ابن تیمیہ کو کئی بار مختلف حکام نے جیل میں ڈالنے کے واقعات ملتے ہیں کیونکہ وہ اپنی سخت اور بعض اوقات متنازعہ نظریات کی وجہ سے مختلف حکومتی اور دینی حلقوں کے ساتھ تنازعات میں رہتے تھے۔
لیکن سب سے مشہور واقعہ جو اکثر ذکر ہوتا ہے، وہ سلطنت مملوک مصر میں ہے۔ سلطان الناصر محمد بن قلاوون کے دور حکومت میں ابن تیمیہ کو ان کی عقائد اور فتووں کی وجہ سے گرفتار کر کے قید میں رکھا گیا تھا۔ ان پر مختلف الزامات لگائے گئے، جیسے کہ بدعتیں پھیلانا یا حکومتی اور مذہبی نظام کے خلاف فتوی دینا۔
ابن تیمیہ کو پہلی بار تقریباً 1306ء میں گرفتار کیا گیا تھا، اور مختلف اوقات میں جیل میں رکھا گیا اور پھر رہا کیا گیا۔ ان کی جیل جانے کی وجہ ان کے سخت علمی موقف اور بعض فتاویٰ تھے جو اُس وقت کے مذہبی اور سیاسی حکام کو ناگوار گزرے۔
یہودی اور وہابی دونوں اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں، لیکن ان کے عقائد اور خدائی تصور میں کچھ فرق ہوتا ہے جو ان کے مذہبی تعلیمات، تاریخ اور تفاسیر کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔
ابن تيمية کے صفات الہٰیہ کے حوالے سے انحرافات (تنقیدی جائزہ)
1. جسمیت کی طرف میلان:
ابن تيمية (متوفی 728ھ) نے اللہ تعالیٰ کی صفات کے بیان میں تجسیم (جسمیت کی طرف میلان) کے قریب نظریات پیش کیے، جیسے:
"اللہ کے لیے حقیقی چہرہ، ہاتھ اور آنکھیں ثابت کرنا"، حالانکہ یہ صفات بلا کیفیت (بغیر کسی مشابہت کے) مانی جاتی ہیں۔
"اللہ عرش پر حقیقی طور پر مستوی ہے" جیسے بیانات سے مجسمہ کے فکر کو تقویت ملی۔
ابن تیمیہ کے نزدیک، اللہ تعالیٰ عرش پر حقیقی معنوں میں قائم ہیں اور ان کی صفتِ "ہنسنا" بھی حقیقی ہے، لیکن ان صفات کی نوعیت انسانی صفات سے بالکل مختلف ہے۔ وہ انہیں اللہ کی منفرد شان قرار دیتے ہیں، جسے عقلی طور پر سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا سکتی۔