2024 March 28
کیا آئمہ طاہرين علیہم السلام نے پیغمبر اکرم (ص) سے توسل کیا تھا ؟
مندرجات: ١٧٨٨ تاریخ اشاعت: ٢٧ December ٢٠١٨ - ١٦:٥٠ مشاہدات: 5761
سوال و جواب » شیعہ
جدید
کیا آئمہ طاہرين علیہم السلام نے پیغمبر اکرم (ص) سے توسل کیا تھا ؟

 

سوال:

کیا آئمہ طاہرين علیہم السلام نے پیغمبر اکرم (ص) سے توسل کیا تھا ؟

توضيح سؤال:

کیا کوئی صحیح و معتبر روایت ہے کہ جس میں ذکر ہوا ہو کہ آئمہ اہل بیت (ع) نے رسول خدا (ص) کی قبر سے یا امام علی (ع) سے توسل کیا ہو ؟

جواب اجمالی:

توسل و وسیلہ قرار دینا، یہ مسلمانوں کے اہم اعتقادات میں سے ہے کہ جسکے شرعی و جائز ہونے پر قرآن کی آیات اور اہل بیت (ع) سے منقول صحیح روایات دلالت کرتی ہیں۔ قرآن سے قطع نظر یہ عقیدہ شیعہ اور اہل سنت کی صحیح روایات سے بھی قابل اثبات ہے۔

شیعہ روایات کے مطابق کہ جو توسل کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں، ان میں ذکر ہوا ہے کہ آئمہ طاہرین (ع) نے رسول خدا (ص) اور باقی دوسرے آئمہ سے توسل کیا ہے اور آئمہ اہل بیت (ع) نے اپنے شیعیان کو بھی اہل بیت سے توسل کرنے کا حکم دیا ہے، اسکے علاوہ ان روایات میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ آئمہ اہل بیت نے شیعیان کے توسل کرنے کو مورد تائید قرار دیا ہے۔

جواب تفصیلی:

موضوع توسل کے بارے میں روایات کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے، دو مہم نکتوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

نكتہ اول:

ایک تقسیم میں توسل کی دو اقسام ہیں:

1. خود ذات کے ساتھ توسل یعنی خود رسول خدا (ص) اور آئمہ طاہرین (ع) کی ذات سے توسل کرنا،

2. واسطے و وسیلے کے ساتھ توسل یعنی رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دیتے ہوئے، خداوند سے حاجت کو طلب کرنا،

نكتہ دوم:

توسل کے بارے میں روایات کی چند اقسام ہیں:

1. بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ خود اہل بیت (ع) نے رسول خدا (ص) کے ساتھ توسل کیا ہے،

2. بعض روایات میں ہے کہ آئمہ نے توسل کرنے کا حکم دیا ہے،

3. بعض روایات میں شیعیان کے توسل کرنے کو آئمہ اہل بیت کے لیے بیان کیا گیا ہے،

پہلی قسم:

آئمہ کا رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) سے توسل کرنا:

بعض روایات بیان کرتی ہیں کہ آئمہ نے رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) سے توسل کیا ہے۔

1. امیر المؤمنین علی (ع) کا رسول خدا (ص) ، ملائکہ اور انبیاء (ع) سے توسل کرنا: (با سند معتبر)

امير المؤمنین علی (ع) نماز ظہر کے بعد رسول خدا (ص) ، ملائکہ اور انبیاء (ع) سے توسل کیا کرتے تھے اور انکے وسیلے سے خداوند کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرتے تھے، مرحوم شیخ کلینی نے معتبر سند کے ساتھ اس روایت کو ایسے ذکر کیا ہے:

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْقِيِّ عَنْ عِيسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام يَقُولُ إِذَا فَرَغَ مِنَ الزَّوَالِ- اللَّهُمَّ إِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَيْكَ بِجُودِكَ وَ كَرَمِكَ وَ أَتَقَرَّبُ إِلَيْكَ- بِمُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَ رَسُولِكَ وَ أَتَقَرَّبُ إِلَيْكَ بِمَلَائِكَتِكَ الْمُقَرَّبِينَ وَ أَنْبِيَائِكَ الْمُرْسَلِين‏ ‏...

امام صادق (ع) نے فرمایا: امیر المؤمنین نماز ظہر کے مکمل ہونے کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے: خدایا میں تیری سخاوت و کرم کے وسیلے سے تیری قربت چاہتا ہوں اور تیرے بندے اور رسول حضرت محمد (ص) کے وسیلے سے، تیرے مقرب ملائکہ کے وسیلے سے اور تیرے انبیائے مرسلین کے وسیلے سے تیری قربت چاہتا ہوں۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي، ج2 ، ص545، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

مرحوم علامہ مجلسی نے مذکورہ روايت کے بارے میں کہا ہے کہ:

باب الدعاء في أدبار الصلوات الحديث الأول: حسن كالصحيح.

۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ روایت حسن ہے کہ جو صحیح روایت کی طرح معتبر ہے۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج‏12 ؛ ص335، تهران، چاپ: دوم، 1404 ق.

2. حضرت علی (ع) کا رسول خدا (ص) کے دفن ہونے سے پہلے، ان سے توسل کرنا:

رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد، اہل بیت میں سے امیر المؤمنین علی (ع) پہلے فرد تھے کہ جہنوں نے ان حضرت سے توسل کیا تھا، حالانکہ اس وقت تک ابھی رسول خدا کا بدن مبارک بھی دفن نہیں ہوا تھا۔ یہ بات کتاب نہج البلاغہ خطبہ 235 میں ایسے ذکر ہوئی ہے:

ومن كلام له (عليه ‏السلام ) قَالَهُ وَهُوَ يَلِي غُسْلَ رَسُولِ اللَّهِ (صلى‏الله ‏عليه ‏وآله) وَتَجْهِيزَهُ «بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ يَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَيْرِكَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَ الْإِنْبَاءِ وَأَخْبَارِ السَّمَاءِ خَصَّصْتَ حَتَّى صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاكَ وَعَمَّمْتَ حَتَّى صَارَ النَّاسُ فِيكَ سَوَاءً وَلَوْ لَا أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ وَنَهَيْتَ عَنِ الْجَزَعِ لَأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ الشُّئُونِ وَلَكَانَ الدَّاءُ مُمَاطِلًا وَالْكَمَدُ مُحَالِفاً وَقَلَّا لَكَ وَلَكِنَّهُ مَا لَا يُمْلَكُ رَدُّهُ وَلَا يُسْتَطَاعُ دَفْعُهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي اذْكُرْنَا عِنْدَ رَبِّكَ وَاجْعَلْنَا مِنْ بَالِكَ».

ان حضرت کے کلام میں سے ہے کہ انھوں نے رسول خدا کو غسل و کفن دینے کے بعد فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے رسول خدا، بے شک آپکے مرنے سے وہ چیز منقطع ہو گئی ہے کہ جو آپکے علاوہ کسی دوسرے کے مرنے سے منقطع نہیں ہوئی تھی، اور وہ چیز نبوت اور آسمان سے غیب کی خبریں دینا ہے۔

آپکی مصیبت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مصیبت خود تسلی بھی دینے والی ہے، یعنی آپکی اس موت کے بعد اب کسی دوسرے کی موت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اسکے علاوہ یہ ایک عمومی مصیبت ہے کیونکہ آپکی موت کیوجہ سے تمام لوگ سوگ و غم کی حالت میں ہیں۔ اگر خود آپ کا صبر کرنے کا حکم نہ ہوتا اور اگر آپ نے بے تابی کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس غم میں اس قدر گریہ کرتا کہ میرے اشک ختم ہو جاتے اور یہ غم میرے لیے ہمیشہ ہمیشہ باقی رہتا، اور یہ سب کچھ آپکے غم و مصیبت میں بہت ہی کم ہے، افسوس کہ موت کو واپس پلٹایا اور دور نہیں کیا جا سکتا۔

میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے رسول خدا، ہمیں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں یاد کرنا اور ہمیں ہرگز فراموش نہ کر دینا۔

نهج البلاغة - خطب الإمام علي (ع)، ج 2 ، ص 228

امیر المؤمنین علی (ع) کے اس خطبے اور توسل کو علمائے اہل سنت جیسے ابن ابی الحديد، عبد الرحمن زجاجی نے اپنی دو كتابوں، اور ابن عبد البر نمری قرطبی نے نقل کیا ہے۔

إبن أبي‌الحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج13، ص13، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.

البغدادي النهاوندي الزجاجي، عبد الرحمن بن إسحاق، أبو القاسم (متوفى337هـ)،‌ أمالي الزجاجي، ج1، ص38، دار النشر : طبق برنامه الجامع الكبير.

البغدادي النهاوندي الزجاجي، عبد الرحمن بن إسحاق، أبو القاسم (متوفى337هـ)،‌ أخبار أبي القاسم الزجاجي، ج1، ص52، دار النشر : طبق برنامه الجامع الكبير.

النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفى 463هـ)، التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، ج2، ص162، تحقيق: مصطفي بن أحمد العلوي، ‏محمد عبد الكبير البكري، ناشر: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية - المغرب – 1387هـ.

اس معتبر روایت کے مطابق امیر المؤمنین (ع) نے رسول خدا (ص) کی ذات مبارک سے توسل کیا ہے اور ان سے اپنی شفاعت کرنے کو بھی طلب کیا ہے۔

3. امام حسين (ع) کا رسول خدا (ص) کی قبر سے توسل کرنا:

حضرت امام حسین (ع) کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے کہ جب وہ مدینہ سے مکہ کی طرف جانا چاہتے تھے تو وہ جانے سے پہلے رسول خدا (ص) کی قبر مبارک پر آئے اور انکی قبر سے توسل بھی کیا۔

روايت کے متن کو علامہ مجلسی نے ایسے نقل کیا ہے:

فلما كانت الليلة الثانية ، خرج إلى القبر أيضا وصلى ركعات ، فلما فرغ من صلاته جعل يقول : اللهم هذا قبر نبيك محمد ، وأنا ابن بنت نبيك ، وقد حضرني من الأمر ما قد علمت ، اللهم إني أحب المعروف ، وأنكر المنكر ، وأنا أسألك يا ذا الجلال والاكرام بحق القبر ومن فيه إلا اخترت لي ما هو لك رضى ، ولرسولك رضى ....

جب دوسری رات ہوئی تو وہ دوسری مرتبہ رسول خدا کی قبر کی طرف گئے اور دو رکعت نماز پڑھی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: خدایا یہ آپکے پیغمبر محمد (ص) کی قبر ہے اور میں انکا فرزند ہوں اور خدایا تیرے علم میں ہے کہ میرے ساتھ کیا مشکل پیش آئی ہے، خدایا میں نیکی کو پسند اور برائی سے نفرت کرتا ہوں۔ اے صاحب جلال و اکرام آپکو اس قبر اور صاحب قبر کا واسطہ ہے کہ میں آپ سے وہی طلب کرتا ہوں، جس میں آپکی رضا ہے ۔۔۔۔۔

المجلسي، محمد باقر (متوفى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 44 ، ص 328، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

اس روایت کو ابن اعثم کوفی نے بھی نقل کیا ہے:

الكوفي، أبي محمد أحمد بن أعثم (متوفى314هـ)، كتاب الفتوح، ج 5، ص 19، تحقيق: علي شيري (ماجستر في التاريخ الإسلامي )، ناشر: دار الأضواء للطباعة والنشر والتوزيع ـ بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ

امام حسین (ع) کے کلام میں یہ الفاظ « بحق القبر ومن فيه » ہیں کہ جنکا معنی یہ ہے کہ امام حسین (ع) رسول خدا (ص) کے وجود مبارک کو وسیلہ قرار دیتے ہوئے، خداوند سے دعا فرما رہے ہیں۔

4. امام سجاد (ع) کا اہل بيت (ع) سے توسل کرنا:

کتاب مبارک صحیفہ سجادیہ میں متعدد مقامات پر ذکر ہوا ہے کہ امام سجاد (ع) نے رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) سے توسل کیا ہے، جیسے امام سجاد (ع) نے اسی کتاب کی دعا نمبر 87 میں ایسے فرمایا ہے کہ:

إنا نتوسل إليك بمحمد صلواتك عليه وآله رسولك ، وبعلي وصيه ، وفاطمة ابنته ، وبالحسن والحسين ، وعلي ومحمد وجعفر وموسى وعلي ومحمد وعلي والحسن والحجة عليهم السلام أهل بيت الرحمة .

خدایا میں آپکے رسول، محمد (ص) اور انکے وصی علی (ع) اور انکی بیٹی فاطمہ (س) اور حسن و حسين، علی، محمد، جعفر، موسی، علی ابن موسی، محمد، علی، حسن ابن علی اور حجت (عليہم السلام) کے وسیلے سے آپ سے توسل کرتا ہوں، یعنی محمد و آل محمد (ع) کو آپکی بارگاہ میں وسیلہ قرار دیتے ہوئے، آپ سے اپنی حاجت کو طلب کرتا ہوں۔

الصحيفة السجادية، الإمام زين العابدين (ع) ، ص 168،‌ تحقيق : الابطحي الإصفهاني، السيد محمد باقر الموحد ناشر : مؤسسة الإمام المهدي (ع) / مؤسسة الأنصاريان للطباعة والنشر - قم – ايران، سال چاپ : 25 محرم الحرام 1411

یا اسی دعا کے دوسرے حصے میں فرمایا ہے کہ:

فإني بمحمد وعلي وأوصيائهما إليك أتوسل ، وعليك أتوكل ...

خدايا محمد (ص) و علی (ع) اور انکے جانشينوں کے وسیلے سے آپ سے توسل کرتا ہوں اور تیری ذات پر توکل کرتا ہوں ۔۔۔۔۔

الصحيفة السجادية (ابطحي) - الإمام زين العابدين (ع) - ص 205

ان دعاؤں میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ امام سجاد (ع) نے اپنی دعاؤں میں خداوند سے حاجت طلب کرتے ہوئے، رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) کو اپنے اور خداوند کے درمیان واسطہ و وسیلہ قرار دیا ہے۔

دوسری قسم:

 آئمہ (ع) کا توسل کرنے کا حکم دینا:

بعض روایات کے مطابق آئمہ نے اپنے شیعوں کو حکم دیا ہے کہ وہ رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) سے توسل کریں اور آئمہ نے شیعوں کو توسل کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔

روايت اول: امیر المؤمنین علی (ع) کا توسل کرنے کا حکم دینا: ( با سند صحیح و معتبر )

مرحوم كلينی نے سند معتبر کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے امیر المؤمنین علی (ع) کے زمانے میں دعا کی لیکن کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی اسکی حاجت پوری نہ ہوئی، وہ شخص امیر المؤمنین (ع) کے پاس گیا اور اپنی حاجت پوری نہ ہونے کی شکایت کی، حضرت نے دعائے سریع الاجابت کا اسے بتایا کہ اس دعا کے آخر میں امیر المؤمنین علی (ع) نے اہل بیت سے توسل کرنے کا حکم بھی بیان کیا ہے:

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام ابْتِدَاءً مِنْهُ يَا مُعَاوِيَةُ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام فَشَكَا الْإِبْطَاءَ عَلَيْهِ فِي الْجَوَابِ فِي دُعَائِهِ فَقَالَ لَهُ أَيْنَ أَنْتَ عَنِ الدُّعَاءِ السَّرِيعِ الْإِجَابَةِ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ مَا هُوَ ... وَ أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ أَسْأَلُكَ بِكَ وَ بِهِمْ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَفْعَلَ بِي كَذَا وَ كَذَا.

معاويہ ابن عمار کہتا ہے کہ حضرت صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا: اے معاویہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ایک مرد امیر المؤمنین علی (ع) کی خدمت میں آیا اور اپنی دعا کے قبول ہونے میں دیر ہونے کی شکایت کی ، ان حضرت نے اس سے فرمایا: کیا تم نے دعائے سریع الاجابت پڑھی ہے ؟ اس نے جواب دیا: یہ کونسی دعا ہے ؟ حضرت نے فرمایا: کہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور خدایا میں تیری طرف محمد اور انکے اہل بیت کے حق کا واسطہ لے کر آیا ہوں، خدایا آپکو آپکا اور محمد و آل محمد کا واسطہ دیتا ہوں کہ محمد و آل محمد پر صلوات بھیج اور میری فلاں فلاں حاجت کو پورا فرما۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي، ج2، ص583 ، ح17، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

اس روایت کی سند معتبر ہے، علامہ مجلسی نے اس روایت کے معتبر ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ:

الحديث السابع عشر: حسن.

یہ روایت حسن و معتبر (صحیح) ہے۔

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج‏12 ؛ ص455،  تهران، چاپ: دوم، 1404 ق.

اس روایت کے مطابق اگر کوئی چاہتا ہو کہ اسکی حاجت جلدی پوری ہو اور اسکی دعا خداوند کی بارگاہ میں جلدی قبول ہو تو اسے محمد و آل محمد (ع) کے توسل سے دعا کرنی اور حاجت طلب کرنی چاہیے۔

روايت دوم: امام صادق (ع) کا رسول خدا (ص) کی قبر مبارک سے توسل کرنے کا حکم دینا: ( با سند صحیح )

امام صادق (ع) نے صحیح روايت میں معاويہ ابن عمار کو رسول خدا (ص) کی مطہر قبر کی زیارت کا طریقہ بتایا ہے اور ساتھ ہی اسے رسول خدا (ص) سے توسل کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے، اس روایت کو مرحوم کلینی نے تین سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ صَفْوَانَ وَ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ:

إِذَا دَخَلْتَ الْمَدِينَةَ فَاغْتَسِلْ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَهَا أَوْ حِينَ تَدْخُلُهَا ثُمَّ تَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله ثُمَّ تَقُومُ فَتُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله ...

اللَّهُمَّ إِنَّكَ قُلْتَ- وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيماً وَ إِنِّي أَتَيْتُ نَبِيَّكَ مُسْتَغْفِراً تَائِباً مِنْ ذُنُوبِي وَ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى اللَّهِ‏ رَبِّي وَ رَبِّكَ لِيَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي.

وَ إِنْ كَانَتْ‏ لَكَ‏ حَاجَةٌ فَاجْعَلْ‏ قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله خَلْفَ كَتِفَيْكَ‏ وَ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَ ارْفَعْ يَدَيْكَ وَ اسْأَلْ حَاجَتَكَ فَإِنَّكَ أَحْرَى أَنْ تُقْضَى إِنْ شَاءَ اللَّهُ.

معاويہ ابن عمار نے نقل کیا ہے كہ امام صادق (ع) نے فرمایا: مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے یا جب داخل ہو جاؤ تو غسل کرو، پھر رسول خدا کی قبر کے نزدیک جا کر کھڑے ہو جاؤ اور ان حضرت کو سلام کرو ۔۔۔۔۔ پھر کہو کہ خدایا آپ نے خود فرمایا ہے کہ: اگر کوئی گناہ گار گناہ کی وجہ سے اپنے نفس پر ظلم و ستم کرے اور پھر آپ (ص) کے پاس آ کر آپکے وسیلے سے طلب مغفرت کرے تو تم دیکھ لو گے کہ خداوند اسکی توبہ کو قبول فرما لے گا اور اس پر رحم کرے گا۔

اور میں اس حالت میں کہ استغفار کرتے ہوئے اپنے گناہوں پر توبہ کرتا ہوں اور آپکے پیغمبر کے پاس آیا ہوں اور اے رسول خدا ! میں آپکے وسیلے سے اپنے اور آپکے پروردگار کی طرف آیا ہوں تا کہ وہ (خدا) میرے گناہوں کو معاف فرما دیں۔

اور اگر تمہاری کوئی حاجت ہو تو رسول خدا کی قبر کو اپنے کندھے کے پیچھے قرار دے کر رو بہ قبلہ کھڑے ہو جاؤ اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دعا کے لیے اٹھا کر اپنی حاجت کو خداوند سے طلب کرو کہ انشاء اللہ تمہاری دعا ضرور قبول ہو گی۔

الكافي، ج‏4 ، ص550، ح1، بَابُ دُخُولِ الْمَدِينَةِ وَ زِيَارَةِ النَّبِيِّ ص وَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِه‏.

اسی روايت کو شيخ طوسی نے اپنی كتاب تہذيب الاحكام میں بھی نقل کیا ہے:

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، تهذيب الأحكام، ج 6، ص6، تحقيق: السيد حسن الموسوي الخرسان، ناشر: دار الكتب الإسلامية ـ طهران، الطبعة الرابعة،‌1365 ش .

کتاب کامل الزیارات میں توسل کی عبارت ایسے نقل ہوئی ہے:

يا محمد اني أتوجه بك إلى الله ربي وربك ليغفر لي ذنوبي .

اے رسول خدا (ص) میں آپکے وسیلے سے اپنے اور آپکے پروردگار کی بارگاہ میں آیا ہوں تا کہ وہ میرے کو بخش دیں۔

القمي، أبي القاسم جعفر بن محمد بن قولويه (متوفى367هـ)، كامل الزيارات، ص 50، تحقيق: الشيخ جواد القيومي، لجنة التحقيق، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة: الأولى1417هـ

تصحيح روايت:

یہ روایت شیعہ علماء کی نظر میں صحیح ہے۔ مرحوم علامہ مجلسی نے اس روايت کو صحيح قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:

روى الكليني في الصحيح ، عن معاوية بن عمار ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : إذا دخلت المدينة فاغتسل قبل أن تدخلها...

كلينی نے صحیح روايت کو معاويہ ابن عمار سے اور اس نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

المجلسي، محمد تقي (متوفي1070هـ)، روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه، ج 5 ص 326، محقق / مصحح: موسوى كرمانى، حسين و اشتهاردى على پناه‏، ناشر: مؤسسه فرهنگى اسلامى كوشانبور، مكان چاپ: قم‏، سال چاپ: 1406 ق‏

علامہ حلی نے كتاب « منتهي المطلب » میں بھی اس روايت کو صحيح کہا ہے:

وصفة زيارته صلى الله عليه وآله ما رواه الشيخ في الصحيح عن معاوية بن عمار عن أبي عبد الله ( ع ) قال إذا دخلت المدينة فاغتسل قبل أن تدخلها..

رسول خدا (ص) کی زیارت کی کیفیت اور طریقہ وہی ہے کہ جسے شيخ کلینی نے صحیح روایت میں معاویہ ابن عمار اور اس نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحلي الأسدي، جمال الدين أبو منصور الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفى726هـ)،‌ منتهى المطلب في تحقيق المذهب،‌ ج 2 ص 887، چاپخانه: مؤسسة الطبع والنشر في الآستانة الرضوية المقدسة، چاپ: الأولى1412

علامہ یوسف بحرانی نے بھی اس روايت کو صحيح کہا ہے:

وأما صفة زيارته (صلى الله عليه وآله) فهو ما رواه الكليني والشيخ في الصحيح عن معاوية ابن عمار عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال : إذا دخلت المدينة فاغتسل قبل أن تدخلها...

رسول خدا (ص) کی زیارت کی کیفیت اور طریقہ وہی ہے کہ جسے شيخ کلینی نے صحیح روایت میں معاویہ ابن عمار اور اس نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

البحراني، الشيخ يوسف، (متوفي1186هـ)، الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة،‌ ج 17 ، ص 424، ناشر : مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة،‌ طبق برنامه مكتبه اهل البيت.

روايت سوم: امام صادق (ع) کا رسول خدا (ص) سے توسل کرنے کا حکم دینا:

ایک دوسری صحیح روایت میں بھی امام صادق (ع) نے ایک دعا بتائی ہے کہ جو نماز گزار کے رسول خدا سے توسل کرنے کو بیان کر رہی ہے:

وَ عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ عَنْ أَبَانٍ وَ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ قَالا قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام‏ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَقُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُقَدِّمُ‏ إِلَيْكَ‏ مُحَمَّداً صلي الله عليه وآله بَيْنَ يَدَيْ حَاجَتِي وَ أَتَوَجَّهُ بِهِ إِلَيْكَ فَاجْعَلْنِي بِهِ وَجِيهاً عِنْدَكَ‏ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ‏ اجْعَلْ صَلَاتِي بِهِ مَقْبُولَةً وَ ذَنْبِي بِهِ مَغْفُوراً وَ دُعَائِي بِهِ مُسْتَجَاباً إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.

امام صادق (ع) نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اس دعا کو پڑھو: خدایا میں محمد (ص) کو اپنی حاجت سے پہلے (وسیلہ) قرار دیتا ہوں اور انکے واسطے سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں، پس مجھے انہی کے وسیلے سے دنیا و آخرت میں آبرو مند قرار دے اور مجھے اپنے مقرب بندوں میں سے قرار دے، اور میری نماز کو ان حضرت کے وسیلے سے شرف قبولیت عطا فرما اور میرے گناہوں کو انکی شفاعت کے ذریعے سے معاف فرما اور میری دعا کو ان کے وسیلے سے مستجاب فرما کہ بے شک تیری ذات بہت ہی بخشنے والی اور رحم کرنے والی ہے۔

الكافي (ط - الإسلامية) ؛ ج‏3 ؛ ص309

مرحوم شيخ صدوق نے بھی اس روايت کو کتاب «من لا يحضره الفقيه» اور شيخ طوسی نے کتاب «تهذيب» میں نقل کیا ہے :

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، من لا يحضره الفقيه، ج 1 ص 302، ح 916، تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: جامعه مدرسين حوزه علميه قم.

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، تهذيب الأحكام، ج 2، ص287، ح5 باب كيفة الصلاة ، تحقيق: السيد حسن الموسوي الخرسان، ناشر: دار الكتب الإسلامية ـ طهران، الطبعة الرابعة،‌1365 ش .

تصحيح روايت:

یہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے اور علمائے شیعہ نے بھی اسی بات کو واضح طور پر بیان کیا ہے، علامہ مجلسی کے والد محترم یعنی مجلسی اول نے ذکر کیا ہے کہ:

رواه الشيخ في الصحيح عنه عليه السلام‏ «إذا قمت إلى الصلاة» الظاهر أنه بعد الإقامة «فقل (إلى قوله) حاجتي» يعني أسألك بحقه أو اجعله شفيعي‏

شیخ کلینی نے صحیح روایت میں امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ ان حضرت نے فرمایا کہ: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو ۔۔۔۔۔ اس روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا، نماز پڑھنے کے بعد پڑھی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجلسى، محمد تقى بن مقصود على، روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه (ط - القديمة)، ج‏2 ؛ ص268،  قم، چاپ: دوم، 1406 ق.

علامہ مجلسی نے بھی اس روایت کی سند « حسن » قرار دیا ہے:

الحديث الثالث‏: حسن.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول ، ج‏15 ؛ ص96،  تهران، چاپ: دوم، 1404 ق.

اور علامہ مجلسی نے كتاب «بحار الانوار» میں اس روایت کی سند کے صحیح ہونے کو صراحت سے ذکر کیا ہے:

وَ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أُقَدِّمُ‏ إِلَيْكَ‏ مُحَمَّداً ص بَيْنَ يَدَيْ حَاجَتِي وَ أَتَوَجَّهُ بِهِ إِلَيْكَ فَاجْعَلْنِي بِهِ وَجِيهاً عِنْدَك‏...

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار، ج‏81 ؛ ص370،  بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

علامہ حلی نے بھی اس روایت کی سند کو صحيح کہا ہے:

ويستحب له أن يقول إذا قام إلى الصلاة ما رواه الشيخ في الصحيح عن أبان ومعاوية بن وهب جميعا عن أبي عبد الله عليه السلام قال : إذا قمت إلى الصلاة فقل اللهم إني أقدم إليك محمدا بين يدي حاجتي وأتوجه به إليك

نماز پڑھنے والے کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ کہے کہ جو شیخ کلینی نے صحیح روایت میں ابان و معاويہ ابن وہب سے اور انھوں نے امام صادق عليہ السلام سے نقل كیا ہے کہ ان حضرت نے فرمایا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتهى المطلب (ط.ق) - العلامة الحلي ، ج 1 ، ص 298

تیسری قسم: آئمہ (ع) کا شیعیان کے رسول خدا (ص) سے توسل کرنے کی تائید کرنا:

بعض روایات میں صراحت سے بیان ہوا ہے کہ جب شیعیان نے رسول خدا (ص) سے توسل کیا تو یہ توسل خود آئمہ طاہرین کی طرف سے مورد تائید بھی واقع ہوا ہے۔

ہشام ابن سالم کا رسول خدا (ص) کی قبر سے توسل کرنا:

امام صادق (ع) کی شہادت کے بعد ہشام ابن سالم مدینہ آیا تو امام صادق کے بعد اپنے زمانے کے امام کے بارے میں پیش آنے والے شک و تردید کی وجہ سے اس نے رسول خدا (ص) کی قبر سے توسل کیا کہ جسکی وجہ سے اسکے لیے واضح ہو گیا کہ اسکا امام زمان کون ہے۔ اس روایت کو محمد ابن جرير طبری نے صحیح سند کے ساتھ ایسے نقل کیا ہے:

أخبرني أبو الحسن علي بن هبة الله ، قال : حدثنا أبو جعفر محمد ابن علي بن الحسين بن موسى ، عن أبيه ، عن سعد بن عبد الله ، عن يعقوب بن يزيد ، عن محمد بن أبي عمير ، عن هشام بن سالم ، قال : دخلت على عبد الله بن جعفر بن محمد بعد موت أبي عبد الله ( عليه السلام ) وكان ادعى الإمامة ، فسألته عن شئ من الزكاة ، فقلت له : كم في المائة ؟ فقال : خمسة دراهم . قلت: وكم في نصف المائة ؟ قال : درهمين ونصف . فقلت : ما قال بهذا أحد من الأمة . فخرجت من عنده إلى قبر رسول الله (صلى الله عليه وآله) مستغيثا برسول الله ، فقلت : يا رسول الله ، إلى من ؟ إلى القدرية ؟ إلى الحرورية ؟ إلى المرجئة ؟ إلى الزيدية ؟ فإني لكذلك إذ أتاني رسول أبي الحسن (عليه السلام) ، غلام صغير دون الخماسي ، فقال : أجب مولاك موسى بن جعفر . فأتيته فلما بصر بي من صحن الدار ابتدأني فقال : يا هشام ! قلت : لبيك . قال : لا إلى القدرية ، ولا إلى الحرورية ، ولا إلى المرجئة ، ولا إلى الزيدية ، ولكن إلينا . فقلت : أنت صاحبي ، فسألته فأجابني عن كل ما أردت.

ہشام ابن سالم کہتا ہے کہ میں امام صادق کی شہادت کے بعد عبد الله ابن جعفر ابن محمد (فرزند امام صادق عليہ السلام) کے پاس گیا کہ وہ اپنے لیے امامت کا دعوی کرتا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ سو درہم پر کتنی زکات دینا واجب ہوتی ہے ؟ عبد اللہ نے جواب دیا: پانچ درہم، ہشام کہتا ہے کہ میں نے کہا پچاس درہم پر کتنی زکات واجب ہو گی ؟ اس نے جواب دیا: اڑھائی درہم، میں نے کہا امت میں سے کسی نے بھی ایسا فتوا نہیں دیا۔

ہشام کہتا ہے کہ میں وہاں سے باہر آیا اور رسول خدا کی قبر کی طرف گیا اور ان حضرت سے استغاثہ و توسل کرتے ہوئے کہنے لگا: اے رسول خدا ! میں کس کی پناہ لوں ؟ فرقہ قدریہ کی ؟ فرقہ حرویہ کی ؟ فرقہ مرجئہ کی ؟ فرقہ زیدیہ کی ؟ اسی وقت ابو الحسن (ع) کہ جنکی عمر پانچ سال تھی، میری طرف آئے اور کہا: آپکے مولا موسی ابن جعفر آپکو بلا رہے ہیں، میں ان حضرت کے پاس گیا، جب انھوں نے مجھے اپنے گھر کے صحن میں دیکھا تو فرمایا: اے ہشام ! میں نے عرض کیا، جی مولا، فرمایا: نہ قدریہ کی طرف، نہ مرجئہ کی طرف، نہ حروریہ کی طرف، نہ زیدیہ کی طرف، بلکہ ہماری طرف آؤ، میں نے عرض کیا: آپ میرے صاحب امر ہیں، میں نے ان سے چند سوالات کیے اور ان حضرت نے تمام سوالات کے مجھے جواب دئیے۔

الطبري، ابي جعفر محمد بن جرير بن رستم (متوفي قرن پنجم)،‌ دلائل الامامة، ص 324، تحقيق: قسم الدراسات الإسلامية - مؤسسة البعثة، ناشر: مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة، قم، چاپ: الأولى1413

اس روایت کے مطابق خود اولیاء خدا سے استغاثہ اور توسل کرنا، جائز ہے، اسکے علاوہ یہ روایت امام معصوم کی تقریر (تائید) کو بھی بیان کر رہی ہے، کیونکہ اگر توسل جائز نہ ہوتا تو کیوں امام کاظم (ع) نے ہشام سے نہیں فرمایا کہ تم نے رسول خدا (ص) کی قبر سے کیوں توسل کیا ہے ؟ بلکہ ایک معصوم امام نے نہ صرف یہ کہ ہشام کو اس کام سے منع نہیں کیا بلکہ اسکے اس کام کی تائید بھی فرمائی ہے۔

نتيجہ:

اولا:

 خود آئمہ طاہرين (عليہم السلام) رسول خدا صلي الله عليہ و آلہ سے توسل کیا کرتے تھے کہ جسکی مثال امیر المؤمنین علی (ع) اور امام سجاد (ع) کا رسول خدا (ص) کی مبارک ذات سے توسل کرنا ہے۔

ثانيا:

بعض روایات کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ آئمہ اطہار (ع) نے رسول خدا (ص) سے توسل کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

ثالثا:

 شيعيان رسول خدا (ص) کے دور میں آئمہ سے توسل کیا کرتے تھے اور اسی توسل کی خود آئمہ اطہار نے تا‏ئید فرمائی ہے، اب اگر توسل جائز اور شرعی نہ ہوتا تو آئمہ اہل بیت (ع) کبھی بھی ایک غیر شرعی اور حرام کام کی تائید نہ فرماتے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات