2024 March 29
امام مھدی (ع) کی ولادت اور آپ کے ظہور کی قرآنی بشارت کے بارے میں اہل سنت کے علماﺀکا اعتراف
مندرجات: ٢١٩٥ تاریخ اشاعت: ٠٩ March ٢٠٢٢ - ٠٤:٠٧ مشاہدات: 1773
سوال و جواب » امام حسین (ع)
امام مھدی (ع) کی ولادت اور آپ کے ظہور کی قرآنی بشارت کے بارے میں اہل سنت کے علماﺀکا اعتراف

 

امام مھدی (ع) کی ولادت اور آپ کے ظہور کی قرآنی بشارت کے بارے میں اہل سنت کے علماﺀکا اعتراف

 

سوال :  کیا اھل سنت کی تفسیری کتابوں میں کسی آیت کی تفسیر ، امام مھدی علیہ السلام کے ظہور اور قیام کے بارے میں ہوئی ہے ؟

 

جواب : مھدویت کا عقیدہ ایک مسلم دینی مسئلہ ہے اور قرآن و سنت اس پر دلالت کرتی ہیں۔

 

حضرت مهدي علیہ السلام اور قرآن:

 

سوره توبه کی آيه 33 جس میں اللہ فرماتا ہے:

 

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَي وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَي الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے۔ اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔

 جناب قرطبي ، ثعلبي ، ابن جوزي اور دوسرے مفسرین نے نقل کیا ہے کہ یہ آیت حضرت امام مھدی علیہ السلام سے متعلق ہے  ۔

قرطبي نے کہا ہے :

وقال السدي: ذاك عند خروج المهدي لا يبقي أحد إلا دخل في الإسلام أو أدي الجزية

تفسير القرطبي، ج 8، ص 121 و زاد المسير، ج 3، ص 428 و تفسير البحر المحيط، ج 5، ص34

یہ آیت حضرت مهدي(ع) کے قیام کے وقت عملی ہوگی۔ اس وقت سب کے سب دین السلام میں داخل ہوں گے اور کوئی بھی دین اسلام میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہے گا ۔

 

سوره بقره 114:

 

لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآَخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔۔۔

ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب  پے ۔

طبري نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے :

لهم في الدنيا خزي أما خزيهم في الدنيا فإنهم إذا قام المهدي.

تفسير الطبري، ج 1، ص 501

یہ حضرت مهدي (ع) کے قیام کے وقت عملی ہوگا .

 

  سوره نساء کی آیت 69:

 

فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا۔

اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔

جناب حسكاني نے اپنی تفسير شواهد التنزيل میں لکھا ہے :

وحسن أولئك رفيقا فهو المهدي في زمانه۔

" ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے" سے مراد امام مھدی علیہ السلام  ہے  ۔

شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، الحاكم الحسكاني، ج 1، ص 198

سورہ نور  آیت 55 ’’   (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ ) 

 (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ  قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَي لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ) (النور:55)

 تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں ۔

بہت سے علما نے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے کہ اللہ کا یہ وعدہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت پورا ہوگا ۔۔۔

شیعہ اور اھل سنت نے بہت سی آیات کو  ذکر کیا ہے اور ان کی تفسیر اور تاویل میں حضرت مهدي (ع) کے قیام کا ذکر کیا ہے  .

لہذا اس سے پتہ چلتا ہے کہ مھدویت کے موضوع کی بنیاد اور جڑھیں قرآن مجید میں ہیں۔

اور جس طرح سے سورہ نور کی آيه 11 کے بارے میں اھل سنت کے علماء کہتے ہیں کہ یہ جناب عائشه کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جبکہ ان کا نام آیت میں موجود نہیں ،اسی طرح  سوره توبه کی آيه 40 میں جناب ابوبكر کا نام نہیں ہے لیکن اھل سنت والے یقینی طور پر کہتے ہیں کہ یہ انہیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس قسم کی بہت سی آیات کی اسی طرح تفسیر اور تاویل کرتے ہیں۔

اگر اھل سنت کے نذدیک ان کے اپنے بزرگوں کی تفاسیر اور تأويلات معیار ہیں  تو انہیں مھدویت کے موضوع میں بھی انہیں کو  معیار قرار دینا چاہئے ۔۔ کیونکہ جن مفسروں نے ان آیات میں جو تفسیریں کی ہیں ،انہیں مفسروں نے مھدویت کے موضوع میں بھی آیات کی تفسیر کی ہیں اور مذکورہ آیات کو امام مھدی علیہ السلام کے ظہور کے مورد میں قرار دیا ہے ۔

 عقیدہ مھدویت کے بارے میں خاص کر وھابی مسلک فکر کے بڑے علماء کی آراء کیا ہیں؟

ابن تيميه متوفاي 728 هجري کہ جو حقیقت میں وھابیوں کا کرتا دھرتا ہے، وہ لکھتا ہے۔

أن الأحاديث التي يحتج بها علي خروج المهدي أحاديث صحيحة رواها أبو داود والترمذي وأحمد وغيرهم من حديث ابن مسعود وغيره.

منهاج السنة النبوية، ج 8، ص 254

جن احادیث کے ذریعے سےحضرت مهدي علیہ السلام کے خروج پر استدلال کیجاتی ہیں وہ صحیح السند احادیث ہیں اور ابو داود ، ترمذي اور دوسروں نے ان کو نقل کیا ہے .

سعودي کے سابق مفتي أعظم ، بن باز نے ایک واقعے کی وجہ سے کہ جس میں کسی نے امام مھدی علیہ السلام کا انکار کرنا چاہا تو انہوں نے مدينه اسلامي یونیورسٹی کے علمی رسالہ نمبر 3 ، 1388 میں ایک تفصیلی مقالہ لکھا اور اس مقالہ میں جناب بن باز نے عقیدہ مھدویت کو یوں بیان کیا ہے :

أمر المهدي معلوم والأحاديث فيه مستفيضه بالمتواترة تدل علي أن هذا الشخص الموعود به أمره ثابت و خروجه حق.

مهدويت ایک قطعي امور میں سے ہے ۔اس سلسلے میں موجود احادیث مستفیض کی حد تک پہنچتی ہیں بلکہ یہ متواتر ہیں اور یہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس کے بارے میں اللہ کا وعدہ ہے اس کا خروج اور قیام قطعی اور حق ہے ۔

رابطة العالم الاسلامي کہ جو  وہابیوں کے ہاں کلچر کا بہت بڑا مرکز ہے یہ لوگ اس سلسلے میں لکھتا ہے :

فأن الاعتقاد بظهور المهدي يعتبر واجبا علي كل مسلم وهو جزء من عقائد أهل السنة والجماعة ولا ينكر ذلك الا كل جاهل أو مبتدع

حضرت مهدي  علیہ السلام کے ظہور کا عقیدہ رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور یہ اھل سنت و الجماعت کے اعتقاد کا حصہ ہے، اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ،ہاں اگر کوئی جاھل یا بدعتی ہو {تو وہ انکار کرسکتا ہے}.

اب جو لوگ سوشل میڈیا پر عقیدہ مھدویت کا انکار کرتے ہیں انہیں اس وہابی مرکز کی باتوں کا مطالعہ بھی کرنی چاہئے ؛یہ لوگ کہتے ہیں ۔جزء من عقائد أهل السنة والجماعة ۔۔

بن باز نے نے اسی مقالے میں  25 ایسے اصحاب کے ناموں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے حضرت مهدي ارواحنا لہ فداه کے بارے میں تصریح کی ہے اور اھل سنت کے بزرگوں میں سے ابن داود ، ترمذي وغیرہ نے مهدويت کے موضوع کو اپنی کتابوں میں زوق و شوق کے ساتھ بیان کیا ہے.

 

امام مھدی علیہ السلام کی ولادت :

 

ابن تیمیہ کی طرف سے امام مھدی علیہ السلام کی پیدائش کا انکار 

 

« قد ذكر محمد بن جرير الطبري وعبد الباقي بن قانع وغيرهما من أهل العلم بالأنساب والتواريخ أن الحسن بن علي العسكري لم يكن له نسل ولا عقب والإمامية الذين يزعمون أنه كان له ولد يدعون أنه دخل السرداب بسامرا وهو صغير منهم من قال عمرة سنتان ومنهم من قال ثلاث ومنهم من قال خمس.»

طبری ، عبدالباقی اور دوسرے علم انساب اور تاریخ کے ماہرین نے لکھا ہے : حسن بن علی العسکری، کی کوئی اولاد نہیں تھی ،جبکہ امامیه یہ ادعا کرتے ہیں کہ آپ کے فرزند تھے اور بچہ ہی تھے کہ سامرا کے سرداب میں چلے گئے ،بعض نے ان کی عمر دو سال ، بعض نے تین سال اور بعض نے پانچ سال بتائی ہے .

منهاج السنة النبوية، اسم المؤلف: أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس، دار النشر: مؤسسة قرطبة - 1406، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ج4، ص 87

۔ تیمیہ نے سفید جھوٹ بولا ہے ۔

ابن تیمیہ کہتا ہے : طبری نے کہا ہے :لم یکن له نسل و لا عقب»، امام حسن العسکری کے کوئی فرزند نہیں تھا ۔

اب کوئی بھی طبری کی کتاب کا کوئی بھی نسخہ اٹھا کر دکھائے کہ طبری نے امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں ایسا لفظ استعمال کیا ہو ۔۔۔

اھل سنت کے بزرگوں کا اعتراف ۔

بعض محققین نے امام مھدی علیہ السلام کی ولادت کے قائل اھل سنت کے علماء کی تعداد  140 بتائی ہے۔ یہ لوگ اس بات کے متعقد ہیں کہ امام مهدي پیدا ہوئے ہیں اور آپ  امام عسكري سلام الله عليه کے فرزند ہیں.

اس سلسلے میں اھل سنت کے علماء کے دو گروہ ہیں۔

بعض لوگ اس چیز پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ جس طرح حضرت خضر  کہ جو حضرت نوح کے زمانے میں دنیا میں آئے لیکن ابھی تک اللہ کی لازوال قدرت سے زندہ ہیں اور حضرت ادريس اور حضرت عيسي علیہما السلام بھی ابھی تک زندہ ہیں ۔ لہذا امام مھدی علیہ السلام بھی اللہ کی لایزال قدرت سے زندہ ہیں۔

بعض کا کہنا ہے کہ آپ سنہ 255 کو دنیا میں تو آئے ہیں لیکن معلوم نہیں اس کے بعد کیا ہوا۔ دنیا سے چلے گئے یا نہیں گئے

اھل سنت کے نسب شناسوں کے آراء کے چند نمونے۔

 

اهل سنت کے مشہور نسب شناس، ابو نصر بخاري نے جعفر کذاب کے بارے میں لکھا ہے شیعہ امامیہ جعفر کذاب کو کذاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے بھائی امام حسن العسکری کی میراث کا خواہ مخواہ مطالبہ کیا ؛

دون ابنه القائم الحجة عليه السلام لا طعن في نسبه

سر السلسلة العلوية، أبي نصر البخاري، ص 40

وہ امام کے فرزند حضرت قائم کے حق پر قبضہ کرنا چاہتا تھا  جبکہ آپ کے نسب میں کوئی اشکال نہیں ہے .

  علي بن محمد عمري کہ جو قرن پنجم کے بڑے علماء میں سے ہیں وہ کہتے ہیں :

ومات أبو محمد عليه السلام وولده من نرجس عليها السلام معلوم عند خاصة أصحابه وثقات أهله... وامتحن المؤمنون بل كافة الناس بغيبته

المجدي في أنساب الطالبين، علي بن محمد العلوي العمري، ص 130

ابو محمد دنیا سے چلے گئے لیکن نرگس خاتون سے ان کے بیٹے کا ہونا ان کے اصحاب اور قابل اعتماد لوگوں کے لئے معلوم ہے ۔۔۔۔ اور مومنین اور عام لوگوں کا ان کی غیبت کے ذریعے سے امتحان ہوگا اور یہ معلوم ہوگا کہ کون دین پر باقی رہتے ہیں یا باقی نہیں رہتے ۔

ابن عنبه کہ جو مشهور نسب شناس ہے ،آپ امام عسگري علیہ السلام کے بارے میں لکھتا ہے:

وهو ولد الإمام محمد المهدي صلوات الله عليه ثاني عشر الأئمة عند الإمامية

عمدة الطالب في أنساب آل أبي طالب، أحمد بن علي الحسيني، (ابن عنبة)، ص 199۔

آپ امام مھدی صلوات اللہ علیہ کے والد ہیں جو شیعوں کے بارویں امام ہیں۔

اسی طرح ابو المعالي رفاعي نے لکھا ہے :

فالحسن العسكري أعقب صاحب السرداب الحجة المنتظر ولي الله الإمام محمد المهدي

امام عسكري کا ایک بیٹا کہ جو صاحب سرداب کے لقب سے مشهور ہے، آپ حجت ، منتظر اور اللہ کے ولی ، امام محمد مهدي ہیں.

محمد أمين سويدي کہ جو ۱۳ قرن کے اھم شخصیات میں سے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

وكان عمره عند وفاة أبيه خمس سنين

آپ والد کی وفات کے وقت 5 سال کے تھے ۔۔

یہ بڑے نسب شناسوں کی باتیں ہیں ۔ لہذا آپ کے نسب میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں ہے ۔

اور یہ ابھی کی باتیں نہیں ہے بلکہ چوتھی ہجری سے 13قرن تک کے نسب شناسوں کی باتیں ہیں ،ان لوگوں نےحضرت مهدي ارواحنا فداه کا حضرت عسكري سلام الله عليه کے فرزند ہونے کو واضح انداز میں بیان کیا ہے .

  اهل سنت کے  دوسرے بزرگ علماء کا اعتراف :

=  ذهبي متوفاي 748 کہ جو اهل سنت کے مشہور عالم  ہیں ۔ وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

وأما ابنه محمد بن الحسن الذي يدعوه الرافضة القائم الخلف الحجة.

تاريخ الإسلام، ج 19، ص 113

امام حسن العسکری کا فرزند محمد بن حسن کہ جس  کو  رافضه "قائم" کہتے ہیں۔

ذھبی یہاں رافضی کہہ کر طنز بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے ؛

فولد سنة ثمان وخمسين، وقيل: سنة ست وخمسين

حضرت مهدي 258 ہجری يا 256 ہجری کو دنیا میں آئے .

تاريخ الإسلام، ج 19، ص 113ح

  ذھبی " العبر في خبر من خبر " میں ، 256 ہجری کے واقعات کے ذکر میں اس سال جو لوگ دنیا میں آئے ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

وفيها محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي محمد الجواد بن علي الرضا بن موسى الكاظم بن جعفر الصادق العلوي الحسيني أبو القاسم.الذي تلقبه الرفضة: الخلف الحجة. وتلقبه بالمهدي وبالمنتظر. وتلقبه بصاحب الزمان، وهو خاتمة الاثنتي عشر، وطلال الرافضة ما عليه مزيد. فإنهم يزعمون أنه دخل السرداب الذ

 256 ہجری کو محمد بن الحسن العسكري دنیا میں آئے، رافضی انہیں ، خلف ،حجت ، مھدی ، منتظر اور صاحب الزمان کہتے ہیں  ۔.

العبر في خبر من غبر ، ج 1  ص 381 

 

ابن خلكان کہ جو اهل سنت کے بزرگ علماء میں سے ہیں ، وہ اپنی كتاب "وفيات الأعيان" میں لکھتے ہیں :

كانت ولادته يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين

حضرت مهدي کی ولادت جمعه کے دن 15 شعبان ، 255 ہجری کو ہوئی۔

وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، ج 4، ص 176

 

 جناب صفدي کہتے ہیں:

ولد نصف شعبان سنة خمس وخمسين

15 شعبان  255 ہجری کو آپ دنیا میں آئے ۔.

الوافي بالوفيات، ج 2، ص 249

 

جناب ابو الفداء کہتے ہیں :

وولد المنتظر المذكور، في سنة خمس وخمسين ومائتين،

یہی امام منتظر ،255 ہجری کو دنیا میں آئے ۔

المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص 178

 

جناب فخر الدين رازي کہتے ہیں:

وأما الحسن العسكري فله ابنان وبنتان أما الابنان فأحدهما صاحب الزمان عجل الله تعالي فرجه الشريف

امام حسن العکسری کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں،دو بیٹوں میں سے ایک صاحب الزمان عجل الله تعالي فرجه الشريف ہیں۔

الشجرة المبارکة فی انساب الطالبیه ص78

ابن حجر هيثمي نے حضرت مهدي علیہ السلام اور ان کی عمر کے بارے میں لکھا ہے : آپ اپنے والد کی وفات کے وقت 5 سال کے تھے :

لكن آتاه الله فيها الحكمة ويسمي القائم المنتظر قيل لأنه ستر بالمدينة وغاب فلم يعرف أين ذهب.

اللہ نے انہیں اس عمر میں حکمت عطاء کی ، انہیں قائم اور منتظر کہا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ آپ شھر میں چھپ گئے اور غائب ہوگئے اور پتہ نہیں چلا آپ کہا چلے گئے ۔

الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 601

 

خير الدين زركلي کہ جو ایک وھابی عالم ہے ؛ اس سلسلے میں لکھتا ہے :

ولد في سامرا ومات أبوه وله من العمر نحو خمس سنين.

امام مہدی (ع)  سامرا میں دنیا میں آئے اور اپنے والد کی وفات کے وقت آپ کی عمر 5 سال تھی۔

الأعلام، خير الدين الزركلي، ج 6، ص 80

 

ناصر الدين الباني کہ جنہیں عصر حاضر کا بخاري بھی کہا جاتا ہے وہ لکھتا ہے:

وأم الإمام محمد بن حسن الملقب بالحجة والقائم والمهدي أم ولد؛ اسمها نرجس

امام محمد بن حسن ،جن کا لقب ،حجۃ ،قائم اور مھدی ہیں ،آپ کی ماں ،نرگس کنیز تھیں ۔۔

الروضة الندية، ج 2، ص 151

جیساکہ البانی اسی مناسب سے کہتا ہے کہ ان کی والدہ کنیز تھی اور ان کا نام نرکس تھا۔

 یہ اھل سنت کے بزرگ علماء میں سے بعض کے نام ہیں جنہوں نے امام مھدی علیہ السلام کی ولادت کو قبول کیا ہے اور امام حسن العسکری علیہ السلام کے لئے فرزند ہونے کا اعتراف کیا ہے

 جیساکہ قبلہ فقيه ايماني نے " الاصالة مهدوية في الاسلام،" میں کتاب کے 81 صفحات پر 112 اھل سنت کے علماء کے ناموں کا ذکر کیا ہے اور  سيد سامر عميدي نے اپنی کتاب" دفاع عن الكافي" میں 128 اهل سنت کے ایسے بزرگوں کا نام ذکر کیا ہے کہ جنہوں نے امام مھدی علیہ السلام کی ولادت کو قبول کیا ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ شیعہ اور اھل سنت کے اختلافی مسائل میں سے کونسا اختلافی مسئلہ ایسا  ہے کہ جس میں اھل سنت کے 128 علماء نے شیعہ نظریے کو قبول کیا ہو؟

ہم نے تو اس قسم کے کسی مسئلے میں اتنی تعداد میں شیعہ نظریے کی اھل سنت کے علماء کی طرف سے تائید نہیں دیکھی ۔

یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی شبہہ اور اعتراض کرتے رہنے والے لوگ اپنے ہی علماء کی باتوں کو قبول نہیں کرتے۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات