2024 March 29
کیا امام زمان (عج) کے وجود کو صرف قرآن سے ثابت کیا جا سکتا ہے ؟
مندرجات: ١٨٢٠ تاریخ اشاعت: ١٠ March ٢٠٢٢ - ٠٢٤٥: مشاہدات: 6049
سوال و جواب » Mahdism
کیا امام زمان (عج) کے وجود کو صرف قرآن سے ثابت کیا جا سکتا ہے ؟

سوال:

کیا امام زمان (عج) کے وجود کو صرف قرآن سے ثابت کیا جا سکتا ہے ؟

جواب:

 

اگر آپکی مراد صرف قرآن سے یہ ہے کہ ہمیں قرآن کو سمجھنے کے لیے، روایات کی ضرورت نہیں ہے تو یہ بات خود قرآن کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن میں خداوند نے فرمایا ہے:

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ،

اور ہم نے ذکر یعنی قرآن کو آپ پر نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کے لیے جو کچھ نازل ہوا ہے، اسکو بیان کریں۔

سوره نحل، آیت 44

اس آیت کے علاوہ دوسری آیات بھی قرآن میں موجود ہیں کہ جو سنت پیغمبر کے حجت و حق ہونے کو ثابت کرتی ہیں، پس ہم کبھی بھی سنت رسول خدا سے بے نیاز نہیں ہیں۔

اسی طرح ایک شخص نے عمر کے سامنے کہا: روایات کو چھوڑو اور صرف قرآن کی بات کرو تو عمر نے اس سے کہا:

فقال عمر إنك أحمق أتجد في كتاب الله الصلاة مفسرة أتجد في كتاب الله الصيام مفسرا إن القرآن أحكم ذلك والسنة تفسره،

تم احمق انسان ہو، کیا قرآن میں نماز و روزہ مکمل تفسیر و تفصیل کے ساتھ تمہیں نظر آتا ہے، قرآن ان موارد کے بارے میں حکم کرتا ہے اور سنت ان موارد کی تفصیل و تفسیر بیان کرتی ہے۔

عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي، مفتاح الجنة في الاحتجاج بالسنة ج 1 ص 59 الوفاة: 911 ، دار النشر : الجامعة الإسلامية - المدينة المنورة - 1399 ، الطبعة : الثالثة

البتہ پہلے خود عمر کی رائے تھی کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے اور ہمیں سنت و روایات کی ضرورت نہیں ہے:

قال عُمَرُ إِنَّ النبي صلى الله عليه وسلم غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا،

عمر نے کہا: بنی پر درد و مرض کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس قرآن ہے یہی ہمارے لیے کافی ہے۔

البخاري الجعفي، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفى256هـ)، صحيح البخاري ج 1 ص 54، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

اس مقدمے کے بعد ہم یہاں پر مثال کے طور پر چند آیات کو ذکر کرتے ہیں کہ جو امام زمان (ع) پر دلالت کرتی ہیں اور پھر اسی دلالت کی تائید میں روایات کو بھی ذکر کریں گے، البتہ اسکا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ان مذکورہ آیات کے علاوہ کوئی دوسری آیت امام زمان (ع) کے بارے میں نازل نہیں ہوئی۔

امام زمان (ع) کے وجود کے بارے میں دو قسم کی آیات کو ذکر کیا جا سکتا ہے:

الف: وہ آیات کہ جو زمین پر حجت خدا کے لازمی طور پر موجود ہونے کو بیان کرتی ہیں،

زمین پر ہر زمانے میں حجت خدا کے ثابت ہونے کے ساتھ یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ آج بھی زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہے اور یہ خود امام زمان (ع) کے موجود ہونے پر دلیل ہے۔

ب: وہ آیات کہ جو باطل پر حق کے غالب آنے کو بیان کرتی ہیں،

یہ آیات بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حق مکمل طور پر باطل پر غالب آ جائے گا اور چونکہ اب تک ایسا واقع نہیں ہوا، لہذا کسی کے انتظار میں رہنا چاہیے کہ جسکی وجہ سے حق باطل پر غالب آئے گا، بہت سی شیعہ اور سنی روایات میں امام زمان (ع) کو زمین پر عدل و انصاف کو قائم کرنے اور باطل کو مکمل طور پر نابود کرنے والے کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔

وہ آیات جو ہر زمانے میں زمین پر حجت خدا کے لازمی طور پر موجود ہونے کو بیان کرتی ہیں:

 

آیت اول:

إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ هاد،

اے پیغمبر آپ صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ہدایت کرنے والا موجود ہے۔

سوره رعد آیت 7

اس آیت کے مطابق ہر قوم کے لیے ہمیشہ ایک ہدایت کرنے والا ہادی موجود ہونا چاہیے۔

شیعہ اور سنی تفاسیر میں امیر المؤمنین علی (ع) کو ہادی کا مصداق بیان کیا گیا ہے۔

کتب اہل سنت میں آیا ہے کہ:

عن بن عباس قال لما نزلت إنما أنت منذر ولكل قوم هاد وضع صلى الله عليه وسلم يده على صدره فقال أنا المنذر ولكل قوم هاد وأومأ بيده إلى منكب علي فقال أنت الهادي يا علي بك يهتدي المهتدون بعدي،

ابن عباس کہتا ہے: جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: میں منذر ہوں اور ہر قوم کے لیے ہادی موجود ہے اور پھر اپنے ہاتھ سے علی (ع) کے کندھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اے علی تم ہادی ہو کہ میرے بعد تمہارے ذریعے سے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔

الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفى310)، جامع البيان عن تأويل آي القرآن ج 13 ص 108، ناشر: دار الفكر، بيروت – 1405هـ

 

إبن أبي حاتم الرازي التميمي، ابو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس (متوفى327هـ)، تفسير ابن أبي حاتم ج 7 ص 2225، تحقيق: أسعد محمد الطيب، ناشر: المكتبة العصرية - صيدا.

 

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفى604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ج 19 ص 12، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

 

الثعلبي النيسابوري، ابوإسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم (متوفى427هـ)، الكشف والبيان ج 5 ص 272، تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ-2002م.

کتب شیعہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ:

عن الفضيل قال سألت أبا عبد الله عليه السلام عن قول الله عز وجل ولكل قوم هاد فقال كل إمام هاد للقرن الذي هو فيهم،

فضیل کہتا ہے میں نے اس آیت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: ہر امام اپنے زمانے میں موجود لوگوں کا ہادی ہوتا ہے۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 191، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

عن أبي جعفر عليه السلام في قول الله عز وجل إنما أنت منذر ولكل قوم هاد فقال رسول الله صلى الله عليه وآله المنذر ولكل زمان منا هاد يهديهم إلى ما جاء به نبي الله صلى الله عليه وآله ثم الهداة من بعده علي ثم الأوصياء واحد بعد واحد،

امام باقر (ع) نے اس آیت " اے پیغمبر آپ صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ہدایت کرنے والا موجود ہے " کی تفسیر میں فرمایا: رسول خدا (ص)، آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر زمانے میں ہم میں سے ایک ہادی ہوتا ہے کہ جو لوگوں کو رسول خدا کی تعلیمات کی طرف ہدایت کرتا ہے، پھر ان (ص) کے بعد ہدایت کرنے والے علی (ع) ہیں اور پھر ایک کے بعد ایک امام اس امت کا ہادی ہے۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 191 و 192، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

 

آیت دوم:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً،

اور جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے فرمایا: میں ہمیشہ زمین میں خلیفہ و جانشین قرار دوں گا۔

سوره بقره آیت 30

عربی گرامر میں اسم فاعل دوام اور استمرار پر دلالت کرتا ہے، یہاں بھی خداوند کا قرار دینا استمرار و جاری رہنے کے معنی میں ہے، پس خداوند ہمیشہ زمین پر جانشین قرار دیتا ہے اور ومین کبھی بھی خداوند کے جانشین سے خالی نہیں ہوتی۔

چونکہ خداوند نے اس جعل و قرار دینے کی نسبت اپنی طرف دی ہے اور ذکر ہوا کہ یہ جعل و قرار دینا جاری ہے، پس زمین پر خداوند کا خلیفہ خداوند کے وسیلے سے انتخاب ہوتا رہے گا اور زمین پر ہمیشہ خداوند کا خلیفہ موجود ہوتا ہے۔

عالم اہل سنت آلوسی نے اس آیت کے ذیل میں کہا ہے:

ولم تزل تلك الخلافة في الإنسان الكامل إلى قيام الساعة وساعة القيام،

اور ہمیشہ کے لیے اور قیامت تک اور قیامت کے برپا ہونے کے لحظے تک یہ خلافت انسان کامل میں موجود رہے گی۔

الآلوسي البغدادي الحنفي، أبو الفضل شهاب الدين السيد محمود بن عبد الله (متوفى1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ج 1 ص 220، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

شیعہ روایات میں ذکر ہوا ہے کہ:

عن محمد بن إسحاق بن عمار قال قلت لأبي الحسن الأول عليه السلام ألا تدلني إلى من آخذ عنه ديني فقال هذا ابني علي إن أبي اخذ بيدي فأدخلني إلى قبر سول الله صلى الله عليه وآله فقال يا بني إن الله عز وجل قال إني جاعل في الأرض خليفة وإن الله عز وجل إذا قال قولا وفى به،

اسحاق ابن عمار کہتا ہے میں نے امام موسى ابن جعفر (ع) سے عرض کیا: مجھے کسی ایسے شخص کی طرف راہنمائی کریں کہ جس سے میں اپنا دین حاصل کر سکوں، تو امام نے فرمایا: وہ یہی میرا بیٹا علی ہے، بے شک میرے والد گرامی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے رسول خدا کی قبر کے پاس لے گئے اور فرمایا: میرے عزیز بیٹے ! خداوند نے فرمایا ہے: میں ہمیشہ زمین میں خلیفہ و جانشین قرار دوں گا، اور جب خداوند کوئی بات فرماتے ہیں تو حتما اس پر عمل و وفا کرتے ہیں۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 312، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

اس روایت میں امام کی مراد یہ ہے کہ جب خداوند نے وعدہ دیا ہے کہ زمین پر ہمیشہ حجت خدا باقی رہے گی تو وہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں، پس اب بھی زمین پر حجت خدا کا موجود ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔

 

آیت سوم:

فَكيْفَ إِذَا جِئْنا مِن كلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِك عَلَي هَؤُلاء شَهِيدًا،

کیسے ہے کہ جب ہم ہر امت سے گواہ و شاہد کو لائیںگے اور آپکو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔

سوره نساء آیت 41

اس آیت میں خداوند فرما رہے ہیں کہ ہر امت پر شاہد و گواہ ہو گا اور رسول خدا بھی ان تمام گواہوں پر گواہ و شاہد ہوں گے۔

شیعہ کتب میں ذکر ہوا ہے:

عن سماعة قال قال أبو عبد الله عليه السلام في قول الله عز وجل فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا قال نزلت في أمة محمد صلى الله عليه وآله خاصة في كل قرن منهم إمام منا شاهد عليهم ومحمد صلى الله عليه وآله شاهد علينا،

امام صادق (ع) نے اس آیت " کیسے ہے کہ جب ہم ہر امت سے گواہ و شاہد کو لائیں  گے اور آپکو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے " کے بارے میں فرمایا: یہ آیت صرف امت محمد (ص) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، ہر زمانے میں ہم میں سے ایک امام لوگوں پر گواہ و شاہد ہے اور محمد (ص) ہم پر گواہ و شاہد ہیں۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 190، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

 

آیت چہارم:

وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا،

اور وہ دن کہ جب ہم ہر امت سے گواہ کو مبعوث کریں گے،

سوره نحل آیت 84

امام باقر (ع) سے نقل ہوا ہے کہ:

أبو حمزة الثمالي عن أبي جعفر في قوله تعالى ويوم نبعث من كل أمة شهيدا قال نحن الشهود على هذه الأمة،

امام باقر (ع) نے اس آیت کے بارے میں فرمایا: ہم آئمہ اس امت پر گواہ و شاہد ہیں۔

ابن شهرآشوب، رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي السروي المازندراني (متوفى588هـ)، مناقب آل أبي طالب ج 3 ص 314، تحقيق: لجنة من أساتذة النجف الأشرف، ناشر: المكتبة والمطبعة الحيدرية، 1376هـ ـ 1956م.

تفسیر قمی میں امام صادق (ع) سے نقل ہوا ہے:

قال الصادق عليه السلام نحن والله نعمة الله التي أنعم الله بها على عباده وبنا فاز من فاز وقوله ويوم نبعث من كل أمة شهيدا قال لكل زمان وأمة امام يبعث كل أمة مع امامها،

خدا کی قسم ہم خدا کی ایسی نعمتیں ہیں کہ جنکی وجہ سے خدا نے بندوں کو نعمتیں عطا کیں ہیں اور ہمارے وسیلے سے ہر کامیاب ہونے والا کامیاب ہوتا ہے اور اس آیت کے بارے میں فرمایا: ہر زمانے اور ہر امت کے لیے امام ہوتا ہے، خداوند ہر امت کو اسکے امام کے ساتھ محشور فرمائے گا۔

القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفى310هـ) تفسير القمي ج 1 ص 388، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

شیخ طبرسی نے کہا ہے:

وهم الأنبياء والعدول من كل عصر يشهدون على الناس بأعمالهم وقال الصادق عليه السلام لكل زمان وأمة إمام تبعث كل أمة مع إمامها،

اس آیت سے مراد انبیاء اور ہر زمانے کے وہ عادل انسان ہیں کہ جو لوگوں کے اعمال پر شاہد و گواہ ہیں، جیسا کہ امام صادق (ع) نے نے فرمایا ہے: ہر زمانے اور ہر امت کے لیے امام ہوتا ہے، خداوند ہر امت کو اسکے امام کے ساتھ محشور فرمائے گا۔

الطبرسي ، أبي علي الفضل بن الحسن (متوفى548هـ) ، تفسير مجمع البيان ج 6 ص 188، تحقيق: لجنة من العلماء والمحققين الأخصائيين، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات ـ بيروت، الطبعة الأولى، 1415هـ ـ 1995م.

 

آیت پنجم:

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَؤُلَاءِ،

اور وہ دن جب ہم ہر امت میں خود ان میں سے گواہ مبعوث کریں گے اور آپکو ان تمام افراد پر گواہ بنا کر لائیں گے۔

سوره نحل آیت 89

ان آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ خداوند ہر امت میں سے ایسے شخص کو گواہ و شاہد بنا کر مبعوث کرے گا کہ جو اپنی امت کے اعمال پر شاہد و گواہ ہو گا، جو بعنوان شاہد و گواہ ہو گا، اسے خداوند کے سامنے اپنی گواہی میں خطا نہیں کرنی چاہیے۔

پس رسول خدا (ص) کے بعد بھی کچھ افراد ہونے چاہیں کہ جو مسلمین کے اعمال و کردار پر گواہ و شاہد ہوں۔

اسکے علاوہ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاہد و گواہ خود انسانوں میں سے کوئی انسان ہونا چاہیے:

شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ،

سوره نحل آیت 89

اور یہ کہ شاہد و گواہ کا اپنی امت پر علمی احاطہ ہونا چاہیے تا کہ وہ اپنے زمانے میں اپنی امت کے تمام اعمال پر شاہد و گواہ بن سکے۔

کتب اہل سنت میں اس آیت کے بارے میں ایسے ذکر ہوا ہے:

تفسیر ماوردی میں آیا ہے کہ:

قوله عز وجل ويوم نبعث في كل أمةٍ شهيداً عليهم من أنفسِهم وهم الأنبياء شهداء على أممهم يوم القيامة وفي كل زمان شهيد وإن لم يكن نبياً وفيهم قولان أحدهما أنهم أئمة الهدى الذين هم خلفاء الأنبياء الثاني أنهم العلماء الذين حفظ الله بهم شرائع أنبيائه،

یہ گواہ انبیاء ہیں کہ جو روز قیامت اپنی امت پر گواہی و شہادت دیں گے اور ہر زمانے میں شہید و گواہ موجود ہوتا ہے اور اگر پیغمبر موجود نہ ہو تو اسکے بارے میں دو قول ہیں:

ایک یہ کہ وہ گواہ آئمہ ہیں کہ جو انبیاء کے جانشین ہیں،

دوسرا یہ کہ وہ گواہ، علماء ہیں کہ جنکے ذریعے سے خداوند انبیاء کی شریعتوں کو حفظ کرتا ہے۔

الماوردي البصري الشافعي، أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب (متوفى450هـ)، النكت والعيون ج 3 ص 208، تحقيق: السيد ابن عبد المقصود بن عبد الرحيم، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان.

تفسیر قرطبی میں اس آیت کے ذیل میں آیا ہے:

فعلى هذا لم تكن فترة إلا وفيها من يوحد الله كقس بن ساعدة... فهؤلاء ومن كان مثلهم حجة على أهل زمانهم وشهيد عليهم،

پس کوئی بھی زمانہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں ایسا شخص موجود ہوتا ہے کہ جو خداوند کی وحدانیت کو قبول کرتا ہے، جیسے قس ابن ساعدہ ۔۔۔ اور جو ایسے ہوتے ہیں، وہ اپنے اہل زمان پر حجت اور گواہ ہوتے ہیں۔

الأنصاري القرطبي، ابوعبد الله محمد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح (متوفى671هـ)، الجامع لأحكام القرآن ج 10 ص 164، ناشر: دار الشعب – القاهرة.

تفسیر ابن کثیر میں آیا ہے:

عن عبد الله هو ابن مسعود في هذه الآية قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم شهيد عليهم ما دمت فيه،

عبد اللہ ابن مسعود نے رسول خدا (ص) سے اس آیت کے بارے میں نقل کیا ہے کہ میں جب تک لوگوں میں ہوں، ان پر شاہد و گواہ ہوں۔

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774هـ)، تفسير القرآن العظيم ج 1 ص 500، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1401هـ.

کتب شیعہ میں اس آیت کے بارے میں ایسے ذکر ہوا ہے:

تفسیر قمی میں امام صادق (ع) سے نقل ہوا ہے:

ثم قال ويوم نبعث في كل أمة شهيدا عليهم من أنفسهم يعني من الأئمة ثم قال لنبيه صلى الله عليه وآله وجئنا بك يا محمد شهيدا على هؤلاء يعني على الأئمة فرسول الله شهيد على الأئمة وهم شهداء على الناس،

شهیدا علیهم من أنفسهم، سے مراد آئمہ (ع) ہیں اور شهیدا علی هؤلاء سے مراد بھی آئمہ ہیں، پس رسول خدا (ص)، آئمہ پر شاہد و گواہ ہیں اور آئمہ لوگوں پر شاہد و گواہ ہیں۔

القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفى310هـ) تفسير القمي ج 1 ص 388، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

شیخ طوسی نے کہا ہے:

ويجوز أن يكون ذلك نبيهم الذي بعث إليهم ويجوز ان يكونوا مؤمنين عارفين بالله ونبيه ويشهدون عليهم بما فعلوه من المعاصي وفي ذلك دلالة على أن كل عصر لا يخلو ممن يكون قوله حجة على أهل عصره عدل عند الله،

شاہد، پیغمبر بھی ہو سکتا ہے کہ جو اس امت پر مبعوث ہوا ہے اور مؤمنین بھی ہو سکتے ہیں کہ جو خداوند اور اسکے رسول کی معرفت رکھتے ہیں اور یہ لوگوں کے گناہوں وغیرہ پر شہادت دیں گے اور اس بات میں یہ دلالت ہے کہ ہر زمانہ ایسے شخص سے خالی نہیں ہے کہ جسکی بات اسکے اہل زمان پر حجت ہو اور وہ خداوند کے نزدیک عادل ہوتا ہے۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، التبيان في تفسير القرآن ج 6 ص 417، تحقيق: تحقيق وتصحيح: أحمد حبيب قصير العاملي، ناشر: مكتب الإعلام الإسلامي، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

شیخ طبرسی نے کہا ہے:

شهيدا عليهم من أنفسهم يعني نبيهم الذي أرسل إليهم أو الحجة الذي هو إمام عصرهم،

اس سے مراد پیغمبر ہے کہ جو لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے یا مراد حجت ہے کہ جو اپنے زمانے والوں کا امام ہوتا ہے۔

الطبرسي ، أبي علي الفضل بن الحسن (متوفى548هـ) ، تفسير جوامع الجامع ج 2 ص 344، تحقيق و نشر: مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، الطبعة : الأولى، 1418هـ.

ابن شہر آشوب نے کہا ہے:

أخبر تعالى أنه يأتي من كل أمة بشهيد ويأتي به شهيدا على أمته فيجب أن يكون الشهداء حكمهم حكمه في كونهم حججا لله تعالى وذلك يقتضي أن في كل زمان شهيدا إما نبي أو إمام،

خداوند نے خبر دی ہے کہ ہر امت سے شاہد آئے گا اور پیغمبر کو امت پر شاہد کے عنوان سے لایا جائے گا، پس واجب ہے کہ شہداء کا حکم، خداوند کا حکم ہو، کیونکہ وہ حجت خدا ہیں اور اس بات کا یہ تقاضا ہے کہ ہر زمانے میں شاہد و گواہ موجود ہو، اور وہ شاہد یا پیغمبر ہے یا امام۔

ابن شهر آشوب متشابه القرآن ومختلفه ج 2 ص 25 وفات : 588، سال چاپ : 1328. چاپخانه : چاپخانه شركت سهامى طبع كتاب. ناشر : مكتبة البو ذر جمهري ( المصطفوي ) بطهران

 

آیت ششم:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ،

اے ایمان والو خداوند سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

سوره توبہ آیت 119

یہ آیت مؤمنین کو حکم کرتی ہے کہ ہمیشہ سچوں کے ساتھ رہیں، اور ساتھ رہنے سے مراد صرف انکے نزدیک رہنا نہیں ہے، بلکہ سچوں کی پیروی اور اتباع کرنا مراد ہے اور خداوند کے اوامر کسی ایک خاص زمانے کے ساتھ مقید نہیں ہوتے اور قیامت تک کے تمام مسلمانوں کے لیے ہوتے ہیں، پس ہمیں بھی پہلے ان سچوں کو جاننا ہو گا اور پھر انکی پیروی و اتباع کرنا ہو گی، پس ہر زمانے صادق و معصوم انسان ہونا چاہیے تا کہ اس زمانے کے لوگ اسکی پیروی کر سکیں۔

کتب اہل سنت میں اس آیت کے ذیل میں آیا ہے:

کتاب احکام القرآن میں آیا ہے:

في هذه الآية وكونوا مع الصادقين فدل على لزوم اتباعهم والاقتداء بهم،

یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ صادقین کی پیروی اور اقتداء کرنا لازم ہے۔

الجصاص الرازي الحنفي، أبو بكر أحمد بن علي (متوفى370هـ) ، أحكام القرآن ج 4 ص 371، تحقيق : محمد الصادق قمحاوي ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت – 1405هـ.

تفسیر ثعلبی اور دوسری کتب میں صادقین کا مصداق ایسے بیان کیا گیا ہے:

عن أبي صالح عن ابن عباس في هذه الآية يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين قال مع عليّ بن أبي طالب وأصحابه،

صادقین سے مراد علی ابن ابی طالب (ع) اور انکے اصحاب ہیں۔

الثعلبي النيسابوري، ابوإسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم (متوفى427هـ)، الكشف والبيان ج 5 ص 371، تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ-2002م.

 

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل ج 42 ص 361، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

 

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفى911هـ)، الدر المنثور ج 4 ص 316، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1993.

فخر رازی نے آیت کے ذیل میں کہا ہے:

أنه تعالى أمر المؤمنين بالكون مع الصادقين ومتى وجب الكون مع الصادقين فلا بد من وجود الصادقين في كل وقت... أن قوله كُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ أمر بموافقة الصادقين ونهى عن مفارقتهم وذلك مشروط بوجود الصادقين وما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب فدلت هذه الآية على وجود الصادقين... فكانت الآية دالة على أن من كان جائز الخطأ وجب كونه مقتدياً بمن كان واجب العصمة وهم الذين حكم الله تعالى بكونهم صادقين فهذا يدل على أنه واجب على جائز الخطأ كونه مع المعصوم عن الخطأ حتى يكون المعصوم عن الخطأ مانعاً لجائز الخطأ عن الخطأ وهذا المعنى قائم في جميع الأزمان فوجب حصوله في كل الأزمان،

خداوند نے مؤمنین کو حکم دیا ہے کہ وہ صادقین کے ساتھ رہیں اور جب صادقین کے ساتھ رہنا واجب ہے تو ان صادقین کا ہر زمانے میں موجود ہونا واجب ہے۔۔۔۔۔

اس آیت سے مراد صادقین کی پیروی اور اتباع کرنا اور ان سے دور رہنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ تب ہو گا جب صادقین موجود ہوں گے، پس یہ آیت صادقین کے موجود ہونے پر دلالت کرتی ہے۔۔۔۔۔

پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جو انسان جائز الخطا ہے، وہ کسی ایسے انسان کی پیروی کرے کہ جو خطا سے پاک یعنی معصوم ہو، اور وہ ایسے افراد ہیں کہ جہنیں خداوند نے صادقین کہا ہے، پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ خطا کار انسان پر واجب ہے کہ کسی ایسے انسان کے ساتھ رہے کہ جو معصوم اور خطا سے پاک ہو، یہ بات ہر زمانے میں لازمی طور پر ہونی چاہیے، پس ایسے انسان معصوم کا ہر زمانے میں موجود ہونا واجب ہے۔

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفى604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ج 16 ص 175 و 176، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

کتاب تہذیب الکمال میں آیا ہے:

عن جعفر بن محمد في قوله تعالى اتقوا الله وكونوا مع الصادقين قال محمد وعلي،

صادقین سے مراد رسول خدا (ص) اور علی (ع) ہیں۔

المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال ج 5 ص 84، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

کتب شیعہ میں آیت کے ذیل میں آیا ہے:

کتاب اصول کافی میں آیا ہے:

عن بريد بن معاوية العجلي قال سألت أبا جعفر عليه السلام عن قول الله عز وجل اتقوا الله وكونوا مع الصادقين قال إيانا عنى،

برید ابن معاویہ کہتا ہے میں نے اس آیت کے بارے میں امام باقر (ع) سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: صادقین سے مراد ہم اہل بیت ہیں۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 208، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

ایک دوسری حدیث میں آیا ہے:

عن ابن أبي نصر عن أبي الحسن الرضا عليه السلام قال سألته عن قول الله عز وجل يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين قال الصادقون هم الأئمة والصديقون بطاعتهم،

ابی نصر نے امام رضا (ع) سے صادقین والی آیت کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا: صادقین، آئمہ ہیں اور وہ لوگ جو انکی اطاعت کی تصدیق کرتے ہیں۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 208، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

کتاب کمال الدین میں آیا ہے:

ثم قال علي عليه السلام أنشدكم الله أتعلمون أن الله عز وجل لما أنزل في كتابه يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين فقال سلمان يا رسول الله عامة هذه أم خاصة فقال عليه السلام أما المأمورون فعامة المؤمنين أمروا بذلك وأما الصادقون فخاصة لأخي علي وأوصيائي من بعده إلى يوم القيامة قالوا اللهم نعم،

پھر علی (ع) نے فرمایا میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ جب یہ آیت " يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ " نازل ہوئی تو سلمان نے سوال کیا اے رسول خدا کیا یہ آیت خاص ہے یا عام ہے ؟ حضرت نے فرمایا: مامور کہ جنکو حکم دیا گیا ہے وہ عام یعنی تمام مؤمنین ہیں، اور صادقین خاص ہیں کہ وہ میرے بھائی علی (ع) اور انکے بعد والے اوصیاء ہیں تا روز قیامت۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة ص 278، تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ( التابعة ) لجماعة المدرسين ـ قم، 1405هـ . (مكتبه اهل بيت)

ابن شہر آشوب نے آیت کے ذیل میں کہا ہے:

قوله يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين أمرنا سبحانه أمرا مطلقا بالكون مع الصادقين من غير تخصيص وذلك يقتضي عصمتهم لقبح الامر على هذا الوجه باتباع من لا يؤمن منه القبيح ومن حيث يؤدي ذلك الامر بالقبيح،

صادقین والی آیت میں خداوند نے ہمیں مطلق و عام حکم دیا ہے کہ ہم صادقین کے ساتھ رہیں اور کوئی تخصیص و قید بھی ذکر نہیں کی کہ اس سے ہمیں صادقین کی عمصت و معصوم ہونا معلوم ہوتا ہے کیونکہ کسی ایسے کی پیروی و اتباع کا مطلق و عام حکم دینا، کہ جو قبیح و برے کام کرنے سے محفوظ نہیں ہے، قبیح و قابل مذمت ہے اور ایسا حکم کرنا، قبیح کام کے انجام دینے کا باعث و سبب بنتا ہے۔

ابن شهرآشوب، رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي السروي المازندراني (متوفى588هـ)، مناقب آل أبي طالب ج 1 ص 213، تحقيق: لجنة من أساتذة النجف الأشرف، ناشر: المكتبة والمطبعة الحيدرية، 1376هـ ـ 1956م.

پس یہ آیت صراحت کے ساتھ ایسے صادقین کے موجود ہونے کو بیان کر رہی ہے کہ جنکے پاس عصمت ہے اور وہ معصوم ہیں اور ایسے صادقین ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں اور قیامت تک لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ صادقین کے ساتھ رہیں اور انکی اطاعت و پیروی کریں۔

 

آیت ہفتم:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكمْ،

اے ایمان والو خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور اولی الامر اطاعت کرو۔

سوره نساء آیت 59

اس آیت میں خداوند نے تمام اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ خداوند، رسول خدا اور اولی الامر کی مطلق و بغیر کسی قید و شرط کے اطاعت کریں اور کیونکہ احکام دینی ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں آج بھی خداوند، رسول خدا اور اولی الامر کی اطاعت کرنی چاہیے، پس اولی الامر کو موجود ہونا چاہیے کہ قرآن کے مطابق ہم اسکی واجب طور پر اطاعت کر سکیں۔

اور کیونکہ اولی الامر کی اطاعت مطلق طور پر ذکر کی گئی ہے پس اولی الامر کو لازمی طور پر معصوم ہونا چاہیے تا کہ مطلق طور پر اسکی اطاعت کی جا سکے۔

فخر رازی نے بھی اس آیت سے اولی الامر کی اطاعت کو سمجھا ہے:

فثبت أن الله تعالي أمر بطاعة أولي الأمر علي سبيل الجزم وثبت أن كل من أمر الله بطاعته علي سبيل الجزم وجب أن يكون معصوما عن الخطأ فثبت قطعا أن أولي الأمر المذكور في هذه الآية لا بد وأن يكون معصوما،

لہذا ثابت ہوا کہ اولی الامر کی اطاعت کرنے کا خداوند کا حکم حتمی و قطعی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ خداوند جسکی پیروی اور اطاعت واجب قرار دیں، اسکو خطا و غلطی سے معصوم ہونا چاہیے، جب ایسا ہے تو اس آیت میں ذکو ہونے والے اولی الامر کو لازمی طور پر معصوم ہونا چاہیے۔

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفى604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ج 10 ص 116، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

کتاب شواہد التنزیل میں آیا ہے:

نزلت في أمير المؤمنين حين خلفه رسول الله بالمدينة،

یہ آیت امیر المؤمنین علی (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب رسول خدا (ص) نے انکو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا تھا۔

الحاكم الحسكاني، عبيد الله بن محمد الحنفي النيسابوري (ق 5هـ) ، شواهد التنزيل ج 1 ص 190، تحقيق: الشيخ محمد باقر المحمودي، ناشر: مؤسسة الطبع والنشر التابعة لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامي- مجمع إحياء الثقافة، الطبعة: الأولى، 1411 - 1990 م.

کتاب اصول کافی میں آیا ہے:

عن الحسين بن أبي العلاء قال ذكرت لأبي عبد الله عليه لاسلام قولنا في الأوصياء أن طاعتهم مفترضة قال فقال نعم هم الذين قال الله تعالى أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم وهم الذين قال الله عز وجل إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا...

حسین ابن ابی العلاء کہتا ہے میں نے اوصیاء کہ جنکی اطاعت کے واجب ہے، انکے بارے میں امام صادق (ع) سے بات کی تو امام نے فرمایا: ہاں وہ وہی ہیں کہ خداوند نے جنکے بارے میں فرمایا ہے خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور اولی الامر اطاعت کرو، اور وہ وہی ہیں کہ جنکے بارے میں خداوند نے فرمایا ہے، تمہارا ولی، فقط خدا ہے اور اسکا رسول اور وہ اہل ایمان کہ۔۔۔۔۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 187، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

ایک دوسری روایت میں امام باقر (ع) نے فرمایا ہے:

...وأولي الأمر منكم إيانا عنى خاصة أمر جميع المؤمنين إلى يوم القيامة بطاعتنا...،

خدا نے خاص طور پر ہم کو ارادہ کیا ہے، خداوند نے تمام مؤمنین کو قیامت تک ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 276، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

ایک دوسری روایت میں امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:

فقال نزلت في علي بن أبي طالب والحسن والحسين عليهم السلام،

یہ آیت علی ابن ابی طالب (ع) و امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 286، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

ایک دوسری روایت میں امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:

فكان علي عليه السلام ثم صار من بعده حسن ثم من بعده حسين ثم من بعده علي بن الحسين ثم من بعده محمد بن علي ثم هكذا يكون الامر إن الأرض لا تصلح إلا بإمام ومن مات لا يعرف إمامه مات ميتة جاهلية،

ولی امر علی (ع) تھے اور انکے بعد امام حسن اور انکے بعد امام حسین اور انکے بعد علی ابن الحسین اور انکے بعد محمد ابن علی پھر امر امامت ایسے ہی تھا، بے شک زمین کے لیے بغیر امام کے رہنا مناسب نہیں ہے اور جو مر جائے اور اپنے امام کی معرفت حاصل نہ کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 2 ص 21، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

اس روایت میں صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ اولی الامر قیامت تک موجود رہے گا اور تمام مسلمانوں کا وظیفہ ہے کہ اس اولی الامر کی معرفت حاصل کریں اور جو یہ معرفت حاصل کیے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے وہ جاہلیت کی موت دنیا سے جاتا ہے۔

شیخ صدوق نے نقل کیا ہے:

عن أبي جعفر عليه السلام في قول الله عز وجل يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم قال الأئمة من ولد علي وفاطمة عليهما السلام إلى أن تقوم الساعة،

امام باقر (ع) نے فرمایا: اولی الامر، وہ آئمہ ہیں قیامت تک کہ جو علی (ع) اور فاطمہ (س) کی اولاد میں سے ہیں۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة ص 222، تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ( التابعة ) لجماعة المدرسين ـ قم، 1405هـ . (مكتبه اهل بيت)

 

آیت ہشتم:

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ،

اس شب (شب قدر) ملائکہ اور روح اپنے امور کو انجام دینے کے لیے اپنے پروردگار کے حکم سے نازل ہوتے ہیں۔

سوره قدر آیت 4

لفظ تنزل، عربی لحاظ سے فعل مضارع ہے کہ جس میں استمرار و دوام کا معنی پایا جاتا ہے اور چونکہ نازل ہونے اور کسی خاص سال کی کوئی قید و شرط ذکر نہیں ہوئی تو معلوم ہوا کہ شب قدر ہر سال میں ہوتی ہے۔

اگر ہم ہر زمانے میں حجت خدا کے موجود ہونے کے قائل نہ ہوں تو یہ ملائکہ و روح اپنے امور کو انجام دینے کے لیے کس پر نازل ہوتے ہیں ؟!

تفسیر قمی میں ذکر ہوا ہے:

قال تنزل الملائكة وروح القدس على إمام الزمان ويدفعون إليه ما قد كتبوه من هذه الأمور،

ملائکہ اور روح القدس امام زمان پر نازل ہوتے ہیں اور لکھے گئے امور کو امام زمان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفى310هـ) تفسير القمي ج 2 ص 431، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

کتاب اصول کافی میں ذکر ہوا ہے:

وعن أبي عبد الله عليه السلام قال كان علي عليه السلام كثيرا ما يقول ما اجتمع التيمي والعدوي عند رسول الله صلى الله عليه وآله وهو يقرأ إنا أنزلناه بتخشع وبكاء فيقولان ما أشد رقتك لهذه السورة فيقول رسول الله صلى الله عليه وآله لما رأت عيني ووعا قلبي ولما يرى قلب هذا من بعدي فيقولان وما الذي رأيت وما الذي يرى قال فيكتب لهما في التراب تنزل الملائكة والروح فيها بإذن ربهم من كل أمر قال ثم يقول هل بقي شئ بعد قوله عز وجل كل أمر فيقولان لا فيقول هل تعلمان من المنزل إليه بذلك فيقولان أنت يا رسول الله فيقول نعم فيقول هل تكون ليلة القدر من بعدى فيقولان نعم قال فيقول فهل ينزل ذلك الامر فيها فيقولان نعم قال فيقول إلى من فيقولان لا ندري فيأخذ برأسي ويقول إن لم تدريا فادريا هو هذا من بعدي،

امام صادق (ع) نے فرمایا: علی (ع) اکثر اوقات فرماتے تھے: کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ تَيْمِى و عَدَوِى، رسول خدا کے پاس موجود ہوں اور ان حضرت نے سورہ انا انزلناہ کو خشوع کے ساتھ پڑھا اور گریہ کیا ہو اور ان دونوں (ابوبکر و عمر) نے سوال نہ کیا ہو کہ: اس سورہ کے لیے تمہارا دل کتنا نازک ہے ؟ رسول خدا (ص) فرماتے تھے: ایسا اس چیز کیوجہ سے ہے کہ جسے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور اپنے دل سے سمجھا ہے اور میرے بعد وہ چیز اس شخص (علی ع) کا دل دیکھے گا۔

وہ پھر کہتے تھے کہ: آپ نے کیا دیکھا ہے اور وہ (علی ع) کیا دیکھے گا ؟ حضرت نے فرمایا: رسول خدا انکے لیے خاک پر لکھتے تھے کہ تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَ الرُّوحُ فِيها بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ، رسول خدا فرماتے تھے: خداوند کے فرمانے کے بعد، کہ ہر امر لے کر وہ نازل ہوتے ہیں، کیا کوئی چیز باقی رہ جاتی ہے ؟ وہ کہتے تھے: نہیں،

حضرت فرماتے تھے: کیا تم جانتے ہو کہ وہ جس پر نازل ہوتے ہیں وہ کون ہے ؟ وہ کہتے: یا رسول اللہ وہ آپ ہیں، حضرت فرماتے: ہاں درست ہے، پھر فرماتے: کیا میرے بعد بھی شب قدر ہو گی ؟ وہ کہتے: ہاں ہو گی، حضرت فرماتے: رسول خدا فرماتے تھے: کیا یہ امر اس شب میں بھی نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے: ہاں، حضرت فرماتے: کس پر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے: اسکا ہمیں علم نہیں ہے، پھر رسول خدا مجھ (علی) کا سر اپنی آغوش میں لے کر فرماتے:

 اگر نہیں جانتے تو جان لو، وہ میرے بعد یہ مرد ہو گا۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج 1 ص 249، ناشر: اسلاميه‏، تهران‏، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

ان تمام آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں ہمیں ہادی، خلیفہ، رسول، شاہد، گواہ، صادق، اولی الامر اور حجت خدا کی ضرورت ہے تا کہ ہم اسکی پیروی کریں اور کمال انسانیت اور کمال بندگی کے مرتبے پر پہنچ سکیں۔

 

وہ آیات کہ جو روئے زمین پر صالحین اور مؤمنین کی حکومت قائم ہونے کی بشارت دیتی ہیں:

قرآن کریم میں ایسی آیات موجود ہیں کہ جو وعدہ دیتی ہیں کہ ایک دن صالحین زمین پر غالب آ جائیں گے اور حق باطل پر کامیاب ہو جائے گا اور یہ صالحین زمین پر عدالت برقرار کریں گے، کیونکہ رسول خدا کے بعد سے لے کر اب تک ایسا اتفاق واقع نہیں ہوا تو پس یہ آیات بشارت دیتی ہیں کہ آخر الزمان میں ایک منجی ظہور کرے گا کہ جو روایات کے مطابق زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ وہ ظلم و ستو و جور سے بھر چکی ہو گی۔

 

آیت اول:

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ،

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھا ہے کہ بے شک زمین میرے صالح بندوں کی میراث ہو گی۔

سوره انبیاء آیت 105

اس آیت میں خداوند نے بیان کیا ہے کہ صالح انسان تمام زمین کے وارث ہوں گے اور یہ وعدہ نہ صرف یہ کہ قرآن میں دیا گیا ہے بلکہ یہ وعدہ کتاب زبور کے زمانے سے اس امت کو دیا گیا ہے۔

تفسیر علی ابن ابراہیم میں آیا ہے:

نزلت في القائم من آل محمد صلى الله عليه وآله،

یہ آیت قائم آل محمد (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفى310هـ) تفسير القمي ج 1 ص 14، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

اسی تفسیر میں ایک دوسری جگہ پر بیان ہوا ہے:

وان الأرض يرثها عبادي الصالحون قال القائم وأصحابه،

اس آیت سے مراد امام زمان (ع) اور انکے اصحاب ہیں۔

القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفى310هـ) تفسير القمي ج 2 ص 77، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

کتاب ینابیع المودة میں آیا ہے:

هم القائم وأصحابه،

اس آیت سے مراد امام زمان (ع) اور انکے اصحاب ہیں۔

القندوزي الحنفي ، الشيخ سليمان بن إبراهيم (متوفى1294هـ) ينابيع المودة لذوي القربى ج 3 ص 243، تحقيق سيد علي جمال أشرف الحسيني، ناشر : دار الأسوة للطباعة والنشر ـ قم، الطبعة:الأولى ، 1416هـ .

 

آیت دوم:

وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ،

ہم نے ارادہ کیا ہے کہ جو زمین پر ضعیف شمار کیے جاتے ہیں، ان پر منت و احسان کر کے انھیں امام و وارث قرار دیں۔

سوره قصص آیت 5

یہ آیت بیان کرتی ہے کہ جنکو ضعیف شمار کیا جاتا ہے ہم انھیں امام قرار دیں گے اور انکو زمین کا وارث بنائیں گے اور کیونکہ اس قرار دینے کو خداوند نے اپنی طرف نسبت دی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو امام و وارث زمین ہو گا، وہ خداوند کی طرف سے بنایا گیا ہو گا، یعنی وہ امامت الہی کے منصب پر فائز ہو گا اور لوگوں یا اہل حل و عقد کے ذریعے سے انتخاب نہیں ہوا ہو گا۔

کتاب نہج البلاغہ میں امیر المؤمنین علی (ع) سے نقل ہوا ہے:

لتعطفن الدنيا علينا بعد شماسها عطف الضروس على ولدها وتلا عقيب ذلك ونريد أن نمن على الذين استضعفوا في الأرض ونجعلهم أئمة ونجعلهم الوارثين،

البتہ دنیا اس اونٹ کی مانند ہے کہ جس نے اپنے دودھ دہونے والے کو کاٹا ہے اور دوبارہ صرف اپنے دودھ سے مکھن کو دیکھنے کے لیے اس دودھ دہونے والے کی طرف گیا ہے پھر مولا نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

نهج البلاغه‌ ج 4 ص 47، تحقيق : شرح : الشيخ محمد عبده، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1412 - 1370 ش، چاپخانه : النهضة – قم، ناشر : دار الذخائر - قم - ايران

حضرت امیر (ع) اشارہ فرما رہے ہیں کہ ایک دن حکومت دوبارہ رسول خدا (ص) کے اہل بیت کے پاس واپس پلٹ آئے گی اور حکومت سے مراد امام زمان (ع) کی حکومت ہے۔

قندوزی حنفی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

وأشار إلى أصحاب المهدي رضي الله عنهم،

یہ روایت امام زمان (ع) کے اصحاب کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

القندوزي الحنفي ، الشيخ سليمان بن إبراهيم (متوفى1294هـ) ينابيع المودة لذوي القربى ج 3 ص 272، تحقيق سيد علي جمال أشرف الحسيني، ناشر : دار الأسوة للطباعة والنشر ـ قم، الطبعة:الأولى ، 1416هـ .

شیخ صدوق نے امیر المؤمنین علی (ع) سے نقل کیا ہے:

عن أبي الصادق قال قال لي علي عليه السلام هي لنا أو فينا هذه الآية،

ابی صادق نے کہا ہے کہ علی (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے لیے اور ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، الأمالي ص 566، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة - قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ.

 

الحاكم الحسكاني، عبيد الله بن محمد الحنفي النيسابوري (ق 5هـ) ، شواهد التنزيل ج 1 ص 557، تحقيق: الشيخ محمد باقر المحمودي، ناشر: مؤسسة الطبع والنشر التابعة لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامي- مجمع إحياء الثقافة، الطبعة: الأولى، 1411 - 1990 م.

کتاب معانی الاخبار میں شیخ صدوق نے ذکر کیا ہے:

عن المفضل بن عمر قال سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول إن رسول الله صلى الله عليه وآله نظر إلى علي والحسن والحسين عليهم السلام فبكى وقال أنتم المستضعفون بعدي قال المفضل فقلت له ما معنى ذلك يا ابن رسول الله قال معناه أنكم الأئمة بعدي إن الله عز وجل يقول ونريد أن نمن على الذين استضعفوا في الأرض ونجعلهم أئمة ونجعلهم الوارثين فهذه الآية جارية فينا إلى يوم القيامة،

مفضّل ابن عمر کہتا ہے میں نے امام صادق (ع) کو فرماتے ہوئے سنا: رسول خدا (ص) نے على و حسن و حسين علیہم السلام کو دیکھ کر گریہ کیا اور فرمایا: تم لوگ میری وفات کے بعد مستضعف ہو گے، مفضل کہتا ہے میں نے عرض کیا یا ابن رسول اللہ اسکا کیا معنی ہے ؟ امام نے فرمایا: یعنی تم میرے بعد آئمہ ہو  کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے: وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ.... یہ آیت قیامت تک ہم اہل بیت کے بارے میں جاری و ساری ہے۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، معاني الأخبار ص 79، ناشر: جامعه مدرسين، قم‏، اول، 1403 ق‏.

 

الحاكم الحسكاني، عبيد الله بن محمد الحنفي النيسابوري (ق 5هـ) ، شواهد التنزيل ج 1 ص 555، تحقيق: الشيخ محمد باقر المحمودي، ناشر: مؤسسة الطبع والنشر التابعة لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامي- مجمع إحياء الثقافة، الطبعة: الأولى، 1411 - 1990 م.

شیخ طوسی نے نقل کیا ہے:

عن علي عليه السلام في قوله تعالى ونريد أن نمن على الذين استضعفوا في الأرض ونجعلهم أئمة ونجعلهم الوارثين قال هم آل محمد يبعث الله مهديهم بعد جهدهم فيعزهم ويذل عدوهم،

امیر المؤمنین علی (ع) نے فرمایای یہ آیت آل رسول کے بارے میں ہے اور خداوند لوگوں کے انکار کرنے کے بعد، مہدی آل محمد کو مبعوث کرے گا، پس وہ دوستوں کو عزیز اور دشمنوں کو ذلیل کرے گا۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، كتاب الغيبة ص 184، تحقيق الشيخ عباد الله الطهراني/ الشيخ على احمد ناصح، ناشر: مؤسسة المعارف الاسلامية، الطبعة : الأولى، 1411هـ.

ایک دوسری روایت میں اس آیت کو امام زمان (ع) نے اپنے بارے میں تلاوت کیا ہے:

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة ص 425، تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ( التابعة ) لجماعة المدرسين ـ قم، 1405هـ . (مكتبه اهل بيت)

 

القندوزي الحنفي ، الشيخ سليمان بن إبراهيم (متوفى1294هـ) ينابيع المودة لذوي القربى ج 3 ص 302، تحقيق سيد علي جمال أشرف الحسيني، ناشر : دار الأسوة للطباعة والنشر ـ قم، الطبعة:الأولى ، 1416هـ .

 

آیت سوم:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا،

خدا نے اہل ایمان اور عمل صالح انجام دینے والوں کو وعہ دیا ہے کہ انکو زمین پر اپنا جانشین قرار دے گا، جیسے کہ ان سے پہلے افراد کو جانشین قرار دیا تھا اور انکے دین کو قدرت دے گا اور انکے خوف کو امن سے بدل دے گا۔

سوره نور آیت 55

اس آیت میں خداوند نے وعدہ دیا ہے کہ وہ مؤمنین کہ جو عمل صالح انجام دیں گے، انکو زمین پر اپنا خلیفہ قرار دے گا اور پھر اس خلافت کی خصوصیات کو بیان کیا ہے کہ اس خلافت میں دین قدرت مند ہو جائے گا اور امن و خوشحالی تمام زمین پر پھیل جائے گی اور کیونکہ ابتدائے اسلام سے لیکر اب تک ایسی حکومت قائم نہیں ہوئی اور روایات کے مطابق ایسی حکومت امام زمان ع کی ہو گی کہ جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، پس یہ آیت امام زمان (ع) کی حکومت کا وعدہ دے رہی ہے۔

تفسیر ماوردی نے اس آیت کے ذیل میں اس روایت کو ذکر کیا ہے:

عن المقدام بن الأسود قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لاَ يَبْقَى عَلَى الأَرْضِ بَيْتُ حَجَرٍ وَلاَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ كَلِمَةَ الإِسْلاَمِ بِعزٍّ عَزِيزٍ أَوْ ذُلٍّ ذَلِيلٍ إما يعزهم فيجعلهم من أهلها وإما يذلهم فيدينون لها،

مقدام ابن اسود سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خدا (ص) کو فرماتے ہوئے سنا کہ: زمین پر پتھروں، مٹی سے بنا کوئی گھر اور بالوں وغیرہ سے بنا کوئی خیمہ ایسا باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ اس گھر میں اسلام داخل ہو گا اور مسلمان عزیز ہو جائیں گے یا دوسرے ذلیل ہو اسلام قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

الماوردي البصري الشافعي، أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب (متوفى450هـ)، النكت والعيون ج 4 ص 118، تحقيق: السيد ابن عبد المقصود بن عبد الرحيم، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان.

ثعلبی نے اپنی تفسير میں لکھا ہے:

والله ليستخلفنهم في الأرض أي ليورثنهم أرض الكفار من العرب والعجم فيجعلهم ملوكها وسائسيها وسكانها،

خداوند انکو زمین کا وارث قرار دے گا یعنی سرزمین کفار عرب و عجم کو انکے اختیار میں قرار دے گا اور وہ انکے حاکم، سیاست مدار ہوں گے۔

الثعلبي النيسابوري، ابوإسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم (متوفى427هـ)، الكشف والبيان ج 7 ، ص 114، تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ-2002م.

 

الواحدي، علي بن أحمد ابوالحسن (متوفى468هـ)، الوجيز في تفسير الكتاب العزيز(تفسير الواحدي) ج 2 ، ص 768، تحقيق: صفوان عدنان داوودي، ناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق، بيروت، الطبعة: الأولى، 1415هـ.

 

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفى 597 هـ)، زاد المسير في علم التفسير ج 5 ، ص 372، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1404هـ.

اہل سنت کے بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ، سے مراد یہ ہے کہ خداوند دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دے گا اور ساری دنیا میں صرف دین اسلام کی پیروی کرنے والے ہوں گے اور باقی تمام ادیان ختم ہو جائیں گے۔

اہل سنت کے مشہور مفسر نے اس بارے میں کہا ہے:

وقوله وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم أي ليظهرن دينهم على جميع الأديان،

اس قول وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم، کا معنی یہ ہے کہ ہم تمہارے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دیں گے۔

السمعاني، ابوالمظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار (متوفى489هـ)، تفسير القرآن ج 3 ، ص 544، تحقيق: ياسر بن إبراهيم و غنيم بن عباس بن غنيم، ناشر: دار الوطن - الرياض - السعودية، الطبعة: الأولى، 1418هـ- 1997م.

 

أبي عبد الله محمد بن عبد الله بن أبي زمنين (متوفى399هـ) ، تفسير القرآن العزيز ج 3 – ص242 ، تحقيق : أبو عبد الله حسين بن عكاشة - محمد بن مصطفى الكنز ، ناشر : الفاروق الحديثة - مصر/ القاهرة ، الطبعة : الأولى ، 1423هـ - 2002م.

 

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفى 597 هـ)، زاد المسير في علم التفسير ج 5 ، ص 372، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1404هـ.

 

الأنصاري القرطبي، ابوعبد الله محمد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح (متوفى671هـ)، الجامع لأحكام القرآن ج 12 ، ص 299 – 300، ناشر: دار الشعب – القاهرة.

اہل سنت کے بعض علماء نے کہا ہے:

أنه عند خروج المهدي،

خداوند کا یہ وعدہ حضرت مہدی (ع) کے ظہور کے زمانے میں پورا ہو گا۔

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفى 597 هـ)، زاد المسير في علم التفسير ج 3 ص 428، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1404هـ.

 

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفى604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ج 16 ص 33، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

کتب شیعہ میں اس آیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے:

نزلت في المهدي عليه السلام،

یہ آیت امام زمان (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، كتاب الغيبة ص 177، تحقيق الشيخ عباد الله الطهراني/ الشيخ على احمد ناصح، ناشر: مؤسسة المعارف الاسلامية، الطبعة : الأولى، 1411هـ.

 

القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفى310هـ) تفسير القمي ج 1 ص 14، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

تفسیر مجمع البیان میں آیا ہے:

عن علي بن الحسين عليه السلام أنه قرأ الآية وقال هم والله شيعتنا أهل البيت يفعل الله ذلك بهم على يدي رجل منا وهو مهدي هذه الأمة وهو الذي قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لو لم يبق من الدنيا إلا يوم واحد لطول الله ذلك اليوم حتى يلي رجل من عترتي اسمه اسمي يملأ الأرض عدلا وقسطا كما ملئت ظلما وجورا،

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں: اس آیت اور وعدے سے مراد ہم اہل بیت کے شیعہ ہیں کہ اس وعدے کو خداوند ہم اہل بیت میں سے ایک فرد کے ذریعے سے پورا کرے گا کہ وہ اس امت کا مہدی ہے اور اسکے بارے میں رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:

اگر دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن باقی رہتا ہو تو خداوند اس دن کو اس قدر طولانی کرے گا کہ میری عترت سے ایک مرد آئے گا جو میرا ہمنام ہو گا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

الطبرسي ، أبي علي الفضل بن الحسن (متوفى548هـ) ، تفسير مجمع البيان ج 7 ص 267، تحقيق: لجنة من العلماء والمحققين الأخصائيين، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات ـ بيروت، الطبعة الأولى، 1415هـ ـ 1995م.

 

آیت چہارم:

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ،

وہ خدا وہ ہے کہ جس نے اپنے رسول کو لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا، دین حق کے ساتھ تا کہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔

سوره توبہ، آیت 33 و سوره صف، آیت 9 و سوره فتح، آیت 28

اس آیت میں خداوند نے دین اسلام کے تمام ادیان پر غالب ہو جانے کا وعدہ دیا ہے، جبکہ ابھی تک یہ وعدہ الہی محقق نہیں ہوا، لیکن روایات کے مطابق یہ وعدہ امام زمان کے ظہور کے زمانے میں عملی ہو گا۔

تفسیر ثعلبی میں آیا ہے:

سيظهر دينكم على الأديان،

عنقریب تمہارا دین تمام ادیان پر غالب ہو جائے گا۔

الثعلبي النيسابوري، ابوإسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم (متوفى427هـ)، الكشف والبيان ج 9 ص 8، تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ-2002م.

فخر رازی نے کہا ہے:

وقال السدي ذلك عند خروج المهدي لا يبقى أحد إلا دخل في الإسلام أو أدى الخراج،

سدی نے اس آیت کے بارے میں کہا ہے یہ وعدہ مہدی کے خروج کے وقت کا ہے، کوئی بھی ایسا باقی نہیں بچے گا مگر یہ کہ وہ دین اسلام میں داخل ہو جائے گا یا خراج دے گا۔

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفى604هـ)، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ج 16 ص 33، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1421هـ - 2000م.

 

القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفى310هـ) تفسير القمي ج 1 ص 289، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

کتاب کمال الدین میں آیا ہے:

قال أبو عبد الله عليه السلام في قول الله عز وجل هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون فقال والله ما نزل تأويلها بعد ولا ينزل تأويلها حتى يخرج القائم عليه السلام فإذا خرج القائم عليه السلام لم يبق كافر بالله العظيم ولا مشرك بالامام إلا كره خروجه حتى أن لو كان كافرا أو مشركا في بطن صخرة لقالت يا مؤمن في بطني كافر فاكسرني واقتله،

امام صادق (ع) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے: خدا کی قسم ابھی تک اس آیت کی تاویل نازل نہیں ہوئی اور اسکی تاویل قائم کے خروج (ظہور) تک نازل نہیں ہو گی اور جب قائم خروج کرے گا تو خدائے عظیم کے ساتھ کفر کرنے والا کوئی کافر باقی نہیں بچے گا اور امام کے ساتھ کوئی مشرک بھی باقی نہیں بچے گا مگر یہ کہ اسکے ظہور کو نا پسند کریں گے،

 یہاں تک کہ اگر ایک پتھر کے اندر کافر یا مشرک چھپا ہو گا تو وہ پتھر چیخ کر کہے گا: اے مؤمن میرے اندر کافر چھپا ہوا ہے پس مجھے توڑ کر اس کافر کو قتل کر دو۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة ص 670، تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ( التابعة ) لجماعة المدرسين ـ قم، 1405هـ . (مكتبه اهل بيت)

 

الكوفي ، فرات بن إبراهيم (متوفى352هـ)، تفسير فرات الكوفي ص 481، تحقيق : محمد الكاظم، ناشر : مؤسسة الطبع والنشر التابعة لوزارة الثقافة والإرشاد الإسلامي ـ طهران ، الطبعة : الأولى، 1410هـ ـ 1990م

تفسیر عیاشی میں آیا ہے:

عن أبي عبد الله عليه السلام هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون قال إذا خرج القائم لم يبق مشرك بالله العظيم ولا كافر الا كره خروجه،

امام صادق (ع) نے فرمایا ہے: جب قائم ظہور کریں گے، کوئی مشرک اور کوئی کافر ایسا باقی نہیں بچے گا مگر یہ کہ اسکے ظہور کو نا پسند کرتا ہو گا۔

السمرقندى المعروف بالعياشي، أبى النضر محمد بن مسعود بن عياش السلمى (متوفي320هـ)، تفسير العياشي ج 2 ص 87، تحقيق: تحقيق وتصحيح وتعليق: السيد هاشم الرسولي المحلاتي، ناشر: المكتبة العلمية الإسلامية – طهران

تفسیر قمی میں آیت کے ذیل میں آیا ہے:

وهو الامام الذي يظهره الله على الدين كله فيملأ الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا،

وہ امام ہے کہ خداوند اسے تمام ادیان پر غالب کر دے گا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔

القمي، أبي الحسن علي بن ابراهيم (متوفى310هـ) تفسير القمي ج 2 ص 317، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: السيد طيب الموسوي الجزائري، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) کے اہل بیت میں سے ایک فرد آئے گا کہ جسکے ذریعے سے خداوند کا حق کا باطل پر غالب ہونے کا وعدہ پورا ہو گا۔ شیعہ اور سنی روایات کے مطابق وہ حضرت مہدی (ع) موعود ہیں کہ جو ظہور کے بعد زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

الترمذي السلمي، ابوعيسي محمد بن عيسي (متوفى 279هـ)، سنن الترمذي ج 4 ص 505 باب 52 ما جاء في المهدي ، ح 2231 ، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

 

السجستاني الأزدي، ابوداود سليمان بن الأشعث (متوفى 275هـ)، سنن أبي داود ج4 ص106 - كتاب المهدي ، ح 4282 (مختصراً) و 4283 .، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.

التماس دعا۔۔۔۔۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات