2024 April 20
کیا کربلاء میں روز عاشورا تمام 72 شھداء کے سروں کو تن سے جدا کیا گیا تھا یا نہیں؟
مندرجات: ٣٧٤ تاریخ اشاعت: ٢٠ September ٢٠١٧ - ٠٧:٠٠ مشاہدات: 4310
سوال و جواب » امام حسین (ع)
جدید
کیا کربلاء میں روز عاشورا تمام 72 شھداء کے سروں کو تن سے جدا کیا گیا تھا یا نہیں؟

  سوال:

کیا کربلاء میں روز عاشورا تمام 72 شھداء کے سروں کو تن سے جدا کیا گیا تھا یا نہیں؟

جواب:

واقعہ کربلاء تاریخ اسلام کا تلخ ترین اور درد ناک ترین واقعہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے با وجود مسلمان و حتی غیر مسلمان اس غمناک واقعے اور شھداء کربلاء کے غم میں غمگین                   اور سوگوار ہیں۔  اس سوال کے بارے میں چند نکتے قابل ذکر ہیں:

نكتہ اول:

روز عاشورا امام حسین(ع) کا سر کوفے کی طرف بیجھنا:

کتب شیعہ و اہل سنت کی روایات کے مطابق عمر ابن سعد نے روز عاشورا امام حسین(ع) کا سر مبارک بدن سے جدا کیا اور خولی و حمید ابن مسلم کے ذریعے عبید اللہ ابن زیاد کے پاس بیجھا۔

مرحوم سيد بن طاووس لکھتا ہے کہ:

«ثُمَ‏ إِنَّ عُمَرَ بْنَ سَعْدٍ بَعَثَ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ عليه السلام فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ وَ هُوَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ مَعَ خَوَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ الْأَصْبَحِيِّ وَ حُمَيْدِ بْنِ مُسْلِمٍ الْأَزْدِيِّ إِلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَاد.»

اس کے بعد عمر ابن سعد نے امام حسین(ع) کا سر اسی دن یعنی روز عاشورا خولی بن یزید اصبحی و حمید بن مسلم ازدی کے ذریعے عبید اللہ ابن زیاد کے پاس بیجھا۔

                          

السيد ابن طاووس، الحسينی، علی بن موسی _متوفای 664 ق_ ، اللهوف في قتلى الطفوف، ص 85 ، ناشر : أنوار الهدى - قم – ايران،

شيخ مفيد نے بھی اپنی کتاب میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے:                                                                                                                                                                         

«وسرح عمر بن سعد من يومه ذلك - وهو يوم عاشوراء - برأس الحسين عليه السلام مع خولي بن يزيد الأصبحي وحميد بن مسلم الأزدي إلى عبيد الله بن زياد ..»

اس کا ترجمہ بالکل اوپر والی روایت کی طرح ہے............

البغدادی، الشيخ المفيد محمد بن محمد بن النعمان، العكبری  _متوفای 413 ق_ ، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج 2، ص 113، تحقيق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر : دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت – لبنان،

بلاذری عالم مؤرخ اهل سنت نے بھی لکھا ہے کہ:

«وبعث عمر برأس الحسين من يومه مع خولي بن يزيد الأصبحي من حمير، وحميد بن مسلم الأزدي إلى ابن زياد فأقبلا به ليلاً فوجدا باب القصر مغلقاً، فأتى خولي به منزله فوضعه تحت أجانة في منزله، وكان في منزله امرأة يقال لها النوار بنت مالك الحضرمي فقالت له: ما الخبر ؟. قال: جئت بغنى الدهر، هذا رأس الحسين معك في الدار. فقالت: ويلك جاء الناس بالفضة والذهب وجئت برأس ابن بنت رسول الله، والله لا يجمع رأسي ورأسك شيء أبداً.»

عمر ابن سعد نے امام حسین(ع) کا سر روز عاشورا خولی بن یزید اصبحی و حمید بن مسلم ازدی کے ذریعے عبید اللہ ابن زیاد کے پاس بیجھا۔ وہ رات کے وقت کوفے پہنچے تو دیکھا کہ عبید اللہ کے محل کا دروازہ بند ہے۔ خولی امام کا سر اپنے گھر لے گیا اور سر کو گھر میں چولہے کے نیچے رکھ دیا۔ خولی کی بیوی نوار بنت مالک حضرمی نے اسے کہا کہ: جنگ سے کیا لے کر آئے ہو ؟ خولی نے کہا کہ ایسی چیز لے کر آیا ہوں کہ ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مالدار ہو جایئں گے۔ یہ حسین کا سر ہے جو ابھی میں لے کر آیا ہوں۔ اس پر اس کی بیوی نے کہا نفرین ہو تم پر لوگ جنگ پر جاتے ہیں تو سونا چاندی لے کر آتے ہیں اور تو رسول خدا کی بیٹی کے کا سر لے کر آیا ہے ! خدا کی قسم اب تم میں اور مجھ میں کوئی  تعلق باقی نہیں رہ گیا۔

 البلاذری، أحمد بن يحيي بن جابر _متوفاى279 ق_، أنساب الأشراف، ج 1، ص 424، طبق برنامه الجامع الكبير.

کتاب «بغية الطلب في تاريخ حلب» میں آیا ہے کہ:

«وبعث عمر بن سعد برأس الحسين من ساعته إلى عبيد الله بن زياد مع خولى ابن يزيد الأصبحى .»

جونہی امام حسين (ع) شھید ہوئے ان کے سر کو خولی کے ذریعے  عبید اللہ کے پاس بیھج دیا گیا۔

كمال الدين عمر بن أحمد بن أبي جرادة _متوفاي660 ق_، بغية الطلب في تاريخ حلب، ج 6، ص 2630، تحقيق: د. سهيل زكار، دار النشر: دار الفكر،

نكتہ دوم:

باقی اصحاب امام حسین(ع) کے گیارہ محرم کو سر کاٹے گئے:

باقی اصحاب کربلاء کے سر کب ان کے بدنوں سے جدا کیے گئے اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ اس بارے میں دو طرح سے تاریخ میں آیا ہے:

بلاذری نے واضح کہا ہے کہ شھداء کے سر گیارہ محرم کو کاٹے گئے۔ جب عمر ابن سعد نے اہل بیت کو کوفے کی طرف روانہ کیا تو شھداء کے سروں کو بھی نیزوں پر چڑھا کر اپنے ساتھ کوفے لے گئے۔

 «واقام عمر بن سعد يومه والغد، ثم أمر حميد بن بكير الأحمري، فنادى في الناس بالرحيل إلى الكوفة، وحمل معه أخوات الحسين وبناته ومن كان معه من الصبيان، وعلي بن الحسين الصغير مريض، فلطمن النسوة، وصحن حين مررن بالحسين، وجعلت زينب بنت علي تقول:

يا محمداه صلى عليك ملك السما.

هذا حسين بالعرا، مزمّلٌ بالدما، مقطع الأعضا.

يا محمداه، وبناتك سبايا وذريتك مقتلةٌ تسفي عليها الصّبا.

فأبكت كل عدو وولي واحتزت رؤوس القتلى

«عمر بن سعد روز عاشورا اور اس کے بعد والا دن کربلاء میں ہی رہا پھر حميد بن بكير احمری کو حکم دیا کہ اسیروں کو کوفہ جانے کے لیے تیار کرے۔ عمر ابن سعد نے بہنوں، بیٹیوں، بچوں اور علی ابن الحسین(ع) کو کہ جو مریض تھے، اپنے ساتھ لے گیا۔ جب اہل بیت قتل گاہ سے گزرے تو عورتوں نے گریہ، سر اور سینوں پر ماتم کرنا شروع کر دیا۔ حضرت زینب بنت علی(ع) نے اس موقع پر کہا:

اے محمد! آسمان کے فرشتے آپ پر صلوات پڑھتے ہیں، یہ آپ کا بیٹا حسین ہے کہ جو خون میں لت پت ہے اور اس کے اعضاء کو کاٹ دیا گیا ہے۔ اے محمد! آپ کی بیٹیوں کو قیدی بنا لیا گیا ہے اور آپ کی اولاد کو قتل کر دیا گیا ہے اور اب صحرا کی ہوا ان کے بدنوں پر چل رہی ہے۔ راوی کہتا ہے کہ اس غمناک آواز کو سن کر دوست اور دشمن گریہ کر رہے تھے اور اسی دن ان شھداء کے سروں کو کاٹا گیا تھا۔      

البلاذری، أحمد بن يحيی بن جابر _متوفاى279 ق_، أنساب الأشراف، ج 1، ص 424، طبق برنامه الجامع الكبير.

 

دينوری کہتا ہے کہ اہل بیت کو کوفے کی طرف روانہ اور شھداء کے سروں کو نیزوں پر واقعہ عاشورا کے دو دن بعد چڑھایا گیا تھا۔

«وبعث عمر بن سعد برأس الحسين من ساعته إلى عبيدالله بن زياد مع خولي ابن يزيد الأصبحي . وأقام عمر بن سعد بكربلاء بعد مقتل الحسين يومين، ثم آذن في الناس بالرحيل ، وحملت الرؤوس على أطراف الرماح،وكانت اثنين وسبعين رأسا.»

 «عمر بن سعد نے سر مطهر امام حسين (ع) کو شھید ہونے کے فوری بعد خولی بن يزيد اصبحی کے ہاتھوں عبيد الله بن زياد کے لیے بیھجوا دیا اور عمر بن سعد امام حسین(ع) کی شھادت کے دو دن بعد تک کربلاء میں ہی رہا اور کوفے کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا اور پھر شھداء کے سروں کو نیزوں پر چڑھایا اور ان کی تعداد 72 سر تھے۔

الدينوری، أحمد بن داود _متوفای 282ق_، الأخبار الطوال، ج 1، ص 383، تحقيق : د.عصام محمد الحاج علی، دار النشر : دار الكتب العلمية  - بيروت/لبنان،

ایک دوسری روایت یہ ہے کہ شھداء کے سر روز عاشورا بدنوں سے جدا کیے گئے اور اسی دن تین بندوں کے ہاتھوں کوفہ کی طرف بیھج دیئے گئے۔

 سيد بن طاووس کی نقل کے مطابق عمر بن سعد کے حکم کے مطابق روز عاشورا کو شھداء کے سروں کو کاٹا گیا اور  شمر، قيس بن اشعث اور عمرو بن حجاج کے ذریعے سے کوفہ بیجھا گیا۔

 «ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ بْنَ سَعْدٍ بَعَثَ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ عليه السلام فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ وَ هُوَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ مَعَ خَوَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ الْأَصْبَحِيِّ وَ حُمَيْدِ بْنِ مُسْلِمٍ الْأَزْدِيِّ إِلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ وَ أَمَرَ بِرُءُوسِ الْبَاقِينَ مِنْ أَصْحَابِهِ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ فَنُظِّفَتْ وَ سُرِّحَ بِهَا مَعَ شِمْرِ بْنِ ذِي الْجَوْشَنِ لَعَنَهُ اللَّهُ وَ قَيْسِ بْنِ الْأَشْعَثِ وَ عَمْرِو بْنِ الْحَجَّاجِ فَأَقْبَلُوا حَتَّى قَدِمُوا بِهَا إِلَى الْكُوفَةِ وَ أَقَامَ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَ الْيَوْمَ الثَّانِيَ إِلَى زَوَالِ الشَّمْس.»

عمر ابن سعد نے امام حسین(ع) کا سر روز عاشورا خولی بن یزید اصبحی و حمید بن مسلم ازدی کے ذریعے عبید اللہ ابن زیاد کے پاس بیجھا اور پھر حکم دیا کہ دوسرے شھداء کے بھی سر بھی کاٹ کر شمر بن ذى الجوشن، قيس بن اشعث، اور عمرو بن حجّاج کے ہاتھوں ابن زیاد کے پاس بیجھے۔ وہ سروں کو کوفے لے کر آئے لیکن عمر سعد روز عاشورا اور بعد والے دن بھی دوپہر تک کربلاء میں ہی رہا۔

السيد ابن طاووس، الحسينی، علی بن موسی _متوفای 664 ق_ ، اللهوف في قتلى الطفوف، ص 85 ، ناشر : أنوار الهدى - قم

علامہ مجلسی نے بھی محمد بن ابی طالب سے اسی قول کو نقل کیا ہے کہ:

«وقال محمد بن أبي طالب : ثم إن عمر بن سعد سرح برأس الحسين عليه السلام يوم عاشورا مع خولي بن يزيد الأصبحي ، وحميد بن مسلم إلى ابن زياد ثم أمر برؤوس الباقين من أهله بيته وأصحابه فقطعت وسرح بها مع شمر بن ذي الجوشن إلى الكوفة وأقام ابن سعد يومه ذلك وغده إلى الزوال فجمع قتلاه فصلى عليهم ودفنهم ، وترك الحسين وأصحابه منبوذين بالعراء ، ...»

عمر ابن سعد نے امام حسین(ع) کا سر روز عاشورا خولی بن یزید اصبحی و حمید بن مسلم ازدی کے ذریعے عبید اللہ ابن زیاد کے پاس بیجھا اور پھر حکم دیا کہ دوسرے شھداء کے بھی سر بھی کاٹ کر شمر بن ذى الجوشن، قيس بن اشعث، اور عمرو بن حجّاج کے ہاتھوں ابن زیاد کے پاس بیجھے۔ وہ سروں کو کوفے لے کر آئے لیکن عمر سعد روز عاشورا اور بعد والے دن بھی دوپہر تک کربلاء میں ہی رہا پھر لشکر یزید سے قتل ہونے والوں پر نماز جنازہ پڑھی اور انکو دفن کیا لیکن امام حسین(ع) اور ان کے اصحاب کو صحرا و بیابان میں ایسے ہی چھوڑ کر چلے گئے........

المجلسی، محمد باقر _متوفاى1111 ق_، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 45، ص 62، تحقيق: محمد الباقر البهبودی، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان،

ابن کثیر بھی خولی کے امام حسین(ع) کے سر کو گھر لے کر جانے اور پھر گھر سے سر کو عبید اللہ زیاد کے پاس لے کر جانے والے مطلب کو ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے کہ قول مشھور یہ ہے کہ باقی شھداء کے سر بھی امام حسین(ع) کے سر کے ساتھ تھے۔

«فلما أصبح غدا به إلى ابن زياد فأحضره بين يديه ويقال إنه كان معه رؤس بقية أصحابه وهو المشهور ومجموعها اثنان وسبعون رأسا وذلك أنه ما قتل قتيل إلا احتزوا رأسه وحملوه إلى ابن زياد ثم بعث بها ابن زياد إلى يزيد بن معاوية إلى الشام.»

صبح کے وقت امام حسین(ع) کے سر کو ابن زیاد کے پاس لے کر گیا اور جا کر سر اس کے سامنے رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ امام کا سر بھی دوسرے شھداء کے سروں کے ساتھ تھا اور یہی قول مشھور ہے۔ شھداء کے سروں کی تعداد 72 تھی۔ دلیل یہ ہے کہ تمام شھداء کے سروں کو کاٹا گیا تھا اور ابن زیاد کے پاس بیجھا گیا تھا اور ابن زیاد نے بھی سروں کو یزید ابن معاویہ کے پاس شام بیھج دیا۔

ابن كثير الدمشقی، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشی _متوفاى774 ق_، البداية والنهاية، ج 8، ص 190، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

نكتہ سوم:

 72 يا 78 سر  کاٹے گئے ؟

اس بارے میں کہ عمر سعد کے لشکر نے کتنے شھداء کربلاء کے سروں کو کاٹا ہے اور سروں کی تعداد کتنی تھی، اختلاف ہے۔

بعض روایات کے مطابق شھداء کے سروں کی تعداد 78 تھی۔

سيد بن طاووس نے لکھا ہے کہ:

«وَ رُوِيَ أَنَّ رُءُوسَ أَصْحَابِ الْحُسَيْنِ عليه السلام كَانَتْ ثَمَانِيَةً وَ سَبْعِينَ رَأْساً فَاقْتَسَمَتْهَا الْقَبَائِلُ لِتَقْرُبَ بِذَلِكَ إِلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ وَ إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَجَاءَتْ كِنْدَةُ بِثَلَاثَةَ عَشَرَ رَأْساً وَ صَاحِبُهُمْ قَيْسُ بْنُ الْأَشْعَثِ وَ جَاءَتْ هَوَازِنُ بِاثْنَيْ عَشَرَ رَأْساً وَ صَاحِبُهُمْ شِمْرُ بْنُ ذِي الْجَوْشَنِ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَ جَاءَتْ تَمِيمٌ بِسَبْعَةَ عَشَرَ رَأْساً وَ جَاءَتْ بَنُو أَسَدٍ بِسِتَّةَ عَشَرَ رَأْساً وَ جَاءَتْ مَذْحِجُ بِسَبْعَةِ رُءُوسٍ وَ جَاءَ بَاقِي النَّاسِ بِثَلَاثَةَ عَشَرَ رَأْساً.»

روایت ہوئی ہے کہ: امام حسین(ع) کے اصحاب کے سروں کی تعداد 78 تھی کہ عرب کے قبائل نے عبید اللہ ابن زیاد اور یزید کے دربار میں اپنا نام اور مقام بنانے کے لیے سروں کو کو آپس میں تقسیم کیا ہوا تھا۔

قبیلہ کندہ قیس بن اشعث کی سربراہی میں 13 سر لے کر آیا۔ قبیلہ ھوازن شمر ابن ذی الجوشن کی سربراہی میں 12 سر لے کر آیا۔ قبیلہ تمیم 17 سر، قبیلہ بنی اسد 16 سر، قبیلہ مذحج 7 سر اور باقی لشکر 13 سر لے کر آیا۔

السيد ابن طاووس، الحسينی، علی بن موسی _متوفای 664 ق_ ، اللهوف في قتلى الطفوف، ص 85 ، ناشر : أنوار الهدى - قم – ايران،

علامہ مجلسی نے بھی «محمد بن ابی طالب» سے اسی قول کو نقل کیا ہے:

«وقال محمد بن أبي طالب : وروي أن رؤس أصحاب الحسين وأهل بيته كانت ثمانية وسبعين رأسا واقتسمتها القبائل ليتقربوا بذلك إلى عبيد الله وإلى يزيد.»

شھداء کے سروں کی تعداد 78 تھی۔

العلامة المجلسی، بحار الأنوار، ج 45 ص 62

ایک دوسری نقل کے مطابق 72 شھداء کے سر جدا کر کے ابن زیاد کے پاس بیھجے گئے:

مرحوم شيخ طبرسی اپنی كتاب اعلام الوری میں لکھتے ہیں کہ:

«وأمر برؤوس الباقين فقطعت وكانت اثنين وسبعين رأسا ...»

«عمر بن سعد کے حکم کے مطابق اصحاب امام حسین کے سروں کو کاٹا گیا تو انکی تعداد 72 تھی۔

الطبرسی، أبی علی الفضل بن الحسن _متوفاى548 ق_، إعلام الورى بأعلام الهدى، ج ،1 ص 470، تحقيق و نشر: تحقيق مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث ـ قم، الطبعة : الأولى، 1417هـ .

ابن حاتم عاملی نے بھی اسی بات کو لکھا ہے:

«وأمر برؤوس الباقين من أصحابه وأهل بيته فقطعت، فكانت اثنين وسبعين رأسا. ...»

العاملی، الشيخ جمال الدين يوسف بن حاتم بن فوز _متوفاي664 ق_، الدر النظيم. ص 559، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسين، قم المشرفة. بي‌تا.

اہل سنت کے مؤرخین نے بھی اسی قول کو نقل کیا ہے۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ:

«فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر بن ذي الجوشن، وقيس بن الأشعث وعمرو بن الحجاج الزبيدي، وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد.»

72 سروں کو شمر بن ذي الجوشن، قيس بن اشعث، عمرو بن حجاج زبيدي وعزرة بن قيس احمسی قبيلہ‌           بجلّہ کے ذریعے ابن زیاد کے پاس بیھجا گیا۔

أنساب الأشراف، ج 1، ص 424

بدر الدين عينی نے كتاب «عمدة القاری شرح صحيح البخاری میں بھی لکھا ہے کہ:

«وكانت الرؤوس اثنين وسبعين رأساً.»

شھداء کے 72 سر تھے۔

العينی الحنفی، بدر الدين محمود بن أحمد _متوفای 855 ق_، عمدة القاری شرح صحيح البخاری، ج 16، ص 241، ناشر: دار إحياء التراث العربی – بيروت.

صاحب بغيۃ                الطلب نے بھی لکھا ہے کہ:

«وحملت الرؤوس على أطراف الرماح وكانت اثنين وسبعين رأسا

ان سروں کو کہ جن کو نیزوں پر چڑھایا گیا ان کی تعداد 72 تھی۔

بغية الطلب في تاريخ حلب، ج 6، ص 2630.

 

نتيجہ‌ كلی:

اولا: امام حسین(ع) کے سر کو روز عاشورا ابن زیاد کے پاس بیھجا گیا۔ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے۔

ثانيا: باقی شھداء کربلاء کے سروں کو کب کوفے بیھجا گیا، اس بارے میں دو قول نقل ہوئے ہیں۔ ایک قول کے مطابق روز عاشورا، اور دوسرے قول کے مطابق گیارہ محرم کو عمر ابن سعد سروں کو اہل بیت کے ساتھ خود کوفہ لے کر گیا۔

ثالثا: کٹے ہوئے سروں کی تعداد میں بھی اختلاف ہے لیکن 72 سروں کا ہونا قطعی اور یقینی ہے۔

التماس دعا





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات