2024 April 19
سعودی علماء کونسل: عرب خواتین کے لئے چادر اوڑھنا ضروری نہیں ہے
مندرجات: ١٣٠٢ تاریخ اشاعت: ١٤ February ٢٠١٨ - ١٣:٣٤ مشاہدات: 1094
خبریں » پبلک
سعودی علماء کونسل: عرب خواتین کے لئے چادر اوڑھنا ضروری نہیں ہے

سعودی درباری علماء کونسل نے بن سلمان کی علمانی پالیسیوں کے نفاذ میں کردار ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ خواتین کے لئے مزید چادر پہننا ضروری نہیں ہے، چادر نہ پہنیں بشرطیکہ سادہ لباس زیب تن کیا کریں۔

 اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـکی رپورٹ کے مطابق، سعودی دربار سے وابستہ علماء کونسل نے پہلی مرتبہ اعلانیہ کردار ادا کرتے ہوئے جزیرہ نمائے عرب کی خواتین کو چادر [عبایہ] نہ پہننے کی احازت دی ہے۔ پہلی بار سعودی حکمرانی میں اس طرح کا ہدایت نامہ جاری ہوا ہے جو سعودی ولیعہد کی علمانی (سیکولر) پالیسیوں کا تسلسل سمجھا جاتا ہے: گویا وہابی علماء اب علمانیت کا پرچار کریں گے!!!
فرانس24 نیوز چینل نے ایک رپورٹ میں کہا: چادر ایک مکمل پوشش ہے جو پورے بدن اور ہاتھ پاؤں کو ڈھانپتی ہے جس کی پابندی تمام خواتین کے لئے آج سے دو سال پہلے تک لازمی تھی اور اگر کوئی خاتون منظر عام میں اس سے اجتناب کرتی تو وہ جیل بھی جاسکتی تھی۔ لیکن ایک شیخ ـ جس کے حامیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ـ نے ایک ریڈیو پروگرام میں اس شرط کو تبدیل کردیا ہے اور کہا ہے کہ"دینی لحاظ سے خواتین کے لئے اس روایتی لباس کی پابندی ضروری نہیں ہے"۔
شیخ عبداللہ المطلق نے کہا: دنیا بھر میں 90 فیصد سے زائد پرہیزگار مسلم حواتین چادر (عبایہ) نہیں پہنتیں اور اس لباس کو پہچانتی بھی نہیں ہیں چنانچہ ہمیں بھی خواتین کو اس لباس کا پابند نہیں کرنا چاہئے۔
فرانس 24 کے مطابق سعودی حکومت نے ابھی تک اس موقف پر رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے، ایسی حکومت جس میں بات ولیعہد محمد بن سلمان کی چلتی ہے اور اس نے عورتوں کے حق آزادسازانہ پالیسیوں کی تمہید رکھی ہے۔ یہ تمہیدات سعودی وژن 2030ء کے ضمن ميں اگلے 12 برسوں میں سعودی معاشرے کی جدید سازی (Modernization) کی غرض سے رکھی گئی ہیں۔ کہنا چاہئے کہ ایک چھوٹا سا انقلاب کچھ مہینوں سے سعودی قلمرو میں نافذ ہورہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ بعض عورتیں جسارت کی انتہا کرکے پورا حجاب ہی اپنے سے الگ کردیتی ہیں اور بالوں کی لٹوں کی نمائش کرتی ہیں۔ عورتیں اس کے بعد اسٹیڈیم جاسکتی ہیں اور میوزک کانسرٹس میں شرکت کرسکتی ہیں۔
وہ اگلے مہینے سے سینما جاسکتی ہیں اور بہت جلد باضابطہ طور پر گاڑی چلا سکتی ہیں، گوکہ ابھی خواتین کو بیرون ملک سفر کے لئے، حتی کہ بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لئے بھی  شوہر کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
بن سلمان مغرب کو اپنی جانب مائل کرنے کے لئے سعودی سماجی ڈھانچہ توڑنے والا چہرہ دکھا رہا ہے؛ وہ امریکہ کی ہمآہنگی سے کچھ ظاہری تبدیلیاں لا کر تخت شاہی اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے کوشاں ہے کیونکہ شاہ سلمان بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے طویل عرصے تک حکومت نہیں کرسکے گا اور امریکیوں ـ بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ اور یہودی ریاست ـ کے خیال میں بن سلمان بہترین متبادل ہے جو ان کے مفادات کی حفاظت کرسکتا ہے۔
گوکہ مبصرین کا خیال ہے کہ محمد بن سلمان اندرونی سطح پر سماجی کمشکش کی طرف بڑھ رہا ہے اور معاشرے کو افراط و تفریط (EXTREMES) [اور وہابی سختگیری اور بن سلمان کی دینی اور اخلاقی لاقیدی) کے درمیان جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ جبکہ یہاں قبائلی طرز کا معاشرہ ہے اور قبائل کے اپنے مفادات اور روایات ہیں جن کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے اور اگر بن سلمان ان کے مفادات کو مد نظر نہ رکھے تو خانہ جنگی کی کیفیت معرض وجود میں آسکتی ہے۔
عورتوں کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہے لیکن چونکہ سعودی عرب میں مردوں کو بھی ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہے اور سعودی وژن 2030ء میں بھی کسی قسم کے انتخابات یا جمہوری تبدیلی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے لہذا اس حوالے سے عورتیں بھی کوئی گلہ شکایت نہیں رکھتیں، یہاں درحقیقت اسلام اور شریعت کی بیان کردہ پابندیوں سے آزادی کا منصوبہ ہے نہ کہ کوئی مثبت تبدیلی کا، اور محمد بن سلمان کی مطلق العنانیت اور حکومت کو سلمان بن عبدالعزیز کی اولاد تک محدود کرنے کا منصوبہ ہے اور سعودی وژن 2030ء بھی ایک وسیلہ ہے اس ہدف تک پہنچنے کے لئے۔ 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات