2024 April 20
جمع بین دو نماز ، شیعہ اور اہل سنت کی نگاہ میں
مندرجات: ١٣٧١ تاریخ اشاعت: ١٢ March ٢٠١٨ - ١٥:١٠ مشاہدات: 9653
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
جمع بین دو نماز ، شیعہ اور اہل سنت کی نگاہ میں

جمع بین دو نماز ، شیعہ اور اہل سنت کی نگاہ میں

مقدمہ:

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ایک مشہور و معروف اختلافی مسئلہ دو ایسی نمازوں کو ملا کر یا الگ الگ کر کے پڑھنا ہے کہ جنکا آپس میں مشترک وقت ہے، جیسے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء۔

پہلا حصہ: شیعہ مذہب اور دو نمازوں کو جمع کرنے کا مسئلہ:

تمام مسلمانوں کی متفقہ نظر کے مطابق ایام حج میں مقام عرفہ پر نماز ظہر و عصر کو اور مقام مزدلفہ پر نماز مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھنا جائز اور مستحب ہے۔

جیسا کہ آيت الله سبحانی نے لکھا ہے کہ:

فجميع الفقهاء يجوزون الجمع بين الصلاتين : الظهر والعصر في عرفة والمغرب والعشاء في المزدلفة .

تمام فقہاء ( شیعہ و اہل سنت) عرفہ میں نماز ظہر و عصر اور مزدلفہ میں نماز مغرب و عشاء کے ملا کر پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔

السبحاني، الشيخ جعفر، العقيدة الإسلامية على ضوء مدرسة أهل البيت (ع) ، ص 340 ،‌ تحقيق : نقل إلى العربية : جعفر الهادي، ناشر : مؤسسة الإمام الصادق (ع) ، چاپخانه : اعتماد – قم، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1419 - 1998 م

مذہب اہل بیت (ع) کے مطابق نماز ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کو ہر حالت میں ملا کر پڑھنا جائز ہے، یعنی انسان اپنے وطن میں ہو یا سفر کی حالت میں، مریض ہو یا صحت مند ہو، عذر شرعی ہو یا نہ ہو، ان تمام حالات میں آپس میں مشترک وقت والی دو دو نمازوں کو ملا کر پڑھ سکتا ہے۔

شہید اول نے شیعہ عقیدے کو اسطرح سے بیان کیا ہے کہ:

الخامسة : لا خلاف عندنا في جواز الجمع بين الظهر والعصر ، حضرا وسفرا ، للمختار وغيره . ورواه العامة عن : علي عليه السلام وابن عباس وابن عمر وأبو موسى وجابر وسعد بن أبي وقاص وعائشة. وروى ابن عباس : ان النبي صلى الله عليه وآله جمع بين الظهرين والعشائين من غير خوف ولا سفر وفي لفظ آخر : من غير خوف ولا مطر وكلاهما في الصحاح .

شیعہ علماء کے نزدیک نماز ظہر و عصر کو حالت سفر و حضر ، حالت اختیار و مجبوری میں ملا کر پڑھنے کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اہل سنت نے بھی اسی جواز کو علی (ع)، ابن عباس، ابن عمر، ابو موسی، جابر، سعد ابن ابی وقاص اور عائشہ سے نقل کیا ہے۔ ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ: رسول خدا نے بغیر کسی خوف اور سفر کی حالت میں نہ ہوتے ہوئے بھی، نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا تھا۔۔۔۔۔

العاملي الجزيني، محمد بن جمال الدين مكي، الشهيد الأول (متوفي786 ه‍ ـ) ذكرى الشيعة في أحكام الشريعة، ج 2، ص332، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، ناشر : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث – قم، الطبعة الأولى 1419

لیکن ہر نماز کو الگ الگ کر کے خود اسی کے وقت میں پڑھنا یہ فقہ شیعہ میں مستحب ہے اور اسی بات کو شیعہ فقہی کتب میں بھی ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ شہید اول نے لکھا ہے کہ:

وبالجملة كما علم من مذهب الإمامية جواز الجمع بين الصلاتين مطلقا ، علم منه استحباب التفريق بينهما بشهادة النصوص والمصنفات بذلك .

جیسا کہ شیعہ مذہب میں ہر حالت میں دو نمازوں کے درمیان جمع کر کے پڑھنا، جائز ہے، اسی طرح ہر نماز کو الگ الگ کر کے پڑھنا بھی مستحب ہے، اسی بات پر شیعہ روایات اور کتب بھی گواہی دیتی ہیں۔

العاملي الجزيني، محمد بن جمال الدين مكي، الشهيد الأول، ج 2 ، ص 335

صاحب کتاب عروه نے بھی لکھا ہے کہ:

يستحب التفريق بين الصلاتين المشتركتين في الوقت كالظهرين والعشاءين.

دو نمازوں کو، کہ جنکے پڑھنے کا وقت مشترک ہے، جیسے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء، الگ الگ پڑھنا بھی مستحب ہے۔

الطباطبائي اليزدي، السيد محمد كاظم (متوفي 1337هـ) العروة الوثقى، ج 2 ، ص 262 ، تحقيق : مؤسسة النشر الإسلامي، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1417

دو نمازوں کے الگ پڑھنے پر دلالت کرنے والی روایات:

وہ روایات کہ جو دو نمازوں کو الگ الگ پڑھنے کے مستحب ہونے پر دلالت کرتی ہیں، وہ روایات اس نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ دو نمازوں کے مشترک وقت میں، ایک نماز مثلا ظہر کو پڑھنے کے بعد، ان دو نمازوں (ظہر یا عصر) کے نوافل پڑھے جائیں اور اگر نوافل کے وقت میں نوافل نہ پڑھے جائیں اور نماز عصر (کیونکہ نماز ظہر تو پہلے پڑھی جا چکی ہے) پڑھ لی جائے تو ایسا کرنا، نماز ظہر و عصر کے درمیان جمع کرنا کہا جاتا ہے، اسی مطلب پر دو روایات ہیں کہ جنکو شیعہ فقہاء نے دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے:

روايت اول:

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَيْفٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِذَا جَمَعْتَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فَلَا تَطَوَّعْ بَيْنَهُمَا.

محمد ابن حكيم کہتا ہے کہ میں نے امام کاظم (ع) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: جب تم دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا چاہو تو پھر ان دونوں کے درمیان نوافل کو نہ پڑھو۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ، ج 3 ص 287، ح3، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

روايت دوم:

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَكِيمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ عليه السلام يَقُولُ الْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا تَطَوُّعٌ فَإِذَا كَانَ بَيْنَهُمَا تَطَوُّعٌ فَلَا جَمْعَ.

محمد ابن حكيم کہتا ہے کہ میں نے امام کاظم (ع) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا اس وقت ہوتا ہے کہ جب ان دونوں نمازوں کے درمیان نوافل کو نہ پڑھا جائے، لیکن اگر دو نمازوں کے درمیان نوافل کو پڑھا جائے تو پھر دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا نہیں کہا جاتا۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب،الكافي، ج 3، ص 287، ح4

شیعہ فقہاء کا ان روایات کو صحیح قرار دینا:

یہ روایات شیعہ فقہاء کی نظر میں صحیح و معتبر ہیں اور انھوں نے اپنے کلام میں اس بات پر تصریح بھی کی ہے۔

محقق بحرانی نے اس روایت کو دلیل کے طور پر ذکر کرنے کے علاوہ، اس روایت کے موثقہ (معتبر) ہونے پر بھی تصریح کی ہے:

ومما يدل على أن الجمع عبارة عن عدم النافلة بين الفرضين وأنه مع النافلة لا جمع وإن كان في وقت واحد موثقة محمد بن حكيم قال: سمعت أبا الحسن (عليه السلام) يقول الجمع بين الصلاتين إذا لم يكن بينهما تطوع فإذا كان بينهما تطوع فلا جمع.

ان ادلہ میں سے کہ جو دلالت کرتے ہیں کہ دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا اس وقت ہوتا ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان نوافل کو نہ پڑھا جائے، اور نوافل کو پڑھا جائے تو اگرچہ ایک ہی وقت میں دونوں کو کیوں نہ پڑھا جائے، جمع کرنا نہیں کہا جاتا۔ ان میں سے ایک دلیل روایت موثقہ محمد ابن حکیم ہے کہ جسکو اس نے امام کاظم (ع) سے نقل کیا ہے۔۔۔۔۔۔

البحراني، الشيخ يوسف، (متوفي1186هـ)، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة،‌ ج 7، ص 379، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة،‌ طبق برنامه مكتبه اهل البيت.

مرحوم صاحب کتاب جواہر نے بھی ان دونوں روایات سے استدلال کرتے ہوئے، دونوں روایات کو موثق کہا ہے اور لکھا ہے کہ:

ولقول أبي الحسن (ع) في موثق محمد بن حكيم المروي في الكافي (إذا جمعت بين الصلاتين فلا تطوع بينهما) بل في موثقة الآخر عنه (ع) أيضا (الجمع بين الصلاتين إذا لم يكن بينهما تطوع ، فإذا كان بينهما تطوع فلا جمع).

کتاب اصول کافی میں امام کاظم (ع) سے محمد ابن حکیم کی  نقل کردہ موثق روایت کے مطابق : دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان نوافل کو نہ پڑھا جائے، بلکہ انہی امام سے ایکدوسری موثق روایت میں ذکر ہوا ہے کہ: دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا اس وقت ہوتا ہے کہ جب ان دونوں نمازوں کے درمیان انکے نوافل کو نہ پڑھا جائے، لیکن اگر نوافل کو پڑھا جائے تو پھر دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا نہیں کہا جاتا۔

النجفي، الشيخ محمد حسن (متوفى1266هـ)، جواهر الكلام في شرح شرائع الاسلام، ج 9 ، ص 38، تحقيق وتعليق وتصحيح: محمود القوچاني، ناشر: دار الكتب الاسلامية ـ تهران، الطبعة: السادسة، 1363ش.

آقا رضا ہمدانی نے بھی ان دونوں روایات کو موثق کہتے ہوئے لکھا ہے کہ: 

بعض الأخبار الدالة على حصول التفريق بين الصلاتين بفعل النافلة كموثقة محمد بن حكيم قال سمعت أبا الحسن موسى عليه السلام يقول الجمع بين الصلاتين إذا لم يكن بينهما تطوع فإذا كان بينهما تطوع فلا جمع وموثقته الأخرى قال سمعت أبا الحسن عليه السلام يقول إذا جمعت بين الصلاتين فلا تطوع بينهما.

بعض روایات سے کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ دو نمازوں کے درمیان الگ الگ ہونا اس وقت حاصل ہوتا کے جب ان دونوں کے درمیان نوافل کو پڑھا جائے، ان میں روایت موثق محمد ابن حكيم ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے امام کاظم (ع) سے سنا تھا کہ: دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان نوافل کو نہ پڑھا جائے، لیکن اگر نوافل کو پڑھا جائے تو پھر دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا نہیں کہا جاتا۔

اور ایک دوسری موثق روایت ہے کہ جس میں امام کاظم (ع) نے فرمایا ہے کہ: جب تم دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا چاہو تو پھر ان دونوں کے درمیان نوافل کو نہ پڑھو۔

الهمداني، آقا رضا (متوفي1322هـ)، مصباح الفقيه (ط.ق)، ج 2، ق 1 ص 209، ناشر: منشورات مكتبة الصدر – طهران، چاپخانه: حيدري، توضيحات: طبعة حجرية، طبق برنامه كتابخانه اهل البيت عليهم السلام.

مرحوم شيخ عبد الكريم حائری نے بھی ہر دو مذکورہ روایات کے موثق ہونے پر تصریح کی ہے:

ويدل على ذلك أيضا موثقة محمد بن حكيم قال سمعت أبا الحسن موسى عليه السلام يقول الجمع بين الصلاتين إذا لم يكن بينهما تطوع فإذا كان بينهما تطوع فلا جمع وبهذا المضمون موثقته الأخرى .

دو نمازوں کے درمیان بغیر نوافل کے جمع ہونے پر دلالت کرنے والی روایت موثقہ محمد ابن حکیم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہی امام سے اسی معنی و مفہوم پر دلالت کرنے والی ایک دوسری موثقہ روایت بھی نقل ہوئی ہے۔

الحائري، شيخ عبد الكريم كتاب الصلاة، ص 117، ناشر : مركز انتشارات دفتر تبليغات إسلامي - قم – ايران، سال چاپ : 1362

یہاں تک ثابت اور واضح ہو کہ:

اولا: شیعہ مذہب و فقہ کے مطابق ان صحیح و معتبر روایات کی روشنی میں مشترک وقت والی نمازوں کو الگ الگ کر کے پڑھنا بھی مستحب ہے۔

ثانيا: دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کا ایک یہ طریقہ ہے کہ دو نمازوں کے درمیان نوافل نہ پڑھے جائیں۔ مثال کے طور پر نماز ظہر و عصر کو جب بھی ملا کر پڑھنا ہو تو دونوں کے نوافل کو نہ پڑھا جائے بلکہ ویسے ہی دونوں کی 8 رکعات پڑھ دی جائیں تو کہا جاتا ہے کہ فلاں بندے نے دونوں نمازوں کو ملا کر ایک ہی وقت میں پڑھا ہے، جیسا کہ آقا رضا ہمدانی نے مندرجہ بالا روایات کو نقل کر کے اور ان سے استدلال کر کے لکھا ہے کہ:

فالموثقة الأولى بظاهرها تدل على أن الفصل بين الفريضتين بالتطوع مانع عن حصول الجمع بينهما والظاهر أنه أريد به مانعيته حقيقة لامر باب التعبد الشرعي فتدل بالفحوى على ممانعة سائر المشاغل التي لا تعلق لها بالصلاة ...

پہلی موثق روایت ظاہری طور پر دلالت کرتی ہے کہ دو نمازوں کے درمیان نوافل کا ادا کرنا، یہ ان نمازوں کے جمع ہونے سے مانع ہوتا ہے۔ نوافل کا مانع ہونا، یہ ایک شرعی مانع ہے، پس اس روایت سے سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کام کہ جنکا نماز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تو بطریق اولی دو نمازوں کے جمع ہونے سے مانع ہوں گے۔

الهمداني، آقا رضا (متوفي1322هـ)، مصباح الفقيه ، ج 2 ق 1 ص 209

وہ روایات جو دو نمازوں کے ملا کر پڑھنے کو جائز قرار دیتی ہیں:

شیعہ فقہ اور شیعہ روایات کے مطابق دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا، یہ سفر و شرعی عذر دونوں حالتوں میں جائز ہے، لیکن جب کوئی عذر نہ بھی ہو اور انسان سفر کی حالت میں نہ بھی ہو تو ، پھر بھی دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔

اس بارے میں شیعہ روایات کی کئی اقسام ہیں:

قسم اول: سيرت رسول خدا (ص)‌ اور جمع بين دو نماز:

امام باقر اور امام صادق (ع) سے نقل ہونے والی بہت سی روایات میں دو نمازوں کو جمع کرنے کے بارے میں رسول خدا کی سیرت کو بیان کیا گیا ہے۔

روايت اول: روایت امام باقر (ع) با سند صحیح:

روایت صحیح میں امام باقر (ع) نے فرمایا ہے کہ: رسول خدا (ص) نماز ظہر و عصر کو ایک اذان اور دو اقامت اور نماز مغرب و عشاء کو ایک اذان اور دو اقامت کے پڑھا کرتے تھے:

روي الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ رَهْطٍ مِنْهُمُ الْفُضَيْلُ وَ زُرَارَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وآله جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَ الْعَصْرِ بِأَذَانٍ وَ إِقَامَتَيْنِ وَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَ الْعِشَاءِ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَ إِقَامَتَيْنِ .

زراہ نے امام باقر(ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نماز ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کیا کرتے تھے۔

الشيخ الطوسي، تهذيب الأحكام، ج 3، ص 18

تصحيح سند روايت:

اس روایت کی سند کو شیعہ علماء نے صحیح قرار دیا ہے۔ جیسے  علامہ محمد باقر مجلسی نے كتاب ملاذ الاخيار میں لکھا ہے کہ:

الحديث السادس و الستون: صحيح.

چھیاسٹھویں روایت صحیح ہے۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، ملاذ الأخيار في فهم تهذيب الأخبار ؛ ج‏4 ، ص 674.

محقق بحرانی نے بھی ایک روایت کے ذیل میں اس روایت کی سند کے صحیح ہونے پر تصریح کی ہے:

ويؤيده اطلاق ما رواه في التهذيب في الصحيح عن رهط : منهم - الفضيل وزرارة عن أبي جعفر (عليه السلام) أن رسول الله (صلى الله عليه وآله) جمع بين الظهر والعصر وكذلك المغرب والعشاء الآخرة بأذان واحد وإقامتين.

اس روایت کی، وہ روایت کہ جسکو شیخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب میں سند صحیح کے ساتھ چند راویوں سے کہ جن میں فضیل اور زراہ ہیں کہ جہنوں نے امام باقر(ع) سے روایت کو نقل کیا ہے، تائید کرتی ہے۔

البحراني، الشيخ يوسف، (متوفي1186هـ)، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة،‌ ج6، ص193، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة،‌ طبق برنامه مكتبه اهل البيت.

مرحوم صاحب کتاب جواہر نے بھی لکھا ہے کہ:

وفي صحيح عمر بن أذينة عن رهط منهم الفضيل وزرارة عن أبي جعفر (ع) (أن رسول الله صلى الله عليه وآله) جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع بين المغرب والعشاء بأذان واحد وإقامتين)

عمر ابن اذینہ سے صحیح روایت ہے جسکو اس نے چند راویوں کہ جن میں فضیل اور زراہ ہیں کہ جہنوں نے امام باقر(ع) سے روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نماز ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کیا کرتے تھے۔

النجفي، الشيخ محمد حسن (متوفى1266هـ)، جواهر الكلام في شرح شرائع الاسلام، ج9، ص33

شیعہ بزرگ علماء کے اس روایت کی سند کو واضح طور پر صحیح قرار دینے کے بعد، اس صحیح روایت سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) بغیر کسی مجبوری کے عام حالات میں بھی مشترک وقت والی نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے۔

روايت دوم: روایت امام صادق (ع) با سند صحيح:

امام صادق (ع) نے متعدد روايات میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے بارے میں رسول خدا (ص) کی سیرت حسنہ کو بیان کیا ہے۔ ان روایات میں سے ایک صحیح روایت میں امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:

و رَوَي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الصَّادِقِ عليه السلام أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وآله جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَ الْعَصْرِ بِأَذَانٍ وَ إِقَامَتَيْنِ وَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَ الْعِشَاءِ فِي الْحَضَرِ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَ إِقَامَتَيْنِ.

عبد الله ابن سنان نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نماز ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ حالت حضر میں بغیر کسی علت و سبب کے، جمع کیا کرتے تھے۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، من لا يحضره الفقيه، ج1، ص287، ح 886، تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: جامعه مدرسين حوزه علميه قم.

حالت حضر: یعنی سفر کی حالت میں نہ ہونا، بلکہ اپنے شہر میں ہی موجود ہونا۔

حالت حضر کے مقابلے پر حالت سفر ہے۔

كتاب من لا يحضره الفقيہ میں مذکورہ روایت کی مکمل سند ذکر نہیں ہوئی، لیکن صاحب کتاب معالم نے روایت کی کامل سند کو ایسے ذکر کیا ہے:

محمد بن علي بن الحسين ، عن أبيه ، عن عبد الله بن الجعفر الحميري ، عن أيوب بن نوح ، عن محمد بن أبي عمير ، عن عبد الله بن سنان ، عن الصادق عليه السلام أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع ين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان وإقامتين.

منتقى الجمان - الشيخ حسن صاحب المعالم - ج 1 ص 390

تصحيح سند روايت:

یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے اور شیعہ بزرگ علماء نے اس روایت کے صحیح ہونے پر تصریح کی ہے:

1. علامہ محمد تقی مجلسی: (والد علامہ محمد باقر مجلسی)

انھوں نے لکھا ہے کہ:

«و روى عبد الله بن سنان» في الصحيح‏ «عن الصادق عليه السلام إلخ» و يدل على جواز الجمع بين الصلاتين في وقت واحد في الحضر من غير علة و في معناه أخبار كثيرة، و في بعضها ليتسع الوقت على أمته فما وقع من التفريق محمول على الاستحباب‏.

عبد الله ابن سنان نے اس صحیح روايت کو امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ۔۔۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے شہر میں بغیر کسی سبب (بارش، خوف وغیرہ) کے دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا جائز ہے۔ اس بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں کہ ان میں سے بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ اس کام (ملا کر پڑھنا) کی دلیل یہ ہے کہ امت اپنے کم وقت میں زیادہ کاموں کو انجام دے سکے (کیونکہ ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑھنے سے لوگوں کا زیادہ لگتا ہے) لہذا وہ روایات کہ جو کہتی ہیں کہ ہر نماز کو اپنے وقت پر پڑھو، ان روایات کا معنی ہے کہ ہر نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا مستحب ہے، (نہ واجب) ۔

مجلسى، محمدتقى بن مقصودعلى، روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه (ط - القديمة) ؛ ج‏2 ؛ ص236

2. محقق بحرانی:

انھوں نے کہا ہے کہ:

وما رواه الصدوق في الفقيه في الصحيح عن عبد الله بن سنان عن الصادق ( عليه السلام ) أن رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان وإقامتين.

جو کچھ شيخ صدوق نے كتاب من لا يحضره الفقيہ میں صحیح روايت میں عبد الله ابن سنان سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نماز ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ بغیر کسی علت و سبب کے، جمع کیا کرتے تھے۔

البحراني، الشيخ يوسف، (متوفي1186هـ)، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة،‌ ج 6، ص192

3. محقق نراقی:

انھوں نے بھی نماز کے ملا کر پڑھنے کے مستحب ہونے پر دلیل ذکر کرنے کے بعد ، اس روایت کے صحیح ہونے پر تصریح کی ہے:

مع أنه صرح في الأخبار بأنه قد كان يجمع من غير علة أيضا ، كما في صحيحة ابن سنان : ( إن رسول الله صلى الله عليه وآله جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان وإقامتين ) .

اسکے علاوہ، روایات میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ رسول خدا بغیر کسی سبب کے دو نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے، جیسا کہ ابن سنان سے نقل ہونے والی صحیح روایت میں آیا ہے کہ رسول خدا (ص) نماز ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ بغیر کسی علت و سبب کے، جمع کیا کرتے تھے۔

النراقي، المولي أحمد بن محمد مهدي (متوفي1245هـ)، مستند الشيعة في أحكام الشريعة، ج4، ص140، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث - مشهد المقدسة، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث - قم، اپخانه: ستارة، چاپ: الأولى1415

4. صاحب کتاب جواہر:

صاحب کتاب جواہر نے بھی کہا ہے کہ:

ففي صحيح عبد الله ابن سنان عن الصادق (ع) (أن رسول الله صلى الله عليه وآله) جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين، وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان وإقامتين).

صحیح روایت میں ہے کہ عبد اللہ ابن سنان نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نماز ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ بغیر کسی علت و سبب کے، جمع کیا کرتے تھے۔

النجفي، الشيخ محمد حسن (متوفى1266هـ)، جواهر الكلام في شرح شرائع الاسلام، ج9، ص33، تحقيق وتعليق وتصحيح: محمود القوچاني، ناشر: دار الكتب الاسلامية ـ تهران، الطبعة: السادسة، 1363ش.

5. آقا رضا ہمدانی:

انھوں نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

صحيحة عبد الله بن سنان عن الصادق عليه السلام ان رسول الله صلى الله عليه وآله جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ....

صحیح روایت میں ہے کہ عبد اللہ ابن سنان نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نماز ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ بغیر کسی علت و سبب کے، جمع کیا کرتے تھے۔

الهمداني، آقا رضا (متوفي1322هـ)، مصباح الفقيه (ط.ق)، ج 2 ق 1 ص 208، ناشر: منشورات مكتبة الصدر – طهران، چاپخانه: حيدري، توضيحات: طبعة حجرية، طبق برنامه كتابخانه اهل البيت عليهم السلام.

روايت سوم: روایت امام صادق (ع) با سند صحيح:

ایک دوسری صحیح روایت میں امام صادق (ع) نے تصریح کی ہے کہ رسول خدا (ص)بغیر کسی عذر و سبب کے نماز ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے اور اس کام کی دلیل، امت کے لیے کام کو آسان کرنا ذکر کیا ہے:

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِدْرِيسَ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وآله صَلَّى الظُّهْرَ وَ الْعَصْرَ فِي مَكَانٍ وَاحِدٍ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ وَ لَا سَبَبٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ وَ كَانَ أَجْرَأَ الْقَوْمِ عَلَيْهِ أَ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْ‏ءٌ قَالَ لَا وَ لَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ أُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِي.

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ: رسول خدا بغیر کسی عذر و سبب کے نماز ظہر و عصر کو ایک ہی جگہ پر، ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔  عمر ابن خطاب نے رسول خدا (ص)سے کہا: کیا نماز کے بارے میں کوئی نئی چیز (وحی) آئی ہے ؟حضرت نے فرمایا: نہیں، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی امت کے لیے کام کو آسان کر دوں۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفي 381هـ)، علل الشرائع، ج‏2، ص 321، تحقيق وتقديم : السيد محمد صادق بحر العلوم، ناشر : منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها - النجف الأشرف، الطبع: 1385 - 1966 م

بحث سندی:

جو راوی اس روایت کی سند میں موجود ہیں، وہ علم رجال کے شیعہ علماء کے نزدیک ثقہ اور قابل اعتماد ہیں:

1. الحسين ابن احمد ابن ادريس:

یہ شیخ صدوق کے استاد راوی ہیں اور دوسروں کو روایت نقل کرنے کی اجازت دیا کرتے تھے۔ شيخ طوسی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

الحسين بن أحمد بن إدريس القمي الأشعري ، يكنى أبا عبد الله ، روى عنه التلعكبري ، وله منه إجازة .

حسين ابن احمد ابن ادريس قمی اشعری کہ اسکی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ اس سے تلعکبری نے روایت کو نقل کیا ہے اور اس سے روایت کو نقل کرنے کی اجازت بھی لی ہوئی تھی۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، رجال الطوسي، ص423، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الأولى، 1415هـ.

شيخ صدوق نے بہت سے مقامات پر ان (الحسین ابن احمد) کو رحمۃ اللہ علیہ اور رضی اللہ عنہ کے ساتھ یاد کیا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ شیخ صدوق کے نزدیک ثقہ تھے، جیسا کہ بہت سے شیعہ علماء نے اسی بات پر تصریح کی ہے۔

جناب وحيد بہبہانی نے اس مطلب کو، کہ شيخ صدوق نے سو سے زیادہ مقامات پر ان کو رحمۃ اللہ علیہ اور رضی اللہ عنہ کے ساتھ یاد کیا ہے، نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

وهذا يشير إلى غاية الجلالة وكثرة الرواية إلى القوة وكذا مقبولية الرواية وكذا رواية الجليل عنه ...

(شيخ صدوق کا ایسا کرنا) یہ اسکی انتہائی جلالت اور عظمت پر دلالت کرتا ہے اور شیخ صدوق کا اس سے بہت سی روایات کو نقل کرنا، یہ اس راوی کی قوت علمی اور اسکی روایات کے مورد قبول ہونے کی علامت ہے، شیخ صدوق کے علاوہ دوسرے بہت سے راویوں کا اس سے روایت کو نقل کرنا بھی اسکی علمی مقبولیت پر دلیل ہے۔

الوحيد البهبهاني (متوفي 1205هـ)، تعليقة على منهج المقال، ص 138

جناب نمازی شاہرودی نے بھی لکھا ہے کہ:

وكلما ذكره الصدوق ترحم وترضى عليه ، بل عن المج ترحم عليه أزيد من ألف مرة . فيستفاد من ذلك كله جلالته ووثاقته .

جب بھی شیخ صدوق اسکا ذکر کرتے تھے، انکے بارے میں، خدا اس پر رحمت کرے، خدا اس سے راضی ہو، جیسے الفاظ کو استعمال کرتے تھے، بلکہ کتاب منہج المقال سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صدوق نے ان الفاظ کو ایک ہزار مرتبہ سے بھی زیادہ استعمال کیا ہے، ان تمام باتوں سے اس راوی کی جلیل القدر ہونا اور ثقہ ہونا واضح ہوتا ہے۔

الشاهرودي، الشيخ علي النمازي (متوفي1405هـ)، ج3، ص84، مستدركات علم رجال الحديث، ناشر: ابن المؤلف، چاپخانه: شفق – طهران، الأولى1412هـ

علامہ حلی نے كتاب خلاصۃ الاقوال میں اسکی (الحسین ابن احمد) پر تصریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

الحسين الأشعري القمي ، أبو عبد الله ، ثقة.

حسين اشعری قمی کہ اسکی كنيت ابو عبد الله ہے، وہ ثقہ ہے۔

الحلي الأسدي، جمال الدين أبو منصور الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفى726هـ) خلاصة الأقوال في معرفة الرجال، ص119، تحقيق: فضيلة الشيخ جواد القيومي، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة: الأولى، 1417هـ.

2. احمد ابن ادريس القمی:

یہ حسین ابن احمد ابن ادریس کا والد ہے اور احمد علم رجال کے شیعہ علماء کے نزدیک ثقہ ہے، نجاشی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

أحمد بن إدريس بن أحمد أبو علي الأشعري القمي كان ثقة ، فقيها ، في أصحابنا ، كثير الحديث ، صحيح الرواية.

احمد ابن ادريس ابن احمد، ابو علی اشعری قمی کہ یہ ثقہ اور فقہائے شیعہ میں سے ہے، اس نے بہت سی احادیث کو نقل کیا ہے اور اسکی نقل کردہ روایات، صحیح ہیں۔

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفى450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب‍ رجال النجاشي، ص92، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

3. احمد ابن محمد ابن عيسی اشعری قمی:

یہ بھی بزرگ شیعہ علماء میں سے اور ثقہ و مورد اعتماد ہے۔ نجاشی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

أحمد بن محمد بن عيسى ... الأشعري. .... يكنى أبا جعفر، وأبو جعفر رحمه الله شيخ القميين، ووجههم، وفقيههم،

احمد ابن محمد ابن عيسی اشعری کہ اسکی کنیت ابو جعفر ہے، اور ابو جعفر رحمۃ الله عليہ شہر قم کے بزرگ علماء میں سے اور ان میں سے بہت قابل احترام اور ان علماء کے فقیہ تھے۔

النجاشي الأسدي الكوفي، أحمد بن علي ، رجال النجاشي، ص 82.

4. علی ابن الحكم الانباری:

نجاشی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

علي بن الحكم بن الزبير النخعي أبو الحسن الضرير ...

علی ابن حكم ابن زبير نخعی کہ اسکی كنيت ابو الحسن ضرير ہے۔

النجاشي الأسدي الكوفي، أحمد بن علي ، رجال النجاشي ، ص 274

اور شيخ طوسی نے واضح طور پر اسکی توثیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

علي بن الحكم الكوفي ، ثقة ، جليل القدر .

علی ابن حكم كوفی مورد اطمينان اور بہت با عظمت انسان تھا۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، الفهرست، ص151، تحقيق: الشيخ جواد القيومي،‌ ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة،‌ چاپخانه: مؤسسة النشر الإسلامي، الطبعة الأولى1417

5. اسحاق ابن عمار الصيرفی:

یہ راوی علم رجال کے شیعہ علماء کی نظر میں موثق ہے، نجاشی نے لکھا ہے کہ:

إسحاق بن عمار بن حيان ... أبو يعقوب الصيرفي شيخ من أصحابنا ، ثقة ...

اسحاق ابن عمار ابن حيان کہ اسکی كنيت ابو يعقوب صيرفی ہے اور وہ شیعہ کے بزرگان میں سے اور موثق راوی ہے۔

النجاشي ، رجال النجاشي، ص 71.

شيخ طوسی نے بھی لکھا ہے کہ:

إسحاق بن عمار ، ثقة ، له كتاب .

اسحاق ابن عمار موثق ہے اور اسکی ایک کتاب بھی ہے۔

الشيخ الطوسي ، رجال الطوسي، ص 331

روايت چہارم: موثقہ زراره

ایک دوسری موثق روایت میں بھی امام صادق (ع) سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا(ص) دو نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے اور فرمایا ہے کہ یہ کام امت کی آسانی کے لیے انجام دے رہا ہوں۔

مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله بِالنَّاسِ الظُّهْرَ وَ الْعَصْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ وَ صَلَّى بِهِمُ الْمَغْرِبَ وَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ قَبْلَ سُقُوطِ الشَّفَقِ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ فِي جَمَاعَةٍ وَ إِنَّمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله لِيَتَّسِعَ الْوَقْتُ عَلَى أُمَّتِهِ .

زرارہ نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ: رسول خدا (ص) نماز ظہر و عصر کو ظہر کے وقت بغیر کسی سبب (بارش، خوف، جنگ وغیرہ) کے جماعت کے ساتھ پڑھا اور نماز مغرب و عشاء کو بھی بغیر کسی عذر کے جماعت کے ساتھ پڑھا۔ رسول خدا نے اس کام کو عملی طور پر انجام دیا تا کہ امت اپنے وقت سے زیادہ اچھے طریقے سے اپنے کاموں کو انجام دے سکے۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 3، ص 286، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

اسی روایت کو شيخ صدوق اور شيخ طوسی نے بھی اپنی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے:

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفي 381هـ)، علل الشرائع، ج 2، ص321، تحقيق وتقديم: السيد محمد صادق بحر العلوم، ناشر : منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها - النجف الأشرف، الطبع: 1385 - 1966 م

الطوسي، محمد بن الحسن، الاستبصار (متوفي460هـ)، ج 1، ص271، تحقيق وتعليق : السيد حسن الموسوي الخرسان، ناشر : دار الكتب الإسلامية – طهران، چاپ : الرابعة، سال چاپ : 1363 ش

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، تهذيب الأحكام، ج2، ص263، تحقيق: السيد حسن الموسوي الخرسان، ناشر: دار الكتب الإسلامية ـ طهران، الطبعة الرابعة،‌1365 ش .

بحث سندی:

اس روایت کی سند موثق (معتبر) ہے اور شیعہ علماء نے اس بات پر تصریح بھی کی ہے:

محقق بحرانی نے لکھا ہے کہ:

وما رواه الشيخ في الموثق الذي هو كالصحيح عن عبد الله بن بكير عن زرارة عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال : صلى رسول الله (صلى الله عليه وآله) بالناس الظهر والعصر ...

اور وہ مطلب کہ جسکو شیخ صدوق نے موثق روایت، کہ یہ روایت صحیح روایت کی طرح ہے، میں عبد الله ابن بكير اور اس نے زراره سے اور اس نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا  (ص)نے بغیر کسی عذر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

البحراني، الشيخ يوسف، (متوفي1186هـ)، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة،‌ ج 6، ص 192، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة،‌ طبق برنامه مكتبه اهل البيت.

صاحب کتاب معالم نے بھی اس روایت کی سند کو موثق قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وروى بإسناد من الموثق معلق عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن عبد الله بن بكير ، عن زرارة ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بالناس الظهر والعصر ...

موثق سند کے ساتھ احمد ابن محمد ، علی ابن الحكم ، عبد الله ابن بكير اور زراره سے نقل ہوا ہے کہ امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ رسول خدا  (ص)نے بغیر کسی عذر کے۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن بن زين الدين الشهيد، منتقى (متوفي 1011هـ)، الجمان في الأحاديث الصحاح والحسان، ج1، ص390، تصحيح وتعليق : علي أكبر الغفاري، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1362 ش

علامہ حلی نے بھی كتاب مختلف الشيعۃ میں اس روایت کے موثق ہونے پر تصریح کی ہے:

وفي الموثق، عن زرارة، عن الصادق - عليه السلام - قال : صلى رسول الله - صلى الله عليه وآله - بالناس الظهر والعصر حين زالت الشمس في جماعة من غير علة ،...

روايت موثق میں زراره نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا  (ص)نے بغیر کسی عذر کے۔۔۔۔۔۔

الحلي، الحسن بن يوسف (متوفي726هـ)، مختلف الشيعة، ج2، ص26، تحقيق : مؤسسة النشر الإسلامي، تحقيق : مؤسسة النشر الإسلامي، چاپ : الثانية، سال چاپ : ذى القعدة 1413

اور علامہ حلی نے اپنی ایک دوسری كتاب میں بھی لکھا ہے کہ:

ومن طريق الخاصة: ما رواه الشيخ في الموثق، عن زرارة، عن أبي عبد الله عليه السلام، قال: (صلى رسول الله صلى الله عليه وآله: الظهر والعصر حين زالت الشمس في جماعة من غير علة)،

شیعہ علماء نے شیخ طوسی کے واسطے سے موثق روایت میں نقل کیا ہے کہ زرارہ نے امام صادق  (ع)سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا  (ص)نے بغیر کسی عذر کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحلي الأسدي، الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفى726هـ)،‌ منتهى المطلب في تحقيق المذهب،‌ ج 4 ص 119، تحقيق: قسم الفقه في مجمع البحوث الإسلامية،‌ ناشر: مجمع البحوث الإسلامية - إيران – مشهد، چاپخانه: مؤسسة الطبع والنشر في الآستانة الرضوية المقدسة، چاپ: الأولى1412

محقق سبزواری نے اس روایت کو صحیح قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وفي الصحيح عن عبد الله بن بكير عن زرارة عن أبي عبد الله عليه السلام قال صلى رسول الله صلى الله عليه وآله بالناس الظهر والعصر حين زالت الشمس في جماعة من غير علة ...

صحیح روايت میں عبد الله ابن بكير نے زراره سے اور اس نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا  (ص)نے بغیر کسی عذر کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السبزواري، ملا محمد باقر(متوفي 1090هـ)، ذخيرة المعاد ، ج 1 ق 2 ص 196، ناشر : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، طبق برنامه مكتبة اهل البيت.

البتہ اس روایت کے موثق اور معتبر ہونے کے بارے میں شیعہ علماء کے اقوال بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم اتنے اقوال کے ہی ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

قسم دوم: امام باقر اور امام صادق (عليہما السلام) کا دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کی تائید کرنا:

بعض روایات ایسی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام باقر اور امام صادق (عليہما السلام) نے بھی دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے کی تائید کی ہے۔

روايت اول با سند معتبر:

روایت معتبر میں ذکر ہوا ہے کہ زراره نے امام باقر و امام صادق (عليہما السلام) سے اس شخص کے بارے سوال کیا کہ جس نے نماز عشاء کو آسمان سے مغرب کی سرخی زائل ہونے سے پہلے پڑھا تھا کہ کیا اسکی نماز صحیح ہے یا باطل ہے ؟ ہر دو امام نے جواب فرمایا کہ: ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس روایت کو شیخ طوسی نے اپنی دو کتابوں میں ذکر کیا ہے:

فأما ما رواه سعد بن عبد الله عن أحمد بن محمد عن أبي طالب عبد الله بن الصلت عن الحسن بن علي بن فضال عن الحسن بن عطية عن زرارة قال : سألت أبا جعفر وأبا عبد الله عليهما السلام عن الرجل يصلي العشاء الآخرة قبل سقوط الشفق فقال : لا بأس به .

زراره کہتا ہے کہ میں نے امام باقر و امام صادق عليہما السلام سے ایک شخص کے بارے میں سوال کیا کہ جس نے نماز عشاء کو آسمان سے مغرب کی سرخی زائل ہونے سے پہلے پڑھا تھا۔ امام نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

الشيخ الطوسي، الاستبصار، ج 1، ص 271 ؛ الشيخ الطوسي، تهذيب الأحكام ، ج 2 ، ص 34، ح ( 104 ) * 55

ضروری نوٹ:

شیعہ فقہاء نے فرمایا ہے کہ نماز مغرب کا خاص وقت فقط اتنی مقدار میں ہے کہ جس میں تین رکعت مغرب کی نماز پڑھی جائے، اسکے بعد نماز عشاء کا اول وقت ہو جاتا ہے۔ اسکے بعد سے لے کر آدھی رات تک مشترک وقت (نماز مغرب و عشاء) شمار ہوتا ہے۔

اس مطلب کو ذہن میں رکھتے ہوئے، جب انسان نماز مغرب کے بعد ، نماز عشاء پڑھنا چاہے تو وہ وقت نماز مغرب و نماز عشاء کا مشترک وقت شمار ہوتا ہے اور اسی وقت میں دو نمازوں کو جمع کرنا کہا جاتا ہے، اور اس روایت میں امام باقر و امام صادق (عليہما السلام) سے اسی مطلب کے بارے میں سوال کیا تھا اور ہر دو امام نے اسی وجہ سے فرمایا تھا کہ: ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بحث سندی:

یہ روایت شیعہ علماء کی طرف سے صحیح قرار دی گئی ہے۔

علامہ حلی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے اور مغرب کی سرخی زائل ہونے سے پہلے نماز پڑھنے کے جائز ہونے کی بحث میں لکھا ہے کہ:

ولما رواه زرارة في الصحيح، عن الباقر، والصادق - عليهما السلام - وقد سألهما عن الرجل يصلي العشاء الآخرة قبل سقوط الشفق؟ فقالا: لا بأس.

اس مطلب کی دلیل، زرارہ کی امام باقر و امام صادق (عليہما السلام) سے نقل کردہ صحیح روایت ہے کہ جس میں ان دو امام سے سوال کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

العلامة الحلي، مختلف الشيعة، ج 2 ص 26

محقق بحرانی نے سند روايت کو موثق کہا ہے:

وما رواه الشيخ في الموثق عن زرارة قال : سألت أبا جعفر وأبا عبد الله ( عليهما السلام ) عن الرجل يصلي العشاء الآخرة قبل سقوط الشفق ؟ فقال لا بأس به .

وہ کہ جو شیخ طوسی نے موثق روایت میں زرارہ سے نقل کیا ہے کہ اس نے امام باقر و امام صادق (عليہما السلام) سے سوال کیا تھا کہ۔۔۔۔۔

البحراني، الشيخ يوسف، الحدائق الناضرة ، ج 6 ص 190

مرحوم شيخ انصاری، آقا رضا ہمدانی اور محقق سبزواری نے بھی اپنی اپنی کتاب میں اس روایت کی سند کو موثق قرار دیا ہے:

كتاب الصلاة - الشيخ الأنصاري، ج 1، ص 94 ؛

مصباح الفقيه (ط.ق) - آقا رضا الهمداني، ج 2 ، ص 23 ؛

ذخيرة المعاد (ط.ق) - المحقق السبزواري - ج 12، ص 196

نتیجے کے طور پر اس روایت کی سند صحیح و معتبر ہو گی اور مشترک وقت میں دو نمازوں کا ملا کر پڑھنا جائز ہو جائے گا۔

روايت دوم با سند معتبر:

ایک دوسری معتبر روایت کے مطابق کہ جسکو شیخ طوسی نے نقل کیا ہے کہ امام صادق (ع) نے دو نمازوں کے جمع کرنے کے سوال کے جواب میں، اس کام کی تائید کی ہے:

سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام نَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَ الْعِشَاءِ فِي الْحَضَرِ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ قَالَ لَا بَأْسَ.

اسحاق ابن عمار کہتا ہے کہ: میں نے امام صادق  (ع)سے سوال کیا کہ ہم اپنے شہر میں (نہ سفر میں) بغیر کسی عذر (بارش، خوف، جنگ۔۔) کے نماز مغرب و عشاء کو شفق (سرخی وقت مغرب) زائل ہونے سے پہلے ملا کر پڑھتے ہیں، کیا ایسا کرنے میں کوئی اشکال ہے ؟ امام صادق  (ع)نے فرمایا: ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

الشيخ الطوسي، الاستبصار، ج 1، ص 272، الشيخ الطوسي، تهذيب الأحكام ، ج ،2 ص 263، ح ( 1047 )

اس روایت کی سند معتبر ہے اور اس سند کی شیعہ علماء نے بھی تائید کی ہے۔

علامہ حلی نے كتاب مختلف الشيعۃ میں اس روایت کی سند کے صحیح ہونے پر تصریح کی ہے:

وفي الصحيح ، عن إسحاق بن عمار قال : سألت أبا عبد الله - عليه السلام - نجمع بين المغرب والعشاء في الحضر قبل أن يغيب الشفق من غير علة ؟ قال : لا بأس.

روايت صحيح کہ جو اسحاق ابن عمار سے نقل ہوئی ہے کہ میں نے امام صادق (ع) سے سوال کیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

العلامة الحلي ، مختلف الشيعة ، ج 2 ، ص 26

مرحوم صاحب کتاب جواہر نے بھی اس روایت کی سند کو معتبر کہا ہے:

وسأل إسحاق بن عمار الصادق (عليه السلام) أيضا في الموثق (عن الجمع بين المغرب والعشاء في الحضر قبل إن يغيب الشفق من غير علة فقال: لا بأس).

اسحاق ابن عمار نے امام صادق (ع) سے روايت موثق میں نماز مغرب و عشاء کو جمع کرنے کے بارے میں سوال کیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسن نجفي، جواهر الكلام ، ج 7 ، ص 155

روايت سوم سند معتبر:

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ امام صادق (ع) کی پیروی کرنے والے بعض لوگ نماز ظہر و عصر کو نماز ظہر کے وقت میں ملا کر پڑھا کرتے تھے، عبید ابن زرارہ نے اس بات کے بارے میں امام صادق سے سوال کیا تو امام نے فرمایا کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے:

وبهذا الاسناد عن علي بن رئاب قال : سمعت عبيد بن زرارة يقول لأبي عبد الله عليه السلام : يكون أصحابنا مجتمعين في منزل الرجل منا ، فيقوم بعضنا يصلي الظهر ، وبعضنا يصلي العصر ، وذلك كله في وقت الظهر. قال : لا بأس ، الامر واسع بحمد الله ونعمته.

علی ابن رئاب کہتا ہے کہ میں نے عبید ابن زرارہ سے سنا کہ وہ امام صادق (ع) کو بتا رہا تھا کہ میں آپکے شیعہ ایک شیعہ کے گھر میں اکٹھے ہوئے تھے، ہم میں سے بعض نے نماز ظہر کو اور بعض نے نماز عصر کو بھی نماز ظہر کے وقت میں ملا کر پڑھا تھا۔ امام نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

الحميري القمي، أبي العباس عبد الله بن جعفر، قرب الاسناد، ص 165، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، ناشر : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث ، چاپخانه : مهر - قم، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1413

بهذا الاسناد کا لفظ اس روایت میں ان افراد کی طرف پلٹتا ہے کہ جو پہلے والی 6 روایات میں ذکر ہوئے ہیں:

احمد وعبد الله ابنا محمد بن عيسى ، عن الحسن بن محبوب ، عن علي بن رئاب قال : سألت أبا عبد الله عليه السلام عن الخمر والنبيذ ....

بحث سندی:

احمد ابن محمد ابن عيسی:

نجاشی نے اسکو شہر قم کے بزرگان اور فقہاء میں سے شمار کیا ہے:

أحمد بن محمد بن عيسى ... الأشعري. .... يكنى أبا جعفر، وأبو جعفر رحمه الله شيخ القميين، ووجههم، وفقيههم.

احمد ابن محمد ابن عيسی اشعری کہ اسکی کنیت ابو جعفر ہے، اور ابو جعفر رحمۃ الله عليہ شہر قم کے بزرگ علماء میں سے اور ان میں سے بہت قابل احترام اور ان علماء کے فقیہ تھے۔

النجاشي، رجال النجاشي، ص 82.

حسن ابن محبوب:

شيخ طوسی نے اس راوی کو موثق اور جلیل القدر انسان شمار کیا ہے:

الحسن بن محبوب السراد، ويقال له: الزراد، ويكنى أبا علي، مولى بجيلة، كوفي، ثقة . ... وكان جليل القدر، ويعد في الأركان الأربعة في عصره.

حسن ابن محبوب سراد کہ اسکو زراد بھی کہا جاتا ہے، اسکی کنیت ابو علی ، وہ اہل کوفہ اور ثقہ و مورد اعتماد ہے۔ وہ ایک جلیل القدر انسان ہے کہ جو اپنے زمانے میں چار ارکان میں سے شمار ہوتا تھا۔ ( یعنی اپنے زمانے میں چار بہترین علماء میں سے ایک عالم تھا)،

الشيخ الطوسي، الفهرست، ص 96

علی ابن رئاب:

شيخ طوسی نے بھی اس راوی کو ثقہ قرار دیا ہے:

علي بن رئاب الكوفي ، له أصل كبير ، وهو ثقة جليل القدر .

الشيخ الطوسي ، الفهرست، ص 151

نتیجے کے طور پر یہ روایت صحیح اور معتبر شمار ہو گی۔

قسم سوم: امام باقر (ع) کا دو نمازوں کو جمع کرنے کا حکم، با سند معتبر:

روایات کی ایک اور قسم ہے کہ جو حکایت کرتی ہے کہ امام باقر (ع) نے بچوں کو حکم دیا تھا کہ وہ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا کریں:

روايت اول با سند صحيح:

اس روایت کو مرحوم حمیری نے سند صحیح کے ساتھ نقل کیا ہے:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ الْقَدَّاحِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عليه السلام أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ الصِّبْيَانَ يَجْمَعُونَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ الْأُولَى وَ الْعَصْرِ وَ الْمَغْرِبِ وَ الْعِشَاءِ يَقُولُ مَا دَامُوا عَلَى وُضُوءٍ قَبْلَ أَنْ يَشْتَغِلُوا.

امام صادق  (ع)نے فرمایا ہے کہ میرے والد گرامی امام باقر بچوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ جب تک وہ وضو کی حالت میں ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کام میں مصروف بھی نہیں ہوتے تو ، نماز ظہر کو نماز عصر کے ساتھ اور نماز مغرب کو نماز عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھیں۔

الحميري القمي، قرب الاسناد، ص 23

بحث سندی:

1. محمد ابن عيسی ابن عبيد:

نجاشی نے اسکی توثیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

محمد بن عيسى بن عبيد بن يقطين بن موسى ... أبو جعفر، جليل في (من) أصحابنا، ثقة، عين، كثير الرواية، حسن التصانيف.

محمد ابن عيسی ابن عبيد ابن يقطين ابن موسی۔۔۔ اسکی کنیت ابو جعفر ہے، وہ ہمارے اصحاب میں بلند مقام، مورد اعتماد، چشم و چراغ شیعہ امامیہ، بہت زیادہ روایات کو نقل کرنے والا ہے کہ جسکی کتب بہت ہی اچھی ہیں۔

النجاشي، رجال النجاشي، ص 333

مرحوم آيت الله العظمی خوئی کے نزدیک بھی یہ راوی ثقہ ہے:

أنك عرفت من النجاشي وثاقة الرجل ، بل هو ممن تسالم أصحابنا على وثاقته وجلالته.

اس شخص (محمد ابن عيسی ابن عبيد) کے ثقہ ہونے کو آپ نے نجاشی کے قول سے جان لیا ہے، بلکہ اسکے ثقہ اور جلیل القدر ہونے پر اصحاب (علمائے) امامیہ کا اتفاق ہے۔

السيد الخوئي، معجم رجال الحديث، ج 18 ص 121

2. عبد الله ابن ميمون القداح:

یہ راوی بھی علمائے علم رجال کی نظر میں ثقہ ہے، نجاشی نے لکھا ہے کہ:

عبد الله بن ميمون بن الأسود القداح ... وكان ثقة .

عبد الله ابن ميمون ابن الاسود قداح ثقہ اور مورد اعتماد ہے۔

النجاشي ، رجال النجاشي، ص 213

مرحوم نمازی نے اسکے ثقہ ہونے کو مورد اتفاق علماء قرار دیا ہے:

عبد الله بن ميمون القداح بن الأسود المكي : من أصحاب الصادق عليه السلام . ثقة بالاتفاق .

عبد الله ابن ميمون قداح ابن اسود مكی، اصحاب امام صادق (ع) میں سے ہے اور اسکے ثقہ ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

النمازي الشاهرودي، الشيخ علي ، مستدركات علم رجال الحديث، ج 5 ص 121

نتیجے کے طور پر یہ روایت صحیح اور معتبر ہو گی اور یہ روایت بتاتی ہے کہ امام باقر (ع) کی نظر میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ کام جائز نہ ہوتا تو امام ہرگز اس کام کے کرنے کا حکم نہ دیتے۔

روايت دوم:

یہ روایت ایک دوسری سند کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے:

وبهذا الاسناد ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : إنا نأمر الصبيان أن يجمعوا بين الصلاتين الأولى والعصر وبين المغرب والعشاء الآخرة ما داموا على وضوء قبل أن يشتغلوا.

امام صادق (ع) نے فرمایا کہ ہم بچوں کو حکم دیتے ہیں کہ پہلی نماز (ظہر) کو عصر کے ساتھ اور مغرب کو عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھیں، البتہ جب تک وہ وضو کی حالت میں ہوں اور کسی دوسرے کام میں مصروف بھی نہ ہوئے ہوں۔

الكليني، محمد بن يعقوب، الكافي، ج 6 ، ص 47

لفظ « و بهذا الاسناد » کہ جو اس روایت میں آیا ہے، یہ اس سے پہلے والی روایت کی سند کی طرف اشارہ ہے کہ جو سند ایسے ذکر ہوئی ہے:

علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، وعدة من أصحابنا ، عن سهل بن زياد ، عن جعفر ابن محمد الأشعري ، عن ابن القداح ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : يفرق بين الغلمان والنساء في المضاجع إذا بلغوا عشر سنين،

الكليني، محمد بن يعقوب، الكافي، ج 6، ص 47

نتيجہ:

شیعہ کی صحیح و معتبر روایات کے مطابق، رسول خدا  (ص)بغیر سفر و کسی عذر کے عام حالات میں بھی مشترک وقت والی دو نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے اور جب ان سے اس کا سبب پوچھا جاتا تو کہتے تھے کہ میں اپنی امت کی آسانی کے لیے کبھی کبھی ایسا کرتا ہوں، گویا رسول خدا یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ اصل نماز پڑھنا واجب ہے، لیکن الگ الگ کر کے یا دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا، یہ واجب نہیں ہے، یعنی جو دو نمازوں کو الگ الگ کر کے پڑھ لے، اسکی نماز بھی ٹھیک ہے اور جو دو نمازوں کو مشترک وقت میں جمع کر کے پڑھ لے، اسکی بھی نماز ٹھیک ہے۔ نہ الگ الگ کر کے پڑھنے والا، کافر اور دین سے خارج ہے اور نہ ملا کر پڑھنے والا، کافر اور دین سے خارج ہے، کیونکہ خود اس شریعت کے بانی رسول خدا دونوں طرح سے نماز کو ادا کیا کرتے تھے۔

رسول خدا کے جانشینان برحق یعنی آئمہ طاہرین و معصومین (ع) بھی رسول خدا  (ص)کی سیرت مبارک پر عمل کرتے ہوئے، خود بھی دو نمازوں کو ملا کر پڑھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کام کے انجام دینے کا حکم دیا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ جو بھی اس کام کے انجام دینے کے بارے میں سوال کیا کرتا تھا، آئمہ اسکے اس کام کی تائید بھی کیا کرتے تھے۔

دوسرا حصہ: اہل سنت اور دو نمازوں کو جمع کرنے کا مسئلہ:

اہل سنت کے اکثر مذاہب کی نظر میں دو نمازوں کو جمع کرنا، حالت سفر، حالت بارش، حالت بیماری اور حالت عذر وغیرہ میں، جائز ہے۔  

اس بارے میں اہل سنت کے مذاہب کے اقوال بھی مختلف ہیں کہ یہاں پر مختصر طور پر بعض کو ذکر کیا جا رہا ہے:

1. حالت سفر اور دو نمازوں کو جمع کرنا:

مذاہب اہل سنت دو نمازوں کے جمع کرنے کو ، اس سفر میں کہ جو سفر گناہ کرنے کے لیے نہ کیا گیا ہو، جائز جانتے ہیں۔

ابو حنیفہ حج کے ایام میں روز عرفہ اور شب مزدلفہ کے علاوہ باقی مقامات اور حالات میں دو نمازوں کے جمع کرنے کو جائز قرار نہیں دیتا۔

عالم اہل سنت ابن قدامہ نے اپنی کتاب میں سفر کی حالت میں دو نمازوں کو جمع کرنے کے بارے میں مذاہب اہل سنت کے اقوال کو بیان کیا ہے:

يجوز الجمع بين الظهر والعصر والعشائين في وقت إحداهما لثلاثة أمور: السفر الطويل ... في قول أكثر أهل العلم روي ذلك عن سعد وسعيد بن زيد وأسامة ومعاذ بن جبل وأبي موسى وابن عباس وابن عمر وبه قال عكرمة والثوري ومالك والشافعي وإسحق وابن المنذر وجماعة غيرهم ، وقال الحسن وابن سيرين وأصحاب الرأي لا يجوز الجمع إلا في يوم عرفة وليلة مزدلفة بها.

نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو طولانی سفر میں ملا کر پڑھنا، بہت سے اہل علم علماء کے نزدیک جائز ہے۔ یہ قول سعد،‌ سعيد ابن زيد،  اسامہ، معاذ ابن جبل، ابو موسی، ابن عباس اور ابن عمر سے نقل ہوا ہے۔ جبکہ عكرمہ، سفيان ثوری، مالک، شافعی، اسحاق، ابن منذر اور انکے علاوہ بہت سے علماء کا بھی یہی عقیدہ ہے۔

حسن بصری، ابن سيرين اور اصحاب اہل رائے (پیروان ابو حنيفہ) دو نمازوں کے جمع کرنے کو فقط روز عرفہ اور شب مزدلفہ، جائز قرار دیتے ہیں۔

المقدسي الحنبلي، شمس الدين أبي الفرج عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن قدامة (متوفى682هـ) ، الشرح الكبير على متن المقنع، ج 2، ص 115، ناشر: دار الكتاب العربي للنشر والتوزيع ـ بيروت.

شوكانی دو نمازوں کے جمع کرنے کے عقیدے کے طرف داروں کے ناموں کو نقل کرنے کے بعد ، تصریح کرتا ہے کہ حسن بصری، نخعی اور ابو حنيفہ دو نمازوں کے جمع کرنے کو تمام حالات اور تمام مقامات پر جائز قرار نہیں دیتے:

وقال قوم: لا يجوز الجمع مطلقا، إلا بعرفة ومزدلفة، وهو قول الحسن والنخعي وأبي حنيفة وصاحبيه.

علماء کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ: دو نمازوں کو جمع کرنا، تمام حالات اور تمام مقامات پر جائز نہیں ہے، بلکہ فقط روز عرفہ اور مزدلفہ میں ایسا کرنا، جائز ہے، اور یہ حسن بصری،‌ نخعی، ابو حنيفہ اور اسکے پیروکاروں کا قول و رائے ہے۔

الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفى 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقي الأخبار، ج 3 ، ص 261، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.

لہذا سفر کی حالت میں دو نمازوں کو جمع کرنے کے بارے میں، مذاہب اہل سنت کے اقوال واضح اور معلوم ہو گئے ہیں۔

2. حالت بارش اور دو نمازوں کو جمع کرنا:

بارش کی حالت ایک ایسی حالت ہے کہ جسکے بارے میں اہل سنت نے کہا ہے کہ مشترک وقت والی دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔

سيد سابق نے كتاب « فقہ السنۃ » میں اس بارے میں متعدد اقوال کے خلاصے کو ذکر کیا ہے:

وخلاصة المذاهب في ذلك:

 أن الشافعية تجوز للمقيم الجمع بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء جمع تقديم فقط بشرط وجود المطر ...

 وعند مالك أنه يجوز جمع التقديم في المسجد بين المغرب والعشاء لمطر واقع أو متوقع ، وللطين مع الظلمة إذا كان الطين كثيرا يمنع أواسط الناس من لبس النعل ، وكره الجمع بين الظهر والعصر للمطر .

وعند الحنابلة يجوز الجمع بين المغرب والعشاء فقط تقديما وتأخيرا بسبب الثلج والجليد والوحل والبرد الشديد والمطر الذي يبل الثياب ، وهذه الرخصة تختص بمن يصلي جماعة بمسجد يقصد من بعيد يتأذى بالمطر في طريقه فأما من هو بالمسجد أو يصلي في بيته جماعة أو يمشي إلى المسجد مستترا بشئ أو كان المسجد في باب داره فإنه لا يجوز له الجمع .

اس بارے میں مذاہب اہل سنت کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے:

شافعیہ نے اس شخص کہ جو اپنے شہر میں مقیم ہے اور وہ حالت سفر میں نہیں ہے، اسکے لیے بارش کی صورت میں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے جمع کر کے پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔۔۔۔۔

مالک ابن انس نے نماز مغرب و عشاء کے جمع کرنے کو مسجد میں ، اس بارش کی خاطر کہ جو برس چکی ہے یا بعد میں برسے گی، جائز قرار دیا ہے اور اسی طرح اس صورت میں کہ جب اندھیرا اور کیچڑ اتنا زیادہ ہو کہ عام لوگ جوتے نہ پہن سکتے ہوں تو بھی نماز مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھنا جائز ہے۔ لیکن بارش کی وجہ نماز ظہر و عصر کو ملا کر پڑھنا مکروہ است۔

مذہب حنابلہ فقط نماز مغرب و عشاء کو تقدیم و تاخیر کی صورت میں، اور برف باری، ژالہ باری، مٹی و کیچڑ اور بہت ہی ٹھنڈی ہوا کہ جو لباس کو تر کر دیتی ہے، کی صورت میں نماز مغرب و عشاء کے جمع کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ ملا کر پڑھنا فقط ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو مسجد میں نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جو دور سے چل کر مسجد آتے ہیں اور راستے میں بارش و برف کی وجہ سے انکو تکلیف ہوتی ہے، لیکن وہ شخص کہ جو مسجد میں ہے یا اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے، یا بارش و برفباری کی صورت میں چھتری وغیرہ لے کر مسجد جاتا ہے، یا اسکا گھر مسجد کے نزدیک ہے، ان تمام کے لیے نماز کو ملا کر پڑھنا جائز نہیں ہے۔

الشيخ سيد سابق (معاصر)، فقه السنة ، ج 1 ، ص 291 ، ناشر : دار الكتاب العربي - بيروت – لبنان

اہل سنت کے تین رسمی و اصلی مذاہب کے عقیدے کو ذکر کیا جا چکا ہے اور ابو حنیفہ کی رائے بھی واضح ہے کہ وہ فقط روز عرفہ اور مزدلفہ میں دو نمازوں کے ملا کر پڑھنے کو جائز قرار دیتا ہے۔ اسکے علاوہ دوسرے حالات و مقامات پر جائز قرار نہیں دیتا۔

3. حالت بیماری و عذر اور دو نمازوں کو جمع کرنا:

بیماری اور عذر کی حالت میں بھی دو نمازوں کو ملا کر پڑھا جا سکتا ہے۔ اہل سنت کے مذاہب کا آپس میں اس بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ حنابلہ بیماری اور خطرے کی صورت میں نمازوں کے جمع کرنے کو جائز جانتے ہیں۔ ابو حنیفہ اور شافعی بیماری اور خطرے کی صورت میں نمازوں کے جمع کرنے کو جائز نہیں جانتے، لیکن شافعی کے بعض پیروکار بیماری اور خطرے کی صورت میں نمازوں کے جمع کرنے کو جائز جانتے ہیں۔

سيد سابق نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

ذهب الإمام أحمد والقاضي حسين والخطابي والمتولي من الشافعية إلى جواز الجمع تقديما وتأخيرا بعذر المرض لان المشقة فيه أشد من المطر ....

وتوسع الحنابلة فأجازوا الجمع تقديما وتأخيرا لأصحاب الاعذار وللخائف ....

احمد ابن حنبل، قاضی حسين، خطابی اور شافعی کے بعض پیروکاروں کا عقیدہ یہ ہے کہ بیماری کی حالت میں دو نمازوں کو تقدیم یا تاخیر کی صورت میں جمع کرنا جائز ہے، کیونکہ بیماری کی تکلیف، بارش کی تکلیف سے زیادہ ہے۔

حنابلہ نے اپنے عقیدے میں وسعت دی ہے اور دو نمازوں کو تقدیم یا تاخیر کی صورت میں ان لوگوں کے لیے جمع کرنا، جائز قرار دیا ہے کہ جنکو کوئی عذر ہے، یا جنکے لیے کوئی خوف اور خطرہ موجود ہو۔

الشيخ سيد سابق (معاصر)، فقه السنة،ج1، ص 292

ابن قدامہ نے مالكيہ ، ابو حنيفہ اور شافعی کے عقیدے کو ایسے بیان کیا ہے:

ويجوز الجمع لأجل المرض وهو قول عطاء ومالك وقال أصحاب الرأي والشافعي لا يجوز .

مریض کے لیے دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا جائز ہے۔ یہ عطا اور مالک کا قول ہے۔ لیکن صاحبان رائے (پیروان ابو حنیفہ) اور شافعی اس صورت میں دو نمازوں کے جمع کرنے کو جائز قرار نہیں دیتے۔

المقدسي الحنبلي، ابومحمد عبد الله بن أحمد بن قدامة (متوفى620هـ)، المغني في فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيباني، ج 2 ص 117، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ.

یہاں تک دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے بارے میں اہل سنت کے اہم ترین اقوال کو بیان کیا گیا ہے۔ البتہ ان اقوال اور آراء کی مزید تفصیل کے لیے اہل سنت کی شرعی احکام والی کتب کی طرف رجوع کرنا بھی لازمی ہے۔

نتيجہ:

ذکر شدہ تمام اقوال اس مطلب کو ثابت کرتے ہیں کہ سفر کی حالت میں اور دوسری بعض صورتوں میں، دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا جائز ہے۔ اہل سنت کی روایات بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہیں۔

قابل توجہ اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اہل سنت مذکورہ حالات اور مقامات کے علاوہ دو نمازوں کے جمع کرنے کو جائز قرار نہیں دیتے، حالانکہ یہ بات ان روایات کے مخالف ہے کہ جو مذکورہ حالات اور مقامات کے علاوہ بھی دو نمازوں کے جمع کرنے کو جائز قرار دیتی ہیں۔

سفر و عذر کے علاوہ بھی دو نمازوں کو جمع کرنا اور اہل سنت کی صحیح و معتبر روایات:

اہل سنت کی ان روایات کہ جو سفر، بارش، عذر، بیماری، خوف اور خطرے کی صورت میں دو نمازوں کے جمع کرنے کو جائز قرار دیتی ہیں، کے مقابلے پر اہل سنت کی ہی صحیح روایات موجود ہیں کہ جو بیان کرتی ہیں کہ رسول خدا (ص) مذکورہ موارد کے علاوہ بھی اپنے شہر ہوتے ہوئے اور بغیر کسی عذر کے کبھی کبھی دو نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے، کہ یہ روایات مذہب شیعہ کی بھی تائید کرتی ہیں۔

مسلم نيشاپوری نے اپنی کتاب صحیح مسلم ایک باب تحت عنوان « بَاب الْجَمْعِ بين الصَّلَاتَيْنِ في الْحَضَرِ » ذکر کیا کہ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا حالت سفر اور جنگوں میں نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے، لیکن اسی باب کی بعض روایات ذکر کرتی ہیں کہ رسول خدا اپنے شہر میں ہوتے ہوئے بھی اور بغیر کسی عذر و ہنگامی حالت کے باوجود بھی دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھا کرتے تھے:

روايت اول: حالت خوف اور سفر کے بغیر بھی دو نمازوں کا جمع کرنا:

پہلی روایت مسلم نے ابن عباس سے نقل کی ہے کہ رسول خدا  (ص)کی سیرت تھی کہ وہ سفر اور خوف کی حالت میں نہ ہونے کے باوجود بھی دو نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے:

حدثنا يحيى بن يحيى قال قرأت على مَالِكٍ عن أبي الزُّبَيْرِ عن سَعِيدِ بن جُبَيْرٍ عن بن عَبَّاسٍ قال صلى رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جميعا وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جميعا في غَيْرِ خَوْفٍ ولا سَفَرٍ.

ابن عباس کہتا ہے کہ‌ رسول خدا (ص) نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو بغیر کسی حالت خوف اور بغیر کسی حالت سفر میں ہونے کے باوجود بھی ملا کر پڑھا کرتے تھے۔

النيسابوري القشيري، ابوالحسين مسلم بن الحجاج (متوفى261هـ)، صحيح مسلم، ج 1، ص 489، ح705، باب صلاة المسافرين ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

الموطأ ، ص 73 ، ح 327

سنن أبي داود ، ج 2  ، ص 6  ، ح 1210 ، 1214 

سنن النسائي ، ج 1 ، ص 315 ح 600

مسند أحمد بن حنبل ، ج 3  ، ص 292 ، ح 1953 و ج 4  ، ص 191 ، ح 2557

صحيح ابن خزيمة ،  ج 2 ،‌ص 85 ، ح 971

مسند أبي عوانة ، ج 2 ،‌ ص 353

السنن الكبرى ، ج3  ، ص 166 ، 167

قابل توجہ اور قابل ذکر ہے کہ البانی وہابی، کہ وہابی اسے اپنے دور کا بخاری بھی کہتے تھے، نے اپنی مندرجہ ذیل کتابوں میں اسی روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

 صحيح سنن أبي داود ، ج 1 ، ص 224 ، ح 1068

صحيح سنن النسائي ، ج 1 ، ص 130 ح 585

روايت دوم: حالت خوف اور بارش کے بغیر بھی دو نمازوں کا جمع کرنا:

ایک دوسری روایت میں ذکر ہوا ہے کہ ابن عباس نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا  (ص)سفر اور خوف کی حالت میں نہ ہونے کے باوجود بھی دو نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے اور آخر میں اس ملا کر پڑھنے کا سبب بھی بیان کیا ہے:

وحدثنا أبو بَكْرِ بن أبي شَيْبَةَ وأبو كُرَيْبٍ قالا حدثنا أبو مُعَاوِيَةَ ح وحدثنا أبو كُرَيْبٍ وأبو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ واللفظ لِأَبِي كُرَيْبٍ قالا حدثنا وَكِيعٌ كلاهما عن الْأَعْمَشِ عن حَبِيبِ بن أبي ثَابِتٍ عن سَعِيدِ بن جُبَيْرٍ عن بن عَبَّاسٍ قال: جَمَعَ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بين الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ في غَيْرِ خَوْفٍ ولا مَطَرٍ في حديث وَكِيعٍ قال قلت لابن عَبَّاسٍ لِمَ فَعَلَ ذلك؟ قال كَيْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ وفي حديث أبي مُعَاوِيَةَ قِيلَ لابن عَبَّاسٍ ما أَرَادَ إلى ذلك قال أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ.

ابن عباس نے کہا ہے کہ‌ رسول خدا (ص) نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو مدینہ شہر میں ہوتے ہوئے، بغیر کسی حالت خوف اور بارش کے ملا کر پڑھا کرتے تھے۔

وکیع کی روایت میں آیا ہے کہ میں نے ابن عباس سے کہا کہ: رسول خدا کیوں دو نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے ؟ ابن عباس نے جواب دیا: تا کہ امت کو زحمت نہ ہو۔

اور ابو معاویہ کی روایت میں آیا ہے کہ ابن عباس سے کہا گیا کہ رسول خدا (ص) کا اس کام کرنے سے کیا مقصد تھا ؟ ابن عباس نے کہا: رسول خدا کا ایسا کرنے سے یہ ارادہ تھا کہ امت مشقت اور زحمت میں نہ پڑے۔

النيسابوري القشيري، مسلم بن الحجاج، صحيح مسلم، ج1، ص490، ح705، باب صلاة المسافرين ،

سنن الترمذي ، ج 1 ، ص 354 ، ح 187

سنن أبي داود ، ج 2 ، ص 6 ، ح 1211

سنن النسائي ، ج 1 ، ص 315 ، ح 601

مسند أحمد بن حنبل ، ج 5 ، ص 81 ، ح 3235 و  ص 113 ، ح 3323

مسند أبي عوانة ، ج 2 ، ص 353

سنن البيهقي ، ج 3 ، ص 167

البانی وہابی محقق نے اس روایت کو بھی صحیح قرار دیا ہے:

صحيح سنن أبي داود ، ج 1 ، 224 ، ح 1070

صحيح سنن النسائي ، ج 1 ، ص 130 ، ح 586

إرواء الغليل ، ج 3 ، ص 34 ، ح 579

روايت سوم: شہر میں ہوتے ہوئے بھی دو نمازوں کا جمع کرنا:

ایک دوسری روایت میں ابن عباس نے رسول خدا  (ص)کے شہر مدینہ میں ہوتے ہوئے بغیر کسی خوف و خطرے اور بارش وغیرہ کے ، دو نمازوں کے جمع کرنے کو ذکر کیا ہے، کہ اسی روایت کو بخاری اور مسلم نے ایسے ذکر کیا ہے:

حدثنا أبو النُّعْمَانِ قال حدثنا حَمَّادٌ هو بن زَيْدٍ عن عَمْرِو بن دِينَارٍ عن جَابِرِ بن زَيْدٍ عن بن عَبَّاسٍ أَنَّ النبي صلى الله عليه وسلم صلى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ.

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے مدینہ میں ہی 7 رکعت اور 8 رکعت نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو پڑھا تھا۔ (یعنی رسول خدا سفر میں نہیں تھے اور خطرہ و خوف و جنگ و بارش و آندھی وغیرہ بھی نہیں تھی، اسکے باوجود بھی انھوں نے نمازوں کو ملا کر پڑھا تھا)،

البخاري الجعفي، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفاى256هـ)، صحيح البخاري، ج1، ص201، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987،

النيسابوري القشيري، مسلم بن الحجاج، صحيح مسلم ج 1، ص 491 باب صلاة المسافرين ،

مسند أحمد بن حنبل ، ج3  ، ص 280 ، ح 1918 و ج 3  ، ص 283 ، ح 1929 و ج 4 ، ص 154 ح 2465 و  ص 201 ح 2582

مسند أبي داود الطيالسي ، ص 341 ، 342 ، ح 2164 ، 2629 .

روايت چہارم: ابن عباس کہتا ہے کہ ہم رسول خدا کے زمانے میں نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے تھے:

اس روایت میں صحابی جلیل القدر ابن عباس واضح طور پر ذکر کر رہا ہے کہ ہم رسول خد (ص)ا کے زمانے میں نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے:

وحدثنا بن أبي عُمَرَ حدثنا وَكِيعٌ حدثنا عِمْرَانُ بن حُدَيْرٍ عن عبد اللَّهِ بن شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ قال قال رَجُلٌ لابن عَبَّاسٍ الصَّلَاةَ فَسَكَتَ ثُمَّ قال الصَّلَاةَ فَسَكَتَ ثُمَّ قال الصَّلَاةَ فَسَكَتَ. ثُمَّ قال لَا أُمَّ لك أَتُعَلِّمُنَا بِالصَّلَاةِ وَكُنَّا نَجْمَعُ بين الصَّلَاتَيْنِ على عَهْدِ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.

عبد اللہ ابن شقیق عقیلی کہتا ہے کہ: ایک شخص نے تین مرتبہ ابن عباس سے کہا کہ نماز، نماز، نماز (یعنی نماز پڑھنے کا وقت ہو گیا ہے) اور پھر چپ ہو گیا۔ ابن عباس نے کہا اوے کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ نماز کا وقت ہوا ہے یا نہیں ؟ حالانکہ ہم رسول خدا کے زمانے میں دو نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھا کرتے تھے۔

النيسابوري القشيري، ابوالحسين مسلم بن الحجاج، صحيح مسلم، ج1، ص492،

اس روایت میں عبارت « وَكُنَّا نَجْمَعُ بين الصَّلَاتَيْنِ على عَهْدِ رسول اللَّهِ » مطلق طور پر بغیر کسی قید و شرط کے ذکر ہوئی ہے، یعنی ابن عباس نے نہیں کہا کہ ہم رسول خدا کے زمانے میں حالت خوف یا حالت بارش وغیرہ میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے، پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں فقط اور فقط اپنی کی آسانی کے لیے رسول خدا کبھی کبھی الگ الگ اور کبھی کبھی ملا کر دو نمازوں کو پڑھا کرتے تھے۔ یعنی الگ الگ کر کے نمازوں کو پڑھنا بھی سنت رسول ہے اور ملا کر نمازوں کو پڑھنا بھی سنت رسول ہے۔

روایت پنجم: صحابی عثمان ابن سہل کا بھی رسول خدا کا دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے کی تائید کرنا:

حدثنا بن مُقَاتِلٍ قال أخبرنا عبد اللَّهِ قال أخبرنا أبو بَكْرِ بن عُثْمَانَ بن سَهْلِ بن حُنَيْفٍ قال سمعت أَبَا أُمَامَةَ يقول: صَلَّيْنَا مع عُمَرَ بن عبد الْعَزِيزِ الظُّهْرَ ثُمَّ خَرَجْنَا حتى دَخَلْنَا على أَنَسِ بن مَالِكٍ فَوَجَدْنَاهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ. فقلت: يا عَمِّ ما هذه الصَّلَاةُ التي صَلَّيْتَ؟ قال: الْعَصْرُ وَهَذِهِ صَلَاةُ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم التي كنا نُصَلِّي معه.

عثمان ابن سہل کہتا ہے کہ میں نے ابو امامہ سے سنا تھا کہ اس نے کہا تھا کہ: ہم نے نماز ظہر کو عمر ابن عبد العزيز کے ساتھ پڑھا، پھر ہم وہاں سے نکل کر انس ابن مالک کے پاس گئے، ہم نے انس کو دیکھا کہ وہ ابھی تک نماز عصر پ‍ڑھ رہا تھا، میں نے کہا: اے چچا ! آپ یہ کونسی نماز پڑھ رہے تھے ؟ انس نے جواب دیا: نماز عصر، اور یہی تو وہ نماز ہے کہ جو ہم رسول خدا کے ساتھ بھی پڑھا کرتے تھے۔

صحيح البخاري، ج1، ص202، ح524، كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ ، بَاب وَقْتِ الْعَصْرِ.

نتيجہ:

ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ:

1.  رسول خدا (ص) بغیر حالت سفر اور بغیر کسی خوف و خطرے و بارش وغیرہ کے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھا کرتے تھے اور یہ مطلب اس بات پر دلیل ہے کہ نمازوں کو ملا کر پڑھنا فقط ان موارد میں ہی جائز نہیں ہے کہ اہل سنت بیان کرتے ہیں، بلکہ تمام حالات اور تمام مقامات پر دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا جائز ہے۔

2. اہل سنت کی یہ صحیح روایات، شیعہ عقیدے کی تائید کرتی ہیں کہ نمازوں کو ملا کر پڑھنا بغیر کسی عذر اور مشکل کے بھی جائز ہے۔

3. اہل سنت رسول خدا کے دو نمازوں کو جمع کرنے کے بارے میں، فقط ان روایات کو بیان اور عمل کرتے ہیں کہ جن میں بیان ہوا ہے کہ رسول خدا فقط عذر اور کسی مشکل کی صورت میں دو نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے اور اپنی کتب میں ذکر شدہ ان روایات کو کہ جو شیعہ عقیدے کی تائید کرتی ہیں، اہل سنت ان روایات کو بالکل ذکر نہیں کرتے۔

4. بد قسمتی سے اہل سنت اس بارے میں اپنی کتب میں ذکر شدہ صحیح و معتبر روایات کے سامنے ہڈ دھرمی اور ضد بازی سے کام لیتے ہیں اور کسی مسلمان کو بھی دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔

5. قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کی یہی لجاجت باعث ہوئی ہے کہ خود اہل سنت کے بہت سے جوان نماز اور عبادت سے دور ہو جائیں، کیونکہ اسی طرح الگ الگ نماز پڑھنے سے جوان اور عام لوگ نہ ٹھیک طرح سے پڑھ پاتے ہیں اور نہ اپنے کاروبار کی صحیح طرح سے دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر پانچ نمازوں کو تین وقت پر ادا کیا جائے تو کسی کے لیے کوئی بھی مشکل پیش نہیں آتی اور ہر کوئی اپنے اپنے کام کو صحیح وقت پر انجام بھی دے پاتا ہے۔

6. رسول خدا کا عام حالات میں بھی بغیر کسی مشکل اور عذر کے کبھی کبھی نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ گویا رسول خدا اس دور میں بھی اپنی امت کے آرام کا کتنا خیال تھا، کیونکہ جب پانچ نمازوں کو آرام سے تین اوقات میں پڑھا جا سکتا ہے کہ تو اتنی سختی سے پانچ وقت میں ہی نماز پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، بلکہ اسطرح سے جوانوں کو زیادہ سے زیادہ نماز اور مساجد کی طرف لایا جا سکتا ہے۔

7. البتہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ اگر کوئی آرام سے بغیر کسی مشکل و زحمت کے پانچ نمازوں کو پانچ وقت میں پڑھ سکتا ہے تو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ان مطالب کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دین اسلام میں اصل نماز پڑھنا واجب ہے، لیکن اسی نماز کو الگ الگ کر کے بھی پڑھا جا سکتا ہے اور ملا کر کے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
1 | محمد عرفان | | ٠٩:٤٢ - ٢٧ May ٢٠٢١ |
دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے سے مراد ایک نماز کاآخری وقت اور دوسری نماذ کا ابتدائ وقت
نیز سہولت دینے سے مساجد نہیں بھرتیں.محبت سے دین پر عمل کروانا سیکھیں.

جواب:
سلام علیکم ۔۔۔
 
نہیں جمع کر کے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں ہے ۔۔۔ مثلا ظہر کے آذان کے بعد شیعہ {پہلے جماعت کے ساتھ یا جماعت کے بغیر } ظہر پڑھ لیتا ہے اور پھر عصر ۔۔۔۔۔ اب ممکن کوئی ظہر کے فورا بعد کسی وحہ سے نماز نہ پڑھے اور عصر کے وقت نماز پڑھے تو یہاں بھی پہلے ظہر پڑھے گا پھر عصر ۔۔۔۔۔۔۔ اور آخری وقت ہو اور آذان مغرب سے پہلے صرف چار رکعت پڑھنے کا وقت ہو تو یہاں پہلے عصر پڑھے گا پھر بعد میں ظہر کی قضاء پڑھے گا ۔۔۔
یہی ترتیب مغرب اور عشاء میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔
 
 محترم بات اس کے بھی جائز ہونے یا نہ ہونے کی ہے ۔۔۔۔ بات اس میں نہیں ہے اس تائم پر پڑھنا افضل ہے ۔۔۔۔ شیعہ فقہ میں بھی افضل وہی دو ٹائم پڑھنا اور ہر نماز کو اس کی فضیلت کے وقت پر پڑھںا ہے ۔۔۔۔۔ لہذا بات جائز ہونے اور اس سہولت کے ہونے کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب شیعوں کی عادت  ایک ساتھ پڑھنا ہے اور اھل سنت کے ہاں عادت الگ الگ پڑھنا ہے ۔۔۔۔۔ 
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات