موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
باغی کی وکالت ،سلف سے بغاوت امیر المومنین علیہ السلام سے جنگ کرنے والے باغی تھے ۔
مندرجات: 2028 تاریخ اشاعت: 03 آبان 2021 - 20:25 مشاہدات: 3691
مضامین و مقالات » پبلک
باغی کی وکالت ،سلف سے بغاوت امیر المومنین علیہ السلام سے جنگ کرنے والے باغی تھے ۔

   باغی کی وکالت ،سلف سے بغاوت

 

امیر المومنین علیہ السلام سے جنگ کرنے والے باغی تھے ۔

 مطالب کی فہرست :

حقیقت کو چھپانے کے لئے شیعوں کے خلاف تبلیغ

 اھل سنت کے بزرگ علماء کے آراء {۲۴ سے زیادہ علماء کے آراء اور حوالے}

معاویہ کا اعتراف :

معاویہ کے لشکر میں موجود ایک صحابی کا اعتراف:

 بعض اصحاب کی ندامت اور پشیمانی۔

 

 

حقیقت کو چھپانے کے لئے شیعوں کے خلاف تبلیغ

  عجیب بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ ،حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے جنگ کرنے والوں کو اہل حق نہ سمجھنے اور ان کو امام حق کے خلاف بغاوت کرنے والے سمجھنے کو شیعوں کا ہی نظریہ سمجھتے ہیں۔ اور اس کو شیعوں کی طرف نسبت دے کر یہ کہتے ہیں کہ شیعہ اصحاب سے دشمنی میں ایسا موقف رکھتے ہیں اور یہ ادعا کرتے ہیں کہ اہل سنت دونوں گروہوں کو حق پر سمجھتے ہیں ۔

اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ان جنگوں کو منافقوں کا کام کہہ کر ان جنگوں میں شریک بڑے بڑے اصحاب کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ، گویا بزرگ اصحاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ممتاز شاگرد منافقوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نیام سے نکالے تھے ۔ اور ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ گویا ایک میلے میں بھگڈر کے نتیجے میں ہزاروں لوگ اور بہت سے صحابہ مارے گئے۔

 اور یوں ان جنگوں میں اصحاب کے ہی پیش پیش ہونے اور اصحاب کے ہی بنیادی کردار ہونے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ یہ سب اصحاب کے بارے اپنے بنائے ہوئے نظریات کی کمر توڑ دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ بعض نے تو مشاجرات صحابہ کے نام پر "ہولوکاسٹ" جیسا ماحول بنا کر ان چیزوں سے بحث کو جرم سمجھتے ہیں ۔

ہم ذیل میں ان جنگوں کے بارے میں اہل سنت کے بعض بزرگوں کے نظریات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ بعض اپنے سلف سے بغاوت کر کے خود کو ہی اہل سنت کا حقیقی ترجمان کہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اہل سنت کی تاریخ پر پردہ ڈالنے اور اپنے ہی سلف کو خطاء کار کہنے کی راہ پر گامزن ہیں۔

 

اھل سنت کے بزرگ علماء کے آراء  

 

1.      سارے فقہاء اور علماء کا متفقہ فیصلہ

 

وَقَالَ الْإِمَامُ عَبْدُ الْقَاهِرِ الْجُرْجَانِيُّ فِي ‹‹كِتَابِ الإْمَامَةِ››: أَجْمَعَ فُقَهَاءُ الْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ مِنْ فَرِيْقَيِ الْحَدِيْثِ وَالرَّاْيِ مِنْهُمْ: مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُوْ حَنِيْفَةَ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَالْجَمْهُوْرُ الأَعْظَمُ مِنَ الْمُتَكَلِّمِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ أَنَّ عَلِيًّا مُصِيْبٌ فِي قِتَالِهِ لِأَهْلِ صِفِّيْنَ كَمَا هُوَ مُصِيْبٌ فِي أَهْلِ الْجَمَلِ، وَأَنَّ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَالِمُوْنَ لَهُ لَكِنْ لَا يُكَفَّرُوْنَ بِبَغْيِهِمْ، وَقَالُوْا أَيْضًا: بِأَنَّ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَالِمُونَ لَهُ لَـكِنْ لَا يَجُوْزُ تَكْفِيْرُهُمْ بِبَغْيِهِمْ.

امام عبدالقاہر الجرجانی اپنی کتاب ’’الإمامة‘‘ میں فرماتے ہیں: فقہائے اسلام نے فرمایا ہے: حجاز اور عراق کے محدثین اور فقہاء کرام کی دونوں طرف کی جماعتیں جن میں امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام اوزاعی اور متکلمین اور جمیع مسلمین کے جمہورِ اعظم کا اجماع ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام اہلِ صفین کے خلاف جنگ میں حق پر تھے، جیسا کہ آپ اہلِ جَمل کے ساتھ قتال میں حق پر تھے، نیز انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کی وہ باغی اور ظالم تھے، لیکن اُن کے خروج و بغاوت کی وجہ سے اُنہیں کافر قرار دینا جائز نہیں ہے۔

 القرطبي في التذكرة، 2/626، والمناوي في فيض القدير، 6/366

 

2.     امام ابن خزيمة اور امام شافعی کا نظریہ

وَكُلُّ مَنْ نَازَعَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي إِمَارَتِهِ فَهُوَ بَاغٍ، عَلَى هَذَا عَهِدْتُ مشَايِخَنَا وَبهُ قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ يَعْنِي الشَّافِعِيَّ رَحِمَهُ اللَّهُ.

 جس نے میں حکومت کے معاملے میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے جنگ کی وہ باغی ہے۔ اور ہمارے مشائخ کا نظریہ بھی یہی ہے اور ابن ادریس شافعی نے بھی یہی کہا ہے۔     

الاعتقاد للبيهقي (ص: 375):

3.     امام بیہقی کا نظریہ :

وَأَمَّا خُرُوجُ مَنْ خَرَجَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَعَ أَهْلِ الشَّامِ فِي طَلَبِ دَمِ عُثْمَانَ ثُمَّ مُنَازَعَتُهُ إِيَّاهُ فِي الْإِمَارَةِ فَإِنَّهُ غَيْرُ مُصِيبٍ فِيمَا فَعَلَ، وَاسْتَدْلَلْنَا بِبَرَاءَةِ عَلِيٍّ مِنْ قَتْلِ عُثْمَانَ بِمَا جَرَى لَهُ مِنَ الْبَيْعَةِ ثُمَّ بِمَا كَانَ لَهُ مِنَ السَّابِقَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْفَضَائِلِ الْكَثِيرَةِ وَالْمنَاقِبِ الْجَمَّةِ الَّتِي هِيَ مَعْلُومَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ إِنَّ الَّذِي خَرَجَ عَلَيْهِ وَنَازَعَهُ كَانَ بَاغِيًا عَلَيْهِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَخْبَرَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ بِأَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ تَقْتُلُهُ فَقَتَلَهُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَرْبِ صِفِّينَ۔

اہل شام {معاویہ اور اس کے گروہ } نے عثمان کے خون کے قصاص کے بہانے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف خروج کیا اور حکومت کے معاملے میں آپ  سے نزاع کرتے ہوئے جو کام انجام دیا وہ صحیح نہیں تھا اور ہم نے دلیل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت امیر علیہ السلام  قتل جناب عثمان سے بری الذمہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔  جن لوگوں نے آپ کے خلاف قیام کیا اور آپ سے جنگ کی وہ باغی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرئے گا۔ تو یہ باغی گروہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے جنگ صفین میں آپ کے خلاف خروج کیا ۔

                                      " الاعتقاد للبيهقي (ص: 374

4.     امام ابو الحسن المرغینانی:

  قَالَ الْإِمَامُ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْغِيْنَانِيُّ فِي ‹‹الْهِدَايَةِ››: ثُمَّ يَجُوْزُ التَّقَلُّدُ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَائِرِ كَمَا يَجُوْزُ مِنَ الْعَادِلِ، لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوْهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ ، وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ علیہ السلام فِي نَوْبَتِهِ. وَالتَّابِعِيْنَ تَقَلَّدُوْهُ مِنَ الْحَجَّاجِ وَكَانَ جَائِرًا.

امام ابو الحسن المرغینانی اپنی کتاب ’’ الهدایة‘‘ میں لکھا ہے : ۔۔۔۔حالاں کہ ان کی خلافت کے معاملے میں حق حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا۔۔۔

المرغيناني في الهداية شرح بداية المبتدي، 3/102

5.     ابن الشیخ جمال الدین الرومی البابرتی  :

 قَالَ ابْنُ الشَّيْخِ جَمَالُ الدِّيْن الرُّوْمِيُّ الْبَابَرْتِيُّ فِي الْعِنَايَةِ شَرْحِ الْهِدَايَةِ تَحْتَ عِبَارَةِ الْمَرْغِيْنَانِيِّ: (قَوْلُهُ: ثُمَّ يَجُوْزُ التَّقَلُّدُ) ۔۔۔۔۔۔ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوا الْقَضَاءَ مِنْ مُعَاوِيَةَ وَكَانَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ علیہ السلام فِي نَوْبَتِهِ، دَلَّ عَلَى ذَلِكَ حَدِيثُ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ (1

ابن الشیخ جمال الدین الرومی البابرتی ’’العناية شرح الهداية‘‘ میں امام مرغینانی کی عبارت کے تحت لکھا ہے: امام مرغینانی کا یہ کہنا۔۔۔۔۔

  صحابہ کرام نے بھی معاویہ سے قضاء کی ذمہ داریاں قبول کی تھیں، حالاں کہ خلافت کے اَصل حق دار اس وقت حضرت علی علیہ السلام تھے۔ اس (خلافت کی حقانیت) پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی حدیث صراحتاً دلالت کرتی ہے۔ ۔۔۔۔

6.     امام کمال الدین بن الہمام الحنفی :

 قَالَ كَمَالُ الدِّيْنِ بْنُ الْهُمَامِ الْحَنَفِيُّ فِي شَرْحِ فَتْحِ الْقَدِيْرِ: (قَوْلُهُ: وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي نَوْبَتِهِ) هَذَا تَصْرِيحٌ بِجَوْرِ مُعَاوِيَةَ، وَالْمُرَادُ فِي خُرُوْجِهِ ۔۔۔ كَانَ الْحَقُّ مَعَهُ فِي تِلْكَ النَّوْبَةِ لِصِحَّةِ بَيْعَتِهِ وَانْعِقَادِهَا فَكَانَ عَلَى الْحَقِّ فِي قِتَالِ مُعَاوِيَةَ بِصِفِّينَ. وَقَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لِعَمَّارٍ: سَتَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. وَقَدْ قَتَلَهُ أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ يُصَرِّحُ بِأَنَّهُمْ بُغَاةٌ.

امام کمال الدین بن الہمام الحنفی اپنی کتاب ’’شرح فتح القدیر‘‘ میں لکھتے ہیں: صاحبِ ھدایہ کا یہ کہنا کہ [حق خلافت کے معاملے میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھا] معاویہ کے غیر عادل حکمران ہونے پر تصریح ہے۔ یہاں جور سے مراد ان کا خلیفہ راشد کے خلاف خروج کرنا ہے ۔۔لہٰذا حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام ، معاویہ کے مقابلے میں صفین کے معرکہ میں حق پر تھے۔ نیز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو فرمانا - ’اے عمار! تمہیں باغی گروہ شہید کرے گا‘ - اس معرکے میں حق و باطل کے تعین میں واضح دلیل ہے۔ کیوں کہ انہیں معاویہ کے ساتھیوں نے ہی شہید کیا تھا۔ یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ وہ لوگ باغی تھے۔

 ابن الشيخ جمال الدين الرومي البابرتي في العناية شرح الهداية (على حاشية شرح فتح القدير)، 7/246

 

7.     امام بدر الدین عینی  :

  : (قَوْلُهُ: وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي نَوْبَتِهِ): أَي فِي خِلَافَتِهِ؛ لِأَنَّ الْخِلَافَةَ كَانَتْ لَهُ بَعْدَ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ بِالنَّصِّ.... وَعِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ مُعَاوِيَةُ   كَانَ بَاغِيًا فِي نَوْبَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ۔۔

امام بدر الدین عینی ’’البناية شرح الهداية‘‘ میں لکھتے ہیں: اُن کا یہ کہنا کہ [ان کی باری میں حق حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھا] یعنی ان کی خلافت کے مسئلے میں اِستحقاق حضرت علی علیہ السلام ہی کا تھا کیوں کہ عثمان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خلافت نص سے ثابت ہے۔۔ ۔۔ اور اَہلِ سنت کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو قبول نہ کرنے اور ان کے خلاف خروج کرنے کی وجہ سے معاویہ بغاوت کرنے والے تھے۔۔

بدر الدين العيني في البناية شرح الهداية، 9/14

امام بدر الدین العینی الحنفی ایک اور جگہ لکھتا ہے

  قُلْتُ: كَيْفَ يُقَالُ: كَانَ مُعَاوِيَةُ مُخْطِئًا فِي اجْتِهَادِهِ، فَمَا كَانَ الدَّلِيْلُ فِي اجْتِهَادِهِ؟ وَقَدْ بَلَغَهُ الْحَدِيْثُ الَّذِي قَالَا: وَيْحَ ابْنِ سُمَيَّةَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، وَابْنُ سُمَيَّةَ هُوَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ، وَقَدْ قَتَلَهُ فِئَةُ مُعَاوِيَةَ، أَفَلَا يَرْضَى مُعَاوِيَةُ رضی اللہ عنہ سَوَاءً بِسَوَاءٍ حَتَّى يَكُوْنَ لَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ؟

: میں کہتا ہوں: یہ کیسے کہہ دیا جاتا ہے کہ معاویہ نے اپنے اجتہاد میں خطا کی، سوال یہ ہے کہ ان کے اجتہاد پر دلیل کیا ہے؟ حالانکہ انہیں وہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابن سمیہ پر رحمت ہو، اِس کو باغی گروہ قتل کرے گا، ابن سمیہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم ہیں، اور اُنہیں معاویہ کے گروہ نے ہی شہید کیا تھا۔ کیا معاویہ اس بات پر راضی نہیں کہ ان کا معاملہ برابر برابر ہو جائے، چہ جائیکہ ان کے لیے (غلط اجتہاد کا) اجر واحد ہو؟

العيني في عمدة القاري، 24/192، الرقم/7083

8.     امام ابن نجیم الحنفی’’

قَالَ الْإِمَامُ ابْنُ نُجَيْمٍ الْحَنَفِيُّ فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ شَرْحِ كَنْزِ الدَّقَائِقِ: (قَوْلُهُ: وَيَجُوزُ تَقَلُّدُ الْقَضَاءِ مِنَ السُّلْطَانِ الْعَادِلِ وَالْجَائِرِ وَمِنْ أَهْلِ الْبَغْيِ)؛ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ، وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي نَوْبَتِهِ ۔۔۔. وَفِي فَتْحِ الْقَدِيرِ، وَهَذَا تَصْرِيحٌ بِجَوْرِ مُعَاوِيَةَ، وَالْمُرَادُ فِي خُرُوجِهِ لَا فِي أَقْضِيَتِهِ.

امام ابن نجیم الحنفی’’ البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘میں لکھتے ہیں: ۔۔۔حالاں کہ خلافت کے معاملے میں حق حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھا۔۔ ۔ 'فتح القدیر ' میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ یہ قول حضرت معاویہ کے غیر عادل حکمران ہونے پر تصریح ہے۔ (یہاں ) ان کی مراد خلیفہ راشد کے خلاف خروج (یعنی بغاوت کرنے) میں ہے، نہ یہ کہ وہ تمام فیصلوں میں ۔

ابن نجيم الحنفي في البحر الرائق شرح كنز الدقائق، 6/460

9.     امام شہاب الدین احمد الشلبی  :

قَالَ شِهَابُ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الشَّلْبِيُّ فِي حَاشِيَةِ عَلَى تَبْيِيْنِ الْحَقَائِقِ شَرْحِ كَنْزِ الدَّقَائِقِ: ۔۔۔۔۔؛ لِأَنَّ شُرَيْحًا كَانَ يَتَوَلَّى الْقَضَاءَ مِنْ جِهَةِ مُعَاوِيَةَ وَمَنْ بَعْدَهُ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ، وَكَانُوا خَارِجِينَ عَلَى إِمَامِ الْحَقِّ۔۔

 امام شہاب الدین احمد الشلبی ’’تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: متن میں ان کے قول: [اور منصبِ قضاء کی ذمہ داری قبول کرنا عادل اور غیر عادل حکمران سے جائز ہے] ۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ قاضی شریح، معاویہ اور بنو اُمیہ کے بعد میں آنے والے حکمرانوں کی طرف سے منصبِ قضاء پر فائز رہے ہیں، باوجود اس کے کہ یہ لوگ امامِ برحق حضرت علی علیہ السلام کی خلافتِ حقہ کے خلاف خروج کرنے والے تھے۔

شهاب الدين أحمد الشلبي في حاشية على تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، 4/177

10.            ملا خسرو الحنفی

 قَالَ مُلَّا خُسْرُو اَلْحَنَفِيُّ فِي دُرَرِ الْحُكَّامِ شَرْحِ غُرَرِ الأَحْكَامِ: وَيَجُوزُ تَقَلُّدُهُ مِنَ الْجَائِرِ كَمَا يَجُوزُ مِنَ الْعَادِلِ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہما تَقَلَّدُوا الْقَضَاءَ مِنْ مُعَاوِيَةَ بَعْدَ أَنْ أَظْهَرَ الْخِلَافَ لِعَلِيٍّ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ مَعَ أَنَّ الْحَقَّ كَانَ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، ۔۔۔

ملا خسرو الحنفی ’’درر الحكام شرح غرر الأحكام‘‘ میں لکھتاہے :  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے معاویہ سے منصبِ قضاء کی ذمہ داریاں قبول کیں، باوجود اس کے کہ انہوں نے مسئلہ خلافت پر حضرت علی علیہ السلام سے اپنا اختلاف ظاہر کر دیا تھا، جبکہ حضرت علی علیہ السلام حق پر تھے۔

ملا خسرو الحنفي في درر الحكام شرح غرر الأحكام، 2/405

11.            امام ابو منصور   

 ‹‹الْفَرْقُ بَيْنَ الْفِرَقِ›› :  وَقَالُوْا بِإِمَامَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي وَقْتِهِ، وَقَالُوْا بِتَصْوِيْبِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي حُرُوْبِهِ بِالْبَصْرَةِ وَبِصِفِّيْنَ وَبِنَهْرَوَانَ.۔۔۔

امام ابو منصور اپنی کتاب ’’الفرَق بین الفِرق‘‘ میں عقیدۂ اہل سنت کی توضیح میں لکھتا ہے : علماء کرام نے حضرت علی علیہ السلام  کے زمانہ میں انہی کی خلافت کے حق ہونے کاقول کیا ہے اور بصرہ، صِفّین اور نَہروان کی جنگوں میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق پر ہونے کی تصریح کی ہے۔۔۔۔۔

أبو منصور البغدادي في الفَرْق بين الفِرَق/342

12.            امام الْمُنَاوِيُّ

  «تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» قَالَ الْقَاضِي فِي شَرْحِ الْمَصَابِيْحِ: يُرِيْدُ بِهِ مُعَاوِيَةَ وَقَوْمَهُ، وَهَذَا صَرِيْحٌ فِي بَغْيِ طَائِفَةِ مُعَاوِيَةَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْا عَمَّارًا فِي وَقْعَةِ صِفِّيْنَ، وَأَنَّ الْحَقَّ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ وَهُوَ مِنَ الأَخْبَارِ بِالْمُغَيَّبَاتِ «يَدْعُوْهُمْ» أَيْ عَمَّارٌ يَدْعُوْ الْفِئَةَ وَهُمْ أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْهُ بِوَقْعَةِ صِفِّيْنَ فِي الزَّمَانِ الْمُسْتَقْبَلِ «إِلَى الْجَنَّةِ» أَيْ إِلَى سَبَبِهَا وَهُوَ طَاعَةُ الإِمَامِ الْحَقِّ «وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى» سَبَبِ «النَّارِ» وَهُوَ عِصْيَانُهُ وَمُقَاتَلَتُهُ، قَالُوْا: وَقَدْ وَقَعَ ذَلِكَ فِي يَوْمِ صِفِّيْنَ دَعَاهُمْ فِيْهِ إِلَى الإِمَامِ الْحَقِّ وَقَتَلُوْهُ، فَهُوَ مُعْجِزَةٌ لِلْمُصْطَفَى صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَعَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِ نُبُوَّتِهِ.

امام مناوی نے ’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘ میں ’’تقتله الفئة الباغیة‘‘ کی تشریح میں کہا ہے: قاضی بیضاوی نے ’’شرح المصابیح‘‘ میں فرمایا ہے: اس سے اور اُن کا گروہ مراد ہے، اور یہ حدیث معاویہ اور اُن کے گروہ کے باغی ہونے میں صریح ہے (یعنی اس میں کسی تاویل، شرح اور وضاحت کی کوئی حاجت نہیں ہے)، اُنہوں نے ہی جنگِ صفین میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اور حق حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھااور یہ حدیث مبارک غیبی خبروں میں سے ہے۔ ’’یدعوهم‘‘ (وہ اُنہیں بلائے گا) یعنی عماراُس گروہ کو بلائیں گے جو کہ معاویہ کے ساتھی ہوں گے جنہوں نے اُنہیں زمانۂ مستقبل میں صفین میں قتل کرنا تھا۔ ’’إلی الجنة‘‘ جنت کی طرف سے بلانے سے مراد سببِ جنت کی طرف بلاناہے اور وہ امامِ حق کی طرف بلاناہے۔ ’’ویدعونه إلی النار‘‘: اور وہ لوگ اُسے جہنم کی طرف بلائیں گے، اس کا معنیٰ اُس کے سبب کی طرف بلاناہے اور وہ خلیفۂ حق کی نافرمانی اور اُس کے خلاف جنگ کرناہے۔ علماء نے کہاہے: یہ سب کچھ صفین میں وقوع پذیر ہوا، حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اُنہیں امامِ حق کی طرف بلایا تھااور اُنہوں نے اُنہیں شہید کر دیا تھا۔ یہ ( اس واقعہ کی قبل از وقت خبر دینا) سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامعجزہ اور آپ کی نبوت کے دلائل میں سے ایک بڑی دلیل ہے۔

المناوي في فيض القدير، 6/365

13.            ملا علی القاری   :

قَالَ الْمُلَّا عَلِيٌ الْقَارِي فِي مِرْقَاةِ الْمَفَاتِيْحِ شَرْحِ مِشْكَاةِ الْمَصَابِيْحِ: (تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ) أَيِ: الْجَمَاعَةُ الْخَارِجَةُ عَلَى إِمَامِ الْوَقْتِ وَخَلِيفَةِ الزَّمَانِ. قَالَ الطِّيبِيُّ: تَرَحَّمَ عَلَيْهِ بِسَبَبِ الشِّدَّةِ الَّتِي يَقَعُ فِيْهَا عَمَّارٌ مِنْ قِبَلِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ يُرِيدُ بِهِ مُعَاوِيَةَ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ قُتِلَ يَوْمَ صِفِّينَ.

وَقَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: اعْلَمْ أَنَّ عَمَّارًا قَتَلَهُ مُعَاوِيَةُ وَفِئَتُهُ، فَكَانُوا طَاغِينَ بَاغِينَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، لِأَنَّ عَمَّارًا كَانَ فِي عَسْكَرِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، وَهُوَ الْمُسْتَحِقُّ لِلْإِمَامَةِ، فَامْتَنَعُوا عَنْ بَيْعَتِهِ./

ملا علی القاری ’’مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح‘‘ میں لکھتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس - 'تجھے باغی گروہ شہید کرے گا ' - سے مراد ہے کہ ایسا گروہ جو امامِ وقت اور خلیفہ زمان کے خلاف بغاوت کرنے والا ہوگا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے لیے رحم کی دعا کی، اُس مشکل اور اذیت کے سبب جس کا انہیں باغی گروہ کی جانب سے سامنا کرنا تھا۔ یہاں باغی گروہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد معاویہ اور ان کے ساتھی ہیں کیوں کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ صفین کے روز شہید کیے گئے۔

ابن مالک کہتے ہیں: یہ بات جان لینی چاہیے کہ حضرت عمار بن یاسر کو معاویہ رضی اور ان کے گروہ نے شہید کیا ہے۔ لہٰذا اس حدیث مبارک کے تحت وہ لوگ سرکش اور باغی قرار پائے ہیں کیوں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ حضرت علی علیہ السلام کے لشکر میں تھے جو حقیقت میں خلافت کے صحیح حقدار تھے۔ معاویہ   اور ان کے گروہ نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت لینے سے انکار کر دیا تھا (یوں حدیث مبارک کی روشنی میں خلافتِ علی کا انکار کرنے والا گروہ باغی قرار پایا)۔

ملا على القاري فى مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 11/17

 

14.            ابن حجر العسقلاني "صاحب فتح الباری "

قَوْلُهُ: ثَبَتَ أَنَّ أَهْلَ الْجَمَلِ وَصِفِّينَ وَالنَّهْرَوَانِ بُغَاةٌ. هُوَ كَمَا قَالَ، وَيَدُلُّ عَلَيْهِ حَدِيثُ عَلِيٍّ: " أُمِرْت بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ وَالْمَارِقِينَ ". رَوَاهُ النَّسَائِيُّ فِي الْخَصَائِصِ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالنَّاكِثِينَ: أَهْلُ الْجَمَلِ؛ لِأَنَّهُمْ نَكَثُوا بَيْعَتَهُ، وَالْقَاسِطِينَ: أَهْلُ الشَّامِ؛ لِأَنَّهُمْ جَارُوا عَنْ الْحَقِّ فِي عَدَمِ مُبَايَعَتِهِ، وَالْمَارِقِينَ: أَهْلُ النَّهْرَوَانِ لِثُبُوتِ الْخَبَرِ الصَّحِيحِ فِيهِمْ: «أَنَّهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ» ، وَثَبَتَ فِي أَهْلِ الشَّامِ حَدِيثُ عَمَّارٍ: «تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» وَقَدْ تَقَدَّمَ، وَغَيْرُ ذَلِكَ مِنْ الْأَحَادِيثِ

اس کا یہ قول کہ اہل جمل،صفین اور نہروان باغی تھے،یہ ایسا ہی ہے اور اس پر حضرت علی علیہ السلام سے منقول یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا: مجھے النَّاكِثِينَ ، َالْقَاسِطِينَ  اور َالْمَارِقِينَ سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نسائی نے خصائص میں اور بزار اور طبرانی نے اس کو نقل کیا ہے، ناکثین سے مراد اہل جمل ہے کیوں انہوں نے بیعت توڑی،قاسطین سے مراد ،اہل شام ہیں کیونکہ انہوں نے امام حق کی بیعت نہ کر کے ظلم کیا اور مارقین سے مراد اہل نہروان ہیں کیونکہ،صحیح سند حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے اور اہل شام کے بارے میں بھی جناب عمار والی حدیث ثابت ہے {افسوس ہے تجھے ایک باغی گروہ قتل کرئے گا ۔.

ابن حجر العسقلاني، أحمد بن علي (المتوفى: 852هـ): التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير(4/ 84، ،تحقيق: أبو عاصم حسن بن عباس بن قطب ،الناشر: مؤسسة قرطبة – مصر الطبعة: الأولى، 1416هـ/1995معدد الأجزاء: 4

 

ابن حجر دوسری جگہ " حدیث تقتلہ فئۃ الباغیہ" کے ضمن میں لکھتا ہے

وغالب طرقها صحيحة أو حسنة  ... ورد على النواصب الزاعمين أن عليا لم يكن مصيبا في حروبه۔۔۔

اس کے اکثر طرق صحیح یا حسن ہیں ، اور اس میں نواصب کا رد بھی ہے کہ جو یہ گمان کرتے ہیں ان جنگوں میں علی علیہ السلام حق پر نہیں تھے ۔

فتح الباري شرح صحيح البخاري، ، ج2، ص189 و 190، دار طیبة.

 

 ابن حجر ایک اور جگہ لکھتا ہے

كِتَابِ الْفِتَنِ، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيّ رضی اللہ عنہما: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ» مِنْ كِتَابِهِ ‹‹فَتْحِ الْبَارِي››: ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ﴾، [الحجرات، 49/19]، فَفِيْهَا الْأَمْرُ بِقِتَالِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ مَنْ قَاتَلَ عَلِيًّا كَانُوا بُغَاةً ۔۔۔۔۔( العسقلاني في فتح الباري، 13/67، الرقم/6692

)وَيَكْفِيْ لِإِثْبَاتِ ذَلِكَ الْحَدِيْثُ الصَّحِيْحُ الَّذِيْ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيِةُ يَدْعُوْهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى النَّارِ۔۔۔۔۔۔۔. (2)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ’’فتح الباری، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للحسن بن علي  : «إن ابني هذا سيد»‘‘ میں لکھا ہے: اس آیت ﴿وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا﴾ ’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو‘ میں باغی گروہ سے لڑنے کا حکم ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ کی وہ باغی تھے۔۔۔۔۔

اورایک گروہ کے حق پر ہونے کی تعیین و تصریح کے لیے یہ صحیح حدیث ہی کافی ہے جسے امام بخاری نے بایں الفاظ نقل کیاہے: ’’عمار پر رحمت ہو اُسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، یہ اُنہیں جنت کی طرف بلائے گا اور وہ اُسے جہنم کی طرف بلائیں گے۔

العسقلاني في فتح الباري، 13/67، الرقم/6692

وَدَلَّ حَدِيْثٌ: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» عَلَى أَنَّ عَلِيًّا كَانَ الْمُصِيْبَ فِي تِلْكَ الْحَرْبِ، لِأَنَّ أَصْحَابَ مُعَاوِيَةَ قَتَلُوْهُ، وَقَدْ أَخْرَجَ الْبَزَّارُ بِسَنَدٍ جَيِّدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: ‹‹كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: كَيْفَ أَنْتُمْ وَقَدْ خَرَجَ أَهْلُ دِيْنِكُمْ يَضْرِبُ بَعْضُهُمْ وُجُوْهَ بَعْضٍ بِالسَّيْفِ، قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: اُنْظُرُوا الْفِرْقَةَ الَّتِي تَدْعُوْ إِلَى أَمْرِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فَالْزِمُوْهَا، فَإِنَّهَا عَلَى الْحَقِّ››. ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں مزید لکھتے ہیں: حدیث ’’تقتل عمارا الفئة الباغیة‘‘ دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ان تمام جنگوں میں حق پر تھے، کیونکہ معاویہ کے ساتھیوں نے عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ امام بزار سندِ جید کے ساتھ حضرت زید بن وہب سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بیان کیا: ہم سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، اُنہوں نے فرمایا: اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب تمہارے ہی دین والے خروج کریں گے اور ایک دوسرے پر تلواروں کے ساتھ حملہ آور ہوں گے؟ لوگوں نے عرض کیا: پھر آپ ہمیں (اس وقت کے لیے) کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا: تم اُس گروہ پر نظر رکھنا جو علی علیہ السلام  کے امر کی طرف بلا رہا ہو، اسی کی پیروی کرنا یقیناً وہ حق پر ہوگا۔

ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 13/85-86

15. امام قرطبی نے ‹‹التَّذْكِرَةِ››: میں لکھا ہے۔

  وَرُبَّمَا نَدِمَ بَعْضُهُمْ عَلَى تَرْكِ ذَلِكَ كَعَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، فَإِنَّهُ نَدِمَ عَلَى تَخَلُّفِهِ عَنْ نُصْرَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ فَقَالَ عِنْدَ مَوْتَهِ: 'مَا آسِيْ عَلَى شَيْءٍ مَا آسِيْ عَلَى تَرْكِي قِتَالَ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ ' يَعْنِي فِئَةَ مُعَاوِيَةَ، وَهَذَا هُوَ الصَّحِيْحُ أَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ إِذَا عُلِمَ مِنْهَا الْبَغْيُ قُوْتِلَتْ.

امام قرطبی نے’’التذکرة في أحوال الموتى وأمور الآخرة‘‘ میں کہا ہے: بسا اوقات بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس ترکِ حمایت پر افسردہ ہوتے تھے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر حضرت علی علیہ السلام کی مدد و نصرت سے پیچھے رہ جانے پر افسردہ ہوئے تھے، اپنی وفات کے وقت انہوں نے کہا تھا: مجھے کسی چیز پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس باغی گروہ یعنی معاویہ کے لشکر کے خلاف جنگ نہ کرنے پر ہوا ہے۔ یہ وہ صحیح دلیل ہے کہ جب کسی گروہ کی بغاوت معلوم ہو جائے تو اُس سے قتال کیا جائے گا۔

القرطبي فى التذكرة/637

امام قرطبی ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں :

  "... فتقرّر عند علماء المسلمين وثبت بدليل الدين

أنّ عليّاً كان إماماً، وأنّ كلّ من خرج عليه باغ، وأنّ قتاله واجب حتى يفيء إلى الحقّ وينقاد إلى الصلح"

 علماء مسلمین کے نذدیک یہ بات دلیل سے ثابت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام امام تھے ۔جن جن لوگوں نے بھی ان کے خلاف قیام کیا ہے وہ سب باغی ہیں۔ باغیوں سے جنگ کرنا واجب تھا یہاں تک کہ وہ لوگ حق کی طرف پلٹ آئے اور صلح کرنے کو تیار ہوجائے۔

تفسير القرطبي 1: 318.

16.            امام ابو منصور البغدادی اپنی کتاب ‹‹أُصُوْلِ الدِّيْنِ›› میں لکھتا ہے:

  أَجْمَعَ أَصْحَابُنَا عَلَى أَنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ مُصِيْبًا فِي قِتَالِ أَصْحَابِ الْجَمَلِ، وَفِي قِتَالِ أَصْحَابِ مُعَاوِيَةَ بِصِفِّيْنَ، وَقَالُوْا فِي الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بِالْبَصْرَةِ: إِنَّهُمْ كَانُوْا عَلَى الْخَطَأِ، ۔۔۔۔۔َهَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةُ بَرِيْئُوْنَ مِنَ الْفِسْقِ، وَالْبَاقُوْنَ مِنْ أَتْبَاعِهِمُ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْا عَلِيًّا فَسَقَةٌ، وَأَمَّا أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُمْ بَغَوْا، وَسَمَّاهُمُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بُغَاةً فِي قَوْلِهِ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» وَلَمْ يَكْفُرُوْا بِهَذَا الْبَغْيِ۔۔

ہمارے تمام ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اصحابِ جَمل کے ساتھ قتال میں اور صفّین میں معاویہ کے ساتھ قتال میں حق بجانب تھے۔ علماء کرام نے اُن لوگوں کے بارے میں جنہوں نے بصرہ میں علی علیہ السلام کے ساتھ قتال کیا، کہا ہے کہ وہ خطا پر تھے، ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔جناب عائشہ،طلحہ اور زبیر یہ تینوں حضرات فسق سے بری ہیں اور ان کے باقی پیروکار جنہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ کی وہ فاسق ہوگئے۔ رہے اصحابِ معاویہ تو اُنہوں نے بغاوت کی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کو یہ’’تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ‘‘فرمایا کر اُنہیں باغی قرار دے دیا تھا، مگر اس بغاوت سے وہ کافر نہیں ہوئے۔

ذكره أبو منصور البغدادي في أصول الدين/315

 

17.            حافظ ابن کثیر

  وَهَذَا مَقْتَلُ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ مَعَ أَمْيِرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالَبٍ قَتَلُهُ أَهْلُ الشَّامِ. وَبَانَ وَظَهَرَ بِذَلِكَ سِرُّ مَا أَخْبَرَ بِهِ الرَّسُوْلُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ أَنَّهُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، وَبَانَ بِذَلِكَ أَنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ مُحِقٌّ وَأَنَّ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ بَاغٍ، وَمَا فِي ذَلِكَ مِنْ دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ.

حافظ ابن کثیر نے ’’البدایة والنهایة‘‘ میں بیان کیا ہے: اور یہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی قتل گاہ ہے، جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لشکر میں تھے، انہیں اہل شام نے (یعنی معاویہ کے لشکر نے) قتل کیا، اِس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس حدیث کا راز ظاہر ہو گیا جو آپ نے فرمایا تھا کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، اِس سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی کہ علی علیہ السلام  صحیح حق دار تھے اور معاویہ نا حق کے طلب گار تھے۔

ابن كثير في البداية والنهاية، 7/267

18.            . امام الحرمین ابو المعالی عبد الملک بن عبداللہ الجوینی

   عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ كَانَ إِمَامًا حَقًّا فِي تَوْلِيَتِهِ وَ مُقَاتِلُوْهُ بُغَاةٌ، وَحُسْنِ الظَّنِّ بِهِمْ يَقْتَضِيْ أَنْ يُظَنَّ بِهِمْ قَصْدُ الْخَيْرِ وَإِنْ أَخْطَأُوْهُ، (فَهُوَ آخِرُ فَصْلٍ خَتَمَ بِهِ كِتَابَهُ.) وَحَسْبُكَ مَا يَقُوْلُ سَيِّدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَإِمَامُ الْمُتَّقِيْنَ لِعَمَّارٍ رضی اللہ عنہ: (تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ) وَهُوَ مِنْ أَثْبَتِ الأَحَادِيْثِ كَمَا تَقَدَّمَ.

امام الحرمین ابو المعالی عبد الملک بن عبداللہ الجوینی الشافعی متوفی 478ھ اپنی تصنیف ’کتاب الاِرشاد‘ میں لکھتا ہے: حضرت علی بن ابو طالب علیہ السلام امام ِحق تھے اور ان کے خلاف لڑنے والے لوگ امام برحق کے باغی تھے، ۔۔۔۔۔ آپ کو اس سلسلے میں سیدالمرسلین اور امام المتقین کاوہ ارشاد گرامی ہی کافی ہے جو سیدنا عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کی شان میں فرمایا: تمہیں باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ حدیث ثابت ترین احادیث میں سے ہے، جیساکہ پیچھے گزر چکا ہے۔

ذكره الإمام أبو المعالي في كتاب الإرشاد إلى قواطع الأدلة في أصول الاعتقاد/433، والقرطبي في التذكرة/615، والزيلعي في نصب الراية، 4/ 69

19  :    امام ابو معین النسفی ’تبصرة الأدلة‘ ۔۔۔

 فَأَمَّا الْكَلَامُ فِي قِتَالِ أَصْحَابِ الْجَمَلِ فَنَقُوْلُ: إِنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ هُوَ الْمُصِيْبُ فِي ذَلِكَ لِأَنَّ إِمَامَتَهُ قَدْ كَانَتْ ثَبَتَتْ عَلَى مَا بَيَّنَّا، فَكَانَ يَجِبُ لِغَيْرِهِ الْاِنْقِيَادُ لَهُ وَالرُّجُوْعُ إِلَى طَاعَتِهِ، وَمَنْ أَبَى إِلَّا الإْصْرَارَ عَلَى الْمُخَالَفَةِ كَانَ عَلَى الإْمَامِ أَنْ يَدْعُوْهُ إِلَى الطَّاعَةِ ۔۔

 (اولاً) اصحاب جمل کے ساتھ (حضرت علی علیہ السلام کے) قتال کے بارے میں کلام ہے، سو ہم کہتے ہیں: بے شک حضرت علی  علیہ السلام ہی اس میں حق پر تھے کیونکہ آپ کی امامت قائم ہو چکی تھی جیسا کہ یہ بات ہم پہلے بیان بھی کر چکے ہیں، لہٰذا آپ کے علاوہ لوگوں کے لیے واجب تھا کہ آپ کے تابع فرمان ہوتے اور آپ کی طاعت کی طرف رجوع کرتے، ۔۔۔۔۔ اگر پھر بھی وہ شخص اپنے موقف سے رجوع نہ کرے تو حاکم وقت کے لیے اس سے قتال کرنا ضروری ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے امر کی طرف لوٹ آئے۔ ۔۔۔۔

  وَكَذَا الْكَلَامُ فِي قِتَالِ أَهْلِ الشَّامِ بِصِفِّيْنَ عَلَى هَذَا: فَإِنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ هُوَ الْحَقَّ الْمُصِيْبَ، وَالْأَمْرُ فِيْهِ أَظْهَرُ. أَنَّ الْمُنَازَعَةَ حَدَثَتْ بَعْدَ انْعِقَادِ إِمَامَتِهِ وَتَقَرُّرِ خِلَافَتِهِ، ۔۔۔۔۔۔وَإِذَا كَانَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ كَانَ خَطَأُ مُعَاوِيَةَ ظَاهِراً ۔۔۔

  صِفّین کے مقام پر حضرت علی علیہ السلام کا اہل شام کے ساتھ قتال کرنے کے بارے میں بھی کلام اسی طرح (یعنی جنگ جمل کی طرح) ہی ہے۔ بے شک امام علی e حق پر اور درست تھے ۔۔۔۔ پھر وہ شخص جو تھوڑی سی بھی علمی سوجھ بوجھ رکھتا ہے اسے ذرہ سا بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ   کے درمیان فضل، علم، شجاعت، غنا اور اسلام میں سبقت لے جانے کا کس قدر تفاوت پایا جاتا ہے، جب معاملہ یوں ہے تو معاویہ کی غلطی ظاہر و عیاں ہے۔۔۔۔

20  :   امام محی الدین الرحماوی نے ’شرح الفقه الأکبر‘ ۔۔

 وَأَمَّا حَرْبُ صِفِّيْنَ فَكَانَ بَغْيًا مِنَ مُعَاوِيَةَ وَأَحْزَابِهِ وَمَا كَانَ مَعَهُمْ مِنْ كِبَارِ الصَّحَابَةِ وَ عُلَمَائِهِمْ، غَيْرَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ۔

وَأَمَّا حَرْبُ نَهْرَوَانَ فَكَانَ مَعَ الْخَوَارِجِ الْمَارِقِيْنِ عَنِ الدِّيْنِ، وَكَانَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي الْوَقْعَاتِ الثَّلَاثِ، أَيْنَمَا دَارَ دَارَ الْحَقُّ مَعَهُ يَشْهَدُ بِهِ قَوْلُهُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: (إِنَّكَ سَتَقْتُلُ النَّاكِثِيْنَ وَالْمَارِقِيْنَ وَالْقَاسِطِيْنَ).

رہی جنگ صفین تو یہ معاویہ اور ان کی جماعت کی طرف سے (خلیفۃ المسلمین کی) اطاعت سے انحراف اور بغاوت تھی اور ان کے ساتھ کبار صحابہ اور اجل علماء نہیں تھے، سوائے حضرت عمرو بن العاص کے۔

رہی نہروان کی جنگ تو یہ دین سے خروج کر جانے والے خوارج کے ساتھ تھی۔ ان تینوں واقعات میں حضرت علی المرتضی  علیہ السلام حق پر تھے، اور آپ جس طرف بھی گئے حق آپ کے ساتھ گیا اور اس کی گواہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان دیتا ہے: إِنَّكَ سَتَقْتُلُ النَّاکِثِیْنَ وَالْمَارِقِیْنَ وَالْقَاسِطِیْنَ (بے شک آپ عہد شکنوں، خارجیوں اور ظالموں کو قتل کریں گے۔)

21  :  امام کاسانی

  وَلَنَا مَا رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ، أَنَّهُ لَمَّا اسْتُشْهِدَ بِصِفِّيْنَ تَحْتَ رَايَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: لَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، وَلَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، فَإِنِّيْ أَلْتَقِيْ وَمُعَاوِيَةُ بِالْجَادَةِ، وَكَانَ قَتِيْلَ أَهْلِ الْبَغْيِ، عَلَى مَا قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ».

امام کاسانی بیان کرتے ہیں کہ جناب عمار بن یاسر کی روایت ہی ہماری دلیل ہے کہ جب وہ جنگ صفین میں سیدنا علی علیہ السلام کے پرچم تلے (باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے) شہید ہونے لگے تو انہوں نے فرمایا:میرے بدن سے خون دھونا اورنہ میرا لباس اتارنا،کیونکہ میں اورمعاویہ میدانِ محشر میں اِسی حال میں ملیں گے۔ حضرت عمار باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے، کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(ان کے قاتلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ) ارشاد فرمایا تھا: ’’(اے عمار!) تجھے باغی گروہ قتل کرے گا‘‘۔

الكاساني في بدائع الصنائع، 1/323

22  امام ابن مازہ حنفی

  وَكَذَلِكَ مَنْ قُتِلَ فِيْ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ، لَأَنَّهُ إِنَّمَا حَارَبَ لإِعْزَازِ دِيْنِ اللهِ تَعَالَى، فَصَارَ كَالْمُحَارِبِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ، وَقَدْ صَحَّ أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ قُتِلَ بِصِفِّيْنَ، فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، وَارْمَسُوْنِيْ فِي التُّرَابِ رَمْسًا، فَإِنِّيْ رَجُلٌ مُحَاجٌّ أُحَاجُّ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَزَيْدُ بْنُ صَوْحَانَ رضی اللہ عنہ قُتِلَ يَوْمَ الْجَمَلِ فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، فَإِنِّيْ مُخَاصِمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَة، وَعَنْ صَخْرِ بْنِ عَدِيٍّ أَنَّهُ قَتَلَهُ مُعَاوِيَةُ، وَكَانَ مُقَيَّدًا فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، فَإِنِّيْ وَمُعَاوِيَةُ مُلْتَقِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى الْجَادَّةِ.

امام ابن مازہ حنفی بیان کرتے ہیں: جو شخص باغیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید کر دیا گیا تو اس کا بھی یہی حکم ہے (کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا)۔ چونکہ اُس نے فقط دینِ الٰہی(اسلام)کے غلبہ کی خاطر جنگ کی ہے، سو وہ اہل حرب کے ساتھ لڑنے والوں کی طرح ہو گیا، اور حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگِ صفین میں شہید کر دیئے گئے، لہٰذا انہوں نے(شہادت پانے سے قبل) فرمایا: مجھ سے میرا لباس جدا کرنا اور نہ ہی میرے بدن سے خون دھونا اورمجھے اسی حالت میں مٹی میں دفن کر دینا، کیونکہ میں قیامت کے دن معاویہ کے ساتھ جھگڑا کروں گا۔۔۔۔

ابن مازة في المحيط البرهاني في فقه النعماني، 2/161

 

23   : امام ذھبی

وَنَقُوْلُ: هُم طَائِفَةٌ مِنَ المُؤْمِنِيْنَ بَغَتْ عَلَى الإِمَامِ عَلِيٍّ، وَذَلِكَ بِنصِّ قَوْلِ المُصْطَفَى - صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ - لِعَمَّارٍ: (تَقْتُلُكَ الفِئَةُ البَاغِيَةُ۔۔۔۔ وَلاَ نَرتَابُ أَنَّ عَلِيّاً أَفْضَلُ مِمَّنْ حَارَبَه، وَأَنَّهُ أَوْلَى بِالحَقِّ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ۔

ہم کہتے ہیں کہ {اہل شام } وہی مومنین کے باغی گروہ ہیں کہ جنہوں نے امام علی علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی اور ان کا باغی ہونا مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نص اور فرمان کے مطابق ہے ۔ آپ نے جناب عمار سے فرمایا " تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرئے گا۔۔۔۔ہمیں اس میں شک ہی نہیں ہے کہ امام علی علیہ السلام آپ سے جنگ کرنے والوں سے افضل تھے اور آپ حق کے زیادہ حقدار تھے ۔

 سير أعلام النبلاء (15/ 210

 

24  :  الشيخ عبد العزيز بن باز

  ۔۔. لمّا وقعت الفتنة في عهد الصحابة ـ رضي اللّه عنهم ـ أشتبهت على بعض الناس، وتأخّر عن المشاركة فيها بعض الصحابة من أجل أحاديث الفتن كسعد بن أبي وقاصّ ومحمّد بن مسلمة وجماعة ـ رضي اللّه عنهم ـ، ولكن فقهاء الصحابة الذين كان لهم من العلم ما هو أكمل قاتلوا مع عليٍّ، لأنّه أولى الطائفتين بالحقّ، وناصروه ضد الخوارج وضد البغاة الذين هم من أهل الشام لمّا عرفوا الحقّ، وأنّ علياً مظلوم و أنّ الواجب أن ينصر، وأنّه هو الإمام الذي يجب أن يتبع، وأنّ معاوية ومن معه بغوا عليه بشبهة قتل عثمان.

واللّه جلّ وعلا يقول في كتابه العظيم: { وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُما فَإِنْ بَغَتْ إِحْداهُما عَلَى الأُخْرى فَقاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي }،ما قال: (فاعتزلوا)، قال: { فَقاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللّهِ فَإِنْ فاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُما بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ }، فإذا عرف الظالم وجب أن يساعد المظلوم لقوله سبحانه: { فَقاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللّهِ }. والباغون في عهد الصحابة معاوية وأصحابه، والمعتدلة عليّ وأصحابه، فبهذا نصرهم أعيان الصحابة، نصروا عليّاً وصاروا معه كما هو معلوم"

فتاوى ومقالات متنوعة 6: 80.

 

جب اصحاب کے دور میں فتنہ شروع ہوا تو بعض لوگوں کے لئے حقیقت مشتبھہ ہوگئی ،فتنے کے باب میں موجود احادیث کی وجہ سے بعض اصحاب نے جنگوں میں پڑنے سے اجتناب کیا جیسے سعد بن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ اور ایک گروہ ۔ لیکن اصحاب میں سے جو فقیہ اور اہل علم تھے اور زیادہ مظبوط تھے، انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیا ۔ کیونکہ ان کا گروہ ہی حق پر تھے ۔ اصحاب نے جب حق کو پہچان لیا اور انہیں پتہ چلا کہ حضرت علی علیہ السلام مظلوم ہیں اور ان کی نصرت کرنا واجب ہے اور آپ واجب اطاعت امام ہیں، تو  خوارج کے خلاف ان کی نصرت کی اور باغی گروہ { اہل شام والوں } کے خلاف ان کی نصرت کی ۔۔

۔۔ معاویہ اور اس کے گروہ نے قتل عثمان کے شبھہ میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی ۔جیساکہ اللہ نے فرمایا  ہے ﴿وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا﴾ ’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو اور اگر ایک باغی ہوجائے تو اس سے جنگ کرو ۔ {یہاں نہیں فرمایا،باغی سے دوری اختیار کرو۔} اللہ نے فرمایا : جو باغی گروہ ہے اس سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ پلٹ کر آئے اور صلح کو قبول کرئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصحاب کے دور میں باغی معاویہ اور اس کا گروہ ہے ۔اسی لئے اصحاب کے بڑے گروہ نے امیر المومنین علیہ السلام  کی نصرت کی اور آپ کا ساتھ دیا    

معاویہ کا اعتراف :

 خاص کر معاویہ کے باغی ہونے کا نظریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال اور اصحاب کی راے کے عین مطابق ہے ،یہاں تک کہ خود معاویہ نے اس چیز کا اعتراف کیا ہے اور معاویہ کے لشکر میں موجود صحابی نے قسم کھا کر اس حقیقت کو بیان کیا ہے ۔

جیساکہ اہل سنت کے علماء کی راے کے مطابق یہ روایت متواتر روایات میں سے ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب عمار سے مخاطب پو کر فرمایا " تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ " عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرئے گا ۔

اور جب جناب عمار شہید ہوئے اور معاویہ کے لشکر میں اس وجہ سے ہل چل مچا تو معاویہ نے جواب میں کہا :

أو نحن قَتَلْنَاهُ إنما قَتَلَهُ علي وَأَصْحَابُهُ جاؤوا بِهِ حتى القوه بين رِمَاحِنَا أو قال بين سُيُوفِنَا۔۔

کیا ہم نے جناب عمار  کو قتل کیا ہے ؟ ان کو تو علی اور ان کے اصحاب نے قتل کیا ہے ،کیونکہ وہی لوگ انہیں جنگ میں لے کر آئے تھے اور انہیں لوگوں نے ان کو ہمارے نیزوں اور تلواروں کے آگے ڈال دیے ، {لہذا ہماری تلواروں سے قتل ہوئے}

تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح

مسند أحمد بن حنبل، ج 4، ص 199 : أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني الوفاة: 241 ، دار النشر : مؤسسة قرطبة – مصر؛

 مسند أبي يعلى، ج 13، ص 123،   المستدرك على الصحيحين، ج 2، ص 168،  

دلائل النبوة، ج 2، ص 551، اسم المؤلف: للبيهقي الوفاة: 458 ،  

دقت کریں :  معاویہ حقیقت میں یہاں اپنے آپ کو باغی کہہ رہا ہے کیونکہ یہ تو قابل انکار نہیں ہے کہ جو گروہ جناب عمار کو قتل کرئے گا وہی باغی ہوگا ،اب معاویہ نے یہ تو اعتراف کیا ہے کہ ان کو ہمارے سپاہیوں نے ہمارے نیزوں اور تلواروں سے شہید کیا ہے اور لہذا جب معاویہ اپنے لشکر کے تلوار اور نیزروں سے قتل ہونے کا اعتراف کر رہا ہے تو یہ تو معلوم ہوا کہ معاویہ کا گروہ ہی ان کا قاتل ہے ۔ جیساکہ گزشتہ مطالب میں بیان ہوا کہ  اہل سنت کے بڑے بڑے بزرگوں کی راے بھی یہی تھی ۔

لیکن معاویہ نے جو توجیہ کی وہ  بلکل باطل توجیہ ہے ۔کیونکہ ایک تو خود جناب عمار اس جنگ میں شرکت اور حضرت امیر کی حمایت کو اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے تھے اور خود ہی جنگ میں شریک ہوئے تھے  اور میدان جنگ میں بھِی خود گئے تھے ۔

دوسری بات یہ ہے معاویہ کے اس مغالطے کا جواب بھی مولی علی علیہ السلام اور دوسروں نے وہاں ہی معاویہ کو یہ کہہ کر دیا کہ آگر ایسا ہے تو جناب حمزہ اور شہداء احد وبدر کے قاتل نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں کیونکہ وہی ان کو جنگ میں لے کر آئے تھے ۔

لہذا ایک تو معاویہ نے یہاں اپنے گروہ کو ہی ان کا قاتل قرار دیا ،ساتھ ہی ان کے قاتل کو مولی علی علیہ السلام کا گروہ قرار دئے کر ایک جھوٹی  اور غلط نسبت دی ۔ لیکن اسی کے ضمن میں اپنے گروہ کے باغی ہونے کا اعتراف بھی کیا کیونکہ حدیث کے مطابق جس نے قتل کیا ہے وہی باغی ہے۔

معاویہ کے لشکر میں موجود ایک صحابی کا اعتراف:

1606 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قثنا أَبِي، قثنا أَزْهَرُ قَالَ: أنا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، «مَا كُنَّا نَرَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَهُوَ يُحِبُّ رَجُلًا فَيُدْخِلُهُ اللَّهُ النَّارَ» ، فَقِيلَ لَهُ: قَدْ كَانَ يَسْتَعْمِلُكَ، فَقَالَ: «اللَّهُ أَعْلَمُ أَحُبِّي أَمْ تَأَلُّفِي وَلَكِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ رَجُلًا» ، فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ قَالَ: «عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ» ، قِيلَ لَهُ: ذَاكَ قَتِيلُكُمْ يَوْمَ صِفِّينَ، قَالَ: «قَدْ وَاللَّهِ قَتَلْنَاهُ» .  

: السنن الكبرى(7/ 358): : أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي (المتوفى: 303هـ)المحقق: حسن عبد المنعم شلبي الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت الطبعة: الأولى، 1421 هـ - 2001    

 فضائل الصحابة: أبو عبد الله أحمد بن محمد الشيباني (المتوفى: 241هـ) المحقق: د. وصي الله محمد عباس، الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت

دقت کریں یہاں معاویہ کے لشکر میں موجود صحابی عمرو بن عاص قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ ہم نے ہی جناب عمار کو قتل کیا ہے۔ لہذا اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہی لوگ حدیث کے مطابق باغی ہے،

 بعض اصحاب کی باغی گروہ سے جنگ نہ کرنے پر اظہار پشیمانی

 ﴿حضرت علی کی حمایت میں جنگ میں شرکت نہ کر سکنے والوں کی ندامت اور افسردگی﴾

 1. قَالَ الْقُرْطُبِيُّ فِي ‹‹التَّذْكِرَةِ››: وَرُبَّمَا نَدِمَ بَعْضُهُمْ عَلَى تَرْكِ ذَلِكَ كَعَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، فَإِنَّهُ نَدِمَ عَلَى تَخَلُّفِهِ عَنْ نُصْرَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ   فَقَالَ عِنْدَ مَوْتَهِ: 'مَا آسِيْ عَلَى شَيْءٍ مَا آسِيْ عَلَى تَرْكِي قِتَالَ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ ' يَعْنِي فِئَةَ مُعَاوِيَةَ، وَهَذَا هُوَ الصَّحِيْحُ أَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ إِذَا عُلِمَ مِنْهَا الْبَغْيُ قُوْتِلَتْ.

امام قرطبی نے بھی اپنی کتاب ’’التذکرة في أحوال الموتى وأمور الآخرة‘‘ میں لکھا ہے: بسا اوقات بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس ترکِ حمایت پر افسردہ ہوتے تھے، جیسا کہ عبد اللہ بن عمر،حضرت علی علیہ السلام کی مدد و نصرت سے پیچھے رہ جانے پر افسردہ ہوئے تھے، اپنی وفات کے وقت انہوں نے کہا تھا: مجھے کسی چیز پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس باغی گروہ یعنی معاویہ کے لشکر کے خلاف جنگ نہ کرنے پر ہوا ہے۔ یہ وہ صحیح دلیل ہے کہ جب کسی گروہ کی بغاوت معلوم ہو جائے تو اُس سے قتال کیا جائے گا۔

القرطبي فى التذكرة/637

2. ذَكَرَ ابْنُ سَعْدٍ: قَدْ نَدِمَ عَلَى التَّخَلُّفِ عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي حُرُوْبِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ السَّلَفِ، كَمَا رُوِيَ مِنْ وُجُوْهٍ عَنْ حَبِيْبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما أَنَّهُ قَالَ: ‹‹مَا آسِي عَلَى شَيْءٍ إِلَّا أَنِّي لَمْ أُقَاتِلْ مَعَ عَلِيٍّ مَعَ أَهْلِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ››.

امام ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ ایک سے زائد کبار سلف صالحین حضرت علی  علیہ السلام کے ساتھ جنگ میں نہ نکلنے پر افسردہ ہوئے تھے۔ اسی طرح کی ایک یہ حدیث بھی ہے جو مختلف طرق سے مروی ہے کہ عبد اللہ بن حبیب بن ابی ثابت اپنے والد ابو ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر نے کہا: ’’میں اپنے دل میں کسی دنیوی معاملہ کے بارے میں حسرت نہیں رکھتا، سوائے اِس کے کہ میں علی علیہ السلام کا ساتھ دیتے ہوئے باغی گروہ کے خلاف لڑائی نہ کر سکا‘‘۔

ذكره ابن عبد البر في الاستيعاب،3/1117، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 4/187، وابن الأثير الجزري في أسد الغابة، 3/612، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 3/231-232، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 3/229

3. وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: مَا مَاتَ مَسْرُوْقٌ حَتَّى تَابَ إِلَى اللهِ تَعَالَى عَنْ تَخَلُّفِهِ عَنِ الْقِتَالِ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ كَمَا فِي ‹‹أُسْدِ الْغَابَةِ فِي مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ››.

امام شعبی نے کہا ہے: حضرت مسروق بن اجدع نے قبل از وفات جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کاساتھ نہ دینے پر اﷲ تعالیٰ سے توبہ کی تھی۔ جیسا کہ یہ روایت ’أسد الغابة في معرفة الصحابة‘ میں مذکور ہے۔

ذكره ابن الأثير في أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4/33

 4. وَأَخْرَجَ الْحَاكِمُ فِي 'الْمُسْتَدْرَكِ ': كِتَابُ التَّفْسِيْرِ، وَصَحَّحَهُ؛ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي السُّنَنِ، كِتَابُ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما أَنَّهُ قَالَ: مَا وَجَدْتُّ فِي نَفْسِي مِنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ هَذِهِ الْآيَةِ - يَعْنِي ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ﴾ [الحجرات، 49/9]، - إِلَّا مَا وَجَدْتُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أُقَاتِلْ هَذِهِ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ كَمَا أَمَرَنِيَ اللهُ تَعَالَى.

امام حاکم نے ’’المستدرک (کتاب التفسیر)‘‘ میں صحت کے ساتھ اور امام بیہقی نے ’’السنن (کتاب قتال أهل البغي)‘‘ میں عبد اللہ بن عمر سے ایک طویل حدیث میں نقل کیا ہے: حضرت عبد اللہ بن عمر سے ایک شخص نے آیت: ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ﴾ سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اس کو جو اب دینے سے گریز کیا، لیکن اُس کے اوجھل ہو جانے کے بعد اپنے ہم مجلس لوگوں سے کہا: اس آیت میں مجھے اپنی ذات کی نسبت سے کوئی چیز اتنی گراں نہیں گزری جتنی یہ بات کہ میں باغی گروہ (یعنی خلیفۃ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کے خلاف خروج کرنے والے گروہ) کے ساتھ قتال کرنے میں اُس طرح عمل نہیں کرسکا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاتھا۔

أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/125، الرقم/4598، والبيهقي في السنن الكبرى، 8/172، الرقم/16483، وذكره العيني في عمدة القاري، 24/192

قَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِأَسَانِيْدَ وَأَحَدُهَا رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

حافظ ہیثمی نے کہا ہے: اِس حدیث کو امام طبرانی نے کئی سندوں سے روایت کیا ہے اور ان کی بعض سندوں کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔

ذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/242

لِمَاذَا صَدَرَتْ مِثْلَ هَذِهِ الْكَلِمَاتِ الْمُؤْسِفَةِ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ عِنْدَ وَفَاتِهِ؟ ذَلِكَ لِأَنَّ الْقِتَالَ لِأَجْلِ الْحَقِّ عِنْدَهُ أَفْضَلُ مِنَ الْقُعُوْدِ فِي الْبَيْتِ. لِذَا سَأَل رَجُلٌ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رضی اللہ عنہما عَنِ الْحُرُوْبِ الرَّاهِنَةِ آنَذَاكَ فَقَالَ: كَفَفْتُ يَدَيَّ فَلَمْ أَقْدُمْ، وَالْمُقَاتِلُ عَلَى الْحَقِّ أَفْضَلُ.

عبد اﷲ بن عمر سے وقتِ وفات افسردگی بھرے یہ الفاظ کیوں صادرہوئے؟ اس لیے کہ اُن کے نزدیک حمایتِ حق میں قتال کرناگھرمیں بیٹھے رہنے سے افضل تھا۔ چنانچہ جب ایک شخص نے عبد اللہ بن عمر کے ہاں حاضر ہو کر حالیہ جنگوں سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھا، آگے نہیں بڑھایا حالانکہ حق کی خاطر قتال کرنے والا افضل ہے۔

أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/643، رقم/6360، وذكره ابن سعد في الطبقات الكبرى، 4/164، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3/951

 

خلاصہ اور نتیجہ :

اہل سنت کے بزرگ علماء اور فقہاء حضرت علی علیہ السلام کو امام حق سمجھتے ہیں اور آپ کے خلاف جنگ کرنے والوں کو باغی کہتے ہیں۔اور اس پر قرآن کی آیات اور سنت سے  استدلال کرتے ہیں ۔

لہذا جو یہ کہتے ہیں کہ ان جنگوں میں دونوں حق پر تھے تو یہ نہ قرآن  و سنت اور عقل کے مطابق صحیح ہے اور نہ ہی یہ  اہل سنت کی تاریخ اور اہل سنت کے بزرگ علماء کے آراء کے مطابق ہے ۔ لیکن پر بھی بعض بنی امیہ کی فکر غلامی میں اہل سنت کی تاریخ اور سلف سے بغاوت کر کے خود کو ہی اہل سنت کے ترجمان منوانے کی مہم چلا رہے ہیں ۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: