2024 March 28
فاطمہ زہراﺀ سلام اللہ علیہا چراغ ہدایت اور حق کا معیار
مندرجات: ٢١٦٥ تاریخ اشاعت: ١١ January ٢٠٢٣ - ٠۸:٣ مشاہدات: 1909
مضامین و مقالات » پبلک
فاطمہ زہراﺀ سلام اللہ علیہا چراغ ہدایت اور حق کا معیار

فاطمہ زہراﺀ سلام اللہ علیہا چراغ ہدایت  اور حق کا معیار  

اہل سنت کے لئے لاجواب بند گلی۔

حدیث {فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی}

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث «فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی» گزشتہ زمانے کی طرح دور حاضر میں بھی اہل سنت کے بزرگ علماء کے سامنے لاینحل مسئلہ اور ایسی بند گلی کہ جس سے یہ لوگ نکل نہیں سکتے ۔

 یہ حدیث  کتاب «صحیح بخاری» جلد 3 صفحه 1361 حدیث 3510 میں ذکر ہوئی ہے :

«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِی»   

فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہیں جس نے انہیں غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا  ۔

صحیح البخاری ۔کتاب فضائل ، باب باب مَنَاقِبُ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ  ح 3510

امام بخاری نے «صحیح بخاری» میں نقل کیا ہے :

«فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ فَهَجَرَتْ أَبَا بَکرٍ فلم تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حتی تُوُفِّیتْ»

جب جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ابوبکر سے اپنی والد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وراثت اور ان کی دی ہوئی چیزوں کا مطالبہ کیا اور ابوبکر نے انہیں دینے سے انکار کیا تو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ناراض ہوگئی اور ابوبکر سے بائیکاٹ اور ناراضگی کی حالت میں دنیا سے چلی گئی ۔

صحیح البخاری ۔ كتاب الخمس ، باب فرض الخمس، ح 2926

کتاب بخاری میں یہ حدیث بھی ہے  :

 عائشة عن فاطمة (س) قالت: قال لي رسول اللّه (ص): أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ  أَوْ نِسَاءِ الْمُؤمِنِينَ.   

رسول اللہ  فاطمہ بیٹی! کیا آپ اس پر خوش نہیں ہو کہ جنت میں آپ مومنوں کی عورتوں کی سردار ہو گی، یا (فرمایا کہاس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی۔

صحيح البخاري، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام ، ح 3624۔  صحيح البخاري --- كتاب الاستئذان --- باب من ناجى بين يدي الناس ،ح  6285 -

       ہدایت کا چراغ :

خاص  کر یہ دو روایتیں  «فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی ۔۔» اور «فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ ۔۔۔» کو   سامنے رکھے  تو نتیجہ بہت واضح ہے ۔

ایک تحقیقاتی ادارہ "مرکز ابحاث عقائدیه " کے نام سے ہے کہ جو  آیت الله العظمی سیستانی کی زیر نظارت کام کرتا ہے  ، اس ادارے نے «موسوعة من حیات المستبصرین» کے عنوان سے ۱۴جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی ہے اور یہ اس سلسلے کی بےمثال کتاب ہے ۔اس کتاب میں ایسی لوگوں کا ذکر ہے کہ جو اہل علم اور کا شمار اہل سنت کے علماء اور اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ میں ہوتے تھے اور پھر بعد میں شیعہ ہوئے۔

 یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں کہ اہل سنت اور وہابی مذہب سے شیعہ ہونے والے علمی شخصیتوں کا شیعہ اور مکتب اہل بیت کی طرف آنے کی بنیادی وجہ یہی اہم اور بنیادی نکتہ ہے  ۔ اسی میں غور فکر کرنے کے بعد بہت سے لوگ شیعہ ہوئے ہیں۔

 کیونکہ ایک طرف«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِی»  کو رکھے اور دوسری طرف «فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ فَهَجَرَتْ أَبَا بَکرٍ فلم تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حتی تُوُفِّیتْ»

اور «فَلَمَّا تُوُفِّیتْ دفنها زَوْجُهَا عَلِی لَیلًا، وَلَمْ یؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَکرٍ وَصَلَّی عَلَیهَا»

جب جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا دنیا سے چلی گئی تو ان کے شوہر {حضرت علی علیہ السلام نے  انہیں رات کو ہی دفنا دیا اور ابوبکر کو اس کی خبر تک نہیں دی اور ان خود حضرت علی علیہ السلام  نے پر نماز جنازہ پڑھی۔

لہذا اہل سنت کے علماء کے لئے یہ دو واقعے قابل حل نہیں ۔ یہ روایتیں سند کے اعتبار سے بھی صحیح ہے اور مضمون کے اعتبار سے بھی بلکل واضح اور روشن ہے۔

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا حق کا معیار  

یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت صدیقه طاهره کی شان میں اتنی ساری روایتیں موجود ہیں ان احادیث سے بہت اہم نتائج اور پیغام ہم اپنے اور دوسروں کے لئے بیان کرسکتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے اہم نکتہ اور پیغام یہ  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اس حدیث«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی» کے ذریعے حق اور باطل کی تشخیص کا ایک معیار اور میزان دینا چاہتے تھے ۔

 جو الفاظ آپ  نے یہاں استعمال فرمایا ہے وہ جناب فاطمہ[ص] کے ساتھ ہی مخصوص ہے ایسی تعبیر حضرت امیرالمؤمنین و امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے لئے نہیں ہے ۔

لہذا یہ حدیث ایک ایسی تحقیقی کام  کے لئے نقطه آغاز بن سکتی ہے کہ جس کا عنوان "فاطمه(س)،  شیعه کی حقانیت کی سند " یا "فاطمه زهرا(س) حق اور  باطل کی تشخیص کا معیار "ہو۔  ایک ایسی تحقیقی کتاب لکھے کہ جس میں اس سلسلے کی روایتوں کو جمع کر کے تجزیہ و تحلیل پیش کی جائے اور طالبان حق کے لئے ہدایت اور تحقیق کا زمینہ فراہم کیا جائے  ۔

«آلوسی سلفی » کاحضرت زهرا (س)  کے بارے میں بہت ہی عمدہ نظر ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ  «آلوسی» متوفای 1270، کہ جو «خیرالدین زرکلی» کی کتاب «الأعلام» کے مطابق ایک سلفی عقیدہ رکھنے والا عالم ہے :

«کان سلفی الاعتقاد»

الأعلام، خیر الدین الزرکلی، وفات: 1410، چاپ: الخامسة، سال چاپ: أیار - مایو 1980، ناشر: دار العلم للملایین - بیروت – لبنان، ج 7، ص 176، باب الآلوسی الکبیر

اسی  آلوسی نے  اپنی مشہور تفسیر  «روح المعانی» میں مذکورہ حدیث پر تفصیلی بحث کی ہے ۔ وہ اس حدیث کے ضمن میں کہتا ہے :«أن فاطمة البتول أفضل النساء المتقدمات والمتأخرات»«من حیث إنها بضعة رسول الله»

حضرت فاطمه زهرا(س) تمام عورتوں سے افضل ہیں، چاہئے گذشتہ زمانے کی عورتیں ہوں یا بعد کے دور کی عورتیں، کیونکہ کیونکہ آپ رسول اللہ (ص) کے وجود کا حصہ ہے ۔

ایک اور جگہ پر لکھتا ہے :

«إذ البضعیة من روح الوجود وسید کل موجود لا أراها تقابل بشیء»

پیغمبر اکرم (ص) کے وجود کا حصہ ہونا اور تمام عورتوں کی سردار ہونا کسی چیز کے ساتھ بھی قابل موازنہ اور مقایسہ نہیں ہے ۔

اس کے بعد ایک خوبصورت تعبیر اور تجزیہ پیش کرتے ہیں ،پیغمبر (ص) نے عائشہ کے بارے میں فرمایا ہے :«خذوا ثلثی دینکم عن الحمیراء» یا «خذوا شطر دينكم من الحميراء»

بعض نے اس حدیث کے ذریعے عائشہ کو افضل بتانے کی کوشش کی ہے ۔لیکن میں کہتا ہوں : رسول اللہ (ص)  کو یہ معلوم تھا کہ آپ کے بعد حضرت زہرا (س) زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہے گی اور اگر آپ کو یہ معلوم ہوتا کہ جناب فاطمہ (س) طولانی عمر پائے گی اور زندہ رہے گی تو آپ دین کے ایک تہائی کو فاطمہ سے لے لو ، کہنے کی بجائے فرماتے : «خذوا کل دینکم عن الزهراء» یعنی پورا دین فاطمہ (س) سے لے لو ۔

روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، المؤلف: شهاب الدین محمود بن عبد الله الحسینی الألوسی (المتوفی: 1270 هـ)، المحقق: علی عبد الباری عطیة، الناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة: الأولی، 1415 هـ، ج 2، ص 149، باب سورة آل عمران (3): الآیات 38 إلی 47۔

یہ خوبصورت تعبیر ایک ایسے شخص کی ہے جو سلفی العقیده بھی  رکھتا ہے، آلوسی  نے اپنی تفسیر میں «فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی» کئی صفات پر مشتمل بحث کی ہے ۔

علامه امینی اور اهل سنت کے علماء کے درمیان پیش آنے والا ایک خوبصورت واقعہ

  «علامه امینی» - قدس الله نفسه الزکیه –کی زندگی نامے میں ایک واقعہ  ذکر ہوا ہے آپ سوریہ{ شام } کے شہر «حلب» میں ایک جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی ، شروع میں آپ نے اس جلسے میں شرکت سے انکار کیا ۔ لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ آپ شریک ہوئے کہ جلسے میں {مذھبی معاملات پر } گفتگو نہیں ہوگی۔ اس دعوت اور جلسے میں ۷۰ کے قریب اہل سنت کے علماء موجود تھے اور اس میں جامعۃ الازھر سے تعلیم مکمل کر کے آنے والے  علماء بھی تھے .

اس دعوت میں مدعو ہر ایک عالم نے کوئی نہ کوئی حدیث نقل کی۔ جب «علامه امینی» کی باری آئی تو دوسرے علماء نے آپ سے بھی ایک حدیث بیان کرنے کے لئے کہا۔

 «علامه امینی» نے «فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی» والی روایت کو نقل کیا اور کہا : میں آپ لوگوں سے ایک سوال کرتا ہوں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہیں  سوال:   کیا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ابوبکر کی بیعت کی ہے یا نہیں ؟ اگر بیعت نہیں کی ہے تو «من مات ولم یعرف ۔۔۔۔» والی حدیث کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا کیا حکم ہوگا؟

 روایت کا مضمون یہ ہے کہ اپنے زمانے کےامام کی معرفت ،بیعت اور اطاعت کے بغیر دنیا سے جائے تو اس کی موت جہالت کی موت ہوگی۔جیساکہ صحیح مسلم میں ہے ؛

 «وَمَنْ مَاتَ وَلَیسَ فی عُنُقِهِ بَیعَةٌ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیةً»

اگر کوئی اس حالت میں مرجائے کہ اس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو تو اس کی موت جاھلیت کی موت ہے ۔

صحیح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ج 3، ص 1478، ح 1851

«احمد بن حنبل» نے اپنی «مسند»  میں اس طرح نقل کیا ہے :

«من مَاتَ بِغَیرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیةً» جو اس حالت میں مرتا ہے کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو اس کی موت جاھلیت کی موت ہوگی۔

مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر، ج 4، ص 96، ح 16922

«علامه امینی» کہتے ہیں : حضرت زهرا مرضیه سلام اللہ علیہا نے بیعت نہیں کی .اب کیا {نعوذ باللہ }حضرت فاطمه زهرا سلام اللہ علیہا جاھلیت کی موت  کے ساتھ دنیا سے گئی ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو کیوں حضرت علی بن أبی طالب علیہ السلام نے انہیں بیعت کرنے کا نہیں کہا اور بیعت کرنے پر مجبور نہیں کیا ؟

 اب بیعت نہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہو کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  خلیفہ اول کو خلافت اور امامت کے مقام کا اہل نہیں سمجھتی تھی۔ اسی لئے  خلیفہ اول  کی بیعت نہیں کی ۔

کہتے ہیں : وہاں سناٹا چھا گیا ، وہاں موجود کسی بھی عالم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ جواب دیتے تو کیا دیتے ؟ اس کا کوئی جواب ہی نہیں ہے ۔  

حضرت زهرا  کا حضرت  امیرالمؤمنین (سلام الله علیهما) سے جرات مندانہ دفاع

لیکن دوسری  طرف سے حضرت  صدیقه طاهره سلام اللہ علیہا پوری طاقت کے ساتھ حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے دفاع کرتی ہیں ۔

«مرحوم طبرسی» نے کتاب «الإحتجاج» میں لکھا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے پہلے یا دوسرے دن بعض لوگوں نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ کیا تو ؛ «وَ خَرَجَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ ص إِلَیهِمْ فَوَقَفَتْ خَلَفَ الْبَاب»

حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ [ص] دروازے کے پیچھے کھڑی ہوگئں۔

جب  گھر کو آگ لگانے کی دھمکی دی تو  «طبرسی» کے نقل کے مطابق آپ نے یوں فرمایا :

«ِثُمَّ قَالَتْ لَا عَهْدَ لِی بِقَوْمٍ أَسْوَأَ مَحْضَراً مِنْکم»  میں نے تم لوگوں سے بدتر قوم نہیں دیکھی۔

«تَرَکتُمْ رَسُولَ اللَّهِ جَنَازَةً بَینَ أَیدِینَا وَ قَطَعْتُمْ أَمْرَکمْ فِیمَا بَینَکم»

تم لوگوں نے پیغمبر اکرم [ص] کے جنازه کو ہمارے ہاتھوں پر چھوڑا ۔ان کی تجہیز و تدفین کے بجائے تم لوگ سقیفہ میں چلے گئے اور خلافت کے معاملے کو اپنے درمیان طے کر دیا ۔

الإحتجاج علی أهل اللجاج، طبرسی، احمد بن علی، محقق / مصحح: خرسان، محمد باقر، ج 1، ص 80، باب ذکر طرف مما جری بعد وفاة رسول الله ص من اللجاج و الحجاج فی أمر الخلافة من قبل من استحقها

آپ حضرت علی [ع]  کی امامت اور خلافت سے دفاع میں کہتی تھیں :

«وَ هَلْ تَرَک أَبِی یوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ لِأَحَدٍ عُذْراً؟!»  کیا میرے بابا نے غدیر کے واقعے کے بعد تم لوگوں کے لئے کوئی عذر اور بہانا بھی چھوڑا  ہے  ؟

بحار الأنوار، نویسنده: مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، محقق / مصحح: جمعی از محققان، ج 30، ص 124، ح 2

ہمارے بزرگ علماء نے کے نذدیک یہ مسلم بات ہے کہ حضرت زہرا [س]  نے مسجد نبوی میں ایک سخت  اور تاریخی خطبہ دیا اور اصحاب کے سامنے فریاد بلند کی۔

«أنسیتم قول رسول اللّه یوم غدیر خمّ: من کنت مولاه فعلی مولاه؟!»

آپ نے فرمایا : کیا  غدیر خم میں رسول الله [ص] کے اس فرمان کو فراموش کر گئے: جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہیں ؟

عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآیات و الأخبار و الأقوال(مستدرک سیدة النساء إلی الإمام الجواد، نویسنده: بحرانی اصفهانی، عبد الله بن نور الله، محقق / مصحح: موحد ابطحی اصفهانی، محمد باقر، ج 11، ص 877، ح 67

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء میں سے ایک  «محمد بن عمر مدینی»نے اپنی کتاب «نزهة الحفاظ» جلد اول صفحہ 101 پر جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی طرف سے غدیر کےواقعے سے احتجاج کو تفصیلی طور پر نقل کیا ہے ۔ «حدیث فواطم» کہ جو کو  فاطمه بنت الرضا (علیه السلام) نے  فاطمه بنت رسول الله کے واسطے سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمه زهرا سلام اللہ علیہا نے انصار اور مہاجرین سے تعلق رکھنے والے اصحاب کے آگے فریاد بلند کی اور فرمایا:

«أَنَسِیتُمْ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ یوْمَ غَدِیرِ خَمٍّ مَنْ کنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِی مَوْلاهُ»

نزهة الحفاظ، المؤلف: محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبهانی المدینی، أبو موسی (المتوفی: 581 هـ)، المحقق: عبد الرضی محمد عبد المحسن، الناشر: مؤسسة الکتب الثقافیة – بیروت، الطبعة: الأولی، 1406، ج 1، ص 102، باب کتاب النساء

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات