2024 March 29
شخصيت و فضائل حضرت علی اکبر عليہ السلام
مندرجات: ٧٢٩ تاریخ اشاعت: ٠٧ May ٢٠١٧ - ١٢:٥١ مشاہدات: 10669
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
شخصيت و فضائل حضرت علی اکبر عليہ السلام

 

حضرت علی اکبر(ع) 11 شعبان سن 33 ہجری یا 35 ہجری یا 41 ہجری کو اس دنیا میں تشریف لائے اور 10 محرم سن 61 ہجری کو اپنے والد محترم اور اپنے زمانے کے امام سید الشہداء امام حسین (ع) کی نصرت کرتے ہوئے میدان کربلا میں شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔

طبری نے اپنی تاریخ کی کتاب میں حضرت علی اکبر علیه السلام کا تعارف اس طرح سے ذکر کیا ہے کہ:

أول قتيل من بني أبي طالب يومئذ علي الأكبر بن الحسين بن علي وأمه ليلى ابنة أبي مرة بن عروة بن مسعود الثقفي وذلك أنه أخذ يشد على الناس وهو يقول

أنا علي بن حسين بن علي 

نحن ورب البيت أولى بالنبي 

تالله لا يحكم فينا ابن الدعي

حضرت ابو طالب کی نسل سے کربلا میں پہلے شہید حضرت علی اکبر تھے، کہ جنکے والد امام حسین ابن علی اور والدہ حضرت لیلی بنت ابی مرہ ابن عروہ ابن مسعود ثقفی ہیں۔ جب حضرت علی اکبر میدان جنگ میں جا رہے تھے، اس طرح سے رجز پڑھ رہے تھے:

میں علی، حسین ابن علی کا بیٹا ہوں، کعبہ کے خدا کی قسم کہ ہم رسول خدا کے نزدیکی ہیں، خدا کی قسم ایک زنا کرنے والی عورت کا بیٹا ہم پر حکومت نہیں کر سکتا۔

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفى310)، تاريخ الطبري، ج3 ، ص330، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

رسول خدا (ص) سے سب سے زیادہ مشابہے ہونا:

حضرت علی اکبر (ع) کے فضائل میں سے سب سے زیادہ فضیلت یہ ہے کہ سید الشهداء مولا ابا عبد الله الحسین علیه السلام نے اپنے بیٹے کا اس طرح تعارف بیان کیا ہے کہ: علی اکبر، اس کائنات کی پہلی مخلوق رسول خدا سید الانبیاء (ص) سے سب سے زیادہ مشابہے تھے۔ یہ فضیلت حضرت علی اکبر کے بلند مقام و منزلت کو سب کے لیے واضح کرتی ہے۔

 عالم اہل سنت ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتاب مقاتل الطالبين نے اس روایت کو اس طرح سے نقل کیا ہے:

حدثني أحمد بن سعيد، قال: حدثني يحيى بن الحسن العلوي، قال: حدثنا غير واحد، عن محمد بن عمير، عن أحمد بن عبد الرحمن البصري، عن عبد الرحمن بن مهدي، عن حماد بن سلمة عن سعيد بن ثابت، قال: لما برز علي بن الحسين إليهم، أرخى الحسين - صلوات الله عليه وسلامه - عينيه فبكى، ثم قال: اللهم كن أنت الشهيد عليهم، فبرز إليهم غلام أشبه الخلق برسول الله  ، فجعل يشد عليهم ثم يرجع إلى أبيه فيقول: يا أباه، العطش، فيقول له الحسين: اصبر حبيبي فإنك لا تمسي حتى يسقيك رسول الله بكأسه، وجعل يكر كرة بعد كرة، حتى رمى بسهم فوقع في حلقه فخرقه، وأقبل ينقلب في دمه، ثم نادى: يا أبتاه عليك السلام، هذا جدي رسول الله يقرئك السلام، ويقول: عجل القدوم إلينا، وشهق شهقة فارق الدنيا.

جب علی ابن الحسین دشمن سے جنگ کرنے کے لیے میدان کی طرف گئے تو امام حسین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس حالت میں فرمایا: خداوندا آپ ان لوگوں پر گواہ رہنا کہ ابھی جو جوان ان سے جنگ کرنے کے لیے گیا ہے، وہ تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ رسول خدا کے مشابہے ہے۔ حضرت علی اکبر ان لوگوں پر حملہ کرتے کرتے اور پھر اپنے والد بزرگوار کی طرف واپس پلٹتے اور فرماتے تھے کہ اے بابا جان العطش! یہ سن کر امام حسین نے بیٹے سے فرمایا:  اے میرے عزیز تھوڑا صبر کرو، تم اس دنیا میں تھوڑی دیر کے مہمان ہو اور بہت جلد تم اپنے نانا رسول خدا کے ہاتھوں سے جام کوثر سے سیراب ہو گے۔ حضرت علی اکبر دشمنوں پر لگاتار حملے کر رہے تھے کہ اچانک ایک تیر آپکے گلے پر اور اس نے گلے کو پھاڑ کر رکھ دیا۔ جب وہ زخموں کے خون میں لت پت تھے تو اپنے بابا کو آواز دی : بابا جان ، آپ پر میرا آخری سلام ہو۔ یہ  میرے پاس ابھی میرے جد رسول خدا ہیں کہ جو آپکو سلام دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ: آپ بھی جلدی سے ہمارے پاس آ جائیں۔ حضرت علی اکبر اتنی بات کر کے شہید ہو گئے۔

الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفى356هـ)، مقاتل الطالبيين، ج 1 ،ص 33 ، بر اساس نرم افزار الجامع الكبير.

ابو مخنف نے اس بارے میں اس طرح سے نقل کیا ہے کہ:

وكان من اصبح الناس وجها واحسنهم خلقا فارخى عينيه بالدموع واطرق ثم قال: اللهم اشهدانه قد برز اليهم غلام اشبه الناس خلقا وخلقا ومنطقا برسولك، وكنا اذا اشتقنا إلى نبيك نظرنا اليه،

حضرت علی اکبر کا چہرہ خوبصورت ترین اور انکی سیرت بہترین تھی، انکے میدان جنگ جاتے وقت امام حسین کی آنکھیں اشکوں سے بھر گئیں اور اسی غم کی حالت میں فرمایا: پرودگارا آپ گواہ رہنا کہ آج ایسا جوان میدان جنگ کی طرف جا رہا ہے کہ جو ظاہری شکل و صورت میں اور کردار و گفتار میں رسول خدا سے بہت زیادہ مشابہے ہے۔ ہم جب بھی رسول خدا کے چہرے کی زیارت کرنا چاہتے تھے تو ہم علی اکبر کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے تھے۔

أبو مخنف الأزدي، ( متوفي  157)  مقتل الحسين، 164 تحقيق : تعليق : حسين الغفاري، چاپخانه : مطبعة العلمية – قم

ابن اعثم نے بھی لکھا ہے کہ:

فتقدم نحو القوم ورفع الحسين شيبته نحو السماء وقال : اللهم اشهد على هؤلاء القوم ! فقد برز إليهم غلام أشبه القوم خلقا وخلقا ومنطقا برسولك محمد صلى الله عليه وآله،

ابن اعثم، أحمد بن أعثم الكوفي (وفات : 314 )، الفتوح ج 5 ص 114، تحقيق : علي شيري ( ماجستر في التاريخ الإسلامي )، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1411 : دار الأضواء، ناشر : دار الأضواء للطباعة والنشر والتوزيع

شیعہ کتب میں بھی اس طرح سے نقل ہوا ہے کہ:

و كان من أصبح الناس وجها و أحسنهم خلقا فاستأذن أباه في القتال فأذن له ثم‏ نظر إليه نظر آيس منه و أرخى ع عينه و بكى ثم قال اللهم اشهد فقد برز إليهم غلام‏ أشبه‏ الناس‏ خلقا و خلقا و منطقا برسولك ص و كنا إذا اشتقنا إلى نبيك نظرنا إليه

حضرت علی اکبر کا چہرہ خوبصورت ترین اور انکی سیرت بہترین تھی، انھوں نے میدان جنگ میں جانے کے لیے اپنے والد سے اجازت مانگی تو امام نے انکو اجازت دے دی، پھر امام نے ایک حسرت بھری نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا اور سر کو نیچے کر کے رونا شروع کر دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ: پرودگارا آپ گواہ رہنا کہ آج ایسا جوان میدان جنگ کی طرف جا رہا ہے کہ جو ظاہری شکل و صورت میں اور کردار و گفتار میں رسول خدا سے بہت زیادہ مشابہے ہے۔ ہم جب بھی رسول خدا کے چہرے کی زیارت کرنا چاہتے تھے تو ہم علی اکبر کے چہرے کی زیارت کیا کرتے تھے۔

       ابن طاووس، على بن موسى ، اللهوف على قتلى الطفوف ص113، جهان - تهران، چاپ: اول، 1348ش.

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ج‏45، ص43 دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

رسول خدا (ص) کے ساتھ ہر لحاظ سے شباہت رکھنے کا کیا معنی و مفہوم ہے ؟

ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے حضرت علی اکبر رسول خدا سے سب سے زیادہ مشابہے تھے۔ رسول خدا کے خوبصورت و نورانی چہرے کے بارے روایات ذکر ہوئی ہیں۔

اس بارے میں ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب فتح الباری میں لکھا ہے کہ:

ولأحمد وبن سعد وبن حبان عن أبي هريرة ما رأيت شيئا أحسن من رسول الله كأن الشمس تجري في جبهته،

ابوہریره نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی رسول خدا سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، انکا چہرہ چمکتے ہوئے سورج کی طرح تھا۔

عن أبي إسحاق السبيعي عن امرأة من همدان قالت حججت مع رسول الله فقلت لها شبهيه قالت كالقمر ليلة البدر لم أر قبله ولا بعده مثله وفي حديث الربيع بنت مسعوذ لو رأيته لرأيت الشمس طالعة أخرجه الطبراني والدارمي

ابو اسحاق نے کہا ہے کہ: ایک عورت کہ جس نے حج کے موقعے پر رسول خدا کو دیکھا تھا، میں نے اس عورت سے کہا کہ میرے لیے رسول خدا کے چہرے کی حالت کو بیان کرو، اس عورت نے کہا:

رسول خدا کا چہرہ چودہویں کے چاند کی روشن تھا اور میں اس سے پہلے اور اسکے بعد کبھی بھی اس جیسا چہرہ نہیں دیکھا۔

اور ربیع بنت مسعود کی روایت میں آیا ہے کہ: جو بھی رسول خدا کے چہرے کو دیکھے تو گویا اس نے چمکتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے۔

        العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفى852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري ج6 ،ص573، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

اور ابن کثیر نے رسول خدا (ص) اور حضرت یوسف (ع) کی خوبصورتی کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وذكر في مقابلة حسن يوسف عليه السلام ما ذكر من جمال رسول الله ومهابته وحلاوته شكلا ونفعا وهديا ودلا ويمنا كما تقدم في شمائله من الأحاديث الدالة على ذلك كما قالت الربيع بنت مسعود لو رأيته لرأيت الشمس طالعة

یہ باب رسول خدا کی خوبصورتی کے ساتھ حضرت یوسف کی خوبصورتی کو موازنہ کرنے کے بارے میں ہے، رسول خدا کے جمال و خوبصورتی کے بارے میں اور انکے وجود کی برکت و ہدایت کے بارے میں روایات ذکر ہوئی ہیں، جس طرح کہ انکے ظاہری چہرے کے بارے میں روایات دلالت کرتی ہیں، یہ بھی بیان ہوا کہ جیسے ربیع بنت مسعود کی روایت میں آیا ہے کہ: جو بھی رسول خدا کے چہرے کو دیکھے تو گویا اس نے چمکتے ہوئے روشن سورج کو دیکھا ہے۔

 ابن كثير الدمشقي،  ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774هـ)، البداية والنهاية ج6 ،ص273، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

یہ چند روایات رسول خدا (ص) کی ظاہری خوبصورتی کے بارے میں تھیں اور اس مقدمے کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم نے ذکر کیا کہ رسول خدا (ص) کے ساتھ ظاہری شکل و صورت میں مشاہبے ترین انسان، حضرت علی اکبر (ع) تھے، یہاں سے حضرت علی اکبر (ع) کے نورانی چہرے کے وصف ناپذیر جمال و زیبائی کو سمجھا جا سکتا ہے۔

اور حضرت علی اکبر (ع) کی رسول خدا (ص) کے ساتھ دوسری شباہت یہ ہے کہ حضرت علی اکبر کا اخلاق، کردار اور گفتگو کرنے کا انداز بھی بالکل رسول خدا (ص) جیسا تھا۔

خداوند متعال نے قرآن کریم میں رسول خدا کے اخلاق کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

      وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (سوره القلم، 4).

اور بے شک آپ کا اخلاق بہت ہی عظیم و بلند ہے۔

عالم کائنات میں بہترین و اعلی ترین اخلاق خاتم الانبیاء رسول خدا (ص) کا ہے۔ علمائے اہل سنت نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ:

لأنه لا أحد احسن خلقا منه،

یہ توصیف و تعریف اس وجہ سے ہیں کہ کسی انسان کا اخلاق و کردار، رسول خدا سے بہتر و بالا تر نہیں ہے۔

أبو بكر محمد بن أبي إسحاق إبراهيم بن يعقوب الكلاباذي البخاري الوفاة: 384 هـ ، بحر الفوائد المشهور بمعاني الأخبار  ج1 ،ص341 ،دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - 1420هـ - 1999م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : محمد حسن محمد حسن إسماعيل - أحمد فريد المزيدي

خداوند نے ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ:

«وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ» (سوره الأنبياء، 107).

ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر نازل کیا ہے۔

اور دوسری آیت میں رسول خدا  (ص)کو سب کے لیے بہترین عملی نمونہ قرار دیا ہے:

«لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ» (الأحزاب: 21).

بے شک تمہارے لیے رسول خدا بہترین عملی نمونہ ہیں۔

اب اخلاق و کردار میں رسول خدا (ص) کے ساتھ مشابہے ترین انسان حضرت علی اکبر (ع) ہیں، یعنی یہ بھی رسول خدا کی طرح اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں اور اسی وجہ سے تمام انسانیت کے لیے بہترین عملی نمونہ ہیں۔

حضرت علی اکبر کی رسول خدا کے ساتھ تیسری شباہت انداز گفتگو اور کلام ہے، یعنی وہ بالکل رسول خدا کی طرح دوسروں سے بات و کلام کیا کرتے تھے۔ رسول خدا (ص) کے کلام کرنے کی سب سے مہم صفت یہ تھی کہ وہ حضرت کبھی بھی ہوا و ہوس کی وجہ سے کلام نہیں کرتے تھے، کبھی غلط و خلاف حق بات نہیں کرتے تھے۔ جس طرح کہ خداوند نے قرآن میں بھی فرمایا ہے کہ:

«وماینطق عن الهوی» (سوره النجم، 3).

وہ کبھی بھی اپنی ہوائے نفس سے کلام نہیں کرتے تھے۔

اس وصف کے ساتھ حضرت علی اکبر (ع) کلام کرنے میں سب سے زیادہ رسول خدا (ص) کے مشابہے تھے کہ وہ حضرت پیغمبر رحمت اور اشرف مخلوقات ہیں۔

امام حسین (ع) کا یہ قول حضرت علی اکبر کی عظمت و مقام کو واضح کر کے بیان کرتا ہے اور امام حسین (ع) اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ:

ہم جب بھی رسول خدا (ص) کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو ہم علی اکبر کے چہرے کی طرف نگاہ کیا کرتے تھے، کیونکہ میرا بیٹا رسول خدا کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتا تھا۔

حضرت علی اکبر کا مرتبہ و شان اتنی بلند تھی کہ حتی اہل بیت کے دشمن بھی اس بات کا اعتراف کیا کرتے تھے۔

آیت تطہیر کی روشنی میں حضرت علی اکبر(ع) کا اہل بیت میں سے ہونا:

امام حسین (ع) کے زیارت نامے میں نقل ہوا ہے کہ زائر ان حضرت کی زیارت کرنے کے بعد امام حسین کے مبارک پاؤں کی طرف، جہاں حضرت علی اکبر کے دفن ہونے کی جگہ ہے، آ کر کھڑا ہو اور اس طرح سے زیارت پڑھے:

ثم تحول إلى عند رجلي الحسين فقف على علي بن الحسين ع و قل السلام عليك‏ أيها الصديق‏ الطيب‏ الطاهر و الزكي الحبيب المقرب و ابن ريحانة رسول الله ص السلام عليك من شهيد محتسب و رحمة الله و بركاته ما أكرم مقامك و أشرف منقلبك أشهد لقد شكر الله سعيك و أجزل ثوابك و ألحقك بالذروة العالية حيث الشرف كل الشرف في الغرف السامية في الجنة فوق الغرف كما من عليك من قبل و جعلك من أهل البيت الذين أذهب الله عنهم الرجس و طهرکم تطهيرا و الله ما ضرك القوم بما نالوا منك و من أبيك الطاهر صلوات الله عليكما و لا ثلموا منزلتكما من البيت المقدس و لا وهنتما بما أصابكما في سبيل الله و لا ملتما إلى العيش في الدنيا و لا تكرهتما مباشرة المنايا إذ كنتما قد رأيتما منازلكما في الجنة قبل أن تصيرا إليها فاخترتماها قبل أن تنتقلا إليها فسررتم و سررتم فهنيئا لكم يا بني عبد المطلب التمسك من النبي ص بالسيد السابق حمزة بن عبد المطلب و قدمتما عليه و قد ألحقتما بأوثق عروة و أقوى سبب صلى الله عليك أيها الصديق الشهيد المكرم و السيد المقدم الذي عاش سعيدا و مات شهيدا و ذهب فقيدا فلم تتمتع من الدنيا إلا بالعمل الصالح و لم تتشاغل إلا بالمتجر الرابح أشهد أنك من الفرحين‏ بما آتاهم الله من فضله و يستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألا خوف عليهم و لا هم يحزنون و تلك منزلة كل شهيد فكيف منزلة الحبيب إلى الله القريب إلى رسول الله ص زادك الله من فضله في كل لفظة و لحظة و سكون و حركة مزيدا يغبط و يسعد أهل عليين به يا كريم النفس يا كريم الأب يا كريم الجد إلى أن يتناهى رفعكم الله من أن يقال رحمكم الله و افتقر إلى ذلك غيركم من كل من خلق الله‏

... فاشفع لى ايّها السيّدالطاهر الى ربّك فى جطّ الاثقال عن ظهرى و تخفيفها عنّى و ارحم ذلّى و خضوعى لك وللسيّد ابيك صلّى اللَّه عليكما.

سلام ہو آپ پر اے صادق و مطہر و محبوب، مقرب خداوند و گل رسول خدا، سلام ہو آپ پر کہ جو اخلاص کی وجہ سے شہید ہوئے، خداوند کی رحمت و برکت آپ پر نازل ہو، آپ کو کتنا بلند و بالا مقام و مرتبہ نصیب ہوا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ خداوند نے آپکے اس ایثار کی آپکو جزا دی ہے اور بہت زیادہ ثواب آپکو عطا کیا ہے اور آپکو بلند مرتبے پر فائز کیا ہے اور جنت بہترین مقام عطا کیا ہے، اور آپکو خاندان رسالت میں سے قرار دیا ہے، وہ خاندان کہ جسے خداوند نے ہر طرح کی نجاست و پلیدی سے دور و پاک کیا ہے........،

آپ وہ ہو کہ جسکے والد و جدّ کریم و بزرگوار تھے.....،

اے نیک و پاک فطرت سید و سردار، خداوند کی بارگاہ میں میری شفاعت کرنا، میری پشت کو گناہوں نے وزنی و بھاری کیا ہوا ہے، آپ اپنی شفاعت سے میری پشت سے اس وزن کو کم فرمائیں، میں آپ اور آپکے والد کے سامنے عاجز و ناتوان ہوں، آپ پر خداوند کا درود و سلام ہو کہ آپ میری طرف توجہ فرمائیں......

مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار (ط - بيروت)، ج‏98 ؛ ص242دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.

شهيد اول، محمد بن مكى، المزار في كيفية زيارات النبيّ و الأئمة عليهم السلام، (للشهيد الأوّل)، ص147، مدرسه امام مهدى عليه السلام - قم، چاپ: اول، 1410 ق.

زیارت عاشورا میں حضرت علی اکبر(ع)  پر بھی سلام کرنا:

زیارت عاشورا کے آخری جملات میں ذکر ہوا ہے کہ:

السلام عليك يا أبا عبد الله وعلى الارواح التى حلت بفنائك عليك منى سلام الله أبدا ما بقيت وبقى الليل والنهار ، ولا جعله الله آخر العهد منى لزيارتك ، السلام على الحسين وعلى على بن الحسين وعلى أولاد الحسين وعلى أصحاب الحسين،

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہاں پر علی ابن الحسین سے مراد، امام زین العابدین ہیں، حالانکہ علماء نے بیان کیا ہے کہ اس جگہ پر مراد حضرت علی اکبر ہیں۔ جس طرح کہ علامہ تہرانی نے زیارت عاشورا کی شرح و تفسیر میں لکھا ہے کہ:

 ( وعلى علي بن الحسين )

اور سلام ہو آپ پر اے علی اکبر،

یہاں پر اس عبارت میں علی ابن الحسین سے مراد، علی اکبر ہیں، کیونکہ یہ زیارت شہدائے کربلا کے بارے میں مخصوص ہے، اور علی اکبر بھی شہدائے کربلا میں سے ہیں، لھذا اس جگہ پر امام زین العابدین مراد ہونا، بہت ہی بعید ہے۔

       الحاج ميرزا أبي الفضل الطهراني، ، شفاء الصدور في شرح زيارة العاشور ( فارسي ) ص 345، تحقيق : تحقيق و پاورقي : السيد علي الموحد الأبطحي، چاپ  سوم، سال چاپ : 1409 چاپخانه : سيد الشهداء (ع) - قم - ايران

فاضل مازندرانی نے بھی زیارت عاشورا کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

شرح « وَعَلَى عَلِيِّ بْنِ الحُسَيْنِ » ] قولهُ ( عليه السلام ) ( وَعَلَى عَلِيِّ بْنِ الحُسَيْنِ ) لَا رَيبَ انَّ المُراد بِه ( عَليّ بن الحُسين الشَّهيد ) ، لَا الامام زَين العَابدين لانَّ هذِهِ الزِّيارة لخصُوصِ الشُّهداء،

اس بات میں شک نہیں ہے کہ و علی علي ابن الحسین سے مراد، علی اکبر شہید ہیں نہ امام سجاّد، کیونکہ یہ زیارت شہدائے کربلا کے بارے میں ہے۔

الفاضل المازندراني - ص 148، شرح زيارة عاشوراء، تحقيق : السيّد حسن الموسوي الدُّرَازي، چاپ : الأولى،  سال چاپ : 1430 - 2009 م ، چاپخانه : وفا ، ناشر : دار الصديقة الشهيدة عليها السلام

معاویہ کا حضرت علی اکبر(ع) کا خلافت کے لیے اہل ہونے کا اعتراف کرنا:

معاويہ کہ جو اہل بیت کا سخت و پیدائشی دشمن ہے، اس نے حضرت علی اکبر کے خلافت کے لیے اہل ہونے کے بارے میں اس طرح سے اعتراف کیا ہے کہ:

وإياه عني معاوية في الخبر الذي حدثني به محمد بن محمد بن سليمان، قال: حدثنا يوسف بن موسى القطان، قال: حدثنا جرير، عن مغيرة، قال: قال معاوية: من أحق الناس بهذا الأمر؟ قالوا: أنت، قال: لا، أولى الناس بهذا الأمر علي بن الحسين بن علي، جده رسول الله ، وفيه شجاعة بني هاشم، وسخاء بني أمية، وزهو ثقيف

ابو الفرج اصفہانی نے معتبر سند کے ساتھ مغيره سے نقل کیا ہے کہ:

ایک دن معاویہ ابن ابی سفیان نے اپنے دربار میں بیٹھنے والوں سے کہا کہ: آپ لوگوں کی نظر میں اس امت میں کون سا شخص خلافت اور خلیفہ بننے کے لیے سب سے زیادہ قابلیت و صلاحیت رکھتا ہے ؟ سب نے مل کر کہا: امر خلافت کے لیے آپ ہی سب سے زیادہ قابلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ معاویہ نے کہا: نہیں ایسے نہیں ہے، بلکہ اس کام کے لیے سب سے زیادہ اہل شخص حسین ابن علی کا جوان بیٹا علی اکبر ہے کہ جس کا  جد رسول خدا ہے اور اس میں بنی ہاشم کی شجاعت، بنی امیہ کی سخاوت اور قبیلہ ثقیف کی خوبصورتی پائی جاتی ہے۔

الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفاى356هـ) ، مقاتل الطالبيين ، ج 1 ص 22 طبق برنامه الجامع الكبير

       أنساب الأشراف، أحمد بن يحيي بن جابر ( البلاذري )، ج 5 ، ص 136

       مقاتل الطالبيين، 80 و 114

       نسب قريش، 57

       البداية والنهاية، ج 8، ص 185

 روایت کی سند کے بارے میں بحث:

محمد بن سليمان:

یہ محمد بن محمد بن سليمان باغندی ہے، جس طرح کہ ابو الفرج نے اپنی کتاب میں اس سے ایک روایت کو ایسے نقل کیا ہے کہ:

محمد بن محمد بن سليمان الباغندي. قال: سمعت

مقاتل الطالبيين  ج 1   ص 101

اگرچہ بعض نے اسکو تدلیس کرنے والا کہا ہے، لیکن اہل سنت کے بزرگان نے اسکم ثقہ قرار دیا ہے اور اسکی روایات کو قبول بھی کرتے ہیں۔

ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

         محمد بن محمد بن سليمان بن الحارث الإمام الحافظ الكبير محدث العراق أبو بكر ابن المحدث أبي بكر الأزدي الواسطي الباغندي أحد أئمة هذا الشأن ببغداد،

محمد ابن محمد، امام، بزرگ حافظ اور عراق کا محدث تھا، اس کا شمار بغداد میں علم حدیث کے بزرگان میں سے ہوتا تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج14 ص383 تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي ، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت ، الطبعة : التاسعة ، 1413هـ .

ابن حجر نے بھی اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

محمد بن محمد بن سليمان الباغندي الحافظ البغدادي أبو بكر مشهور بالتدليس مع الصدق والأمانة،

محمد بن محمد تدلیس کرنے کی وجہ سے مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ سچا اور امانت دار تھا۔

العسقلاني الشافعي ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل ، طبقات المدلسين، ج1 ص44، دار النشر : مكتبة المنار - عمان - 1403 - 1983 ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عاصم بن عبدالله القريوتي

خطيب بغدادی نے بھی لکھا ہے کہ:

وذكر عنده أبو بكر محمد بن محمد بن سليمان بن الحارث الباغندي فقال ثقة كثير الحديث  ....ورأيت كافة شيوخنا يحتجون بحديثه ويخرجونه في الصحيح،

جب ابوبکر باغندی کا ابن ابی خیثمہ کے سامنے ذکر ہوا تو اس نے کہا: محمد ابن محمد ثقہ تھا اور اس سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں..... میں نے دیکھا تھا کہ تمام بزرگان اس سے نقل شدہ روایات سے استدلال کیا کرتے تھے اور ان روایات کو اپنی اپنی کتب میں ذکر بھی کیا کرتے تھے۔

البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب (متوفى463هـ)، تاريخ بغداد، ج3 ص213ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

ذہبی نے بھی مظفر سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ ہے:

فذاكرني بن المظفر فقال الباغندي ثقة امام لا ينكر منه الا التدليس والأئمة دلسوا،

باغندی مورد اعتماد و امام ہے اور اس سے فقط ایک منکر کام تدلیس کرنا نقل ہوا ہے کہ یہ کام تو علمائے بزرگ بھی انجام دیا کرتے تھے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفى852 هـ)، لسان الميزان، ج 5   ص 361، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ – 1986م.

حاکم نيشاپوری نے بھی اسکی روايات کو صحيح قرار دیا ہے:

حدثنا أبو علي الحسين بن علي الحافظ حدثنا محمد بن محمد بن سليمان حدثنا عبد الوهاب بن نجدة الحوطي .....هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه،

الحاكم النيسابوري،  ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفى 405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج 2   ص 88  تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م.

يوسف بن موسی:

یہ کتاب بخاری کے راویوں میں سے اور ثقہ ہے، ابن حجر نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

يوسف بن موسى بن راشد القطان أبو يعقوب الكوفي نزيل الري ثم بغداد صدوق،

ابو يعقوب يوسف بن موسى بن راشد قطان کہ جو اہل کوفہ تھا، کچھ عرصہ وہ شہر رے میں رہا اور پھر بغداد میں رہتا تھا، وہ ایک سچا انسان تھا۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفى852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص612، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

ابی حاتم نے بھی اسے صادق کہا ہے:

عبد الرحمن قال سألت أبى عنه فقال هو صدوق،

میں نے یوسف کے بارے میں اپنے والد سے معلوم کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ ایک سچا انسان ہے۔

ابن أبي حاتم الرازي التميمي، ابومحمد عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس (متوفى 327هـ)، الجرح والتعديل، الجرح والتعديل ج9 ص231  ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1271هـ ـ 1952م.

خطيب بغدادی نے بھی لکھا ہے کہ:

وقد وصف غير واحد من الأئمة يوسف بن موسى بالثقة واحتج به البخاري في صحيحه،

بہت سے بزرگان نے یوسف کو ثقہ قرار دیا ہے اور بخاری نے اپنی کتاب اسکی روایت کو ذکر اور اس سے استدلال بھی کیا ہے۔

البغدادي، ابوبكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب (متوفى463هـ)، تاريخ بغداد، ج14 ص304ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.

ابن حبان نے بھی اسکو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔

التميمي البستي، ابوحاتم محمد بن حبان بن أحمد (متوفى354 هـ)، الثقات، ج9 ص282  تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.

جرير:

اس کا نام جرير بن عبد الحميد ہے کہ جو کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہے اور قابل اعتماد راوی ہے۔

عجلی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

جرير بن عبد الحميد الضبي كوفى ثقة،

أبي الحسن العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفى 261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج1 ص267 تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.

ابن حجر نے بھی ابو احمد حاکم سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

وقال أبو أحمد الحاكم هو عندهم ثقة،

حاکم نے کہا ہے کہ جریر بزرگان کے نزدیک ثقہ اور قابل اعتماد ہے۔

تهذيب التهذيب  ج 2   ص 65

ذہبی نے بھی نقل کیا ہے کہ:

قال ابن سعد كان ثقة كثير العلم،

ابن سعد نے کہا ہے کہ وہ ثقہ اور بہت زیادہ علم رکھنے والا راوی تھا۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 9   ص 11، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي ، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت ، الطبعة : التاسعة ، 1413هـ .

مغيره بن مقسم:

یہ بھی کتاب صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہے کہ اسکو اہل سنت کے علم رجال کے علماء نے مورد اطمینان راوی کہا ہے۔

ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

مغيرة ( ع ) مغيرة بن مقسم الامام العلامة الثقة أبو هشام الضبي مولاهم،

مغیرہ امام، علامہ اور قابل اعتماد ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج6 ص10تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي ، ناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت ، الطبعة : التاسعة ، 1413هـ .

عجلی نے بھی لکھا ہے کہ:

مغيرة بن مقسم الضبي وكان ضرير البصر كوفى ثقة

أبي الحسن العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفى 261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج2 ص293، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.

ابن سعد نے بھی لکھا ہے کہ:

مغيرة بن مقسم الضبي مولى لهم ويكنى أبا هشام وكان مكفوفا توفي سنة ست وثلاثين ومائة وكان ثقة كثير الحديث،

مغیرہ ثقہ ہے اور اس سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں۔

الزهري، محمد بن سعد بن منيع ابوعبدالله البصري (متوفى230هـ)، الطبقات الكبرى، ج6 ص337 ناشر: دار صادر - بيروت.

لھذا اس معتبر کی روشنی میں معاویہ کہ جو اہل بیت کا بہت سخت دشمن ہے، وہ اعتراف کر رہا ہے کہ لوگوں پر حکومت اور خلافت کرنے کا حق فقط حضرت علی اکبر عليہ السلام کو حاصل ہے۔

زرکلی نے بھی معاویہ سے اسی بات کو نقل کیا ہے کہ بعد میں اسکی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

 

معاویہ کے فخر کرنے کا سبب اور حضرت علی اکبر(ع) کا قبیلہ بنی امیہ سے منسوب ہونا:

معاویہ کا حضرت علی اکبر (ع) کو بنی امیہ اور قبیلہ ثقیف سے منسوب کرنے کا سبب کیا ہے اور وہ کیوں ان حضرت پر فخر کیا کرتا تھا ؟؟؟

جواب یہ ہے کہ کیونکہ حضرت علی اکبر کی والدہ حضرت لیلی قبیلہ بنی ثقیف سے تھیں اور خود جناب لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابو سفیان کی بیٹی تھی، اسی وجہ سے معاویہ حضرت علی اکبر کو اپنے اور ثقیف کے قبیلے کی طرف منسوب کیا کرتا تھا اور اسی وجہ سے ان حضرت کی بلند شخصیت کی وجہ سے معاویہ دوسروں پر فخر کیا کرتا تھا۔

       ابو الفرج اصفہانی نے ان حضرت کی والدہ کے نسب کے بارے لکھا ہے کہ:

وأمه ليلى بنت أبي مرة بن عروة بن مسعود الثقفي، وأمها ميمونة بنت أبي سفيان بن حرب بن أمية وتكنى أم شيبة،

علی اکبر کی والدہ لیلی بنت ابی مره بن عروه بن مسعود ثقفی ہے اور لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابو سفیان ہے کہ اسکی کنیت ام شیبہ تھی۔

الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفى356هـ) ، مقاتل الطالبيين ، ج 1 ص 21 طبق برنامه الجامع الكبير

ایک دوسری جگہ پر ایسے نقل ہوا ہے کہ:

وولد الحسين بن علي بن أبي طالب : علياً الأكبر قتل بالطف مع أبيه ، وأمه : آمنة أو ليلى بنت أبي مرة بن عروة بن مسعود بن معتب بن مالك بن معتب بن عمرو بن سعد بن قسي ، وأمها : ميمونة بنت أبي سفيان بن حرب بن أمية

الزبيري، ابوعبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفى 236هـ)، نسب قريش، ج 2   ص 57،تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة، ناشر:دار المعارف.

لیکن اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ اگرچہ معاویہ ایک ماں کے اپنے قبیلے سے ہونے کی وجہ سے ایسی شخصیت کے وجود پر فخر کیا کرتا تھا لیکن اس طرف سے حضرت علی اکبر (ع) خود کو ہمیشہ رسول خدا سے نسبت دیا کرتے تھے اور رسول خدا کے اہل بیت کر فقط حق پر کہا کرتے تھے اور قبیلہ بنی امیہ کہ جس نے امام حسین (ع) سے جنگ کی اور ہاتھوں میں تلواریں لے کر ان کے مقابلے پر کھڑے ہوئے تھے، سے ہمیشہ اظہار نفرت کیا کرتے تھے۔

زبیری نے اسی بارے میں اپنی کتاب نسب قریش میں لکھا ہے کہ:

 وكان رجل من أهل العراق دعا علي بن الحسين الأكبر إلى الأمان ، وقال له : ' إن لك قرابة بأمير المؤمنين يعني يزيد بن معاوية ؛ ونريد أن يرى هذا الرحم فإن شئت ، أمناك  فقال علي :  لقرابة رسول الله - لم - أحق أن ترعى  ثم شد عليه، وهو يقول أنا علي بن حسين بن علي . . .

       أنا ، و بيت الله أولى بالنبي

 من شمر وشبت وابن الدعي

روز عاشورا اہل عراق میں سے ایک شخص نے بلند آواز سے حضرت علی اکبر سے کہا: نسب کی وجہ سے تمہاری امیر المؤمنین یزید سے رشتے داری ہے اور ہم انکے رشتے داروں کا خاص خیال رکھتے ہیں، اگر تم بھی چاہو تو ہم تم کو امان دیتے ہیں ؟

اس پر ان حضرت نے جواب دیا: رسول خدا کے رشتے داروں کا خیال رکھنا زیادہ مناسب ہے، آپ نے اتنی بات کر کے اس پر حملہ کیا اور ساتھ آپ سے رجز بھی پڑھ رہے تھے کہ: میں علی، حسین ابن علی ہوں، خداوند کے گھر کعبے کی قسم، ہم شمر و شبث اور اس حرامزادے ( ابن زیاد ) کی نسبت رسول خدا کے زیادہ نزدیکی ہیں۔

      الزبيري، ابوعبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفى 236هـ)، نسب قريش، ج 2   ص 57،تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة، ناشر:دار المعارف.

ابو الفرج اور شیعہ و اہل سنت کے دوسرے علماء نے حضرت علی اکبر کے کلام کو مکمل طور پر ایسے نقل کیا ہے کہ:

أنا علي بن الحسين بن علي

 نحن و بيت الله أولى بالنبي

من شبث ذاك ومن شمر الدني

 أضربكم بالسيف حتى يلتوي

ضرب غلام هاشمي علوي

 ولا أزال اليوم أحمي عن أبي

 والله لا يحكم فينا ابن الدعي،

میں علی ابن الحسین ہوں، خداوند کے گھر کعبے کی قسم، ہم شمر و شبث اور اس حرامزادے ( ابن زیاد ) کی نسبت رسول خدا کے زیادہ نزدیکی ہیں۔ اس قدر نیزے سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ ٹیڑا ہو جائے اور اس قدر تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ کند ہو جائے تا کہ اپنے بابا کا دفاع کر سکوں۔

ایسی تلوار چلاوں گا جیسی بنی ہاشم اور عرب کا جوان چلاتا ہے۔ خدا کی قسم اے ناپاک کے بیٹے تم ہم پر حکومت نہیں کر سکتے۔

       الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفى356هـ) ، مقاتل الطالبيين ، ج 1 ص 32 طبق برنامه الجامع الكبير

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفى310)، تاريخ الطبري، ج 3 ،ص 330 ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

شجاعت حضرت علی اكبر عليہ السلام

الف: معاويہ کا  حضرت علی اکبر(ع) کی شجاعت کا اعتراف کرنا:

جس طرح کہ ابو الفرج اصفہانی کی روایت میں نقل ہوا کہ معاویہ نے حضرت علی اکبر کے خلافت کے لیے قابل و اہل ہونے کا اعتراف کرنے کے بعد، اس نے انکی شجاعت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے:

         وفيه شجاعة بني هاشم،

علی اکبر میں بنی ہاشم کی شجاعت پائی جاتی ہے۔

الاصفهاني، أبو الفرج علي بن الحسين (متوفى356هـ)، مقاتل الطالبيين،  ج 1   ص 22 ، طبق برنامه الجامع الكبير

ب: کلام زرکلی در بارے شجاعت حضرت علی اکبر:

زرکلی اہل سنت کے بزرگ علماء میں سے ہے، اس نے حضرت علی اکبر (ع) کی شجاعت و عظمت کا ایسے اعتراف کیا ہے:

علي  الأكبر  بن الحسين بن علي بن أبي طالب، القرشي الهاشمي: من سادات الطالبيين وشجعانهم. قتل مع أبيه  الحسين  السبط الشهيد، في وقعة الطفّ (كربلاء) وكان أول من قتل بها من أهل الحسين، ....وذكره معاوية يوما فقال: فيه شجاعة بني هاشم، وسخاء بني أمية، وزهو ثقيف! وسماه المؤرخون عليا  الأكبر  تمييزا له عن أخيه عليّ الأصغر  زين العابدين، الآتية ترجمته،

وہ سادات طالبییون ( اولاد حضرت علی بن ابی طالب عليهما السلام)  اور انکے شجاعوں میں سے تھا کہ جو اپنے والد امام حسین کے ساتھ کربلا میں شہید ہوا اور امام حسین کے خاندان میں سے شہید ہونے والا پہلا بندہ تھا۔ معاویہ نے ایک دن انکے بارے میں کہا تھا کہ اس میں بنی ہاشم کی شجاعت، بنی امیہ کی سخاوت اور بنی ثقیف کا جمال پایا جاتا ہے کہ مؤرخین نے اس کا نام علی اکبر اس لیے بیان کیا ہے تا کہ اسکے بھائی، علی اصغر سے اسکا فرق واضح ہو سکے۔

        الزركلي ، خير الدين (متوفي 1410هـ)، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال والنساء من العرب والمستعربين والمستشرقين ج 4ص277  ناشر: دار العلم للملايين ـ بيروت، الطبعة: الخامسة، 1980م

مغيری نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

من بني هاشم الطالبيون، وهم بنو أبي طالب.

وہ ( علی اکبر ) بنی ہاشم میں سے ہے کہ جو طالبییون یعنی حضرت ابو طالب کی اولاد میں سے ہیں۔

المغيري، عبد الرحمن بن حمد بن زيد (متوفى : 1364هـ)، المنتخب في ذكر نسب قبائل العرب ج 1   ص 61 دار النشر : جامع الکبير

قلقشندی عالم اہل سنت نے بھی اس بارے میں لکھا ہے کہ:

      من بني هاشم: الطالبيون، وهم: بنو أبي طالب.

القلقشندي ، أبو العباس أحمد بن علي  (متوفى : 821هـ) قلائد الجمان في التعريف بقبائل عرب الزمان ، ، ج 1 ص 45821 ، دار النشر : جامع الکبير

ج: حضرت علی اکبر کی شجاعت سے شامیوں کا میدان جنگ میں چیخ و پکار کرنا:

حضرت علی اکبر (ع) کی شجاعت کے تعارف کے لیے یہی کافی ہے کہ میدان جنگ میں شامی یزیدی ان حضرت کی بہادری اور لگاتار حملوں سے چیخ و پکار کرتے تھے اور ادھر ادھر فرار کرتے تھے، لیکن بھاگنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔

         معروف مؤرخ ابن اعثم نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

ثم حمل رضي الله عنه ، فلم يزل يقاتل حتى ضج أهل الشام من يده ومن كثرة من قتل منهم،

..... پھر ان حضرت نے ان پر حملہ کیا اور ایسا حملہ تھا کہ شامیوں کے قتل ہونے والوں کا ڈھیر لگ گیا تھا اور وہ لوگ حضرت علی اکبر کے حملے کی وجہ سے چیخ و پکار کر رہے تھے۔

ابن اعثم، أحمد بن أعثم الكوفي (وفات : 314 )، الفتوح ج 5 ص115، تحقيق : علي شيري ( ماجستر في التاريخ الإسلامي )، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1411 : دار الأضواء، ناشر : دار الأضواء للطباعة والنشر والتوزيع

امام حسين(ع) اور معجزے سے علی اکبر کی خواہشات کو پورا کرنا:

طبری نے نقل کیا ہے کہ جب انگور کی فصل کا موسم نہیں تھا تو حضرت علی اکبر نے اپنے والد سے انگور کھانے کی خواہش کا اظہار کیا، امام حسین (ع) نے معجزہ امامت سے اپنے بیٹے کے لیے انگور کو حاضر کیا تھا:

شهدت الحسين بن علي (عليهما السلام) و قد اشتهى عليه ابنه علي الأكبر عنبا في غير أوانه، فضرب يده إلى سارية المسجد فأخرج‏ له‏ عنبا و موزا فأطعمه، و قال: ما عند الله لأوليائه أكثر،

علی اکبر عليه السلام نے اپنے والد محترم سے انگور مانگا۔ امام حسین نے اچانک اپنے ہاتھ کو مسجد کی دیوار پر مارا تو اس سے انگور اور کیلے نکل آئے، پھر انھوں نے اپنے بیٹے کو کھانے کے لیے دئیے اور فرمایا: خداوند کے نزدیک اپنے اولیاء کے لیے اس سے بھی بڑھ اور بہت کچھ ہے۔

طبرى آملى صغير، محمد بن جرير بن رستم، دلائل الإمامة (ط - الحديثة)، ص183، بعثت، ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1413ق.

امام حسین کی اپنے بیٹے علی اکبر سے شدید محبت:

شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں ذکر ہوا ہے کہ: جب امام حسین کو اپنے بیٹے علی اکبر کی شہادت کی خبر ملی تو وہ اپنے خیمے سے باہر آئے اور اپنے جوان بیٹے کی لاش پر پہنچے اور بارش کے قطروں کی طرح اشک بہا رہے تھے اور ساتھ فرما بھی رہے تھے کہ:

      فقال الحسين قتل الله قوما قتلوك يا بنى ما أجرأهم على الله وعلى انتهاك محارمه فعلى الدنيا بعدك العفاء،

خداوند اس قوم کو قتل کرے جہنوں نے تم کو شہید کیا ہے، ان بے حیا لوگوں کی خداوند پر جرات کتنی زیادہ ہو گئی ہے اور انھوں نے کیسے رسول خدا کے احترام کے پردے کو چاک کیا ہے، اسی طرح اشک بہاتے ہوئے فرمایا کہ: تیری شہادت کے اس دنیا کا کیا فائدہ ہے!

ابن كثير الدمشقي،  ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاى774هـ)، البداية والنهاية ج8 ،ص185، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

طبری نے اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھا ہے کہ:

حدثني سليمان بن أبي راشد عن حميد بن مسلم الأزدي قال سماع أذني يومئذ من الحسين يقول قتل الله قوما قتلوك يا بني ما أجرأهم على الرحمن وعلى انتهاك حرمة الرسول على الدنيا بعدك العفاء

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفاى310)، تاريخ الطبري، ج 3   ص 331، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

ابن جوزی نے بھی لکھا ہے کہ:

فقال الحسين قتل الله قوما قتلوك يا بني على الدنيا بعدك العفاء،

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفى 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم،  ج 5   ص 340 ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى،

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفى630هـ) الكامل في التاريخ ج3  ،ص429، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفى733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب ج20  ،ص285، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.

 کتب شیعہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ:

فقال قتل الله قوما قتلوك يا بني ما أجرأهم على الرحمن و و على انتهاك حرمة الرسول و انهملت عيناه بالدموع ثم قال على الدنيا بعدك‏ العفاء، 

امام حسین نے فرمایا: خداوند اس قوم کو قتل کرے جہنوں نے تم کو شہید کیا ہے، ان بے حیا لوگوں کی خداوند پر جرات کتنی زیادہ ہو گئی ہے اور انھوں نے کیسے رسول خدا کے احترام کے پردے کو چاک کیا ہے، اسی طرح اشک بہاتے ہوئے فرمایا کہ: تیری شہادت کے یہ دنیا میرے لیے تاریک ہو گئی ہے۔

 مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج‏2 ؛ ص106، كنگره شيخ مفيد - قم، چاپ: اول، 1413 ق.

ابن طاووس، على بن موسى - فهرى زنجانى، احمد، اللهوف على قتلى الطفوف / ترجمه فهرى ؛ النص ؛ ص114جهان - تهران، چاپ: اول، 1348ش.

امام حسین (ع) نے اپنے ان الفاظ سے اپنی شدید محبت کو اپنے بیٹے لیے بیان کیا ہے، یعنی حضرت علی اکبر (ع) کی شہادت امام حسین (ع) کے لیے اتنی سخت اور جانسوز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے بغیر اس دنیا کو تاریک کہہ رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی بیان کر رہے ہیں کہ حضرت علی اکبر کی حرمت و احترام، رسول خدا (ص) کی حرمت و احترام کی طرح ہے اور حضرت علی اکبر کی حرمت شکنی کرنے سے رسول خدا (ص) کی بھی حرمت شکستہ ہو گئی ہے۔

    نتيجہ:

حضرت علی اکبر (ع) کے فضائل و کرامات بہت زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر مقالے میں ذکر نہیں کیا جا سکتا، ہم نے اس تحریر میں ان حضرت کے بعض بلند مقامات کو ذکر کیا ہے تا کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ حضرت علی اکبر (ع) تمام مسلمانوں کے نزدیک اہل بیت میں سے ہیں اور قابل احترام ہیں۔

السَّلام عَلیکَ یا ابنَ رَسُولِ اللهِ وَ رَحمةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ وَ ابنُ خَلیفَةِ رَسُولِ اللهِ و ابن بِنتَ رَسُولِ اللهِ و السلام علیک یا علی ابن الحسین وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ مُضاعَفَةً کُلَّما طَلَعَتِ الشَّمسُ أَو غَرَبَت السَّلامُ عَلیکَ وَ رَحمةُ اللهِ وَ ...

التماس دعا.....

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات