2024 April 19
خلافت کی تاریخی حقیقت خلیفہ دوم انتخاب ہوا یا انتصاب :
مندرجات: ٢١٠٨ تاریخ اشاعت: ٢٨ November ٢٠٢٢ - ٠١:٠٨ مشاہدات: 2225
مضامین و مقالات » پبلک
خلافت کی تاریخی حقیقت خلیفہ دوم انتخاب ہوا یا انتصاب :

خلیفہ دوم انتخاب ہوا یا انتصاب :

یہ بات قابل انکار نہیں کہ خلفاء  میں سے خاص کر خلیفہ اول ،دوم اور سوم کو اللہ اور اللہ کے رسول [ص] کے کسی فرمان کی وجہ سے انتخاب نہیں کیا۔

ایسا نہیں ہوا کہ ان کو خلیفہ انتخاب کرنے کا صاحب شریعت کی طرف سے کوئی دستور ہو اور اسی دستور کی وجہ سے انہیں خلیفہ انتخاب کیا ہو۔ایسا نہیں ہوا ہے کہ اصحاب نے کسی آیت اور حدیث سے استدلال کر کے انہیں خلیفہ بنایا ہو اور ان کی بیعت کی ہو ۔

 ان کی کسی خاص فضیلت کی وجہ سے اور اصحاب کی متفقہ راے سے انہیں خلیفہ انتخاب کرنا تو دور کی بات ہے، خود مدینہ میں موجود اصحاب سے راے تک نہیں لی گئی۔

لہذا تاریخی حقائق کی بنیاد پر نہ کسی آیت ،حدیث اور صاحب شریعت کے حکم سے انہیں خلیفہ بنایا ،نہ اصحاب نے متفقہ راے سے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین بنایا۔

بلکہ جس طرح سے سقیفہ میں خلیفہ دوم نے خلیفہ اول  کی بیعت کا فیصلہ کیا اور اصحاب کی راے کو ملحوظ نہیں رکھا ، خلیفہ اول نے بھی اصحاب کی طرف سے شدید مخالفت کے باجود خلیفہ دوم کو اس مقام پر بھٹایا اور ان کو اپنے جانشین کے طور پر متعارف کرایا اور لوگوں  کو ان کی بیعت کا حکم دیا ۔ نہ اصحاب سے راے لی گئی نہ ان کی خلافت پر کسی آیت یا حدیث سے استدلال کر کے دوسروں کے اعتراض کا جواب دیا ۔ 

ہم ذیل میں اس سلسلے کے بعض تاریخی اسناد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 

تاریخی معتبر اسناد کے مطابق مدینہ میں موجود بہت سے اصحاب نے خلیفہ اول کے اس فیصلے پر اعتراض کیا ۔ جیساکہ جناب امیر المومنین ع ،جناب طلحہ ، زبیر اور دوسرے بہت سے اصحاب نے خلیفہ کو اس فیصلے سے روکنے کی کوشش کی لیکن ان کے اعتراضات پر توجہ نہیں دی گئی ۔

«مصنف ابن ابی شیبه» کہ جو  امام بخاری کے استاد کی کتاب ہے اور اس  میں صحیح سند  اس واقعے کو اس طرح نقل کیا ہے ؛

مَا جَاءَ فِي خِلاَفَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.

38211- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَابْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ زُبَيْدِ بْنِ الْحَارِثِ ؛ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ حِينَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ يَسْتَخْلِفُهُ ، فَقَالَ النَّاسُ : تَسْتَخْلِفُ عَلَيْنَا فَظًّا غَلِيظًا ، وَلَوْ قَدْ وَلِيَنَا كَانَ أَفَظَّ وَأَغْلَظَ ، فَمَا تَقُولُ لِرَبِّكَ إِذَا لَقِيتَهُ ، وَقَدِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَيْنَا عُمَرَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَبِرَبِّي تُخَوِّفُونَنِي ؟ أَقُولُ : اللَّهُمَّ اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمْ خَيْرَ خَلْقِك

لوگوں [یعنی ایک دو کی بات نہیں] نے کہا : آپ نے بد زبان اور سخت دل اور سخت مزاج شخص کو ہمارے لئے اپنا جانشین بنایا ،اب یہ اگر ہمارے حاکم بنے تو اور زیادہ بدزبانی اور اور سختی سے ہمارے ساتھ پیش آئے گا ۔

اب اپنے پروردگار سے ملاقات کرو تو کیا جواب دو گے جبکہ آپ نے عمر کو ہمارے لئے اپنا جانشین بنایا ہے  ؟!

ابوبکر نے جواب میں کہا : کیا مجھے میرے پروردگار سے ڈرا رہے ہو؟ میں کہوں گا : اے اللہ میں نے آپ کے بہترین بندے کو جانشین بنایا ہے ۔

المصنف في الأحاديث والآثار ، ج 7، ص 434، اسم المؤلف:  أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الكوفي الوفاة: 235 ، دار النشر : مكتبة الرشد - الرياض - 1409 ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : كمال يوسف الحوت۔

  السنة (1/  275  المؤلف: أبو بكر أحمد بن محمد بن هارون بن يزيد الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ)المحقق: د. عطية الزهراني الناشر: دار الراية – الرياض الطبعة: الأولى، 1410هـ - 1989م

اس روایت کی سند صحیح ہے ۔

وكيع بن الجراح:

ابن حجر نے ان کو: ثقه  اور حافظ کہا ہے .

تقريب التهذيب، ج2، ص283

إسماعيل بن ابوخالد:

 ابن حجر  کہتا ہے : وہ ثقہ اور قابل اعتماد ہے .

 تقريب التهذيب، ج1، ص93.

زُبيد بن الحارث:

ابن حجر کہتا ہے : وہ قابل اعتماد اور اھل عبادت ہے ان کی احادیث قابل استدلال اور احتجاج ہیں.

تقريب التهذيب، ج1، ص308.

 

 سنن البيهقى میں یہ روایت اس طرح نقل ہوئی ہے :

 

17017- أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ رُسْتُمَ أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ عَنِ ابْنِ أَبِى مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا :

 

لَمَّا ثَقُلَ أَبِى دَخَلَ عَلَيْهِ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ فَقَالُوا : يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ مَاذَا تَقُولُ لِرَبِّكَ غَدًا إِذَا قَدِمْتَ عَلَيْهِ وَقَدِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَيْنَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ قَالَتْ فَأَجْلَسْنَاهُ فَقَالَ : أَبِاللَّهِ تُرْهِبُونِى أَقُولُ اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمْ خَيْرَهُمْ.

 

: سنن البيهقى (2/ 436): المؤلف : أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي البيهقي مؤلف الجوهر النقي: علاء الدين علي بن عثمان المارديني الشهير بابن التركماني  المحقق :الناشر : مجلس دائرة المعارف النظامية الكائنة في الهند ببلدة حيدر آباد الطبعة : الأولى ـ 1344 هـ  

فضائل الخلفاء میں یہ روایت اس طرح نقل ہوئی ہے : 

 204 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، ثنا فِطْرُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ الْقُرَشِيِّ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَ أَبَا بَكْرٍ الْمَوْتُ ذَكَرَ أَنْ يَسْتَخْلِفَ عَلَى النَّاسِ فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ قَالَ: فَقَالُوا لَهُ: يَا أَبَا بَكْرِ مَا تَقُولُ لِرَبِّكَ غَدًا إِذَا لَقِيتَهُ وَقَدِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَيْنَا عُمَرَ، وَقَدْ عَرَفْتَ شِدَّتَهُ وَغِلَظَهُ وَفَظَاظَتَهُ قَالَ: أَبَاللَّهِ تُخَوِّفُونِي أَقُولُ: يَارَبِ اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمْ خَيْرَ أَهْلِكَ۔۔۔  

فضائل الخلفاء لأبي نعيم الأصبهاني (ص: 162 المؤلف: أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)تحقيق: صالح بن محمد العقيل الناشر: دار البخاري للنشر والتوزيع، المدينة المنورة الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1997 م

 

 

طلحه  اور حضرت  علي (عليه السلام) کا اعتراض :

 

 

 

محمد بن سعد نے طبقات میں صحیح سند نقل کیا ہے :

عن عائشة قالت لما حضرت أبا بكر (متوفاي استخلف عمر فدخل عليه علي وطلحة فقالا من استخلفت؟ قال: عمر. قالا: فماذا أنت قائل لربك؟۔۔۔۔

جناب عائشہ نقل کرتی ہے کہ جب ابوبکر کی وفات کا وقت قریب ہوا تو عمر کو اپنا جانشین بنایا،

حضرت علی علیہ السلام اور طلحه ،ابوبکر کے پاس گئے اور کہا : کس کو جانشین بنا رہے ہو؟ کہا : عمر کو ۔ ان دونوں نے کہا: اپنے پروردگار کو کیا جواب دو گے ؟ ابوبکر نے کہا :

کیا اللہ کی مجھے پہچان کرانا چاہتے ہو؟ میں تم دونوں سے زیادہ اللہ کو پہچانتا ہوں ۔

 الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 274، ناشر: دار صادر - بيروت؛

البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 391، 

 اس روایت کی سند بھی قابل قبول ہے : 

ضحاك بن مخلد:

ابن معين  اور عجلى نے ان کو ثقہ کہا ہے .

تهذيب التهذيب، ج4، ص397. 

عبيد اللّه بن ابوزياد:

عجلى  اور حاكم نيشابورى نے ان کو ثقہ کہا ہے .

تهذيب التهذيب، ج 7، ص 14. 

يوسف بن ماهك:

 ابن معين اور نسائى  نے ان کو ثقہ کہا ہے ۔

تهذيب التهذيب، ج11، ص371.

 

ابوبکر کی طرف سے عمر کو جانشین بنانے پر اعتراض کرنے والے ایک دو نہیں تھے بلکہ بہت سے اصحاب اس میں شامل تھے ، جیساکہ ابن عساکر کی روایت میں ہے ۔

طلحة، زبير، عثمان، سعد، عبد الرحمن  اور علي بن ابوطالب نيز وغیرہ کا نام خاص طور پر ذکر کیا ہے ؛

دخل على ابى بكر طلحة والزبير وعثمان وسعد وعبد الرحمن وعلى بن أبي طالب (عليه السلام) فقالوا: ماذا تقول لربك وقد استخلفت علينا عمر....

طلحه،‌ زبير، عثمان،‌ سعد، عبد الرحمن  اور علي بن ابوطالب، ابوبكر کے پاس گئے اور اس انتخاب پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : اللہ کو کیا جواب دو گے جبکہ عمر کو ہمارے لئے اپنا جانشین بنایا ہے ؟.

ابن عساكر الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله (متوفاي571هـ)،‌ تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 44، ص 249، تحقيق محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1995م. 

انصار اور مہاجرین نے اس انتخاب پر اعتراض کیا :

 دخل عليه المهاجرون والأنصار... فقالوا: نراك استخلفت علينا عمر، وقد عرفته، وعلمت بوائقه فينا وأنت بين أظهرنا، فكيف إذا وليّت عنا وأنت لاق الله عزوجل فسائلك، فما أنت قائل؟....

جب ابوبکر کی طرف سے عمر کو خلیفہ انتخاب کرنے کی خبر ملی تو مهاجرین اور انصار، ابوبکر کے پاس آئے اور کہا :ہمیں معلوم ہوا ہے کہ عمر کو ہمارے لئے خلیفہ بنایا ہے ۔

 جبکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہمارے ساتھ برتاو کرتا تھا ۔ اب جب انہیں ہمارے اوپر مسلط کیا اور حاکم بنایا ہے تو ہمارے ساتھ کیا کرئے گا؟ اور آپ جب اللہ سے ملاقات کرئے اور آپ سے اس بارے میں پوچھے تو کیا جواب دو گے ؟

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 22، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م، با تحقيق شيري، ج1، ص37، و با تحقيق، زيني، ج1، ص24.


ابن تيميه نے بھی اس کا اعترافکیا ہے : 

وقد تكلّموا مع الصديق في ولاية عمر وقالوا ماذا تقول لربك وقد وليت علينا فظا غليظا؟...

 اصحابه نے ابوبكر کی طرف سے عمر کو جانشین بنانے کے بارے میں اعتراض کیا اور کہا : اللہ کو کیا جواب دو گے کہ جبکہ آپ نے ایک بدزبان اور سخت مزاج انسان کو ہمارے لئے اپنا جانشین اور ہمارا حاکم بنایا ہے ؟

الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 6، ص 155، تحقيق د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ.

 ابن تیمیہ ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

لما استخلفه أبو بكر كره خلافته طائفة حتى قال طلحة ماذا تقول لربك إذا وليت علينا فظا غليظا.

 ابوبکر نے عمر کو اپنا جانشین بنایا، اصحاب کی ایک جماعت اس پر ناراض ہوا ،یہاں تک کہ طلحہ نے کہا : اللہ کو کیا جواب دو گے جبکہ ایک بدزنان اور سخت دل انسان کو ہمارے اوپر مسلط کیا ہے ۔

الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، منهاج السنة النبوية، ج7، ص 461، تحقيق د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ.

 

لہذا  اصحاب نے اس انتخاب پر اعتراض کیا لیکن جناب ابوبکر نے کسی کی بھی نہیں سنی اور اپنے ذاتی فیصلے پر آخر تک قائم رہا ۔

اور اصحاب نے خلیفہ دوم کے فظا غليظا ہونے کو خاص طور پر اپنے اعتراض میں ذکر کیا ۔ 

  قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ نے قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصیت کو اس کے برعکس ذکر کیا ہے۔  

فَبِمَا رَحْمَة مِنْ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظّاً غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ.آل عمران، / 159.

للہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔ 

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں نقل ہوا ہے :

کان رسول الله رحیماً رقیقاً حلیماً. 

رسول خدا (صلى الله علیه وآله) وسلم مهربان، ہمدرد  اور بردبار  تھے . 

الطبرانی، سلیمان بن أحمد بن أیوب أبو القاسم (متوفای360هـ)، المعجم الکبیر، ج 19، ص 288، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، ناشر: مکتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانیة، 1404هـ – 1983م. 

اعتراض کے باوجود خلیفہ دوم کی خلافت کی سند لکھوایا

خاص طور پر حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ جناب ابوبکر نے اپنی ذاتی راے کو اصحاب پر مسلط کرنے کے لئے باقاعدہ طور پر جناب عمر کے حق میں وصیت نامہ لکھوایا اور اصحاب کو  اپنے اس فیصلے کو قبول کرنے کا حکم دیا ۔

جس وقت ابوبکر کی بیماری زیادہ شدید ہوئی اور موت کا وقت قریب ہوا تو عثمان کو وصیت لکھنے کے لئے بلایا :

«لما حضرت أبا الصديق الوفاة دعا عثمان بن عفان فأملى عليه عهده»«ثم اغمی علی ابی‌بکر قبل أن یملی احداً»«فکتبَ عثمان عمر ابن الخطاب  فأفاق أبو بكر  فقال لعثمان كتبت أحدا »« قال ظننتك لما بك وخشيت الفرقة فکتبتُ عمر ابن الخطاب »«فقال یرحمک الله أما لو كتبت نفسك لكنت لها أهلا »

جب ابوبکر کی موت کا وقت قریب آیا تو عثمان کو بلایا اور ان سے وصیت نامہ لکھنے کے لئے کہا ۔ وصیت لکھوا رہا تھا  لیکن کسی کا نام لکھنے سے پہلے بیماری کی وجہ سے بے ہوش ہوا ۔

تو عثمان نے عمر بن الخطاب کا نام لکھ دیا ، ابوبکر کو ہوش آیا اور عثمان سے پوچھا : کہا کسی کا نام لکھا ؟

عثمان نے کہا : میں نے سوچا  کہ آپ دنیا سے چلے جائیں گے اور ہوش میں نہیں آئے گا مجھے لوگوں میں تفرقہ کا خوف ہوا لہذا میں نے عمر بن الخطاب کا نام لکھ دیا ۔

ابوبکر نے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرئے ۔ اگر اپنا نام بھی میرے بعد جانشین کے عنوان سے لکھ دیتا تو آپ بھی کوئی بات نہ تھی کیونکہ آپ بھی اس  مقام کے اہل ہو۔۔۔۔

تاريخ مدينة دمشق ۔ ، ج 44، ص 252، اسم المؤلف:  أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي الوفاة: 571 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1995 ، تحقيق : محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري

  اس کی بہت سے اسناد موجود  ہیں ،یہاں تک کہ جناب عائشہ سے بھی نقل ہوئی ہے ؛

« فأغمى على أبي بكر إغماءة فأخذ عثمان العهد فكتب فيه اسم عمر قال فأفاق أبو بكر فقال أرني العهد»«فإذاً فیه اسم عمر قال من کتب هذا فقال عثمان أنا» « فقال رحمك الله وجزاك خيرا فوالله لو كتبت نفسك لكنت لذلك أهلا»

 تاريخ المدينة المنورة  ، ج 1، ص 353، اسم المؤلف:  أبو زيد عمر بن شبة النميري البصري الوفاة: 262هـ  ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت  - 1417هـ-1996م ، تحقيق : علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان

جس وقت ابوبکر کو ہوش آیا تو پوچھا ،دکھاو کیا لکھا ہے ۔ اور جب دیکھا اس میں عمر کا نام ہے تو کہا : کس نے یہ نام لکھا ہے ؟ تو جناب عثمان نے کہا : میں نے لکھا ہے

 ابوبکر نے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرئے اور اللہ آپ کو جزای خیر دئے ،اگر اپنا نام بھی لکھ دیتا تو  آپ بھی اس کے اھل ہے ۔ 

وصیت نامہ پر عمل در آمد کیسے ہوا :

مصنف ابن أبي شيبة میں یہ واقعہ اس طرح نقل ہوا ہے :

 

38212- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَبِيَدِهِ عَسِيبُ نَخْلٍ ، وَهُوَ يُجْلِسُ النَّاسَ ، وَيَقُولُ : اسْمَعُوا لِقَوْلِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللهِ ، قَالَ : فَجَاءَ مَوْلًى لأَبِي بَكْرٍ يُقَالُ لَهُ : شَدِيدٌ بِصَحِيفَةٍ ، فَقَرَأَهَا عَلَى النَّاسِ ، فَقَالَ : يَقُولُ أَبُو بَكْرٍ : اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِمَنْ فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ، فَوَاللهِ مَا أَلَوْتُكُمْ ، قَالَ قَيْسٌ : فَرَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ.۔

ہعنی عمر بن خطاب ہاتھ میں ڈنڈا لیے لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اور لوگوں سے کہہ رہا تھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین[یعنی ابوبکر] کی بات سنو ۔۔

اتنے میں ابوبکر کا شدید نامی غلام ایک نامہ لے کر آیا ۔ اس کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور کہا: ابوبکر کہہ رہا ہے کہ اس نامہ میں جس کا نام لے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ۔۔۔راوی کہتا ہے : اس کے بعد میں نے عمر کو ممبر پر دیکھا ۔

 صاحب إتحاف الخيرة المهرة نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے

وعن قيس بن أبي حازم قال : رأيت عُمَر بن الخطاب ، رضي الله عنه ، وبيده عسيب نخل ويقول : اسمعوا لخليفة رسول الله صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم.

رواه أبو بكر بن أبي شَيْبَة , ورواته ثقات.

إتحاف الخيرة المهرة (7/ 149۔المؤلف: أبو العباس شهاب الدين أحمد بن أبي بكر بن إسماعيل بن سليم بن قايماز بن عثمان البوصيري الكناني الشافعي (المتوفى: 840هـ) المحقق: دار المشكاة للبحث العلمي بإشراف أبو تميم ياسر بن إبراهيم دار النشر: دار الوطن للنشر، الرياض

 

یہی روایت السنة لأبي بكر بن الخلال (1/ 276): میں بھی نقل ہوئی ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَنْبَأَ وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ [ص:277] أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَحِمَهُ اللَّهُ بِيَدِهِ عَسِيبُ نَخْلِ، وَهُوَ يُجْلِسُ النَّاسَ وَيَقُولُ: «اسْمَعُوا لِقَوْلِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، قَالَ: فَجَاءَ مَوْلًى لِأَبِي بَكْرٍ يُقَالَ لَهُ شَدِيدٌ، مَعَهُ صَحِيفَةٌ فَقَرَأَهَا عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: يَقُولُ أَبُو بَكْرٍ: اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِمَنْ فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، فَوَاللَّهِ مَا أَلَوْتُكُمْ، قَالَ قَيْسٌ: فَرَأَيْتُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ 

عجیب طریقہ کار اور متضاد رویہ

جس وقت رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم  وصیتنامه لکھوانا چاہتے تھے تو اس وقت لیہجر کہا ، لیکن جب ابوبکر وصیتنامه لکھوانا  چاہ رہا تھا تو  اغمیَ علیه کہہ کر چھوڑ دیا ۔  

حرف آخر :

اب ان حقائق کو سامنے رکھے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جناب ابوبکر کی خلافت پر کوئی قرآنی آیت یا رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کی کوئی حدیث تھی ؟

اگر تھی تو کیوں جناب ابوبکر نے اس انتخاب کے مخالفین کے سامنے ان آیات اور احادیث کو پیش نہیں کیا ؟

اور ایسی آیات اور روایات تھیں تو اصحاب نے کیوں اعتراض کیا ،کیوں کسی نے ایسی آیت اور روایت سے استدلال کر کے مخالفت کرنے والوں کو جواب نہیں کیا ؟

کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس طرح جناب خلیفہ اول کی خلافت کو ثابت کرنے کے لئے کسی آیت اور حدیث کے ہونے کا خلفاء  اور کسی صحابی کو علم نہ تھا ، ایسا ہی خلیفہ دوم کی خلافت کا حال بھی ہے ؟

اس کا واضح مطلب یہ ہے  کہ اس سلسلے میں خاص کر جو روایات پیش کیجاتی ہیں وہ بعد کے دور  کی پیداوار ہیں خلفاء  اور اصحاب کی روحوں کو بھی ان چیزوں کا علم نہیں تھیں۔۔۔

عجیب بات :

جو چیز اہل سنت کے لوگوں میں مشہور ہے وہ خلافت کی ان تاریخی حقائق کے بلکل خلاف ہے۔ لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ خلفا کی خلافت ،اصحاب کی متفقہ راے اور مشہورے کا نتیجہ ہے اور ان کی خلافت پر بہت سی آیات اور احادیث دلالت کرتی ہیں ۔ 

جبکہ ایسا بلکل نہیں ہے ، نہ خلفا میں سے کسی کو ان چیزوں کا علم تھا نہ اصحاب کسی ایسی آیت اور راویت کے ہونے کو جانتے تھے  ۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات