2024 October 4
حق زہرا سلام اللہ علیہما اور باغ فدک کی حقیقت صحیحین کی روشنی میں..
مندرجات: ١٨٧٦ تاریخ اشاعت: ٢١ January ٢٠٢٣ - ٠٩:٢٢ مشاہدات: 5183
مضامین و مقالات » پبلک
حق زہرا سلام اللہ علیہما اور باغ فدک کی حقیقت صحیحین کی روشنی میں..

حق حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام  صحیحین کی روشنی میں..

موضوعات کی فہرست

ہم کیا کہتے ہیں ،ہمارا مدعا کیا ہے ؟

ہمارے مدعا کی اسناد دیکھیں : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب فاطمہ زہرا علیہاالسلام کا ٹھوس موقف اورسخت ردعمل ۔

ایک شبھہہ اور اس کا علمی جواب :

امیر المؤمنین علیہ السلام کا سخت موقف ۔۔۔۔

خلیفہ کی طرف سے ایک عجیب تناقض : 

مطالبہ جاری رہنا اور رضایت والی کہانی کا بطلان

ایک شبھہ اور آخری حربہ

ہمارے شبھات اور سوالوں بھی توجہ دیں :

بعض کی چالاکی بعض کی گستاخی :

ہمارا مدعا اور ہمارا چلینچ

 

ہم کیا کہتے ہیں ،ہمارا مدعا کیا ہے ؟

جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام نے فدک اور اپنے دیگرحقوق کا خلیفہ اول سے مطالبہ کیا... جب یہ مطالبات منظور نہ ہوئے تو آپ ان سے ناراض ہوگئیں اور ان سے مکمل بائیکاٹ اور ناراضگی کی  حالت میں آپ اپنے بابا سے ملاقات کو چلی گئیں...

جناب امیر المومنین علی علیہ السلام  کے سامنے جب حدیث" نحن معاشر الانبیاء لانورث  ۔۔۔۔۔" سے استدلال کیا تو آپ نے خلیفہ اول اور پھر خلیفہ دوم کو جھوٹا، دھوکہ باز، خائن، گناہ گار اور بعض  روایات کے مطابق، ظالم، جابر اور فاجر سمجھا ...

ہمارا سوال :

 اب ہم حق زہرا سلام  اللہ علیہا کے موضوع پر شیعوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں ؛

کیا یہ باتیں صحیحین  میں صحیح سند  نقل نہیں ہوئی    ...؟

کیا صحیحین کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جناب ابوبکر نے فدک وغیرہ پر قبضہ کیا یا  نہیں؟

اگر ان چیزوں کا انکار کرتے ہو تو ہم ثابت کر دیں گے۔  اگر اقرار کرتے ہو تو زبان درازی اور دھوکہ بازی سے کام لینا چھوڑ دئے... اپنی کتابوں میں موجود باتوں کو شیعوں کی باتیں کہہ کر شیعوں کے خلاف تبلیغ کے ظالمانہ سلسلہ سے ہاتھ اٹھائے ....

ہم ! ہم ان سارے  معاملات میں امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب اور جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ ہم عقیدہ ہیں۔اس پر ہم فخر بھی کرتے ہیں۔

کیا آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جناب فاطمہ علیہاالسلام کسی اور کے حق پر ڈاکہ ڈالنے گئی تھیں؟ {نعوذ بااللہ۔} کیا وہ اپنا حق سمجھ کر ان چیزوں کا مطالبہ نہیں کر رہی تھیں؟

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے ممتاز شاگردوں کے مطالبے اور نظریے کو باطل سمجھتے ہو؟

کیا جناب فاطمہ اور مولا علی کے ساتھ ہم عقیدہ ہونے کو  جرم  سمجھتے ہو؟

دیکھیں آپ کی ہی معتبر اور صحیح سند کتابوں سے خاص کر صحیحین کی روایات سے ہماری باتوں کی سند۔

ہمارے مدعا کی اسناد دیکھیں : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب فاطمہ زہرا علیہاالسلام کا ٹھوس موقف اورسخت ردعمل ۔

    1۔۔۔۔  فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ۔۔۔۔۔۔

مطالبہ منظور نہ ہونے پر جناب فاطمہ خلیفہ کے پاس سے چلی گئیں اور خلیفہ سے کلام  کرنا چھوڑ دیا۔ 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ وَالْعَبَّاسَ عَلَيْهِمَا السَّلَام أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَيْهِمَا مِنْ فَدَكَ وَسَهْمَهُمَا مِنْ خَيْبَرَ فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهِ لَا أَدَعُ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهِ إِلَّا صَنَعْتُهُ قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ۔۔۔۔   اس پر فاطمہ ع نے اس سے تعلق کاٹ لیا اور تادمِ حیات ان سے کلام نہیں کیا۔۔۔

صحيح البخاري ۔کتاب فرائض۔۔۔۔ بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ ص  لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ۔۔ 6230

2۔۔۔۔: فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ۔۔۔۔ فَهَجَرَتْ۔۔۔    ۔۔۔۔۔۔ قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ

۔۔۔۔۔۔غضبناک ہو کر چلی گئیں اور مرتے دم تک مکمل بائیکاٹ کی حالت میں رہیں۔

-فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتَهُ بِالْمَدِينَةِ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكٌ فَأَمْسَكَهَا عُمَرُ وَقَالَ هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔

 صحيح البخاري ۔۔   کتاب خمس ۔۔۔ 1 - باب فرض الخمس 2926

  3:   فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ۔

ناراض ہوگئیں اور وہاں سے چلی گئیں اور آخر عمر تک خلیفہ سے بات تک نہیں کیں۔  یہاں تک کہ نماز(جنازہ) میں بھی شرکت کی اجازت نہیں دی۔

 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنْ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ فَقَالَ عُمَرُ لَا ۔۔۔۔۔

 صحيح البخاري (13/ 135):  کتاب المغازی ۔۔ بَاب غَزْوَةِ خَيْبَرَ۔۔۔۔۔۔

صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب قول النبي ص ( لا نورث ما تركنا فهو صدقة

  4: وَاللَّهِ لاَ أُكَلِّمُكُمَا۔۔۔             بات نہ کرنے کی قسم کھائی

 اللہ کی قسم میں تم دونوں سے بات نہیں کروں گی۔

1609- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، تَسْأَلُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالاَ: سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنِّي لاَ أُورَثُ، قَالَتْ: وَاللَّهِ لاَ أُكَلِّمُكُمَا أَبَدًا، فَمَاتَتْ وَلاَ تُكَلِّمُهُمَ۔۔۔

سنن الترمذي  ) أَبْوَابُ السِّيَرِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  : 44- بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرِكَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔۔

 نوٹ:  خود امام ترمذی نے{ لاَ أُكَلِّمُكُمَا أَبَدًا} بات نہ کرنے کو ان کی طرف سے خلیفہ کی بات کو قبول کرنے کا معنی کیا ہے۔۔۔جبکہ یہ اس سلسلے کی دوسری روایات کے خلاف معنی ہے۔۔۔ حتی ترمذی کی دوسری روایات کے بھی خلاف ہے۔۔۔

 

ایک شبھہہ اور اس کا علمی جواب :

شبھہ : بعض یہ توجیہ کرتے ہیں کہ یہاں جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی ناراضگی والی والی حدیث کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس کو راوی نے {امام زہری} نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے اور یہ ان کی راے ہے ۔ لہذا اس سے ان کی ناراضگی ثابت نہیں ہوتی۔۔۔۔

جواب : پہلی بات :  امام زہری کی جس طرح سے علم رجال کے ماہرین نے تعریف کی ہے اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ،اب اگر کوئی یہ کہے کہ امام زہری نے ایک غلط اور جھوٹی بات اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے تو یہ امام زہری پر بہتان ہے اور ان کو اس حد تک غیر ذمہ دار انسان کہنا خود اہل سنت کے لئے نقصان دھ ہے کیونکہ صحیحین میں ان سے ہزار کے قریب روایات نقل ہوئی ہیں۔ اب یہ اتنا غیر ذمہ دار انسان ہو اور اس کو یہ بھی علم نہ ہو کہ اس اضافے کی وجہ سے اہل سنت کس مشکل سے دوچار ہوگی اور اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے ،تو کیا باقی روایات میں اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟

دوسری بات : انہوں نے اپنی طرف سے اس کو روایت کا حصہ بنایا ہو تو بھی یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ، یہ قابل انکار نہیں ہے ۔ اس پر بہت سے شواہد موجود ہیں لہذا انہوں نے ایک سچی بات کو روایت کا حصہ بنایا ہے۔

تیسری بات : ہم یہ کہیں گے کہ چاہئے یہ حقیقت ہو یا نہ ہو یہ اہل سنت کے ایک مایہ ناز اور صحیحین میں سب سے زیادہ روایت نقل ہونے والے ایک اہم امام کی راے ہے اور صحیحین کے مصنفین نے بھی ان پر اعتماد کیا ہے اور ان کی راے کو بغیر کسی چھیڑ چھاڑ کے نقل کیا ہے ، گویا امام مسلم اور امام بخاری نے بھی ان کی راے کو قبول کیا ہے ۔۔۔

چوتھی بات :۔۔۔۔ جس چیز {ایک قال } کو اس بات پر شاہد کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس قال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو امام زہری نے اضافہ کیا ہے ۔۔۔۔  تو ہم کہتے ہیں کہ یہ بعد کے کسی راوی کا کام  یا اس کی غلطی یا نسخہ لکھنے والوں کی غلطی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ جیساکہ اکثر نقلوں میں اس قال کا کوئی وجود ہی نہیں اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فغضبت وغیرہ اصلی روایت کا حصہ ہے ۔۔۔

پانچویں بات :۔۔۔۔ عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے ۔۔

 

 5: قبضہ کرنا

فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ۔۔۔۔  فدک وغیرہ کو خلیفہ نے رسول اللہ ص کے بعد اپنے قبضے میں لیا۔

فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ يَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ۔۔۔۔۔۔۔۔ ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ۔

صحيح البخارى  : کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ قُوتَ سَنَةٍ عَلَى أَهْلِهِ ، وَكَيْفَ نَفَقَاتُ الْعِيَالِ . ( 3 ) 5358  ۔۔كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ۔۔۔ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ7305۔۔۔۔

۔   امیر المؤمنین علیہ السلام کا سخت موقف ۔۔۔۔

 امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع خلیفہ اول اور دوم کی طرف سے حدیث نحن معاشرالانبیاء۔۔۔ سے استدلال کرنے اور جناب فاطمہ علیہا السلام کو حق نہ دینے  کے مسئلے میں خلفاء کو  حق بجانب نہیں سمجھتے تھے ۔۔۔

اسی طرح خلفاء کی طرف سے اپنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین سمجھنے کو آپ قبول نہیں کرتے تھے اور اس سلسلے میں سخت موقف رکھتے تھے ۔

خلیفہ دوم خود ہی امیر المؤمنین علیہ السلام کا جناب ابوبکر اور اپنے بارے میں سخت موقف کا اعتراف کر رہا ہے۔۔۔

  جیساکہ جناب امیر المؤمنین ع نے بھی خلیفہ کے اس اعتراف کو مسترد نہیں کیا۔۔۔۔۔ یہ نہیں فرمایا: استغفر اللہ جناب آپ مجھ پر خلیفہ اول اور اپنے کو جھوٹا، خائن، دھوکہ باز، گناہ گار، ظالم ،جابر فاجر کہنے کا الزام لگا رہے ہو۔ میں نے تو ایسا کبھی نہیں کہا اور نہیں سمجھا۔

 لہذا خلیفہ اول کا اعتراف اور خلیفہ چہارم کی طرف سے اس اعتراف کو مسترد نہ کرنا ہی اس موقف پر دلیل ہے  ۔۔۔۔ ہم تو کم از کم اس اعتراف میں خلیفے کو صادق سمجھتے ہیں کیونکہ مولا علی نے خلیفے کو اس وجہ سے نہیں جھٹلایا۔ آپ کی مرضی ۔۔۔۔ دیکھیں

1: فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا،

 تم دونوں نے ابوبکر کو اور پھر مجھے جھوٹا، گنہگار، دھوکہ باز، خائن۔۔۔ سمجھنا

 قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ» ، فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيتُهَا ۔۔۔۔۔

صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ

السنن الكبرى للبيهقي  کتاب قسم الفئ۔۔  ۔۔۔ ( 5 باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء ۔

مسند أبي عوانة (4/ 244):  کتاب الایمان ۔۔۔18 باب الأخبار الدالة على الإباحة أ

   2 تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَذَا وَكَذَا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 5358 - ح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔- فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ يَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ - وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِىٍّ وَعَبَّاسٍ - تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَذَا وَكَذَا ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبِى بَكْرٍ ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبُو بَكْرٍ ، ثُمَّ جِئْتُمَانِى وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ ، ۔۔۔۔۔۔۔ . أطرافه 2904 ، 3094 ، 4033 ، 4885 ، 5357 ، 6728 ، 7305 تحفة 5135 ،

 صحيح البخارى  : کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ قُوتَ سَنَةٍ عَلَى أَهْلِهِ ، وَكَيْفَ نَفَقَاتُ الْعِيَالِ . ( 3 ) 5358  ۔۔كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ۔۔۔ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ7305

مسند أحمد (4/ 213):  وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ  ۔۔  حَدِيثُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

بخاری  کی روایت میں قابل توجہ نکتہ۔۔۔

۔۔ امام بخاری نے فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، کی تعبیر کو مناسب نہیں سمجھ کر اس کی جگہے پر کذا کذا ۔۔۔  لایا ہے ۔۔۔  ایک تو یہ امام بخاری یا راوی کی خیانت علمی ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی بعد  کے جملے سے واضح ہے کہ یہاں بھی وہی مسلم والے الفاظ ہی مراد ہیں؛ کیونکہ کذا کذا کے بعد خلیفہ دوم، خلیفہ اول کی صداقت کی گواہی دیتا ہے۔۔۔ لہذا کاذبا۔۔۔۔ کے مقابلے میں صداقت کی گواہی دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں بھی وہی الفاظ مراد ہیں۔۔۔۔

   تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا ظَالِمٌ فَاجِرٌ    تم دونوں نے ابوبکر کو ظالم اور فاجر  سمجھا۔۔

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (5/ 470): خُصُومَةُ عَلِيٍّ وَالْعَبَّاسِ   9772

 صحيح ابن حبان (14/ 575): 60 - كتاب التاريخ   8 - باب مرض النبي صلى الله عليه و سلم 6608ح 

مسند أبي عوانة (4/ 247):  مبتدأ كتاب الجهاد 18 باب الأخبار الدالة۔

 

   فَزَعَمْتُمَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ فِيهَا خَائِنًا فَاجِرًا۔۔

تم دونوں نے ابوبکر کو اور پھر مجھے خائن اور فاجر سمجھا ۔۔۔

فَجِئْتَ يَا عَبَّاسُ تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَجِئْتَ يَا عَلِيُّ تَطْلُبُ مِيرَاثَ زَوْجَتِكَ مِنْ أَبِيهَا، فَزَعَمْتُمَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ فِيهَا خَائِنًا فَاجِرًا، وَاللَّهُ يَعْلَمُ [ص:209] لَقَدْ كَانَ بَرًّا مُطِيعًا تَابِعًا لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَبَضْتُهَا، فَجِئْتُمَانِي، تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ يَا عَبَّاسُ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَتَطْلُبُ مِيرَاثَ زَوْجَتِكَ يَا عَلِيُّ مِنْ أَبِيهَا، وَزَعَمْتُمَا أَنِّي فِيهَا غَادِرٌ فَاجِرٌ،

تاريخ المدينة لابن شبة (1/ 204): خُصُومَةُ عَلِيٍّ وَالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ۔۔۔

   وَأَنْتُمَا تَزْعُمَانِ أَنَّهُ فِيهَا ظَالِمٌ۔۔۔۔   تم دونوں نے ابوبکر کو اور پھر مجھے  ظالم سمجھا

 13105 ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِىٍّ وَالْعَبَّاسِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثُمَّ قَالَ وَأَنْتُمَا تَزْعُمَانِ أَنَّهُ فِيهَا ظَالِمٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ وَلِيتُهَا بَعْدَ أَبِى بَكْرٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِى فَفَعَلْتُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبُو بَكْرٍ وَأَنْتُمَا تَزْعُمَانِ أَنِّى فِيهَا ظَالِمٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّى ۔۔۔۔۔

السنن الكبرى للبيهقي  کتاب قسم الفئ۔۔  ۔۔۔ ( 5 باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء ۔۔ 13105

 ایک اور شبھہ  :

بعض لوگ جناب امیر المومنین علیہ السلام کے اس سخت موقف کو خراب کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ مسلم کی روایت کے مطابق جناب عباس نے بھی مولا علی ع کے بارے میں بھی یہی الفاظ استعمال کیے ہیں۔۔۔۔

جواب : پہلی بات تو یہ کہ مسلم کے علاوہ باقیوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے  جبکہ خلیفہ دوم کی زبانی  مولا علی ع کا موقف سب نے نقل کیا ہے۔۔۔ لہذا یہ خود محدثین کی نگاہ میں مسلم کی روایت کے پہلے والے حصے کے جعلی ہونے اور بعد والے حصے کی توجیہ کے لئے اضافہ کرنے کی دلیل ہے۔۔۔

اگر ابن عباس نے ایسا کہا بھی ہو  تو ابن عباس کی بات کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ کیونکہ وہ فتح مکہ تک مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ ان کی تربیت نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن مولا علی ع نے اگر ایسا کہا ہے تو یقینا یہ حقیقت پر مبنی ہے۔۔۔ مولا علی بغیر سوچے سمجھے کسی پر الزام لگانے والی شخصیت نہیں۔۔۔

اگر مولا نے ایسا نہیں کہا تو یہ خلیفہ کی طرف سے ان پر  الزام اور تہمت شمار ہوگا ۔۔۔

 خلیفہ کی طرف سے ایک عجیب تناقض : 

گزشتہ مطالب میں غور و خوض کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جناب خلیفہ ایک طرف تو اعتراف کر رہا ہے کہ آل رسول کو ان چیزوں سے ، ان کے اخراجات فراہم کرنا رسول اللہ ص کی سیرت تھی۔۔۔ ساتھ ہی خلیفہ قسم کھا رہا ہے کہ میں رسول اللہ ص کے طریقے اور سیرت کو تبدیل نہیں کروں گا۔۔۔۔۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ  قسم کھانے کے باجود بھی  جناب فاطمہ علیہا السلام کو کچھ بھی نہیں دیا۔۔۔۔۔

أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ ۔۔۔۔

 صحيح البخاري (13/ 135):  کتاب المغازی ۔۔ بَاب غَزْوَةِ خَيْبَرَ۔۔۔۔۔۔

صحیح مسلم ۔ كتاب الجهاد والسير  - باب قول النبي ص ( لا نورث ما تركنا فهو صدقة )

 

مطالبہ جاری رہنا اور رضایت والی کہانی کا بطلان

 لہذا رضایت والی کہانی  کی حقیقت کا بطلان بھی واضح ہے  ۔۔۔

الف :

خود حضرت فاطمہ علیہا السلام بھی مطابہ کرتی رہیں۔۔۔

وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ ۔۔۔ آپ ابوبکر سے بار بار مطالبہ کرتی رہیں"  کانت جب فعل مضارع سے پہلے آئے تو یہ ماضی استمراری پر دلالت کرتا ہے۔۔۔

وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ۔۔۔۔۔

صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب قول النبي صلى الله عليه و سلم ( لا نورث  ۔۔۔

قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ۔۔ صحيح البخاري ۔۔ کتاب خمس ۔۔۔ 1 - باب فرض الخمس 2926

ب :

 امیر المؤمنین علیہ السلام نے بھی خلیفہ اول اور دوم کے دور میں یہی مطالبہ جاری رکھا۔۔۔ اور جناب فاطمہ علیہا السلام کے موقف کی حمایت کیں۔۔۔۔۔

خلیفہ دوم کہتا ہے: علی میرے  پاس اپنی بیوی کی ان کے باپ سے میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔

، جِئْتَنِى تَسْأَلُنِى نَصِيبَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ ، وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِى نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا

صحيح البخارى  کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ ۔۔ مسند أحمد (4/ 213):  وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ  ۔۔  حَدِيثُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، ۔۔۔۔۔ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، ۔۔۔

صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ۔۔

السنن الكبرى للبيهقي  کتاب قسم الفئ۔۔  ۔۔۔ ( 5 باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء ۔۔

  وجاءني هذا ـ يعني عليا ـ يسألني ميراث امرأته  ۔۔ صحيح ابن حبان (14/ 575):

هذا - يعني عليا - يسألني ميراث امرأته من أبيها  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف عبد الرزاق (5/ 471):

ثُمَّ جِئْتُمَانِي، جَاءَنِي هَذَا , يَعْنِي الْعَبَّاسَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , يَسْأَلُنِي مِيرَاثَهُ مِنِ ابْنِ أَخِيهِ، وَجَاءَنِي هَذَا , يُرِيدُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , يَسْأَلُنِي مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا،۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔ السنن الكبرى للبيهقي (6/ 487):

لہذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ معاملہ ختم ہوا تھا اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  ابوبکر کی بات سن کر خاموش ہوگئ تھیں اور پھر دنیا سے جانے کے بعد ان کا جنازہ بھی خلیفہ نے ادا کیا ۔یہ ساری کہانی جناب فاطمہ اور مولا علی علیہما السلام کے موقف کو کمزور کرنے اور شیعہ منطق سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے بنائی گئی داستانیں ہیں ۔۔۔

یہی وجہ ہے کہ شیعہ منطق کے آگے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر بعض لوگ اپنی کتابوں میں موجود صحیح سند روایات میں موجود باتوں کو شیعوں کی باتیں کہہ کر شیعوں کے خلاف تبلیغ کرتے ہیں ۔ جبکہ شیعہ وہی کہتے ہیں کہ جو مخالفین کی صحیح سند روایات میں ہے۔

طالبان حق کے لئے اشارہ کافی ہے۔

ایک شبھہ اور آخری حربہ

کہتے ہیں اگر فدک حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کا حق تھا تو مولا علی علیہ نے خود اپنی حکومت کے دوران میں اس کو واپس کیوں نہیں لیا؟

اس کا جواب بھی مولا علی علیہ السلام نے کئی جگہوں پر دیے ہیں۔

اب شیعہ مخالف ان کی طرف سے پیش کردہ عذر کو قبول نہیں کرتے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔

 گویا امام علی علیہ السلام کو اس شبہے اور اعتراض کا علم تھا۔۔۔ اور یہ شبہہ اور اعتراض اس دور میں بھی لوگ اٹھاتے تھے۔۔۔

امام  نے ایک خطبے کے ضمن میں اس قسم کے شبہات کے جواب دیے۔۔۔

 امام اس میں واضح طور پر فرماتے ہیں: گزشتہ حکومتوں کے دور میں  ایسی بہت ساری بدعتیں انجام پائی ہیں۔

 قَدْ عَمِلَتِ‏ الْوُلَاةُ قَبْلِي أَعْمَالًا خَالَفُوا فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، مُتَعَمِّدِينَ لِخِلَافِهِ، نَاقِضِينَ لِعَهْدِهِ، مُغَيِّرِينَ لِسُنَّتِهِ، وَ لَوْ حَمَلْتُ النَّاسَ عَلَى تَرْكِهَا وَ حَوَّلْتُهَا إِلَى مَوَاضِعِهَا وَ إِلَى مَا كَانَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ۔

کہ اگر میں ان کی اصلاح کرنا چاہوں تو :

 لَتَفَرَّقَ عَنِّي جُنْدِي، حَتَّی أَبْقَی وَحْدِی أَوْ قَلِیلٌ مِنْ شِیعَتِی الَّذِینَ عَرَفُوا فَضْلِی وَ فَرْضَ إِمَامَتِی مِنْ کتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ »

میرے لشکر والے تتر بتر ہو جائیں گے اور میں تنہا رہ جاؤں گا یا میں اپنے ان تھوڑے سے شیعوں کے ساتھ  تنہا رہ جاؤں گا کہ جو میرِی فضیلت کو جانتے ہیں اور میری امامت کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مطابق اپنے اوپر فرض ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔

«أَ رَأَیتُمْ لَوْ أَمَرْتُ بِمَقَامِ إِبْرَاهِیمَ ع فَرَدَدْتُهُ إِلَی الْمَوْضِعِ الَّذِی وَضَعَهُ فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ »

اگر مقام ابراہیم کو  اسی جگہ قرار دوں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرار دیا تھا.

«وَ رَدَدْتُ فَدَکاً إِلَی وَرَثَةِ فَاطِمَةَ ع» 

   اگر میں فدک کو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی اولاد کو واپس پلٹا دوں۔

یا متعة النساء اور متعة الحج کو حلال کردوں اور لوگوں کو بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے پر مجبور کروں۔ یا نماز تروایح ۔….{گزشتہ خلفاء کے دور کے دسیوں مورد بدعتوں کو ذکر کرتے ہیں} اگر میں ان کو اصل حالت کی طرف پلٹا دوں تو

 «إِذاً لَتَفَرَّقُوا عَنِّی»

تو لوگ مجھ سے دور ہوجائیں گے.

«امام ایک شاہد پیش کرتے ہیں

وَ اللَّهِ لَقَدْ أَمَرْتُ النَّاسَ أَنْ لَا یجْتَمِعُوا فِی شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَّا فِی فَرِین مضَة»

اللہ کی قسم! میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ مسجد میں رمضان کے مہینے میں نماز تراویح نہ پڑھیں اور صرف فریضہ نمازوں کے علاوہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جمع نہ ہوجائیں۔ «فَتَنَادَی بَعْضُ أَهْلِ عَسْکرِی مِمَّنْ یقَاتِلُ مَعِی یا أَهْلَ الْإِسْلَامِ غُیرَتْ سُنَّةُ عُمَر ینْهَانَا عَنِ الصَّلَاةِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ تَطَوُّعا»

تو میرے لشکر میں سے بعض کہنے لگے : اے مسلمانو! عمر کی سنت کو تبدیل کیا ہے اور  ہمیں  رمضان میں {تروایح کی} نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔

«وَ لَقَدْ خِفْتُ أَنْ یثُورُوا فِی نَاحِیةِ جَانِبِ عَسْکرِی»

مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ اب میرے ہی لشکر والے میرے خلاف اٹھ کھڑے ہو جائیں گے اور مجھ پر ہی حملہ کریں گے ۔

لہذا امام نے حکمت عملی اور تدبیر سے کام لیا ۔ معاویہ جیسے دشمن کے مقابلے میں اپنے لشکر کی صفحوں میں انتشار پھلانے سے دوری امام کے لئے فدک کی زمین واپس لینے سے زیادہ اھمیت رکھتی تھی ،دشمن کو  اپنے لشکر کا شیرازہ بکھیرنے کا موقع فراہم نہ کرنا ہی اس وقت کی ضرورت تھی ۔۔۔

دوسرے شبھات :

اس سلسلے میں اور بھی شبھات اٹھائے جاتے ہیں۔ شیعہ کتابوں میں موجود بعض روایات اور باتوں کو بنیاد بنا کر اپنی کتابوں میں موجود صحیح سند روایات کی وجہ سے ہونے والے اعتراضات کا رخ موڑنے کی کوشش کیجاتی ہیں ۔ لیکن ہم ذمہ داری کے ساتھ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شیعہ بزرگوں نے ان سب کا علمی جواب دیا ہے {اطلاع کے لئے شہید شیخ محمد حسین نجفی مرحوم کی کتاب {جاگیر فدک } اس سلسلے کی بہترین کتاب ہے انہوں نے بہترین انداز میں شیعہ موقف کو بیان کیا ہے اور شیعوں پر اس سلسلے میں ہونے والے اعتراضات کا ٹھوس اور علمی جواب دیا ہے ۔

 

ہمارے شبھات اور سوالوں بھی توجہ دیں :

بعض لوگ اپنی طرف سے اٹھائے شبھات پر ہی گزارا کرتے ہیں اور دوسروں کے اٹھائے شبھات اور اعتراضات پر توجہ نہیں دیتے ۔

ہم ذیل میں اس سلسلے میں کچھ سوالات اٹھاتے ہیں  ؛

ü      کیا قرآن کی کوئی ایسی آیت دکھا سکتے ہیں کہ جس میں نبی کی بیٹی کو حق ارث سے محروم کرنے کا حکم آیا ہو ؟جبکہ ہم قرآن کی بہت سی آیت سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ انبیاء کی اولاد کو بھی وراثت ملتی ہے ۔۔

جیساکہ بہت سی تاریخی شواہد کے مطابق جناب فاطمہ اور امیر المومنین علیہما السلام کا بھی یہی موقف تھا  اور آپ دونوں یہ یہی کہتے تھے کہ قرآن میں واضح طور پر انہیں بھی وراثت ملنے کا حکم ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی قرآنی حکم کے خلاف بات نہیں کرسکتے ۔

ü      اگر اس "نحن معاشر الانبیاء ۔۔۔" والی حدیث کا یہی معنی ہی ہوتا تو مولی علی علیہ السلام خلیفہ دوم کے دور تک اسی مطالبے کو کیوں دہراتے رہے ۔۔کیوں خلیفہ کو اس حدیث کے بہانے جناب زہرا سلام علیہا کو ان کے حق سے محروم کرنے کی وجہ سے کاذب ،آثم ،غادر ۔۔۔۔۔۔۔ کہتے اور سمجھتے رہے ۔۔کیا مولی علی نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی حدیث کو جھٹلا رہے تھے اور حکم پیغمبر کا انکار کر رہے تھے ؟

ü      کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس حکم کو جن لوگوں کے لئے بیان کرنے کی ضرورت تھی، ان کو وہ حکم بتائے بغیر جن کو اس حکم کی ضرورت نہیں تھی ان کو وہ حکم بتا کر دنیا سے چلے گئے؟ خاص کر مولی علی اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہما کو ان کے لئے پیش آنے والے مسئلے کا حکم بتائے بغیر دنیا سے چلے گئے اور اسی وجہ سے انہیں ایسی چیز کا مطالبہ کرنا پڑا جو ان کا حق نہیں تھا اور پھر یہ سارے مسائل پیش آئے ۔۔۔۔؟

جبکہ سب کو معلوم ہے کہ ان دونوں سے زیادہ کسی اور کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شاگردی اور زیر تربیت رہنا نصیب نہیں ہوا۔ اب کیا یہ معقول بات ہے کہ اصحاب میں سے سب سے زیادہ دین شناس اور سب سے زیادہ قرآن اور سنت کی تعلیمات سے آگاہ ہستیوں کو اس حکم کا علم بھی نہ ہو اور  لاعلمی کی وجہ سے ایسی چیز کا مطالبہ کرئے جو ان کا حق نہ ؟

ü     چلو جی اگر اس حدیث کے مطابق انبیاء کی اولاد کو وراثت نہیں ملنی تو کیا تاریخ میں کوئی ایسا نمونہ دکھا سکتے ہیں  کہ کسی نبی کے مرنے کے بعد ان کی جائداد بیت المال کا حصہ بنی ہو اور فقیروں میں تقسیم ہوئی ہو اور ان کی اولاد کو اپنے باپ {نبی } کی وراثت سے محروم کیا ہو ؟کیا پوری تاریخ میں کوئی ایسا ایک نمونہ دکھا سکتے ہیں ۔۔۔۔ اگر ہم سے کہے تو ہم بہت سے نمونے دکھاسکتے ہیں کہ نبی کے بعد ان کی اولاد ہی نبی کی میراث کے وارث بنے ہیں ۔۔۔۔

  ایک حقیقت کو چھپانے کے لئے انبیاء کی پوری تاریخ اور قرآنی نص اور واضح دستورات کی مخالفت کیوں ۔۔۔۔؟

عجیب منطق ہے ؛ جب اصحاب کے معاملے میں ہم سے بحث ہوتی ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کی صحاح کے مطابق اصحاب میں سے بعض بدعتی اور جہنمی ، فاسق ۔۔۔۔۔۔۔۔ تھے  تو آگے سے کہتے ہیں کہ ہم کسی تاریخی اور حدیثی بات کو نہیں مانتے، قرآن میں اصحاب کے بارے میں جو باتیں ہیں وہ ان باتوں کے خلاف ہیں لہذا ہم قرآنی حکم کے خلاف کسی بات کو قبول نہیں کرتے ۔۔۔۔۔

عجیب بات ہے کہ حق زہرا سلام اللہ علیہا کی باری جب آتی ہے تو یہ سارے معیارات اور باتیں بھول جاتے ہیں اور قرآن کو چھوڑ کر کسی اور چیز کے پیچھے جاتے ہیں۔

واہ جی واہ ۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔

آپ لوگ لاکھ توجیہات کرئے ۔۔۔۔لیکن ہم اس مطالبے میں خاندان پیغمبر کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور ان کو ہی سب سے زیادہ دین شناس اور دین کے پابند سمجھتے ہیں اور جو بھی ان کے مقابلے میں آئے اس کو حق پر نہیں سمجھتے  ۔۔ یہ ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے ۔۔۔۔۔ اور قرآن و  حدیث ہمارے ایمان کی دلیل ہیں ۔

بعض کی چالاکی بعض کی گستاخی :

حق جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے مسئلے میں اھل سنت والے دو قسم کے موقف رکھتے ہیں ۔

الف : چالاکی سے کام لینے والے :

بعض یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب شیعوں کی منگھڑت باتیں ہیں ۔ جناب زہرا سلام اللہ علیہا اور خلفاء میں اس قسم کا کوئی معاملہ نہیں تھا اور وہ سب ایک دوسرے پر راضی تھے ۔۔۔

یہ لوگ حقیقت کو چھپانے کے لئے سب چیزوں کا رخ شیعوں کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں شیعوں کی طرف سے اصحاب میں سے خاص کر خلفاء سے دشمنی اور ان کی شان میں گستاخی کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔

یہ لوگ حقیقت کا اعتراف کرنے کی جرات نہیں رکھتے لہذا سب کچھ شیعوں کی گردن پر ڈالتے ہیں اور بظاہر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے دفاع کرنے کے چہرے کے ساتھ شیعوں پر حملہ کرتے ہیں جبکہ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا مدمقابل شیعہ نہیں ہے بلکہ یہ لوگ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مقابل میں خلفاء کی حمایت کر رہے ہیں لیکن جناب فاطمہ سلام علیہا کو حق بجانب نہ جاننے کے اپنے موقف پر پردہ ڈال رہے ہیں ۔جیساکہ ہم گزشتہ مطالب میں یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ یہ شیعوں کی باتیں نہیں ہیں بلکہ اہل سنت کی صحاح ستہ جیسی معتبر کتابوں میں موجود باتیں ہیں ۔۔۔ لہذا حقیقت کو چھپانا اور عوام کو دھوکہ میں رکھنا اور سب کو شیعوں کی طرف سے  اصحاب پر بہتان اور اصحاب کی شان میں گستاخی کہنا غلط بیانی اور مغالطہ سے کام لینا ہے ،یہ طریقہ حقیقت میں منافقت اور چالاکی سے کام لینا اور عوام کو   جہالت میں رکھنے کی کوشش کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔{ حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے }

 ب : گستاخی اور حقیقت کو قبول کرنے والے :

اھل سنت کے علماء میں سے بعض نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے خلفاء سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اور مطالبہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے مکمل بائیکاٹ کے ساتھ دنیا سے چلی گئیں ۔۔۔۔

اس گروہ نے پہلے والے گروہ کے برخلاف منافقت اور چالاکی سے کام نہیں لیا ہے بلکہ واضح طور ہر خلفاء کو حق بجانب اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو قصور وار اور ایسی چیز کا مطالبہ کرنے والی کے طور پر پیش کیا ہے کہ جو ان کا حق نہیں تھا۔

جیساکہ اس دوسرے گروہ کے علماء میں سے سر فہرست ابن تیمیہ اور اس کے ہم فکر لوگ ہیں یہ لوگ واضح طور پر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے موقف پر اعتراض کرتے ہیں ،یہاں تک کہ وہ اس مسئلے میں ان کی شان میں گستاخی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں،

مثلا ابن تیمیہ اس سلسلے میں شیعوں کے موقف کو رد کرنے کے بہانے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے کام کو لالچ ، دنیا پرستی اور ایک قسم کا منافقوں والا کام بتانے سے بھی گریز نہیں کرتا {نعوذ باللہ } ؛

  «وَذَلِكَ الْحَاكِمُ يَقُولُ: إِنَّمَا أَمْنَعُ لِلَّهِ لِأَنِّي لَا يَحِلُّ لِي أَنْ آخُذَ الْمَالَ مِنْ مُسْتَحِقِّهِ فَأَدْفَعَهُ إِلَى غَيْرِ مُسْتَحِقِّهِ، وَالطَّالِبُ يَقُولُ: إِنَّمَا أَغْضَبُ لِحَظِّي الْقَلِيلِ مِنَ الْمَالِ. أَلَيْسَ مَنْ يَذْكُرُ [مِثْلَ] هَذَا عَنْ فَاطِمَةَ وَيَجْعَلُهُ مِنْ مَنَاقِبِهَا جَاهِلًا؟ أَوْ لَيْسَ اللَّهُ قَدْ ذَمَّ الْمُنَافِقِينَ الَّذِينَ قَالَ فِيهِمْ: (وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ - وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ) [سُورَةِ التَّوْبَةِ: 58، 59] فَذَكَرَ اللَّهُ قَوْمًا رَضُوا إِنْ أُعْطُوا، وَغَضِبُوا إِنْ لَمْ يُعْطُوا، فَذَمَّهُمْ بِذَلِكَ، فَمَنْ مَدَحَ فَاطِمَةَ بِمَا فِيهِ شَبَهٌ مِنْ هَؤُلَاءِ أَلَّا يَكُونَ قَادِحًا فِيهَا؟» ۔۔۔۔۔۔۔۔۔     منهاج السنه، ابن تیمیه، ج4، ص۔۔246 ۔۔۔۔۔۔

کَانَ بُغْضُهُ شُعْبَةً مِنْ شُعَبِ النِّفَاقِ   ۔ منهاج السنه، ابن تیمیه، ج4، ص۔۔300

ابن تیمیہ کی پیروی میں اس کے ہمفکر ابن‌عثیمین  مشہور سلفی مولوی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ  جناب زہرا اس معاملے کے وقت اپنی عقل کھو چکی تھیں۔۔۔۔۔  

 نسأل الله أن يعفو عنها. وإلا فأبوبكر ما استند إلي رأي، وإنما استند إلي نص، وكان عليها رضي الله عنها أن تقبل قول النبي صلي الله عليه وسلم «لا نورث ما تركنا صدقه» ولكن كما قلت لكم قبل قليل: عند المخاصمه لا يبقي للإنسان عقل يدرك به ما يقول أو ما يفعل، او ما هو الصواب فيه؛ فنسأ الله أن يعفو عنها، وعن هجره خليفه رسول الله.

لتعليق علىٰ صحيح مسلم، جلد ٩، صفحه ٧۸، شرح صحيح مسلم، جلد ۶، صفحه ۷۴

یہ چند ایک نمونے ہیں ان لوگوں نے باقاعدہ طور پر اصل حقیقت کو قبول کرنے کے بعد جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے موقف کو کمزور کرنے کی خاطر ان کی شان میں گستاخی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ہے ۔

اور جیساکہ بیان ہوا حقیقت یہی ہے کہ اہل سنت والے اس مسئلے میں شیعوں کے مد مقابل کھڑے نہیں ہیں بلکہ وہ حقیقت میں جناب فاطمہ اور مولا علی علیہما السلام کے موقف کے مقابلے میں خلفاء کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو قصور وار ٹہراتے ہیں ،اب خلفاء سے دفاع کے لئے ایک گروہ چالاکی سے کام لیتے ہیں اور سب کچھ شیعوں کی گردن پر ڈالتے ہیں اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا پر اپنے اعتراضات کو شیعوں پر اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن دوسرا گروہ واضح طور پر خلفاء سے دفاع کرتے ہیں اور جناب زہراء سلام اللہ علیہا کو قصور وار سمجھتے ہیں۔۔۔۔

اسی لئے ہم کہتے ہیں اھل سنت والوں کا حق زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں اعتراض شیعوں پر نہیں ہے بلکہ ان کا اعتراض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے ممتاز شاگرد اور جنت کی عورتوں کی سردار جناب فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتراض ہے ۔۔۔۔

 

حق زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے

ہمارا مدعا اور چلینچ :

حضرت  فاطمہ سلام اللہ علیہا کے حق کے سلسلے میں بحث و گفتگو کا منطقی طریقہ اور ہمارے مدعا مندرجہ ذیل دو مرحلوں  پر مشتمل ہے ۔

بحث کا پہلا مرحلہ:

الف : حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فدک کو اپنا حق سمجھ کر خلفاء سے اپنے حق کا مطالبہ کیا اور مطالبہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے ناراض ہوئیں اور ان سے مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے چلی گئیں ۔

ب : یہی نظریہ حضرت  امیر المومنین علی  علیہ السلام کا بھی تھا آپ خلفاء کی طرف سے حدیث "نحن معاشر الانبیاء۔۔۔" سے استدلال کرتے ہوئے جناب فاطمہ علیہا السلام کو ان کے حق سے محروم کرنے کی وجہ سے خلفاء کو جھٹلاتے اور ان کے کاموں کو دھوکہ بازی اور گناہ سمجھتے تھے ۔

 ج : لہذا جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ان کا حق نہ ملنے کا نظریہ خود حضرت  فاطمہ اور مولی علی علیہما السلام کا نظریہ ہے  اور حضرت  فاطمہ سلام اللہ علیہا اسی نظریے کے مطابق خلفاء کو اپنے حق سے محروم کرنے والا سمجھتی تھیں اور اسی سوچ کے ساتھ دنیا سے چلی گئیں۔  

د :  یہ وہ حقیقت ہے جو  اہل سنت کی صحاح ستہ میں  خاص کر صحیحین میں موجود ہے اور اگر کوئی ان  حقائق  کا انکار کرتا ہے  تو ہم ان سب باتوں کو صحاح ستہ بالخصوص صحیح بخاری اور مسلم سے ثابت کرتے ہیں ۔

نوٹ :  شیعہ اور اھل سنت کے درمیان گفتگو کا بنیادی محور  یہی مرحلہ ہے ، کہ ان حضرات نے فدک کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کیا اور یہ حضرات خلفاء کو اپنے اس حق سے محروم کرنے والے سمجھتے تھے ۔ یہ سب باتیں خاص کر اھل سنت کی سب سے معتبر کتاب، صحیحین میں موجود ہیں ۔

دوسرا مرحلہ بحث

بحث کا دوسرا مرحلہ ،مذکورہ مطالبے میں ان حضرات کا حق بجانب ہونے یا نہ ہونے کی بحث ہے۔

جب پہلے مرحلے کی بات کلیر ہوجائے تو اب ہم مخالفین سے یہ بحث کریں گے کہ ان میں سے کون حق پر تھا ، کون حق پر نہیں تھا۔۔۔۔

خلط اور مغالطہ :

بعض مخالفین مسئلے اور موضوع کی حساسیت سے واقف ہیں ، لہذا بحث کا رخ موڑنے اور حقیقت کو چھپانے کے لئے مذکورہ  ترتیب سے بحث کرنے کے بجائے فورا کہتے ہیں کہ فدک فی تھا یا نہیں تھا ، فدک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتی ملکیت تھی یا نہیں تھی ؟ فدک ھبہ تھا یا نہیں تھا ؟

جبکہ بحث کا منطقی انداز کے مطابق جب ان کی طرف سے فدک  کا مطالبہ کرنا اور مطالبہ منظور نہ ہونا اور  اس وجہ سے ان کا ناراض ہونے کی بحث کلیر ہو تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ اس مسئلے میں کون حق بجانب تھے ؟ لہذا فدک کی حقیقت سے بحث، دوسرے مرحلے کی بحث ہے اور یہ ان میں سے اہل حق کی پہچان کی بحث سے متعلق بحث ہے ۔

لہذا مخالفین کی طرف سے پہلے مرحلے میں ہی فدک کی تاریخی حقیقت سے بحث کرنا ایک قسم کی انحرافی بحث اور اصل کو چھوڑ کر فرع کی طرف جانا اور بحث کو اس کے منطقی ترتیب سے ہٹانا ہے۔

کیونکہ اگر  بحث کا پہلا مرحلہ کلیر نہ ہو مثلا مطالبہ ہی نہ کیا ہو یا مطالبہ منظور نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ ہی ختم ہوا ہو اور یہ حضرات خلیفہ کے فیصلے پر راضی ہوئے ہوں تو پھر بات ختم ہوجاتی ہے اور فدک وغیرہ کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملکیت ہونا یا اس کا ھبہ ہونا یا نہ ہونے  کی بحث کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے اور  جب بحث کا موضوع ہی ختم ہو تو ان چیزوں سے بحث ہی فضول ہے ۔

لہذا بحث کا پہلا مرحلہ بنیادی اور اصلی مرحلہ ہے جبکہ دوسرا مرحلہ  بحث، فرعی اور دوسرے درجے کی بحث ہے ۔ اصل کو چھوڑ کر فرع کی طرف جانا خلط مبحث ، مغالطہ  اور غیر منطقی ہے۔ اور ہمارا اھل سنت کے ساتھ اصلی نزاع اور جھگڑا پہلے مرحلے سے مربوط بحث میں ہے۔

ہمارےبنیادی سوالات اور ان کی ترتیب ؛

 کیا جناب فاطمہ فدک وغیرہ  کو اپنا حق سمجھتی تھیں یا نہیں ؟ اور فدک وغیرہ  کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کیا یا نہیں کیا ؟ مطالبہ منظور نہ ہونے کے بعد آپ اپنے کو، اپنے  حق سے محروم کرنے کی سوچ کے ساتھ  دنیا سے چلی گئیں یا نہیں ؟ جناب امیر المومنین علیہ السلام ، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مطالبے کو حق کا مطالبہ سمجھتے تھے یا نہیں ؟

 کیا یہ ساری باتیں صحیحین میں ہیں  یا نہیں ؟

جب یہ باتیں کلیر ہوں تو ہم اس مرحلے میں یہی کہیں گے شیعہ جو کہتے ہیں وہ اھل سنت کی صحیحین کی صحیح سند احادیث سے ثابت ہے ۔لہذا ان باتوں کو شیعوں کا نظریہ اور ان کی منگھڑت باتیں کہہ کر شیعوں کے خلاف زہریلی تبلیغ کا سلسلہ روک کر اپنے لوگوں کو واضح طور پر یہ بات کہہ دو کہ شیعوں کی باتیں ہماری کتابوں میں ہیں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا خلفاء کو اپنے حق کا غاصب سمجھنے والی بات ہماری کتابوں سے ہی ثابت ہے ۔

ایک چھوٹ :  اب ممکن ہے اھل سنت کے علماء عوام سے یہ بات کریں اور انہیں یہ سمجھا دیں کہ ہماری کتابوں میں یہ باتیں تو ہیں لیکن یہ باتیں غلط ہیں اور غلطی سے یہ باتیں ہماری کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔ حقیقت کچھ اور ہے ۔

لیکن کبھی یہ نہ کہیں  کہ یہ باتیں شیعوں کی بنائی ہوئی داستانیں ہیں ۔ کیونکہ یہ واضح جھوٹ اور دھوکہ بازی ہے ۔کیونکہ ان باتوں کا خاص کر صحیحین میں ہونا قابل انکار ہی نہیں..

اب اگر بحث کی منطقی ترتیب کو چھوڑ کر فورا فدک کی تاریخی حقیقت سے سوال کرے تو یہ اصلی ترتیب اور اصل اور فرع میں خلط کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور حقیقت کو چھپانے کی کوشش کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ۔۔ اسی لئے ہم شیعہ مناظرین سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہوشیاری سے کام لیں اور دوسروں کی چالوں سے ہوشیار رہیں ۔

حرف آخر :

اگر ہم سے بحث کے دوسرے مرحلے میں یہ بحث کرنا چاہئے کہ اس مطالبے میں کون حق بجانب تھا کون حق بجانب نہیں تھا ؟ تو ہم اس مرحلے میں اپنے مخالفین سے بحث کرنے کے لئے تیار ہیں اور ہم واضح انداز میں یہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں جناب فاطمہ اور امیر المومنین علیہ السلام ، حق بجانب تھے اور ہم ان کے ساتھ ہم عقیدہ ہیں ۔

 اب  اسی جرم میں ہمیں گمراہ اور اصحاب کی شان میں گستاخی کرنے والے کہیں  تو ہمیں یہ منظور ہے ۔۔۔۔

ہم  فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں حق مولا علی اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے ممتاز شاگرد اور سب سے زیادہ دین شناس اور دین کے پابند یہ ہستیاں حق کا ہی مطالبہ کررہی تھیں اور نعوذ باللہ جہالت اور لاعلمی وغیرہ کی وجہ سے کسی اور کے حق کو اپنا حق سمجھ کر ان چیزوں کا مطالبہ نہیں کر رہی تھیں۔

و السلام علی من اتبع الھدی...

 تحریر ۔۔۔ غ م ملکوتی 

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات