موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
کیا امام مھدی علیہ السلام کے والد کا نام عبد اللہ ہے ؟
مندرجات: 2011 تاریخ اشاعت: 09 خرداد 2022 - 04:10 مشاہدات: 2626
سوال و جواب » امام حسین (ع)
کیا امام مھدی علیہ السلام کے والد کا نام عبد اللہ ہے ؟

کیا شیعوں کا امام مھدی اور اہل سنت کے امام مھدی اور ہے؟

 


 کیا امام مھدی علیہ السلام کے والد کا نام عبد اللہ ہے ؟

 

مطالب کی فہرست :

 

           ابن تیمیہ کا شبھہ

مختصر جواب

اهل سنت کی معتبر روايات «واسم ابيه اسم ابي».کے بغیر ہیں۔

تحریر کے پہلے حصے کا نتيجه:

تحریر کا دوسرا حصہ : «اسم ابيه كاسم ابي»

اس قسم کی روایات کی سند کی تحقیق کا نتیجہ :

      «اسم ابيه كاسم ابي».کے جعلی ہونے کا اعتراف

اس اضافی جملے کو جعل کرنے کی وجہ :

اهل سنت کے علماء  اور امام مهدي(ع) کا امام حسن عسكري (ع) کے فرزند ہونے کا اعتراف  .

کچھ اشکالات اور ان کے جواب

بحث کے دوسرے حصے کا نتيجه:

کلی نتيجه:

مقدمه:

اھل سنت کے بہت سےعلماء نے امام زمان عجل الله تعالي فرجه الشريف،کے بارے میں شیعہ نظریہ کو باطل ثابت کرنے کے لئے یہ ادعا کیا ہے کہ  روايات کے مطابق امام مھدی علیہ السلام کے والد کا نام عبد الله  ہے ؛

 

ابن تیمیہ کا شبھہ

 جیساکہ وھابی فکر کے موئسس، ابن تیمیہ  نے اس شبهه کو اپنی مشہور کتاب منهاج السنة  میں اس طرح بیان کیا ہے :

أن الاثني عشرية الذين ادّعوا أن هذا هو مذهبهم، مهديهم اسمه محمد بن الحسن. والمهدي المنعوت الذي وصفه النبي صلي الله عليه وسلم اسمه محمد بن عبد اللّه . ولهذا حذفت طائفة ذكر الأب من لفظ الرسول حتي لا يناقض ما كذبت. وطائفة حرّفته، فقالت: جده الحسين، وكنيته أبو عبد اللّه ، فمعناه محمد بن أبي عبد اللّه ، وجعلت الكنية اسما.

شیعہ بارہ امامی لوگوں کا یہ ادعا ہے کہ ان کے بارہ امام ہیں اور ان میں سے بارویں کا نام مهدي، محمد بن الحسن ہے۔ جبکہ جس مھدی کی رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے صفت بیان کی ہے، اس کے مطابق، اس مھدی کا نام محمد بن عبد الله ہے. اسی لئے بعض شیعوں نے «اسم ابيه اسم ابي» کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث سے نکال دیا ہے، تاکہ اس حدیث اور ان کی جھوٹی باتوں میں ٹکروا نہ ہو ۔یہاں تک کہ ایک گروہ نے اس میں بھی تحریف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ امام مهدي کے جد، امام حسين ہیں اور امام حسین کا كنيه ابو عبد الله ہے،لہذا رسول خدا کی روایت کا معنی یہ ہے کہ امام مھدی کا نام محمد بن ابی عبد للہ ہے اور کنیہ کو نام کی جگہ قرار دیا ہے .

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج8، ص254 ـ 260، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

ابن تیمیہ اپنی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتا ہے :

وأحاديث المهدي معروفة، رواها الإمام أحمد وأبو داود والترمذي وغيرهم، كحديث عبد الله بن مسعود عن النبي صلي الله عليه وسلم أنه قال: لو لم يبق من الدنيا إلا يوم لطول الله ذلك اليوم حتي يبعث فيه رجلا من أهل بيتي يواطئ اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي، يملأ الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا.

مھدی کے بارے میں موجود روایات مشہور اور معروف ہیں، ان کو  امام احمد حنبل ، ابو داود ، ترمذي اور دوسروں نے نقل کیا ہے . جیساکہ عبد الله بن مسعود کی رسول خدا صلي الله عليه وآله سے نقل شدہ روایت کہ ہے : اگر دنیا کی زندگی سے ایک دن بھی باقی رہے تو بھی اللہ اس دن کو اتنا طولانی کرئے گا یہاں تک کہ میرے اھل بیت سے ایک فرد کو بھیجے گا جو میرا ہمنام ہوگا اور اس کے والد میرے والد کے ہمنام ہوگا، وہ زمین کو عدل وانصاف سے بر دے گا جس طرح سے یہ زمین ظلم و جور سے برچکی ہوگی ۔.

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج4، ص95، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

اھل سنت کے بعض علماء نے ابن تیمیہ کی انہیں باتوں کا تکرار کیا ہے ،ہم تحریر کو مختصر کرنے کی خاطر ان کی باتوں کو یہاں تکرار نہیں کرتے

ابن تیمیہ کی باتوں کے پیش نظر اس شبہہ کے دو حصے ہیں؛

1. امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ روایات کے مطابق نہیں ہے .

2. شیعوں نے ان روایات کے آخری حصے کو یا ہٹایا ہے یا اس میں تحریف کی ہے تاکہ روایات ان کے عقیدے کے خلاف نہ ہو ۔

اصل بحث شروع کرنے سے پہلے اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ابن تیمیہ نے اییسی روایات سے استناد کیا ہے کہ جو شیعوں کے نذدیک حجت ہی نہیں ہے اور شیعوں کے نذدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ لہذا ابن تیمیہ اور اس کے ہمفکر لوگ ایسی روایات سے استناد کرتے ہوئے شیعوں کو اپنے نظریے کو قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔جیساکہ ہم اس مقالہ میں یہ ثابت کریں گے کہ جن سے ابن تیمیہ وغیرہ استدلال کرتے ہیں یہ روایتیں خود اھل سنت کے نذدیک بھی حجت اور اطمنان بخش دلیل بننے کے قابل نہیں.

مختصر جواب

ہم پہلے مرحلے میں اھل سنت کے نزدیک صحیح سند ایسی روایات سے استناد کریں گے کہ جن میں «اسمه اسمي» {یعنی وہ میرا ہمنام ہوگا} کا لفظ بغیر کسی اضافہ کے ذکر ہوا ہے اور کم از کم ان میں سے دو روایات اھل سنت کی نظر میں صحیح سند ہیں اور یہ روایتیں اھل سنت کی معتبر کتابوں میں رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم کے متعدد اصحاب ، جیسے ابن مسعود، ابو هريره، حذيفه، ابن عباس، ابو سعيد خدري اور عبد الله بن عمر سے نقل ہوئی ہیں۔

اس قسم کی روایات جہاں صحیح طرق سے نقل ہوئی ہے وہاں یہ استفاضه کی حد تک بھی پہنچتی ہیں۔  

لہذا ابن تیمیہ کا یہ ادعا سرے سے ہی باطل اور جھوٹ ہے کہ اس قسم کی روایات میں شیعوں نے دخل اندازی کی ہو ۔کیونکہ یہ شیعوں کی روایات نہیں ہیں ،اسی لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ شیعوں کا نظریہ اھل سنت کی صحیح سند روایات کے مطابق ہے ۔

ہم بحث کے دوسرے مرحلے میں ایسی روایات کی سند کی تحقیق کریں گے کہ جن میں «اسم ابيه اسم ابي»{یعنی ان کے والد میرے والد کے ہمنام ہوں گے] کا جملہ آیا ہے ۔ہم یہ ثابت کریں کہ ان روایات میں صرف ایک طریق کے علاوہ باقی سب ضعیف ہیں اور یہ ایک بھی ایسی راوی سے نقل ہوئی ہے جو مضطرب الحديث ہے کیونکہ یہ کبھی روایت کو اس اضافی جملے کے ساتھ نقل کرتا ہے، کبھی اضافی جملے کے بغیر نقل کرتا ہے لہذا اس اضافی جملے کو ثابت کرنے کے لئے اس کی بات قابل اعتماد نہیں ہے۔ اسی لئے اھل سنت کے ہی علماء نے اعتراف کیا ہے کہ اسی اضطراب کی وجہ سے اس کی روایت حجت نہیں ہے۔۔

جیساکہ ہم اھل سنت کے ہی علماء کے ایسے کلمات ذکر کریں گے کہ جن کے مطابق اس قسم کے اضافی جملے کو مھدویت کے جھوٹی دعوے داروں نے اپنے جھوٹے دعوے پر استدلال کرنے یا شیعہ عقیدے کو باطل ثابت کرنے کے لئے اس جملے کا اضافہ کیا ہے ۔

پہلا حصہ : اهل سنت کی معتبر روايات «واسم ابيه اسم ابي».کے بغیر ہیں۔

جیساکہ جن روایات میں صرف «اسمه اسمي» کے الفاظ کے ہیں ،یہ روایتیں اھل سنت کے ہاں رسول خدا صلي الله عليه وآله سے متعدد طرق سے نقل ہوئی ہیں.

الف)  ابو هريره کے واسطہ  صحيح سند روایت :

اس روایت کے صحیح سند طریق اور نقل میں سے ایک ابوھریرہ  کی نقل کردہ وہ حدیث ہے جس میں رسول خدا صلي الله عليه وآله سے یہ حدیث «اسم ابيه اسم ابي» کے بغیر نقل ہوئی اور اھل سنت کے بہت سے علماء نے اس روایت کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے:

1. ابو عيسي ترمذي:

اھل سنت کے مشھور محدث اور مصنف ، امام ترمذی نے اپنی کتاب، سنن میں پہلے  عبد الله بن مسعود کی روایت کو نقل کیا ہے اور پھر ابو هريره کی روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کی حسن اور صحیح ہونے پر تصريح کی ہے ۔

حدثنا عبد الْجَبَّارِ بن الْعَلَاءِ بن عبد الْجَبَّارِ الْعَطَّارُ حدثنا سُفْيَانُ بن عُيَيْنَةَ عن عَاصِمٍ عن زِرٍّ عن عبد اللَّهِ عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: يَلِي رَجُلٌ من أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي قال عَاصِمٌ وأنا أبو صَالِحٍ عن أبي هُرَيْرَةَ قال: لو لم يَبْقَ من الدُّنْيَا إلا يَوْمٌ لَطَوَّلَ الله ذلك الْيَوْمَ حتي يَلِيَ...

قال أبو عِيسَي: هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابن مسعود کہتا ہے : رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا : میرے اھل بیت سے ایک مرد آئے گا کہ جو میرا ہمنام ہوگا ، ابو هريره نے بھی رسول خدا سے نقل کیا ہے : اگر دنیا کی زندگی سے ایک دن بھی باقی رہے ،تو اللہ اس دن کو اتنا طولانی کرئے گا یہاں تک کہ میرے اھل بیت علیہم السلام سے ایک فرد آئیں گے جو میرا ہمنام ہوگا۔

ابو عيسي نے کہا ہے : یہ روایت حسن اور صحيح ہے.

الترمذي السلمي، ابوعيسي محمد بن عيسي (متوفاي 279هـ)، سنن الترمذي، ج4، ص505، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

 سند کی تحقیق :

جیساکہ خود ترمذی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اسی طرح  الباني نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے ،ہم تکمیل کی خاطر اس کی سند کی تحقیق بھی کرتے ہیں۔

روایت کی سند کچھ اس طرح سے ہے :

1- ترمذي 2- عبد الجبار بن العلاء 3- سفيان بن عيينة 4- عاصم بن بهدلة 5- ابو صالح 6- ابي هريرة 7- رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم

1- محمد بن عيسي بن سورة، أبو عيسي الترمذي صاحب سنن

امام ترمذی اھل سنت کے صحاح سته میں سے ایک کا مصنف ہے لہذا ان کی وثاقت اھل سنت کے ہاں قطعی ہے ۔

2- عبد الجبار بن العلاء بن عبد الجبار العطار

یہ بھی صحیح مسلم کے راویوں میں سے ایک ہے اور ذھبی نے اس کے بارے میں کہا ہے ۔

عبد الجبار بن العلاء بن عبد الجبار الإمام المحدث الثقة أبو بكر البصري

عبد الجبار بن علاء بن عبد الجبار، امام، محدث اور ثقه...ہیں

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج11، ص401، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

3- سفيان بن عيينة بن أبي عمران بن ميمون

اس کی روایات صحاح ستہ میں موجود ہیں اور ذھبی نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

الإمام الكبير حافظ العصر شيخ الإسلام

بڑا امام ،  اپنے عصر کےحافظ ، شيخ الاسلام و...

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج8، ص454، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

4- عاصم بن بهدلة ابي النجود الاسدي الكوفي

یہ بھی قراء ثمانيه میں سے ایک اور صحاح سته کے راویوں میں سے ہے

ذھبی نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

الإمام الكبير مقريء العصر

بڑا امام  اور اپنے زمانے کے مقرء (یعنی اس کے زمانے کے تمام قرائتیں اس تک پہنچتی ہو ) !

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج5، ص256 ش 119، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

5- ذكوان أبو صالح السمان الزيات المدني

یہ بھی صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے ، ذھبی نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

القدوة الحافظ الحجة... ذكره الإمام أحمد فقال ثقة ثقة من أجل الناس وأوثقهم

پيشوا، حافظ، حجت... امام احمد نے اس کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے: ثقہ ہے ثقہ ہے ،یہ بزرگ لوگوں میں سے ہیں اور بزرگوں میں سے سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں !

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج5، ص36، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

6- ابوهريره:

وہ بھی اھل سنت کے نذدیک بڑے اصحاب میں سے ہے ۔

لہذا یہ سند صحیح ہے اور اس کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

2ابن اثير جزري:

ابن اثير جزري نے بھی ابوھریرہ کی روایت کو سنن ترمذي سے نقل کیا ہے۔

ابن أثير الجزري، المبارك بن محمد ابن الأثير (متوفاي544هـ)، معجم جامع الأصول في أحاديث الرسول، ج10، ص330، طبق برنامه الجامع الكبير.

3. جلال الدين سيوطي:

جلال الدين سيوطي نے بھی اسی روایت کو كتاب الفتح الكبير اور جامع الاحاديث میں رسول خدا صلي الله عليه وسلم سے اس طرح نقل کیا ہے :

لاَ تَذْهَبُ الدُّنْيَا وَلاَ تَنْقَضِي حَتَّي يَمْلِكَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِيءُ اسْمُهُ اسْمِي.

السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، الفتح الكبير في ضم الزيادة إلي الجامع الصغير، ج3، ص306، تحقيق: يوسف النبهاني، دار النشر: دار الفكر- بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1423هـ - 2003م

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج8، ص157، طبق برنامه الجامع الكبير.

سیطی نے ابو هريره کی روايت کو الفتح الكبير میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:

يَلِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِيءُ اسْمُهُ اسْمِي لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ يَوْمٌ لَطَوَّلَ الله.

السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، الفتح الكبير في ضم الزيادة إلي الجامع الصغير، ج3، ص307، تحقيق: يوسف النبهاني، دار النشر: دار الفكر- بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1423هـ - 2003م

4. ابن كثير دمشقي:

ابن كثير، نے ابو هريره کی اسی روایت کو ابو عاصم سے کہ جو بخاري اور مسلم کے راویوں میں سے ہے ،نقل کیا ہے اور آخر میں اس کی صحیح ہونے کو بیان کیا ہے :

قال عاصم: وأخبرنا أبو عاصم عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: لو لم يبق من الدنيا إلا يوم لطول الله ذلك اليوم حتي يلي الرجل من أهل بيتي يواطيء اسمه اسمي. هذا حديث حسن صحيح.

الدمشقي، الامام أبو الفداء الحافظ ابن كثير (متوفاي774هـ)، النهاية في الفتن والملاحم، ج1، ص24، تحقيق: ضبطه وصححه: الاستاذ عبد الشافعي، دار النشر: دار الكتب العلمية، لبنان ـ بيروت، الطبعة: الاولي 1408هـ - 1988م

ب) ابن مسعود کے توسط سے نقل شدہ حدیث

اسی روایت کو ابن مسعود سے بھی «واسم ابيه اسم ابي» کے جملے کے بغیر عاصم نے زر بن حبيش کے توسط سے نقل کیا ہے اور زر  بھی صحیح بخاری اور مسلم کے راویوں سے ہے ۔ جیساکہ بہت سے اھل سنت کے بزرگوں نے اسی روایت کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔

یہ روایت ابن مسعود، سے دو طريق سے نقل ہوئی ہے : ایک میں عاصم نے زر سے اور دوسرے میں عمرو بن مرة نے زر  کے واسطے سے ابن مسعود سے نقل کیا ہے۔ ہم یہاں ان دونوں نقل کو نقل کریں کریں گے :

1- عمرو بن مرة نے زر سے اور انہوں نے عبد الله بن مسعود سے صحيح سند نقل کیا ہے :

یہ نقل دو کتابوں میں دو سند کے ساتھ نقل ہوا ہے اور اس میں وہ اضافی جملہ نہیں ہے ۔

پہلا نقل  المعجم الكبير طبراني میں :

حدثنا محمد بن السَّرِيِّ بن مِهْرَانَ النَّاقِدُ ثنا عبد اللَّهِ بن عُمَرَ بن أَبَانَ ثنا يُوسُفُ بن حَوْشَبٍ الشَّيْبَانِيُّ ثنا أبو يَزِيدَ الأَعْوَرُ عن عَمْرِو بن مُرَّةَ عن زِرِّ بن حُبَيْشٍ عن عبد اللَّهِ بن مَسْعُودٍ قال قال رسول اللَّهِ صلي اللَّهُ عليه وسلم لا يَذْهَبُ الدُّنْيَا حتي يَمْلِكَ رَجُلٌ من أَهْلِ بَيْتِي يُوَافِقُ اسْمُهُ اسْمِي.

عبد الله بن مسعود نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک میرے اھل بیت علیہ السلام سے ایک مرد دنیا کا حکم نہ ہو  اور وہ میرا ہمنام ہوگا ۔

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج10، ص131 ش 10208، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

سند کی تحقیق :

اس روایت کی سند کچھ اس طرح سے ہے۔

1- طبراني صاحب المعجم الكبير 2- محمد بن سري بن مهران 3- عبد الله بن عمر بن ابان 4- يوسف بن حوشب 5- ابو يزيد الاعور 6- عمرو بن مرة 7- زر بن حبيش 8- عبد الله بن مسعود (صحابي)

1- طبراني صاحب المعجم الكبير

یہ اھل سنت کے نذدیک اجماعی طور پر ثقہ ہے ،امام ذھبی نے ان کے بارے میں کہا ہے :

  الطبراني هو الامام الحافظ الثقة الرحال الجوال محدث الاسلام علم المعمرين أبو القاسم سليمان بن أحمد بن ايوب بن مطير اللخمي الشامي الطبراني صاحب المعاجم الثلاثة

طبراني، امام ،حافظ ، ثقه، بہت زیادہ سفر کرنے والا، محدث اسلام ! سو سال سے زیادہ عمر کرنے والا اور تین معجم کے مصنف ہیں ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج16، ص119، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

2- محمد بن سري بن مهران

یہ بھی ثقہ ہے، ذھبی نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

محمد بن السري بن مهران الناقد. بغدادي، ثقة.

محمد بن سري بن مهران، علم رجال کا ماہر ، بغدادي اور  ثقه ہے.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج22، ص269، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م.

3- عبد الله بن عمر بن ابان

ذھبی نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

 مشكدانة المحدث الامام الثقة أبو عبد الرحمن عبد الله بن عمر بن محمد ابن ابان بن صالح بن عمير القرشي الاموي مولي عثمان رضي الله عنه

مشكدانه، محدث ، امام  اور ثقه، ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج11، ص155، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

4- يوسف بن حوشب

ابن ابي حاتم رازي متوفاي 327، کہ جو اهل سنت کے قدیمی ترین ائمه جرح و تعديل میں سے ہے ،وہ اس راوی کے بارے میں کہتا ہے :

يوسف بن حوشب أخو العوام بن حوشب روي عن عبد الله بن سعيد بن أبي هند روي عنه عبد الله بن عمر بن أبان وأبو سعيد الأشج سمعت أبي يقول ذلك وسألته عنه فقال شيخ.

يوسف بن حوشب... میں نے اپنے والد سے اس کے بارے میں سوال کیا ، تو انہوں نے کہا یہ  «شيخ» ہے.

ابن أبي حاتم الرازي التميمي، ابومحمد عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس (متوفاي 327هـ)، الجرح والتعديل، ج9، ص220 ش 921، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولي، 1271هـ ـ 1952م.

اھل سنت کے علماء کے مطابق، ابن ابي حاتم کے کلمات میں شیخ، توثیق کے الفاظ میں سے ایک ہے، جیساکہ ذھبی کہتا ہے :

قول أبي حاتم شيخ قال وليس هذا بتضعيف قلت بل عده ابن أبي حاتم في مقدمة كتابه من ألفاظ التوثيق وكذا الخطيب البغدادي في الكفاية

ابي حاتم کہتا ہے وہ شيخ ہے ،ان کا مقصد تضعيف کرنا نہیں ہے، بلكه ابن ابي حاتم نے اپنی کتاب کے مقدمے میں اس کو توثیق کےالفاظ میں سے شمار کیا ہے ۔ اسی طرح خطيب بغدادي نے الكفاية میں یہی کہا ہے ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج8، ص143، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

لہذا یہ بھی اھل سنت کے علماء کے نذدیک ثقہ ہے ۔

5- خلف بن حوشب الكوفي ابويزيد الاعور.

ابن حجر عسقلاني نے تقريب التهذيب میں اس کے بارے میں کہا ہے :

خلف بن حوشب الكوفي ثقة من السادسة مات بعد الأربعين خت عس

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص194، رقم: 1728، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

مزي نے تهذيب الكمال میں اس کے بارے میں لکھا ہے :

أثني عليه سفيان بن عُيَيْنَة. وَقَال النَّسَائي: ليس به بأس. وذكره ابنُ حِبَّان في كتاب"الثقات

سفيان بن عيينه نے اس کی مدح کی ہے، نسائي نے اس کے بارے میں کہا ہے ،اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ، ابن حبان نے اس کو ثقات میں ذکر کیا ہے  !

المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج8 ص280، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

6- عمرو بن مرة :

ابن حجر نے اس کے بارے میں کہا ہے:

عمر بن مرة الشني بفتح المعجمة وتشديد النون بصري مقبول من الرابعة د ت

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1، ص417، رقم: 4970، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

7- زِرّ بن حبيش:

ابن حجر نے  اس کے بارے میں لکھا ہے :

زر بكسر أوله وتشديد الراء بن حبيش بمهملة وموحدة ومعجمة مصغر بن حباشة بضم المهملة بعدها موحدة ثم معجمة الأسدي الكوفي أبو مريم ثقة جليل مخضرم مات سنة إحدي أو اثنتين أو ثلاث وثمانين وهو بن مائة وسبع وعشرين ع۔

یہ ثقہ اور جلیل القدر ہے

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1، ص215، رقم: 2008، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

8- عبد الله بن مسعود:

آپ اصحاب میں سے ہیں ،اھل سنت کے علماء کے نذدیک صحابی کے بارے میں تحقیق ضروری نہیں ہے ۔

لہذا اس کی سند بھی صحیح ہے ۔

دوسرا نقل ،تاريخ واسط سے :

حدثنا أسلم قال ثنا محمد بن عبدالرحمن بن فهد بن هلال قال ثنا عبدالله بن علي السمسار قال ثنا يوسف بن حوشب قال ثنا أبو يزيد الأعور عن عمرو بن مرة عن زر بن حبيش عن عبدالله بن مسعود عن النبي صلي الله عليه وسلم قال لا تذهب الدنيا حتي يملك رجل من أهل بيتي يواطئ اسمه اسمي.

عبد الله بن مسعود نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے: دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک میرے اھل بیت میں سے میرا ہمنام ایک مرد دنیا پر حکومت نہ کرئے.

الواسطي، أسلم بن سهل الرزاز (متوفاي292هـ)، تاريخ واسط، ج1، ص105، تحقيق: كوركيس عواد، ناشر: عالم الكتب - بيروت، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

اس سند میں، عبد الله بن علي السمسار ہے کہ جو مجهول ہے، لیکن پھر بھی پہلے والے نقل کے مطابق یہ بھی يوسف بن حوشب ، تک صحيح سند ہے ، اس کے مجهول ہونےکی وجہ سے روایت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ،لہذا اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں اور یہ پہلے والی روایت کے لئے موئد بھی ہوگی ۔

2- نقل توسط عاصم بن بهدلة (ثقه مضطرب الحديث) از زر از عبد الله بن مسعود:

اگرچہ اھل سنت کے علماء نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے لیکن پھر بھی عاصم بن بهدلة کے بارے میں کہا ہے کہ مضطرب الحدیث ہے۔کیونکہ اس نے کبھی اس کو اضافی جملے کے ساتھ نقل کیا ہے اور کبھی اس جملے کے بغیر نقل کیا ہے،لیکن پھر بھی اھل سنت کے علماء کے مطابق جس روایت میں اضافی جملہ نہیں ہے اس کی سند صحیح ہے اور شیعہ اس سند سے اپنے نظرِے کی صحت پر استدلال کر سکتے ہیں۔لیکن جو متن اضافی جملے کے ساتھ نقل ہوا ہے اور زر نے عبد الله بن مسعود سے نقل کیا ہے، یہ والی حدیث راوی کے مضطرب الحدیث ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد اور قابل استدلال نہیں ہے ۔

 

1. احمد حنبل (متوفاي 241هـ)نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے :

حنبلی مذھب کے پیشوا احمد حنبل نے اپنی مسند میں ۵ روایت اس اضافی جملے کے بغیر عاصم  اور زر بن حبيش کے توسط سے نقل کیا ہے اور  اس اضافی جملے کے ساتھ ایک روایت بھی نقل نہیں کیا ہے اور یہی دلیل ہے کہ یہ اضافی جملے والی روایت موجود ہی نہیں تھی ۔

حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا سُفْيَانُ بن عُيَيْنَةَ ثنا عَاصِمٌ عن زر عن عبد اللَّهِ عَنِ النبي صلي الله عليه وسلم: لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حتي يلي رَجُلٌ من أَهْلِ بيتي يواطي اسْمُهُ اسمي.

رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا : اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک میرے اھل بیت علیہم السلام سے ایک فرد حکومت نہ کرئے اور وہ میرا ہمنام ہوگا۔

حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا عُمَرُ بن عُبَيْدٍ عن عَاصِمِ بن أبي النَّجُودِ عن زِرِّ بن حُبَيْشٍ عن عبد اللَّهِ قال قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم: لاَ تنقضي الأَيَّامُ وَلاَ يَذْهَبُ الدَّهْرُ حتي يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ من أَهْلِ بيتي اسْمُهُ يواطي اسمي.

رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: دنیا کے دن اس وقت تک ختم نہیں ہوگا۔ جب تک عرب سے میرے اھل بیت کا ایک مرد حاکم نہیں ہوگا اور وہ میرا ہمنام ہوگا ۔

و...

الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج1، ص376 و 430 و 448، ح3571 و3572 و3573 و4098 و4279، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر.

2ابو داود سجستاني(متوفاي275هـ)  سنن میں نقل کیا ہے :

ابو داود سجستاني نے بھی اسی روایت کو اس اضافی جملے کے بغیر نقل کیا ہے :

وقال في حديث سُفْيَانَ: لَا تَذْهَبُ أو لَا تَنْقَضِي الدُّنْيَا حتي يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ من أَهْلِ بَيْتِي يواطيء اسْمُهُ اسْمِي.

رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی ۔ جب تک عرب سے میرے اھل بیت کا ایک مرد حاکم نہیں ہوگا اور وہ میرا ہمنام ہوگا۔

 السجستاني الأزدي، ابوداود سليمان بن الأشعث (متوفاي 275هـ)، سنن أبي داود، ج4، ص106، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.

3ابو عيسي ترمذي (متوفاي279هـ) در سنن:

ترمذي کہ جو اھل سنت کے قابل اعتماد محدث ہیں انہوں نے بھی اسی روایت کو اس جملے «يواطي اسمه اسمي» کے ساتھ نقل کیا ہے  اور آخر میں بھی اس کو حسن و صحیح قرار دیا ہے۔

حدثنا عُبَيْدُ بن أَسْبَاطِ بن مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ قال: حدثني أبي حدثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عن عَاصِمِ بن بَهْدَلَةَ عن زِرٍّ عن عبد اللَّهِ قال قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم: لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حتي يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ من أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي.

قال أبو عِيسَي: وفي الْبَاب عن عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيح.

رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: دنیا کے دن اس وقت تک ختم نہیں ہوگا۔ جب تک عرب سے میرے اھل بیت کا ایک مرد حاکم نہیں ہوگا اور وہ میرا ہمنام ہوگا ۔

ابو عيسي نے کہا ہے : اسی سلسلے میں حضرت علي ، ابو سعيد ، ام سلمه اور ابو هريره سے بھی روایت نقل ہوئی ہے اور یہ روایت حسن اور صحیح ہے ۔

دوسری روایت بھی اس طرح ہے ۔

حدثنا عبد الْجَبَّارِ بن الْعَلَاءِ بن عبد الْجَبَّارِ الْعَطَّارُ حدثنا سُفْيَانُ بن عُيَيْنَةَ عن عَاصِمٍ عن زِرٍّ عن عبد اللَّهِ عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: يَلِي رَجُلٌ من أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي قال عَاصِمٌ وأنا أبو صَالِحٍ عن أبي هُرَيْرَةَ قال: لو لم يَبْقَ من الدُّنْيَا إلا يَوْمٌ لَطَوَّلَ الله ذلك الْيَوْمَ حتي يَلِيَ.

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ۔

قال أبو عِيسَي: هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

الترمذي السلمي، ابوعيسي محمد بن عيسي (متوفاي 279هـ)، سنن الترمذي، ج5، ص505، ح2230 و1331. تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت

4. ابوسعيد شاشي (متوفاي 335هـ) نے مسند میں لکھا ہے :

شاشي کہ جو قرن سوم کے اھل سنت کے محدثین میں سے ہیں،انہوں نے بھی اسی روایت کو عاصم سے اس اضافی جملے کے بغیر نقل کیا ہے:

حدثنا أحمد بن زهير نا عبد الله بن داهر الرازي نا عبد الله بن عبد القدوس عن الأعمش عن عاصم بن ابي النجود عن زر عن عبد الله بن مسعود وقال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: لا تقوم الساعة حتي يملك رجل من اهل بيتي يواطي اسمه اسمي يملأ الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا.

رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک عرب سے میرے اھل بیت کا ایک مرد حاکم  اور مالک نہیں ہوگا اور وہ میرا ہمنام ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح سے یہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی .

الشاشي، ابوسعيد الهيثم بن كليب (متوفاي 335هـ)، مسند الشاشي، ج2، ص110 و 111، ح635 و 636، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر:مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة، الطبعة: الأولي، 1410هـ.

5. ابو سعيد اعرابي(متوفاي 340هـ) در معجم

اعرابي، نے بھی ایک روایت کو اضافی جملے کے بغیر عاصم اور زر بن حبيش سے نقل کیا ہے :

نا محمد، نا أبو الجواب، نا عمار بن رزيق، عن عاصم بن أبي النجود، عن زر، عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «لا تنقضي الدنيا حتي يلي من هذه الأمة رجل من أهل بيتي يواطئ اسمه اسمي»

البصري الصوفي، أبو سعيد أحمد بن محمد بن زياد بن بشر بن درهم (متوفاي340هـ) معجم ابن الأعرابي، ج2، ص290، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

6ابن حبان تميمي (متوفاي 354هـ) نے  صحيح میں نقل کیا ہے :

ابن حبان کہ جو اهل سنت کے بڑے محدثین میں سے ہیں ،انہوں نے عاصم کی روایت کو اس جملے کے بغیر نقل کیا ہے:

وَحَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الْحُبَابِ فِي عَقِبِهِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو شِهَابٍ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ عَنْ زِرٍّ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم: لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلا لَيْلَةٌ لَمَلَكَ فِيهَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي اسْمُهُ اسْمِي.

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج13، ص284، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر:مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: ، 1414هـ ـ 1993م.

انہوں نے ایک دوسری روایت کو زر بن حبيش سے بھی اسی طرح نقل کیا ہے :

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَوْنٍ الرَّيَّانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ شُبْرُمَةَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم: يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أُمَّتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي وَخُلُقُهُ خُلُقِي فَيَمْلَؤُهَا قِسْطًا وَعَدْلا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا.

رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: میری امت سے ایک شخص ظہور کرے گا جو میرا ہم نام اور ہم خلق ہوگا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح یہ زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگا.

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج15، ص237،ح6825، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر:مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م.

البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ؛

البانی کہ جو وھابیوں کے مفتیوں میں سے ہے اس نے ابن مسعود کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے :

الباني، محمد ناصر، صحيح الجامع الصغير، ج1، ص329، ح7275. طبق برنامه مكتبة الشاملة

اس روایت کو اھل سنت کے دوسرے علماء نے بھی نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے ؛

اس روایت کو اسی مضمون کے ساتھ نقل کرنے والی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:

الشافعي، أبو بكر محمد بن عبد الله بن إبراهيم (متوفاي354هـ)، كتاب الفوائد (الغيلانيات)، ج4، ص383، ح414، تحقيق: حلمي كامل أسعد عبد الهادي، دار النشر: دار ابن الجوزي - السعودية / الرياض، ، الطبعة: الأولي 1417هـ - 1997م

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ص 131، ح10208 و ص133، ح10214 و 10215 و ص134، روايات 10217، 10218، 10219، 10220، 10221 و ص135 روايات 10223 و10225 وص 136 روايات 10226، 10227و 10229 و ص137روايت10230تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

القطيعي، أبو بكر أحمد بن جعفر بن حمدان (متوفاي368هـ)، جزء الألف دينار وهو الخامس من الفوائد المنتقاة والأفراد الغرائب الحسان، تحقيق: ج1، ص202، بدر بن عبد الله البدر، دار النشر: دار النفائس - الكويب، الطبعة: الأولي1414هـ - 1993م

الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفاي430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج5، ص75، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ.

الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفاي430هـ)، تاريخ أصبهان، ج1، ص386، ج2، ص134، ج5، ص4، ج7، ص445، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1410 هـ-1990م.

الداني، أبو عمرو عثمان بن سعيد المقرئ (متوفاي444هـ)، السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها، ج5، ص1042، احاديث: 556 و562 و563 و567566، و568.

تحقيق: د. ضاء الله بن محمد إدريس المباركفوري، دار النشر: دار العاصمة - الرياض، الطبعة: الأولي 1416

المقدسي الشافعي السلمي، جمال الدين، يوسف بن يحيي بن علي (متوفاي: 685 هـ)، عقد الدرر في أخبار المنتظر، ج1، ص90 - 91، طبق برنامه الجامع الكبير.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج11، ص472، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج18، ص379، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م.

إبن خلدون الحضرمي، عبد الرحمن بن محمد (متوفاي808 هـ)، مقدمة ابن خلدون، ج1، ص312، ناشر: دار القلم - بيروت - 1984، الطبعة: الخامسة.

 

ج) حذيفه بن يمان کی نقل کردہ روایت :

حذيفه، کہ جو رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم کے اصحاب میں سے ایک ہیں، انہوں نے بھی اس روایت کو اس جملے «اسم ابيه اسم ابي» کے بغیر نقل کیا ہے:

1. مقدسي شافعي:

مقدسي شافعي نے اس روایت کو اپنی کتاب میں اس طرح نقل کیا ہے :

وعن حذيفة رضي الله عنه قال: خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم فذكرنا رسول الله صلي الله عليه وسلم بما هو كائن، ثم قال: لو لم يبق من الدنيا إلا يوم واحد لطول الله عز وجل ذلك اليوم، حتي يبعث في رجلاً من ولدي اسمه اسمي. فقام سلمان الفارسي رضي الله عنه فقال: يا رسول الله، من أي ولدك؟ قال: هو من ولدي هذا، وضرب بيده علي الحسين عليه السلام.

أخرجه الحافظ أبو نعيم، في صفة المهدي.

حذيفه کہتے ہیں : رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور جو کچھ بعد میں رونما ہونے والے ہیں ان کے بارے میں ہمیں خبر دی اور فرمایا: دنیا کی عمر کا ایک دن بھی باقی ہو پھر بھی اللہ اس کو اتنا طولانی کرئے گا ،یہاں تک کہ میری ذریت سے ایک شخص کو بھیجے گا جو میرا ہمنام ہوگا ۔سلمان  فارسي نے پوچھا، رسول الله وہ آپ کے کس فرزند کی نسل سے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا: اس فرزند کی نسل سے یہ کہہ کر اپنا ہاتھ حسين عليه السلام پر مارا. اس روایت کو  ابو نعيم اصفهاني نے  «صفة المهدي» نامی کتاب میں نقل کیا ہے .

المقدسي الشافعي السلمي، جمال الدين، يوسف بن يحيي بن علي (متوفاي: 685 هـ)، عقد الدرر في أخبار المنتظر، ج1، ص82، طبق برنامه الجامع الكبير.

2. محب الدين طبري:

محب الدين طبري نے بھی جناب حذيفه کی اسی روایت کو اضافی جملے کے بغیر نقل کیا ہے :

عن حذيفة أن النبي صلي الله عليه وسلم قال لو لم يبق من الدنيا إلا يوم واحد لطول الله ذلك اليوم حتي يبعث رجلا من ولدي إسمه كاسمي فقال سلمان: من أي ولدك يا رسول الله؟ قال: من ولدي هذا وضرب بيده علي الحسين.

حذيفه کہتے ہیں : رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: دنیا کی عمر کا ایک دن بھی باقی ہو پھر بھی اللہ اس کو اتنا طولانی کرئے گا ،یہاں تک کہ میری ذریت سے ایک شخص کو بھیجے گا جو میرا ہمنام ہوگا ۔سلمان  فارسي نے پوچھا: یا رسول الله وہ آپ کے کس فرزند کی نسل سے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا: اس فرزند کی نسل سے یہ کہہ کر اپنا ہاتھ حسين عليه السلام پر مارا۔

الطبري، ابوجعفر محب الدين أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفاي694هـ)، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، ج1، ص136، ناشر: دار الكتب المصرية - مصر

یہ روايت طبري کی نظر میں بھی قابل قبول ہےکیونکہ وہ اس روایت کو نقل کرنے سے پہلے ایک اور روایت کو نقل کرتا ہے جو یہ کہتی ہے : مهدي جنان فاطمه سلام الله عليها کی نسل سے ہوں گے . طبري اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس  روایت کو نقل کرتا ہے :

فيحمل ما ورد مطلقا فيما تقدم علي هذا المقيد.

اب وہ روایتیں کہ جو مطلق نقل ہوئی ہیں وہ اس روایت کے ذریعے مقید ہوگی لہذا امام مھدی  امام حسين عليه السلام کی نسل سے ہوں گے .

الطبري، ابوجعفر محب الدين أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفاي694هـ)، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، ج1، ص137، ناشر: دار الكتب المصرية - مصر

3. محمد بن ابي بكر الحنبلي متوفاي 751:

وقال الطبراني حدثنا محمد بن زكريا الهلالي حدثنا العباس ابن بكار حدثنا عبد الله بن زياد عن الأعمش عن زر بن حبيش عن حذيفة قال خطبنا النبي صلي الله عليه وسلم فذكر ما هو كائن ثم قال لو لم يبق من الدنيا إلا يوم واحد لطول الله ذلك اليوم حتي يبعث رجلا من ولدي اسمه اسمي ولكن هذا إسناد ضعيف.

الزرعي الدمشقي الحنبلي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أبي بكر أيوب (مشهور به ابن القيم الجوزية ) (متوفاي751هـ)، المنار المنيف في الصحيح والضعيف، ج1، ص148، ح339، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

4. جلال الدين سيوطي:

جلال الدين سيوطي، کہ جو اھل سنت کے مشھور مفسر اور محدث ہیں ،انہوں نے بھی حذيفه کی روایت کو ابو نعيم کے واسطے سے نقل کیا ہے .

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، الحاوي للفتاوي في الفقه وعلوم التفسير والحديث والاصول والنحو والاعراب وسائر الفنون، ج2، ص60، تحقيق: عبد اللطيف حسن عبد الرحمن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1421هـ - 2000م.

د: از طريق عبد الله بن عمر:

رسول خدا صلي الله عليه وآله نے اس روایت کو اضافی جملے کے بغیر نقل کرنے والوں میں سے ایک عبد الله بن عمر عمر ہے.

مقدسي شافعي نے کتاب «عقد الدرر» میں عبد الله بن عمر کی روايت کو اس طرح سے نقل کیا ہے ؛

وعن عبد الله بن عمر، رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: يخرج في آخر الزمان رجل من ولدي، اسمه كاسمي، وكنيته ككنيتي، يملأ الأرض عدلاً، كما ملئت جوراً.

عبد الله بن عمر کہتا ہے : رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: آخری زمان میں میرے فرزندوں میں سے ایک مرد خروج کرئے گا کہ جو میرا ھمنام اور ہم کنیہ ہوگا ۔اور وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرھ دنیا ظلم و ستم سے بھر چلی ہوگی.

المقدسي الشافعي السلمي، جمال الدين، يوسف بن يحيي بن علي (متوفاي: 685 هـ)، عقد الدرر في أخبار المنتظر، ج1، ص95، طبق برنامه الجامع الكبير.

ه: ابن عباس کی نقل کردہ حدیث :

اب عباس سے زربن حبيش نے اسی روایت کو  نقل کیا ہے اور اس میں بھی «واسم ابيه اسم ابي» والا جملہ نقل نہیں ہوا ہے ۔ ابو سعيد شاشي جیسے اھل سنت کے علماء اور محدثین نے اس روایت کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے :

حدثنا ابن أبي خيثمة نا يعقوب بن كعب الأنطاكي نا أبي عن عبد الملك بن أبي غنية عن عاصم عن زر عن ابن عباس قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: لا تنقضي الدينا حتي يبعث الله رجلا من أمتي يواطي اسمه اسمي.

ابن عباس نے کہتا  ہے کہ رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا : دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک میری امت سے ایک مرد کو مبعوث نہیں کرئے گا کہ جو میرا ہمنام ہوگا۔

الشاشي، ابوسعيد الهيثم بن كليب (متوفاي 335هـ)، مسند الشاشي، ج2، ص111، ح636، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر:مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة، الطبعة: الأولي، 1410هـ.

سعد الدين تفتازاني کہ جو اھل سنت کے مشہور اور علم كلام کے ماہر علماء میں سے ہے انہوں نے  شرح مقاصد میں کہا ہے : حضرت مهدي عليه السلام،کے خروج کے بارے میں بہت سی صحیح روایات نقل ہوئی ہیں ، انہیں میں سے ایک ابن عباس کی یہ روایت ہے :

خاتمة مما يلحق بباب الإمامة بحث خروج المهدي ونزول عيسي صلي الله عليه وسلم وهما من أشراط الساعة وقد وردت في هذا الباب أخبار صحاح وإن كانت آحادا ويشبه أن يكون حديث خروج الدجال متواتر المعني أما خروج المهدي فعن ابن عباس رضي تعالي عنه أنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا تذهب الدنيا حتي يملك العرب رجل من أهل بيتي يواطيء اسمه اسمي.

خاتمه: وہ چیزیں کہ جو امامت سے مربوط ہیں ان میں سے ، مهدي کا  ظهور ، حضرت عيسي کا نزول  ہے اور یہ دو واقعات ہیں کہ جو قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں ،اس سلسلے میں صحیح سند روایات نقل ہوئی ہیں اگرچہ یہ روایات خبر واحد ہیں۔ دجال کے خروج کا واقعہ بھی ہمارے نذدیک متواتر ہے اور ظہور امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں بھی ابن عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک میرے اھل بیت سے ایک مرد، عرب کا حاکم ہوگا اور وہ میرا ہمنام ہوگا ۔

التفتازاني، سعد الدين مسعود بن عمر بن عبد الله (متوفاي 791هـ)، شرح المقاصد في علم الكلام، ج2، ص307، ناشر: دار المعارف النعمانية - باكستان، الطبعة: الأولي، 1401هـ - 1981م.

ابو سعيد خدري کی روایت :

رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم کی ان روایتوں میں سے ایک کہ جو «واسم ابيه اسم ابي» کے بغیر نقل ہوئی ہے وہ ابو سعيد خدري کے توسط سے نقل شدہ روایت ہے .

ابن حماد، نے ابو سعيد خدري کی روایت کو اس طرح نقل کیا ہے :

حدثنا الوليد عن أبي رافع عمن حدثه عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال اسم المهدي اسمي.

المروزي، نعيم بن حماد أبو عبد الله متوفاي 288هـ)، كتاب الفتن، ج1، ص368، ح1080، تحقيق: سمير أمين الزهيري، دار النشر: مكتبة التوحيد - القاهرة، الطبعة: الأولي 1412

ز۔ امير مومنین علي بن أبي طالب عليه السلام کی نقل کردہ حدیث

1- ابو داود سجستاني نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے :

ابو داود نے اپنی سنن میں امیر المومنین علیہ السلام سے مختلف سند کے ساتھ ایک روایت نقل کی ہے :

قال أبو دَاوُد حُدِّثْتُ عن هَارُونَ بن الْمُغِيرَةِ قال ثنا عَمْرُو بن أبي قَيْسٍ عن شُعَيْبِ بن خَالِدٍ عن أبي إسحاق قال قال عَلِيٌّ رضي الله عنه وَنَظَرَ إلي ابنة الْحَسَنِ فقال إِنَّ ابْنِي هذا سَيِّدٌ كما سَمَّاهُ النبي صلي الله عليه وسلم وَسَيَخْرُجُ من صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّي بِاسْمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ في الْخُلُقِ ولا يُشْبِهُهُ في الْخَلْقِ ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةً يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا

اميرالمومنین علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کی طرف رخ کر کے فرمایا: میرا یہ بیٹا سید اور سرور ہیں ،  پیغمبر (ص) نے انہیں اس لقب سے نوازا،ان کی نسل سے ایک فرزند دنیا میں آئے گا کہ جو آپ کے نبی کے ہمنام اور اخلاق میں ان کے مشابۃ ہوں گے لیکن شکل و صورت میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شبیہہ نہیں ہوگے ۔{ پھر اس کے بعد دنیا کو عدل و انصاف سے بھرنے کے واقعے کا ذکر کیا۔

 السجستاني الأزدي، ابوداود سليمان بن الأشعث (متوفاي 275هـ)، سنن أبي داود، ج4، ص108 ش 4290، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.

ہم نے اس روایت کی ذیل کے ایڈرس میں مکمل طور پر تحقیق کی ہے ؛

http://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?bank=question&id=11980

2- نعيم بن حماد  نے الفتن میں نقل کیا ہے :

نعيم بن حماد نے اپنی کتاب" فتن" میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

حدثنا غير واحد عن ابن عياش عمن حدثه عن محمد بن جعفر عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال سمي النبي صلي الله عليه وسلم الحسن سيدا وسيخرج من صلبه رجل اسمه اسم نبيكم يملأ الأرض عدلا كما ملئت جورا.

المروزي، أبو عبد الله نعيم بن حماد (متوفاي288هـ)، كتاب الفتن، ج1، ص374 ش 1113، تحقيق: سمير أمين الزهيري، ناشر: مكتبة التوحيد - القاهرة، الطبعة: الأولي، 1412هـ.

تحریر کے پہلے حصے کا نتيجه:

رسول خدا صلي الله عليه وآله سے حضرت امام مهدي عليه السلام  کے مبارک نام کے بارے میں جو روایتیں نقل ہوئی ہیں ،یہ روایتیں شيعه نظریے کے مطابق اور موافق ہیں - یعنی «واسم ابيه اسم ابي»- کے جملے کے بغیر اھل سنت کی معتبر کتابوں میں کئی طرق اور اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہےاور اھل سنت کے اصول اور اھل سنت کے ہی علماء کے اعتراف کے مطابق ان میں سے کم از کم دو سندیں صحیح ہیں، ایک وہ سند جو ابو هريره تک پہنچتی ہیں ، دوسری وہ سند کہ جسے عمرو بن مرة نے  عبد الله بن مسعود سے نقل کیا ہے .اسی طرح جو سند عاصم بن  بهدلة کے توسط سے جناب عبد اللہ بن مسعود سے نقل ہوئی ہے، یہ سند بھی اھل سنت کے علماء کے ںذدیک صحیح ہے ،لیکن خود عاصم مضطرب الحديث ہے .

اور اس سلسلے میں موجود بقیہ روایتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں  کہ اصل روایت میں «واسم ابيه اسم ابي»- والا اضافی جملے نہیں ہے اور جن روایتوں میں «اسمه اسمي» کا جملہ موجود ہے ،یہ روایتیں  مستفیض یا متواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہیں ۔

لہذا ابن تیمیہ اور اس جیسے باقی علماء نے یہ جو دعوا کیا تھا کہ اس اضافی جملے کو ہٹانا اور اس روایت میں تحریف کرنا شیعوں کا کام ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ادعا بغیر کسی دلیل کے ہے اور یہ حقیقت میں اھل سنت کی کتابوں میں موجود ان روایات سے جھالت یا حقیقت کو چھپانے کی سازش کا نتیجہ ہے ۔

 

تحریر کا دوسرا حصہ : «اسم ابيه كاسم ابي»

 اھل سنت کی وہ روایات جو  «اسم ابيه كاسم ابي»کے اضافی جملے کے ساتھ ہیں۔

1. اس قسم کی روایات کی سند کی تحقیق:

جیساکہ اس سلسلے کی پہلی قسم والی روایات میں یہ «واسم ابيه اسم ابي» ذکر نہیں تھا اور یہ ثابت بھی ہوا کہ اھل سنت کے علماء کے پیش کردہ اصول کے مطابق ان روایات کی سند کامل اور صحیح ہے ،یہاں تک کہ یہ روایتیں استفاضہ اور تواتر کی حد تک بھی پہنچتی ہیں ۔

اس سلسلے کی دوسری روایات سے شیعہ نظریے کے خلاف استدلال ہوا ہے لیکن یہ روایتیں زیادہ تر  ضعیف ہیں لہذا ان کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اب ہم یہاں ان کی سند چک کرتے ہیں :

أ. تميم نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے :

ابن حبان نے اس روايت کو اپنی كتاب" المجروحين" میں نقل کیا ہے :

(عبد الله بن السري المدائني) روي عن أبي عمران الجوني عن مجالد بن سعيد عن الشعبي عن تميم الداري قال: قلت يا رسول الله رأيت للروم مدينة يقال لها أنطاكية ما رأيت أكثر مطرا منها فقال النبي(ص): نعم وذلك أن فيها التوراة وعصا موسي ورضراض الألواح وسرير سليمان بن داود في غار... فلا تذهب الأيام ولا الليالي حتي يسكنها رجل من عترتي اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي يشبه خلقه لخلقي وخلقه خلقي يملأ الدنيا قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا.

تميم داري کہتا ہے : میں نے رسول خدا (ص) سے عرض کیا کہ روم کا ایک شہر ہے اس کا نام انطاكيه ہے ،میں نے اس سے زیادہ بارش ہونے والا شہر نہیں دیکھا ، تو رسول خدا (ص) نے فرمایا : ہاں ، اس شھر میں توارات ، جناب موسي علیہ السلام کا عصا  ، لوحوں کے کچھ تکڑے اور جناب سليمان بن داود کا تخت وہاں  کے غار میں ہے ... دن اور  رات ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری عترت سے ایک مرد وہاں ساکن ہوں گے وہ میرا ہمنام ہوگا اور اس کا باپ بھی میرے والد کے ہمنام ہوگا ور اخلاق میں میرے شبھہ ہوں گے ۔ لیکن شکل میں میرا شبیہہ نہیں ہوگا ۔ وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا ،جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ۔

التميمي البستي، الإمام محمد بن حبان بن أحمد بن أبي حاتم (متوفاي354هـ)، المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين، ج2، ص34، تحقيق: محمود إبراهيم زايد، دار النشر: دار الوعي- حلب، الطبعة: الأولي 1396هـ

ابن حبان اور اهل سنت کے دوسرے علماء نے اس روایت کے جعلي ہونے کو بیان کیا ہے :

ابن حبان بستي نے تميم داري کی اس روايت کو نقل کرنے سے پہلے عبد الله بن سري کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ عجیب وغریب قسم کی روایات نقل کرتا ہے کہ جو جعلی اور بناوٹی ہیں اور ان کا نقل کرنا جائز نہیں ہے ۔اس کے بعد ابن حبان انہیں جعلی روایات میں سے ایک اسی روایت کو قرار دیتا ہے :

عبد الله بن السري المدائني شيخ يروي عن أبي عمران الجوني العجائب التي لا يشك من هذا الشأن صناعته أنها موضوعة لا يحل ذكره في الكتب إلا علي سبيل الإنباه عن أمره لمن لا يعرفه، روي عن أبي عمران الجوني عن مجالد بن سعيد عن الشعبي عن تميم الداري قال:... حتي يسكنها رجل من عترتي اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي....

عبد الله بن سري مدائني،ایسا شيخ ہے کہ جو ابی عمران جوني سے عجیب قسم کی روایات نقل کرتا  ہے اور یہ  یقینی طور پر جعلی ہیں اور ان کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں ہے ،مگر یہ کہ ان کو اس لئے نقل  کیا جائے کہ لوگ اس کے بارے میں شناخت حاصل کرسکے ،لہذا اس صورت میں ان کو نقل کرنا جائز ہے ،پھر نمونے کے طور پر اوپر کی روایت کو نقل کرتا ہے۔

التميمي البستي، الإمام محمد بن حبان بن أحمد بن أبي حاتم (متوفاي354هـ)، المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين، ج2، ص34، تحقيق: محمود إبراهيم زايد، دار النشر: دار الوعي- حلب، الطبعة: الأولي 1396هـ

شمس الدين ذهبي اور جلال الدين سيوطي نے بھی تميم داري کی اس روایت کو اور ابن حبان کی باتوں کو نقل کیا ہے:

قال ابن حبان: عبد الله يروي عن أبي عمران الجوني العجائب التي لا تشك أنها موضوعة.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج4، ص106، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، اللآليء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة، ج1، ص424، تحقيق: أبو عبد الرحمن صلاح بن محمد بن عويضة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996م

ابو الفرج بن الجوزي نے سند کے بجائے اس کے متن پر اعتراض کیا ہے:

هذا حديث لا يصح عن رسول الله.

یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صحیح نہیں ہوسکتی۔

القرشي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي597 هـ)، الموضوعات، ج1، ص 362، تحقيق: توفيق حمدان، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي 1415 هـ -1995م،

شمس الذين ذهبي نے بھی ایک دوسری جگہ پر اس روایت کو ضعيف السند اورمنكر قرار دیا ہے :

هذا حديث منكر ضعيف الإسناد رواه الخطيب في تاريخه عن أحمد بن الحسن بن خيرون عن بن بطحاء.

یہ روایت منكر اور ضعيف السند ہے۔ خطيب نے اپنی تاریخ میں اس کو احمد بن الحسن بن خيرون سے ،اس نے ابن بطحاء سے نقل کیا ہے ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج2، ص765، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي.

ب. قرة بن إياس مزني  نے  رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے :

اس قسم کی ایک روایت کو معاوية بن قره نے اپنے والد سے نقل کیا ہے ۔ طبري اور ابن عساكر نے اس طرح نقل کیا ہے ؛

حدثنا محمد بن عَبْدُوِسِ بن كَامِلٍ السِّرَاجُ ثنا أَحْمَدُ بن مُحَمَّدِ بن نِيزَكٍ ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن مُحَمَّدِ بن صَدَقَةَ ثنا محمد بن يحيي الأَزْدِيُّ قَالا ثنا دَاوُدُ بن الْمُحَبَّرِ بن قَحْذَمَ حدثني أبي الْمُحَبَّرُ بن قَحْذَمَ عن مُعَاوِيَةَ بن قُرَّةَ عن أبيه قال: قال رسول اللَّهِ صلي اللَّهُ عليه وسلم: لَتُمْلأَنَّ الأَرْضُ ظُلْمًا وَجَوْرًا كما مُلِئَتْ قِسْطًا وَعَدْلا حتي يَبْعَثَ اللَّهُ رَجُلا مِنِّي اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أبيه اسْمُ أبي فَيَمْلأَهَا قِسْطًا وَعَدْلا كما مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا يَلْبَثُ فِيكُمْ سَبْعًا أو ثَمَانِيًا فَإِنْ كَثُرَ فَتِسْعًا لا تَمْنَعُ السَّمَاءُ قَطْرِهَا وَلا الأَرْضُ شيئا من نَبَاتِهَا.

معاويه بن قره نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلي الله عليه وآله نے فرمایا: زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی جس طرح یہ عدل و انصاف سے بھر چکی تھی. یہاں تک کہ اللہ میری نسل سے ایک مرد کو بھیجے گا جو میرا ہمنام ہوگا اور ان کے والد ،میرے والد کا ہمنام ہوگا ، اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا ،جس طرح یہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔وہ تم لوگوں کے درمیان ،۷ سال یا ۸ سال یا زیادہ سے زیادہ ۹ سال رہیں گے اور آسمان بارش کے قطروں  سے زمین کے پودوں کو سیراب کرنے میں دریغ نہیں کرئے گا۔.

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج19، ص32، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج49، ص296، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

اھل سنت کے علماء کا اس حدیث کے ضعیف ہونے کا اعتراف ۔

مناوي نے اس روایت کو فيض القدير میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

لتملأن الأرض جورا وظلما الجور الظلم يقال جار في حكمه جورا إذا ظلم فجمع بينهما إشارة إلي أنه ظلم بالغ مضاعف فإذا ملئت جورا وظلما يبعث الله رجلا مني أي من أهل بيتي اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي فيملؤها عدلا وقسطا العدل خلاف الجور وكذا القسط وجمع بينهما لمثل ما تقدم في ضده كما ملئت جورا وظلما فلا تمنع السماء شيئا من قطرها ولا الأرض شيئا من نباتها يمكث فيكم سبعا أو ثمانيا فإن أكثر فتسعا يعني من السنين وهذا هو المهدي المنتظر خروجه آخر الزمان البزار طب وكذا في الأوسط عن قرة بن إياس المزني بضم الميم وفتح الزاي قال الهيثمي رواه من طريق داود بن المحبر عن أبيه وكلاهما ضعيف

هيثمي نے کہا ہے کہ اس روایت کو داود بن محبر نے اپنے والد سے نقل کیا ہے اور یہ دونوں ضعیف ہیں۔

فيض القدير ج5، ص262 شرح الجامع الصغير، اسم المؤلف: عبد الرؤوف المناوي الوفاة: 1031 هـ، دار النشر: المكتبة التجارية الكبري - مصر - 1356هـ، الطبعة: الأولي

اس روایت کی سند میں کئی ضعیف لوگ موجود ہیں۔

1. احمد بن محمد بن نيزك:

شمس الدين ذهبي نے المغني  اور ميزان الاعتدال، میں ابن عقده سے نقل کیا ہے کہ امر احمد بن محمد نيزك،میں نظر ہے {یعنی اس کا قابل اعتماد ہونا کلیر نہیں ہے }:

أحمد بن محمد بن نيزك عن أبي اسامة قال ابن عقدة: في امره نظر.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، المغني في الضعفاء، ج1، ص57، تحقيق: الدكتور نور الدين عتر. طبق برنامه الجامع الكبير

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج1، ص296، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

ذهبي نے الكاشف میں اس کے بارے میں واضح طور پر اپنی نظر کو بیان کیا ہے :

أحمد بن محمد بن نيزك أبو جعفر... فيه كلام، مات 248 ت

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1، ص203، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

2. داود بن محبر:

اس روایت کی سند میں دوسرے جس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے وہ داود بن محبر ہے. بخاري نے اس کو منكر الحديث کہا ہے:

داود بن المحبر منكر الحديث شبه لا شيء كان لا يدري ما الحديث.

داود بن محبر، نے منکرات نقل کیے ہیں ، اس کے منکرات انکار کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں، اس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ روایت ہے کیا .

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، الضعفاء الصغير، ج1، ص42، تحقيق: محمود إبراهيم زايد، دار النشر: دار الوعي - حلب، الطبعة: الأولي، 1396 -،

نور الدين هيثمي نے بھی اس کو بہت ہی جھوٹا انسان کہا ہے:

دَاوُدَ بْنَ الْمُحَبَّرِ كَذَّابٌ.

الهيثمي، الحارث بن أبي أسامة / الحافظ نور الدين (متوفاي282هـ)، بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث، ج1، ص321، تحقيق: د. حسين أحمد صالح الباكري، دار النشر: مركز خدمة السنة والسيرة النبوية - المدينة المنورة، الطبعة: الأولي 1413 - 1992

ابو نعيم اصفهاني کہتا ہے : احمد بن حنبل اور  بخاري ، دونوں نے اسے جھوٹا کہا ہے :

داود بن المحبر بن قحذم أبو سليمان حدث بمناكير في العقل... كذبه أحمد بن حنبل والبخاري رحمهما الله.

 الأصبهاني الصوفي، أحمد بن عبد الله بن أحمد أبو نعيم (متوفاي430هـ)، الضعفاء، ج1، ص78، تحقيق: فاروق حمادة، دار النشر: دار الثقافة - الدار البيضاء، الطبعة: الأولي 1405 - 1984

مقدسي نے داود بن محبر کے بارے میں کہا ہے :

وداود بن المحبر لاشيء في الحديث.

داود بن محبر روایت نقل کرنے کی جہت سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

المقدسي، مطهر بن طاهر (متوفاي507 هـ)، ذخيرة الحفاظ، ج4، ص1934، تحقيق: د.عبد الرحمن الفريوائي، ناشر: دار السلف - الرياض، الطبعة: الأولي، 1416 هـ -1996م.

3. محبر بن قحذم:

عقيلي نے كتاب ضعفاء میں مخبر اور اس کے والد کی روایات کو وھم اور غلط کہا ہے :

محبر بن قحذم عن أبيه قحذم بن سليمان في حديثهما وهم وغلط.

العقيلي، ابوجعفر محمد بن عمر بن موسي (متوفاي322هـ)، الضعفاء الكبير، ج4، ص259، شماره 1860، تحقيق: عبد المعطي أمين قلعجي، ناشر: دار المكتبة العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1404هـ - 1984م.

مناوي نے فيض القدير میں هيثمي سے نقل کیا ہے:

قال الهيثمي: رواه من طريق داود بن المجر عن أبيه وكلاهما ضعيف.

هيثمي کہتا ہے : اس روایت کو داود بن مخبر نے اپنے والد سے نقل کیا ہے اور یہ دونوں ضعیف ہیں۔

المناوي، محمد عبد الرؤوف بن علي بن زين العابدين (متوفاي 1031هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج5، ص262، ناشر: المكتبة التجارية - مصر، الطبعة: الأولي، 1356هـ.

کیونکہ اس روایت کی سند کئی جہت سے ضعیف ہے، لہذا مناوی نے اس کی سند کے بارے میں کہا ہے :

واسناده ضعيف.

اس روایت کی سند ضعیف ہے ۔

المناوي، محمد عبد الرؤوف بن علي بن زين العابدين (متوفاي 1031هـ)، التيسير بشرح الجامع الصغير، ج2، ص290، ناشر: مكتبة الإمام الشافعي - الرياض، الطبعة: الثالثة، 1408هـ ـ 1988م.

ج: ابو الطفيل  نے رسول خدا (ص)سے نقل کیا ہے :

اس روایت کو نقل کرنے والوں میں سے ایک ابو الطفيل ہے. یہ روایت بھی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ؛

ابن حماد نے اس کی روایت کو درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے :

حدثنا الوليد ورشدين عن ابن لهيعة عن إسرائيل بن عباد عن ميمون القداح عن أبي الطفيل رضي الله عنه أن رسول الله(ص) قال: المهدي اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي.

ابو الطفيل سے  نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: مھدی میرا ہمنام اور ان کے والد میرے والد کے ہمنام ہوگا ۔

المروزي، نعيم بن حماد أبو عبد الله متوفاي 288هـ)، كتاب الفتن، ج1، ص368، ح1081، تحقيق: سمير أمين الزهيري، دار النشر: مكتبة التوحيد - القاهرة، الطبعة: الأولي 1412

اس روایت کی سند کی تحقیق  :

یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں بعض ایسے راویاں ہیں کہ اھل سنت کے علم رجال اور علم حدیث کے علماء کی نظر میں ان میں سے  بعض ضعیف اور بعض مهمل ہیں ،لہذا اس یہ روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے۔

1. عبد الله ابن لهيعة

ابن لهيعه،کا نام عبد الله ہے، شمس الدين ذهبي نے دوسروں کی راے نقل کرنے کے بعد اپنی راے کو اس کے بارے میں یوں نقل کیا ہے ؛

عبد الله بن لهيعة أبو عبد الرحمن الحضرمي... ضعف... قلت العمل علي تضعيف حديثه توفي 174 د ت ق

عبد الله بن لهيعة ابو عبد الرحمان حضرمي... ضعیف ہے... میں کہتا ہوں: مقام عمل میں اس کی روایت ضعیف ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1، ص2929، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

نسائي نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے :

عبد الله بن لهيعة الحضرمي قاضي مصر اختلط في آخر عمره وكثر عنه المناكير في روايته.

عبد الله بن لهيعه حضرمي مصر کا قاضي رہا ہے اور عمر کے آخری حصے میں اس کا  ذھن کام نہیں کرتا تھا اور اس نے بہت سے منکر احادیث نقل کیے ہیں ۔

النسائي، ابوعبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي(متوفاي303هـ)ذكر المدلسين، ج1، ص54، طبق برنامه الجامع الكبير.

2ميمون قداح:

یہ شخص ، ميمون بن داود بن سعيد قداح ہے ،اھل سنت کے علم رجال کے ماہر علماء نے اس کا زندگی نامہ نہیں لکھا ہے ؛ لیکن زركلي نے اس کو اسماعليه فرقه کے بزرگوں میں سے قرار دیا ہے ۔کہتا ہے کہ ظاہرا میں تو یہ شیعہ تھا لیکن باطن میں یہ زندیق (كافر) تھا:

ميمون بن داود بن سعيد، القداح: رأس الفرقة (الميمونية) من الإسماعيلية. في نسبه وسيرته اضطراب، قيل: اسم أبيه ديصان، أو غيلان. وفي الإسماعيلية من ينسبه إلي سلمان الفارسي. كان يظهر التشيع ويبطن الزندقة. ولد بمكة وانتقل إلي الاهواز. واتصل بمحمد الباقر وابنه جعفر الصادق. روي عنهما.ويقال: إنه أدرك محمد ابن إسماعيل بن جعفر، وأدبه ولقنه مذهب الباطنية.

الزركلي، خير الدين (متوفاي1410هـ)، الأعلام، ج7، ص341، ناشر: دار العلم للملايين – بيروت – لبنان، چاپ: الخامسة، سال چاپ: أيار – مايو 1980 طبق برنامه مكتبه اهل البيت.

د: عبد الله بن مسعود کے واسطہ سے  رسول خدا (ص) سے نقل شدہ حدیث ۔

اس روایت کو نقل کرنے والے اصحاب میں سے ایک عبد الله بن مسعود، ان کی روایت دو طریق سے نقل ہوئی ہے :

پہلا نقل ، مستدرك حاكم میں علقمة بن قيس اور عبيدة سلماني نے عبد الله بن مسعود سے نقل کیا ہے :

أخبرني أبو بكر بن دارم الحافظ بالكوفة ثنا محمد بن عثمان بن سعيد القرشي ثنا يزيد بن محمد الثقفي ثنا حبان بن سدير عن عمرو بن قيس الملائي عن الحكم عن إبراهيم عن علقمة بن قيس وعبيدة السلماني عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال أتينا رسول الله صلي الله عليه وسلم فخرج إلينا مستبشرا يعرف السرور في وجهه فما سألناه عن شيء إلا أخبرنا به ولا سكتنا إلا إبتدأنا حتي مرت فتية من بني هاشم فيهم الحسن والحسين فلما رآهم التزمهم وانهملت عيناه فقلنا يا رسول الله ما نزال نري في وجهك شيئا نكرهه فقال إنا أهل بيت اختار الله لنا الآخرة علي الدنيا وأنه سيلقي أهل بيتي من بعدي تطريدا وتشريدا في البلاد حتي ترتفع رايات سود من المشرق فيسألون الحق فلا يعطونه ثم يسألونه فلا يعطونه ثم يسألونه فلا يعطونه فيقاتلون فينصرون فمن أدركه منكم أو من أعقابكم فليأت إمام أهل بيتي ولو حبوا علي الثلج فإنها رايات هدي يدفعونها إلي رجل من أهل بيتي يواطئ اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي فيملك الأرض فيملأها قسطا وعدلا كما ملئت جورا وظلما

عبد الله بن مسعود سے نقل ہوا ہے ہم رسول خدا (ص) پر پاس گئے، آپ خوشی خوشی باہر آئے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر ظاہر تھے ۔ ہم نے جو پوچھا آپ نے جواب دیا۔جب ہم خاموش ہوئے تو آپ نے بولنا شروع کیا ،اسی دوران بنی ہاشم کے کچھ جوان وہاں سے گزرے ، ان میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام بھی تھے۔ جب ان کو دیکھا تو آپ ان کے ساتھ چلیں اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ،میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! جو آپ کے چہرے پر دیکھ رہا ہوں وہ مجھے پسند نہیں ہے ۔ اس وقت آپ نے فرمایا :ہمارا خاندان ایسا خاندان ہے کہ اللہ نے ہمارے لئے دنیا کے بجائے آخرت کا انتخاب کیا ہے۔ میرے اھل بیت کو میرے بعد پناہ نہیں ملے گی اور آوارہ ہوں جائیں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کالے پرچم نکلے ۔ اس وقت اپنے حق کا مطالبہ کریں گے لیکن انہیں ان کا حق نہیں ملے گا ،دوسری دفعہ حق کا مطالبہ کریں گے لیکن انہیں نہیں دیا جائے گا ، تیسری دفعہ مطالبہ کریں گے لیکن انہیں ان کا حق نہیں دیا جائے گا۔ پھر یہ لوگ جنگ کریں گے اور پھر کامیاب ہوں گے ۔ لہذا تم میں سے یا تمہاری ذریت میں سے کوئی اس وقت ہو تو میرے اہل بیت کے پاس آنا ہوگا یہاں تک کہ برف پر رینگتے ہوئے بھی آنا پڑھے ،کیونکہ میرے اھل بیت ہدایت کے پرچم ہیں اور اس پرچم کو میرے اھل بیت کے ایک فرد کے حوالے کیا جائے گا ،وہ میرا ہمنام ہوگا اور اس کے والد میرے والد کے ہمنام ہوگا۔ وہ زمین کا مالک بنے گا اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دئے گا جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔

المستدرك علي الصحيحين ج4، ص511 ش 8434، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوري الوفاة: 405 هـ، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1411هـ - 1990م، الطبعة: الأولي، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا

پہلے طریق اور نقل کی تحقیق :

اس روایت کی سند میں کئی اشکالات ہیں؛

1- أحمد بن محمد بن السري بن يحيي ابوبكر بن ابي دارم، اس روایت کی سند میں موجود ہے، اھل سنت کے علماء نے اس کو کذاب کہا ہے ؛

ذهبي نے اس کے بارے میں کہا ہے:

أحمد بن محمد بن السري بن يحيي بن أبي دارم المحدث أبو بكر الكوفي الرافضي الكذاب مات في اول سنة سبع وخمسين وثلاثمائة وقيل انه لحق إبراهيم القصار حدث عن أحمد بن موسي والحمار وموسي بن هارون وعدة روي عنه الحاكم وقال رافضي غير ثقة

یہ رافضی اور کذاب  ہے ۔۔۔۔۔۔حاکم نے اس کی روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ رافضی اور غیر ثقہ ہے ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج1، ص283 ش 551، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

2- محمد بن عثمان بن سعيد اس روایت کی سند میں ہے اور یہ مجهول الحال ہے  !

اسی وجہ سے، حاكم نيشابوري نے اس کی روایت کو صحیح قرار نہیں دیا ہے !

دوسرا نقل کہ جو عاصم نے زر بن حبيش کے واسطے سے عبد الله بن مسعود سے نقل کیا ہے :

یہ نقل کئی مضامین کے ساتھ نقل ہوا ہے ،ہم ان کو جدا جدا نقل کرتے ہیں۔

 پہلا مضمون:

حدثنا ابن عيينة عن عاصم عن زر عن عبد الله عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: المهدي يواطيء اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي.

ابن مسعود کہتے ہیں : رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: مهدي، میرا ہمنام ہوگا اور ان کے والد ، میرے والد کے ہمنام ہوگا۔

اس مضمون  میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ابن حماد کہتا ہے :

وسمعته غير مرة لا يذكر اسم أبيه.

میں نے اس کو مرۃ سے کئی مرتبہ «واسم ابيه اسم ابي» کے بغیر سنا ہے.

المروزي، نعيم بن حماد أبو عبد الله (متوفاي 288هـ)، كتاب الفتن، ج1، ص 367، ح1076، تحقيق: سمير أمين الزهيري، دار النشر: مكتبة التوحيد - القاهرة، الطبعة: الأولي 1412

دوسرا مضمون:

حدثنا الْفَضْلُ بن دُكَيْنٍ قال: حدثنا فِطْرٌ عن عاصم عن زِرٍّ عن عبد اللهِ قال: قال رسول الله (ص): لاَ تَذْهَبُ الدُّنْيَا حتي يَبْعَثَ اللَّهُ رَجُلاً من أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أبيه اسْمَ أبي.

عبد الله بن مسعود کہتے ہیں: رسول خدا (ص) نے فرمایا : دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اللہ میرے اھل بیت سے ایک مرد کو مبعوث نہ کرئے  اور وہ میرا ہمنام ہوں گے اور ان کے والد میرے والد کے ہمنام ہوں گے .

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج7، ص513، ح37647، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد- الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ.

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج10، ص133، ح10213، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفاي405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج4، ص 488، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م.

تیسرا مضمون:

حدثنا الْعَبَّاسُ بن مُحَمَّدٍ الْمُجَاشِعِيُّ الأَصْبَهَانِيُّ ثنا محمد بن أبي يَعْقُوبَ الْكِرْمَانِيُّ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بن مُوسَي عن زَائِدَةَ عن عَاصِمٍ عن زِرٍّ عن عبد اللَّهِ قال: قال رسول اللَّهِ صلي اللَّهُ عليه وسلم: لو لم يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلا يَوْمٌ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذلك الْيَوْمَ حتي يَبْعَثَ اللَّهُ فيه رَجُلا مِنِّي أو من أَهْلِي أَهْلِ بَيْتِي يواطيء اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أبيه اسْمَ أبي.

رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا : دنیا کی عمر سے ایک دن بھی باقی رہ جائے تو بھی اللہ اس دن کو اتنا طولانی کرئے گا ،یہاں تک کہ اللہ میرے اھل بیت سے ایک مرد کو مبعوث کرئے گا کہ جو میرا ہمنام ہوگا اور اس کے والد میرے والد کے ہمنام ہوں گے ۔

السجستاني الأزدي، ابوداود سليمان بن الأشعث (متوفاي 275هـ)، سنن أبي داود، ج4، ص106، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج10، ص135، ح10222، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

چوتھا مضمون:

أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بِسْطَامٍ بِالأُبُلَّةِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَحْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم: لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّي يَمْلِكَ النَّاسَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِي فَيَمْلَؤُهَا قِسْطًا وَعَدْلا.

رسول خدا فرمود: اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی ،یہاں تک کہ اللہ میرے اھل بیت سے ایک مرد کو مالک بنائے گا ،کہ جو میرے ہمنام ہوگا اور ان کے والد میرے والد کے ہمنام ہوں گے ۔اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا.

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج15، ص236، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر:مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م.

الهيثمي، ابوالحسن علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، ج1، ص 464، تحقيق: محمد عبد الرزاق حمزة، ناشر:دار الكتب العلمية - بيروت.

الداني، أبو عمرو عثمان بن سعيد المقرئ (متوفاي444هـ)، السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها، ج5، ص1042، تحقيق: د. ضاء الله بن محمد إدريس المباركفوري، دار النشر: دار العاصمة - الرياض، الطبعة: الأولي 1416

عاصم  کا زر بن حبيش سے اور اس کا عبد الله بن مسعود سے نقل شدہ شدہ روایت کی تحقیق :

 زر سے عاصم کا نقل کردہ یہ روایت ،مضطرب نقل ہوئی ہے ؛ اس کے بہت سے راوی ،بخاری اور مسلم کے راویوں میں سے ہے ۔لیکن پھر بھی اس کی سند میں اشکال ہے کیونکہ اس نقل کے تمام اسناد اس پر ختم ہوجاتی ہیں ،وہ مضطرب الحدیث اور ضعیف حافظہ کا مالک ہے اور امام علی علیہ السلام کے دشمنوں میں سے ہے ۔لہذا قوی احتمال یہ ہے روایت میں موجود مشکل  اس کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ یہ روایت کہ جو اس نے زر کےواسطے سے عبد اللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے،کئی مرتبہ«اسم ابيه اسم ابي» کے بغیر نقل ہوئی ہے اور دوسری سند کہ جس میں یہ موجود نہیں ہے اور عبد اللہ بن مسعود سے نقل ہوئی ہے اس میں بھی یہ اضافی جملہ موجود نہیں ہے ۔جیساکہ اس سے روایت نقل کرنے والے بعد لوگ اس اضطراب کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور اس کی حدیث میں اضطراب تقریبا تمام علماء کا متفقہ قول ہے ۔ ابن حجر نے اس کے بارے میں علماء کے کلمات کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے :

عاصم بن بهدلة وهو بن أبي النجود الأسدي... قال بن سعد كان ثقة إلا أنه كان كثير الخطأ في حديثه... وقال يعقوب بن سفيان في حديثه اضطراب وهو ثقة... وقد تكلم فيه بن علية فقال كان كل من اسمه عاصم سيء الحفظ... وقال بن خراش في حديثه نكرة وقال العقيلي لم يكن فيه إلا سوء الحفظ وقال الدارقطني في حفظه شيء... وقال بن قانع قال حماد بن سلمة خلط عاصم في آخر عمره... وقال العجلي كان عثمانيا .

عاصم بن بهدلة... ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے : وہ  ثقه ہے لیکن وہ روایت نقل کرنے میں بہت اشتباہ کرتا ہے... يعقوب بن سفيان (فسوي) نے کہا ہے کہ اس کی حدیث میں  اضطراب موجود ہے۔ لیکن وہ سچا آدمی ہے ... ابن عليه نے اس کے بارے میں لکھا ہے : جس جس کا نام بھی عاصم تھا ،روایات نقل کرنے میں ان کے حافظہ ٹھیک نہیں ہیں ... ابن خراش نے کہا ہے : اس کی حديث منكر ہے ۔  عقيلي نے کہا ہے کہ اس کی تنہا مشکل اس کے حافظہ کی کمزوری ہے، دارقطني نے بھی کہا ہے اس کے قوۃ حافظہ ٹھیک نہیں تھا ۔... ابن قانع نے حماد بن سلمة سے نقل  کیا ہے : عاصم اپنی عمر کے آخری حصے میں پاکل ہوا تھا ۔ عجلي نے بھی کہا ہے وہ عثماني (دشمن حضرت علي) تھا !

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تهذيب التهذيب، ج5، ص35 ش 67، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولي، 1404 - 1984 م.

اس کے بارے میں قابل توجہ نکتہ اس کا «عثماني» ہونا ہے ۔ عثمانی سارے حضرت اميرالمؤمنین عليه السلام کے دشمن شمار ہوتے ہیں، اسی لئے اس کے رد کے بارے میں کوئی دلیل بھی نہ ہو یہی ایک دلیل کافی ہے ۔

لہذا اس قسم کے لوگوں کی روایات سے استدلال کرنا ،وہ بھی ایسے مسائل میں جس کو مضطرب صورت میں نقل کیا ہے ،صحیح نہیں ہے،یہاں تک کہ وہ بخاری اور مسلم کے راویوں میں سے بھی کیوں نہ ہو !

اس قسم کی روایات کی سند کی تحقیق کا نتیجہ :

وہ روایات کہ جو «اسم ابيه اسم ابي» کے جملے کے ساتھ اھل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں یہ روایتیں چار طريقوں سے نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے تین طریق تو قطعی طور پر ضعیف ہیں اور قابل اعتبار نہیں ہیں ۔ صرف عاصم بن بهدله نے زر بن حبيش کے توسط سے ابن مسعود سے جو روایت نقل کی ہے ،اس روایت کے راوی صحيح بخاري اور  مسلم کے راویوں میں سے ہیں، لیکن اس قسم کی روایات کے اصلي راوی یعنی عاصم بن بهدلة کے بارے میں کئی اشکالات ہیں،ان میں سے اس کا امیر المومنین علیہ السلام کے دشمنوں میں سے ہونا، ضعیف حافظہ اور حدیث نقل کرنے میں اضطراب ہے ۔ لہذا اس کی روایت کے خدشہ دار متن سے استدلال نہیں ہوسکتا۔

اس نقل کے مقابلے میں، عمر و بن مرة کا زر کے توسط سے عبد الله بن مسعود کی روایت کی سند صحیح ہے اور اس سند والی روایت میں یہ اضافی جملہ موجود نہیں ہے۔اور اسی طرح سے اس روایت کا متن اور مضمون ابوھریرہ سے اضطراب اور اضافی جملے کے بغیر صحیح سند نقل ہوا ہے .  

اسی طرح یہی روایت خود عاصم نے زر،کے توسط سے ابن مسعود سے اضافی جملے کے بغیر نقل کیا ہے ! لہذا اضافی جملے کے بغیر والا نقل یا قاعده الزام  کے طور پر حجت ہے.

یا اگر عاصم  کا زر کے توسط سے عبد الله سے نقل شدہ روایت میں موجود سند میں اشکال کی وجہ سے حجت نہیں ہے، اور ابوهريره (نے اضافی جملے کے بغیر)  جو نقل کیا ہے یا  عمرو بن مرة نے عبد الله بن مسعود سے جو نقل کیا ہے اور اھل سنت کے علماء نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ،لہذا اضافی جملے کے بغیر والی روایت کی حجیت  اپنی جگہ باقی ہے .

2. اهل سنت کے علماء کا  «اسم ابيه كاسم ابي».کے جعلی اور باطل ہونے کا اعتراف :

جیساکہ تحریر کے دوسرے حصے میں یہ بیان ہوا کہ جن روایات میں «اسم ابيه كاسم ابي» کا جملہ موجود ہیں، ان میں کسی روایت کی سند بھی قابل اعتبار نہیں ہے ۔ جیساکہ اھل سنت کے علماء میں سے بعض نے اس اضافی جملے کو جعلی اور باطل کہا ہے ۔

ہم ذیل میں اھل سنت کے ہی تین علماء کی نظر کو بیان کریں گے ۔

1. علامه كنجي شافعي:

علامه كنجي شافعي نے کتاب «البيان في أخبار صاحب الزمان» میں کہا ہے:

وجمع الحافظ أبو نعيم طرق هذا الحديث عن الجم الغفير في (مناقب المهدي) كلهم عن عاصم بن أبي النجود عن زر عن عبد الله عن النبي صلي الله عليه وآله.

حافظ ابو نعيم،نے اس روایت کی اسناد کو (مناقب المهدي)  میں بہت سے علماء سے  نقل کیا ہے ۔ ان سب میں عاصم نے  زر کے توسط سے  عبد الله سے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ان میں یہ اضافی جملہ نہیں ہے ۔

اس کے بعد اس روایت کے لئے ۳۱ طرق ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں:

ورواه غير عاصم عن زر وهو عمرو بن مرة عن زر، كل هؤلاء رووا (اسمه اسمي) إلا ما كان من عبيد الله بن موسي عن زائدة عن عاصم فإنه قال فيه (واسم أبيه اسم أبي). ولا يرتاب اللبيب أن هذه الزيادة لا اعتبار بها مع اجتماع هؤلاء الأئمة علي خلافها، والله أعلم.

... اس روایت کو عاصم کے علاوہ بھی دوسروں نے زر سے عمرو بن مرہ کے توسط سے نقل کیا ہے اور تمام راویوں نے روایت کو «اسمه اسمي» کے ساتھ ہی نقل کیا ہے ؛ سوای اس روایت کے کہ جو  عبيد الله بن موسي نے زائده کے واسطے سے عاصم سے نقل کیا ہے اور اس میں «واسم ابيه اسم ابي» کا ذکر ہوا ہے. لہذا کوئی بھی عاقل اس بات کو قبول نہیں کرتا کیونکہ تمام راویوں نے اس کے خلاف اجماع کیا ہے ۔ اسی لئے اس کی روایت قابل استدلال اور قابل اعتماد نہیں ہے۔

الگنجي الشافعي، الإمام الحافظ أبي عبد الله محمد بن يوسف بن محمد القرشي، (متوفاي658هـ)، البيان في أخبار صاحب الزمان ص 483.

2. ربيع بن محمد السعودي

یہ وہابی مصنفین میں سے ایک ہے وہ  «الشيعة الامامية الاثني عشرية في ميزان الاسلام» نامی کتاب میں ««لو لم يبق من الدنيا الاّ يوم واحد لطول اللّه ذلك اليوم حتي يبعث اللّه فيه رجلاً من اهل بيتي يواطئ اسمه اسمي واسم أبيه اسم ابي» والی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :

ولا ريب انّ هذا قد وضعه اصحاب محمد بن عبد اللّه النفس الزكية، فانّه كان معروفا بكونه المهدي.

اس میں شک نہیں ہے کہ اس کو  محمد بن عبد الله نفس زكيه کے طرفداروں نے اضافہ کیا ہے کیونکہ اس کے بارے میں یہ مشہور ہوا تھا کہ یہ وہی مھدی ہے ۔

الشيعة الامامية الاثني عشرية في ميزان الاسلام ص 307 المولف: الشيخ ربيع بن محمد السعودي، طبعة مكتبة العلم بجدة الطبعة الثانية 1414

3. الازهر  کے استاد ،سعد محمد حسن:

انہوں نے اپنی کتاب «المهدية في الإسلام»، ص69، میں تصریح کی ہے کہ جن روایات میں «اسم ابيه اسم ابي» موجود ہیں وہ سب جعلی ہیں ۔

أحاديث (اسم أبيه اسم أبي) أحاديث موضوعة، ولكن الطريف في تصريحه أنه نسب الوضع إلي الشيعة الإمامية لتؤيد بها وجهة نظرها علي حد تعبيره.

جن احادیث میں «اسم ابيه اسم ابي»، موجود ہے یہ سب جعلی ہیں اسی لئے ابن تیمیہ نے اس کو شیعوں کا کام قرار دیا ہے تاکہ شیعہ اپنے نظریے کی توجیہ کرسکے!

مركز الرسالة، المهدي المنتظر في الفكر الإسلامي، ص 73، ناشر: مركز الرسالة - قم، چاپخانه: مهر - قم، چاپ: الأولي1417هـ.

اس اضافی جملے کو جعل کرنے کی وجہ :

شیعہ سنی کتابوں میں موجود مطالب میں سے ایک یہ ہے کہ  «اسم ابيه اسم ابي»، کا جملہ مھدویت کے دعوے داروں کی طرف سے اضافہ ہوا ہے. حدیثی اور تاریخی کتابوں کے مطابق بہت سے افراد نے یا خود ہی مھدویت کا ادعا کیا یا بعد میں اس کے طرفداروں نے اس کے بارے میں ایسا ادعا کیا ۔ جیساکہ بعض اسی نام کے ساتھ مشہور ہوئے ؛ انہیں میں سے «محمد بن عبد الله بن الحسن»، کہ جو حسن مثني، کے نام سے معروف تھا ، «محمد بن عبد الله بن المنصور» کی جو بنی عباس کے خلفاء میں سے تھا،ان دونوں کے نام  محمد بن عبد الله تھا. شیعہ اور اھل سنت کے بزرگ علماء نے کہا ہے کہ یہ جملہ ان لوگوں کی تبلیغ کے لئے جعل کیا ہے ۔

1. محمد عبد الله بن حسن:

تاریخی کتابوں میں ہے کہ عبد الله بن حسن ،اپنے بیٹے محمد، کے بارے میں مهدويت کا ادعا کرتا تھا :

جیساکہ بیان ہوا ؛ وہابی عالم ربيع بن محمد سعودي نے اس سلسلے میں لکھا :

ولا ريب انّ هذا قد وضعه اصحاب محمد بن عبد اللّه النفس الزكية، فانّه كان معروفا بكونه المهدي.

الشيعة الامامية الاثني عشرية في ميزان الاسلام ص 307 المولف: الشيخ ربيع بن محمد السعودي، طبعة مكتبة العلم بجدة الطبعة الثانية 1414

اسی طرح محمد بن علي بن طباطبا معروف به ابن طقطقي کہ جو علم انساب کے ماہر ہے ، وہ اس سلسلے میں لکھتا ہے :

كان النفس الزكية من سادات بني هاشم ورجالهم فضلاً وشرفاً وديناً وعلماً وشجاعة وفصاحة ورياسة وكرامة ونبلاً. وكان في ابتداء الأمر قد شيع بين الناس أنه المهدي الذي بشر به، وأثبت أبوه هذا في نفوس طوائف من الناس. وكان يروي أن الرسول، صلوات الله عليه وسلامه، قال: لو بقي من الدنيا يوم لطول الله ذلك اليوم حتي يبعث فيه مهدينا أو قائمنا، اسمه كاسمي واسم أبيه كاسم أبي. فأما الإمامية فيروون هذا الحديث خالياً من: واسم أبيه كاسم أبي.

فكان عبد الله المحض يقول للناس عن ابنه محمد: هذا هو المهدي الذي بشر به، هذا محمد بن عبد الله....

نفس الزكيه ، بني هاشم کے مردوں میں سے  فضیلت، شرافت، دینداری ، علم ، شجاعت ، فصاحت ،رياست ، كرامت کے اعتبار سے عظیم آدمی تھے ۔شروع میں یہ مشھور ہوا تھا کہ یہی مھدی موعود ہے ۔اس کے والد نے اس ادعا کو لوگوں کے ذھنوں میں ڈال دیا ۔وہ یہ روایت نقل کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : دنیا کی عمر کا ایک دن بھی باقی رہ جائے تو بھی اللہ اس دن کو اتنا طولانی کرئے گا ،یہاں تک کہ اللہ ہمارے مھدی اور قائم کو بھیجے گا ۔یہ میرا ہمنام ہوگا اور اس کے والد میرے والد کے ہمنام ہوگا ۔

لیکن امامیہ اس روایت کو «اسم ابيه اسم ابي» کے بغیر نقل کرتے ہیں.

عبد الله محض (محمد نفس الزكيه کے والد) لوگوں سے کہتا تھا : یہ میرا بیٹا وہی مھدی ہے جس کی آمد کی بشارت دی گئی ہے ۔ یہ وہی محمد بن عبد الله ہے.

الطقطقي، محمد بن علي بن طباطبا المعروف بابن الطقطقي (متوفاي709هـ) الفخري في الآداب السلطانية، ج1، ص61، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

ابو الفرج اصفهاني نے بھی نقل کیا ہے کہ بني هاشم جمع ہوگئے اور عبد الله بن الحسن نے اپنے بیٹے محمد کو مهدي موعود کے عنوان سے معرفی کیا:

أَنَّ جَمَاعَةً مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اجْتَمَعُوا بِالْأَبْوَاءِ وَفِيهِمْ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَأَبُو جَعْفَرٍ الْمَنْصُورُ وَصَالِحُ بْنُ عَلِيٍّ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ وَابْنَاهُ مُحَمَّدٌ وَإِبْرَاهِيمُ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ فَقَالَ صَالِحُ بْنُ عَلِيٍّ...

فَحَمِدَ اللَّهَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ وَأَثْنَي عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ قَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ ابْنِي هَذَا هُوَ الْمَهْدِيُّ فَهَلُمَّ فَلْنُبَايِعْهُ. قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ لِأَيِّ شَيْ ءٍ تَخْدَعُونَ أَنْفُسَكُمْ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا النَّاسُ إِلَي أَحَدٍ أَصْوَرَ أَعْنَاقاً وَلَا أَسْرَعَ إِجَابَةً مِنْهُمْ إِلَي هَذَا الْفَتَي يُرِيدُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ. قَالُوا قَدْ وَاللَّهِ صَدَقْتَ أَنَّ هَذَا الَّذِي نَعْلَمُ. فَبَايَعُوا مُحَمَّداً جَمِيعاً وَمَسَحُوا عَلَي يَدِهِ..

بني هاشم کے بعض لوگ ابواء (مكه  اور  مدينه کے درمیانی جگہ )میں جمع ہوئے، ان کے درمیان ، ابراهيم بن محمد (بني عباس کا پہلا خلیفہ کہ جو ابراهيم امام  کے نام سے معروف تھا )، ابو جعفر منصور (معروف به منصور دوانيقي)، صالح بن علي (منصور کا چچا )، عبد اللَّه بن حسن (جس کا بیٹا حسن مثني تھا) اس کے دو بیٹے ، محمد اور  ابراهيم، عمرو بن عثمان کا بیٹا محمد بن عبد اللَّه، جمع تھے ۔

۔۔۔عبد اللَّه بن حسن نے بات شروع کی اور اللہ کی حمد وثناء کے بعد کہا : آپ لوگوں کو بخوبی معلوم ہے کہ میرا یہ بیٹا محمد،وہی مھدی ہے کہ جس کے آمد کی خبر دی ہے۔لہذا اس کو پہچانے اور ہم ان کی بیعت کریں .

منصور (دوانيقي نے بھی اس کی تائید کی) اور کہا : فضول میں کیوں اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہو ۔اللہ کی قسم لوگ اس محمد بن عبد اللَّه کے علاوہ کسی اور کے فرمان کے آگے سر نہیں جگاتے ۔ سب نے کہا : جی ہاں ،اللہ کی قسم صحیح کہا ۔اس کو تو ہم سب جانتے ہیں ۔لہذا سب نے اسی وجہ سے اس کی بیعت کی...

الاصفهاني، مقاتل الطالبيين، اسم المؤلف: أبو الفرج علي بن الحسين (متوفاي356هـ)، ص141، طبق برنامه الجامع الكبير

اس احتمال کی نقد ۔

سيد بن طاووس نے کتاب اقبال میں اور  علامه مجلسي نے بحار میں کہا ہے  کہ  بني الحسن کا ہر گز محمد بن عبد الله الحسن کے مھدی ہونے کا عقیدہ نہیں تھا ۔

سيد بن طاووس نے کہا ہے :

ان بني الحسن عليه السلام ما كانوا يعتقدون فيمن خرج منهم انه المهدي صلوات الله عليه وآله وان تسموا بذلك ان أولهم خروجا وأولهم تسميا بالمهدي محمد بن عبد الله بن الحسن عليه السلام.

امام حسن عليه السلام کی اولاد میں سے کوئی اس بات پر عقیدہ نہیں رکھتے تھے  کہ ان میں سے جس نے قیام کیا ہے یہ وہی وہی مھدی ہے اور ایسا  نام بھی نہیں رکھتے تھے ۔ان میں سے جس نے پہلے قیام کیا اور سب سے پہلے نام رکھا یہ وہی  محمّد بن عبد اللَّه بن حسن تھا .

ابن طاووس، رضي الدين علي بن موسي بن جعفر السيد ابن طاووس (متوفاي664هـ)، الاقبال باالاعمال الحسنة فيما يعمل مرة في السنة، ج3، ص88، تحقيق: جواد القيومي الاصفهاني، ناشر: مكتب الإعلام الإسلامي، الطبعة الأولي 1416

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج47، ص304، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

ابن طاوس نے اپنے نظریے کی تائید کے لئے کچھ روایات ذکر کی ہیں ان میں سے ایک درج ذیل ہے :

وروي في حديث قبله بكراريس من الأمالي عن أبي خالد الواسطي أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ: يَا أَبَا خَالِدٍ إِنِّي خَارِجٌ وَأَنَا وَاللَّهِ مَقْتُولٌ ثُمَّ ذَكَرَ عُذْرَهُ فِي خُرُوجِهِ مَعَ عِلْمِهِ أَنَّهُ مَقْتُول . وكل ذلك يكشف عن تمسكهم بالله والرسول صلي الله عليه وآله.

يحي بن الحسين حسني نے امالی میں ابو خالد واسطي سے نقل کیا ہے كه محمّد بن عبد اللَّه ابن حسن نے کہا: اے ابا خالد میں قیام کروں گا۔ اللہ کی قسم  میں ماراجاوں گا اور بعد میں اپنے مرنے کو جاننے کے باوجود قیام کرنے کی عذر پیش کیا ۔

 اس قسم کی روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بني الحسن والے حق کے راستے سے ہٹے نہیں تھے ،بلکہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی میں تھے ۔

ابن طاووس، رضي الدين علي بن موسي بن جعفر السيد ابن طاووس (متوفاي664هـ)، الاقبال باالاعمال الحسنة فيما يعمل مرة في السنة، ج3، ص88، تحقيق: جواد القيومي الاصفهاني، ناشر: مكتب الإعلام الإسلامي، الطبعة الأولي 1416

2. محمد بن عبد الله ابي جعفر منصور:

تاریخی منابع کے مطابق دوسرا آدمی جس نے مھدویت کا دعوا کیا اور  وہ محمد بن عبد اللہ یعنی مهدي عباسي تھا .

ابن تيميه اور ابن كثير کے نقل کے مطابق ،مهدي عباسي کو اس لئے  مهدي کا لقب دیا تاکہ رسول خدا صلي الله عليه وآله کی حدیث کے لئے مصداق تیار کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہ وہی شخص ہے جس کے آنے کی رسول خدا صلي الله عليه وآله  نے بشارت دی تھی .

ابن تيميه حراني کہ جو حقیقت میں وھابی فکر کی بنیاد رکھنے والا ہے وہ کہتا ہے :

ولهذا لما كان الحديث المعروف عند السلف والخلف أن النبي صلي الله عليه وسلم قال في المهدي يواطيء اسمه اسمي واسم أبيه اسم أبي، صار يطمع كثير من الناس في أن يكون هو المهدي حتي سمي المنصور ابنه محمد ولقبه بالمهدي مواطأة لاسمه باسمه واسم أبيه باسم أبيه ولكن لم يكن هو الموعود به.

کیونکہ (المهدي يواطيء اسمه اسمي واسم أبيه اسم)  والی بات، رسول خدا صلي الله عليه وسلم کی حدیث کی وجہ سے قدما اور متأخران کے درمیان معروف تھی ۔اسی لئے بہت سے لوگوں کی یہ آرزو تھی کہ یہ مھدی وہ خود ہی ہو یہاں تک کہ منصور نے اپنے بیٹے کا نام  محمد رکھا اور اس کو مهدي لقب دیا تاکہ وہ رسول اللہ ص کا ہمنام ہو اور اس کے باپ ،بھی رسول اللہ ص کے والد کے ساتھ ہمنام ہو ۔لیکن یہ وہ مھدی موعود نہیں تھا ۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج4، ص98، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

ابن كثير نے بھی  «مهدي» دینے کی وجہ بتائی ہے :

وإنما لقب بالمهدي رجاء أن يكون الموعود به في الاحاديث.

اس کو مھدی کا لقب دیا گیا تاکہ روایات میں موجود مھدوی موعود قرار پائے ۔

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج10، ص151، ناشر: مكتبة المعارف - بيروت

اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے مهدويت کا ادعا کیا ہے لیکن دو بندوں کے بارے میں اس قسم کی روایات جعل کرنے کا احتمال زیادہ ہے کیونکہ ان لوگوں اور ان کے والد کے نام بھی وہی ہے جو روایات میں نقل کیے ہیں لہذا احتمال قوی یہ ہے کہ روایات کا یہ حصہ انہیں لوگوں نے ہی بنایا ہو ۔

3. اهل سنت کے علماء نے ،امام مهدي(ع) کو امام حسن عسكري (ع) کا ہی فرزند قرار دیا ہے .

اس دوسری قسم کی روایات کے لئے یہ جواب بھی دے سکتا ہے کہ بہت سے اھل سنت کے علماء نے امام حسن عسكري کے فرزند حضرت مهدي عليه السلام، کو ہی مھدی قرار دیا ہے ؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن روایتوں میں اضافی جملہ موجود ہے یہ ان علماء کے نذدیک یا قابل قبول نہیں تھا ، یا یہ لوگ ان کی تاویل کرتے تھے ۔

1. فخر الدين الرازي:

فخر رازي، کہ جو اهل سنت کے مشہور مفسر قرآن ہیں وہ کہتا ہے کہ حضرت صاحب الزمان ، امام حسن عسكري عليهما السلام کے فرزند ہیں :

أما الحسن العسكري الإمام (ع) فله إبنان وبنتان، أما الإبنان فأحدهما صاحب الزمان عجل الله فرجه الشريف، والثاني موسي درج في حياة أبيه وأم البنتان ففاطمة درجت في حياة أبيها، وأم موسي درجت أيضاًً.

امام حسن عسكري عليه السلام، کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ، ان کے بیٹوں میں سے ایک صاحب الزمان عجل الله تعالي فرجه الشريف ہیں ۔ اور دوسرا موسي ہے كه جو  امام عسكري کی زندگی میں ہی دنیا سے چلا گیا، ان کی بیٹیاں اور ان بچوں کی مان بھی آپ کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے ۔.

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاي604هـ)، الشجرة المباركة في أنساب الطالبية، ص78 ـ 79.

2. عاصمي مكي:

عاصمي مكي کہ جو شافعي مذهب کے علماء میں سے ہیں ، انہوں نے آپ کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے :

الإمام الحسن العسكري بن علي الهادي... ولده محمدا أوحده وهو الإمام محمد المهدي بن الحسن العسكري بن علي التقي بن محمد الجواد ابن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالي عنهم أجمعين.

امام حسن عسكري، کا الگلوتا بیٹا  امام م ح م د بن الحسن العسكري... ہیں

العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفاي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج4، ص150، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.

ہم نے اس سلسلے میں اھل سنت کے علماء کے اعترافات کو ایک الگ مقالے میں بیان کیا ہے «کیا امام حسن العسکری علیہ السلام فرزند کے بغیر دنیا سے چلے گئے ؟» اور یہ مقالہ حضرت ولی العصر سائٹ پر موجود ہے .

ان اعترافات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس دوسری قسم کی روایات کو قبول نہیں کرتے ، ورنہ یہ لوگ اس چیز کی تصريح نہیں کرتے کہ حضرت مهدي کے والد کا نام حسن ہے ۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دوسری قسم والی روایات جعلی ہے ۔.

 

کچھ اشکالات اور ان کے جواب

اشكال: جن روایت میں اضافی جملہ ہے وہ روایات ،ان روایات کے لئے مفسر اور قید کی حیثیت رکھتی ہیں جن میں یہ اضافی جملہ موجود نہیں ہے !

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ: دوسری قسم کی روایات میں راویوں نے روایت کے بعد والے حصے(اسم ابيه اسمي ابي)  کو بیان کرنے کو ضروری نہیں سمجھا لہذا اس کو نقل نہیں کیا لہذا اب اگر انہوں نے اس کو بیان نہیں کیا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ روایت کا حصہ نہ ہو ؟

پہلا جواب : جن میں اضافی جملہ ہے ،ان روایات کے لئے سند کے اعتبار سے معتبر اور قابل اعتماد ہونا ضروری ہے  !

اور جیساکہ بیان ہوا کہ ان روایات میں کسی روایت کی سند بھی صحیح نہیں ہے ۔

صرف جس روایت پر اعتماد ہو سکتا ہے، وہ عاصم کی وہ روایت ہے جو اس نے زر کے واسطے سے نقل کیا ہے۔لیکن عاصم نے خود ہی روایت کو نقاص بھی نقل کیا ہےاور اھل سنت کے علماء کے اعتراف کے مطابق عاصم  مضطرب الحديث ہے ۔لہذا اس کی طرف سے نقل شدہ روایت کے اضافی حصے کو حجت قرار نہیں دے سکتا ۔

 دوسرا جواب : اهل سنت کے علماء نے خود ہی اضافی جملے والی روایت کا اس کے بغیر والی روایت کے ساتھ ٹکراو کا کہا ہے !

جیساکہ مقالے کے شروع میں نقل ہوا کہ ابن تيميه ناقص روایات کو شیعوں کا جعلی کام سمجھتا تھا  !!! اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان دونوں روایات میں تناقص دیکھا تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ کہہ دیتا کہ نقیصہ والی روایات کی تفسیر متمم والی روایات کرتی ہیں.

اور ساتھ ہی اھل سنت کے بہت سے علماء نے زیادہ والی روایات کو جعلی کہا ہے لہذا ان میں سے ایک قسم کی روایات جعلی اور باطل ہیں ،ایسا نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے لئے متمم اور مفسر ہوں۔

علامه كنجي شافعي، کی بات بھی ہماری اسی بات کی تائید کرتی ہے

والقول الفصل في ذلك أن الإمام أحمد مع ضبطه واتقانه روي هذا الحديث في مسنده في عدة مواضع واسمه اسمي.

سخن آخر اور فصل الخطاب یہ ہے کہ امام احمد کہ جو احادیث لکھنے میں دقت نظر اور اتقان کے مالک تھے ،انہوں نے اپنی کتاب کئی جگہ{ واسمه اسمي} والی روایت کو نقل کیا ہے اور اضافی جملہ والی روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔ 

الإربلي، أبي الحسن علي بن عيسي بن أبي الفتح (متوفاي693هـ)، كشف الغمة في معرفة الأئمة، ج3، ص277، ناشر: دار الأضواء ـ بيروت، الطبعة الثانية، 1405هـ ـ 1985م.

 بحث کے دوسرے حصے کا نتيجه:

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اھل سنت کے علماء کی نظر میں یا «واسم ابيه اسم ابي»، والا جملہ روایات میں اضافہ ہوا ہے ،یا بعض کی نظر کے مطابق امام مھدی علیہ السلام کا نام محمد اور آپ کے والد کا نام حسن ہے۔ان نظریات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اضافی جملہ جعلی اور جھوٹ ہے۔اور جب یہ ثابت ہوا کہ دوسری قسم کی روایات جعلی ہیں تو پہلی قسم کی روایات کہ جن میں یہ اضافی جملہ موجود نہیں ہے وہ بغیر کسی ٹکراو کے باقی رہتی ہیں ۔

ابن تيميه نے یہ جو ادعا کیا کہ پہلی والی روایات میں تحریف ہوئی ہے، تو یہ صحیح نہیں ہے کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے بلکہ اهل سنت کے علماء نے ان کی تأويل کی ہیں  اور اس کے بارے میں احتمال دیا ہے  جبکہ تأويل ، احتمال اور  تحريف کے درمیان فرق ہے .

4. «اسم ابيه...» روايات کو صحیح  بھی فرض کیا جائے پھر بھی ان کے مضمون قابل توجيه ہے .

ان روایات کو سمجھنے کے لئے قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ «اسم ابيه كاسم ابي»، والی روایات صحیح بھی ہوں پھر بھی ان روایات میں موجود کلمات میں دقت کیجائے :

1. « اسم ابيه» سے مراد امام حسين عليه السلام کا کنیہ ہے ۔

علامه كنجي شافعي کہتے ہیں : «ابيه»، سے مراد امام حسين عليه السلام کا كنيه ہے اور رسول خدا صلي الله عليه وآله نے اس كنيه کو حضرت مهدي عليه السلام کے والد کا نام قرار دیا ہے۔ تاکہ یہ سمجھا جائے کہ حضرت مهدي امام حسين کی نسل سے ہے اور امام حسن (عليهم السلام) کی نسل سے نہیں ہے۔

اور کیونکہ علامه كنجي کی کتاب ہمارے پاس نہیں ہے ، لہذا ان کے کلمات کو ہم علامه عيسي اربلي اور علامه مجلسي کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس مطلب کو علامه كنجي کی "كفاية الطالب ص 485، سے نقل کیا ہے۔

 وَإِنْ صَحَّ فَمَعْنَاهُ وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِي أَيِ الْحُسَيْنُ وَكُنْيَتُهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ فَجَعْلُ الْكُنْيَةِ اسْماً كِنَايَةٌ عَنْ أَنَّهُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ دُونَ الْحَسَن .

اگر یہ جملہ «اسم ابيه اسم ابي» صحیح روایات میں موجود ہو، تو اس سے مراد ، حسين بن علي کا كنيه ہے؛ کیونکہ امام حسين کا کنیہ ابو عبد الله ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے کنیہ کو ان کے نام کے عنوان سے ذکر کیا تاکہ یہ بتا سکے کہ امام مھدی علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی نسل سے ہیں ،امام حسن علیہ السلام کی نسل سے نہیں ہے ۔

الإربلي، أبي الحسن علي بن عيسي بن أبي الفتح (متوفاي693هـ)، كشف الغمة في معرفة الأئمة، ج3، ص277، ناشر: دار الأضواء ـ بيروت، الطبعة الثانية، 1405هـ ـ 1985م.

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج51، ص86، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

ابن طلحه شافعي نے بھی ابن تیمیہ کے اعتراض کے جواب میں اس روایت کی یہی تاویل کی ہے ۔

فالجواب: لا بد قبل الشروع في تفصيل الجواب من بيان أمرين يبتني عليهما الغرض:

الأول: إنه سايغ شائع في لسان العرب إطلاق لفظة «الأب» علي «الجد الأعلي» وقد نطق القرآن الكريم بذلك فقال «ملة أبيكم إبراهيم» (حج/78) وقال تعالي حكاية عن يوسف «واتبعت ملة آبائي إبراهيم وإسحاق» (يوسف/38) ونطق به النبي وحكاه عن جبرئيل في حديث الإسراء أنه قال: قلت: من هذا؟ قال: أبوك إبراهيم. فعلم أن لفظة الأب تطلق علي الجد وإن علا، فهذا أحد الأمرين.

والأمر الثاني: إن لفظة «الاسم» تطلق علي «الكنية» وعلي «الصفة» وقد استعملها الفصحاء ودارت بها ألسنتهم ووردت في الأحاديث، حتي ذكرها الإمامان البخاري ومسلم، كل واحد منهما يرفع ذلك بسنده إلي سهل بن سعد الساعدي أنه قال عن علي: والله إن رسول الله سماه بأبي تراب ولم يكن له اسم أحب إليه منه. فأطلق لفظة الاسم علي الكنية....

فإذا أوضح ما ذكرناه من الأمرين فاعلم أيدك الله بتوفيقه: إن النبي كان له سبطان: أبو محمد الحسن وأبو عبد الله الحسين، ولما كان الخلف الصالح الحجة من ولد أبي عبد الله الحسين ولم يكن من ولد أبي محمد الحسن، وكانت كنية الحسين أبا عبد الله، فأطلق النبي علي الكنية لفظة الاسم لأجل المقابلة بالاسم في حق أبيه، وأطلق علي الجد لفظة الأب. فكأنه قال: يواطئ اسمه اسمي، فهو محمد وأنا محمد وكنية جده اسم أبي، إذ هو أبو عبد الله وأبي عبد الله. لتكون تلك الألفاظ المختصرة جامعة لتعريف صفاته وإعلاما أنه من ولد أبي عبد الله الحسين بطريق جامع موجز. وحينئذ تنتظم الصفات وتوجد بأسرها مجتمعة للحجة الخلف الصالح محمد. وهذا بيان شاف كاف لإزالة ذلك الإشكال، فافهمه "

جواب : تفصیلی جواب سے پہلے دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے کیونکہ یہ ہمارے مقصد میں شامل ہیں ۔

پہلا نکتہ : زبان عربی میں یہ چیز رائج ہے کہ لفظ  «اب» کا اطلاق  «جد اعلا» پر بھی ہوتا ہے ، قرآن میں اس کے لئے نمونہ یہ ہے : «ملة ابيكم ابراهيم» اللہ نے حضرت يوسف سے نقل کیا ہے: «واتبعت ملة آبائي ابراهيم و اسحاق» رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی بات کو حدیث اسراء میں جناب جبرئيل سے نقل کیا ہے . رسول خدا نے فرمایا : میں نے کہا : یہ کون ہے ؟ جبرئيل نے کہا : آپ کے والد ابراهيم. لہذا لفظ «اب» کا جد پر اطلاق عرب میں راِئج ہے چاہئے یہ جد جتنا اوپر کا ہو ۔

دوسرا نکتہ : لفظ «اسم» «كنيه اور صفت» دونوں پر اطلاق ہوسکتا ہے ۔ عرب کے فصحاء نے اس کو استعمال بھی کیا ہے اور یہ ان کی زبانوں پر رائج امور میں سے ہے اور یہ روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔ جیساکہ بخاري اور  مسلم  نے ان روايات کو نقل کیا ہے اور ان کی سند  سهل بن سعد ساعدي تک پہنچتی ہے، اس نے حضرت علي عليه السلام سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلي الله عليه وآله نے حضرت علي کو «ابو تراب» نام دیا  اور ان کے سامنے اس سے زیادہ محبوب نام نہیں تھا . لہذا یہاں کنیہ پر بھی اسم اطلاق ہوا ہے .

جب یہ دو نکتے روشن ہوئے تو ہم اللہ کی توفیق کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص کے دو نواسے ہیں،ایک ابو محمد حسن اور دوسرا  ابو عبد الله الحسين.   اور کیونکہ اللہ کے خلف صالح ، ابو عبد الله الحسين عليه السلام کی نسل سے ہوں گے اور امام حسن کی نسل سے نہیں ہوں گے ، اسی لئے امام حسين کے کنیہ ، ابو عبد الله کو ذکر کیا ، رسول خدا صلي الله عليه وآله نے کنیہ پر اسم کا اطلاق کیا  اور جد کو اب کہا . گويا رسول خدا صلي الله عليه وآله نے اس طرح فرمایا ہے : وہ میرا ہمنام ہے یعنی میں محمد ہوں اور ان کے جد کا کنیہ میرے باپ کے نام کی طرح ہے، کیونکہ وہ  ابو عبد اللَّه اور میرے باپ کا نام  عبد اللَّه ہے۔ یہ مختصر اور موجز کلام اس لئے ہے تاکہ یہ بیان ہو جائے کہ امام مھدی علیہ السلام، ابو عبد اللَّه الحسين کی نسل سے ہیں ۔ آپ نے اس مختصر بیان کے ساتھ  حجت خدا  اور خلف صالح ، محمد کی تمام صفات کو ایک ساتھ ذکر کیا لہذا یہ بیان اس اشکال کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے ۔

الشافعي، محمد بن طلحة (متوفاي652هـ)، مطالب السؤول في مناقب آل الرسول (ع)، ص 488، تحقيق: ماجد ابن أحمد العطية. طبق برنامه كتابخانه اهل بيت.

2. یہ بھی احتمال ہے کہ  «اسم ابيه اسم ابي» کے الفاظ میں تصحيف ہوا ہے :{تصحیف کا معنی یہ ہے کہ الفاظ نقل کرنے میں اشتباہ ہوا ہے کسی نقطہ کو یا حرف کو آگے پیچھے کیا ہو }

كنجي شافعي نے بھی اس احتمال کو ممکن جانا ہے ۔ کیونکہ صحیح روایات میں تصحیف ہوجاتا ہے ، لہذا رسول خدا صلي الله عليه وآله نے «واسم ابيه اسم ابني» فرمایا ہوگا ،لیکن راوی نے  ابنی کی جگہ «ابي» لکھا ہے :

ويحتمل ان يكون الراوي توهم قوله «ابني» فصحفه فقال «أبي».

الإربلي، أبي الحسن علي بن عيسي بن أبي الفتح (متوفاي693هـ)، كشف الغمة في معرفة الأئمة، ج3، ص277، ناشر: دار الأضواء ـ بيروت، الطبعة الثانية، 1405هـ ـ 1985م.

ابن بطريق حلي نے اس احتمال کے بارے میں ایک خوبصورت بات کی ہے ۔ لہذا ان کی بات کو یہاں ذکر کرنا مناسب ہے :

اعلم أن الذي قد تقدم في الصحاح مما يماثل هذا الخبر، من قوله صلي الله عليه وآله: يواطئ اسمه اسمي، واسم أبيه اسم أبي، هو ان الكلام في ذلك لا يخلو من أحد قسمين:

اما أن يكون النبي صلي الله عليه وآله أراد بقوله: واسم أبيه اسم أبي، انه جعله علامة تدل علي أنه من ولد الحسين دون الحسن، لان لا يعتقد معتقد ذلك. فإن كان مراده ذلك، فهو المقصود، وهو المراد بالخبر، لان المهدي عليه السلام بلا خلاف من ولد الحسين عليه السلام، فيكون اسم أبيه مشابها لكنية الحسين فيكون قد انتظم اللفظ [ و ] المعني وصار حقيقة فيه.

والقسم الثاني: أن يكون الراوي وهم من قوله: ابني إلي قوله أبي، فيكون قد وهم بحرف تقديره أنه قال: ابني، فقال: هو، " أبي ". والمراد بابنه الحسن، لان المهدي عليه السلام محمد بن الحسن باجماع كافة الأمة... فقد اتضح بما قلناه وجه التحقيق، ولله المنة والحمد.

جو روایت ہم نے صحاح سے نقل کیا اور اس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : وہ میرا ہمنام ہوگا اور ان کے والد میرے والے کے ہمنام ہوگا ۔ اب اس روایت کے بارے میں دو صورتیں ہیں ؛

پہلی بات یا یہ کہنا ہوگا کہ رسول خدا صلي الله عليه وآله نے اس جملے«واسم ابيه اسم ابي»  کو بیان فرمایا تاکہ یہ بتائے کہ مھدی علیہ السلام میرے فرزند امام حسين کی نسل سے ہے اور کوئی امام حسن علیہ السلام کی نسل سے ہونے کا عقیدہ نہ رکھے . اب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصود یہی ہو تو امام مهدي عليه السلام  کسی اختلاف کے بغیر امام حسين عليه السلام است کی نسل سے ہوں گے ۔ لہذا ان کے والد کا نام  امام حسين کے کنیہ کے مشابہ ہے اور اگر اس طرح معنی کرئے تو لفظ اور معنی میں ایک خاص نظم پیدا ہوگا.

دوسری بات ؛ اگر یہاں یہ کہے كه رسول خدا صلي الله عليه وآله ہی «ابني» ہی فرمایا ہے ؛ اور راوی کو یہ گمان ہوا ہے کہ آپ نے «ابي»  فرمایا ہے ، لہذا  ابنی کے بجائے «ابي» لیکھ دیا . جبکہ  «ابني» سے مراد امام حسن علیہ اسلام تھے اور آپ اس طرح فرمانا چاہتے تھے کہ امام مھدی علیہ السلام کے والد کا نام میرے بیٹے حسن کے نام کی طرح ہوگا۔ کیونکہ اس پر سب کا اجماع ہے کہ امام مھدی علیہ السلام کے والد کا نام حسن عسكري ہے.... جو ہم نے بیان کیا اس تحقیق کی دلیل واضح ہے ۔

الحلي، يحي بن الحسن السدي المعروف بابن البطريق، (متوفاي600هـ) عمدة عيون صحاح الاخبار في مناقب امام الأبرار، ص437، ناشر: مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة: جمادي الأولي 1407

سيد محسن امين نے اعيان الشيعه میں اس احتمال کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : بعید نہیں ہے کہ اس کلمہ میں  تصحيف واقع ہوا ہو :

أقول: احتمال التصحيف قريب جدا لتقارب الكلمتين في الحروف وكون الخط القديم أكثره بدون نقط وقد أورد هذا المضمون أيضا أصحابنا في كتبهم.

تصحيف کا احتمال بعيد نہیں ہے ؛ کیونکہ یہ دو کلمے بہت سے موارد میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں، ساتھ یہ بھی قابل توجہ ہے کہ شروع میں الفاظ نقطے کے بغیر لکھے جاتے تھے۔

الأمين، السيد محسن (متوفاي 1371هـ)، أعيان الشيعة، ج2، ص50، تحقيق وتخريج: حسن الأمين، ناشر: دار التعارف للمطبوعات - بيروت - لبنان، سال چاپ: 1403 - 1983 م

نتيجه:

گزشتہ مطالب سے مندرجہ ذیل مطالب روشن ہوجاتے ہیں ؛

1. اهل سنت کی روايات میں ، «اسمه اسمي» کے مضمون کے ساتھ کئی روایتیں صحيح سند ذکر ہوئی ہیں ، اور ابن تیمیہ کا یہ ادعا کہ اضافی جملے کے بغیر نقل شدہ ان روایات کو شیعوں نے جعل کیا ہے، تو یہ یا اھل سنت کی کتابوں میں روایات سے اس کی جھالت کا نتیجہ ہے يا حقايق کو چھپانے کی خاطر ایسا ادعا کیا ہے ۔. اب جب یہ بات ثابت ہوگئ کہ پہلے حصے «اسمه اسمي» والی روایات صحیح سند ہیں، تو اب شيعوں کا نظریہ ثابت ہوجاتا ہے ، اب اھل سنت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اضافی جملہ والی روایات بھی صحیح سند ہیں !

2. اھل سنت کی کتابوں میں موجود  «اسم ابيه اسم ابي» والی تمام روایات کی سند یا ضعيف ہے  یا یہ راوی کے مضطرب الحدیث ہونے کی وجہ سے حجت اور قابل اعتماد نہیں ہے ۔

3. جن روایات میں اضافی جملہ موجود ہے وہ روایات دوسری قسم کی روایات کے لئے مفسر نہیں ہوسکتی؛ کیونکہ ایک تو اھل سنت کے علماء نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان دو میں تعارض موجود ہے اور ان میں سے بعض نے واضح طور پر کہا ہے کہ اضافی جملے والی روایات  کو اور بعض نے اضافی کے بغیر والی روایات کوجعلی قرار دیا ہے  اور بعض نے تو واضح طور پر امام حسن عسگري عليه السلام کو امام مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف کے والد قرار دیا ہے ۔

4. اگر اضافی جملہ والی روایات کے صحیح ہونے کو بھی قبول کیا جائے تو پھر یہ یہ روایات شیعہ نظریہ پر قابل حمل ہے.

لہذا شیعوں کا یہ نظریہ کہ حضرت مهدي عليه السلام کے والد کا نام حسن ہے ، یہ نظریہ صحیح سند روایات سے اخذ شدہ ہے اس سلسلے کی روایات شیعہ کتابوں میں بھی ہیں اور اھل سنت کی کتابوں میں موجود روایات بھی اسی نظریے کی تائید کرتی ہیں۔

التماس دعا ۔۔۔۔

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم ۔۔تحقیقاتی ادارہ حضرت ولی العصر عج

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: