2024 April 20
ام المؤمنین، محسنۃ الاسلام، حضرت خدیجۃ الکبری (س) کی حیات طیبہ پر ایک نظر
مندرجات: ١٥٧٤ تاریخ اشاعت: ٢٤ May ٢٠١٨ - ١٧:٤٢ مشاہدات: 8239
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
ام المؤمنین، محسنۃ الاسلام، حضرت خدیجۃ الکبری (س) کی حیات طیبہ پر ایک نظر

حضرت خديجہ بنت خويلد (س)، رسول خدا (ص) کی پہلی زوجہ محترمہ ہیں۔ اس با شرم و با حیا خاتون کے حسب و نسب اور مالی حالات بہت بہتر ہونے کی وجہ سے، مشرکین عرب کے بہت سے بزرگان کی یہ آرزو تھی کہ ان سے شادی کی جائے، لیکن اس شریف بی بی نے ان سب سے شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا اور صرف رسول خدا (ص) سے شادی کرنے کے لیے مثبت جواب دیا۔ اسی وجہ سے بزرگان عرب اور قریش کی عورتوں نے بی بی خدیجہ پر بہت اعتراض کیا، حتی یہ اعتراض اور ناراضگی، حضرت زہرا (س) کی ولادت تک جاری رہا اور ان عورتوں میں سے کوئی بھی ولادت کے وقت حضرت خدیجہ کے پاس مدد کرنے کے لیے حاضر نہ ہوئی۔

حضرت خدیجہ (س) نے دین اسلام کی تبلیغ کے سلسلے، پرچم توحید کو بلند کرنے اور یکتا پرستی کے پرچار کرنے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا اور اپنی تمام جانی اور مالی حمایت کے ساتھ اپنی زندگی کی آخری سانس تک، رسول خدا (ص) کا ساتھ دیا اور اسی راہ میں جان کو جان آفرین کے سپرد کر دیا۔

اس تحریر میں ہم دین اسلام کی اس محسنہ بی بی کی بعض صفات و فضائل کا ذکر کریں گے:

1- خداوند اور جبرائیل کا حضرت خدیجہ (س) کے لیے سلام بھیجنا:

حضرت خدیجہ (س) کے خاص فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ خداوند اور حضرت جبرائیل نے اس بی بی پر سلام کیا ہے، جیسے کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہوا ہے کہ:

أتى جِبْرِيلُ النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رَسُولَ اللَّهِ هذه خَدِيجَةُ قد أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فيه إِدَامٌ أو طَعَامٌ أو شَرَابٌ فإذا هِي أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عليها السَّلَامَ من رَبِّهَا وَمِنِّي وَبَشِّرْهَا بِبَيتٍ في الْجَنَّةِ من قَصَبٍ لَا صَخَبَ فيه ولا نَصَبَ.

جبرائیل رسول خدا کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یہ خدیجہ آئی ہے اور اسکے پاس ایک برتن ہے کہ جس میں سالن یا غذا یا کوئی پینے والی چیز ہے۔ جب وہ آپکے پاس آئے تو خداوند اور میری طرف سے اسکو سلام دے دینا اور اسکو، جنت میں ایک ایسے گھر کی بشارت دیں کہ جو گھر جنتی بانس کا بنا ہوا ہے اور اس گھر میں کوئی شور وغیرہ اور اذیت نہیں ہے (یعنی آرام و سکون والا گھر ہو گا)۔

البخاري الجعفي، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفى256هـ)، صحيح البخاري، ج 3 ص 1389 ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير،

بالکل اسی روایت کی طرح کتاب صحیح مسلم میں بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے:

النيسابوري القشيري، ابو الحسين مسلم بن الحجاج (متوفى261هـ)، صحيح مسلم، ج 4 ص 1887، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

شمس الدين ذہبی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

متفق على صحته.

اس حدیث کے صحیح ہونے پر اتفاق نظر موجود ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 2 ص 113، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي،

شیعہ کتب میں بھی حضرت خدیجہ (س) پر خداوند اور جبرائیل کے سلام کا ذکر ہوا ہے:

عن زرارة و حمران و محمد بن مسلم عن أبي جعفر ع قال حدث أبو سعيد الخدري أن رسول الله ص قال: إن جبرئيل ع قال لي ليلة أسري بي حين رجعت و قلت يا جبرئيل هل لك من حاجة قال حاجتي أن تقرأ على خديجة من الله و مني السلام و حدثنا عند ذلك أنها قالت حين لقاها نبي الله صلى الله عليه و آله فقال لها الذي قال جبرئيل فقالت إن‏ الله‏ هو السلام‏ و منه السلام و إليه السلام و على جبرئيل السلام‏.

رسول خدا (ص) نے فرمایا: شب معراج جب جبرائیل مجھے آسمانوں کی طرف لے گیا تو واپس پلٹتے ہوئے میں نے جبرائیل سے کہا: کیا تمہاری کوئی حاجت ہے ؟ اس نے کہا: میری حاجت یہ ہے کہ خداوند کا اور میرا سلام خدیجہ کو دے دیں۔ رسول خدا جب زمین پر واپس آئے تو انھوں نے خداوند اور جبرائیل کے سلام کو حضرت خدیجہ تک پہنچایا۔ حضرت خدیجہ نے فرمایا: بے شک خداوند خود سلام ہے، اور اسی کی طرف سے سلام ہے اور اسی کی ہی طرف سلام پلٹ کر جاتا ہے اور جبرائیل پر بھی سلام ہو۔

عياشى، محمد بن مسعود، تفسير العياشي ؛ ج‏2 ؛ ص279  المطبعة العلمية - تهران، چاپ: اول، 1380 ق.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت)  ج‏16 ؛ ص7 دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

2- خداوند، رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) کی نگاہ میں حضرت خدیجہ (س) کے فضائل:

احادیث کی کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند، رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع)، حضرت خدیجہ (س) پر فخر و مباہات کیا کرتے تھے، بعض موارد کو یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے:

الف: خداوند متعال:

حضرت خدیجہ کے منجملہ فضائل میں سے ایک فضیلت، خداوند کا ان پر فخر و مباہات کرنا ہے۔ رسول خدا (ص) نے جب خداوند سے 40 دن تک انجام دینے والا عمل لیا اور قرار پایا کہ وہ 40 دن تک اپنی بیوی سے دور رہیں گے، تو رسول خدا (ص) نے اس پیغام کو، حضرت عمار ابن یاسر کے ذریعے سے حضرت خدیجہ (س) تک پہنچایا کہ:

يا خديجة لا تظني أن انقطاعي عنك [هجرة] و لا قلى‏ و لكن ربي عز و جل أمرني بذلك لتنفذ [لينفذ] أمره فلا تظني يا خديجة إلا خيرا فإن الله عز و جل ليباهي‏ بك‏ كرام‏ ملائكته‏ كل يوم مرارا.

اے خدیجہ ! آپ یہ خیال نہ کرنا کہ میرا آپ سے اس طرح دور ہونا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ مجھے آپ پر کوئی غصہ ہے، بلکہ یہ دوری اس لیے کہ مجھے خداوند نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اور میں حکم خداوندی کی تعمیل کے لیے ایسا کر رہا ہوں، اور آپ کے ذہن میں خیر اور نیکی کے علاوہ دوسرا کوئی گمان نہیں آنا چاہیے کہ خداوند ہر روز کئی مرتبہ آپکی وجہ سے ملائکہ پر فخر و مباہات کرتا ہے۔

علي بن يوسف المطهر الحلي (متوفي حدود 750 هـ)، العدد القوية لدفع المخاوف اليومية ص 220، محقق : السيد مهدي الرجائي

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏16 ؛ ص78، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

ب. پيامبر اکرم (ص):

رسول مکرم اسلام بھی حضرت خديجہ کے فضائل کا ذکر کیا کرتے تھے اور ایسی بیوی کے وجود پر فخر کیا کرتے تھے اور بہت احترام سے انھیں یاد کیا کرتے تھے:

خَدِيجَةُ وَ أَينَ‏ مِثْلُ‏ خَدِيجَةَ صَدَّقَتْنِي حِينَ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَ آزَرَتْنِي عَلَى دِينِ اللَّهِ وَ أَعَانَتْنِي عَلَيهِ بِمَالِهَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَمَرَنِي أَنْ أُبَشِّرَ خَدِيجَةَ بِبَيتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ الزُّمُرُّدِ لَا صَخَبَ فِيهِ وَ لَا نَصَب‏.

خديجہ اور کون خدیجہ کی طرح ہو سکتا ہے ! اس نے اس وقت میری تصدیق کی، جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور دین خدا پر اس نے میری مدد کی اور اپنے تمام اموال کے ساتھ میری حمایت کی۔ خداوند نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں خدیجہ کو جنت میں موجود، زمرد سے بنے ہوئے ایسے محل کی خوشخبری دوں کہ جس میں کسی قسم کی کوئی تکلیف و زحمت نہیں ہو گی۔

الموفق ابن احمد بن محمد المكي الخوارزمي (متوفي 568هـ)، المناقب، ص 350 ، تحقيق : الشيخ مالك المحمودي -

الإربلي، أبي الحسن علي بن عيسي بن أبي الفتح (متوفى693هـ)، كشف الغمة في معرفة الأئمة، ج 1 ص 370 ، ناشر: دار الأضواء ـ بيروت

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏43 ؛ ص 131، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

اور اسی طرح نقل ہوا ہے کہ ایک دن رسول خدا (ص) نے مسجد میں لوگوں کے سامنے امام حسن (ع)  اور امام حسین (ع)  کا ایسے تعارف کرایا:

يا أَيهَا النَّاسُ أَ لَا أُخْبِرُكُمُ الْيوْمَ بِخَيرِ النَّاسِ‏ جَدّاً وَ جَدَّةً؟ قَالُوا بَلَى يا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ عَلَيكُمْ بِالْحَسَنِ وَ الْحُسَينِ فَإِنَّ جَدَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ وَ جَدَّتَهُمَا خَدِيجَةُ الْكُبْرَى بِنْتُ خُوَيلِدٍ سَيدَةُ نِسَاءِ الْجَنَّة.

اے لوگو کیا آج میں تمہیں انکے بارے میں نہ بتاؤں کہ جو اپنے جدّ اور جدہ کے لحاظ سے سب لوگوں سے افضل ہیں ؟ سب نے مل کر جواب دیا: ہاں اے اللہ کے رسول ! رسول خدا نے فرمایا: تم پر حسن اور حسین کی پیروی کرنا لازم ہے، اسلیے کہ ان دونوں کے نانا رسول خدا اور دونوں کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں کہ جو جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

الطبري، عماد الدين أبي جعفر محمد بن أبي القاسم (متوفي525هـ)، بشارة المصطفى (ص) لشيعة المرتضى (ع)، ص 115 ، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني،

رسول خدا (ص) جب بستر شہادت پر تھے، حضرت زہرا (س) بہت پريشان اور گرئیے کی حالت میں تھیں۔ رسول خدا (ص) نے اپنی بیٹی حضرت زہرا کو حوصلہ دیا اور اس حالت میں بھی حضرت خدیجہ کو ان الفاظ میں یاد کیا:

إِنَّ عَلِياً أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ (عَزَّ وَ جَلَّ) وَ رَسُولِهِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، هُوَ وَ خَدِيجَةُ أُمِّك‏.

بے شک علی اور خدیجہ وہ ہیں کہ جہنوں نے اس امت میں سب سے پہلے خدا اور اسکے رسول پر ایمان لایا۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، الأمالي، ص 607 ، تحقيق : قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة،

اور رسول خدا (ص) نے ایک دن امام حسين (ع) کا ایسے تعارف کرایا:

أَيهَا النَّاسُ هَذَا الْحُسَينُ بْنُ عَلِي خَيرُ النَّاسِ جَدّاً وَ جَدَّةً جَدُّهُ رَسُولُ اللَّهِ سَيدُ وُلْدِ آدَمَ وَ جَدَّتُهُ خَدِيجَةُ سَابِقَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ إِلَى الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَ بِرَسُولِهِ.

اے لوگو یہ حسین ابن علی ہے کہ جو جدّ اور جدہ کے لحاظ سے، سب سے افضل ہے، اسکا نانا، رسول خدا کہ جو اولاد آدم کا سردار ہے اور اسکی نانی خدیجہ کہ جس نے خدا اور اسکے رسول پر ایمان لانے میں سب عورتوں پر سبقت حاصل کی ہے۔ (یعنی عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والی ہیں)

ابن طاووس الحلي، ابي القاسم علي بن موسي (متوفي664هـ)، الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف، ج 1 ص 119 ،

ج: اميرالمؤمنين علی ابن ابی طالب (ع):

وجود مقدس امير المؤمنين علی (ع) بھی حضرت خديجہ (س) کو اچھے الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے اور ان کے اور اپنے والد گرامی حضرت ابو طالب (ع) کے دنیا سے جانے کے غم پر اشک بہاتے تھے اور ان اشعار کو بھی پڑھتے تھے:

أَعَينَي جُودَا بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمَا

عَلَى هَالِكَينِ لَا تَرَى لَهُمَا مِثْلًا

عَلَى سَيدِ الْبَطْحَاءِ وَ ابْنِ رَئِيسِهَا

وَ سَيدَةِ النِّسْوَانِ أَوَّلِ مَنْ صَلَّى‏

مُهَذَّبَةٌ قَدْ طَيبَ اللَّهُ خِيمَهَا

مُبَارَكَةٌ وَ اللَّهُ سَاقَ لَهَا الْفَضْلَا

فَبِتُّ أُقَاسِي مِنْهُمَا الْهَمَّ وَ الثَّكْلَا

مُصَابُهُمَا أَدْجَى إِلَى الْجَوِّ وَ الْهَوَا

لَقَدْ نَصَرَا فِي اللَّهِ دِينَ مُحَمَّدٍ

عَلَى مَنْ بَغَا فِي الدِّينِ قَدْ رَعَيا إِلًّا.

میری دونوں آنکھوں سے اشکوں کی بارش برستی ہے، خداوند میری ان اشکوں کی بارش کو ان دو کے دنیا سے جانے والوں کے غم میں، مبارک قرار دے، کیونکہ وہ دونوں واقعا بے نظیر تھے۔

اے میری دو آنکھو ! سالار مکہ اور اسکے بیٹے (ابو طالب) کے غم میں اور اس عورتوں کی سردار کے غم میں اشک بہاؤ کہ جس نے سب سے پہلے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی،

اس پاک اخلاق و کردار والی خاتون کہ خداوند نے اسکی خیمہ گاہ کو پاکیزہ قرار دیا ہے، وہ ایسی پر برکت بی بی ہیں کہ جسکو خداوند نے فضائل کی شاہراہ پر گامزن کیا ہے۔

ان دونوں نے دین محمد کی خدا کے لیے مدد و حمایت کی اور آخری دم تک ظالموں اور ستمگروں سے اس راہ میں مقابلہ کرتے رہے۔

میں نے اس حالت میں شب کی ہے کہ ان دونوں کے غم و حزن سے دوچار ہوں اور ان دونوں کی جانسوز جدائی میں مبتلا ہوں کہ جس مصیبت نے میرے دنوں کو تاریک رات میں تبدیل کر دیا ہے۔

ميبدى، حسين بن معين الدين‏، (متوفي 911 هـ) ديوان أمير المؤمنين عليه السلام،‏ ص 359 ، مترجم: زمانى، مصطفى‏،

اسی طرح حضرت امیر (ع) نے حضرت خدیجہ کو عورتوں کی سردار میں سے ایک عورت قرار دیا ہے:

سادات نساء العالمين أربع : خديجة بنت خويلد ، وفاطمة بنت محمد ، وآسية بنت مزاحم ، ومريم بنت عمران.

عورتوں کی سردار چار عورتیں ہیں: خديجہ بنت خويلد، فاطمہ بنت محمد، آسيہ بنت مزاحم اور مريم بنت عمران.

إبن أبي‌ الحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 10 ص 156، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري،

 د: امام حسن مجتبی (ع):

امام حسن مجتبی (ع) بھی حضرت خدیجہ (س) کے بلند مقام کی وجہ سے ان پر فخر و مباہات کیا کرتے تھے۔

امام مجتبی نے سورہ انفطار کی آیت 18 فِي أَي صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ ، کے ذیل میں فرمایا ہے کہ:

صَوَّرَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلِي بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي ظَهْرِ أَبِي طَالِبٍ عَلَى صُورَةِ مُحَمَّدٍ فَكَانَ عَلِي بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَشْبَهَ النَّاسِ بِرَسُولِ اللَّهِ ص وَ كَانَ الْحُسَينُ بْنُ عَلِي أَشْبَهَ النَّاسِ بِفَاطِمَةَ وَ كُنْتُ أَنَا أَشْبَهَ‏ النَّاسِ‏ بِخَدِيجَةَ الْكُبْرَى.

خداوند نے علی ابن ابی طالب کو ابو طالب کی کمر میں، محمد (ص) کی صورت میں خلق فرمایا، پس اسی وجہ سے علی ابن ابی طالب (ع) لوگوں میں سب سے زیادہ رسول خدا (ص) کے مشابہے تھے اور حسین ابن علی (ع) لوگوں میں سب سے زیادہ فاطمہ (س) کے مشابہے تھے اور میں لوگوں میں سب سے اپنی جدہ زیادہ خدیجۃ الکبری (س) کے مشابہے ہوں۔

ابن شهرآشوب، رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي السروي المازندراني (متوفى588هـ)، مناقب آل أبي طالب، ج 4 ص 2 ، تحقيق: لجنة من أساتذة النجف الأشرف،

امام حسن (ع) کی خلافت کے دور میں جب معاویہ ملعون نے خلافت کو زبردستی اپنے ہاتھ میں لیا تو اس نے مسجد کوفہ کے منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیا اور علی ابن ابی طالب (ع) کو برا بھلا کہا، امام حسن (ع) بھی وہاں موجود تھے، انھوں نے معاویہ (لع) کو جواب دیتے ہوئے، اپنے نسب کا ایسے ذکر کیا:

أَيهَا الذَّاكِرُ عَلِياً أَنَا الْحَسَنُ وَ أَبِي عَلِي وَ أَنْتَ مُعَاوِيةُ وَ أَبُوكَ صَخْرٌ وَ أُمِّي فَاطِمَةُ وَ أُمُّكَ هِنْدٌ وَ جَدِّي رَسُولُ اللَّهِ وَ جَدُّكَ حَرْبٌ وَ جَدَّتِي خَدِيجَةُ وَ جَدَّتُكَ قُتَيلَةُ فَلَعَنَ اللَّهُ أَخْمَلَنَا ذِكْراً وَ أَلْأَمَنَا حَسَباً وَ شَرَّنَا قَدَماً وَ أَقْدَمَنَا كُفْراً وَ نِفَاقاً- فَقَالَ طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ آمِينَ آمِينَ.

اے علی کا ایسے (برائی کے ساتھ) ذکر کرنے والے، میں حسن ہوں اور میرا باپ علی ہے، تم معاویہ اور تمہارا باپ صخر ہے، میری والدہ فاطمہ ہیں اور تیری ماں ہند ہے، میرے جد رسول خدا ہیں اور تیرا جد حرب ہے، میری جدہ خدیجہ ہیں اور تیری جدہ قتیلہ ہے، پس خداوند ہم میں سے اس پر لعنت کرے کہ جسکا نام پلید تر اور جسکا حسب و نسب، پست تر ہے، اور جسکا ماضی بہت برا ہے اور جسکا کفر و نفاق پہلے سے تھا، مسجد کوفہ میں موجود سب لوگوں نے بلند آواز سے دو مرتبہ آمین کہا۔

البغدادي، الشيخ المفيد محمد بن محمد بن النعمان، العكبري ، _متوفي 413 ق_ ، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج 2 ص 15 ، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث،

اس عبارت میں امام حسن (ع) نے اپنے اور معاویہ کے حسب کا موازنہ کرتے ہوئے، فخر سے اپنی جدہ کے طور پر حضرت خدیجہ (س) کا ذکر کیا ہے۔

اسی طرح جب معاویہ مدینہ میں امیر المؤمنین علی (ع) کی برائی کرنا چاہتا تھا تو وہ ملعون منبر پر بیٹھ کر ادہر ادہر امام حسن (ع) کو دیکھنے لگا، امام حسن اچانک اسکے سامنے کھڑے ہو گئے اور فخر سے اپنے حسب و نسب کا ذکر کیا اور یہاں پر بھی فخر سے ام المؤمنین حضرت خدیجہ (س) کے نام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

كَانَ وَصِي رَسُولِ اللَّهِ مِنْ بَعْدِهِ وَ أَنَا ابْنُ عَلِي وَ أَنْتَ ابْنُ صَخْرٍ وَ جَدُّكَ حَرْبٌ وَ جَدِّي رَسُولُ اللَّهِ وَ أُمُّكَ هِنْدٌ وَ أُمِّي فَاطِمَةُ وَ جَدَّتِي‏ خَدِيجَةُ وَ جَدَّتُكَ نَثِيلَةُ فَلَعَنَ اللَّهُ أَلْأَمَنَا حَسَباً وَ أَقْدَمَنَا كُفْراً وَ أَخْمَلَنَا ذِكْراً وَ أَشَدَّنَا نِفَاقاً فَقَالَ عَامَّةُ أَهْلِ الْمَجْلِسِ آمِين‏.

بے شک علی ابن ابی طالب (ع)، رسول خدا (ص) کے بعد انکے وصی ہیں، اور میں علی کا فرزند اور تم صخر کے بیٹے ہو، تمہارا جد حرب ہے اور میرے جد رسول خدا ہیں، تمہاری ماں ہند ہے اور میری والدہ فاطمہ ہیں، اور میری جدہ خدیجہ ہیں اور تیری جدہ نثیلہ ہے، پس خداوند ہم میں سے اس پر لعنت کرے کہ جسکا نام پلید تر اور جسکا حسب و نسب، پست تر ہے، اور جسکا ماضی کفر و نفاق میں گزرا ہے۔ اس پر مسجد میں موجود اکثر لوگوں نے بلند آواز سے آمین کہا۔

الطبرسي، أبي منصور أحمد بن علي بن أبي طالب _متوفى 548 ق_، الاحتجاج، ج 1 ص 282 ، تحقيق: تعليق وملاحظات: السيد محمد باقر الخرسان،

نکتہ:

معاویہ کی جدہ (نانی) کے طور پر، تین نام ذکر ہوئے ہیں: نثيلہ، فتيلہ اور قتيلہ، یہ تو جدہ کی بات ہے، اہل سنت عالم زمخشری نے اپنی کتاب ربیع الابرار میں لکھا ہے کہ خود معاویہ کے چار باپ تھے۔۔۔۔

هـ: امام حسين سید الشہداء (ع):

وجود مقدس امام حسين (ع) نے بھی متعدد مقامات پر جیسے میدان کربلا میں لشکر دشمن کے سامنے اپنے نسب کا ذکر کرتے ہوئے، حضرت خدیجہ (س) کے نام کو ذکر کیا تھا۔ حالانکہ یزیدی لشکر کے سب لوگ، امام حسین (ع) کا پہچانتے تھے اور انکا حسب و نسب اور اجداد وغیرہ کسی پر مخفی نہیں تھے، لیکن پھر بھی اپنے بزرگان کا تعارف کراتے وقت اپنی جدہ حضرت خدیجہ کا نام لینا، یہ دشمن کے سامنے، حضرت خدیجہ کے بلند مقام پر دلالت کرتا ہے کہ جس پر امام حسین دشمن کے مقابلے پر فخر و مباہات کر رہے تھے۔

سيد الشہداء (ع) روز عاشورا دشمن کے لشکر کے سامنے کھڑے ہوئے، دشمن کی صفوں پر ایک نگاہ دوڑا کر، عمر سعد کے سامنے ایک خطبہ دیا اور فرمایا:

فَإِنِّي‏ ابْنُ‏ بِنْتِ‏ نَبِيكُمْ‏ وَ جَدَّتِي خَدِيجَةُ زَوْجَةُ نَبِيكُم.‏

بے شک میں تمہارے پیغمبر کا بیٹا ہوں اور میری جدہ تمہارے رسول کی زوجہ، خدیجہ ہیں۔

المجلسي، محمد باقر _متوفى1111ق_، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 45 ص 6 ، تحقيق: محمد الباقر البهبودي،

اسی طرح امام حسين (ع) نے ایک دوسرے خطبے میں لشکر دشمن کے سامنے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدِّي رَسُولُ اللَّهِ ص قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ أَبِي عَلِي بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ أُمِّي فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى ص قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتِي خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيلِدٍ أَوَّلُ‏ نِسَاءِ هَذِهِ‏ الْأُمَّةِ إِسْلَاماً قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَم‏.

تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا میرے نانا ہیں ؟ لشکر دشمن نے جواب دیا: ہاں، ہم جانتے ہیں، تم کو خدا کی قسم ہے کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری والدہ رسول خدا کی بیٹی، فاطمہ ہیں ؟ لشکر دشمن نے جواب دیا: ہاں، ہم جانتے ہیں، تم کو خدا کی قسم ہے کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میرے والد علی ابن ابی طالب ہیں ؟ لشکر دشمن نے جواب دیا: ہاں، ہم جانتے ہیں، تم کو خدا کی قسم ہے کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری جدہ خدیجہ بنت خویلد، اس امت کی پہلی مسلمان عورت ہیں ؟ سب نے جواب دیا: ہاں ہم جانتے ہیں۔

السيد ابن طاووس، الحسيني، علي بن موسي _متوفي 664 ق_ ، اللهوف في قتلى الطفوف، ص 86 ،

مرحوم شيخ كلينی نے زيارت حضرت علی اکبر (ع) میں ایسے لکھا ہے یہ:

السلام عليك يا ابن خديجة وفاطمة.

سلام ہو آپ پر اے خدیجہ اور فاطمہ کے فرزند،

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي، ناشر: اسلاميه‏، الطبعة الثانية،1362

بالکل یہی الفاظ امام حسین(ع) کی بعض زیارات میں بھی ذکر ہوئے ہیں:

ابن طاووس، رضي الدين علي بن موسي بن جعفر السيد ابن طاووس (متوفي664هـ)، الاقبال باالاعمال، ج 2 ص 63 ، تحقيق: جواد القيومي الاصفهاني،

و: امام سجاد (ع):

واقعہ کربلا کے بعد امام سجاد (ع) نے دربار یزید میں جب دیکھا کہ شراب کے نشے میں مست یزید ملعون، وحی خدا، دین خدا، رسول خدا (ص) اور انکے اہل بیت (ع) سب کی توہین اور سب کا نکار کر رہا ہے تو، امام نے دربار یزید میں ایک مفصل خطبہ پڑھا کہ جس میں بنی امیہ کو رسوا کر دیا:

يا مَعْشَرَ النَّاسِ فَمَنْ عَرَفَنَي فَقَدْ عَرَفَنِي وَ مَنْ لَمْ يعْرِفْنِي فَأَنَا أُعَرِّفُهُ نَفْسِي أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَ مِنًى أَنَا ابْنُ مَرْوَةَ وَ الصَّفَا أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى‏ ... أَنَا ابْنُ عَلِي الْمُرْتَضَى أَنَا ابْنُ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ أَنَا ابْنُ‏ خَدِيجَةَ الْكُبْرَى‏ أَنَا ابْنُ الْمَقْتُولِ ظُلْما....

اے لوگو ! جو مجھے پہچانتا ہے، وہ تو پہچانتا ہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا تو اسکے لیے میں اپنا تعارف ذکر کرتا ہوں۔ میں مکہ اور منا کا فرزند ہوں، میں زمزم اور صفا کا فرزند ہوں، میں محمد مصطفی کا فرزند ہوں۔۔۔۔۔ میں علی مرتضی ، فاطمہ زہرا اور خدیجۃ الکبری کا فرزند ہوں، میں اس (یعنی امام حسین) کا فرزند ہوں کہ جسے مظلوم قتل کیا گیا تھا۔

ابن شهرآشوب، رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي السروي المازندراني (متوفى588هـ)، مناقب آل أبي طالب، ج 4 ص 168 ، تحقيق: لجنة من أساتذة النجف الأشرف،

اسی طرح امام سجاد (ع) نے اہل بیت (ع) پر صلوات بھیجتے ہوئے، حضرت خدیجہ (س) کا بھی نام لیتے ہوئے فرمایا ہے:

اللهم صل على محمد المصطفى ، وعلى علي المرتضى ، و فاطمة الزهراء ، وخديجة الكبرى ، والحسن المجتبى ....

خدایا محمد مصطفی ، علی مرتضی ، فاطمہ زہرا ، خديجہ کبری اور حسن مجتبی صلوات الله عليہم اجمعين پر صلوات بھیج۔

الإمام زين العابدين (ع)، الصحيفة السجادية (ابطحي)، ص 400 ، تحقيق : السيد محمد باقر الموحد الابطحي الإصفهاني،

ز:                      امام صادق (ع):

وجود مقدس امام صادق (ع) نے بھی حضرت خديجہ کبری (س) کا احترام سے نام لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

وَ هِي‏ سَيدَةُ نِسَاءِ قُرَيشٍ‏، وَ قَدْ خَطَبَهَا كُلُّ صِنْدِيدٍ وَ رَئِيسٍ قَدْ أَبَتْهُمْ، فَزَوَّجَتْهُ نَفْسَهَا لِلَّذِي بَلَغَهَا مِنْ خَبَرِ بحيراء.

اور وہ قریش کی عورتوں کی سردار تھیں اور ہر حاکم و سردار نے اس سے شادی کرنے کے لیے رشتہ مانگا تھا، لیکن اس نے اسکے ساتھ شادی کی کہ جسکے بارے میں بحیراء نے خبر دی تھی۔

الحميري القمي، عبد الله بن جعفر (متوفاي 304ق)، قرب الاسناد، ص 325 ، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، ناشر : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث ، چاپخانه : مهر - قم، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1413 هـ .

بحيراء ایک مسیحی راہب تھا کہ جس کو علامات حسب و نسب وغیرہ کے ذریعے سے رسول خدا کے بارے میں علم ہو گیا تھا اور وہ انکے مبعوث ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔

ح:                               امام حسن عسكری (ع):

مرحوم سيد ابن طاووس نے امام حسن عسکری (ع) سے ایک دعا کو نقل کیا ہے کہ جس میں امام نے حضرت فاطمہ زہرا (س) پر صلوات بھیجتے ہوئے انکی والدہ حضرت خدیجہ (س) پر بھی صلوات بھیجی ہے:

فَصَلِ‏ عَلَيهَا وَ عَلَى‏ أُمِّهَا خَدِيجَةَ الْكُبْرَى صَلَاةً تُكْرِمُ بِهَا وَجْهَ أَبِيهَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَ آلِه‏.

خدایا ان (حضرت زہرا) پر اور انکی والدہ پر خدیجۃ الکبری پر درود بھیج۔۔۔۔۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاى460 ق)، مصباح المتهجد، ناشر : مؤسسة فقه الشيعة - بيروت

ی: حضرت زينب کبری (س):

حضرت زينب کبری (س) نے 11 محرم کو شہداء کے جنازوں کے قریب سے گزرتے ہوئے، خداوند سے عرض کیا:

بِأَبِي مُحَمَّدٌ الْمُصْطَفَى بِأَبِي‏ خَدِيجَةُ الْكُبْرَى‏.

میرے والد محمد مصطفی پر قربان ہوں، میرے والد خدیجۃ الکبری پر قربان ہوں،

السيد ابن طاووس، الحسيني، علي بن موسي _متوفي 664ق_ ، اللهوف في قتلى الطفوف، ص 134 ، 

ک: زيد ابن علی (عليہماالسلام):

زيد ابن علی (ع) نے اہل بیت (ع) کی حقانیت کو بیان کرتے ہوئے، حضرت خدیجہ (س) کے نام کو بھی ذکر کیا ہے، جیسا کہ فرات کوفی نے اسکے قول کو ایسے نقل کیا ہے:

فَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمَوَدَّةِ أَبُونَا رَسُولُ اللَّهِ وَ جَدَّتُنَا خَدِيجَةُ وَ أُمُّنَا فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ وَ أَبُونَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِي بْنُ أَبِي طَالِبٍ عليهم السلام.

ہم مودت کی نسبت سب سے زیادہ مناسب ہیں، ہمارے والد رسول خدا اور ہماری جدہ خدیجہ ہیں اور ہماری والدہ فاطمہ زہرا ہیں اور ہمارے والد علی ابن ابی طالب سلام اللہ علیہم اجمعین ہیں۔

الكوفي، فرات بن إبراهيم الكوفي( متوفي352هـ)، تفسير الفرات الكوفي، ص 246 ، تحقيق: محمد الكاظم،

اسی طرح زيد (ع) نے ابو الخطاب سے خطاب کرتے ہوئے ایسے کہا ہے:

[فَإِنَ‏] رَسُولَ اللَّهِ ص جَدُّنَا وَ الْمُؤْمِنُ الْمُهَاجِرُ مَعَهُ أَبُونَا وَ زَوْجَتُهُ‏ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيلِدٍ جَدَّتُنَا وَ بِنْتُهُ فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ أُمُّنَا.

رسول خدا ہمارے جد اور وہ مؤمن کہ جس نے انکے ساتھ ہجرت کی تھی، وہ ہمارے والد ہیں اور انکی زوجہ خدیجہ بنت خویلد، ہماری جدہ ہیں اور انکی بیٹی فاطمہ زہرا، ہماری والدہ ہیں۔

الكوفي، فرات بن إبراهيم الكوفي( متوفي352هـ)، تفسير الفرات الكوفي، ص 402 ، تحقيق: محمد الكاظم،

حضرت خدیجہ کبری (س) کی شخصیت پر حتی اہل بیت (ع) کے دشمن عبد اللہ ابن زبیر ناصبی نے بھی فخر و مباہات کیا ہے:

عبد الله ابن زبير کہ جسکی اہل بیت کے ساتھ دشمنی تاریخ اسلام میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، حتی اس ناصبی نے بھی حضرت خدیجہ کے وجود پر فخر کیا ہے، جیسا کہ اسکی اور ابن عباس کی گفتگو میں ایسے ذکر ہوا ہے کہ:

وأن عمتي‏ خديجة سيدة نساء العالمين‏.

اور میری پھوپھی خدیجہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں۔

إبن أبي‌الحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 9 ص 188 ، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري،

3- حضرت آدم (ع) کے کلام میں، حضرت خدیجہ کبری (س) کی برتری:

حضرت خدیج(س) کے بلند مقام و مرتبے کے بارے میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں، ان میں سے ایک روایت حضرت آدم (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ جو حضرت خدیجہ کی رسول خدا (ص) سے وفاداری کے بارے میں ہے کہ یہ روایت حضرت خدیجہ کی ولادت سے بھی بہت عرصہ پہلے نقل کی گئی تھی:

إني لسيد البشر يوم القيامة إلا رجل من ذريتي نبي من الأنبياء يقال له : محمد صلى الله عليه وآله، فضل علي باثنتين : زوجته عاونته وكانت له عونا ، وكانت زوجتي على عونا.

روز قیامت میں (آدم) تمام انسانوں کا سردار ہوں، مگر اپنی نسل میں سے ایک شخص کا کہ جو انبیاء میں سے ایک نبی ہے اور اسے محمد کہا جاتا ہے، وہ دو چیزوں کی وجہ سے مجھ سے برتر ہے، ایک یہ کہ اسکی زوجہ نے اسکی مدد کی اور اسکی حمایت کرنے والی تھی اور میری بیوی میرے ضرر میں میری، مدد کرنے والی تھی۔

المجلسي، محمد باقر _متوفى1111ق_، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 16 ص 12 ، تحقيق: محمد الباقر البهبودي،

الدولابي، الإمام الحافظ ابوبشر محمد بن أحمد بن حماد (متوفى 310هـ، الذرية الطاهرة النبوية، ج 1 ص 38 ، تحقيق: سعد المبارك الحسن،

کتب اہل سنت میں بھی یہی روایت، الفاظ کے تھوڑے فرق کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

عاصمی مکی نے کتاب سمط النجوم العوالی میں ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال آدم عليه الصلاة والسلام إني لسيد البشر يوم القيامة إلا رجلا من ذريتي نبيا من الأنبياء يقال له أحمد فضل علي باثنتين زوجته عاونته فكانت له عونا وكانت زوجتي عونا علي.

العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفى1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج 1 ص 431 ، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض،

الزرقاني المالكي، ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي بن يوسف بن أحمد بن شهاب الدين بن محمد (متوفي 1122 هـ)، شرح الزرقاني على المواهب اللدنيةبالمنح المحمدي، ج 4 ص 370 ، دار النشر: دار الكتب العلمية،

مرحوم شيخ صدوق نے ایک روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں تصریح کی ہے کہ حضرت خدیجہ (س)، رسول خدا (ص) کی تمام زوجات سے برتر اور افضل تھیں:

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق الطالقاني رضي الله عنه قال حدثنا الحسين بن علي بن الحسين السكري قال حدثنا محمد بن زكريا الجوهري عن جعفر بن محمد بن عمارة عن أبيه عن أبي عبد الله جعفر بن محمد الصادق ع قال: تزوج رسول الله ص بخمس عشرة امرأة و دخل بثلاث عشرة منهن و قبض عن تسع فأما اللتان لم يدخل بهما فعمرة و السنى‏  و أما الثلاث عشرة اللاتي دخل بهن فأولهن خديجة بنت خويلد ثم سورة [سودة] بنت زمعة ثم أم سلمة و اسمها هند بنت أبي أمية ثم أم عبد الله عائشة بنت أبي بكر ثم حفصة بنت عمر ثم زينب بنت خزيمة بن الحارث أم المساكين ثم زينب بنت جحش ثم أم حبيبة رملة بنت أبي سفيان ثم ميمونة بنت الحارث ثم زينب بنت عميس ثم جويرية بنت الحارث ثم صفية بنت حيي بن أخطب و التي‏ وهبت نفسها للنبي‏ ص خولة بنت حكيم السلمي و كان له سريتان يقسم لهما مع أزواجه مارية و ريحانة الخندفية و التسع اللاتي قبض عنهن عائشة و حفصة و أم سلمة و زينب بنت جحش و ميمونة بنت الحارث و أم حبيبة بنت أبي سفيان و صفية بنت حيي بن أخطب و جويرية بنت الحارث و سورة [سودة] بنت زمعة و أفضلهن‏ خديجة بنت خويلد ثم أم سلمة بنت أبي أمية ، ثم ميمونة بنت الحارث.

حضرت رسول خدا (ص) نے 15 عورتوں سے شادی کی تھی کہ ان میں سے 13 عورتوں کے ساتھ شادی کے بعد عمل شرعی بھی انجام دیا تھا، اور جب رسول خدا دنیا سے گئے تو انکی 9 زوجات زندہ تھیں۔ ان دو بیویوں کے نام کہ جنکے ساتھ رسول خدا نے ہمبستری انجام نہیں دی تھی، عمرۃ اور سنا تھا، اور وہ 13 بیویاں کہ جنکے ساتھ رسول خدا نے ہمبستری کی تھی، انکے نام یہ ہیں:

خديجہ بنت خويلد، سوده بنت زمعہ، اُمّ سلمہ ہند بنت ابی اميہ، عايشہ بنت ابی ­بکر، حفصہ بنت عمر، زينب بنت خزيمہ ابن حارث (معروف بہ اُمّ المساكين)، زينب بنت جحش، اُمّ حبيبہ رملہ بنت ابی سفيان، ميمونہ بنت حارث، زينب بنت عميس، جويريہ بنت حارث، صفيہ بنت حی ابن اخطب.

ایک عورت کہ جس نے خود کو رسول خدا کو ہدیئے کے طور پر پیش کیا تھا، وہ خولہ بنت حكيم سلمی تھی۔ رسول خدا کی دو کنیزیں، ماريہ قبطيہ و ريحانہ خندفيہ تھیں کہ وہ ان دونوں کے ساتھ بھی دوسری بیویوں کی طرح سلوک کیا کرتے تھے اور دوسری بیویوں کی طرح انکے لیے بھی ایک ایک دن خاص مقرر کیا ہوا تھا اور وہ 9 بیویاں کہ جو رسول خدا کی وفات کے وقت، زندہ تھیں، وہ عايشہ، حفصہ، اُمّ سلمہ، زينب بنت جحش، ميمونہ بنت حارث، ام حبيبہ، صفيہ، جويريہ، سودہ.

اور رسول خدا کی با فضیلت ترین زوجات میں، ام المؤمنين حضرت خديجہ، پھر ام المؤمنين ام سلمہ، اور پھر ام المؤمنين ميمونہ سلام الله عليہن کا نام لیا جا سکتا ہے۔

ابن بابويه، محمد بن على، الخصال، ص419، محقق: علي اكبر غفاري،

4- حضرت خدیجہ (س) کا اسلام کے اظہار کرنے میں سب پر سبقت لے جانا:

رسول خدا (ص) نے جب اپنی رسالت کی دعوت کو کھل کر سب کے لیے بیان کیا تو انکو بہت ہی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض مخالفین نے ان حضرت پر طرح طرح کی تہمتیں لگائیں اور بعض نے انکو ان کاموں کے کرنے سے منع کیا۔

لیکن وہ لوگ کہ جو اس راہ میں فقط خدا کی رضایت چاہتے تھے، وہ اسطرح کی دھمکیوں سے ڈرے بغیر، راہ اسلام اور راہ رسول خدا پر ثابت قدم رہے۔ اس راہ میں مردوں میں سب سے پہلے، علی ابن ابی طالب (ع) اور عورتوں میں سب سے پہلے، حضرت خدیجہ (س) تھیں کہ جہنوں نے نہ صرف اسلام کا کھل کر اظہار کیا بلکہ اپنی جان، اپنے مال سے ہر قدم پر رسول خدا کا ساتھ دیا۔

قابل توجہ ہے کہ حضرت خدیجہ کے وجود میں، اظہار اسلام سے پہلے بھی، ذرہ بھر شرک اور بت پرستی کا کوئی اثر نہیں تھا، بلکہ وہ بت پرستی، شراب اور دوسری شرک آلود کثافتوں سے پاک خاتون تھیں۔

حتی اس جاہلیت کے دور میں بھی حضرت خدیجہ، طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں، یعنی زمانہ جاہلیت کی تمام نجاستوں سے دور اور پاک تھیں۔

مذہب مالکی کے ایک عالم محمد ابن علوی مالكی نے اس بات پر تصریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وقد حفظها الله تعالى من أرجاس الجاهلية ، فأحاط عرض هذه السيدة الزكية وصانه من كل أذية و بلية برعايته وعنايته الباهرة ولذلك كانت تلقب بالسيدة الطاهرة.

خداوند نے انکو جاہلیت کی تمام نجاستوں سے حفظ کیا تھا اور خیر و نیکی کے ساتھ، اس پاک بی بی کو ہر طرف سے احاطہ کیا ہوا تھا اور اپنے خاص نورانی لطف سے انکو ہر اذیت و سختی و غم سے حفظ کیا ہوا تھا اور اسی وجہ سے (دور جاہلیت) میں  انکو سیدہ طاہرہ کا لقب دیا گيا تھا۔

محمد بن علوي المالكي، مناقب خديجة الكبرى، ص5 ، طبق نرم افزار مکتبة اهل البيت عليهم السلام.

امام حسین (ع) کی زیارت وارث میں ہے کہ:

لم تنجسک الجاهلية بأنجاسها.

کہ اے میرے مولا آپ جاہلیت کی نجاستوں سے نجس و ناپاک نہیں ہوئے تھے،

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت (ع) کے تمام والدین کہ ان میں سے ایک حضرت خدیجہ (س) بھی تھیں، موحد اور ایک خدا کو ماننے والے اور فقط اسی کی عبادت کرنے والے تھے، اور ذرہ بھر بھی شرک اور بت پرستی انکے وجود میں نہیں تھی۔

صاحب کتاب مكيال المكارم نے اہل بیت کے امانت الہی ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ:

المحفوظة يعني حفظها الله عز وجل عن أقذار الجاهلية وأنجاسها وأدناس الضلالة وأرجاسها بأن لم يودعها إلا الأصلاب الطاهرة والأرحام المطهرة فإن اعتقادنا كما عليه الإجماع بل الضرورة أن آباءهم الذين استودعوا تلك الأمانة الإلهية من الخاتم إلى آدم ، كانوا بأجمعهم مؤمنين طاهرين ، لم يشركوا بالله تعالى طرفة عين وكذلك أمهاتهم اللاتي استودعن تلك الأمانة كما في الزيارة " لم تنجسك الجاهلية بأنجاسها  ولم تلبسك من مدلهمات ثيابها " .

یعنی خداوند نے اس امانت کو جاہلیت کی ہر طرح کی پلیدی و کثافت اور گمراہیوں کی نجاست سے محفوظ رکھا ہے اور یہ کہ انکو پاکیزہ صلبوں اور پاک رحموں میں ہمیشہ قرار دیا ہے، کیونکہ شیعہ علماء بلکہ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ آئمہ اہل بیت کے تمام آباء (باپ) کہ جن میں یہ امانت الہی قرار دی گئی تھی _ از خاتم تا آدم _ تمام کے تمام مؤمن اور پاک تھے، حتی اک لمحے کے لیے بھی شرک کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، اسی طرح آئمہ اہل بیت کی مائیں (والدہ) بھی تھیں کہ جنکی رحم میں خداوند نے اپنی امانتوں کو قرار دیا تھا۔

الموسوي الأصفهاني، ميرزا محمد تقي (متوفي1348هـ)، مكيال المكارم في فوائد الدعاء للقائم (عليه السلام)، ج 1 ص 368 ، تحقيق العلامة السيد علي عاشور،

اس مقدمے کے بعد ، حضرت خدیجہ (س) کے عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کے بارے میں بیان کیا جا رہا ہے:

 کتاب امالی شيخ طوسی میں آیا ہے کہ:

سلمان الفارسي (رضي الله عنه)، قال: دخلت على رسول الله (صلى الله عليه و آله) في مرضه الذي قبض فيه، ...... قال: إن عليا أول من آمن بالله (عز و جل) و رسوله من هذه‏ الأمة، هو و خديجة أمك‏.

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ: اس بیماری میں کہ جس میں رسول خدا اس دنیا سے چلے گئے، میں انکے پاس گیا۔۔۔ ان حضرت نے (حضرت زہرا) فرمایا: بے شک علی اس امت کے پہلے شخص ہیں کہ جو خدا اور اسکے رسول پر ایمان لائے، علی اور تمہاری والدہ خدیجہ دو پہلے فرد ہیں کہ جو ایمان لے کر آئے۔

طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي (للطوسي) ؛ النص ؛ ص606 دار الثقافة - قم، چاپ: اول، 1414ق.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏22 ؛ ص502 دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

شيخ طوسی نے دوسری روایت کو ایسے نقل کیا ہے:

أخبرنا أبو عمر، قال: أخبرنا أحمد، قال: حدثنا أحمد بن محمد بن يحيى الجعفي، قال: حدثنا أبي، قال: حدثنا الحسين بن عبد الكريم- و هو أبو هلال الجعفي-، قال: حدثنا جابر بن الحر النخعي، قال: حدثني عبد الرحمن بن ميمون أبو عبد الله، عن أبيه، قال: سمعت ابن عباس يقول: أول من آمن برسول الله (صلى الله عليه و آله) من الرجال علي، و من‏ النساء خديجة (رضي الله عنهما).

ابن عباس نے کہا کہ: مردوں میں سب سے پہلے علی اور عورتوں میں سب سے پہلے خدیجہ ، رسول خدا پر ایمان لائے۔

طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي، ص259 ، دار الثقافة - قم، چاپ: اول، 1414ق.

مرحوم کراجکی نے ایک دوسری روايت محدثين سے ایسے نقل کیا ہے:

روى المحدثون و سطر المصنفون .. فكان أول من آمن به من‏ النساء خديجة و من الذكور أمير المؤمنين علي بن أبي طالب و عمره يومئذ عشر سنين‏.

محدثين نے نقل کیا اور مصنفين نے لکھا ہے کہ: پہلی عورت کہ جو رسول خدا پر ایمان لائی، وہ خدیجہ تھی اور مذکر افراد میں سب سے پہلے، امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب تھے اور اس وقت انکی عمر 10 سال تھی۔

كراجكى، محمد بن على، كنز الفوائد ؛ ج‏1 ؛ ص 256 دارالذخائر - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1410 ق.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏35 ؛ ص44 دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

مرحوم سيد ابن طاؤوس نے بھی ایسے لکھا ہے کہ:

وذلك أن رسول الله (ص) نبئ يوم الاثنين واسلم على يوم الثلاثاء ، ثم أسلمت خديجة بنت خويلد زوجة النبي.

رسول خدا پیر والے دن نبوت پر مبعوث ہوئے اور علی منگل والے دن اسلام لائے اور پھر رسول خدا کی زوجہ خدیجہ بنت خویلد ایمان لائیں۔

السيد ابن طاووس الحسني الحسيني، على بن موسى بن جعفر بن محمد بن طاووس، (المتوفى 664 ه‍) سعد السعود، ص 86  ، ص 106، الناشر : منشورات الرضى – قم، الطبعة : أمير – قم.

ابن کثير دمشقی نے اسلام لانے والی پہلی عورت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

أن خديجة أول من أسلمت من النساء.

بے شک خدیجہ عورتوں میں سے سب سے پہلے اسلام لائی۔

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774 هـ)، البداية والنهاية، ج 7 ص 223 ، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

ابن ہشام نے بھی حضرت خدیجہ (س) کے اسلام لانے والی فصل میں اور ان بی بی کے ایمان کے بارے میں لکھا ہے کہ:

إسلام خديجة بنت خويلد ... وكانت أول من آمن بالله وبرسوله وصدق بما جاء منه.

(فصل) :

خدیجہ کے اسلام کے بارے میں۔۔۔ وہ پہلی عورت تھی جو خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے کر آئی اور وہ (رسول خدا) جو کچھ خدا کی طرف سے لے کر آئے تھے، اس (خدیجہ) نے تصدیق کی۔

الحميري المعافري، ابومحمد عبد الملك بن هشام بن أيوب (متوفى213هـ)، السيرة النبوية، ج 2 ص 77 ، تحقيق: طه عبد الرءوف سعد، ناشر: دار الجيل، الطبعة: الأولى، بيروت – 1411هـ .

ذہبی نے بھی قثم ابن عباس کے حالات زندگی میں تصریح کی ہے کہ اسکی ماں دوسری عورت تھی کہ جو حضرت خدیجہ کے بعد ایمان لے کر آئی:

أمه هي أم الفضل لبابة بنت الحارث الهلالية ، وكانت ثانية امرأة أسلمت ، أسلمت بعد خديجة . قاله الكلبي.

اسکی ماں ام الفضل، لبابہ بنت حارث الھلالیہ ہے، وہ مسلمان ہونے والی دوسری عورت تھی، وہ خدیجہ کے بعد مسلمان ہوئی تھی، اس بات کو کلبی نے کہا ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 3 ص 440 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي،

5- ام المؤمنین حضرت خدیجہ (س) کا تمام زوجات نبی (ص) پر برتر ہونا:

عالم اہل سنت عینی نے حضرت خدیجہ کبری (س) کی برتری کو ایسے نقل کیا ہے:

وهل هي أفضل من خديجة بنت خويلد فيه خلاف فقال بعضهم عائشة أفضل وقال آخرون خديجة أفضل وبه قال القاضي والمتولي وقطع ابن العربي المالكي وآخرون وهو الأصح.

اور کیا وہ (عائشہ) خدیجہ بنت خویلد سے افضل ہے ؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ عائشہ افضل ہے اور بعض نے کہا ہے کہ خدیجہ افضل ہے اور یہ قاضی اور متولی کا قول تھا، اسی قول کے بارے میں ابن عربی مالکی اور دوسروں نے یقین کا اظہار کیا ہے اور یہی قول صحیح تر ہے۔

العيني الغيتابي الحنفي، بدر الدين ابو محمد محمود بن أحمد (متوفي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 1 ص 38 ، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

عاصمی مکی نے بھی حضرت خدیجہ کی برتری کے بارے میں اہل سنت علماء کے اقوال کو نقل کیا ہے:

قال الشيخ ولي الدين العراقي خديجة افضل أمهات المؤمنين على الصحيح المختار.

وقال شيخ الإسلام زكريا الأنصاري في شرح بهجة الحاوي المسمى بالغرر البهية في شرج البهجة الوردية افضلهن خديجة وعائشة وفي افضليتهما خلاف صحح ابن العماد تفضيل خديجة لما ثبت أنه قال لعائشة حين قالت له لا تزال تلهج بذكر خديجة إن هي إلا عجوز من عجائز قريش كأنى انظر إلى حمرة شدقيها ودردرها وقد رزقك الله خيرا منها فقال عليه الصلاة والسلام لا والله ما رزقني خيرا منها آمنت حين كفر بي الناس وصدقتني حين كذبني الناس واعطتني مالها حين حرمني الناس.

وسئل ابن داود ايهما افضل فقال عائشة اقرأها النبي السلام عن جبريل وخديجة اقرأها السلام جبريل من ربها على لسان محمد فهي أفضل.

وسئل العلامة السبكي عن ذلك فقال الذي نختاره وندين الله به إن فاطمة بنت محمد افضل من امها خديجة ثم امها خديجة ثم عائشة.

وقال ابن النقاش إن سبق خديجة وتأثيرها في أول الإسلام ومؤازرتها ونصرتها وقيامها في الدين لله بمالها ونفسها لم يشركها فيه أحد لا عائشة ولا غيرها من أمهات المؤمنين.

شيخ ولی الدين عراقی نے کہا ہے: اس قول صحیح کے مطابق کہ جسکا میں بھی قائل ہوں، خدیجہ امہات المؤمنین میں سب سے افضل ہے،

شيخ الاسلام زکريا انصاری نے کتاب شرح بهجة الحاوی کہ اسکا نام الغرر البهية في شرح البهجة الوردية ہے، میں ایسے کہا ہے کہ: افضل زوجات (نبی) خدیجہ اور عائشہ ہیں، اور یہ کہ ان میں کون افضل ہے،

ابن عماد حنبلی نے خدیجہ کے افضل ہونے کو صحیح قرار دیا ہے، اس روایت کی وجہ سے کہ عائشہ رسول خدا کے حضرت خدیجہ کو زیادہ یاد کرنے کی وجہ سے بالکل خوش نہیں توتی تھی اور کہتی تھی کہ: وہ قریش کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بوڑھی عورت تھی اور گویا ایسے ہے کہ میں اب بھی اسکے منہ اور سرخ رنگ کے مسوڑوں کو دیکھ رہی ہوں، حالانکہ خدا نے اب اس سے بہتر عورت آپکو دی ہے۔ تو اس پر رسول خدا نے عائشہ سے فرمایا:

خدا کی قسم ایسا بالکل نہیں ہے (یعنی خداوند نے مجھے خدیجہ سے اچھی بیوی عطا نہیں کی ہے)، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی تھی کہ جب لوگوں نے میری نبوت کا انکار کیا تھا اور اس نے اس وقت میری تصدیق کی تھی کہ جب لوگوں نے جھٹلا دیا تھا اور اس نے اس وقت اپنے سارے مال کو مجھے دیا تھا کہ جب لوگ اپنے مال سے میری مدد نہیں کرتے تھے۔

ابو داود ظاہری سے سوال ہوا کون افضل ہے ؟ اس نے کہا: عائشہ، رسول خدا نے جبرائیل کے سلام کو اس تک پہنچایا تھا، اور خدیجہ، جبرائیل نے خداوند کی طرف سے سلام کو محمد تک پہنچایا (اور انھوں نے حضرت خدیجہ تک خداوند کے سلام کو پہنچایا)، پس وہ (حضرت خدیجہ) افضل ہیں۔

سبکی سے بھی اسی بارے میں سوال ہوا تو اس نے جواب دیا: وہ قول کہ جسکو ہم نے پسند کیا ہے اور اسی قول کی وجہ سے ہم خدا کے دین کے پابند بھی ہیں، وہ یہ ہے کہ فاطمہ بنت محمد، اپنی والدہ خدیجہ سے افضل ہے اور پھر خدیجہ اور پھر عائشہ افضل ہے، (یعنی حضرت خدیجہ، عائشہ سے افضل ہے)۔

ابن نقاش سے بھی اسی طرح کا قول نقل ہوا ہے۔۔۔۔

العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفى1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج 1 ص 431-434 ، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض،

سبکی کی اس عبارت، کو کہ جسے عاصمی نے اس سے نقل کیا ہے، ابن حجر نے اپنی کتاب فتح الباری میں بھی ذکر کیا ہے:

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفى852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 7 ص 109 ، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة – بيروت،

اس نے اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ رسول خدا کے لیے جب بھی کوئی چیز ہدئیے کے طور پر لائی جاتی تو ، وہ اس چیز میں سے حضرت خدیجہ کی دوستوں کے لیے بھی بھیجتے تھے، اس نے ایسے لکھا ہے کہ:

وعن أنس رضي الله عنه قال كان رسول الله إذا أتى بشيء يقول اذهبوا به إلى بيت فلانة فإنها كانت صديقة لخديجة.

انس سے نقل ہوا ہے کہ: جب بھی کوئی چیز رسول خدا (ص) کے لیے لائی جاتی تو وہ فرماتے: فلانی عورت کے گھر اس چیز کو لے جاؤ، کیونکہ وہ خدیجہ کی دوست ہے۔

البخاري الجعفي،  ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفى256هـ)، الأدب المفرد، ج 1 ص 90 ، تحقيق: محمد فؤاد عبدالباقي، ناشر: دار البشائر الإسلامية - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1409هـ ـ 1989م.

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفى354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 15 ص 467 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر:مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م.

الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفى405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 4 ص 194 ، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990 م .

حاکم نيشاپوری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه.

اس حدیث کی سند صحیح ہے، اسکے باوجود بھی بخاری اور مسلم نے اسکو اپنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا۔

اسی طرح نقل ہوا ہے کہ: جب بھی بھیڑ وغیرہ کو ذبح کیا جاتا تو، رسول خدا حکم دیتے کہ تھوڑے سے گوشت کو حضرت خدیجہ کی دوستوں کے لیے لے جاؤ، اور اسی وجہ سے عائشہ کو غصہ آتا اور وہ اسی وجہ سے رسول خدا کو بھی اذیت کیا کرتی تھی، جیسا کہ مسلم ابن حجاج نيشاپوری نے لکھا ہے کہ:

حدثنا سَهْلُ بن عُثْمَانَ حدثنا حَفْصُ بن غِيَاثٍ عن هِشَامِ بن عُرْوَةَ عن أبيه عن عَائِشَةَ قالت ما غِرْتُ على نِسَاءِ النبي صلى الله عليه وسلم إلا على خَدِيجَةَ وَإِنِّي لم أُدْرِكْهَا قالت وكان رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إذا ذَبَحَ الشَّاةَ فيقول أَرْسِلُوا بها إلى أَصْدِقَاءِ خَدِيجَةَ قالت فَأَغْضَبْتُهُ يَوْمًا فقلت خَدِيجَةَ فقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إني قد رُزِقْتُ حُبَّهَا.

عا‏ئشہ کہتی ہے کہ: میں خدیجہ کے علاوہ رسول خدا کی کسی بیوی پر بھی حسد نہیں کرتی تھی، حالانکہ میں نے اسے دیکھا نہیں تھا، اور رسول خدا جب بھیڑ کو ذبح کرتے تھے تو حکم دیتے تھے کہ اس گوشت سے خدیجہ کی دوستوں کے لیے بھی بھیج دو۔ عائشہ کہتی ہے کہ: ایک دن میں نے اسی وجہ سے رسول خدا کو غصہ دلا کر ناراض کیا۔ رسول خدا نے فرمایا: اس سے محبت کرنا، میری قسمت میں لکھا جا چکا ہے۔

النيسابوري القشيري، ابوالحسين مسلم بن الحجاج (متوفى261هـ)، صحيح مسلم، ج 4 ص 1888 ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

اسی معنی و مضمون کی روایات اہل سنت کی مندرجہ ذیل معتبر کتب بھی نقل کی گئی ہیں:

البخاري الجعفي، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفى256هـ)، صحيح البخاري، ص 1332 ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

الشيباني، أحمد بن حنبل ابوعبدالله (متوفي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 6   ص 117، ح24908، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

الطبراني، سليمان بن أحمد بن أيوب ابوالقاسم (متوفي360هـ)، المعجم الكبير، ج 23 ص11، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ – 1983م.

النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفي 463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب،  ج 4 ص1823ـ1824، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم،  ج 3 ص 18 ، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358؛

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفي 597 هـ)، صفة الصفوة،  ج 2 ص 8، تحقيق: محمود فاخوري - د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م؛

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة،  ج 7 ص 95، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996م؛

النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب،ج 18 ص 113،  تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م؛

الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفي764هـ)، الوافي بالوفيات،  ج 13 ص 182، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

 6- حضرت خدیجہ (س) بہشت میں حضرت مریم اور آسیہ کے ساتھ:

شیخ طوسی نے حضرت خدیجہ (س) کے جنت میں مقام و مرتبے کے بارے میں روایت کو ایسے نقل کیا ہے:

أخبرنا محمد بن محمد، قال: أخبرنا أبو القاسم جعفر بن محمد، عن أبيه، عن سعد بن عبد الله، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن العباس بن عامر القصباني، عن أبان بن عثمان الأحمر، عن بريد العجلي، قال: سمعت أبا عبد الله جعفر بن محمد (عليهما السلام) يقول: لما توفيت خديجة (رضي الله عنها) جعلت فاطمة (صلوات الله عليها) تلوذ برسول الله (صلى الله عليه و آله) و تدور حوله، و تقول: يا أبت، أين أمي قال: فنزل جبرئيل (عليه السلام) فقال له: ربك يأمرك أن تقرئ فاطمة السلام، و تقول لها: إن أمك في بيت من قصب، كعابه‏ من ذهب، و عمده ياقوت أحمر، بين آسية و مريم بنت عمران، فقالت فاطمة (عليها السلام): إن‏ الله‏ هو السلام‏، و منه السلام، و إليه السلام.

امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: جب حضرت خدیجہ نے وفات پائی تو حضرت زہرا کہ جو اس وقت کمسن تھیں، وہ ہمیشہ اپنے والد گرامی کے گرد چکر لگاتیں اور سوال کرتیں کہ اے بابا میری ماں کہاں ہیں ؟

امام نے فرمایا کہ: اسی وقت جبرائیل رسول خدا پر نازل ہوتے اور کہتے کہ خداوند فرما رہے ہیں کہ: فاطمہ کو میرا سلام دیں اور اس سے کہیں کہ تمہاری ماں جنت میں بانس سے بنے ایک گھر میں ہیں کہ جسکی دیواریں سونے اور اس گھر کے ستون، سرخ یاقوت سے بنے ہوئے ہیں، اور وہ فرعون کی بیوی، آسیہ اور مریم بنت عمران کے پاس رہتیں ہیں، اور حضرت فاطمہ یہ سن کر فرماتیں: خداوند، خود سلام ہیں اور انہی  کی طرف سے بھی سلام ہے اور سلام بھی انہی کی طرف پلٹ کر جاتا ہے۔

طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي (للطوسي) ص175، دار الثقافة - قم، چاپ: اول، 1414ق.

 7- مقام شفاعت حضرت خديجہ کبری (س):

روایت میں نقل ہوا ہے کہ حضرت خدیجہ (س) قیامت والے دن، پنجتن آل عبا (ع) کے ساتھ مل کر شیعیان کی شفاعت فرمائیں گی:

علي بن محمد بن علي بن سعد الأشعري‏ عن حمدان بن يحيى‏  عن بشر بن حبيب، عن أبي عبد الله ع‏ أنه سئل عن قول الله عز و جل‏ و بينهما حجاب و على الأعراف رجال‏  قال: «سور بين الجنة و النار، قائم عليه محمد  صلي الله عليه وآله و علي و الحسن و الحسين و فاطمة و خديجة ع فينادون: أين محبونا أين شيعتنا، فيقبلون إليهم فيعرفونهم بأسمائهم و أسماء آبائهم، و ذلك قوله تعالى‏ يعرفون كلا بسيماهم‏  فيأخذون بأيديهم (فيجوزون بهم) الصراط و يدخلونهم الجنة،

بشر ابن حبيب کہتا ہے کہ امام صادق (ع) سے آیت: ان دونوں کے درمیان، پردہ ہے اور اعراف کے مقام پر افراد ہیں، کی تفسیر کے بارے میں سوال ہوا، تو امام نے فرمایا: جنت اور جہنم کے درمیان دیوار ہے، رسول خدا، علی، حسن، حسين، فاطمہ اور خديجہ عليہم السلام اس پر کھڑے ہو کر فریاد دیں گے، ہم سے محبت کرنے والے اور ہمارے شیعہ کہاں ہیں ؟ انکے محبین اور شیعیان کو انکے پاس لایا جائے گا کہ اہل بیت ان سب کو انکے ناموں اور انکے آباء (باپ) کے ناموں سے پہچانتے ہوں گے، یہ تفسیر ہے آیت: وہ ان سب کو انکے چہروں سے پہچانتے ہیں، کی۔ وہ (اہل بیت) انکے ہاتھوں سے پکڑ کر پل صراط سے گزار کر، انکو جنت میں داخل کر دیں گے۔

حلى، حسن بن سليمان بن محمد، مختصر البصائر ،ص174 مؤسسة النشر الإسلامي - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1421 ق.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏24 ؛ ص255، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

8. بہشت حضرت خديجہ (س) کی مشتاق ہے:

روایت میں نقل ہوا ہے کہ جنت چار عورتوں کی مشتاق ہے، (یعنی جنت چاہتی ہے کہ یہ عورتیں اس میں تشریف لا کر مجھے شرف بخشیں)، ان چار میں سے ایک حضرت خدیجہ بھی ہیں۔

علامہ مجلسی نے روایت کو ایسے نقل کیا ہے کہ:

و من كتاب مولد فاطمة لابن بابويه روي أن النبي ص قال: اشتاقت‏ الجنة إلى‏ أربع‏ من النساء مريم بنت عمران و آسية بنت مزاحم زوجة فرعون و هي زوجة النبي ص في الجنة و خديجة بنت خويلد زوجة النبي ص في الدنيا و الآخرة و فاطمة بنت محمد ص.

ابن بابویہ کی کتاب مولد فاطمہ میں روایت نقل ہوئی ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا: جنت چار عورتوں کی مشتاق ہے: مريم بنت عِمران، آسيہ زوجہ فرعون کہ جو بہشت میں رسول خدا کی زوجہ ہو گی، خديجہ (س) کہ جو دنیا اور آخرت میں رسول خدا کی زوجہ ہیں، اور حضرت فاطمہ (س)۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،  بحار الأنوار (ط - بيروت) ، ج‏43 ، ص53 دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ حضرت خدیجہ (س) کا جنت میں مخصوص خیمہ (مخصوص مقام و ٹھکانہ) ہے:

حدثنا أحمد بن محمد عن جعفر بن محمد بن مالك الكوفي عن محمد بن عمار عن أبي بصير قال: كنت عند أبي عبد الله ع فركض برجله الأرض فإذا بحر فيه سفن من فضة فركب و ركبت معه حتى انتهى إلى موضع فيه خيام من فضة فدخلها ثم خرج فقال رأيت الخيمة التي دخلتها أولا فقلت نعم قال تلك خيمة رسول الله ص و الأخرى‏ خيمة أمير المؤمنين ع و الثالث خيمة فاطمة و الرابعة خيمة خديجة و الخامسة خيمة الحسن و السادسة خيمة الحسين و السابعة خيمة علي بن الحسين و الثامنة خيمة أبي و التاسعة خيمتي و ليس أحد منا يموت إلا و له خيمة يسكن فيها.

ابو بصير نے کہا ہے کہ میں امام صادق کی خدمت میں حاضر تھا کہ انھوں نے اپنے پاؤں کو زمین پر مارا، تو وہاں پر ایک دریا نمودار ہو گیا کہ جس میں چاندی کی بنی کشتیاں تھیں، میں اور امام ایک کشتی پر سوار ہو کر ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں پر چاندی سے بنے خیمے لگے ہوئے تھے، امام ایک خیمے میں داخل ہو کر پھر باہر نکل آئے، اور مجھ سے فرمایا: تم نے دیکھا ہے نا کہ میں پہلے خیمے میں داخل ہوا تھا، میں (ابوبصیر) نے کہا: ہاں، امام نے فرمایا: وہ رسول خدا کا خیمہ ہے، دوسرا خیمہ امیر المؤمنین (ع) کا ہے، تیسرا خیمہ فاطمہ کا ہے، چوتھا خیمہ خدیجہ کا ہے، پانچواں خیمہ امام حسن کا ہے، چھٹا خیمہ امام حسین کا ہے، ساتواں خیمہ علی ابن الحسین کا ہے، آٹھواں خیمہ میرے والد گرامی (امام باقر) کا ہے اور نواں خیمہ میرا ہے، ہم میں سے جو بھی دنیا سے جاتا ہے تو اسکے لیے ایک خیمہ ہوتا ہے کہ جس میں وہ سکونت اختیار کر لیتا ہے۔

صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات في فضائل آل محمد صلى الله عليهم، ؛ ج‏1 ؛ ص405 مكتبة آية الله المرعشي النجفي - ايران ؛ قم، چاپ: دوم، 1404 ق.

9. حضرت خديجہ (س) مقربين اور سابقين میں سے ہیں:

علامہ مجلسی نے روایت کو ایسے نقل کیا ہے کہ:

عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه عن النبي ص قال: قوله تعالى‏ و مزاجه من تسنيم‏ قال هو أشرف شراب في الجنة يشربه محمد و آل محمد و هم المقربون‏ السابقون‏ رسول الله ص و علي بن أبي طالب و الأئمة و فاطمة و خديجة صلوات الله عليهم و ذريتهم الذين اتبعتهم بإيمان ليتسنم عليهم من أعالي دورهم.

جابر ابن عبد اللہ نے رسول خدا سے آیت و مزاجه من تسنيم‏، کے بارے میں نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا: وہ جنت میں عالی ترین مشروب ہے کہ جسے محمد و آل محمد نوش فرمائیں گے، مقربین اور سابقون کا مصداق رسول الله (ص) ، على ابن ابى طالب، فاطمہ، خديجہ عليہم السلام اور انکی اولاد ہے کہ جو ایمان کے لحاظ سے انکی اتباع کرنے والے تھے، یہ نہر انکے بہشتی گھروں کے اوپر سے ان پر جاری ہو گی۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ج‏8  ص150،دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

10- حضرت خدیجہ (س) کا اپنا سارا مال اسلام اور رسول خدا (ص) کی راہ میں خرچ کرنا:

ابن عباس سے آیت «وَ وَجَدَكَ عائِلاً فَأَغْنى‏» کے ذیل میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا کو حضرت خدیجہ کے اموال سے بے نیاز کیا گیا تھا۔

شيخ صدوق نے روايت کو ایسے نقل کیا ہے:

حدثنا أحمد بن الحسن القطان قال حدثنا أحمد بن يحيى بن زكريا القطان قال حدثنا بكر بن عبد الله بن حبيب قال حدثنا تميم بن بهلول عن أبيه عن أبي الحسن‏ العبدي عن سليمان بن مهران عن عباية عن ابن عباس قال: سألته‏ عن قول الله عز و جل‏ أ لم يجدك يتيما فآوى‏  قال إنما سمي يتيما لأنه لم يكن له نظير على وجه الأرض من الأولين و لا من الآخرين فقال الله عز و جل ممتنا عليه بنعمته- أ لم يجدك يتيما أي وحيدا لا نظير لك- فآوى‏ إليك الناس و عرفهم فضلك حتى عرفوك و وجدك ضالا يقول منسوبا عند قومك إلى الضلالة فهداهم لمعرفتك- و وجدك عائلا يقول فقيرا عند قومك يقولون لا مال لك فأغناك‏ الله بمال خديجة ثم زادك من فضله فجعل دعاءك مستجابا حتى لو دعوت على حجر أن يجعله الله لك ذهبا لنقل عينه إلى مرادك و أتاك بالطعام حيث لا طعام و أتاك بالماء حيث لا ماء و أغاثك بالملائكة حيث لا مغيث فأظفرك بهم على أعدائك.

عبايہ کہتا ہے کہ ابن عباس سے اس آیت ألم يجدك يتيما فآوى‏،

کیا خداوند نے آپکو یتیم پا کر اپنی پناہ میں حفظ نہیں کیا، کے بارے سوال ہوا کہ حضرت کو یتیم کیوں کہا گیا ؟

اس پر ابن عباس نے کہا: اس وجہ سے ان حضرت کو یتیم کہا گیا ہے کہ اس روئے زمین پر اولین اور آخرین میں سے انکی مثل کوئی نہیں تھا، پس خداوند نے اپنی نعمت کا ذکر کرنے کے لیے فرمایا: ألم يجدك يتيما فآوى‏، یعنی کیا آپ تنہا نہ تھے اور کوئی آپکا مثل نہیں تھا، پس خداوند نے لوگوں کو آپکی طرف متوجہ کیا اور آپکی فضیلت کو لوگوں پر ظاہر کیا، اسی وجہ سے ان لوگوں نے آپکو پہچان لیا،

«و وجدك ضالا فهدى»‏، آپکے دشمن اپنی قوم و قبائل میں آپکو گمراہ کہتے تھے، پس خداوند نے آپکے وسیلے سے انکی ہدایت کی،

«و وجدك عائلا فأغنى‏»، اور وہ آپکو فقیر و محتاج کہتے تھے، پس خداوند نے خدیجہ کے اموال سے آپکو مالدار اور بے نیاز کر کے آپکی عزت کو زیادہ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن بابويه، محمد بن على، معاني الأخبار ؛ النص ؛ ص52 دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم - قم، چاپ: اول، 1403 ق.

اہل سنت کے مفسر سمرقندی نے بھی ایسے ہی لکھا ہے کہ:

ثم قال عز وجل (ووجدك عائلا فأغنى) يعني وجدك فقيرا بلا مال فأغناك بمال خديجة.

پھر خداوند نے فرمایا: ووجدك عائلا فأغنى، یعنی آپ فقیر تھے اور کوئی مال آپکے پاس نہیں تھا اور ہم نے خدیجہ کے مال سے آپکو غنی و بے نیاز کر دیا۔

السمرقندي، نصر بن محمد بن أحمد ابوالليث (متوفى367 هـ)، تفسير السمرقندي المسمي بحر العلوم، ج 3 ص 568 ، تحقيق: د. محمود مطرجي، ناشر: دار الفكر - بيروت.

11- حضرت خديجہ (س) سورہ فرقان میں، مصداق «ازواجنا»:

تفسير فرات کوفی میں نقل ہوا ہے کہ:

[فرات‏] قال حدثني علي بن حمدون [قال حدثنا علي بن محمد بن مروان قال حدثنا علي بن يزيد عن جرير عن عبد الله بن وهب عن أبي هارون‏] عن أبي سعيد في قوله [تعالى‏] «هب لنا من أزواجنا و ذرياتنا قرة أعين و اجعلنا للمتقين إماما» قال النبي ص قلت [لجبرئيل‏ ع يا جبرئيل‏] من أزواجنا قال خديجة قال قلت و من ذرياتنا قال فاطمة قلت و من قرة أعين قال الحسن و الحسين قلت‏ و اجعلنا للمتقين إماما [و من للمتقين إماما] قال علي بن أبي طالب عليه السلام.

ابو سعيد خدری سے آيت: خداوندا ہماری بیویوں اور اولاد کو ہمارے لیے باعث سکون قرار دے اور ہمیں متقی لوگوں کے لیے راہنما قرار دے، نقل ہوا ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا:

میں نے جبرائیل سے کہا اے جبرائیل اس آیت میں ازواجنا سے مراد کون ہے ؟ اس نے جواب دیا: خدیجہ (س)، پھر سوال فرمایا:

ذرياتنا سے مراد کون ہیں ؟ اس نے کہا: فاطمہ (س)، پھر سوال فرمایا: قره اعين سے مراد کون ہیں ؟ اس نے جواب دیا: حسن (ع) و حسين (ع)، پھر فرمایا: واجعلنا للمتقين اماما، سے مراد کون ہے ؟ اس نے جواب دیا: علی ابن ابی طالب (ع).

كوفى، فرات بن ابراهيم، تفسير فرات الكوفي ، ص294، مؤسسة الطبع و النشر في وزارة الإرشاد الإسلامي - تهران، چاپ: اول، 1410 ق.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ، ج‏24 ، ص135، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

بحرانى، سيد هاشم بن سليمان، البرهان في تفسير القرآن ، ج‏4 ، ص156، مؤسسه بعثه - قم، چاپ: اول، 1374 ش.

قمى، على بن ابراهيم، تفسير القمي، ج‏2 ، ص117 دار الكتاب - قم، چاپ: سوم، 1404ق.

بحرانى، سيد هاشم بن سليمان، البرهان في تفسير القرآن ، ج‏4، ص156، مؤسسه بعثه - قم، چاپ: اول، 1374 ش.

 12- حضرت خديجہ (س) کا حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی بیعت کرنا:

رسول خدا (ص) کی رسالت کا اعلان ہونے کے بعد سب سے پہلے حضرت علی (ع) اور حضرت خديجہ کبری (س) نے ان پر ایمان لایا اور ان حضرت کی بیعت کی، بیعت کے بعد رسول خدا (ص) نے حضرت خدیجہ سے چاہا کہ میرے بعد والے امام یعنی حضرت علی (ع) کی بھی بیعت کریں اور انکی ولایت کا اقرار کریں، اس پر حضرت خدیجہ نے فورا مولا علی (ع) کی بیعت کر لی:  

ثم قال يا خديجة هذا علي مولاك و مولى المؤمنين و إمامهم بعدي قالت صدقت يا رسول الله قد بايعته‏ على‏ ما قلت‏ أشهد الله‏ و أشهدك‏  و كفى بالله شهيدا عليما.

پھر رسول خدا نے فرمایا: اے خدیجہ ! یہ علی ہے، تمہارے مولا اور میرے بعد ہر مؤمن کے مولا ہیں، خدیجہ نے کہا: آپ نے صحیح فرمایا ہے اے رسول خدا، میں نے آپکے کہنے کے مطابق انکی بیعت کر لی ہے اور خداوند و آپکو اس کام پر گواہ بناتی ہوں اور گواہی کے لیے خداوند ہی کافی ہے۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏18 ؛ ص233دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

13. حضرت خديجہ (س) مبارک اور صديقہ بی بی:

سيد ابن طاؤوس نے کتاب اقبال الاعمال میں نقل کیا ہے کہ خداوند نے حضرت عیسی کے لیے آخر الزمان کے پیغمبر کی خصوصیات اور صفات کو شمار کیا کہ ایک خصوصیت اس پیغمبر کے لیے ایک مبارک اور صادق زوجہ کا ہونا تھا:

نسله‏ من‏ مباركة صديقة يكون له منها ابنة لها فرخان سيدان يستشهدان.

رسول خدا کی نسل ایک مبارک اور صدیقہ خاتون سے ہے کہ اس پیغمبر کی اس زوجہ سے ایک بیٹی ہے، اس بیٹی کے دو بیٹے ہیں (حسن و حسین) کہ جو سید و سردار اور شہید ہوں گے۔

ابن طاووس، على بن موسى، إقبال الأعمال (ط - القديمة) ؛ ج‏1 ؛ ص509 دار الكتب الإسلاميه - تهران، چاپ: دوم، 1409 ق.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،  بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏21 ؛ ص317 دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

اسی طرح حضرت خدیجہ (س) کے زیارتنامے میں آیا ہے کہ:

السلام على أزواجك الطاهرات‏ الخيرات‏ أمهات المؤمنين خصوصا الصديقة الطاهرة الزكية الراضية المرضية خديجة الكبرى أم المؤمنين.

سلام ہو آپ پاک اور نیک ازواج پر، امہات المؤمنین پر خاص طور پر سچی، پاک، پاکیزہ، راضی رہنے والی بزرگ بی بی خدیجہ پر کہ جو ام المؤمنین ہیں۔

‏مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏97 ؛ ص189 دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

14- حضرت خديجہ کبری (س) باعث تسکین قلب پیغمبر (ص):

رسول خدا (ص) نے جب کفار ، مشرکین اور بت پرستوں کو دین اسلام کی دعوت دی تو قریش نے انکو اذیت کرنا شروع کر دی اور طرح طرح کی گالیاں اور تہمتیں لگانا شروع کر دیا، لیکن ان حالات کے باوجود جب گھر واپس آتے تھے تو حضرت خدیجہ (س) کو ایک نگاہ دیکھنے سے انکے غمگین دل کو قرار و سکون مل جاتا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ زوجات میں سے کوئی بھی رسول خدا (ص) کے لیے مثل حضرت خدیجہ (س) نہیں تھی۔ جیسا کہ اس بارے میں خود رسول خدا نے فرمایا ہے کہ:

خَدِيجَةُ وَ أَينَ‏ مِثْلُ‏ خَدِيجَةَ صَدَّقَتْنِي حِينَ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَ آزَرَتْنِي عَلَى دِينِ اللَّهِ وَ أَعَانَتْنِي عَلَيهِ بِمَالِهَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَمَرَنِي أَنْ أُبَشِّرَ خَدِيجَةَ بِبَيتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ الزُّمُرُّدِ لَا صَخَبَ فِيهِ وَ لَا نَصَب‏.

اس روایت کا ترجمہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔۔۔۔۔۔

الموفق ابن احمد بن محمد المكي الخوارزمي (متوفي 568هـ)، المناقب، ص 350 ، تحقيق : الشيخ مالك المحمودي - ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، چاپ : الثانية 1414 هـ .

الإربلي، أبي الحسن علي بن عيسي بن أبي الفتح (متوفى693هـ)، كشف الغمة في معرفة الأئمة، ج 1 ص 370 ، ناشر: دار الأضواء ـ بيروت، الطبعة الثانية، 1405هـ ـ 1985م.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج‏43 ؛ ص 131، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق. 

ابن حيون نے رسول خدا کی زبان سے اسی مضمون کی حضرت خدیجہ کی فضیلت کو بیان کیا ہے:

----- ما اغتممت بغم أيام حياة أبي طالب و خديجة لما كان أبو طالب يدفعه عنه و خديجة تعزيه و تصبره و تهون عليه.

۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے رسول خدا (حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وقات کے بعد) ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ابو طالب اور خدیجہ کی زندگی میں مجھ پر کسی غم کا بھی اثر نہیں ہوتا تھا، کیونکہ ابو طالب میرا دفاع کرتے تھے اور خدیجہ مجھے ہمیشہ آرام اور تسلی دیا کرتی تھی۔

ابن حيون، نعمان بن محمد، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار عليهم السلام،  ج‏3  ص 16-17، جامعه مدرسين - قم، چاپ: اول، 1409 ق.

ایک دوسرے مقام پر نقل ہوا ہے کہ:

..كانت له وزيرة صدق على الإسلام و كان يسكن إليها،

حضرت خدیجہ، رسول خدا کے لیے ایک وزیر کی مانند تھیں کہ جسکی وجہ سے وہ ہمیشہ آرام و سکون پایا کرتے تھے۔

طبرسى، فضل بن حسن، إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص53 ، اسلاميه - تهران، چاپ: سوم، 1390 ق.

کفار اور مشرکین کی طرف سے ایسے حالات کے باوجود پھر بھی رسول خدا کی بعض زوجات نہ یہ کہ ان حضرت کی کوئی مدد نہیں کرتیں تھیں، بلکہ رسول خدا کو اذیت و آزار دیا کرتیں تھیں، جیسا کہ بخاری نے عمر ابن الخطاب سے نقل کیا ہے کہ عائشہ اور حفصہ نے مل کر رسول خدا کے خلاف ایک اتحاد بنایا ہوا تھا:

عن يحيى عن عُبَيْدِ بن حُنَيْنٍ أَنَّهُ سمع بن عَبَّاسٍ رضي الله عنهما يحدث أَنَّهُ قال مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بن الْخَطَّابِ عن آيَةٍ فما أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً له حتى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ معه فلما رجعت وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إلى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ له قال فَوَقَفْتُ له حتى فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ معه فقلت يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ من اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا على النبي صلى الله عليه وسلم من أَزْوَاجِهِ فقال تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ.

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ: میں نے ایک سال صبر کیا کہ عمر سے ایک آیت کے بارے میں سوال کروں، لیکن اسکی ہیبت سوال کرنے سے مانع تھی، جب وہ سفر حج کے لیے روانہ ہوا تو میں بھی اسکے ساتھ تھا۔ سفر حج سے واپسی پر میں نے عمر سے کہا: اے امیر المؤمنین ! وہ دو عورتیں کہ جو رسول خدا کے خلاف متحد ہوئی تھیں، وہ کون تھیں ؟ عمر نے کہا: وہ حفصہ اور عائشہ تھیں۔

البخاري الجعفي، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفى256هـ)، صحيح البخاري، ج 4 ص 1866 ، تحقيق: د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987م .

اسی طرح کتب اہل سنت میں معتبر سند کے ساتھ روایات موجود ہیں کہ عائشہ رسول خدا کی نبوت میں شک کیا کرتی تھی:

وروى أبو يعلى بسند لا بأس به وأبو الشيخ بن حيان بسند جيد قوي عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - قالت كان في متاعي خف وكان على جمل ناج وكان متاع صفية فيه ثقل ، وكان على جمل ثقال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ' حولوا متاع عائشة على جمل صفية ، وحولوا متاع صفية على جمل عائشة حتى يمضي الركب ' ، قلت : يا لعباد الله ، غلبتنا هذه اليهودية على رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت : فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ' يا أم عبد الله ، إن متاعك فيه خف ، وكان متاع صفية فيه ثقل ، فأبطأ الركب فحولنا متاعها على بعيرك وحولنا متاعك على بعيرها ، قالت : فقالت : ألست تزعم أنك رسول الله صلى الله عليه وسلم فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال : أوفي شك ؟ أنت يا أم المؤمنين يا أم عبد الله ، قالت : قلت : ألست تزعم أنك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فهلا عدلت وسمعني أبو بكر وكان فيه غرب أي حدة ، فأقبل علي فلطم وجهي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ' مهلا يا أبا بكر ' ، فقال : يا رسول الله ، أما سمعت ما قالت ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ' إن الغيرى لا تبصر أسفل الوادي من أعلاه ، ورواه الامام أحمد بسند لا بأس به عن صفية - رضي الله تعالى عنها،

ابو يعلی نے ایسی سند کے ساتھ کہ جس سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، اور ابو الشیخ ابن حسان نے محکم صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشہ کہتی ہے کہ میں نے (رسول خدا سے) کہا: کیا تم نہیں ہو کہ جو خیال کرتے ہو کہ پیغمبر ہو ؟ رسول خدا نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا: کیا تمہیں اس بارے میں کوئی شک ہے ؟ عائشہ کہتی ہے کہ میں نے دوبارہ کہا: کیا تم نہیں ہو کہ جو خیال کرتے ہو کہ پیغمبر ہو ؟ ! پس کیوں تم کیوں عدالت سے کام نہیں لیتے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام احمد نے اسی روایت کو صفیہ سے ایسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس سند میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفى942هـ)، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، ج 9 ص 71 ، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ .

وصيّت حضرت خديجہ(س):

حضرت خديجہ(س) ہجرت سے تین سال پہلے بیمار ہو گئیں۔

رياحين الشريعه،ج2،ص77.

رسول خدا (ص) انکی عیادت کے لیے گئے اور فرمایا: اے خدیجہ:

اما علمت انّ الله قد زوجّني معك في الجنّة،

کیا آپ جانتی ہو کہ خداوند آپ کو جنت میں بھی میری زوجہ قرار دیا ہے۔

بحارالانوار،ج19،ص20.

جب حضرت خدیجہ (س) کی بیماری شدید ہو گئی تو رسول خدا سے عرض کیا کہ میری چند وصتیں ہیں:

میں نے آپکے حق میں کوتاہی کی ہو تو مجھے معاف کر دینا، رسول خدا (ص) نے فرمایا: نہ ایسی بات نہ کرو، آپ تو ہمیشہ میری حمایت کرتے کرتے اب تھک گئی ہو، آپ نے اپنے مال کو خداوند کی راہ میں خرچ کیا ہے،

عرض کیا اے رسول خدا میری دوسری وصیت یہ ہے کہ میری بیٹی کا خیال رکھنا اور اپنے ہاتھ سے فاطمہ زہرا (س) کی طرف اشارہ کیا، کیونکہ وہ میرے بعد یتیم ہو جائے گی، ایسا نہ ہو کہ قریش کی عورتیں اسکو اذیت کریں، ایسا نہ ہو کہ کوئی اسکے چہرے پر طمانچے مارے،

مجھے تیسری وصیت کرتے ہوئے آپ سے شرم آتی ہے، یہ وصیت میں فاطمہ سے کہوں گی اور وہ آپ سے بیان کرے گی، پھر فاطمہ بیٹی کو اپنے پاس بلا کر کہا: میری بیٹی اپنے بابا رسول خدا سے کہنا کہ میری ماں نے کہا ہے کہ مجھے قبر سے ڈر لگتا ہے، آپ سے بس یہ چاہتی ہوں کہ مجھے اپنے اس لباس کے ساتھ کفن دینا کہ جو وحی کے نازل ہوتے وقت آپ کے بدن پر تھا۔ پس رسول خدا نے وہی لباس خدیجہ کے لیے بھیج دیا، جس سے وہ بہت خوش ہوئیں۔

رسول خدا نے حضرت خدیجہ کو غسل اور کفن دیا، اچانک جبرائیل اپنے ہمراہ جنتی کفن لے کر نازل ہوئے اور عرض کیا: يا رسول الله، خداوند نے آپکو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ: اس (حضرت خدیجہ) نے اپنے سارے مال کو میری راہ میں خرچ کر دیا ہے، لہذا اب یہ مناسب ہے کہ اسکو میں خود اپنی طرف سے کفن دوں۔

شجره طوبي، ج2،ص235

وفات حضرت  خديجہ(س):

حضرت خديجہ(س) 65 سال کی عمر میں ماہ رمضان میں وفات پا گئیں۔

سيز الاعلام النبلاء،ج2،ص112،

بعثت کے دسویں سال شعب ابی طالب کے باہر ان کا انتقال ہوا اور انھوں نے جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔

بحار الانوار،ج9،ص14

رسول خدا (ص) نے ذاتی طور پر غسل، کفن، دفن اور حنوط وغیرہ کے تمام کاموں کو اپنے عہدے پر لیا۔ رسول خدا(ص) حضرت خدیجہ (س) کو دفن کرنے سے پہلے خود قبر میں گئے، پھر حضرت خدیجہ کو قبر میں رکھا اور پھر سنگ لحد کو رکھ کر قبر کو بند کر دیا اور خود اشک آلود آنکھوں سے قبر سے باہر نکل آئے۔

بحار الانوار،ج9،ص14

نتيجہ:

پس ان مطالب کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ (س) ہر لحاظ سے رسول خدا (ص) کی تمام زوجات سے برتر ہیں، انکے فضائل اور مناقب کو فریقین کے علماء نے اپنی معتبر کتب میں ذکر کیے ہیں۔ یہ حضرت خدیجہ ہی تھیں کہ جہنوں نے ملیکۃ العرب اور عرب کی مالدار ترین خاتون ہونے کے باوجود، رسول خدا پر ایمان لایا اور اپنی جان اور مال سے اسلام اور رسول خدا کی مرتے دم تک حمایت کی اور حتی رسول گرامی اسلام کا ساتھ دیتے ہوئے، شعب ابی طالب کے مصائب کی تاب نہ لاتے ہوئے، جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔

یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ نزول وحی کے سب سے پہلے مرحلے سے لے کر آخری سانس تک سیدہ خدیجۃ الکبری ؑ نے رسالت و نبوت کی نہ صرف دل و جان سے تصدیق کی بلکہ اس کی نشر و اشاعت اور توسیع کے لیے ہر مرحلے پر ساتھ دیا۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

 اللہ کی طرف سے جب نماز کا حکم ہوا تو قبلہ اول یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کرکے حضور اکرم ؐ اپنے گھر میں ہی نماز پڑھاتے تھے جبکہ میں (علی ؑ ) اور سیدہ خدیجۃ پہلے مقتدی ہوا کرتے تھے۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام اور خدیجۃ کا ساتھ اور رفاقت کس قدر گہری اور قدیم ہے۔ حضرت خدیجہ نے زمانے کو خاتون جنت کی شکل میں تحفہ دیا اور اسلام و بانی اسلام کا تحفظ جان و مال لٹا کر کیا ۔ سیدہ خدیجۃ الکبری ہردور کی عورت کے لیے رہنما، مثال اور نمونہ ہیں۔ گھر کے اندر رہنے والی خاتون ہو یا گھر سے باہر امور انجام دینے والی خاتون ہو ہر کسی کو بی بی ؑ کی سیرت سے رہنمائی ملے گی۔

زیارت نامہ حضرت خدیجہ کبری (س):

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ

اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا زَوْجَهَ رَسُولِ اللَّهِ سَیِّدِ الْمُرْسَلینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا زَوْجَهَ خاتَمِ النَّبِیّینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمَّ فاطِمَهَ الزَّهْراءِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمَّ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ سَیِّدَىْ شَبابِ اَهْلِ الْجَنَّهِ اَجْمَعینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمَّ الْأَئِمَّهِ الطَّاهِرینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمَّ المُؤْمِنینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمَّ الْمُؤْمِناتِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا خالِصَهَ الْمُخْلِصاتِ،

اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا سَیِّدَهَ الْحَرَمِ وَ مَلائِکَهَ الْبَطْحآءِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا اَوَّلَ مَنْ صَدَّقَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ مِنَ النِّساءِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا مَنْ وَفَتْ بِالْعُبُودِیَّهِ حَقَّ الْوَفآءِ،

وَ اَسْلَمَتْ نَفْسَاً وَ اَنْفَقْتَ مالَها لِسَیِّدِ الْأَنْبِیآءِ اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا قَرینَهَ حَبیبِ اِلهِ السَّمآءِ، اَلْمُزَوَّجَهِ بِخُلاصَهِ الْأَصْفِیآءِ، یَا ابْنَهَ اِبْراهیمَ الْخَلیلِ،

اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا مَنْ سَلَّمَ عَلَیْها جَبْرآئیلُ، وَ بَلَّغَ اِلَیْهَا السَّلامُ مِنَ اللَّهِ الْجَلیلِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا حافِظَهَ دینِ اللَّهِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا ناصِرَهَ رَسُولِ اللَّهِ،

اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یا مَنْ تَوَلّى‏ دَفْنَها رَسُولُ اللَّهِ، وَ اسْتَوْدَعَها اِلى‏ رَحْمَهِ اللَّه، اَشْهَدُ اَنَّکَ حَبیبَهُ اللَّهِ وَ خِیَرَهُ اُمَّتِهِ، اِنَّ اللَّهَ جَعَلَکِ فى‏ مُسْتَقَرِّ رَحْمَتِهِ فى‏ قَصْرٍ مِنَ الْیاقُوت ِوَ الْعِقْبانِ، فى‏ اَعْلى‏ مَنازِلِ الْجَنانِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَیْکِ وَ رَحْمَهُ اللَّهِ وَ بَرَکاتُهُ .

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات