موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
کیا آپ آپنے زمانے کے امام کو پہچانتے ہیں ؟
مندرجات: 1527 تاریخ اشاعت: 10 خرداد 2022 - 02:22 مشاہدات: 13814
سوال و جواب » امامت
کیا آپ آپنے زمانے کے امام کو پہچانتے ہیں ؟

مطالب کی فہرست:

یہ حدیث اور کتب شیعہ

یہ حدیث اور کتب اہل سنت

ایک نہایت دلچسپ مناظرہ   

معرفت امام زمان (ع) کی ضرورت:

سعادت و شقاوت اور قیادت:

عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں:


کیا آپ آپنے زمانے کے امام کو پہچانتے ہیں ؟

سوال : یہ حدیث، "جو بھی مر جائے اور وہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا" کس سے نقل ہوئی ہے ؟

 

جواب رسول خدا (ص) سے نقل ہونے والی یہ حدیث ان متواتر اور مشہور روایات میں سے ہے کہ جو شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی معتبر کتب میں ذکر کی گئی ہے، لیکن 1400 سال سے بہت ہی بد قسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ اس حدیث کو منبر، مساجد اور خطبوں وغیرہ میں، جب بھی ذکر کرتے ہیں تو فقط شیعہ ہی ذکر کرتے ہیں۔ گویا ایسے ہے کہ جیسے اہل سنت اس حدیث کو بالکل جانتے ہی نہیں !!!

یہ حدیث اور کتب شیعہ

مرحوم شيخ صدوق نے كتاب شريف كمال الدين و تمام النعمۃ میں لکھا ہے کہ:

سئل أبو محمد الحسن بن علي عليهما السلام وأنا عنده عن الخبر الذي روي عن آبائه عليهم السلام : " أن الأرض لا تخلو من حجة لله علي خلقه إلي يوم القيامة وأن من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية " فقال عليه السلام : إن هذا حق كما أن النهار حق ، فقيل له : يا ابن رسول الله فمن الحجة والامام بعدك ؟ فقال ابني محمد ، هو الامام والحجة بعدي ، من مات ولم يعرفه مات ميتة جاهلية .

امام حسن عسکری سے اس روایت کے بارے میں سوال ہوا کہ: زمین کبھی بھی خداوند کی مخلوق پر حجت خدا سے قیامت تک خالی نہیں رہے گی اور اگر کوئی مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔ امام حسن عسكری نے فرمایا کہ: یہ بات بالکل صحیح و حق ہے، جیسے کہ ابھی اس وقت دن کا ہونا حق ہے، پھر امام سے سوال ہوا کہ اے فرزند رسول خدا ! آپکے بعد امام اور حجت کون ہو گا ؟ فرمایا: میرا بیٹا محمد، وہ میرے بعد امام اور حجت ہو گا۔ جو بھی مر جائے اور اسکو نہ پہچانتا ہو تو وہ بھی جاہلیت کی موت مرا ہے۔

كمال الدين وتمام النعمة - الشيخ الصدوق - ص 409 - 410

كفاية الأثر - الخزاز القمي - ص 296 

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي - ج 16 - ص 246

مستدرك الوسائل - الميرزا النوري - ج 18 - ص 187 و ....

اور اسی طرح ابن حمزہ طوسی نے کتاب الثاقب في المناقب ، ص 495 پر اس روایت کو نقل کیا ہے:

عن محمد بن العلاء الجرجاني ، قال : حججت فرأيت علي بن موسي الرضا عليه السلام يطوف بالبيت ، فقلت له : جعلت فداك ، هذا الحديث قد روي عن النبي صلي الله عليه وآله : " من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية " . قال : فقال : " نعم ، حدثني أبي ، عن جدي ، عن الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام قال : قال رسول الله صلي الله عليه وآله : " من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية " . قال : فقلت له : جعلت فداك ، ومن مات ميتة جاهلية . قال : " مشرك " .

محمد ابن علاء جرجانی کہتا ہے کہ: میں نے حج کے موقع پر امام رضا کو طواف کی حالت میں دیکھا، میں نے اس سے کہا میں آپ پر قربان ہو جاؤں، کیا یہ روایت: اگر کوئی مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے، رسول خدا سے نقل ہوئی ہے ؟ امام رضا نے فرمایا: ہاں، میرے والد نے میرے جد سے، انھوں نے حسین ابن علی سے، انھوں نے علی ابن ابی طالب سے سے نقل کیا ہے کہرسول خدا نے فرمایا کہ: جو بھی مر جائے اور وہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔ 

محمد ابن علاء کہتا ہے کہ میں نے امام رضا سے سوال کیا کہ مولا جاہلیت کی موت سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا: یعنی وہ شخص شرک کی حالت میں مشرک مرا ہے۔

ابو جعفر اسکافی کہ جو شيخ مفيد کا ہمعصر تھا، اس نے کہا ہے کہ:

عن صحيح مسلم من مات ولا امام له ، مات ميتة جاهلية .

کتاب صحیح مسلم سے نقل کرتے ہوئے ذکر کر رہا ہوں کہ جو بھی مر جائے اور اسکا کوئی امام نہ ہو تو وہ شخص جاہلیت کی موت مرا ہے۔

اسكافي ، ابو جعفر ، کتاب خلاصه نقض کتاب العثماني للجاهز ، ص 29

اسی طرح کتاب الجواهر المضيئه میں بھی یہی روایت ذکر ہوئی ہے۔

مرحوم محقق تستری اور آيت الله نجفی مرعشی نے ملحقات کتاب احقاق الحق ، جلد 14 ، صفحہ 2 پر ان سے نقل کیا ہے کہ:

في صحيح مسلم من مات ولم يعرف امام زمانه ، مات ميتة الجاهلية،

کتاب صحیح مسلم میں ذکر ہوا ہے کہ اگر کوئی مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

ملحقات احقاق الحق . ج 14 . ص 2

یہ حدیث اور کتب اہل سنت

مَنْ مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية .

جو بھی مر جائے اس حالت میں کہ اسکی گردن پر کسی امام کی بیعت نہ ہو تو شخص جاہلیت کی موت مرا ہے۔

صحيح مسلم ، مسلم النيسابوري ، ج3 ، ص1478

السنن الكبري ، البيهقي ، ج8 ، ص156

مجمع الزوائد ، ج5 ، ص218

مشكاة المصابيح ، ج2 ، ص1088

سلسلة الأحاديث الصحيحة ، ج2 ، ص715

مَنْ مات بغير إمام مات ميتة جاهلية.

جو بھی امام کے بغیر مر جائے، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

مسند احمد ، احمد بن حنبل ، ج4 ، ص96

مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج5 ، ص218

مسند الطيالسي ، الطيالسي ، ص295

الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان ج7 ، ص49

 حلية الأولياء ، ج 3 ، ص22 .

مسند ابو داود ، ص 252

مَنْ مات وليستْ عليه طاعة مات ميتة جاهلية .

جو بھی مر جائے اور کسی امام کی اطاعت اسکی گردن پر واجب نہ ہو تو وہ شخص جاہلیت کی موت مرا ہے۔

مجمع الزوائد، الهيثمي ، ج5 ، ص224

كتاب السنة ، ج2 ، ص489

البانی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

إسناده حسن، ورجاله ثقات .

اس حدیث کی سند حسن (معتبر) ہے اور اسکے سارے راوی ثقہ و قابل اعتماد ہیں۔

مَنْ مات وليس عليه إمام جماعة فإن موتته موتة جاهلية .

جو بھی مر جائے اور کوئی امام جماعت نہ رکھتا ہو تو اسکی موت، جاہلیت کی موت ہے۔

المستدرك علي الصحيحين ، ج1 ، ص150

حاكم نيشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين.

یہ حدیث بخاری اور مسلم کے نزدیک بھی صحیح ہے، اور ذہبی نے بھی اسکی تائید کی ہے۔

المستدرك علي الصحيحين ج1 ، ص204 .

من مات ليس عليه إمام فميتته جاهلية .

جو بھی مر جائے اور اسکا کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 10 ، ص298

المعجم الأوسط ، ج2 ، ص317 و ج4 ، ص232

مسند أبي يعلي، ج6 ، ص251

كتاب السنة ، ابن أبي عاصم ، ج2 ، ص489

مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج5 ، ص224-225.

اسی مضمون کی ایک روایت کتاب صحیح ابن حبان میں بھی ذکر ہوئی ہے:

صحيح ابن حبان ، ج 10 ، با تحقيق شعيب الارنؤوط وهابي . چاپ مؤسسه الرساله بيروت ، ص 343

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ:

من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية

جو بھی مر جائے اور وہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ شخص جاہلیت کی موت مرا ہے۔

تفتازاني ، شرح مقاصد في علم الکلام ، ج 2 ، ص  275

قندوزی حنفی نے کتاب ينابيع المودۃ میں بھی لکھا ہے کہ:

قال رسول الله (ص) :

من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة الجاهلية .

جو بھی مر جائے اور وہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ شخص جاہلیت کی موت مرا ہے۔

قندوزي حنفي ، ينابيع الموده

اہل سنت کے بزرگ عالم ملا علی قاری نے کہا ہے کہ:

في صحيح مسلم من مات ولم يعرف إمام زمانه، مات ميتة جاهلية،

کتاب صحیح مسلم میں ذکر ہوا ہے کہ جو بھی مر جائے اور وہ اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ شخص جاہلیت کی موت مرا ہے۔

ملا علي قاري ، الجواهر المضيعه ، ج 2 ، ص 457 

کتاب صحيح مسلم میں ایک بہت ہی اہم روایت ذکر ہوئی ہے کہ یہ روایت عمر کے بیٹے عبد اللہ ابن عمر سے، یزید کے بارے میں نقل ہوئی ہے۔

حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بن مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ حدثنا أبي حدثنا عَاصِمٌ وهو بن مُحَمَّدِ بن زَيْدٍ عن زَيْدِ بن مُحَمَّدٍ عن نَافِعٍ قال جاء عبد اللَّهِ بن عُمَرَ إلى عبد اللَّهِ بن مُطِيعٍ حين كان من أَمْرِ الْحَرَّةِ ما كان زَمَنَ يَزِيدَ بن مُعَاوِيَةَ فقال اطْرَحُوا لِأَبِي عبد الرحمن وِسَادَةً فقال إني لم آتِكَ لِأَجْلِسَ أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سمعت رَسُولَ اللَّهِ (ص) يَقُولُهُ سمعت رَسُولَ اللَّهِ (ص) يقول من خَلَعَ يَدًا من طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يوم الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ له وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ في عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً ،

جب صحابہ، مہاجرین اور انصار نے یزید کے خلاف واقعہ حرہ میں مدینہ میں قیام کیا تو عبد اللہ ابن عمر نے ان سے کہا:

یزید کے خلاف قیام نہ کرو، اسلیے کہ میں نے رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: جو بھی امیر کی اطاعت سے خارج ہو تو کل قیامت والے دن وہ شخص بغیر کسی حجت کے محشور ہو گا۔ جو بھی دنیا سے اس حالت میں جائے کہ اسکی گردن پر بیعت نہ ہو تو اس شخص کی موت، جاہلیت کی موت ہو گی۔

صحيح مسلم  ج 6 ، ص 942  و ص 22 ، حديث 4686

اہل سنت ایک طرف سے تو ان روایات کو نقل کرتے و صحیح قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف سے عملی طور پر انکا کوئی امام نہیں ہے کہ وہ سب اسکی بیعت و اطاعت کریں۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے کہ جو اہل سنت سے 1400 سال سے حل نہیں ہو پا رہا۔

اگر اس ایک روایت کے علاوہ کوئی دوسری روایت اہل سنت کے مذہب کو باطل اور غلط قرار دینے کے لیے نہ بھی ہو تو یہی ایک روایت اس مقصد کے لیے کافی ہے۔

ایک نہایت دلچسپ مناظرہ   

مرحوم آیت اللہ علامہ عبدالحسین امینی "صاحب الغدیر" کا ایک نہایت دلچسپ مناظرہ:

تہران کے ایک امام جماعت کہتے ہیں؛ کہ میں الغدیر کے مؤلف علامہ عبد الحسین امینی نجف سے تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لیے حاضر ہوا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں۔ علامہ نے میری دعوت قبول کر لی۔ میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا۔ رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسی بات سنائیں جس سے استفادہ کیا جا سکے اور روحانی تسکین کا سبب بنے۔ علامہ امینی نے فرمایا:

میں بعض کتب کا مطالعہ کرنے شام کے شہر حلب گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہوا۔ اس دوران ایک سنی تاجر سے آشنائی ہوئی۔ وہ نہایت مہذب اور منطقی انسان تھے اور میری ان کی دوستی بڑھتی گئی... ایک روز انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی اور اپنے گھر بلایا۔ میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کے تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں۔ بلند پایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تجار و دکاندار، غرض ہر طبقے کے افراد کے علاوہ حلب کے قاضی القضات بھی موجود ہیں۔ کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرایی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب ! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جا رہا ؟

میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں :

قال رسول اللہ (ص): من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة الجاہلیة ،

جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ؟

انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔

میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لیے یہی حدیث کافی ہے۔ قاضی القضات نے خاموشی اختیار کر لی...

تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا : آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کس پائے کی خاتون ہیں ؟

کہنے لگے: انھا مطھرة بنص الکتاب "۔

نص قرآن کے مطابق سیدہ سلام اللہ علیہا پاک و مطہر بی بی ہیں اور حضرت زہراء (س) آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں۔

میں نے کہا : حضرت فاطمہ حکام (ابوبکر و عمر) وقت سے ناراض و غضبناک ہو کر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں ؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفاء برحق نہ تھے ؟ یا پھر معاذ اللہ حضرت فاطمہ (س) امام وقت کی معرفت حاصل کیے بغیر جاہلیت کی موت مریں !؟

حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ حضرت زہراء کا غضب اور آپ (س) کی ناراضگی صحیح تھے تو اس کا لازمہ یہ ہو گا کہ حکومت وقت باطل تھی... اور اگر کہتے کہ سیدہ (س) سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ (س) معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی۔ جبکہ آپ کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نے دی ہے۔

حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے : جناب امینی ! ہماری بحث کا حکام عصر کی نسبت حضرت زہراء کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے ؟

مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلی مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ علامہ امینی نے اس مختصر سی بحث میں کیا کاری ضرب ان کے عقائد پر لگائی ہے!

میں نے کہا : آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تردد میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفاء رسول (ص) سمجھتے ہیں...

ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے :

شیخنا اسکت قد افتضحنا،

ہمارے شیخ ! خاموش ہو جاؤ کہ ہم رسوا ہو گئے؛ یعنی آپ نے ہمیں رسوا کر دیا۔

ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انہوں نے علامہ امینی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات میں بٹھانے کا اہتمام کیا تھا۔

یہ حکایت صرف اس لیے نقل کی گئی کہ اہل سنت بھی اہل تشیع کی مانند حدیث :

(من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة)

کو قبول کرتے ہیں اور یہ وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عصر اور ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت کا حصول واجب ہے اور مسلمانوں کو بہرحال معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی دینی تعلیمات کس سے حاصل کر رہے ہیں اور ان سب کو جاننا چاہیے کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے ؟

جیسا کہ علامہ امینی نے ان احادیث کو صحاح اور مسانید سے محفوظ کیا ہے لہذا اس کے مضمون کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے اور کسی مسلمان کا اسلام اس کے مقصود کو تسلیم کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت میں نہ دو رائے ہیں اور نہ کسی ایک نے شک و شبہہ کا اظہار کیا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر امام مرنے والے کا انجام بدترین انجام ہے اور اس کے مقدر میں کسی طرح کی کامیابی اور فلاح نہیں ہے۔ جاہلیت کی موت سے بدتر کوئی موت نہیں ہے کہ یہ موت در حقیقت کفر و الحاد کی موت ہے اور اس میں کسی اسلام کا شائبہ بھی نہیں ہے۔

الغدیر 10 ص 360

رہ گیا حدیث کا مفہوم تو اس کی وضاحت کے لیے دور جاہلیت کی تشریح ضروری ہے اور اس کے بغیر مسئلہ کی مکمل توضیح نہیں ہو سکتی۔ قرآن مجید اور احادیث اسلامی میں رسول اکرم (ص) کے دور بعثت کو علم و ہدایت کا دور اور اس کے پہلے کے زمانہ کو جہالت اور ضلالت کا دور قرار دیا گیا ہے، اس لیے کہ اس دور میں آسمانی ادیان میں تحریف و ترمیم کی بنا پر راہ ہدایت و ارشاد کا پا لینا ممکن نہ تھا۔ اس دور میں دین کے نام پر جو نظام چل رہے تھے وہ سب اوہام و خرافات کا مجموعہ تھے اور یہ تحریف شدہ ادیان و مذاہب حکام ظلم و جور کے ہاتھوں میں بہترین حربہ کی حیثیت رکھتے تھے جن کے ذریعہ انسانوں کے مقدرات پر قبضہ کیا جاتا تھا اور انھیں اپنی خواہشات کے اشارے پر چلایا جا رہا تھا۔

لیکن اس کے بعد جب رسول خدا (ص) کی بعثت کے زیر سایہ علم و ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا تو آپ کی ذمہ داریوں میں اہم ترین ذمہ داری ان اوہام و خرافات سے جنگ کرنا اور حقائق کو واضح و بے نقاب کرنا تھا، چنانچہ آپ نے ایک مہربان باپ کی طرح امت کی تعلیم و تربیت کا کام شروع کیا اور صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ:

میں تمہارے باپ جیسا ہوں اور تمہاری تعلیم کا ذمہ دار ہوں۔

مسند ابن حنبل 3 ص 53 ح 7413

سنن نسائی 1 ص 38

سنن ابن ماجہ 1 ص 114 ۔ 313

الجامع الصغیر 1 ص 394 ح 2580

آپ کا پیغام عقل و منطق سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھا اور اس کی روشنی میں صاحبان علم کے لیے صداقت تک پہنچنا بہت آسان تھا اور وہ صاف محسوس کر سکتے تھے کہ اس کا رابطہ عالم غیب سے ہے۔

آپ برابر لوگوں کو تنبیہ کیا کرتے تھے کہ خبردار جن چیزوں کو عقل و منطق نے ٹھکرا دیا ہے، ان پر اعتبار نہ کریں کہ بغیر علم و اطلاع کے کسی چیز کے پیچھے نہ دوڑ پڑیں۔

سورہ اسراء آیت 36

اس مقدمے سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ ہر دور کے امام کی معرفت انسانوں کا انفرادی مسئلہ نہیں تھا کہ اگر کوئی شخص امام کی معرفت حاصل کیے بغیر مر جائے گا تو صرف اس کی موت جاہلیت کی موت ہو جائے گی بلکہ در اصل یہ ایک اجتماعی اور پوری امت کی زندگی کا مسئلہ تھا کہ بعثت پیغمبر اسلام کے سورج کے طلوع کے ساتھ جو علم و معرفت کا دور شروع ہوا ہے اس کا استمرار اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک مسلمان اپنے دور کے امام کو پہچان کر اس کی اطاعت نہ کر لیں۔

یا واضح الفاظ میں یوں کہا جائے کہ امامت ہی اس عصر علم و عرفان کی تنہا ضمانت ہے جو رسول خدا  (ص)  کی بعثت کے ساتھ شروع ہوا ہے اور اس ضمانت کے مفقود ہو جانے کا فطری نتیجہ اس دور اسلام و عرفان کا خاتمہ ہو گا جس کا لازمی اثر دور جاہلیت کی واپسی کی صورت میں ظاہر ہو گا اور پورا معاشرہ جاہلیت کی موت مر جائے گا جس کی طرف قرآن مجید نے خود اشارہ کیا تھا کہ:

مسلمانو دیکھو محمد اللہ کے رسول کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں جاہلیت کی طرف پلٹ جاؤ۔

سورہ آل عمران آیت 144

گویا مسلمانوں میں جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کا اندیشہ تھا اور سول اکرم (ص) اس کا علاج معرفت امام کے ذریعہ کرنا چاہتے تھے اور بار بار اس امر کی وضاحت کر دی تھی کہ امت دوبارہ جاہلیت کی دلدل میں پھنس سکتی ہے اور جاہلیت کی موت مر سکتی ہے اور اس کا واحد سبب امامت و قیادت امام عصر (ع) و امام بر حق سے انحراف کی شکل میں ظاہر ہو گا۔

کس امام کی معرفت ؟

اگر گذشتہ احادیث میں ذرا غور و فکر کیا جائے تو اس سوال کا جواب خود بخود واضح ہو جائے گا کہ رسول خدا (ص) نے کس امام اور کس طرح کے امام کی معرفت کو ضروری قرار دیا ہے کہ جس کے بغیر نہ اصلی اسلام باقی رہ سکتا ہے اور نہ جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اس معرفت سے مراد ہر اس شخص کی معرفت اور اس کی اتباع ہو جو اپنے بارے میں امامت کا دعویٰ کر دے اور امت اسلامی کی زمام پکڑ کر بیٹھ جائے اور باقی افراد اس کی اطاعت نہ کر کے جاہلیت کی موت مر جائیں اور اس کے کردار کا جائزہ نہ لیا جائے اور اس ظلم کو نہ دیکھا جائے جو  انسان کو ان اماموں میں قرار دیدیتا ہے جو جہنم کی دعوت دینے والے ہوتے ہیں ؟

ائمہ جور نے ہر دور تاریخ میں یہی کوشش کی ہے کہ حدیث کی ایسی ہی تفسیر کریں اور اسے اپنے اقتدار کے استحکام کا ذریعہ قرار دیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے راویوں میں ایک معاویہ بھی شامل ہے جسے اس حدیث کی سخت ضرورت تھی اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب روایت بیان کر دیگا تو درباری علماء اس کی ترویج و تبلیغ کا کام شروع کر دیں گے اور اس طرح حدیث کی روشنی میں معاویہ جیسے افراد کی حکومت کو مستحکم و مضبوط بنا دیا جائے گا۔ اگرچہ یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ صرف لفظی بازی گری ہے اور اس کا تفسیر و تشریح حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اسے خطائے اجتہادی کہا جا سکتاہے اور نہ سوء فہم بھلا کون یہ تصور کر سکتا ہے کہ عبد اللہ ابن عمر کا بیعت امیر المومنین (ع) سے انکار کر دینا کسی بصیرت کی کمزوری یا فکر کی سطحیت کا نتیجہ تھا اور انھیں آپ کی شخصیت کا اندازہ نہیں تھا اور راتوں رات دوڑ کر حجاج ابن یوسف کے دربار میں جا کر عبد الملک ابن مروان کے لیے بیعت کر لینا واقعاً اس احتیاط کی بناء پر تھا کہ کہیں زندگی کی ایک رات بلا بیعت امام نہ گزر جائے اور ارشاد پیغمبر کے مطابق جاہلیت کی موت نہ واقع ہو جائے، جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ:

عبد اللہ نے پہلے امیر المؤمنین علی (ع) کی بیعت سے انکا کر دیا اور اس کے بعد ایک رات حجاج ابن یوسف کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا تا کہ اس کے ہاتھ خلیفہ وقت عبد الملک ابن مروان کے لیے بیعت کر لیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک رات بلا بیعت امام گزر جائے جبکہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی بیعت امام کے بغیر مر جائے تو جاہلیت کی موت مرتا ہے اور حجاج نے بھی اس جہالت اور پست فطرتی کا اس انداز سے استقبال کیا کہ بستر سے پیر نکال دیا کہ اس پر بیعت کر لو، تم جیسے لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے ہاتھ پر بیعت لی جائے۔

شرح نہج البلاغہ 13 ص 242

واضح ہے کہ جو حضرت علی (ع) کو امام تسلیم نہ کرے گا اس کا امام عبد الملک ابن مروان ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ رات کی تاریکی میں انتہائی ذلت نفس کے ساتھ حجاج ابن یوسف جیسے جلاد کے دروازے پر حاضری دے اور عبد الملک جیسے بے ایمان کی خلافت کے لیے بیعت کر لے اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہو کہ اس یزید کو بھی حدیث مذکور کا مصداق قرار دیدے کہ جس کے دونوں ہاتھ اسلام اور آل رسول کے خون سے رنگین ہوں۔

مؤرخین کا بیان ہے کہ اہل مدینہ نے سن 36 ہجری میں یزید کے خلاف آواز بلند کی اور اس کے نتیجہ میں واقعہ حرہ پیش آ گیا جس کے بعد عبد اللہ ابن عمر نے اس انقلاب میں قریش کے قائد عبد اللہ ابن مطیع کے پاس حاضر ہو کر کچھ کہنا چاہا تو عبد اللہ نے ان کے لیے تکیہ لگوا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ابن عمر نے فرمایا کہ میں بیٹھنے نہیں آیا ہوں بلکہ میں صرف یہ حدیث پیغمبر سنانے آیا ہوں کہ اگر کسی کے ہاتھ اطاعت سے الگ ہو گئے تو وہ روز قیامت اس عالم میں محشور ہو گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل و بہانہ نہ ہو گا اور کوئی اپنی گردن میں بیعت امام رکھے بغیر مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔

صحیح مسلم ج 3 ص 1478 و 1851

اس ضمیر فروش انسان نے کس طرح حدیث شریف کا رخ بالکل ایک متضاد جہت کی طرف موڑ دیا اور اسے یزید کی حکومت کی دلیل بنا دیا جس موذی مرض کی طرف رسول اکرم نے اس حدیث میں اور دیگر متعدد احادیث میں اشارہ کیا تھا اور آپ کا مقصد تھا کہ لوگ ائمہ حق و ہدایت کی اطاعت کریں لیکن ارباب باطل و تحریف نے اس کا رخ ہی بدل دیا اور اسے باطل کی ترویج کا ذریعہ بنا لیا اور اس طرح اسلامی احادیث ہی کو اسلام کی عمارت کے منہدم کرنے کا وسیلہ بنا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام اور علم کا وہ دور گزر گیا اور امت اسلامیہ ائمہ حق و انصاف کی بے معرفتی اور ان کے انکار کے نتیجہ میں جاہلیت کی طرف پلٹ گئی اور جاہلیت و کفر کی موت کا سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ روایات کا کھلا ہوا مفہوم یہ تھا کہ:

آپ امت کو اس امر سے آگاہ فرما رہے تھے کہ خبردار ائمہ اہلبیت (ع) کی امامت و قیادت سے غافل نہ ہو جانا اور اہلبیت (ع) سے تمسک کو نظر انداز نہ کر دینا کہ اس کا لازمی نتیجہ دور علم و ہدایت کا خاتمہ اور دور کفر و جاہلیت کی واپسی کی شکل میں ظاہر ہو گا، جس کی طرف حدیث ثقلین، حدیث غدیر اور دوسری سینکڑوں حدیثوں میں اشارہ کیا گیا تھا اور ائمہ اہلبیت (ع) سے تمسک کا حکم دیا گیا تھا۔

معرفت امام زمان (ع) کی ضرورت:

جو شخص بھی امام برحق سے سنے اور احکام حاصل کیے بغیر خدا کی پرستش کرے ، خداوند یقینا اسے رنج و مشقت میں مبتلا کرتا ہے اور جو شخص خداوند کے معین کردہ باب کے علاوہ کسی اور باب سے سنے اور حاصل کرنے کا دعوی کرے وہ مشرک ہے۔

امام خصوصا امام زمان یعنی اپنے زمانہ کے رہبر ،پیشوا ،نمونۂ عمل اور خدا سے رابطہ کے اکلوتے ذریعہ کی معرفت کی ناقابل انکار اہمیت کے پیش نظر پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا:

من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیة ،

جو شخص بھی اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔

بحار الانوار،ج 8 ص 368

اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچاننے کا مطلب یہ ہے کہ امام وقت سے کوئی رابطہ نہ ہونا ہے اور امام سے کوئی رابطہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدائی ہدایت سے تعلق ختم ہو گیا ہے اور اسی کا نام جاہلیت کی موت ،گمراہی اور دین کے دائرے سے خارج ہونا ہے۔

پیغمبر اسلام (ص) کے اسی ارشاد کا تذکرہ فرمانے کے بعد امام محمد باقر (ع) نے فرمایا:

لا یعذر الناس حتیّٰ یعرفوا امامھم،

امام کی معرفت کے سلسلے میں لوگوں کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے۔

بحار الانوار ج 23 ص 88

رہبر و قائد کی معرفت ہر انسان کے اولین و اہم ترین فرائض میں شامل ہے اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابل معافی جرم ہی نہیں بلکہ ناقابل تلافی نقصان بھی ہے۔

سعادت و شقاوت اور قیادت:

خداوند کی نظر میں الٰہی ہدایت انسانوں کی سعادت و خوش نصیبی کی بنیاد ہے، اس کے علاوہ کوئی ہدایت انسان کے شایان شان نہیں ہے، چنانچہ خدائی قوانین کے علاوہ کسی بھی دین و مذہب اور آئین و دستور کو خداوند باطل اور جاہلانہ آئین قرار دیتا ہے۔

دین خدا کا ایک اہم اور بنیادی قانون اور دستور یہ ہے کہ الٰہی ہدایت اور خدا سے رابطہ کے لیے تمام انسانوں کا خدائی نمائندہ اور امام معصوم سے تعلق رکھنا ضروری ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو انسان کا رابطہ خدا سے بھی منقطع ہو جائے گا اور وہ حقیقی ہدایت سے محروم ہو جائے گا۔ اسی لیے قرآن مجید نے انسان کے انجام اور سعادت و شقاوت کو زمانے کے امام سے رابطہ کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔

یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِھمْ

قیامت کا دن وہ ہو گا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔

سورہ اسراء، آیت 71

اس آیۂ کریمہ کے ذیل میں امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں:

اس دن رسول خدا (ص)، امیر المؤمنین (ع)، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اپنی اپنی قوم کے ہمراہ تشریف لائیں گے اور جو شخص بھی جس امام کے دور میں اس دنیا سے رخصت ہوا ہو گا وہ دنیا میں اس امام کے ساتھ محشور ہو گا۔

الفصول المھمہ، ج ص 355

یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے زمانے کے امام کے ساتھ محشور ہو گا تا کہ عدالت الٰہی میں اس سوال کا جواب دے سکے کہ زمانہ کے جس امام کو خدا نے منصوب کیا تھا، جس کی معرفت، اطاعت اور تعلق کو واجب قرار دیا تھا اس کے ساتھ تم نے کیا کیا ؟

خوش نصیب ہیں وہ افراد کہ جو غیر معصوم ، جعلی ، نقلی اور نااہل آئیڈیل کو اپنانے کے بجائے رہبران الٰہی اور آئمہ معصومین (ع) کی پیروی کرتے ہوئے اس اطاعت و پیروی کے نتیجہ میں معصومین (ع) کے جوار میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سعادت ابدی اور خوش نصیبی کی معراج اور حیات طیبہ سے سرفراز ہوں گے۔

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

کیا تم اس بات پر خد اکی حمد و ثنا نہیں کرتے ہو کہ روز قیامت ہر قوم کو اس کی طرف بلایا جائے گا کہ جس سے وہ محبت کرتی تھی (اس دن) ہم رسول خدا (ص) کا دامن تھامے ہوں گے اور تم (شیعہ) لوگ ہمارا دامن۔

بحار الانوار، ج 8 ص 8

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے:

زمین کبھی امام کے وجود سے خالی نہیں ہو سکتی جو حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام کرتا ہے اور خدا کے فرمان کا کہ: اس دن ہم ہر قوم کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے،

کا یہی مطلب ہے۔ پھر آپ (ع)نے فرمایا:

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے زمانے کے امام کے بغیر مر جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

بحار الانوار : ج  8 ،ص 12

اسی آیہ کریمہ کے ذیل میں آپ (ع) کا ارشاد ہے:

قیامت کے دن پروردگار سوال کرے گا کہ کیا تمہارے پروردگار کی عدالت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ وہ ہر قوم سے کہے کہ آج اسی کے پیچھے جاؤ کہ دنیا میں جس کے پیچھے چلتے تھے ؟ سب جواب دیں گے یقینا یہ بات عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ تب سب سے کہا جائے گا کہ الگ الگ ہو جاؤ اور ہر آدمی اس کے ساتھ ہو جائے کہ جس کے پیچھے دنیا میں چلتا تھا۔ اس طرح سب لوگ الگ الگ ہو جائیں گے۔

بحار الانوار،ج 26 ص 8

ہر انسان اپنے قائد ، رہبر، نمونۂ عمل اور امام کے ساتھ محشور ہو گا، اگر اس کا امام جنتی ہو گا تو وہ شخص بھی جنت میں جائے گا اور اگر امام جہنمی ہو گا تو پیروکار بھی جہنم میں جائے گا۔

یہاں تک یہ بات واضح ہو گئی کہ امام بھی دو طرح کے ہوتے ہیں اور پیروی کرنے والے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:

اماموں کا ایک گروہ وہ ہے کہ جو حقیقی اور امام برحق ہے، جنہیں خدا نے اپنے نور علم و ہدایت سے آراستہ کیا ہے، انہیں پاکیزہ اور معصوم بنا کر لوگوں کی ہدایت کے لیے پیش کیا ہے اور ان کے پیروکار بھی حقیقی پیروکار ہیں۔ یہ حضرات حقیقی سعادت اور خوش نصیبی سے ہمکنار ہوں گے۔

دوسرا گروہ کاذب اور جھوٹے اماموں کا گروہ ہے کہ جو خدا کی جانب سے منصوص و منصوب نہیں ہیں نہ ان کے پاس فلاح و سعادت کے لیے لازمی علوم پائے جاتے ہیں۔ ان کے پیرو گمراہ اور راہ سعادت سے دور ہوتے ہیں۔

امام جعفر صادق (ع) ایسے افراد کے بارے میں فرماتے ہیں:

من دان اللّٰه بغیر سماع عن صادق َالزمه اللّٰه البتة الی العناء ومن ادعی سماعا من غیر الباب الذی فتحه اللّٰه فھو مشرک،

جو شخص بھی امام برحق سے سنے اور احکام حاصل کیے بغیر خدا کی پرستش کرے گا ، خداوند یقینا اسے رنج و مشقت میں مبتلا کرتا ہے اور جو شخص خداوند کے معین کردہ باب کے علاوہ کسی دوسرے باب سے سنے اور حاصل کرنے کا دعوی کرے، وہ مشرک ہے۔

اصول کافی: ج 1، ص 377

عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں:

عصر حاضر کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ جو اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے درمیان خاص اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ امام زمان عجل اللہ تعالی کے دور غیبت میں ان کے شیعوں اور چاہنے والوں کی کیا کیا ذمہ داریاں ہیں ؟

تا کہ وہ ان پر عمل پیرا ہو کر آپ (ع) کے ظہور کے لیے راستہ ہموار کریں۔

 1- امام زمان (عج) کی معرفت حقیقی یہ ہے کہ جب تک ہم امام زمان علیہ السلام کو نہیں پہچانیں گے، ان کی معرفت حاصل نہیں کریں گے ہرگز ان کے واقعی انتظار کرنے والے نہیں بن سکتے۔ امام صادق علیہ السلام سے  روایت ہے کہ:

ایک دن امام حسین (ع) اپنے اصحاب کے مجمع میں داخل ہوئے اور خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اکرم (ص) پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا:

يا ايها الناس ان الله ما خلق العباد الا ليعرفوه فاذا عرفوه عبدوه فاذا عبدوه استغنوا بعبادته عن عبادة من سواه، فقال له رجل: بابى انت وامى يابن رسول الله ما معرفة الله؟ قال: معرفة اهل كل زمان امامهم الذى يجب عليهم طاعته ،

اے لوگو! خداوند عالم نے بندوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ اس کی معرفت حاصل کریں، جب اس کی معرفت حاصل کر لیں تو اس کی عبادت کریں اور جب اس کی عبادت کریں تو اس کے غیر کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں۔ ایک شخص نے عرض کیا: اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، اللہ کی معرف سے کیا مراد ہے؟فرمایا: ہر زمانے کے لوگوں کو اپنے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔

بحار الانوار، ج 5، ص 312

كنز الفوائد، كراجكى، ص 151

اسی طرح رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:

من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة الجاهلية،

جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

بحار الانوار، ج 8، ص 368 و ج 32، ص 321

ينابيع الموده، القندوزى، ج 3، ص 372.

امام زمان (عج) کے دوران غیبت میں جن دعاوں کو پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ان کے مضامین کی طرف توجہ کرنے سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ ان دعاؤں میں سے ایک معروف و مشہور دعا جو شیخ صدوق نے کتاب کمال الدین میں نقل کی ہے، پڑھتے ہیں:

اللهم عرفنى نفسك فانك ان لم تعرفنى نفسك لم اعرف نبيك، اللهم عرفنى نبيك فانك ان لم تعرفنى نبيك لم اعرف حجتك، اللهم عرفنى حجتك فانك ان لم تعرفنى حجتك ضللت عن دينى،

خدایا! تو خود ہمیں اپنی معرفت دلا، اگر تو نے اپنی معرفت نہ دلائی تو ہم تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے، بارالہا! ہمیں اپنے نبی کی معرفت دلا، اگر تو نے اپنے نبی کی معرفت نہ دلائی تو ہم تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ پروردگارا! اپنی حجت کی معرفت دلا اگر تو نے اپنی حجت کی معرفت نہ دلائی تو ہم اپنے دین سے گمراہ ہو جائیں گے۔

كمال الدين، ج 2، ص 512.

2- ولایت اہلبیت علیہم السلام سے تمسک اہلبیت (ع) کی ولایت دو طرح کی ہے: ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی۔

ولایت تکوینی: کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اذن الہی سے کائنات کے اندر تصرف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جیسے انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے معجزات کا رونما ہونا ان کے ولایت تکوینی کے مالک ہونے کی دلیل ہے۔

ولایت تشریعی: کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ معصومین (ع) مؤمنین اور اسلامی معاشرے کے سرپرست اور ہادی ہیں۔

لہذا ائمہ معصومین میں سے ہر امام اپنے زمانے میں اپنی امت کا ہادی اور سرپرست رہا ہے اور ان کی ہدایت کرتا رہا ہے۔

عصر غیبت میں امام علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ولایت ائمہ معصومین سے متمسک رہیں۔ ان کے کائنات میں حق تصرف رکھنے کے معتقد اور ان کی ہدایت تشریعی پر عمل پیرا رہیں۔

امام صادق (ع) نے فرمایا:

طوبى لشيعتنا المتمسكين بحبلنا فى غيبة قائمنا،

خوش نصیب ہیں ہمارے وہ شیعہ جو ہمارے قائم کے زمانے میں ہماری ولایت سے متمسک رہیں۔

كمال الدين، ج 2، باب 34، ح 5.

امام سجاد (ع) نے فرمایا:

من ثبت على موالاتنا «ولايتنا» فى غيبة قائمنا اعطاه الله عزوجل اجر الف شهيد من شهداء بدر و احد،

جو شخص ہمارے قائم کی غیبت کے دور میں ہماری دوستی اور ولایت پر ثابت قدم رہے تو خداوند ان ہزار شہیدوں کا اجر و ثواب اسے عطا کرے گا جو بدر و احد میں شہید ہوئے ہوں۔

كمال الدين، ج 1، ص 439.

نیز امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

ياتى على الناس زمان يغيب عنهم امامهم،

ہمارے شیعوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کا امام ان سے غائب ہو جائے گا۔

زرازہ نے پوچھا: اس دور میں لوگ کیا کریں گے ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: يتمسكون بالامر الذى هم عليه حتى يتبين لهم،

وہ اس امر (ولایت) سے متمسک رہیں گے جو ان کے اوپر قرار دی گئی ہو گی یہاں تک کہ ظہور ہو جائے۔

كمال الدين، ج 2، باب 33، ح 44.

3-  انتظار فرج عصر غیبت میں مؤمنین کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ اپنے امام کا شدت سے انتظار کریں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:

افضل اعمال امتى انتظار الفرج،

میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے۔

مجمع البحرين، ص 297.

امام صادق (ع) نے فرمایا:

اقرب ما يكون العباد من الله جل ذكره و ارضى ما يكون عنهم اذا افتقدوا حجة الله جل و عز و لم يظهر لهم و لم يعلموا مكانه و هم فى ذلك يعلمون انه لم تبطل حجة الله جل ذكره و لا ميثاقه، فعندها فتوقعوا الفرج صباحا و مساء،

اس وقت بندے اللہ سے نزدیک ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا جب اللہ کی حجت ان کے درمیان سے غائب ہو اور وہ اس کی جگہ کو نہ پہنچانتے ہوں اس کے باوجود وہ یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا کی حجت ہمارے درمیان سے نہیں اٹھی ہے۔ لہذا وہ صبح و  شام اس کے ظہور کا انتظار کرتے رہیں۔

كافى، ج 2، باب نادر فى الغيبه، ص 127.

امام صادق (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کرتے ہوئے فرمایا:

سياتى قوم من بعدكم، الرجل الواحد منهم له اجر خمسين منكم، قالوا: يا رسول الله! نحن كنامعك ببدر و احد و حنين و نزل فينا القرآن؟ فقال: انكم لو تحملوا لما حملوا لم تصبروا صبرهم،

تم لوگوں کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس میں سے ہر ایک شخص تم میں پچاس افراد کا ثواب کمائے گا۔ کہا : یا رسول اللہ ! ہم جنگ بدر و احد اور حنین میں آپ کے ساتھ تھے اور ہمارے درمیان قرآن نازل ہوا ہے ؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جو کچھ وہ تحمل اور برداشت کریں گے اگر تم کرنا چاہو تو ان جیسا صبر نہیں کر پاو گے۔

كافى، ج 8، ص 37

مكيال المكارم، ج 2، ص 290.

دوسری مرتبہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

انتظار الفرج بالصبر عبادة ،

صبر اور حوصلہ کے ساتھ ظہور کا انتظار کرنا عبادت ہے۔

الدعوات، قطب الدين راوندى، مدرسة الامام المهدى، ص 41.

امام رضا (ع) فرماتے ہیں:

ما احسن الصبر و انتظار فرج ،

کتنا اچھا ہے صبر کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا۔

بحار الانوار، ج 52، ص 129.

امام حسین (ع) نے فرمایا:

له غيبة يرتد فيها اقوام و يثبت فيها على الدين آخرون، فيؤذون و يقال لهم: «متى هذا الوعد ان كنتم صادقين » اما ان الصابر فى غيبته على الاذى و التكذيب بمنزلة المجاهد بالسيف بين يدى رسول الله،

ان (مہدی) کے لیے غیبت کا دور ہو گا کہ جس میں کچھ قومیں دین سے خارج ہو جائیں گی اور کچھ اپنے دین پر باقی رہیں گی۔ پس انہیں اذیت و آزار دی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا: اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ ظہور کا وعدہ کب پورا ہو گا ؟ لیکن جو لوگ اس اذیت و آزار  اور دشمنوں کی طرف سے جھٹلائے جانے کے باوجود ان کی غیبت پر صبر سے کام لیں گے ان کا مقام اس مجاہد کی طرح ہو گا جس نے رقاب رسول خدا (ص) میں تلوار چلائی ہو۔

كمال الدين، ج 1، ص 437.

4- اصلاح نفس منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ خود کی اصلاح کریں، اخلاق حسنہ اور صفات کمالیہ سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کریں۔

امام صادق (ع) نے فرمایا:

من سرّه ان يكون من اصحاب القائم، فلينتظر وليعمل بالورع و محاسن الاخلاق، و هو منتظر،

جو شخص چاہتا ہے کہ امام ہمارے قائم کے اصحاب میں سے ہو، اسے چاہیے کہ انتظار کرے، ورع اور پرہیز گاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپنائے پس ایسا شخص حقیقی منتظر ہو گا۔

غيبت نعمانى، ص 200، ح 16.

اسی طرح امام صادق (ع) نے ایک اور جگہ فرمایا:

ان لصاحب هذا الامر غيبة فليتق الله عبده وليتمسك بدينه،

بتحقیق صاحب امر کے لیے ایک غیبت کا زمانہ ہو گا لہذا اللہ کے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنا ہو گا اور ان کے دین سے متمسک رہنا ہو گا۔

كافى، ج 2، باب فى الغيبه، ص 132.

5- سماجی اصلاح دوران غیبت میں مؤمنین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے کی اصلاح بھی کریں۔ اگر ہر انسان اس ذمہ داری کو سمجھ کر اپنے گھر سے شروع کرے تو یقینا معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا، معاشرے سے برائیاں ختم ہو جائیں گی اور نتیجۃ پورا معاشرہ امام زمان (ع) کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔ امام باقر (ع) نے دوران غیبت شیعوں کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

ليعن قويكم ضعيفكم و ليعطف غنيكم على فقيركم ولينصح الرجل اخاه النصيحة لنفسه،

تم میں سے صاحبان قدرت ضعیفوں کی مدد کریں، غنی اور مالدار فقیروں کی دستگیری کریں اور ہر انسان اپنے بھائی کو مفید نصیحت کرے۔

بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، عماد الدين طبرى الآملى ص 113.

خداوند کا اشاد ہے:

كنتم خير امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون عن المنكر)...

تم بہترین امت ہو جسے انسانوں کے لیے خلق کیا گیا ہے (چونکہ) تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔۔۔

سورہ آل عمران آیت 110

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

ان الامر بالمعروف و النهى عن المنكر سبيل الانبياء و منهاج الصلحاء، فريضة عظيمة بها تقام الفرائض و تامن المذاهب و تحل المكاسب و ترد المظالم و تعمر الارض و ينتصف من الاعداء و يستقيم الامر،

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء کا راستہ اور صلحا کا طریقہ ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم فریضہ ہے جس سے فرائض اور واجبات قائم رہتے ہیں، راستے پر امن رہتے ہیں، معیشت حلال ہوتی ہے، مظالم اور فساد کم ہو جاتے ہیں، زمین آباد ہوتی ہے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور دیگر امور آسانی سے انجام پاتے ہیں۔

الكافى، ج 5، ص 56

التهذيب طوسى، ج 6، ص 180

تحف العقول، ص 227

یقینا اگر تمام مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو مکمل شرائط اور آداب کے ساتھ فریضہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں تو معاشرہ ہدایت کے راستوں پر گامزن ہو جائے اور حکومت قائم آل محمد (ص) کے لیے تمام راستے فراہم ہو جا‏یں گے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: