2024 April 25
خطبہ غدیر میں حدیث ثقلین کے بارے میں بحث اور اثبات امامت میں حدیث ثقلین کا کردار
مندرجات: ٥٦٠ تاریخ اشاعت: ٢٦ January ٢٠١٧ - ١٣:٠٠ مشاہدات: 6191
مضامین و مقالات » پبلک
خطبہ غدیر میں حدیث ثقلین کے بارے میں بحث اور اثبات امامت میں حدیث ثقلین کا کردار

بیان شبہ:

ابن تیمیہ ناصبی نے کتاب منہاج السنہ میں لکھا ہے کہ:

و الذی رواه مسلم انه بغدیر خم قال إنی تارک فیكم الثقلین كتاب الله فذكر كتاب الله و حض علیه ثم قال و عترتی أهل بیتی أذكركم الله فی أهل بیتی ثلاثا و هذا مما انفرد به مسلم و لم یروه البخاری

و قد رواه الترمذی و زاد فیه و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض

و قد طعن غیر واحد من الحفاظ فی هذه الزیادة و قال إنها لیست من الحدیث و الذین اعتقدوا صحتها قالوا: إنما یدل علی أن مجموع العترة الذین هم بنو هاشم لا یتفقون علی ضلالة و هذا قاله طائفة من أهل السنة و هو من أجوبة القاضی أبی یعلی و غیره

و الحدیث الذی فی مسلم إذا كان النبی * قد قاله فلیس فیه إلا الوصیة باتباع كتاب الله و هذا أمر قد تقدمت الوصیة به فی حجة الوداع قبل ذلک و هو لم یأمر باتباع العترة لكن قال أذكركم الله فی أهل بیتی و تذكیر الأمة بهم یقتضی أن یذكروا ما تقدم الأمر به قبل ذلک من إعطائهم حقوقهم و الامتناع من ظلمهم و هذا أمر قد تقدم بیانه قبل غدیر خم

فعلم انه لم یكن فی غدیر خم أمر یشرع نزل إذ ذاک لا فی حق علی و لا غیره لا إمامته و لا غیرها۔

وہ جو مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں غدید خم کے بارے میں نقل کیا ہے، وہ رسول خدا (ص) کا یہ جملہ ہے کہ جو انھوں نے فرمایا کہ: میں تم لوگوں کے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک خداوند کی کتاب قرآن ہے کہ خدا نے اس کے بارے میں تم لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اور دوسری میری عترت و میرے اہل بیت ہیں، پھر تین مرتبہ تکرار کیا کہ میرے اہل بیت کو فراموش نہ کرنا، لیکن بخاری نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔

لیکن ترمذی نے تھوڑے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے کہ: رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ: یہ دونوں ( قرآن و اہل بیت ) آپس میں جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے دونوں میرے پاس آئیں گے۔

بعض حفّاظ و محدثین نے اس جملے کو حدیث میں زیادہ کہا ہے، ( یعنی یہ حصہ رسول خدا نے نہیں فرمایا، بلکہ بعد میں محدثین نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے،) اور اسکو قبول نہیں کیا اور کہا ہے کہ: وہ جو اس حدیث سے سمجھا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ میری ساری عترت یعنی بنی ہاشم کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوں گے۔

اہل سنت کے ایک گروہ نے بھی اس کے بارے میں یہی جواب دیا ہے، کہ قاضی ابو یعلی وغیرہ اس گروہ میں سے ہیں۔

مسلم کی نقل کے مطابق اگر رسول خدا (ص) نے کہا بھی ہو تو، فقط یہ کہا ہے کہ قرآن کی پیروی و اطاعت کرو کہ اسی بات کو حجۃ الوداع میں بھی رسول خدا نے سب کو کہا تھا، لیکن اہل بیت کی پیروی و اطاعت کرنے کے بارے میں رسول خدا نے کچھ نہیں کہا، ان کے بارے میں فقط یہ کہا ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو اور ان پر ظلم و ستم نہ کرو کہ یہ بات تو رسول خدا نے غدیر خم سے پہلے بھی کئی مرتبہ کہی ہے۔

لہذا معلوم ہوا کہ غدیر خم میں علی وغیرہ کی امامت کے بارے میں خدا و رسول کی طرف سے کوئی بھی فرمان وغیرہ صادر نہیں ہوا تھا۔

إبن تیمیة الحرانی ، أحمد بن عبد الحلیم أبو العباس (متوفی728هـ) منهاج السنة النبویة ، ج 7 ص318 ـ 319 ، تحقیق : د. محمد رشاد سالم ، ناشر : مؤسسة قرطبة ، الطبعة : الأولی ، 1406

اس شبھے میں ابن تیمیہ کی نگاہ اس حدیث پر، کہ جو رسول خدا (ص) کی با ارزش مند ترین احادیث میں سے ہے، ایک شک آلود نگاہ ہے، یعنی جہاں پر ابن تیمیہ کہتا ہے کہ:

و الحدیث الذی فی مسلم إذا كان النبی قد قاله فلیس فیه إلا الوصیة باتباع كتاب الله،

اس عبارت میں ابن تیمیہ ناصبی نہ فقط یہ رسول خدا (ص) کی وصیت کو اہل بیت (ع) کے بارے میں قبول نہیں کرتا، بلکہ دوسروں کو بھی اہل بیت سے دور کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہا ہے۔

اب ہم رسول خدا (ص) کی اس وصیت کے بارے میں ابن تیمیہ کے شبھے کے اصل جواب کو ذکر کرنے سے پہلے، اس نورانی حدیث کے الفاظ و لغات کی تفسیر اور تشریح بیان کرتے ہیں، تا کہ اس طرح سے اس حدیث کا معنی و مفہوم بھی واضح ہو سکے:

تفصیلی جواب:

بحث اول: مفہوم حدیث ثقلین

الف-لغوی معنی:

یہ حدیث، حدیث ثقلین کے نام سے مشہور ہے، ثقلین، تثنیہ کا صیغہ ہے کہ جو دو کے معنی پر دلالت کرتا ہے،

ثقل کا لغت میں معنی: وہ چیز ہے کہ جو مسافر اپنے ساتھ سفر پر لے کر جاتا ہے۔

بعض محدثین اور اہل لغت نے اس لفظ کو ثِقْلَین بھی پڑھا ہے، کہ اس صورت میں اس کا لغوی معنی وزنی اور خزانہ ہو گا۔

لیکن صحیح یہ ہے کہ اس حدیث میں لفظ ثقلین، ثاء اور قاف کی زبر کے ساتھ ہے۔ فیروز آبادی نے کتاب القاموس المحیط میں کہا ہے کہ:

 ثَقَل بمعنی مسافر کا سامان اور ہر اس قیمتی و نفیس چیز کو کہتے ہیں کہ چھپا کر محفوظ طریقے سے رکھا جاتا ہے، لغت کے اسی معنی سے یہ حدیث ہے کہ:

إِنِّی تارِكٌ فِیكُمُ الثَّقَلَینِ، كِتابَ اللهِ وَ عِتْرَتِی.

 القاموس المحیط: ج3 ص353، المؤسّسة العربیة ـ بیروت

ابن منظور نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

سمیا ثقلین لأن الأخذ بهما ثقیل و العمل بهما ثقیل ، قال : و أصل الثقل أن العرب تقول لكل شیء نفیس خطیر مصون ثقل ، فسماهما ثقلین إعظاما لقدرهما و تفخیما لشأنهما.

کتاب خدا اور عترت کو ثقلین کہا جاتا ہے، کیونکہ ان دو سے تمسک کرنا اور ان دو پر عمل کرنا، سنگین و وزنی ہے، اور اسکے علاوہ عرب ہر قیمتی اور مہم چیز کو ثقل کہتے ہیں۔ پس قرآن اور اہل بیت کو ثقل کہنا، ان دونوں کے بلند و بالا مقام کی وجہ سے ہے۔

محمد بن مكرم بن منظور الأفریقی المصری، الوفاة: 711 ، ج 11 ص 88، دار النشر : لسان العرب دار صادر - بیروت ، الطبعة : الأولی.

لفظ ثقل کا معنی لغوی، حدیث ثقلین کے ساتھ زیادہ مناسب ہے، کیونکہ جب مسافر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جاتا ہے، خاص طور پر اسوقت کہ جب وہ واپس پلٹنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو، تو اپنے مال و اسباب کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے، کیونکہ اس زمانے میں مال و اسباب کو حمل و نقل کرنا بہت مشقت کا کام تھا، اسلیے روز مرہ استعمال کی تمام اشیاء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ممکن نہیں تھا، لہذا سفر پر جاتے وقت اپنی قیمتی اشیاء کو کسی امین بندے کے ہاتھوں سپرد کر جاتے تھے۔

رسول خدا (ص) نے بھی اس حدیث کے بیان کرنے سے پہلے یہی فرمایا تھا کہ:

مجھے دعوت دے کر بلایا گیا ہے اور میں نے بھی اس دعوت پر جانے کو قبول کر لیا ہے،

بعض کتب میں آیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ: مجھے دعوت دی جائے گی اور میں بھی اس دعوت پر لبیک کہوں گا۔

رسول خدا (ص) اپنی وفات اور سفر آخرت پر جانے کی خبر دے رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی خبر فرما رہے ہیں کہ: و إنّی تاركٌ»، آخرت کے سفر کا تقاضا ہے کہ وہ حضرت اپنی عزیز ترین اور قیمتی ترین اشیاء کو اپنے ساتھ لے جائیں، لیکن رحمۃ للعالمین ہونے اور اپنی امت کی نجات کی خاطر، دین خدا کی بقاء اور شریعت محمدی کے دائمی ہونے کی خاطر، اپنی زندگی کی مہم ترین دو چيزیں، کہ جن کو اپنی زندگی میں بھی بہت ہی زیادہ اہمیت دیتے تھے، امت کی ہدایت اور نجات کے لیے ان کے لیے چھوڑ جائیں، پھر اپنی امت کو یہ وصیت بھی کر دی کہ ان دونوں کی قدر اور اہمیت کو جاننا اور ان سے دور نہ ہونا، کیونکہ تم لوگوں کی ابدی ہدایت و نجات ان دونوں کی پیروی اور اتباع کرنے میں ہے۔ رسول خدا (ص) نے اپنی امت پر انتہائی لطف و رحمت کی وجہ سے ان دو گرانبہا چیزوں کو اپنی وفات کے بعد، اپنی امت کے لیے چھوڑا۔ إِنِّی تارِكٌ فِیكُمُ الثَّقَلَینِ، كِتابَ اللهِ وَ عِتْرَتِی.

ب: اصطلاحی معنی:

اس حدیث میں الفاظ اخذ، تمسک اور اعتصام کی دلالت اسطرح ہے کہ، کیونکہ یہ الفاظ قرآن اور اہل بیت کی بغیر کسی قید و شرط کے مطلق پیروی و اتباع کو ہر انسان پر واجب قرار دیتے ہیں، لھذا اس حدیث سے اہل بیت کی امامت و خلافت بھی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ مطلق اطاعت اور امامت و خلافت کے درمیان نا قابل انکار تلازم و رابطہ موجود ہے۔

اہل سنت کے بزرگان جیسے، مناوی نے «شرح جامع صغیر»  ملاّ علی قاری نے «شرح شكاة»، و «نسیم الرّیاض»، «شرح المواهب اللَّدُنیة»، «السّراج المنیر فی شرح الجامع الصّغیر»، «الصّواعق المحرقة»، و «جواهر العقدین» میں کہ جہنوں نے اس نورانی حدیث کی شرح لکھی ہے، انھوں نے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے کہ حدیث ثقلین کا مفہوم یہ ہے کہ تمام امت اسلامی کو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام مسائل و احکام دینی و دنیوی میں رسول خدا (ص) کے اہل بیت کے کردار و افعال کی پیروی و اتباع کرنے کی ترغیب و تشویق دلائی گئی ہے، یعنی امت اسلامی کے لیے اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ رسول خدا (ص) کے اہل بیت (ع) ہیں۔

اسی بارے میں مناوی نے کہا ہے کہ:

عن عبد الله بن زید عن أبیه أنه علیه الصلاة و السلام قال: من أحب أن ینسأ له فی أجله و أن یمتنع بما خلفه الله فلیخلفنی فی أهلی خلافة حسنة فمن لم یخلفنی فیهم بتر عمره و ورد علی یوم القیامة مسودا وجهه.

جو چاہتا ہے کہ خداوند اسکی موت میں تاخیر کرے اور جو کچھ اس نے اپنے بعد چھوڑا ہے، اس کے شر سے محفوظ رہے، تو اسکو چاہیے کہ میرے احترام کا میرے اہل بیت میں اچھے طریقے سے خیال رکھے، پس جو بھی میرے اہل بیت کے ساتھ نیک سلوک نہ کرے تو، اسکی عمر کم ہو جائے گی اور وہ قیامت کے دن سیاہ چہرے کے ساتھ خداوند کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔

عبد الرؤوف المناوی، الوفاة: 1031 هـ ، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ، ج2 ص175 ، دار النشر : المكتبة التجاریة الكبری - مصر - 1356هـ ، الطبعة : الأولی،

بحث دوم : حدیث ثقلین کے بارے میں ہونے والے شبہات:

الف: عدم تواتر حدیث ثقلین:

ابن تیمیہ نے ایک دوسرا اشکال و اعتراض کیا ہے کہ حدیث ثقلین، حدیث متواتر نہیں ہے، اس نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

و الذی رواه مسلم انه بغدیر خم قال إنی تارک فیكم الثقلین كتاب الله فذكر كتاب الله و حض علیه ثم قال و عترتی أهل بیتی أذكركم الله فی أهل بیتی ثلاثا و هذا مما انفرد به مسلم و لم یروه البخاری و قد رواه الترمذی و زاد فیه و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض و قد طعن غیر واحد من الحفاظ فی هذه الزیادة و قال إنها لیست من الحدیث و الذین اعتقدوا صحتها قالوا إنما یدل علی أن مجموع العترة الذین هم بنو هاشم لا یتفقون علی ضلالة و هذا قاله طائفة من أهل السنة و هو من أجوبة القاضی أبی یعلی و غیره و الحدیث الذی فی مسلم إذا كان النبی* قد قاله فلیس فیه إلا الوصیة باتباع كتاب الله و هذا أمر قد تقدمت الوصیة به فی حجة الوداع قبل ذلک و هو لم یأمر باتباع العترة لكن قال أذكركم الله فی أهل بیتی و تذكیر الأمة بهم یقتضی أن یذكروا ما تقدم الأمر به قبل ذلک من إعطائهم حقوقهم و الامتناع من ظلمهم و هذا أمر قد تقدم بیانه قبل غدیر خم۔

وہ جو مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں غدید خم کے بارے میں نقل کیا ہے، وہ رسول خدا کا یہ جملہ ہے کہ جو انھوں نے فرمایا کہ: میں تم لوگوں کے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک خداوند کی کتاب قرآن ہے کہ خدا نے اس کے بارے میں تم لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اور دوسری میری عترت و میرے اہل بیت ہیں، پھر تین مرتبہ تکرار کیا کہ میرے اہل بیت کو فراموش نہ کرنا، لیکن بخاری نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔

لیکن ترمذی نے تھوڑے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا کہ: یہ دونوں ( قرآن و اہل بیت ) آپس میں جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے دونوں میرے پاس آئیں گے۔

بعض حفّاظ و محدثین نے اس جملے کو حدیث میں زیادہ کہا ہے، ( یعنی یہ حصہ رسول خدا نے نہیں فرمایا، بلکہ بعد میں محدثین نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے،) اور اسکو قبول نہیں کیا اور کہا ہے کہ: وہ جو اس حدیث سے سمجھا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ میری ساری عترت یعنی بنی ہاشم کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوں گے۔

اہل سنت کے ایک گروہ نے بھی اس کے بارے میں یہی جواب دیا ہے، کہ قاضی ابو یعلی وغیرہ اس گروہ میں سے ہیں۔

مسلم کی نقل کے مطابق اگر رسول خدا نے کہا بھی ہو تو، فقط یہ کہا ہے کہ قرآن کی پیروی و اطاعت کرو کہ اسی بات کو حجۃ الوداع میں بھی رسول خدا نے سب کو کہا تھا، لیکن اہل بیت کی پیروی و اطاعت کرنے کے بارے میں رسول خدا نے کچھ نہیں کہا، ان کے بارے میں فقط یہ کہا ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو اور ان پر ظلم و ستم نہ کرو کہ یہ بات تو رسول خدا نے غدیر خم سے پہلے بھی کئی مرتبہ کہی ہے۔

أحمد بن عبد الحلیم بن تیمیة الحرانی أبو العباس، الوفاة: 728 ، منهاج السنة النبویة ، منهاج السنة النبویة ج 7 ص 318 دار النشر : مؤسسة قرطبة - 1406 ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : د. محمد رشاد سالم،

تنقید اور تحقیق:

 

اگرچے ابن تیمیہ جیسے انسان سے یہی امید و انتظار ہے کہ وہ حدیث کہ جسکو اہل سنت کے علماء و محدثین نے صحیح اور متواتر کہا ہے، وہ اس حدیث کا انکار کرے، کیونکہ یہ حدیث نہ فقط یہ کہ حدیث کتب شیعہ میں مختلف اسناد سے تواتر کے ساتھ نقل و ذکر ہوئی ہے بلکہ اہل سنت کی معتبر کتب میں، بلکہ اس سے بھی بالا تر کہ کتب حدیثی کے مصنفین اور شارحین نے بھی حکم ترین دلائل بیان کیے ہیں کہ حدیث ثقلین، حدیث متواتر ہے، کیونکہ حدیث متواتر، اس گروہ کی خبر کو کہتے ہیں کہ جس کے راویوں کا سلسلہ ہر طبقے میں معصوم تک اس حد تک ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق کرنا، عام طور پر محال ہو اور اس گروہ کہ اس خبر کے نقل کرنے کی وجہ سے اس خبر کے بارے میں انسان کو یقین حاصل ہو جاتا ہو۔

کیونکہ حدیث ثقلین کو کتب شیعہ اور اہل سنت میں کافی تعداد میں راویوں نے نقل کیا ہے، اسی وجہ سے یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کی نگاہ میں متواتر ہے، اسکے علاوہ اہل سنت کے بہت سے محدثین نے حدیث ثقلین کو صحیح و معتبر کہا ہے، ان میں سے ہم بعض محدثین کے اسماء اور انکی کتب کو ذکر کرتے ہیں:

1- مسلم بن حجاج نیشاپوری :

اس نے حدیث ثقلین کو اپنی کتاب صحیح مسلم میں ذکر کر کے اس حدیث کے صحیح ہونے کی عملی طور پر تائید اور تصدیق کی ہے۔ آپ نے زید ابن ارقم کی روایت کو اسی بارے میں پہلے ملاحظہ کیا ہے۔

حدثنی زُهَیرُ بن حَرْبٍ وَ شُجَاعُ بن مَخْلَدٍ جمیعا عن بن عُلَیةَ قال زُهَیرٌ حدثنا إسماعیل بن إبراهیم حدثنی أبو حَیانَ حدثنی یزِیدُ بن حَیانَ قال انْطَلَقْتُ أنا وَ حُصَینُ بن سَبْرَةَ وَ عُمَرُ بن مُسْلِمٍ إلی زَیدِ بن أَرْقَمَ فلما جَلَسْنَا إلیه قال له حُصَینٌ لقد لَقِیتَ یا زَیدُ خَیرًا كَثِیرًا رَأَیتَ رَسُولَ اللَّهِ * وَ سَمِعْتَ حَدِیثَهُ وَ غَزَوْتَ معه وَ صَلَّیتَ خَلْفَهُ لقد لَقِیتَ یا زَیدُ خَیرًا كَثِیرًا حَدِّثْنَا یا زَیدُ ما سَمِعْتَ من رسول اللَّهِ * قال یا بن أَخِی و الله لقد كَبِرَتْ سِنِّی وَ قَدُمَ عَهْدِی وَ نَسِیتُ بَعْضَ الذی كنت أَعِی من رسول اللَّهِ  فما حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا و ما لَا فلا تُكَلِّفُونِیهِ ثُمَّ قال قام رسول اللَّهِ  یوْمًا فِینَا خَطِیبًا بِمَاءٍ یدْعَی خُمًّا بین مَكَّةَ وَ الْمَدِینَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَی علیه وَ وَعَظَ وَ ذَكَّرَ ثُمَّ قال أَمَّا بَعْدُ ألا أَیهَا الناس فَإِنَّمَا أنا بَشَرٌ یوشِكُ أَنْ یأْتِی رسول رَبِّی فَأُجِیبَ و أنا تَارِكٌ فِیكُمْ ثَقَلَینِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فیه الْهُدَی وَ النُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَ اسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ علی كِتَابِ اللَّهِ وَ رَغَّبَ فیه ثُمَّ قال وَ أَهْلُ بَیتِی أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فی أَهْلِ بَیتِی أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فی أَهْلِ بَیتِی أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فی أَهْلِ بَیتِی فقال له حُصَینٌ وَ مَنْ أَهْلُ بَیتِهِ یا زَیدُ أَ لَیسَ نِسَاؤُهُ من أَهْلِ بَیتِهِ قال نِسَاؤُهُ من أَهْلِ بَیتِهِ وَ لَكِنْ أَهْلُ بَیتِهِ من حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ قال وَ مَنْ هُمْ قال هُمْ آلُ عَلِی وَ آلُ عَقِیلٍ وَ آلُ جَعْفَرٍ وَ آلُ عَبَّاسٍ قال كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ قال نعم.

یزید ابن حیان نے کہا ہے کہ: میں حصین بن سبره اور عمر بن مسلم کے ساتھ زید بن ارقم کے پاس گيا، وہاں گئے تو حصین نے کہا: اے زید! خداوند نے تمہیں بہت خیر عطا کی ہے، کہ تم نے رسول خدا کو دیکھا ہے، ان سے حدیث کو سنا ہے اور ان کے ساتھ جہاد میں بھی شرکت کی ہے۔ لہذا تم نے جو رسول خدا سے سنا ہے، تھوڑا ہمارے لیے بھی بیان کرو۔ زید نے کہا: اے میرے بھائی کے بیٹے! میری عمر زیادہ ہو  گئی ہے، رسول خدا کو دیکھے ہوئے، بہت عرصہ گزر چکا ہے، اسی لیے میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا ہے، وہ میں بھول گیا ہوں، لہذا جو کچھ میں تمہارے لیے بیان کرتا ہوں، اس کو مجھ سے قبول کر لو اور جو کچھ میں تمہارے لیے بیان نہیں کرتا،  اسکو بیان کرنے کے لیے مجھے مجبور نہ کرو۔ پھر اس نے کہا: ایک دن رسول خدا ہمارے لیے خطبہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ہم مکہ اور مدینہ کے درمیان " خم " کے مقام پر تھے۔ رسول خدا نے خداوند کی حمد و تعریف کے بعد وعظ و نصیحت کی۔ اس کے بعد کہا: اے لوگو، جان لو کہ میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں، بہت جلد مجھے بھی خداوند کی طرف سے سفر آخرت پر جانے کی دعوت دی جائے گی اور میں اس دعوت کو قبول کروں گا۔ میں تم لوگوں کے لیے دو مہم اور قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک قرآن کریم کہ وہ ہدایت اور نور ہے۔ خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اسے ہاتھ سے جانے نہ دو، پھر قرآن کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی۔ پھر فرمایا کہ: دوسری وہ چیز، میرے اہل بیت ہیں۔ خدا کے لیے میرے اہل بیت کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ ( اس جملے کو رسول خدا نے تین مرتبہ تکرار کیا۔ حصین نے زید سے پوچھا کہ: رسول خدا کے اہل بیت کون ہیں ؟ مگر  کیا انکی زوجات انکی اہل بیت نہیں ہیں ؟ زید نے جواب دیا: رسول خدا کی زوجات انکی اہل بیت ہیں، لیکن رسول خدا کے اہل بیت وہ ہیں کہ جن پر صدقہ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ: وہ کون ہیں کہ جن پر صدقہ حرام ہے ؟ اس نے جواب دیا : آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس۔ حصین نے کہا: کیا صدقہ ان سب پر حرام ہے ؟ اس نے جواب دیا: ہاں،

مسلم نے ایک دوسری سند کے ساتھ زید ابن ارقم سے نقل کیا ہے کہ: اس سے پوچھا گيا کہ: کیا رسول خدا کی ازواج بھی انکی اہل بیت ہیں ؟ اس نے کہا: نہ، خدا کی قسم بیوی ایک مدت تک شوہر کے ساتھ رہتی ہے، لیکن جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ اپنے والدین کے پاس واپس چلی جاتی ہے۔ رسول خدا کے اہل بیت انکی اصل اور وہ گروہ ہے کہ جن پر صدقہ حرام ہے۔

 مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری النیشاپوری، الوفاة: 261 ، صحیح مسلم ج 4 ص 1873 دار النشر : دار إحیاء التراث العربی – بیروت، تحقیق : محمد فؤاد عبد الباقی

2- ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی :

اس نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں ثقلین کے بارے میں دو روایات کو نقل کیا ہے اور ہر دو روایت کو حسن کہا ہے، ( حدیث حسن، وہ ہے کہ جسکا مرتبہ و مقام حدیث صحیح کے بعد آتا ہے،) اور لکھا ہے کہ:

 حدثنا علی بن المنذر كوفی حدثنا محمد بن فضیل قال حدثنا الأعمش عن عطیة عن أبی سعید و الأعمش عن حبیب بن أبی ثابت عن زید بن أرقم رضی الله عنهما قالا قال رسول الله * إنی تارك فیكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدی أحدهما أعظم من الآخر كتاب الله حبل ممدود من السماء إلی الأرض و عترتی أهل بیتی و لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض فانظروا كیف تخلفونی فیهما قال هذا حدیث حسن غریب.

رسول خدا نے فرمایا کہ: میں تمہارے لیے ایک ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسکو مضبوطی سے تھام تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے۔ ان میں سے ایک چیز دوسری سے افضل ہے: کتاب خدا کہ ایک وسیلہ ہے کہ جو آسمان سے زمین تک پہنچا ہوا ہے، اور میرے اہل بیت ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے دونوں میرے پاس آئیں گے۔ پس احتیاط سے کام لینا کہ میرے بعد تم ان سے کیسا سلوک کرتے ہو۔ پھر وہ کہتا ہے کہ: یہ حدیث حسن و غریب ہے۔

اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں جابر عبد اللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ:

حدثنا نصر بن عبد الرحمن الكوفی حدثنا زید بن الحسن هو الأنماطی عن جعفر بن محمد عن أبیه عن جابر بن عبد الله قال رأیت رسول الله  فی حجته یوم عرفة و هو علی ناقته القصواء یخطب فسمعته یقول یا أیها الناس إنی قد تركت فیكم ما إن أخذتم به لن تضلوا كتاب الله و عترتی أهل بیتی...

جابر کہتا ہے کہ: میں نے رسول خدا کو حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے دن دیکھا کہ وہ قصوای نامی اونٹنی پر سوار تھے اور لوگوں کے لیے خطبہ پڑھ رہے تھے۔ میں نے سنا کہ وہ فرما رہے تھے کہ: اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر اسکو قبول کرو گے اور اس پر عمل کرو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ چیز قرآن اور میرے اہل بیت ہیں۔

محمد بن عیسی أبو عیسی الترمذی السلمی، الوفاة: 279 ، الجامع الصحیح سنن الترمذی ، ج 5 ص 662، دار النشر : دار إحیاء التراث العربی - بیروت ، تحقیق : أحمد محمد شاكر وآخرون

3- حافظ ابو عبد الله حاكم نیشاپوری:

حاكم نشاپوری نے حدیث ثقلین کو كتاب المستدرک علی الصحیحین میں ذكر کیا ہے اور کہا ہے کہ:

لمّا رجع رسول الله (ص) من حجة الوداع و نزل غدیر خم امر بدوحات فقمن فقالكانی قد دعیت فاجبت . انی قد تركت فیكم الثقلین احدهما اكبر من الآخركتاب الله تعالی و عترتی فانظروا كیف تخلفونی فیهما فانهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض. ثم قال: ان الله عز و جل مولای و انا مولی كل مؤمن. ثم اخذ بید علی فقال: من كنت مولاه فهذا ولیه اللهم و آل من والاه و عاد من عاداہ۔

جب رسول خدا حجۃ الوداع سے واپس آئے تو جب غدید خم کے مقام پر پہنچے تو حکم دیا کہ درختوں کے نیچے سے کانٹوں اور جھاڑیوں وغیرہ کو صاف کریں..... پھر فرمایا کہ: گویا مجھے خداوند کی طرف سے دعوت دی ہے اور میں نے بھی اس دعوت کو قبول کر لیا ہے۔ پھر رسول خدا نے فرمایا کہ: میں تمہارے لیے دو ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے انکو مضبوطی سے تھامو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے۔ ان میں سے ایک چیز دوسری سے افضل ہے: کتاب خدا کہ ایک وسیلہ ہے کہ جو آسمان سے زمین تک پہنچا ہوا ہے، اور میرے اہل بیت ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے دونوں میرے پاس آئیں گے۔ پس احتیاط سے کام لینا کہ میرے بعد تم ان سے کیسا سلوک کرتے ہو۔ پھر فرمایا کہ: بے شک خداوند میرا مولا ہے اور میں ہر مؤمن کا مولا ہوں، پھر علی (ع) کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا: جس جس کا میں مولا ہوں، پس علی اس اس کا ولی ہے۔ خداوندا اس سے دوستی فرما جو علی سے دوستی کرے اور اس سے دشمنی فرما جو علی سے دشمنی کرے۔

اس کے بعد حاکم نے واضح کہا ہے کہ:

هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین و لم یخرجاه بطوله.

یہ حدیث ( ثقلین ) بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، لیکن ان دونوں نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں مکمل طور پر نقل نہیں کیا۔

محمد بن عبد الله أبو عبد الله الحاكم النیشاپوری، الوفاة: 405 هـ ، المستدرك علی الصحیحین، ج 3 ص 118، دار النشر : دار الكتب العلمیة - بیروت - 1411هـ - 1990م ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : مصطفی عبد القادر عطا

4-احمد بن حنبل ابو عبد الله شیبانی :

 

حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا بن نُمَیرٍ ثنا عبد الْمَلِكِ یعنی بن أبی سُلَیمَانَ عن عَطِیةَ عن أبی سَعِیدٍ الخدری قال قال رسول اللَّهِ انی قد تَرَكْتُ فِیكُمُ الثَّقَلَینِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ عز و جل حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إلی الأَرْضِ و عترتی أَهْلُ بیتی الا انهما لَنْ یفْتَرِقَا حتی یرِدَا عَلَی الْحَوْضَ۔

ابو سعید خدری نے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ: انھوں نے فرمایا کہ: میں دو مہم اور قیمتی چیزوں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے اور وہ کتاب خدا ہے کہ جو ایک رسی کی طرح آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی ہے، جبکہ دوسری چيز میرے اہل بیت ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ کہ یہ دونوں آپس میں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے دونوں میرے پاس آئیں گے۔

أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشیبانی، الوفاة: 241 ،

مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 3 ص 26 دار النشر : مؤسسة قرطبة - مصر

احمد بن حسین بیهقی در سنن ج2 ص 148

عبد الله بن عبد الرحمن دارمی در سنن ج2 ص 431

علی متقی در كنز العمال فی سنن الاحوال و الافعال ج1ص45

احمد بن محمد طحاوی در مشكل الآثار ج4 ص368

اور دوسرے محدثین نے بھی نقل کیا ہے.....،

4-احمد بن علی نسائی :

نسائی نے كتاب خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ع) میں اسی حدیث کو تھوڑے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے:

فقلت لزید سمعته من رسول الله * فقال ما كان فی الدوحات أحد إلا رآه بعینیه و سمعه بأذنیه،

..... میں نے زید سے کہا کہ: کیا تم نے اس کلام کو خود رسول خدا سے سنا ہے ؟ اس نے جواب دیا: ان درختوں کے نیچے میرے علاوہ کوئی نہیں تھا، میں نے خود انکو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور انکی بات کو اپنے کانوں سے سنا ہے۔

أحمد بن شعیب أبو عبد الرحمن النسائی ، لسنن الكبری ،ج5 ص 45، دار النشر : دار الكتب العلمیة - بیروت - 1411 - 1991 ، الطبعة : الأولی، تحقیق : د.عبد الغفار سلیمان البنداری، سید كسروی حسن،

علاء الدین علی المتقی بن حسام الدین الهندی ، كنز العمال فی سنن الأقوال و الأفعال ، ج1ص 106 ، دار النشر : دار الكتب العلمیة - بیروت - 1419هـ-1998م ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : محمود عمر الدمیاطی .

5-حافظ ابوالفداء اسماعیل بن كثیر دمشقی :

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں سورہ شوری آيت 23 کے ذیل میں، حدیث ثقلین کو صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ:

و قد ثبت فی الصحیح أن رسول الله  قال فی خطبة بغدیر خم: إنّی تارك فیكم الثقلین كتاب الله و عترتی و إنهما لم یفترقا حتی یردا علی الحوض.....،

صحیح مسلم میں آیا ہے کہ: رسول خدا نے غدیر خم کے خطبے میں فرمایا کہ: بے شک میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، قرآن اور اپنے اہل بیت، اور یہ دونوں آپس میں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے دونوں میرے پاس آئیں گے۔

إسماعیل بن عمر بن كثیر الدمشقی أبو الفداء، الوفاة: 77، تفسیر القرآن العظیم ، ج 4 ص 114 ، دار النشر : دار الفكر - بیروت - 1401

6- حاكم نے ایک دوسری روایت کو سلمہ بن كهیل سے اور اس نے اپنے والد سے اور اس نے ابو الطفیل سے اور اس نے  وائلہ سے اور اس نے زید بن ارقم سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

نزل رسول الله صلی الله علیه و آله بین مكه و المدینة عند شجرات خمس دوحات عظام فكنس الناس ما تحت الشجرات. ثم راح رسول الله صلی الله علیه و آله عشیة فصلی ثم قام خطیبا فحمد الله و اثنی علیه و ذكر و وعظ فقال ما شاء الله ان یقول ، ثم قال: ایها الناس. انی تارك فیكم امرین لن تضلوا ان اتبعتموهما و هما كتاب الله و اهل بیتی عترتی، ثم قال : اتعلمون انی اولی بالمؤمنین من انفسهم ؟ ثلاث مرآت قالوا نعم. فقال رسول الله صلی الله علیه و آله: من كنت مولاه فعلی مولاه،

رسول خدا (ص) مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑی شاخوں اور بڑے پتوں والے درختوں کے نزدیک رک گئے۔ لوگوں نے درختوں کے نیچے سے جگہ کو جھاڑو سے صاف کیا۔ رسول خدا شام کے وقت وہاں پہنچے اور نماز کے بعد خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے حمد خداوند کی اور پھر وعظ و نصیحت فرمائی اور جو کچھ خداوند چاہتا تھا، وہی کچھ رسول خدا نے بیان کیا۔

پھر فرمایا کہ: اے لوگو ! میں دو چیزوں کو تمہارے درمیان چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے ان دونوں کی پیروی کی تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، کتاب خدا اور میرے اہل بیت، پھر فرمایا کہ: کیا تم جانتے ہو کہ میں مؤمنین کی جانوں پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہوں ؟ اس بات کو تین مرتبہ تکرار کیا، سب نے جواب دیا: ہاں، یا رسول اللہ، اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ: جس جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس اس کے مولا ہیں۔

محمد بن عبدالله أبو عبد الله الحاكم النیشاپوری الوفاة: 405 هـ، المستدرك علی الصحیحین ، ج 3 ، ص 118، دار النشر : دار الكتب العلمیة - بیروت - 1411هـ - 1990م ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : مصطفی عبد القادر عطا.

7- حافظ ابو نعیم احمد بن عبد الله:

اس نے اپنی کتاب میں حذیفہ ابن اسید غفاری سے اور اس نے رسول خدا سے اس طرح نقل کیا ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا کہ:

ایها الناس انی فرطكم و انكم واردون علی الحوض. فانی سائلكم حین تردون علی عن الثقلین فانظروا كیف تخلفونی فیهما. الثقل الاكبر كتاب الله. سبب طرفه بید الله و طرفه بایدیكم. فاستمسكوا به لا تضلوا و لا تبدلوا . وعترتی اهل بیتی. فانه قد نبأنی اللطیف الخبیر انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض۔

اے لوگو ! میں تم پر سبقت کرنے والا ہوں اور تم سب بھی حوض کے کنارے میرے پاس آؤ گے۔ جب تم میرے پاس آؤ گے تو میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا۔ پس میرے اہل بیت سے احتیاط سے پیش آنا۔ ثقل اکبر، خداوند کی کتاب ہے، یہ کتاب ایک رسی کی طرح ہے کہ جسکی ایک طرف خداوند کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف تم لوگوں کے ہاتھ میں ہے، پس اسکو مضبوطی سے تھام لو تا کہ گمراہ بھی نہ ہو اور اپنے عقیدے سے بھی نہ ہٹو، اور میرے اہل بیت ہیں، مجھے مہربان اور آگاہ خدا نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں بالکل ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر کے کنارے میرے پاس آئیں گے۔

حلیة الأولیاء ، اسم المؤلف: أبو نعیم أحمد بن عبد الله الأصبهانی الوفاة: 430 ، حلیة الأولیاء و طبقات الأصفیاء، ج 1 ، ص 355 ، دار النشر : دار الكتاب العربی - بیروت - 1405 ، الطبعة : الرابعة.

ب :حدیث ثقلین کی دلالت کے بارے میں شبہ:

 

حدیث ثقلین کو ذکر و بیان کرنے کے بعد اور رسول خدا (ص) کی قرآن اور اہل بیت کے بارے میں وصیت کو ذکر کرنے کے بعد، اب ہم اس حدیث کی اہل بیت کی امامت پر دلالت کرنے کے بارے میں ابن تیمیہ اور اس سے پہلے قاضی عبد الجبار اور اس کے بعد عبد العزیز دہلوی نے جو اشکال کیا تھا، اس کے بارے میں بیان کرتے ہیں، یعنی کیا حدیث ثقلین شیعہ کے عقیدے کے مطابق اہل بیت کی امامت پر دلالت کرتی ہے یا دلالت نہیں کرتی ؟

رجوع کریں:

منهاج السنة : ج7 ص317 ـ 319

مجموعة الفتاوی: ج13 ص113

القاضی عبد الجبّار فی المغنی: ج20 ص191

الدهلوی فی تحفة اثنا عشریه: ص439

وفصل الخطاب للغرسی: ص96

تنقید و تحقیق:

اس نورانی اور مبارک حدیث میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معنی و مفہوم سے آگاہ ہونا، یہ بہترین وسیلہ ہے کہ دیکھا جائے کہ رسول خدا (ص) کا اہل بیت کے بارے میں اس حدیث کو بیان کرنے سے اصل مقصد و ہدف کیا تھا ؟

1 - الأمر بالأخذ:

رسول خدا سے ایک دوسری عبارت میں آیا ہے کہ:

2 - ما إن أخذتم بهما لن تضلّوا:

صحیح الترمذی: ج5 ص228 ح 3874،

 مسند أحمد: ج3 ص59

3- الأمر بالتمسّك:

رسول خدا نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ:

«ما إن تمسّكتم بهما لن تضلّوا»

صحیح الترمذی: ج5 ص329ح 3876

الدر المنثور للسیوطی ج 6 ص 7

تفسیر ابن كثیر ج 4 ص 123

4- الأمر بالمتابعه:

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ:

«لن تضلّوا إن اتبعتم و استمسكتم بهما» أو «لن تضلّوا إن اتبعتموها»

مسند أحمد: ج ص118  

المستدرک: ج3 ص110 و قال صحیح علی شرط الشیخین

5 ـ الأمر بالاعتصام:

رسول خدا (ص) نے دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ:

تركت فیكم ما لن تضلّوا إن اعتصمتم، كتاب اللّه و عترتی أهل بیتی۔

كنز العمال: ج1 ص187 ح 951

اس حدیث کے الفاظ جیسے، اخذ، تمسک، متابعہ اور اعتصام، دلالت کرتے ہیں کہ ثقلین کی اطاعت و پیروی کرنا ہر عاقل و بالغ انسان پر واجب ہے، کیونکہ یہ الفاظ اطاعت مطلق پر یعنی اطاعت و پیروی بغیر کسی قید و شرط کے، دلالت کرتے ہیں، پس حدیث ثقلین کا معنی امامت و خلافت ہو گا، کیونکہ اطاعت مطلق اور امامت و خلافت کے درمیان نا قابل انکار تلازم و رابطہ موجود ہے۔

ابن مالک کا کلام اور تشریح لفظ تمسک کے بارے میں، پڑھنے کے قابل ہے، اس نے اس لفظ کی تشریح میں لکھا ہے کہ:

التمسك بالكتاب العمل بمافیه و هو الإئتمار بأوامر اللّه و الانتهاء بنواهیه. و معنی التمسك بالعترة محبّتهم و الاهتداء بهداهم و سیرتهم۔

کتاب سے تمسک کرنے کا معنی، اس پر عمل کرنا ہے، یعنی خداوند کے واجبات پر عمل کرنا ہے اور اس کے محرمات سے پرہیز کرنا ہے، عترت اہل بیت سے تمسک کرنے کا معنی، ان سے محبت کرنا اور انکے وسیلے اور سیرت سے ہدایت حاصل کرنا ہے۔

المرقاة فی شرح المشكاة: ج5 ص600

مناوی نے" انّی تارک فیکم اور تمسک " کی تشریح میں کہا ہے کہ:

تلویح بل تصریح بأنّهما كتوأمین خلّفهما و وصّی أمّته بحسن معاملتهما و إیثار حقّهما علی أنفسهم و الاستمساك بهما ...،

یہ عبارت اشارہ نہ بلکہ واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ قرآن اور اہل بیت ہر دو جڑواں چیزوں کی طرح ہیں کہ ہیں کہ جو رسول خدا نے اپنی امت کے لیے چھوڑے ہیں اور امت کو وصیت کی ہے کہ ان دونوں سے اچھا سلوک کریں اور ان دونوں کے حق کو اپنے حقوق پر مقدم کریں اور اپنے دینی امور میں بھی اہل بیت سے تمسک کریں۔

عبد الرؤوف المناوی ، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج2،ص472، دار النشر : المكتبة التجاریة الكبری - مصر - 1356هـ،الطبعة :الأولی .

تفتازانی نے بھی صحیح مسلم کی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

ألا تری أنّه علیه الصلاة و السلام قرنهم بكتاب اللّه تعالی فی كون التمسك بهما منقذاً عن الضلالة، و لا معنی للتمسك بالكتاب إلاّ الأخذ بما فیه من العلم و الهدایة فكذا فی العترة۔

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول خدا نے قرآن اور اہل بیت کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرنا انسان کو گمراہی سے نجات دلاتا ہے، قرآن سے تمسک کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے مگر یہ کہ جو کچھ اس میں علم و ہدایت ہے، اس پر عمل کرنا ہے، اور اہل بیت سے بھی تمسک کرنے میں یہی معنی ارادہ کیا گیا ہے۔

سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازانی ،شرح المقاصد فی علم الكلام ،ج 2،221 ، دار النشر : دار المعارف النعمانیة - باكستان - 1401هـ - 1981م ،

اور لفظ الاعتصام قرآن و حدیث میں تمسک کے معنی میں آیا ہے:

امام صادق (ع) نے سورہ آل عمران کی آیت 103 (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعاً وَلاَ تَفَرَّقُوا ) کے ذیل میں ایک روایت میں فرمایا ہے کہ:

نَحْنُ حَبْلُ الله الذی قال الله: ( وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعاً وَ لاَ تَفَرَّقُوا )،

ہم وہ رسی ہیں کہ جس سے تمسک کرنے اور جس کے تھامنے کا حکم خداوند نے دیا ہے۔

یہ روایت شیعہ سنی کتب میں نقل ہوئی ہے،

ابن حجر هیثمی ،الصّواعق المحرقة: ص233، چاپ دارالكتب العلمیة ـ بیروت ـ 1414 هـ.ق،

تفسیر فخر رازی: ج 8ص173 

تفسیر خازن: ج1ص277، دار الكتب العلمیة ـ بیروت ـ 1415 هـ.ق.

پس الفاظ جیسے اخذ، اعتصام ، تمسک یہ سب ایک معنی و مفہوم کی طرف پلٹتے ہیں کہ اسکا نتیجہ، اتباع اور پیروی ہے، اور حدیث ثقلین کا بھی یہی معنی و مفہوم ہے۔ لہذا بغیر کسی اشکال کے اہل بیت کی امامت و خلافت اس حدیث سے ثابت ہو جاتی ہے، کہ یہ نتیجہ خود حدیث ثقلین میں مذکورہ الفاظ سے حاصل ہوتا ہے کہ علی اور اہل بیت، رسول خدا کے بعد انکے خلفاء اور جانشین ہیں۔

اس حدیث کے ان الفاظ کی دلالت کے علاوہ اہل سنت کی بعض کتب میں لفظ ثقلین کی جگہ لفظ خلیفتین ذکر ہوا ہے کہ یہ لفظ بھی حدیث ثقلین کے معنی کو مزید واضح کرنے کے علاوہ رسول خدا کے بعد اہل بیت کی دینی و سیاسی امامت و خلافت پر دلالت کرتا ہے۔

مسند احمد:ج 6ص232، حدیث 21068 و ص244، حدیث 21145،

كتاب السُّنّة تألیف ابن ابی عاصم: ص336، حدیث 754، چاپ المكتب الاسلامی بیروت ـ 1415 هـ.ق،

مجمع الزّوائد:ج 9ص165، چاپ دارالكتاب العربی ـ بیروت 1402 هـ.ق.

ج: حدیث ثقلین کا کتاب صحیح بخاری میں موجود نہ ہونا:

ایک دوسرا شبہ کہ جو ابن تیمیہ نے حدیث ثقلین کے بارے میں ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ حدیث ثقلین حدیث صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو بخاری اسکو اپنی کتاب صحیح بخاری میں ذکر کرتا، اس نے لکھا ہے کہ:

و هذا مما انفرد به مسلم و لم یروه البخاری...

حدیث ثقلین کو فقط مسلم نے نقل کیا ہے اور صحیح بخاری میں یہ حدیث موجود نہیں ہے۔

إبن تیمیة الحرانی ، أحمد بن عبد الحلیم أبو العباس (متوفای728هـ) منهاج السنة النبویة ، ج 7 ص318 ـ 319 ، تحقیق : د. محمد رشاد سالم، ناشر : مؤسسة قرطبة ، الطبعة : الأولی ، 1406

ابن تیمیہ ناصبی نے اس شبہے کو ذکر کرتے ہوئے، خود کو مزید بے آبرو کیا ہے اور دوسروں کی فقط زحمت کو زیادہ کیا ہے، کیونکہ خود بخاری اور دوسرے محدثین نے کتاب صحیح بخاری کے لکھے جانے کے بارے میں کہا ہے کہبخاری نے تمام احادیث صحیح کو اپنی اس کتاب میں نقل و ذکر نہیں کیا، کیونکہ ایک روایت کی سند صحیح ہونے کے باوجود بخاری کا اس حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر نہ کرنا، یہ اس حدیث کے ضعیف ہونے کی علامت  نہیں ہے، اس لیے کہ اہل سنت کے بہت سے علماء نے کہا ہے کہ: احادیث صحیح فقط وہ نہیں ہیں کہ جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ذکر ہوئی ہیں، بلکہ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ بہت سی صحیح روایات ایسی ہیں کہ جو صحیح ہیں لیکن بخاری اور مسلم نے انکو ذکر نہیں کیا اور وہ احادیث دوسری کتب حدیثی میں ذکر ہوئی ہیں۔

نووی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

انّهما لم یلتزما استیعاب الصحیح بل صحّ عنهما تصریحهما بأنّهما لم یستوعبا و انّما قصدا جمع جمل من الصحیح كما یقصد المصنف فی الفقه جمع جملة من مسألة۔

بخاری اور مسلم اس بات کے پابند نہیں تھے کہ تمام صحیح سند والی احادیث کو اپنی اپنی کتاب میں نقل کریں اور خود انھوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے، بلکہ ان کا قصد تھا کہ بعض صحیح سند والی احادیث کو جمع آوری کر کے کتاب میں نقل کریں، جس طرح کہ علم فقہ میں کتاب لکھنے والا مصنف، فقہ کے تمام مسائل و احکام کو ذکر نہیں کرتا۔

أبو زكریا یحیی بن شرف بن مری النووی ، صحیح مسلم بشرح النووی ، ج 1، ص 37، دار النشر : دار إحیاء التراث العربی - بیروت - 1392 ، الطبعة : الطبعة الثانیة

ابن قیم جوزیہ نے ابی الصہباء کی حدیث کہ جسکو فقط مسلم نے نقل کیا ہے، کہا ہے کہ: ایک حدیث کے فقط مسلم کے نقل کرنے سے، یہ اس حدیث کے صحیح ہونے کو ضرر نہیں پہنچاتا۔

کیا کوئی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ احادیث کہ جنکو فقط مسلم نے نقل کیا ہے، وہ صحیح نہیں ہیں ؟ کیا خود بخاری نے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ ہر وہ حدیث کہ جسکو میں نے نقل نہیں کیا، وہ باطل اور ضعیف ہے ؟

محمد بن أبی بكر أیوب الزرعی أبو عبد الله ، زاد المعاد فی هدی خیر العباد ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - مكتبة المنار الإسلامیة - بیروت - الكویت - 1407 - 1986 ، الطبعة : الرابعة عشر ، تحقیق : شعیب الأرناؤوط - عبد القادر الأرناؤوط

اس کے علاوہ بہت سی احادیث ایسی ہیں کہ بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں انکو نقل نہیں کیا بلکہ اپنی دوسری کتب میں نقل کیا ہے اور ان احادیث سے مختلف مطالب پر استدلال کیا ہے اور بہت سی احادیث ایسی ہیں کہ خود بخاری نے انکو صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ بخاری نے ان احادیث کو اپنی کتاب صحیح میں ذکر نہیں کیا۔

ابن الصلاح نے کہا ہے کہ:

لم یستوعبا الصحیح فی صحیحیهما ولا التزما ذلك، فقد روینا ذلك عن البخاری انّه قال: ما ادخلت فی كتابی الجامع الاّ ما صحّ و تركت من الصحاح لحال الطول. و روینا عن مسلم انّه قال: لیس كل شیء عندی صحیح وضعته هنا، انّما وضعت هاهنا ما اجمعوا علیه. و قال البخاری: احفظ مائة الف صحیح و مائتی الف حدیث غیر صحیح، و جملة ما فی كتابه سبعة آلاف و مائتان و خمسة و سبعون حدیثاً بالأحادیث المتكررة. و قیل: انّها باسقاط المكررة أربعة آلاف حدیث۔

بخاری اور مسلم نے تمام صحیح سند والی احادیث کو اپنی کتاب صحیح میں ذکر نہیں کیا اور وہ بالکل اس بات کے پابند بھی نہیں تھے۔ بخاری سے روایت ہوئی ہے کہ: میں نے فقط صحیح سند والی احادیث کو اپنی کتاب صحیح میں ذکر کیا ہے، اور اس کے علاوہ بہت سی صحیح سند والی احادیث ہیں کہ طولانی ہونے کی وجہ سے میں نے انکو ذکر نہیں کیا۔

اسی طرح مسلم سے روایت ہوئی ہے کہ: ایسا نہیں ہے کہ میں نے تمام صحیح سند والی احادیث کو اپنی کتاب صحیح میں ذکر کیا ہو، بلکہ میں نے فقط ان صحیح روایات کو ذکر کیا ہے کہ جنکا صحیح ہونا علماء کے نزدیک اجماعی ہے۔

بخاری نے کہا ہے کہ: مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث حفظ ہیں اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث حفظ ہیں، حالانکہ اس نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں صرف 7275 احادیث تکرار کے ساتھ ذکر کیں ہیں اور بعض محدثین کی نظر کے مطابق تکرار شدہ احادیث کو چھوڑ کر صرف 4000 احادیث باقی بچتی ہیں جو بخاری نے اپنی کتاب میں ذکر کیں ہیں۔

عبد الرحمن بن أبی بكر السیوطی ، تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی د، ج 1، ص 30ار النشر : مكتبة الریاض الحدیثة - الریاض ، تحقیق : عبد الوهاب عبد اللطیف.

د -  علی بن منذر کا حدیث ثقلین کی سند میں ہونا:

ڈاکٹر سالوس نے حدیث ثقلین پر جو اشکال کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ترمذی کی روایت دوم میں علی ابن منذر کوفی ہے کہ جو کوفہ کے شیعوں میں سے ہے.....،

 أثر الإمامة فی الفقه الجعفری و أصوله،

اس شبہے کے بارے میں تنقید و تحقیق:

علم رجال میں بیان ہوا ہے کہ راوی اگر ثقہ ہو تو، اس کے مذہب کی وجہ سے اس کے ثقہ ہونے کی وجہ سے اس پر اشکال نہیں کیا جا سکتا۔

البانی ، سلسلة الاحادیث الصحیحة، ج 4، ص 356 ـ 358.

علی ابن منذر کوفی کے علم رجال کی نگاہ سے حالات زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ترمذی، ابن ماجہ، نسائی اور آئمہ بزرگ احادیث کی ایک بہت بڑی جماعت کے راویوں میں سے ہے۔ ان بزرگان میں سے ابو حاتم، مطین، ابن منده، سجزی، ابن صاعد اور ابن ابی حاتم ہیں۔

صاحب کتاب تہذیب نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

روی عنه : الترمذی ، و النسائی ، و أبن ماجة ، و أبو بكر أحمد ابن جعفر بن محمد بن أصرم البجلی ، و أحمد بن الحسین بن إسحاق الصوفی الصغیر ، و أبو علی أحمد بن محمد بن مصقلة۔

ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور .......... نے اس ( علی ابن منذر ) سے روایت کو نقل کیا ہے۔

المزی ، تهذیب الكمال - ج 21 ص 146.

اہل سنت کے بعض علماء جیسے ابو حاتم رازی، نسائی، ابن حبّان، ابن نمیر وغیرہ نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔

قال عبد الرحمان بن أبی حاتم سمعت منه مع أبی وهو صدوق، ثقة

قال النسائی: شیعی محض ثقة . و ذكره ابن حبان فی كتاب " الثقات. و قال محمد بن عبد الله الحضرمی ... سمعت ابن نمیر یقول هو ثقة صدوق،

ابن حاتم نے کہا ہے کہ:

اس سے میں نے اور میرے والد نے روایت کو سنا ہے اور وہ سچّا و ثقہ تھا۔

نسائی نے کہا ہے کہ: ابن منذر شیعہ اور ثقہ ہے۔

ابن حبان نے کہا ہے کہ: میں نے ابن نمیر سے سنا تھا کہ وہ کہتا تھا کہ: وہ سچّا اور ثقہ ہے۔

المزی ، تهذیب الكمال - ج 21 ص 146.

الذهبی ، میزان الاعتدال ، ج 3 ص 157.

بحث سوم: شبہ تعارض:

 

اہل بیت کی امامت و خلافت کے مخالفین نے حدیث ثقلین کے اثر کو کم کرنے کے لیے حدیث ثقلین کا دوسری احادیث سے معارض ہونے کا شبہ بیان کیا ہے۔ جس طرح کہ بعض اہل سنت کے علماء نے اپنی عقل کے مطابق کچھ ایسی احادیث کو ذکر کیا ہے کہ جو انکی نظر میں ظاہری طور پر حدیث ثقلین سے تعارض رکھتی ہیں۔ اب ہم ان احادیث کے بارے میں بحث کرتے ہیں:

الف) تعارض حدیث ثقلین با حدیث اصحابی كالنجوم:

ان احادیث میں سے کہ جس کے بارے میں تعارض کا شبہ ذکر کیا گیا ہے، وہ روایت ہے کہ جو رسول خدا (ص) نے اصحاب کی شان میں اور انکی پیروی کرنے کے بارے میں فرمائی ہے۔ یہ حدیث اہل سنت کی کتب حدیثی میں ذکر ہوئی ہے کر رسول خدا نے فرمایا کہ:

أصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم.

میرے اصحاب آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں کہ ان میں سے جسکی بھی پیروی کرو گے تو تم ہدایت پا جاؤ گے۔

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ: رسول خدا کے اصحاب مظہر و علامت ہدایت و نجات ہیں اور اصحاب میں سے کسی خاص صحابی کا نام بھی ذکر نہیں کیا کہ پس مراد یہ ہے کہ تمام اصحاب ہی ہدایت کرنے والے ہیں۔

اور اس طرف حدیث ثقلین کا مفہوم یہ ہے کہ ہدایت و نجات فقط اہل بیت کی پیروی کرنے میں ہے۔ لہذا ان دو احادیث کے مفہوم کو آپس میں جمع کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ ایک حدیث تمام اصحاب کو ہادی ثابت کرتی ہے اور دوسری حدیث اہل بیت کو ہادی ثابت کرتی ہے۔

اہل سنت کے عالم، آمدی نے اہل بیت کے مفہوم کو بیان کرنے کے بعد اور اس مفہوم میں رسول خدا کی ازواج کو شامل کرنے کے بعد، تعارض کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ: ہمارے پاس دلیل نہیں ہے کہ گمراہی سے نجات فقط اہل بیت کی پیروی کرنے میں ہے، کیونکہ رسول خدا نے حدیث ثقلین کے مقابلے میں، تمام اصحاب کی پیروی کرنے والی حدیث بھی ذکر کی ہے۔

علی بن محمد الآمدی أبو الحسن ، الإحكام فی أصول الأحكام ، دار النشر : دار الكتاب العربی- بیروت - 1404 ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : د. سید الجمیلی

اس شبہے پر تنقید:

 

شرط تعارض:

دو احادیث کے متعارض ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ ہر دو حدیث چند لحاظ و جہات سے مساوی ہوں، یعنی سند اور متن کے صحیح ہونے کے لحاظ سے ایک جیسی ہوں۔

البانی نے کہا ہے کہ:

أن التعارض شرطه التساوی فی قوة الثبوت، و أما نصب التعارض بین قوی و ضعیف فمما لا یسوغه عاقل منصف.

دو حدیث کے متعارض ہونے کی شرط یہ ہے کہ دونوں احادیث معنی و مفہوم کو سمجھانے میں آپس میں مساوی ہوں اور ایک حدیث قوی اور ایک حدیث ضعیف کے درمیان تعارض ہونے کو کوئی عاقل انسان قبول نہیں کرتا.....

ناصر البانی ، رسالة حول المهدی،

اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اہل سنت کے علماء کے اقوال کو دیکھتے ہیں کہ تا کہ معلوم اور واضح ہو کہ کیا حدیث اصحابی کالنجوم، حدیث ثقلین کے ساتھ تعارض رکھنے کی شرائط اور قدرت رکھتی ہے یا نہیں ؟؟؟

اقوال علمائے اہل سنت:

 موسوعہ دار قطنی میں آیا ہے کہ:

و فیه «أصحابی كالنجوم ، بأیهم اقتدیتم اهتدیتم »، أخرجه الدارقطنی فی (غرائب مالك) ، و الخطیب ، فی الرواة عن مالك ،... قال الدارقطنی لا یثبت عن مالك ، و رواته مجهولون .

حدیث اصحابی کالنجوم کو دار قطنی نے غرائب مالک اور خطیب نے مالک کے رواۃ کے زمرے میں ذکر کیا ہے.....، پھر کہا ہے کہ: یہ روایت مالک سے ثابت نہیں ہوئی اور اسکے تمام راوی مجہول ہیں۔

موسوعة أقوال الدار قطنی ، ج10 ، ص82 جمع و ترتیب : السید أبو المعاطی النوری المتوفی سنة 1401 ـ 1981 الدكتور محمد مهدی المسلمی ، أشرف منصور عبد الرحمان ، أحمد عبد الرزاق عید أیمن إبراهیم الزاملی ، و محمود خلیل .

فتنی نے تذكره میں کہا ہے کہ:

ان اصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم " من نسخة نبیط الكذاب .

حدیث «اصحابی كالنجوم...» یہ جھوٹی روایات میں سے ہے۔

الفتنی ،تذكرة الموضوعات ، ص 98.

ابن قیم جوزیہ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

وَ أَمَّا مَا یرْوَی عَنْ النَّبِی صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ { أَصْحَابِی كَالنُّجُومِ بِأَیهِمْ اقْتَدَیتُمْ اهْتَدَیتُمْ } فَهَذَا الْكَلَامُ لَا یصِحُّ عَنْ النَّبِی صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ .

حدیث «اصحابی كالنجوم...» ایسی جعلی حدیث ہے کہ جو رسول خدا نے بالکل نہیں فرمائی اور یہ صحیح بھی نہیں ہے۔

محمد بن أبی بكر أیوب الزرعی أبو عبد الله ابن القیم الجوزیه ،إعلام الموقعین عن رب العالمین ، ج2 ص 361 ا مصدر الكتاب .

شوكانی نے لکھا ہے کہ:

روی عنه صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ أنه قال: "أصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم" فهذا لم یثبت قط، و الكلام فیه معروف عند أهل هذا الشأن، بحیث لا یصح العمل بمثله فی أدنی حكم من أحكام الشرع .

حدیث «اصحابی كالنجوم...» بالکل ثابت نہیں ہوئی ہے اور اس حدیث پر جو اشکالات ہوئے ہیں، وہ محدثین کے نزدیک مشہور ہیں کہ شریعت کے چھوٹے سے حکم میں بھی اس حدیث پر عمل کرنا صحیح نہیں ہے۔

محمد بن علی بن محمد الشوكانی (المتوفی : 1250هـ) ، إرشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول ، ج2 ، ص 188، الناشر : دار الكتاب العربی ، الطبعة الأولی 1419هـ ، 1999م .

زیعلی نے كتاب تخریج الأحادیث و الآثار الواقعة فی تفسیر الكشاف میں لکھا ہے کہ:

هَذَا حَدِیث مَشْهُور وَ أَسَانِیده كلهَا ضَعِیفَة لم یثبت مِنْهَا شَیء .

یہ حدیث مشہور ہے لیکن ضعیف ہے اور اسکی تمام اسناد ضعیف ہیں اور یہ حدیث کسی چیز کو ثابت نہیں کرتی۔

عبد الله بن عبد الرحمن السعد ، تخریج الاحادیث ج2ص230 ، ناشر:دارابن خزیمة - الریاض ، الطبعة : الأولی ، 1414هـ

ابن قدامہ مقدسی نے کہا ہے کہ:

قول النبی صلی الله علیه و سلم :« أصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم »لا یصح هذا الحدیث .

یہ رسول خدا کی حدیث کہ «اصحابی كالنجوم...» یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

للإمام العلامة موفّق الدین عبد الله بن أحمد بن محمّد الشهیر بـ:ابن قدامة المقدسی ملتقی أهل الحدیث ،المنتخب من علل الخلال لعلل للخلال ج1 ص، 12.

ابن حزم نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

ان اصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم .، وأما الحدیث المذكور فباطل مكذوب .

حدیث «اصحابی كالنجوم...»باطل اور جھوٹی ہے۔

الاحكام ، ابن حزم ، ج 5 ، ص 642 ، 643

اور اسی نے ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ:

و أما قولهم: «أصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم »، فحدیث موضوع .

حدیث «اصحابی كالنجوم...» ایک جعلی حدیث ہے۔

ابن حزم الأندلسی ،رسائل ابن حزم الأندلسی ، ج3 ص 96 ، المحقق : إحسان عباس الناشر : المؤسسة العربیة للدراسات و النشر .

ابن حجر نے کہا ہے کہ:

ان اصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم أخرجه الدار قطنی فی غرائب مالك و قال لا یثبت عن مالك. و رواته مجهولون .

حدیث اصحابی کالنجوم کو دار قطنی نے غرائب مالک اور خطیب نے مالک کے رواۃ کے زمرے میں ذکر کیا ہے.....، پھر کہا ہے کہ: یہ روایت مالک سے ثابت نہیں ہوئی اور اسکے تمام راوی مجہول ہیں۔

لسان المیزان ، ابن حجر ، ج 2 ، ص 137 ، 138،

البانی نے اس روایت کے صحیح نہ ہونے کے بارے میں کہا ہے کہ:

«أصحابی كالنجوم فبأیهم اقتدیتم اهتدیتم» لا یصح : واه جدا و موضوع .

حدیث «اصحابی كالنجوم...» صحیح نہیں ہے اور بہت فالتو اور جعلی حدیث ہے۔

صفة صلاة النبی صلی الله علیه و سلم ج1 ص49 ، المؤلف: محمد ناصر الدین الألبانی ، الناشر : مكتبة المعارف للنشر و التوزیع ، الریاض

ابن تیمیہ جیسے شخص نے بھی اس حدیث کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ:

«أصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم»ضعیف باطل .

حدیث «اصحابی كالنجوم...» ایک ضعیف اور باطل حدیث ہے۔

أحمد الحرانی الحنبلی، صفة الفتوی ، ج1 ص55 . الإمام أحمد بن حمدان الحرانی الحنبلی، صفة الفتوی والمفتی والمستفتی ، الناشر : المكتب الإسلامی - بیروت الطبعة : الرابعة - 1404 تحقیق: محمد ناصر الدین الألبانی

اسی طرح علمائے الازہر کے فتاوی میں بھی یہ حدیث ردّ ہوئی ہے، کہ بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:

قول النبی صلی الله علیه و سلم : «أصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم »

و هو أیضا ضعیف و قیل موضوع،رواه الدارمی و غیره،و أسانیده ضعیفة .

حدیث «اصحابی كالنجوم...» ضعیف ہے، اور کہا گیا ہے کہ یہ حدیث جعلی بھی ہے، دارمی وغیرہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس حدیث کا سلسلہ سند ضعیف ہے۔

فتاوی الأزهر ج8 ص209 المصدر : وزارة الأوقاف المصریة کی سایٹ،

السؤال : هل من الحدیث ما یقال : أصحابی كالنجوم بأیهم اقتدیتم اهتدیتم ؟

کیا جو کچھ اصحاب کی شان میں رسول خدا سے نقل ہوا ہے، کہ میرے اصحاب آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں کہ ان میں سے جسکی بھی پیروی کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، صحیح ہے ؟

الجواب : هذا حدیث ضعیف و قیل موضوع .

جواب : حدیث «اصحابی كالنجوم...» ایک ضعیف حدیث ہے، اور کہا گیا ہے : یہ حدیث جعلی بھی ہے۔

فتاوی الأزهر ج8 ص209 المصدر : وزارة الأوقاف المصریة کی سایٹ،

محمَّد بن إبراهیم بن عَبد اللطِیف آل الشیخ مفتی مکہ مکرمہ اور رئیس قضات و شؤون اسلامی نے بھی لکھا ہے کہ:

أصحابی كالنجوم المعروف عند أَهل الحدیث حقاً أَنه لا یثبت سنده و لا یصلح للاحتجاج فلا تقوم به حجة.

حدیث «اصحابی كالنجوم...» کہ جو بہت معروف و مشہور ہو گئی ہے، لیکن محدثین کے نزدیک حق یہ ہے کہ اس حدیث کی سند ثابت نہیں ہوئی اور یہ حدیث قابل استدلال بھی نہیں ہے اور اسکے ذریعے کوئی حکم بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

فتاوی و رسائل الشیخ محمد بن إبراهیم آل الشیخ ج2 ص7 .

اہل سنت کے حدیث شناس علماء  کے اس حدیث کے بارے میں اتنے زیادہ اقوال کی روشنی میں حدیث ثقلین اور جعلی و جھوٹی روایت اصحابی کالنجوم کے درمیان تعارض اور تضاد کا دعوی کرنے والوں اپنے دعوے کا جواب مل گیا ہو گا اور امید ہے کہ ایسے لوگ اس طرح کی جھوٹی حدیثیں ہر جگہ ذکر کرنے سے منع ہو جائیں گے تا کہ امت اسلامی کے ہدایت اور نجات کے طالب مسلمان اپنی تحقیق اور اپنے اختیار سے صراط مستقیم کو تلاش کر سکیں۔

تعارض حدیث ثقلین با حدیث اقتدوا:

عبد العزیز دہلوی نے اپنی کتاب «التحفة الاثنا عشریة» میں حدیث ثقلین کو ردّ کرتے ہوئے، اس حدیث کو اہل سنت کی کتب میں مذکور حدیث « اقتدوا باللذین من بعدی أبی بكر و عمر» کے معارض کہا ہے۔

سنن الترمذی: ج 5ص 272.

ابن حبان: ج 15ص 328.

اس روایت کی سند کے بارے میں بحث:

1- اہل سنت نے اس وجہ سے کہ کیونکہ بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب صحیح میں ذکر نہیں کیا، اس حدیث کو ردّ کیا ہے اور اسی معیار و میزان کی وجہ سے انھوں نے وہ روایات کہ جو امیر المؤمنین علی (ع) کے فضائل کے بارے میں ہیں، انکا انکار کیا ہے اور انکو غیر معتبر کہا ہے، ان میں سے ابن تیمیہ ہے کہ جس نے ابوبکر کی خلافت کے شرعی ہونے کے بارے میں کہا ہے کہ:

لأن النص والإجماع المثبتین لخلافة أبی بكر لیس فی خلافة علی مثلها فإنه لیس فی الصحیحین ما یدل علی خلافته وإنما روی ذلك أهل السنن۔

کیونکہ کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابوبکر کی خلافت پر بہت سی روایات موجود ہیں اور اسکے علاوہ اس بارے میں اجماع بھی موجود ہے لیکن علی کے بارے میں ان دو کتابوں میں کچھ بھی موجود نہیں ہے، پس ابوبکر کی خلافت ثابت ہو جاتی ہے۔

منهاج السنة ، ج4 ، ص388 .

یا ایک دوسری جگہ پر ابن تیمیہ نے رسول خدا (ص) سے نقل ہونے والی روایت کہ میری امت میں 73 یا 72 فرقے ہوں گے، کو فقط اس لیے غیر صحیح کہا ہے کہ کیونکہ یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں آئی، اور اس بارے میں کہا ہے کہ:

أن حدیث الثنتین و السبعین فرقة لیس فی الصحیحین۔

منهاج السنة ، ج5 ، ص249 .

یہ روایت مختلف اسناد کے ساتھ بعض صحابہ جیسے حذیفہ بن یمان، عبد الله بن مسعود، ابو دردا، انس بن مالک، عبد الله بن عمر، اور عبد الله بن ابی الہذیل نے نقل کی ہے، لیکن ان سب میں سے حذیفہ اور ابن مسعود کی روایت معتبر ہے کہ روایت کی سند میں تحقیق کرنے سے تمام کیے گئے دعووں کا ضعیف ہونا واضح ہو جاتا ہے۔

سند اول حدیث حذیفہ:

وہ روایات کہ جو حذیفہ کے ذریعے سے نقل ہوئی ہیں، ان کے سلسلہ سند میں عبد الملک ابن عمیر ہے کہ اس کے بارے میں اہل سنت کی علم رجال کی کتب میں «رجل مدلس» «ضعیف جدا»، «كثیر الغلط»، «مضطرب الحدیث جدا»، «مخلّط»، «لیس بحافظ» جیسی عبارات ذکر ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر مزی نے تهذیب الكمال میں اور ابن حجر نے تهذیب التهذیب میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

و قال علی بن الحسن الهسنجانی : سمعت أحمد بن حنبل یقول : عبد الملك بن عمیر مضطرب الحدیث جدا مع قلة روایته .

احمد بن حنبل نے کہا ہے کہ:

عبد الملک ابن عمیر کی احادیث بہت مضطرب اور کئی الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہیں، حالانکہ اسکی روایات کتب میں بہت کم ہیں۔

تهذیب الكمال - المزی - ج 18 - ص 373

تهذیب التهذیب - ابن حجر - ج 6 - ص 365

ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

و روی إسحاق الكوسج ، عن یحیی بن معین قال : مخلّط . و قال علی بن الحسن الهسنجانی : سمعت أحمد بن حنبل یقول : عبد الملك بن عمیر مضطرب الحدیث جدا مع قلة روایته ، ما أری له خمس مئة حدیث، و قد غلط فی كثیر منها . و ذكر إسحاق الكوسج عن أحمد ، أنه ضعفه.

اسحاق كوسج نے یحیی بن معین سے نقل كیا ہے کہ: وہ کہتا تھا کہ:

عبد الملک بن عمیر مختلّط یعنی جو صحیح روایات کو ضعیف روایات کے ساتھ ملاتا تھا، اور احمد ابن حنبل نے کہا ہے کہ: اسکی احادیث کے کم ہونے کے باوجود بھی مضطرب اور ضعیف ہیں۔

سیر أعلام النبلاء - الذهبی - ج 5 ص 440

اسی طرح ذہبی نے ابو حاتم سے نقل کیا ہے  کہ:

عبد الملك بن عمیر لم یوصف بالحفظ،

...عبد الملك بن عمیر حافظین میں سے شمار نہیں ہوتا تھا۔

سیر اعلام النبلاء - ذهبی - ج 5 ص 440

خوارزمی عالم اہل سنت نے عبد الملك بن عمیر کے بارے میں ایسے کہا ہے کہ: یہ وہی ہے کہ جس نے عبد اللہ ابن یقطر یا قیس ابن مسہر صیداوی کہ جو کوفہ میں حسین ابن علی کا سفیر و نمائندہ تھا، کو شہید کیا اور ابن زیاد کے حکم کے مطابق اسکو دار الامارہ کی عمارت کی چھت سے نیچے گرایا تھا اور جبکہ گرنے کے بعد کہ ابھی اسکے بدن میں جان باقی تھی، اسکے سر کو تن سے جدا کیا تھا اور جب لوگوں نے اسکی مذمت کی تو اس نے کہا کہ میں تو اسکو درد و تکلیف سے نجات دینا چاہتا تھا۔

مقتل الحسین علیه السلام - خوارزمی ص185

اس کے علاوہ اسی عبد الملک ابن عمیر نے حدیث کو خود مستقیم ربعی ابن حراش سے نہیں سنا تھا اور ربعی ابن حراش نے بھی حدیث کو خود مستقیم حذیفہ ابن یمان سے نہیں سنا تھا۔

مناوی نے اس بارے میں کہا ہے کہ:

عبد الملك لم یسمعه عن ربعی و ربعی لم یسمع من حذیفه...

عبد الملک نے حدیث کو ربعی سے اور ربعی نے حذیفه سے نہیں سنا تھا۔

فیض القدیر- ج2 ص56

       الانساب حنظلی- ج4-ص251

سند دوم حدیث حذیفہ:

ایک دوسری روایت کہ جو حذیفہ ابن یمان کے ذریعے سے نقل ہوئی ہے، اس میں مندرجہ ذیل افراد ذکر ہوئے ہیں:

 1- «سالم بن علاء مرادی» کہ ذہبی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:

ضعفه ابن معین ، و النسائی۔

ابن معین اور نسائی نے اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔

میزان الاعتدال - الذهبی - ج2 ص112

ابن حجر نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

قال الدوری عن ابن معین ضعیف الحدیث۔

دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ: وہ ضعیف الحدیث ہے۔

تهذیب التهذیب - ابن حجر - ج 3 ص 381 .

2- « عمر بن هرم » كہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اسکے بارے میں ذکر کیا ہے کہ:

عمرو بن هرم ضعفه یحیی القطان .

عمرو بن هرم نے یحیی بن قطان کو ضعیف قرار دیا ہے۔

  میزان الاعتدال - ج3 ص 291

3- « وكیع بن جراح » كہ اسکو مقدوح یعنی مورد قدح اور خدشے دار جانا گیا ہے۔

...قال عبدالله بن احمد حنبل عن ابیه : ...سمعت ابی یقول : ابن مهدی اكثر تصحیفا من وكیع ، و وكیع اكثر خطا من ابن مهدی ، و وكیع قلیل التصحیف ...و سمعت ابی یقول : اخطا وكیع فی خمس مائه حدیث.

وكیع، ابن مہدی سے زیادہ روایت میں غلطیاں کرتا تھا اور اسکی روایات کم ہیں.....، وکیع نے 500 سو احادیث میں غلطی کی ہے۔

تهذیب الكمال - ج30 ص471 نقل از العلل: ج1 ص14 و ص 127

4- اسی طرح غلام کی سند میں ربعی ابن حراش موجود ہے کہ ابن حزم نے واضح طور پر اسکو مجہول کہا ہے۔

قال ابن حزم: و قد سمی بعضهم المولی فقال : هلال مولی ربعی و هو مجهول لا یعرف من هو اصلا۔

ہلال، غلام ربعی مجہول ہے اور کوئی بھی اسکو بالکل نہیں جانتا۔

الاحكام فی اصول الاحكام- ج2ص243

ابن مسعود کی روایت کی سند کے بارے میں بحث:

وہ روایت کہ جو ابن مسعود کے ذریعے سے نقل ہوئی ہے، اس میں مندرجہ ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

الف : ترمذی نے واضح کہا ہے کہ:

هذا حدیث غریب من هذا الوجه من حدیث ابن مسعود لا نعرفه الا من حدیث یحیی بن سلمه بن كهیل و یحیی بن سلمه یضعف فی الحدیث .

یہ حدیث ( حدیث اقتدوا ) ایک غریب حدیث ہے کہ جو فقط یحیی ابن سلمہ کے ذریعے سے نقل ہوئی ہے اور وہ حدیث کو نقل کرنے میں ضعیف ہے۔

صحیح ترمذی - ج5 ص672

ب : اسی سلسلہ سند میں « یحیی بن سلمہ بن كهیل » بھی ہے کہ:

ابن حجر نے لسان المیزان میں اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

ضعفه یحیی بن معین۔

یحیی بن معین نے اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔

لسان المیزان - ابن حجر - ج 7 - ص 431

ابن حجر نے لسان المیزان میں کہا ہے کہ:

یحیی بن سلمة بن كهیل بالتصغیر الحضرمی أبو جعفر الكوفی متروك۔

وہ شخص متروک ہے کہ اسکی احادیث کو لازمی طور پر ترک کرنا ہے، تا کہ وہ نقل بھی نہ ہوں اور ان پر عمل بھی نہ ہو۔

تقریب التهذیب - ابن حجر - ج 2 - ص 304

ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا ہے کہ:

یحیی بن سلمة بن كهیل . عن أبیه . قال أبو حاتم وغیره : منكر الحدیث . و قال النسائی : متروك . و قال عباس ، عن یحیی : لیس بشئ ، لا یكتب حدیثه .

یحیی بن سلمہ بن كهیل کو ابو حاتم وغیرہ نے منکر الحدیث کہا ہے، اور نسائی نے کہا ہے کہ: وہ متروک الحدیث ہے۔ عباس نے یحیی سے نقل کیا ہے کہ: وہ قابل توجہ نہیں ہے اور اسکی حدیث لکھنے کے قابل نہیں ہے۔

میزان الاعتدال - الذهبی - ج 4 - ص 381

ج: اسی سلسلہ سند میں اسماعیل ابن یحیی ابن سلمہ موجود ہے کہ مزی نے تھذیب الکمال میں اسکو متروک الحدیث کہا ہے۔

تهذیب الكمال - المزی - ج 3 - ص 212 - 213

ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا ہے کہ:

قال الدارقطنی متروك .

میزان الاعتدال - الذهبی - ج 1 - ص 254

علاء الدین مغلطای نے اكمال تهذیب الكمال میں ذکر کیا ہے کہ:

إسماعیل بن یحیی بن سلمة بن كهیل الكوفی . قال أبو حاتم بن حبان : لا تحل الروایة عنه و قال أبو الفتح الأزدی ، فیما ذكره ابن الجوزی: متروك الحدیث. إسماعیل بن یحیی بن سلمة بن كهیل الحضرمی الكوفی متروك.

....... ابو حاتم ابن حبان نے کہا ہے کہ: اس سے روایت کو نقل کرنا جائز نہیں ہے..... ابن جوزی نے اسکو متروک الحدیث کہا ہے۔

إكمال تهذیب الكمال فی أسماء الرجال - علاء الدین مغلطای - ج 2 – ص8

اور ابن حجر نے تهذیب التهذیب اور تقریب التهذیب میں ذکر کیا ہے کہ:

إسماعیل بن یحیی بن سلمة بن كهیل الحضرمی الكوفی . قال الدارقطنی متروك . ونقل ابن الجوزی عن الأزدی أنه قال متروك.

... دار قطنی اور ازدی نے کہا ہے کہ:وہ متروك الحدیث ہے.

تقریب التهذیب - ابن حجر - ج 1 - ص 100

تهذیب التهذیب - ابن حجر - ج 1 - ص 293

د : اور اسی سلسلہ سند میں ابراہیم ابن اسماعیل ابن یحیی آیا ہے کہ اسکے بارے کہا گیا ہے کہ:

1-« لین ، متروك ، ضعیف ، مدلس ، قال الذهبی : لینه ابو زرعه و تركه ابو حاتم.»

وہ ایک حدیث نقل کرنے میں ایک لا پروا، ترک شدہ، ضعیف اور دھوکے باز انسان ہے، ذہبی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ: ابو زرعہ نے اسکو لا پروا کہا ہے اور ابو حاتم نے اسکی احادیث کو ردّ کیا ہے۔

میزان الاعتدال - ج1 - ص 20

المغنی - ج 1 - ص 10

2-« و قال العقیلی عن مطین :كان ابن نمیر لا یرضاه و یضعفه و قال : روی احادیث مناكیر. قال العقیلی : و لم یكن ابراهیم هذا بقیم الحدیث. »

عقیلی نے مطین سے نقل کیا ہے کہ: ابن نمیر اسکی احادیث سے راصی نہیں تھا اور وہ اسکو ضعیف قرار دیتا تھا اور کہتا تھا کہ: وہ عجیب قسم کی احادیث کو نقل کیا کرتا تھا، عقیلی نے کہا ہے کہ: ابراہیم کی احادیث کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

تهذیب التهذیب - ج1 - ص 106

انس ابن مالک کی روایت کی سند کے بارے میں بحث:

اسکی تمام اسناد میں عمرو ابن ھرم، عمر ابن نافع اور حماد ابن دلیل جیسے افراد موجود ہیں۔ عمرو ابن ھرم کی حالت کو پہلے واضح کیا جا چکا۔

عمر ابن نافع کے بارے میں آیا ہے کہ:

                «حدیثه لیس بشیء» ، «لا یحتج بحدیثه»

            اسکی حدیث توجہ کرنے اور استدلال کرنے کے قابل نہیں ہے،

الكامل - ج5- ص 1703-

تهذیب التهذیب - ج1 - ص 499

« حماد بن دلیل » کے بارے میں کہا گیا ہے کہ:

« من الضعفاء»، « ضعفه ابو الفتح الازدی و غیره» ، «و ابن الجوزی فی الضعفاء»

 وہ ضعیف روایات نقل کرنے والوں میں سے ہے، ابو الفتح الازدی وغیرہ نے بھی اسکو ضعیف قرار دیا ہے، ابن جوزی نے بھی اسکو ضعفاء میں شمار کیا ہے۔

المغنی فی الضعفاء - ج1 - ص 189

میزان الاعتدال - ج1- ص 590

هامش تهذیب الكمال - ج7 -ص236

عبد اللہ ابن عمر کی روایت کی سند کے بارے میں بحث:

اہل سنت کی کتب میں تمام روایات کہ جو عبد اللہ ابن عمر کے ذریعے نقل ہوئی ہیں، ان کتب کے مصنفین نے ان روایات کو نقل و ذکر کرنے کے بعد مختلف عبارات کے ساتھ ان روایات کو ردّ کیا اور ضعیف قرار دیا ہے، مندرجہ ذیل موارد قابل ذکر ہیں کہ:

حدیث اقتدوا باللذین من بعدی . و هذا غلط ، و أحمد لا یعتمد علیه .

حدیث اقتدوا باللذین من بعدی أبی بكر و عمر ، و هذا غلط و احمد لا یعتمد علیه .

حدیث اقتدوا ایک ایسی غلط روایت ہے کہ احمد ابن حنبل اس پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔

میزان الاعتدال - ذهبی - ج1 - ص 105

لسان المیزان - ابن حجر - ج 1 - ص 188

ان حدیث عبد الله بن عمر هذا باطل بجمیع طرقه...

یہ عبد اللہ ابن عمر کی حدیث ہے کہ جو اپنی تمام اسناد کے ساتھ باطل ہے.....،

لسان المیزان -ج 5 - ص 237

اس حدیث کے تمام راویوں کے بارے میں ان متعدد اقوال کی طرف توجہ کرتے ہوئے، کیا پھر بھی کسی انسان کی عقل اسکو اجازت دیتی ہے کہ اس روایت کو صحیح سند والی روایت کہے اور حدیث ثقلین جیسی متواتر حدیث کے معارض کہے ؟؟؟

شبہ:

آمدی دہلوی نے اصول الاحکام میں اس شبہے کو ذکر کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ:

خذوا شطر دینكم عن الحمیراء

اپنے آدھے دین کو عایشہ سے حاصل کرو۔

پس کیا ضروت پڑی ہے کہ ہم اپنے دین کو فقط رسول خدا (ص) کے اہل بیت سے لیں، کیونکہ رسول خدا نے حدیث ثقلین کے ساتھ ساتھ عایشہ سے بھی احکام دین لینے کا حکم دیا ہے اور ہم نے دینی احکام کو عایشہ سے لیا ہے تو ہم نے بھی رسول خدا کے حکم فرمان پر عمل کیا ہے۔

علی بن محمد الآمدی أبو الحسن الوفاة: 631 ، الإحكام فی أصول الأحكام ، ج1،ص248، دار النشر : دار الكتاب العربی - بیروت - 1404 ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : د. سید الجمیلی

تنقید اور تحقیق:

آمدی نے اس حدیث کو حدیث ثقلین کے مقابلے پر اور تعارض میں ذکر کیا ہے، حالانکہ اہل سنت کے بہت سے علماء نے اس حدیث کو جعلی اور جھوٹا کہا ہے،

یہاں تک کہ البانی نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ:

یہ حدیث جعلی اور رسول خدا (ص) کی طرف جھوٹی نسبت دے کر گھڑی گئی ہے۔

قال القاری فی الموضوعات الصغری : لا یعرف له أصل . قال ابن القیم الجوزیة فی المنار المنیف ص 60 وكل حدیث فیه " یا حمیراء " أو ذكر حمیراء فهو كذب مختلق .

 قاری نے کتاب موضوعات صغری میں کہا ہے کہ: اس حدیث کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے، ابن جوزیہ نے کہا ہے کہ: ہر وہ حدیث کہ جس میں یا حمیراء یا حمیراء کا کوئی بھی نام ذکر کیا گیا ہو، وہ جھوٹی اور جعلی ہے۔

ابن كثیر نے کہا ہے کہ:

خذوا شطر دینكم عن هذه الحمیراء فإنه لیس له أصل و لا هو مثبت فی شئ من أصول الاسلام ، و سألت عنه شیخنا أبا الحجاج المزی فقال : لا أصل له .

یہ حدیث کہ جس میں کہا گیا ہے کہ: اپنے آدھے دین کو حمیراء سے لو، اس حدیث کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے اور یہ حدیث معتبر کتب میں بھی ذکر نہیں ہوئی،اور میں نے اپنے استاد مزی سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ: اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

ابن كثیر ، البدایة و النهایة ، ج 8 ص 100

اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے بھی لکھا ہے کہ:

لا أعرف له إسنادا ، و لا رأیته فی شئ من كتب.

میں نے اس حدیث کے بارے میں کوئی سند اور اس حدیث کو کسی معتبر کتاب میں نہیں دیکھا۔

صائب عبد الحمید ، منهج فی الإنتماء المذهبی ص 214

جو کچھ اس حدیث کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے، اسکو ملاحظہ کرتے ہوئے، کیا ایسی حدیث، حدیث ثقلین جیسی متواتر روایت سے تعارض رکھنے کی قابلیت اور صلاحیت رکھتی ہے ؟؟؟

بحث چہارم: اہل بیت حدیث ثقلین کی روشنی میں:

 

ابن تیمیہ نے اشکال کیا ہے اور لکھا ہے کہ:

إنما یدل علی أن مجموع العترة الذین هم بنو هاشم لا یتفقون علی ضلالة و هذا قاله طائفة من أهل السنة و هو من أجوبة القاضی أبی یعلی وغیره۔

اہل بیت سے مراد تمام بنی ہاشم ہیں اور مراد یہ ہے کہ بنی ہاشم کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتے، اس مطلب کو اہل سنت نے بھی قبول کیا ہے۔

إبن تیمیة الحرانی ، أحمد بن عبد الحلیم أبو العباس (متوفی728هـ) منهاج السنة النبویة ، ج 7 ص318 ـ 319 ، تحقیق : د. محمد رشاد سالم ، ناشر : مؤسسة قرطبة ، الطبعة : الأولی ، 1406

تنقید اور تحقیق:

اس شبہے کے جواب میں کہنا چاہیے کہ جو بھی حدیث ثقلین کے معنی و مفہوم کے بارے میں غور و دقت کرے تو جان لے گا کہ اہل بیت کو اس حدیث ثقلین میں، ثقل اکبر قرآن کے ساتھ، ثقل اصغر کہا گیا ہے، لھذا اہل بیت حتما وہ لوگ ہیں کہ جو امت اسلامی کی ہدایت اور رہبری کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی خطا، گناہ اور گمراہی سے پاک اور دور ہیں۔ ثقل اکبر یعنی قرآن بھی ایسی ہی صفات  رکھتا ہے اور امت اسلامی کی نجات، ہدایت اور سعادت کا ضامن ہے، لیکن غیر معصوم انسان ایک تو قرآن کے ساتھ ذکر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور دوسرا یہ کہ ایسے انسان تمام امت اسلامی کی ہدایت اور راہنمائی کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔

یقینی طور پر حدیث ثقلین میں اہل بیت سے مراد، وہ ہیں کہ جن کو خداوند نے سورہ احزاب کی آیت 33 میں ہر ناپاکی اور گناہ سے پاک کرنے کی خبر دی ہے اور ان سے مراد وہ لوگ ہیں کہ خداوند نے سورہ نساء آیت 59 میں انکی اطاعت مطلق کرنے کا حکم دیا ہے۔

قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ اہل، انبیاء کے خاندان کے خاص افراد کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد اس نبی کے تمام نزدیکی رشتے دار نہیں ہیں، کیونکہ حتی حضرت نوح کا بیٹا بھی انکے اہل سے خارج شمار کیا گیا ہے، جب بیٹے کو اعمال کی وجہ سے اہل ہونے سے خارج کیا گیا ہے تو انسان کی بیوی کا اعمال بد کی وجہ سے اہل میں سے ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ( جیسے حضرت نوح و لوط کی بیوی )

قَالَ یا نُوحُ إنَّهُ لَیسَ مِن أهلِكَ إنَّهُ عَمَلٌ غَیرُ صَالِحٍ ،

خداوند نے فرمایا کہ اے نوح وہ اب تیرے خاندان میں سے نہیں ہے، کیونکہ اسکا عمل نیک نہیں تھا۔

سوره هود ـ آیت 46

پس ہر نبی کے اہل بیت کی شناخت کے لیے ہمیں وحی و قرآن کی طرف رجوع کرنا ہو گا تا کہ اسکے معنی ہمارے لیے واضح ہو سکیں۔

لہذا رسول خدا (ص) کے اہل بیت کے بارے میں جاننے کے لیے وہ کون ہیں، بہتر ہے کہ ہم شیعہ و سنی کی مورد اتفاق روایات کی طرف رجوع کریں تا کہ حقیقت واضح ہو سکے۔

سورہ احزاب کی آیت تطہیر کے شان نزول کے بارے میں اہل سنت نے حدیث کساء کو نقل کیا ہے کہ:

عن صَفِیةَ بِنْتِ شَیبَةَ، قَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ: خَرَجَ النَّبِی صلی الله علیه وسلم غَدَاةً وَعَلَیهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِی فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَینُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِی فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ (إِنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ لِیذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَكُمْ تَطْهِیرًا).

عایشہ نے کہا کہ رسول خدا صبح کے وقت باہر گئے اور انھوں نے سیاہ بالوں والی چادر لی ہوئی تھی، حسن ابن علی آئے، رسول خدا نے انکو چادر کے نیچے لے لیا، حسین آئے، انکو بھی اسی طرح چادر کے نیچے لے لیا،پھر فاطمہ آئیں، انکو بھی چادر کے نیچے لے لیا، علی آئے، انکو بھی چادر کے نیچے لے لیا، پھر فرمایا: خداوند چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے ناپاکی اور نجاست کو دور کرے اور آپ کو پاک فرمائے۔

صحیح مسلم:ج7 ص130 ح 6414

و دعا رسول الله صلی الله علیه و سلم الحسن و الحسین و علیا و فاطمة فمد علیهم ثوبا فقال اللهم هؤلاء أهل بیتی فأذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا۔

رسول خدا نے حسن، حسین، علی اور فاطمہ کو اپنے پاس بلایا پھر ان پر ایک چادر ڈالی اور کہا کہ: خداوندا یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ناپاکی اور ہر طرح کی نجاست کو دور کر کے انکو پاک فرما۔

سنن النسائی الكبری ج5ص113

حدثنا محمود بن غیلان حدثنا أبو أحمد الزبیری حدثنا سفیان عن زبید عن شهر بن حوشب عن أم سلمة أن النبی صلی الله علیه و سلم جلل علی الحسن و الحسین و علی و فاطمة كساء ثم قال اللهم هؤلاء أهل بیتی و خاصتی أذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا فقالت أم سلمة و أنا معهم یا رسول الله قال إنك إلی خیر. قال هذا حدیث حسن و هو أحسن شیء روی فی هذا و فی الباب عن عمر بن أبی سلمة و أنس بن مالك و أبی الحمراء و معقل بن یسار و عائشة۔

ام سلمہ کہتی ہیں کہ: رسول خدا نے حسن، حسین، علی اور فاطمہ پر ایک چادر ڈالی اور خداوند سے عرض کیا: خداوندا یہ میرے اہل بیت اور میرے نزدیکی ہیں۔ ان سے ہر طرح کی نجاست کو دور کر کے انکو پاک فرما۔

ام سلمہ کہتی ہیں کہ: میں نے رسول خدا سے پوچھا کہ: کیا میں بھی ان اہل بیت میں داخل و شامل ہوں ؟ رسول خدا نے فرمایا کہ: تم خیر و نیکی پر ہو، یعنی تم اپنی جگہ پر نیک اور اچھی ہو، لیکن میرے ان اہل بیت میں سے نہیں ہو۔

ترمذی نے کہا ہے کہ: یہ روایت ٹھیک ہے اور اس بارے میں بہترین روایت ہے۔

سنن الترمذی ج5ص699

اسی طرح اس روایت کو حاکم نیشاپوری نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ:

هذا حدیث صحیح علی شرط البخاری و لم یخرجاه.

یہ روایت بخاری اور مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے لیکن انھوں نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب صحیح میں ذکر نہیں کیا۔

المستدرك: ج2 ص416 اور ج3 ص146

اسی طرح اسی معنی و مفہوم کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

 هذا حدیث صحیح علی شرط مسلم و لم یخرجاه.

یہ روایت مسلم کی نظر کے مطابق صحیح ہے لیکن اس نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔

المستدرك: ج2 ص416

طبرانی نے ج3 ص52 حدیث 2662 سے لے کر 2673 تک دس روایات کو ذکر کیا ہے کہ ان سب میں یہ مفہوم واضح بیان ہوا ہے کہ رسول خدا کے اہل بیت فقط علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں اور حتی رسول خدا کی ام سلمہ جیسی باوفا بیوی بھی اہل بیت میں سے نہیں ہے۔

احمد ابن حنبل اور طبرانی نے اس روایت میں نقل کیا ہے کہ ام سلمہ نے کہا کہ:

فرفعت الكساء لأدخل معهم فجذبه من یدی و قال: إنّك علی خیر.

پس میں نے چادر کو اوپر اٹھایا تا کہ ان کے ساتھ چادر کے نیچے داخل ہو جاؤں، رسول خدا نے چادر کو اسکے ہاتھ سے کھینچ لیا اور فرمایا کہ: تم نیک عورت ہو، ( یعنی میرے ان اہل بیت میں شامل نہیں ہو )

مسند أحمد ج 6 ص 323، المعجم الكبیر للطبرانی ج 3 ص 53

ابن تیمیہ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

و الحسن و الحسین من أعظم أهل بیته اختصاصا به كما ثبت فی الصحیح أنه دار كساءه علی، علی و فاطمة و حسن و حسین ثم قال اللهم هؤلاء أهل بیتی فأذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا.

حسن اور حسین رسول خدا کے مہمترین اور بزرگترین اہل بیت میں سے ہیں، جسطرح کہ صحیح خبر میں بھی آیا ہے کہ رسول خدا نے چادر کو علی، فاطمہ، حسن اور حسین پر ڈالا اور پھر خداوند سے عرض کیا کہ: خداوندا یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے نجاست اور ناپاکی کو دور کر کے ان سب کو پاک فرما۔

منهاج السنة النبویة ج4ص561

چند افراد کو ان کے نام لے کر خاص طور پر محدود کرنا، یہ قطعا ثابت کرتا ہے کہ رسول خدا کی ازواج وغیرہ اہل بیت کے اس خاص معنی و مفہوم میں شامل نہیں ہیں۔

اہل سنت کی بعض صحیح روایات میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے اور بعض بزرگ صحابہ نے بھی واضح طور پر رسول خدا (ص) کی ازواج کو اہل بیت سے خارج شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ:

عَنْ زَیدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ دَخَلْنَا عَلَیهِ فَقُلْنَا لَهُ لَقَدْ رَأَیتَ خَیرًا لَقَدْ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ وَصَلَّیتَ خَلْفَهُ وَ سَاقَ الْحَدِیثَ بِنَحْوِ حَدِیثِ أَبِی حَیانَ غَیرَ أَنَّهُ قَالَ أَلَا وَ إِنِّی تَارِكٌ فِیكُمْ ثَقَلَینِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ هُوَ حَبْلُ اللَّهِ مَنْ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَی الْهُدَی وَ مَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَی ضَلَالَةٍ وَ فِیهِ فَقُلْنَا مَنْ أَهْلُ بَیتِهِ نِسَاؤُهُ قَالَ لَا وَ ایمُ اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنْ الدَّهْرِ ثُمَّ یطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَی أَبِیهَا وَ قَوْمِهَا أَهْلُ بَیتِهِ أَصْلُهُ وَ عَصَبَتُهُ الَّذِینَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ۔

.......... مسلم نے ایک دوسری سند کے ساتھ زید ابن ارقم سے نقل کیا ہے کہ: اس سے پوچھا گيا کہ: کیا رسول خدا کی ازواج بھی انکی اہل بیت ہیں ؟ اس نے کہا: نہ، خدا کی قسم بیوی ایک مدت تک شوہر کے ساتھ رہتی ہے، لیکن جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ اپنے والدین کے پاس واپس جاتی ہے۔ رسول خدا کے اہل بیت انکی اصل اور وہ گروہ ہے کہ جن پر صدقہ حرام ہے۔

 صحیح مسلم ج4 ص1874 كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل علی بن أبی طالب،

حدیث ثقلین کے بارے میں آخری نکتہ :

 

ابن تیمیہ نے حدیث ثقلین پر ایک اور اشکال کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ: اس حدیث کس ساتھ ایک اضافی مطلب اضافہ ہوا ہے، یعنی رسول خدا (ص) نے اس مطلب کو نہیں فرمایا بلکہ دوسرےوں نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے۔

...و قد رواه الترمذی و زاد فیه و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض...

إبن تیمیة الحرانی  أحمد بن عبد الحلیم أبو العباس متوفای728هـ منهاج السنة النبویة ، ج 7 ص318 ـ 319، تحقیق : د. محمد رشاد سالم ، ناشر : مؤسسة قرطبة ، الطبعة : الأولی ، 1406

شبہے کے بارے میں تنقید اور تحقیق:

 

وہ جملہ کہ جو ترمذی نے اپنی کتاب صحیح ترمذی میں ذکر کیا ہے، وہ ایسا مطلب نہیں ہے کہ اس نے خود اپنی طرف سے اضافہ کیا ہو، بلکہ اسی جملے کو اہل سنت کے دوسرے محدثین نے بھی ذکر کیا ہے کہ، اب ہم انکی طرف  اشارہ کرتے ہیں:

1- احمد بن حنبل:

عن أبی سعید قال قال رسول الله صلی الله علیه و سلم :« إنی تارك فیكم الثقلین أحدهما أكبر من الآخر كتاب الله حبل ممدود من السماء إلی الأرض و عترتی أهل بیتی و إنهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض،

أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشیبانی الوفاة: 241 ، فضائل الصحابة ، ج 2 ص 779، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بیروت - 1403 - 1983 ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : د. وصی الله محمد عباس.

2 - ابن سعد درطبقات:

...لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظروا كیف تخلفونی فیهما...

محمد بن سعد بن منیع أبو عبدالله البصری الزهری الوفاة: 230 ، الطبقات الكبری ، ج 2 ص 194 ، دار النشر : دار صادر - بیروت .

3 - بلاذری در انساب الاشراف:

عن زید بن أرقم ...قال صلی الله علیه و آله : أنا تارك فیكم ما إن تمسكتم به لم تضلوا، كتاب الله و عترتی أهل بیتی و إنهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض. ثم أخذ بید علی فقال: من كنت ولیه فهذا ولیه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه.

أحمد بن یحیی بن جابر البلاذری (المتوفی : 279هـ) الوفاة: 279 ، أنساب الأشراف،، ج 1 ص 281 ، دار النشر : دار صادر - بیروت .

4 - عقیلی:

...و عترتی أهل بیتی و إنهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض... و قرآن لا یتابع علیه ، هذا یروی بأصلح من هذا الإسناد

أبو جعفر محمد بن عمر بن موسی العقیلی الوفاة: 322 ، الضعفاء الكبیر ، ج 4 ص 362 ، دار النشر : دار المكتبة العلمیة - بیروت - 1404هـ - 1984م ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : عبد المعطی أمین قلعجی

ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: ہمارے استاد ابو زہرہ نے کہا ہے کہ:

...و هذا حدیث صحیح...،

أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن كثیر القرشی الدمشقی (المتوفی : 774هـ) الوفاة: ، السیرة النبویة لابن كثیر ، ج 4 ص 416، دار النشر

5 - ابن حجر ہیثمی:

ابن حجر نے اس کو « لن یفترقا حتی یردا علی الحوض» نقل کرنے کے بعد اس حدیث کی سند کے بارے میں لکھا ہے کہ:

لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظروا بم تخلفونی فیهما و سنده لا بأس به،

 اسکی سند میں کوئی اشکال اور عیب نہیں ہے۔

أبو العباس أحمد بن محمد بن علی ابن حجر الهیثمی الوفاة: 973هـ ، الصواعق المحرقة علی أهل الرفض والضلال والزندقة ، ج 2 ص 438 ج 2 ص 438، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م ، الطبعة : الأولی ، تحقیق : عبد الرحمن بن عبد الله التركی - كامل محمد الخراط.

نتیجہ کلی:

 

اسلامی تعلیمات کا اصلی اور بنیادی مقصد ہر انسان کی صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنا ہے، دین اسلام نے اس ہدف تک پہنچنے کے لیے راستہ اور طریقہ بھی بتایا ہے۔ ان تعلیمات کے دو رکن اصلی اور اساسی ہیں، یعنی قرآن اور حدیث، یہ ایسے دو رکن ہیں کہ ان دو میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر فقط دوسرے سے ہدایت طلب کرنا، ممکن نہیں ہے۔ یہ تصور کرنا کہ قرآن کریم سے اہل بیت کو چھوڑ کر صراط مستقیم کی  طرف ہدایت پا جانا ممکن ہے، یہ تصور بالکل غلط اور خود قرآن کی تعلیمات کے مخالف ہے، کیونکہ قرآن کریم نے جہاں پر بھی ہدایت اور صراط مستقیم کی بات کی ہے، وہاں پر ان لوگوں کا بھی صفات کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جو اس راستے کی طرف ہدایت کرنے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتے ہیں۔

اسی طرح قرآن کو چھوڑ کر فقط اہل بیت (ع) سے ہدایت اور نجات کو طلب کرنا بھی غلط اور خود اہل بیت کی وصیت اور تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ موضوع بہت مہم ہے، اور اس پیچیدہ مشکل سے نجات کا واحد طریقہ رسول خدا (ص) سے صادر ہونے والی صحیح اور متواتر حدیث، حدیث ثقلین ہے۔

«انی تارك فیكم الثقلین ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا بعدی - احدهما اعظم من الاخر كتاب الله حبلٌ ممدود من السماء الی الارض، و عترتی اهل بیتی، و لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظروا كیف تخلفونی فیهما»

رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ: میں تمہارے لیے دو ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے انکو مضبوطی سے تھامو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے۔ ان میں سے ایک چیز دوسری سے افضل ہے: کتاب خدا کہ ایک وسیلہ ہے کہ جو آسمان سے زمین تک پہنچا ہوا ہے، اور میرے اہل بیت ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے دونوں میرے پاس آئیں گے۔ پس احتیاط سے کام لینا کہ میرے بعد تم ان سے کیسا سلوک کرتے ہو۔

حدیث ثقلین رسول خدا (ص) کی تمام احادیث میں سے مسلمانوں کے لیے سب سے با ارزش ترین حدیث ہے۔ اس حدیث صحیح اور متواتر کو مذاہب اسلامی کے بزرگان، محدثین اعم از شیعہ و سنی نے کتب تفسیر، حدیث، تاریخ، لغت، سنن اور مسانید میں ذکر کیا ہے۔ شیعیان نے حدیث ثقلین کو امیر المؤمنین علی (ع) کی ولایت اور امامت پر محکم ترین دلیل قرار دیا ہے اور اسی روایت کو 82 اسناد کے ساتھ اور مختلف عبارات کے ساتھ رسول خدا سے نقل کیا ہے۔ اہل سنت نے بھی اس حدیث ثقلین کو حسن کہا ہے اور کئی اسناد کے ساتھ اور بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل کیا ہے، اور ابن تیمیہ وغیرہ کی طرف سے  حدیث ثقلین پر ہونے والے اشکالات اور اعتراضات کے جوابات دئیے گئے ہیں اور یہ جوابات خود اہل سنت کی معتبر کتب سے دئیے گئے ہیں۔ بڑی جرات اور معرفت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث ثقلین پر چودہ سو سال سے ہونے والے تمام اعتراضات علمی نہیں تھے، بلکہ وہ سب کے سب اہل بیت اور شیعوں سے تعصّب اور دشمنی کا نتیجہ تھے، علماء اور محققین نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اصلا کتاب اللہ و سنتی کی حدیث کو بنی امیہ نے، رسول خدا (ص) کی صحیح حدیث کتاب اللہ و عترتی کےمقابلے پر گھڑا اور  ایجاد کیا گیا تھا۔

التماس دعا.....

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات