختصر یہ کہ وہ معلول ہو گا ۔ اس قضیے کا عکس نقیض یہ ہے کہ  جو معلول نہیں ہے وہ غیر پر قائم نہیں ہے اور غیر پر اعتماد نہیں کرتا ۔بلکہ اپنی ذات پر قائم ہے اور وجود میں مستقل ہے اور غیر سے بے نیاز ہے ۔اس بنا پر واضح ہو جاتا ہے کہ :

۱ ۔ وہ تفکر کہ جس تک پہنچنے کی انسان کو دعوت دی گئی ہے اور تشویق کی گئی ہے وہ ہے استدلال کے ساتھ ابتدائی  ضروری معلومات (بدیہی) کے ذریعہ نظری معلومات(اکتسابی)تک پہنچنا تاکہ یقین حاصل ہو جائے۔

۲ ۔ اگر استدلال میں مبادی تصدیقی پر اعتماد ہو کہ جو مقبولات میں سے ہے یعنی ان قضایا میں سے کہ جن کو بعض لوگوں نے قبول کیا ہے تو یہ استدلال سست اور ضعیف ہے اور قابل قبول نہیں ہے مگر یہ مبادی تصدیقی کسی نہ کسی طرح ذاتا یقینی مبادی پر منتہی ہوں ۔

 ۳ ۔  حضرت رضا علیہ السلام کی علمی سیرت یہ تھی کہ آپ معارف الہی میں ہر کلی اصل کی برہان کا ارادہ کرتے تھے تو عام و خاص کے تصدیقی مبادی کو بعنوان دلیل پیش کرتے تھے ۔

۴ ۔ جس طرح حضرت رضا علیہ السلام عقلی استدلال میں مبادی بدیہی تصدیقی سے استفادہ کرتے تھے ،اسی طرح کلام کے منطقی اسلوب میں بھی قیاس استثنائی اور غیر قیاس استثنائی میں بھی ان بدیہی مبادی کو استعمال کرنا حضرت علیہ السلام کو پسند تھا ،اور یہ طریقہ حضرت کے کلام میں بطور متداول قابل مشاہدہ ہے ۔     

حوالہ جات:

پاورقی:

[1] . مسند امام رضا(عليه السلام)، ج 1، ص 17 (با توضيحي از مؤلف).

[2] . توحيد صدوق، ص 450.

[3] . ت وحيد صدوق، ص 453.

[4] . همان، ص 246.

[5] . توحيد صدوق، ص 445.

[6] . همان، ص 451.

[7] . همن، ص 35.

[8] . سوره شوري، آيه 11.

[9] . توحيد صدوق، ص 35.





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات