2024 March 28
ولادت با سعادت امام علی النقی الہادی (ع)
مندرجات: ٩٩٠ تاریخ اشاعت: ٠٥ September ٢٠١٧ - ١٧:٥٧ مشاہدات: 4028
یاداشتیں » پبلک
جدید
ولادت با سعادت امام علی النقی الہادی (ع)

 

نام : علی بن محمد
نام پدر : محمد بن علی
نام مادر : بی بی سمانہ
تاریخ ولادت :15 ذیحجہ212 ہجری

طبرسی ، اعلام الوری ، الطبعة الثالثه ، دارالکتب الاسلامیه ، ص 355  شیخ مفید ، الارشاد ، قم ، مکتبه بصیرتی ، ص 327 

ایک اور روایت کے مطابق رجب 212 ھ کو واقع ہوئی ہے ۔ 
لقب : تقی ، ہادی
کنیت : ابو الحسن ثالث
مدت امامت : 33 سال
تاریخ شہادت : 3 رجب 254 ھ شہر سامرا

شبلنجی ، نور الابصار ، ص 166 ، قاہره ، مکتبتہ المشہد الحسینی 

امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی (ع) 15 ذوالحجہ سن 212 ہجری، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

ارشاد، مفید، بیروت، دار المفید، 211 من سلسلہ مؤلفات الشیخ المفید، ص297.

آپ (ع) کا نام "علی" رکھا گیا اور کنیت ابو الحسن،

مناقب آل ابی‏طالب، ابن شہر آشوب، انتشارات ذوی‏القربی، ج1، 1379، ج4، ص432.

اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب "النقی اور الہادی" ہیں۔

جلاء العیون، محمد باقر مجلسی، انتشارات علمیہ اسلامیہ، ص568.

اور آپ (ع) کو ابو الحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے۔

مناقب، ص432.

 جبکہ امیر المؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابو الحسن الاول اور ابو الحسن الثانی کہلاتے ہیں۔

 آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد ع اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام "سیدہ سمانہ المغربیہ" ہے۔

ارشاد شیخ مفید، ص432.

 امام ہادی علیہ السلام عباسی بادشاہ معتز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

شیخ مفید، ارشاد، ص327

آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کر دیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد (ع )کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا تھا۔

مناقب، ص433.

 اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔

مناقب، ص433.

امام علی النقی الہادی(ع) اپنی عمر کے آخری دس برسوں کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔

مناقب، ص433؛ ارشاد، ص297.

گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرة الخواص میں لکھا ہے کہ امام ع 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سن 254 ہجری کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔

الارشاد، ص297.

آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کیے گئے تھے۔

اعلام الوری، طبرسی، دارالمعرفہ، ص339.

امام ہادی (ع) اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوکل عباسی، منتصر عباسی، مستعین عباسی اور معتز عباسی۔

مناقب، ص433

ہم عصر خلفاء:

امام ہادی (ع) کے امامت کے دور میں چند عباسی خلفاء گزرے ہیں جن کے نام یہ ہیں :
1۔ معتصم ( مامون کا بھائی ) 217 سے 227 ھ تک 
2۔ واثق ( معتصم کا بیٹا ) 227 سے 232 ھ تک 
3۔ متوکل ( واثق کا بھائی ) 232 سے 248 ھ تک
4
۔ منتصر ( متوکل کا بیٹا ) 6 ماہ
5۔ مستعین ( منتصر کا چچا زاد ) 248 سے 252 ھ تک
6۔ معتز ( متوکل کا دوسرا بیٹا ) 252 سے 255 ھ تک
امام ہادی (ع) آخری خلیفہ کے ہاتھوں شہید ہوئے اور اپنے گھر میں ہی مدفون ہیں۔

امام علی نقی (ع) کی سال ولادت212 ھ اور شہادت 254 ہجری میں واقع ہونے کے بارے اتفاق ہے لیکن آپ کی تاریخ ولادت و شہادت میں اختلاف ہے ۔ ولادت کو بعض مورخین نے 15 ذی الحجہ اور بعض نے دوم یا پنجم رجب بتائی ہے اسی طرح شہادت کو بعض تیسری رجب مانتے ہیں لیکن شیخ کلینی اور مسعودی نے ستائیس جمادی الثانی بیان کی ہے۔

وقایع الایام، ص282

البتہ رجب میں امام ہادی ع کی پیدایش کی ایک قوی احتمال وہ دعائے مقدسہ ناحیہ کا جملہ ہے، جس میں امام (ع) فرماتے ہیں: 

اللھم انی اسئلک بالمولودین فی رجب ، محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد ،

آپ کا نام گرامی علی اور لقب ،ہادی، نقی، نجیب ، مرتضی ، ناصح، عالم ، امین ، مؤتمن ، منتجب ، اور طیب ہیں، البتہ ہادی اور نقی معروف ترین القاب میں سے ہیں، آنحضرت کی کنیت " ابو الحسن " ہے اور یہ کنیت چہار اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب ، امام موسی ابن جعفر ، امام رضا (ع) کیلئے استعمال ہوا ہے ، فقط (ابو الحسن) صرف امام علی ابن ابی طالب (ع) کے لیے اور امام موسی بن جعفر (ع) کو ابو الحسن اول ،امام رضا (ع) کو ابو الحسن الثانی، اور امام علی النقی (ع) کو ابو الحسن الثالث کہا جاتا ہے۔

امام علی النقی الہادی (ع) کی ولادت مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں بنام " صریا " میں ہوئی، جسے امام موسی کاظم (ع) نے آباد کیا اور کئ سالوں تک آپ کی اولاد کا وطن رہا تھا۔ حضرت امام علی النقی (ع) جو کہ ہادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3 رجب اور دوسری قول کے مطابق 25 جمادی الثانی کو سامرا میں شہید کیے گئے، حضرت امام علی النقی (ع) کا دور امامت، عباسی خلفاء معتصم ، واثق، متوکل ، منتصر ، مستعین ، اور معتز کے ہمعصر تھے۔ حضرت امام علی النقی (ع) کے ساتھ عباسی خلفا کا سلوک مختلف تھا، بعض نے امام کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا ، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ہم عقیدہ تھے، جن میں سے متوکل عباسی اہل بیت کی نسبت دشمنی رکھنے میں زیادہ مشہور تھا اور اس نے خاندان رسالت کو آزار و اذیت پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی ، یہاں تک کہ اماموں کی قبروں کو مسمار کیا ، خاص طور پر قبر مطہر سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو مسمار کر کے اور وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔ متوکل نے حضرت امام نقی (ع) کو سن 243 ہجری میں مدینہ منورہ سے سامرا بلایا ۔ عباسی خلفا میں سے صرف منتصر باللہ نے اپنے مختصر دور خلافت میں خاندان امامت و رسالت کے ساتھ قدرے نیک سلوک کیا۔ حضرت امام علی النقی (ع) کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 سال ایک فوجی چھاونی میں قید رکھا ، اس دوران مکمل طور پر لوگوں کو اپنے امام کے ملاقات سے محروم رکھا گیا۔ آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن 254 ہجری کو معتز عباسی خلیفہ نے اپنے بھائی معتمد عباسی کے ہاتھوں زہر دے کر آپ کو شہید کر دیا۔

امام ہادی (ع) کے دور میں سیاسی اور اجتماعی حالات:

عباسی خلافت کا دور چند خصوصیات کی بناء پر دوسرے ادوار سے مختلف تھا، لہذا بطور اختصار ان خصوصیات کو بیان کیا جا رہا ہے:

1۔ خلافت کی عظمت اور اس کا زوال :

 خواہ اموی خلافت کا دور ہو یا عباسی کا ، خلافت ایک عظمت و حیثیت رکھتی تھی لیکن اس دور میں ترک اور غلاموں کے تسلط کی وجہ سے خلافت گیند کی مانند بن گئی تھی، جس طرف چاہتے تھے ، گما کر پھینک دیتے تھے۔

2۔ درباریوں کا خوش گذرانی اور ہوسرانی کرنا :

 عباسی خلفاء نے اپنے دور کے اس خلافت میں خوش گذرانی و شرابخواری و ... کے فساد و گناہ میں غرق تھے جس کو تاریخ نے اپنے سینے میں ثبت و ضبط کیا ہے۔

3۔ ظلم و بربریت کی بے انتہا :

 عباسی خلفاء کے مظالم سے تاریخ بھری پڑی ہے، جسے قلم لکھنے سے قاصر ہے۔

4۔ علوی تحریکوں کا وسعت اختیار کرنا :

 اس عصر میں عباسی حکومت کی یہ کوشش رہی کہ جامعہ میں علویوں سے نفرت پیدا کی جائے اور مختصر بہانے پر ان کو بے رحمانہ طور پر قتل کیا جاتا تھا کیونکہ علوی تحریک کو عباسی حکومت ہمیشہ اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی تھی۔

اسی لیے اس سلسلے کی ایک کڑی یعنی امام ہادی (ع) کو حکومت وقت نے مدینے سے سامرا بلایا اور فوجی چھاونی میں بہت سخت حفاظتی انتظام کے ساتھ گیارہ سال قید و بند میں رکھا تھا۔

عباسی خلفاء کا سیاہ ترین دور اور امام ہادی (ع) کا موقف:

عباسی خلفاء میں سے خصوصا خلیفہ متوکل سب سے زیادہ علویوں اور شیعوں کے ساتھ عجیب دشمنی رکھتا تھا ، اس لیے یہ دور تاریخ کا سب سے زیادہ سخت ترین اور سیاہ ترین دور کہا جاتا ہے لہذا امام ہادی (ع) اس خلیفہ کے زمانے میں اپنے ماننے والوں کیلئے بہت ہی احتیاط کے ساتھ ان سے رابطہ کرتے اور پیغام دیتے تھے، چونکہ امام (ع) پر سخت پہرا تھا۔ اسی وجہ سے امام (ع) نے وکالت اور نمایندگی کے طریقے کو اپنایا ہوا تھا۔

امام ہادی (ع) اور کلامی مذاہب:

امام ہادی (ع) کے اس سخت ترین دور کے میں دیگر مکاتب اور مذاہب کے ماننے والے اپنے عروج پر تھے اور باطل عقائد اور نظریات مثلا جبر و تفویض ، خلق قرآن وغیرہ جامعہ اسلامی اور شیعوں کے محافل میں نفوذ کر کے امام (ع) کی ہدایت و رہبری کی ضرورت کو دو چندان کر دیا تھا اور بہت سے مناظرے ان موضوعات پر روشن گواہ ہیں۔

امام ہادی (ع) کی تعلیمات میں غور وفکر:

امام ہادی (ع) نے شیعوں کی امامت کو اس وقت قبول کیا کہ جس وقت حکومت کی طرف سے شیعوں پر دباؤ اور پریشانیاں حد سے زیادہ تھیں۔

دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1 ، ص104

اسی طرح ثقافتی اور تبلیغی کام انجام دینے میں آپ آزاد نہیں تھے، لیکن آپ نے اسی ماحول میں اعتقادی اعتراض کے جوابات بھی دئیے ، حدیثی اور فقہی میدان میں کام انجام دیا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت فرمائی ، فقہی مشکلات کا حل اور سوالات کے جوابات آپ کے علم و دانش پر بہترین گواہ ہیں۔

عیسائی زنا کار جو کہ حد جاری ہونے سے پہلے مسلمان ہو گیا تھا ، کے متعلق امام ہادی (ع) کا فقہی فتوی اور یحیی بن اکثم اور دوسرے درباری فقہاء کے نظریات کی مخالفت میں امام ہادی (ع) کا فتوی بہت اہم ہے۔

 وسائل الشیعہ، ج18 ص408 ، ابواب حد الزنا، باب 36) ۔

اسی طرح متوکل کی نذر اور اس کو انجام دینے میں اختلافات اور پھر امام ہادی (ع) کا مشکل کو حل کرنا ایک دوسری مثال ہے۔

   تذکرة الخواص ، ص360

  دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1 ، ص104

لہذا امام ہادی (ع) کے برجستہ شاگردوں میں ایوب بن نوح، عثمان بن سعید اہوازی اور عبد العظیم حسنی، کا نام لیا جا سکتا ہے ، ان میں سے بعض اصحاب کی علمی اور فقہی کتابیں بھی موجود ہیں۔

دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1، ص107

امام ہادی(ع) کا منحرف عقائد کے خلاف  علمی جہاد کرنا:

معاشرے کے ہادی و راہنما:

چونکہ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری آئمہ طاہرین (ع) پر عائد کی گئی ہے چنانچہ آئمہ نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبہائی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ آئمہ کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی (ع) کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں کہ جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کیے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خداوند سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سر زد ہو جائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جا سکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذ اللہ خدا کے ہاتھ باندھ لیے ہیں۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی (ع) کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام (ع) نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔

جبر و تفویض:

علم عقائد میں افراط و تفریط کے نام پر دو عقائد "جبر و تفویض" مشہور ہیں کہ جو حقیقت میں باطل عقائد ہیں۔

شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (ج 1 ص 114) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا کہ:

برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں "مرو" میں امام رضا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق (ع) سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟

امام رضا (ع) نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کیا ہے وہ در حقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کیے ہیں اور ہم مجبور ہیں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق ٹہرائے گا"، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے، جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔

راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟

فرمایا: یابن رسول اللہ (ص)! "امرٌ بین الامرین" سے کیا مراد ہے؟

فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یھی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔

میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ خداوند کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی محرمات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟

فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ خداوند نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا نے ہی ان کا حکم دیا ہے اور ان سے راضی اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں خداوند کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہو جاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔

جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی (ع):

شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دار الحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی (ع) کے نام ایک خط میں اپنے لیے در پیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔

امام ہادی (ع) نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔

امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کیے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت) سے تمسک ہے جس کو امام (ع) نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اور اس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کر کے حضرت امیر المؤمنین (ع) کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔

تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، صص339 ـ 338

شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ "اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے ؟"، چنانچہ امام (ع) وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کیے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔

تحف العقول ، ص340.

شاید امام ہادی (ع) نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم (ص) کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔

امام ہادی (ع) اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق (ع) کے قول شریف:

 " لا جَبْرَ وَ لا تَفْویضَ و لكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن "

انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔

تحف العقول.

 کا حوالہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:

"اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هلْ اَجْبَرَ اللّه الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی؟ فَقالَ الصّادِقُ علیه‏السلام هوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقیلَ لَهُ: فَهلْ فَوَّضَ اِلَيْهمْ؟ فَقالَ علیھ‏السلام : هوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهمْ مِنْ ذلِكَ"؛

امام صادق (ع) سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟

امام (ع) نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔

تحف العقول.

پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پر چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟

فرمایا: خداوند اس سے کہیں زیادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔

امام ہادی (ع) مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق (ع) نے فرمایا:

"النّاسُ فِی القَدَرِ عَلی ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهنَ اللّه‏َ فی سُلْطانِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وَكَلَّفَهمْ ما لا يُطیقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّه‏ فی حُكْمِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه‏ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطیقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطیقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّه‏ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّه؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ"۔

لوگ "قَدَر" پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں:

1- کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کیے گئے ہیں، ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچار ہو گیا ہے۔

2- کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔

3- تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پا چکے ہیں۔

تحف العقول ص 371.

اس کے بعد امام ہادی (ع) مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہیں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔

فرماتے ہیں کہ:

"اَمّا الْجَبْرُ الَّذی يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏ جَلَّ وَ عَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی و عاقَبَهُمْ عَلَيْها وَ مَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّه فی حُكْمِهِ وَ كَذَّبَهُ وَ رَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ:

 «وَ لا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا»    

سورہ کھف آیت 49

وَ قَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَ اَنَّ اللّه لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبید"۔ 

سورہ حج آیت 10

تحف العقول ص 461.

ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہو گا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تیرا پرورد‏گار کسی پر بھی ظلم نھیں کرتا"، نیز فرماتا ہے: "یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہاتھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

امام (ع) تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

"وَ اَمَّا التَّفْویضُ الَّذی اَبْطَلَهُ الصّادِقُ علیه ‏السلام وَ اَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَ تَقَلَّدَه فَهوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّه جَلَّ ذِكْرُه فَوَّضَ إِلَی الْعِبادِ اخْتِیارَ أَمْرِه وَ نَهْيِهِ وَ أَهمَلَهمْ"؛

ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق (ع) نے باطل کر دیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

تحف العقول ص 463.

فرماتے ہیں کہ:

"فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّه‏ تَعالی فَوَّضَ اَمْرَه وَ نَهيَهُ إلی عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَ أَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَ شَرٍّ وَ أَبْطَلَ أَمْرَ اللّه‏ وَ نَهْيَهُ وَ وَعْدَه وَ وَعیدَه، لِعِلَّةِ ما زَعَمَ اَنَّ اللّه‏ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشیئَتِه، فَاِنْ شاءَ الْکفْرَ أَوِ الاْیمانَ کانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَ لاَ مَحْظُورٍ۔۔۔"

ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انھوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلا کر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کا وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کیے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کیے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئی رد ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی رکاوٹ ہے۔

تحف العقول ص 464.

امام ہادی (ع) یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو "امرٌ بین الأمرین" سے عبارت ہے، فرماتے ہیں کہ:

"لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّه‏ جَلَّ وَ عَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِه و مَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهمْ بِها، فَاَمَرَهمْ وَ نَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِه وَ رَضِىَ بِذلِكَ لَهمْ، وَ نَهاهمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَ ذَمّ مَنْ عَصاه وَ عاقَبَهُ عَلَيْها"؛

ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔

تحف العقول ص 465۔

امام علی النقی الہادی (ع) اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ:

ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جا سکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہیں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ (ص) پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لیے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو ان ہی مقاصد کے لیے وضع کی گئی ہیں۔

لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہیں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیر المؤمنین (ع) کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو آئمہ اہل بیت (ع) کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف میں مبتلا تھے۔

غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین (ع) کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر کے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو آئمہ معصومین کو معاذ اللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی (ع) کے زمانے میں نئی نہیں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔

غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آ رہے ہیں۔ حتی کہ امام سجاد (ع) کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کے لیے اعتقادی مسائل پیدا کر رہے تھے۔

نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے:

 امام علی بن الحسین زین العابدین (ع) غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں کہ:

"إنَّ قَوْما مِنْ شیعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّی يَقُولُوا فینا ما قالَتِ الْيَهودُ فی عُزَيْرٍ وَ قالَتِ النَّصاری فی عیسَی ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا همْ مِنّا وَ لا نَحْنُ مِنْهمْ"۔

ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظہار کریں گے جس طرح کہ یہودی عزیر (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔

اختیار معرفة الرجال، طوسی، تصحیح و تعلیق حسن مصطفوی، ص102

امام سجاد (ع) کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ (ع) اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہیں کرنے دیتے تھے۔

امام سجاد (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ:

"أَحِبُّونا حُبَّ الاْسْلامِ فَوَ اللّه‏ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّی بَغَّضْتُمُونا إلَی النّاسِ"۔

ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔

الطبقات الکبری، ابن سعد، دار صادر، ج5، ص214.

 امام سجاد (ع) سے تاریخ دمشق میں بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے جو کچھ یوں ہے کہ:

 أحبونا حب الإسلام و لا تحبونا حب الأصنام ! فما زال بنا حبکم حتی صار علینا شیناً )!

 ترجمہ: ہم سے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی بنیاد پر محبت کرو اور ہم سے بت پرستوں کی مانند محبت نہ کرو کیونکہ تمہاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ہمارے لیے شرم کا باعث ہو گئی۔ [یہاں بھی غلو اور محبت میں حد سے تجاوز کرنے کی مذمت مقصود ہے]۔

تاریخ دمشق:ج41ص392

یہاں اس بات کی یاد آوری کرانا ضروری ہے کہ غلو آمیز تفکر مختلف صورتوں میں نمودار ہو سکتا ہے۔ مرحوم مجلسی بحار الانوار میں لکھتے ہیں: "نبی (ص) اور آئمہ طاہرین (ع) کے بارے میں غلو کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص:

٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام آئمہ (ع) کی الوہیت [اور ربوبیت] کا قائل ہو جائے۔

٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام آئمہ (ع) کو اللہ کا شریک قرار دے، کہ مثلاً ان کی عبادت کی جائے یا روزی رسانی میں انہیں اللہ کا شریک قرا دے یا کہا جائے کہ خداوند متعال آئمہ رسول اللہ (ص) یا آئمہ کی ذات میں حلول کر گیا ہے، یا وہ شخص:

٭ اس بات کا قائل ہو جائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی وحی یا الھام کے بغیر ہی علم غیب کے حامل ہیں،

٭ یا یہ کہ دعوی کیا جائے کہ آئمہ وہی انبیاء ہی ہیں ؟

٭ یا کہا جائے کہ بعض آئمہ کی روح بعض دوسرے آئمہ میں حلول کر چکی ہے۔

٭ یا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور آئمہ (ع) کی معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کی عبادت اور بندگی سے بے نیاز کر دیتی ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئی عمل واجب نہ ہو گا اور نہ ہی محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

بحار الانوار، ج25، ص346

جیسا کہ آپ نے دیکھا ان امور میں سے کسی ایک کا قائل ہونا غلو کے زمرے میں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہو جائے اس کو غالی بھی کہتے ہیں اور بعض لوگ انھیں نصیری بھی کہتے ہیں۔

علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ جو غلو کی ان قسموں میں کسی ایک کا قائل ہو گا وہ کافر اور ملحد ہے اور دین سے خارج ہو چکا ہے۔ جیسا کہ عقلی دلائل، آیات مذکورہ روایات وغیرہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔

بحار الانوار، ج25، ص346

امام علی النقی الہادی (ع) کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کر رہے تھے چنانچہ امام (ع) نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس منحرف غالی گروہ کے سرغنے: علی بن حسکہ قمی، قاسم یقطینی، حسن بن محمد بن بابای قمی، محمد بن نُصیر فہری اور فارِس بن حاکم تھے۔

پیشوایی، سیرہ پیشوایان، ص603.

احمد بن محمد بن عیسی اور ابراہیم بن شیبہ، امام ہادی (ع) کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غالیوں علی بن حسکہ اور قاسم یقطینی کی شکایت کرتے ہیں اور امام (ع) واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ:

"لَيْسَ هذا دینُنا فَاعْتَزِلْهُ"

ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔

اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، صص518 ـ 516.

اور ایک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق (ع) کی مانند غالیوں پر لعنت بھیجی ہے:

محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی (ع) نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لیے لکھا ہے کہ:

"لَعَنَ اللّه الْقاسِمَ الْيَقْطینی وَ لَعَنَ اللّه‏ عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائی لِلْقاسِمِ فَيُوحی اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا"

ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔

رجال کشی ، ص518

نصر بن صبّاح کہتے ہیں کہ: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمی، محمد بن نصیر نمیری اور فارس بن حاتم قزوینی پر امام حسن عسکری (ع) نے لعنت بھیجی ہے۔

رجال کشی ، ص520.

ہم تک پہنچنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادی (ع) کی جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہیں بڑھ کر تھی اور آپ (ع) نے بعض غالیوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا ہے۔

محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ:

"إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِی علیه السلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوینىّ وَ ضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ"

ترجمہ: امام ہادی ع نے فارس بن حاتم قزوینی کے قتل کا حکم دیا اور اس شخص کے لیے جنت کی ضمانت دی جو اس کے قتل کرے گا چنانچہ جنید نامی شخص نے اس کو ہلاک کر دیا۔

رجال کشی ، ص524.

 خداوند کی عظمت و معرفت:

"إلهی تاهتْ اَوْهامُ الْمُتَوَهمینَ وَ قَصُرَ طُرَفُ الطّارِفینَ وَ تَلاشَتْ اَوْصافُ الْواصِفینَ وَاضْمَحَلَّتْ اَقاویلُ الْمُبْطِلینَ عَنِ الدَّرَكِ لِعَجیبِ شَأْنِكَ أَوِ الْوُقُوعِ بِالْبُلُوغِ اِلی عُلُوِّكَ، فَاَنْتَ فىِ الْمَکانِ الَّذی لا يَتَناهی وَ لَمْ تَقَعْ عَلَيْكَ عُيُونٌ بِاِشارَةٍ وَ لا عِبارَةٍ هيْهاتَ ثُمَّ هَيْهاتَ یا اَوَّلىُّ، یا وَحدانىُّ، یا فَرْدانِىُّ، شَمَخْتَ فِی الْعُلُوِّ بِعِزِّ الْكِبْرِ، وَ ارْتَفَعْتَ مِنْ وَراءِ كُلِّ غَوْرَةٍ وَ نَهايَةٍ بِجَبَرُوتِ الْفَخْرِ"؛

ترجمہ: پروردگارا ! توہم کا شکار لوگوں کے گماں بھٹک گئے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظروں کا عروج [تیرے اوصاف] تک نہیں پہنچ سکا ہے، اور توصیف کرنے والوں کی زبان عاجز ہو چکی ہے اور مبطلین [حق کو باطل کرنے کے لیے کوشاں لوگوں] کے دعوے نیست و نابود ہو گئے ہیں کیونکہ تیرا جاہ و جلال اور تیری شان و شوکت اس سے کہیں بالا تر ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور کر سکے۔

التوحید ، ص66، ح19.

تو جہاں ہے اس کی کوئی انتھا نہیں ہے اور کوئی آنکھ تیری طرف اشارہ نہیں کر سکتی اور تجھ کو نہیں پا سکتی اور کسی عبارت میں تیری توصیف کی اہلیت و توانائی نہیں ہے، کس قدر بعید ہے کس قدر بعید ہے [حواس انسانی کے ذریعے تیرا ادراک] اے پورے عالم وجود کا سر چشمہ ! ای واحد و یکتا ! تو اپنی عزت اور کبریائی کے لباس میں ہر قوت سے بالا تر اور ماوراء تر ہے اور ہر متفکر و مفکر کی زد سے برتر و بالاتر ہے۔

ترجمہ از کتاب زندگانی امام علی الھادی ع ، باقر شریف قرشی، دفتر انتشارات اسلامی، ص112۔

آئمہ علیہم السلام کی اطاعت اور رسول (ص) کی اطاعت میں یکسانیت:

اللہ تعالی نے آئمہ علیہم السلام کی اطاعت کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی اطاعت قرا دیا اور فرمایا :

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آَمَنُوا أَطِیعُوا اللهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ،

اے ایمان والو : اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ص) کی اطاعت کرو او ر اولوالامر کی اطاعت کرو۔

سوره نساء، آیه 59.

دنیائے اسلام کے مشہور مفسر قرآن ابو حیان اندلسی نے اپنی تفسیر بحر المحیط میں لکھا ہے کہ :

یہ آیت حضرت علی اور آئمہ اہلبیت علیہم السلام  کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

تفسیر بحر المحیط، ج 3، ص 278.

کلام امام ہادی علیہ السلام:

عن الهادی (ع) قال: «إن لله بقاعاً یحب أن یدعی فیها فیستجیب لمن دعاه، و الحائر منها،

ترجمہ :حضرت امام علی نقی الہادی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا کے لیے کچھ خاص مقامات ہیں کہ جہاں پر وہ چاہتا ہے کہ اسے پکارا جائے اور پکارنے والوں کی دعا وہاں مستجاب ہو اور امام حسین علیہ السلام کا روضہ اقدس ان میں سے ایک ہے ۔

عوام میں امام نقی علیہ السلام کی مقبولیت و محبوبیت:

عراق ، ایران اور مصر کے  شیعہ نشین علاقوں کے کئی لوگ گروہوں کی صورت میں مدینہ امام علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوتے اور آپ کے وجود سے فیضیاب ہوتے تھے۔

آئمتنا، ج 2، ص 257.

امام کی ان شہروں میں مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عباسی حکمران  آپ کی اس شہرت کو دیکھ کر خطرہ محسوس کرنے لگے تھے۔

بریحہ عباسی نے ایک خط متوکل عباسی کو لکھا جس میں اس طرح بیا ن کیا ہے کہ :

اگر تم حرمین شریفین  پر اپنا تسلط اور قبضہ چاہتے ہو تو علی بن محمد ( علیہما السلام ) کو ان شہروں سے باہر نکالو کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے ان کی دعوت پر لبیک  کہہ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔

بحار الانوار، ج 50، ص 209.

اہلبیت  (ع) کا تمام امتوں پر گواہ ہونا:

وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذی مَنَّ عَلَیْنا بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّهِ (صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ الِهِ) دُونَ الْاُمَمِ الْماضِیَةِ، وَالْقُرُونِ السَّالِفَةِ، بِقُدْرَتِهِ الَّتی لاتَعْجِزُ عَنْ شَی‏ءٍ وَ اِنْ عَظُمَ، وَ لایَفُوتُها شَی‏ءٌ وَ اِنْ لَطُفَ، فَخَتَمَ بِنا عَلی‏ جَمیعِ مَنْ ذَرَأَ، وَ جَعَلَنا شُهَدآءَ عَلی‏ مَنْ  جَحَدَ، وَ کَثَّرَنا بِمَنِّهِ عَلی‏ مَنْ قَلَّ ،

ترجمہ : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے اپنے پیغمبر محمد (ص) کی بعثت سے ہم پر وہ احسان فرمایا جو نہ گذشتہ امتوں پر کیا اور نہ پہلے لوگوں پر اپنی قدرت کی کار فرمائی سے جو کسی شے سے عاجز و درماندہ نہیں ہوتی اگرچہ وہ کتنی ہی بڑی ہو اور کوئی چیز اس کے قبضہ سے نکلنے نہیں پاتی اگرچہ وہ کتنی ہی لطیف و نازک ہو ا س نے اپنے مخلوقات میں ہمیں آخری امت قرار دیا اور انکار کرنے والوں پر گواہ بنایا ، اور اپنے لطف و کرم سے کم تعداد والوں کے مقابلہ میں ہمیں کثرت دی ہے۔

صحیفہ سجادیہ  ، دعای دوم ، ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین،

امام ہادی علیہ السلام کی عجیب کرامت اور تدبیر:

محمد بن طلحہ نے کہا ہے کہ:

ایک دن حضرت امام ہادی علیہ السلام ایک اہم کام کے لیے سامرا سے ایک گاؤں میں گئے ، ایک عرب شخص آپ کے دروازہ پر آیا جو آپ سے ملنا چاہتا تھا ، اس سے کہا گیا : کہ فلاں جگہ گئے ہیں ، چنانچہ وہ شخص وہاں پہنچ گیا ۔

جب حضرت امام ہادی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے اس سے فرمایا : تمہاری حاجت کیا ہے : اس نے کہا : میں کوفہ کا رہنے والا ایک عربی شخص ہوں اور آپ کے جد علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت سے متمسک ہوں ، مجھ پر بہت زیادہ قرض ہے کہ جس کو میں برداشت نہیں کر سکتا ، آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں پاتا کہ وہ میرے قرض کو ادا کر دے ۔

حضرت امام ہادی علیہ السلام نے فرمایا : خوش و خرم رہو ، اس کے بعد اس کو سواری سے اتارا اور اپنا مہمان بنا لیا ، جب صبح ہوئی تو امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا : تم سے ایک درخواست ہے اور ہرگز اس کی مخالفت نہ کرنا ! اس عرب نے کہا : میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا ۔

امام علیہ السلام نے ایک کاغذ پر اپنے قلم سے لکھا اور اقرار کیا کہ اس عرب کا مجھ پر قرض ہے لیکن اس کی مقدار اس عرب کے قرض سے زیادہ تھی، اس کے بعد فرمایا :

یہ تحریر لے لو ، جب سامرا پہنچو تو میرے پاس آنا ، وہاں چند لوگ میرے پاس بیٹھے ہونگے ، اس تحریر کے ساتھ مجھ سے سختی سے اپنے پیسوں کا مطالبہ کرنا ، خدارا ہرگز میری مخالفت نہ کرنا ، چنانچہ اس عرب نے وہ تحریر لے کر کہا کہ : میں اسی طرح انجام دوں گا ۔

جب حضرت امام ہادی علیہ السلام سامرا پہنچ گئے، آپ کے پاس خلیفہ کے بعد سے دوست اور ان کے علاوہ دوسرے افراد بیٹھے ہوئے تھے کہ عرب وارد ہوا اور اس نے وہ تحریر دکھائی اور مال کا مطالبہ کیا اور جس طرح امام علیہ السلام نے تاکید فرمائی تھی گفتگو کی ۔

امام علیہ السلام نے نرمی کے ساتھ اس سے گفتگو کی اور اس کے ساتھ مہربانی کی اور اس سے معذرت چاہی اور ان کے قرض کو ادا کرنے اور اس کو خوش کرنے کا وعدہ کیا ۔

امام علیہ السلام اور اس عرب کے اس واقعہ کی خبر متوکل تک پہنچی ، متوکل نے حکم دیا کہ تیس ہزار درہم حضرت امام ہادی علیہ السلام کے لیے لے جاؤ اور جب وہ درہم آپ (ع) کی خدمت میں پہنچائے گئے امام (ع) نے ان کو ہاتھ نہیں لگایا یہاں تک کہ عرب آ گیا ، امام (ع) نے اس سے فرمایا :

یہ مال لے جاؤ اور اپنا قرض ادا کرو اور باقی کو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو اور ہمارے عذر کو بھی قبول کرو۔

اس عربی نے کہا : یا بن رسول اللہ ! خدا کی قسم ، میری امید تو اس مال کا ایک تہائی حصہ تھی لیکن خدا جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کس جگہ قرار دے ، چنانچہ اس نے مال لیا اور حضرت امام ہادی علیہ السلام کی خدمت سے رخصت ہو گیا ۔

امام علی النقی علیہ السلام کی چالیس حدیثیں:

1. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): مَنِ اتَّقىَ اللهَ يُتَّقى، وَمَنْ أطاعَ اللّهَ يُطاعُ، وَ مَنْ أطاعَ الْخالِقَ لَمْ يُبالِ سَخَطَ الْمَخْلُوقينَ، وَمَنْ أسْخَطَ الْخالِقَ فَقَمِنٌ أنْ يَحِلَّ بِهِ سَخَطُ الْمَخْلُوقينَ . 1

1. امام علی النقی (ع): جو خداوند سے ڈرے گا لوگ اس سے ڈریں گے اور جو اللہ کی اطاعت کرے گا، اس کی اطاعت کی جائے گی، اور جو خالق کی اطاعت کرے گا، اسے مخلوقین کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور جو خالق کو ناراض کرے گا، وہ مخلوقین کی ناراضگی سے بھی روبرو ہونے کے لائق ہے۔

2. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): مَنْ أنِسَ بِاللّهِ اسْتَوحَشَ مِنَ النّاسِ، وَعَلامَةُ الاْنْسِ بِاللّهِ الْوَحْشَةُ مِنَ النّاسِ . 2

2. امام علی النقی (ع): جسے اللہ سے انس و محبت ہو جاتی ہے وہ لوگوں سے وحشت کرتا ہے اور اللہ سے انس و محبت کی علامت لوگوں سے وحشت کرنا ہے۔

3. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): السَّهَرُ أُلَذُّ الْمَنامِ، وَ الْجُوعُ يَزيدُ فى طيبِ الطَّعامِ. 3

3. امام علی النقی (ع): شب بیداری، نیند کو بے حد لذیذ بنا دیتی ہے اور بھوک غذا کے ذائقہ کو زیادہ کر دیتی ہے ۔

4. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): لا تَطْلُبِ الصَّفا مِمَّنْ كَدِرْتَ عَلَيْهِ، وَلاَ النُّصْحَ مِمَّنْ صَرَفْتَ سُوءَ ظَنِّكَ إلَيْهِ، فَإنَّما قَلْبُ غَيْرِكَ كَقَلْبِكَ لَهُ. 4

4 . امام علی النقی (ع): جس سے کینہ رکھتے ہو، اس سے محبت کی تلاش میں نہ رہو ۔ جس سے بد گمان ہو اس س خیر خواہی کی امید نہ رکھو، اس لیے کہ دوسرے کا دل بھی تمہارے دل کی مانند ہے۔

5. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الْحَسَدُ ماحِقُ الْحَسَناتِ، وَالزَّهوُ جالِبُ الْمَقْتِ، وَالْعُجْبُ صارِفٌ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ داع إلَى الْغَمْطِ وَالْجَهْلِ، وَالبُخْلُ أذَمُّ الاْخْلاقِ، وَالطَّمَعُ سَجيَّةٌ سَيِّئَةٌ. 5

5. امام علی النقی (ع): حسد نیکیوں کو تباہ کرنے والا ہے، غرور، دشمنی لانے والا ہے، خود بینی، تحصیل علم سے مانع اور پستی و نادانی کی طرف کھینچنے والی ہے اور کنجوسی بڑا مذموم اخلاق ہے، اور لالچ بڑی بری صفت ہے ۔

6. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الْهَزْلُ فکاهَةُ السُّفَهاءِ، وَ صَناعَةُ الْجُهّالِ. 6

6. امام علی النقی (ع): تمسخر، سفیہوں کا شیوہ اور جاہلوں کا پیشہ ہے ۔

7. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الدُّنْيا سُوقٌ رَبِحَ فيها قَوْمٌ وَ خَسِرَ آخَرُونَ. 7

7. امام علی النقی (ع): دنیا ایک بازار ہے جس میں ایک گروہ نے فائدہ تو دوسرے نے نقصان اٹھایا ہے۔

8. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): النّاسُ فِي الدُّنْيا بِالاْمْوالِ وَ فِى الاْخِرَةِ بِالاْعْمالِ.8

8. امام علی النقی (ع): لوگوں کی حیثیت دنیا میں مال سے اور آخرت میں اعمال سے ہے ۔

9. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): مُخالَطَةُ الاْشْرارِ تَدُلُّ عَلى شِرارِ مَنْ يُخالِطُهُمْ. 9

9. امام علی النقی (ع): بُرے لوگوں کی ہمنشینی ہمنشین ہونے والے کی شر پسندی پر دلالت کرتی ہے ۔

10. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): أهْلُ قُمْ وَ أهْلُ آبَةِ مَغْفُورٌ لَهُمْ، لِزيارَتِهِمْ لِجَدّى عَلىّ ابْنِ مُوسَى الرِّضا (عليه السلام) بِطُوس، ألا وَ مَنْ زارَهُ فَأصابَهُ فى طَريقِهِ قَطْرَةٌ مِنَ السَّماءِ حَرَّمَ جَسَدَهُ عَلَى النّار . 10

10. امام علی النقی (ع): قم اور آبہ کے لوگوں کی مغفرت ہو چکی ہے، کیونکہ وہ لوگ طوس میں میرے جد بزرگوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کو جاتے ہیں ۔ آگاہ ہو جاؤ کہ جو بھی ان کی زیارت کرے اور راستے میں آسمان سے ایک قطرہ اس پر پڑ جائے (کسی مشکل سے دوچار ہو جائے) تو اس کا جسم آتش جہنم پر حرام ہو جاتا ہے ۔

11. عَنْ يَعْقُوبِ بْنِ السِّکيتْ، قالَ: سَألْتُ أبَاالْحَسَنِ الْهادي (عليه السلام :(ما بالُ الْقُرْآنِ لا يَزْدادُ عَلَى النَّشْرِ وَالدَّرْسِ إلاّ غَضاضَة؟قالَ (ع): إنَّ اللّهَ تَعالى لَمْ يَجْعَلْهُ لِزَمان دُونَ زَمان، وَلالِناس دُونَ ناس، فَهُوَ فى كُلِّ زَمان جَديدٌ وَ عِنْدَ كُلِّ قَوْم غَضٌّ إلى يَوْمِ الْقِيامَةِ. 11

11. حضرت امام علی نقی (ع) کے ایک صحابی جناب ابن سکیت کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید نشر و اشاعت درس و بحث سے مزید تر و تازہ ہو جاتا ہے ؟ امام (ع) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے کسی خاص زمانے اور خاص افراد سے مخصوص نہیں کیا ہے، وہ ہر زمانے میں نیا اور قیامت تک ہر قوم و گروہ کے پاس تر و تازہ رہے گا۔

12. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الْغَضَبُ عَلى مَنْ لا تَمْلِكُ عَجْزٌ، وَ عَلى مَنْ تَمْلِكُ لُؤْمٌ. 12

12. امام علی النقی (ع): جس پر تمہارا تسلط نہیں، اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے ۔

13. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): يَاْتى عَلماءُ شيعَتِنا الْقَوّامُونَ بِضُعَفاءِ مُحِبّينا وَ أهْلِ وِلايَتِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ، وَالاْنْوارُ تَسْطَعُ مِنْ تيجانِهِمْ. 13

13. امام علی النقی (ع): ہمارے شیعہ علماء جو ہمارے کمزور محبّوں اور ہماری ولایت کا اقرار کرنے والوں کی سرپرستی کرتے ہیں، بروز قیامت اس انداز میں وارد ہوں گے کہ ان کے سر کے تاج سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہوں گی۔

14. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): مَنۡ جَمَعَ لَكَ وُدَّه وَ رَأیَه فَاجۡمَعۡ لَہ طَاعَتَكَ. 14

14. حضرت امام علی نقی (ع): جو بھی تم سے دوستی کا دم بھرے اور نیک مشورہ دے تم اپنے پورے وجود کے ساتھ اسکی اطاعت کرو۔

15. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَہِ السَّلَامُ): التَّسْريحُ بِمِشْطِ الْعاجِ يُنْبُتُ الشَّعْرَ فِى الرَّأسِ، وَ يَطْرُدُ الدُّودَ مِنَ الدِّماغِ، وَ يُطْفِىءُ الْمِرارَ، وَ يَتَّقِى اللِّثةَ وَ الْعَمُورَ. 15

15. امام علی النقی (ع): عاج کی کنگھی سے سر میں بال اگتا ہے، دماغ کے کیڑے ختم ہوتے ہیں صفرا، ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، اور جبڑے کی سلامتی اور اس کی مضبوطی کا باعث ہے ۔

16. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اُذكُرْ مَصْرَعَكَ بَيْنَ يَدَىْ أهْلِكَ لا طَبيبٌ يَمْنَعُكَ، وَ لا حَبيبٌ يَنْفَعُكَ. 16

16. امام علی النقی (ع): اپنے گھر والوں کے سامنے (حالت اختصار میں لاچار) پڑنے رہنے کو یاد کرو کہ نہ طبیب تمہیں (مرنے سے) سے روک سکتا ہے اور نہ حبیب (دوست) تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

17. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): إنَّ الْحَرامَ لا يَنْمى، وَإنْ نَمى لا يُبارَكُ فيهِ، وَ ما أَنْفَقَهُ لَمْ يُؤْجَرْ عَلَيْهِ، وَ ما خَلَّفَهُ کانَ زادَهُ إلَى النّارِ. 17

17. امام علی النقی (ع): حرام (چیز) رشد و نمو نہیں کرتی اور اگر رشد و نمو کرے بھی تو اس میں برکت نہیں ہوتی، اگر اسے انفاق کر دیا جائے تو کوئی اجر و ثواب نہیں ملتا اور اگر (ورثہ میں) چھوڑ جائے تو جہنم کی زاد راہ بن جاتی ہے ۔

18. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اَلْحِكْمَةُ لا تَنْجَعُ فِى الطِّباعِ الْفاسِدَةِ. 18

18. امام علی النقی (ع): حکمت فاسد مزاج لوگوں کے اندر میں اثر انداز نہیں ہوتی۔

19. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): مَنْ رَضِىَ عَنْ نَفْسِهِ كَثُرَ السّاخِطُونَ عَلَيْهِ. 19

19. امام علی النقی (ع): جو اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہوتا ہے اس پر غصہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے ۔

20. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اَلْمُصيبَةُ لِلصّابِرِ واحِدَةٌ وَ لِلْجازِعِ اِثْنَتان. 20

20. امام علی النقی (ع): صبر کرنے والے کے لیے ایک مصیبت اور جزع و فزع کرنے والے کے لیے دو برابر مصیبت ہوتی ہے۔

21. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اِنّ لِلّهِ بِقاعاً يُحِبُّ أنْ يُدْعى فيها فَيَسْتَجيبُ لِمَنْ دَعاهُ، وَالْحيرُ مِنْها. 21

21. امام علی النقی (ع): خدا کے کچھ (خاص) مقامات ہیں، جہاں اسے پکارا جانا پسند ہے لہٰذا جو ان میں خدا کو پکارتا ہے، خدا اس کی سن لیتا ہے اور حائر حسینی (ع) ان میں سے ایک ہے ۔

22. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اِنّ اللّهَ هُوَ الْمُثيبُ وَالْمُعاقِبُ وَالْمُجازى بِالاْعْمالِ عاجِلاً وَآجِلاً. 22

22. امام علی النقی (ع): خدا ہی ثواب و عقاب دینے والا اور اعمال کی جلد یا دیر میں جزا و سزا دینے والا ہے ۔

23. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): مَنْ هانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فَلا تَأمَنْ شَرَّهُ. 23

23. امام علی النقی (ع): جس کا نفس پست ہو جائے اس کے شر سے اپنے کو محفوظ نہ سمجھو ۔

24. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اَلتَّواضُعُ أنْ تُعْطَيَ النّاسَ ما تُحِبُّ أنْ تُعْطاهُ. 24

24. امام علی النقی (ع): فروتنی یہ ہے کہ لوگوں کو وہی چیزیں عطا کرو، جسے پانا تم خود پسند کرتے ہو ۔

25. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اُذكُر حَسَراتِ التَّفريطِ بِأخذ تَقديمِ الحَزمِ . 25

25. امام علی النقی (ع): کوتاہی کی حسرتوں کو دور اندیشی کرنے کے ذریعہ یاد کرو ۔

26. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): لَمْ يَزَلِ اللّهُ وَحْدَهُ لا شَيْئىٌ مَعَهُ، ثُمَّ خَلَقَ الاْشْياءَ بَديعاً، وَاخْتارَ لِنَفْسِهِ أحْسَنَ الاْسْماء. 26

26. امام علی النقی (ع): خداوند متعال ازل سے تنہا تھا اور اس کا کوئی شریک نہیں تھا پھر اس نے اشیاء کو خلق کیا اور اپنے لیے بہترین اسماء کو انتخاب کیا ہے۔

27. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اِذا قامَ الْقائِمُ يَقْضى بَيْنَ النّاسِ بِعِلْمِهِ كَقَضاءِ داوُد (عليه السلام)وَ لا يَسْئَلُ الْبَيِّنَةَ. 27

27. امام علی النقی (ع): جب حضرت قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ظہور کریں گے تو اپنے علم کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں گے، جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام فیصلہ کرتے تھے اور گواہ طلب نہیں کریں گے ۔

28. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اَلمُؤمِنُ يَحتاجُ إلى تَوفيقٍ مِنَ اللَّهِ و واعِظٍ مِن نَفسِهِ وقَبولٍ مِمَّن يَنصَحُهُ. 28

28. امام علی النقی (ع): مومن، خدا کی طرف سے توفیق اور اپنے نفس کی طرف سے نصیحت اور نصیحت کرنے والے کی طرف سے نصیحت قبول کرنے کا محتاج ہے ۔

29. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اَلْعِلْمُ وِراثَةٌ كَريمَةٌ وَالاْدَبُ حُلَلٌ حِسانٌ، وَالْفِكْرَةُ مِرْآتٌ صافَيةٌ. 29

29. امام علی النقی (ع): علم کریم میراث ہے اور ادب خوبصورت زیور ہیں اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے ۔

30. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الْعُجْبُ صارِفٌ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ، داع إلىَ الْغَمْطِ وَ الْجَهْلِ. 30

30. امام علی النقی (ع): خود بینی علم حاصل کرنے سے مانع ہوتی ہے اور جہالت و نادانی کی دعوت دیتی ہے۔

31. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): لا تُخَيِّبْ راجيكَ فَيَمْقُتَكَ اللّهُ وَ يُعاديكَ. 31

31. امام علی النقی (ع): اپنے سے امید رکھنے والے کو نا امید نہ کرو کہ خدا تم سے ناراض ہو کر تم سے دشمنی کرنے لگے گا ۔

32. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الْعِتابُ مِفْتاحُ التَّقالى، وَالعِتابُ خَيْرٌ مِنَ الْحِقْدِ. 32

32. امام علی النقی (ع): سرزنش، غصہ کی کنجی ہے (لیکن )سرزنش، کینہ رکھنے سے بہتر ہے ۔

33. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): مَا اسْتَراحَ ذُو الْحِرْصِ. 33

33. امام علی النقی (ع): لالچی کو کبھی چین نہیں ملتا ۔

34. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الْغِنى قِلَّةُ تَمَنّيكَ، وَالرّضا بِما يَكْفيكَ، وَ الْفَقْرُ شَرَهُ النّفْسِ وَ شِدَّةُ القُنُوطِ، وَالدِّقَّةُ إتّباعُ الْيَسيرِ وَالنَّظَرُ فِى الْحَقيرِ. 34

34. امام علی النقی (ع): بے نیازی، کم آرزؤں کی قلت سے حاصل ہوتی ہے اور محتاجی، نفس کے لالچی پن اور شدت سے مایوسی۔

35. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الاْمامُ بَعْدى الْحَسَنِ، وَ بَعْدَهُ ابْنُهُ الْقائِمُ الَّذى يَمْلاَ الاْرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلاً كَما مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً. 35

35. امام علی النقی (ع): میرے بعد حسن (عسکری) امام ہیں اور ان کے بعد ان کے بیٹے قائم امام ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں گے کہ جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔

36. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): إذا کانَ زَمانُ الْعَدْلِ فيهِ أغْلَبُ مِنَ الْجَوْرِ فَحَرامٌ أنْ يُظُنَّ بِأحَد سُوءاً حَتّى يُعْلَمَ ذلِكَ مِنْهُ. 36

36. امام علی النقی (ع): جس زمانے میں عدل و انصاف کا غلبہ ظلم و ستم سے زیادہ ہو تو کسی کے بارے میں برائی کا گمان کرنا حرام ہے، یہاں تک کہ برائی کا یقین حاصل ہو جائے۔

37. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): إنَّ لِشيعَتِنا بِوِلايَتِنا لَعِصْمَةٌ، لَوْ سَلَكُوا بِها فى لُجَّةِ الْبِحارِ الْغامِرَةِ. 37

37. امام علی النقی (ع): ہمارے شیعوں کے لیے ہماری ولایت پناہ گاہ ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اتھاہ سمندروں کی موجوں میں بھی چل سکتے ہیں ۔

38. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): يا داوُدُ لَوْ قُلْتَ: إنَّ تارِكَ التَّقيَّةَ كَتارِكِ الصَّلاةِ لَكُنتَ صادِقاً. 38

38. امام علی النقی (ع): اے داؤد اگر تم یہ کہو کہ (تقیہ کے موقع پر) تقیہ چھوڑنے والا بے نمازی کے مانند ہے تو تم سچے ہو ۔

39. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): الحلم أنْ تَمْلِكَ نَفْسَكَ وَ تَكْظِمَ غَيْظَكَ، وَ لا يَكُونَ ذلَكَ إلاّ مَعَ الْقُدْرَةِ. 39

39. امام علی النقی (ع): حلم یہ ہے کہ اپنے نفس پر قابو رکھو اپنے غصہ کو پی جاؤ یہ قدرت و توانائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

40. قَالَ الاِمَامُ عَلِّیِ النَقِیّ (عَلیَه السَّلَامُ): اِنّ اللّهَ جَعَلَ الدّنيا دارَ بَلْوى وَالاْخِرَةَ دارَ عُقْبى، وَ جَعَلَ بَلْوى الدّنيا لِثوابِ الاْخِرَةِ سَبَباً وَ ثَوابَ الاْخِرَةِ مِنْ بَلْوَى الدّنيا عِوَضاً . 40

40. امام علی النقی (ع): اللہ نے دنیا کو بلاؤں کا گھر اور آخرت کو نتائج کا گھر قرار دیا ہے اور دنیا کی بلاؤں کو آخرت کے ثواب کا سبب اور آخرت کے ثواب کو دنیا کی بلاؤں کا عوض قرار دیا ہے ۔

حوالہ جات:

1. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی، ج 68، ص182۔

اعیان الشیعہ سید محسن امین عاملی، ج 2، ص 39

2. عدة الداعی؛ ابن فہد حلی، ص 208

3. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی،ج 69،ص 172

4. بحار الانوار: ج 75، ص 369

اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی،ص 312

5. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی، ج 69، ص 199

6. الدرۃ الباھرۃ ؛ ص 42

بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی،ج 75، ص 369

7. اعیان الشیعۃ؛ سید محسن امین عاملی، ص 2 و ص 39

تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص 438

8. اعیان الشیعۃ؛ سید محسن امین عاملی، ج 2، ص 39

بحار الانوار: ج 17 ص 234

9. مستدرک الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ج 12، ص 308

10. عیون اخبار الرضا(ع)؛ شیخ صدوق، ج 2، ص 260

11. الامالی؛ شیخ طوسی، ج 2، ص 580

12. مستدرک الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ج 12، ص 11

13. بحار الانوار: ج 2، ص112

14. تحف العقول، ص 880

15. بحار الانوار: ج 73، ص 114

16. اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی، ص 311

بحار الانوار: ج 75، ص 369

17. الکافی؛ ثقۃ الاسلام کلینی، ج 5، ص 125

18. نزهۃالناظر و تنبیہ الخاطر؛ ص 141

اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی، ص 311

19. بحار الانوار: ج 69، ص 316

20. اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی، ص 311

بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی ،ج 75، ص 369

21. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص 357

بحار الانوار: ج 98، ص 130

22. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص 358

بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی، ج 59، ص 2

23. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص 383

بحار الانوار: ج 75، ص 365

24. المحجۃ البیضاء؛ فیض کاشانی، ج 5، ص 225

25. بحار الأنوار، ج 75، ص 370

26. بحارالانوار: ج 57، ص 83

27. بحار الانوار: ج 50، ص 264

28. تحف العقول، ص 457

29. بحار الانوار: ج 71، ص 324

30. بحار الانوار: ج 75، ص 369

31. بحار الانوار: ج 75، ص 173

32. نزھۃ الناظر؛ ص 139

بحار الانوار، ج 78، ص 368

33. نزھۃ الناظر وتنبیہ الخاطر؛ ص 141

مستدرک الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ج 2، ص 336

34. الدّرّة الباهرة: ص 14

نزهة الناظر: ص 138

بحار الانوار: ج 75، ص 109

35. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی،ج 50، ص 239

36. بحار الانوار: ج 73، ص 197

الدرة الباھرة؛ ص42

37. بحار الانوار: ج 50، ص 215

38. وسائل الشیعۃ؛ شیخ حر عاملی، ج 16، ص 211

مستطرفات السرائر ؛ ابن ادریس حلی، ص 67

39. نزھۃ الناظر وتنبیہ الخاطر؛ ص 138

مستدرک الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ج 2، ص 304

40. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص 358

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی