2024 April 27
ڈیر ہ اسماعیل خان: 1984 سے ابتک کتنے شیعہ شہید ہوئے ، جانئیے اس رپورٹ میں
مندرجات: ١٢٩٣ تاریخ اشاعت: ١٢ February ٢٠١٨ - ١٣:٣١ مشاہدات: 1161
خبریں » پبلک
ڈیر ہ اسماعیل خان: 1984 سے ابتک کتنے شیعہ شہید ہوئے ، جانئیے اس رپورٹ میں

خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں 1984 سے 2008 تک تقریبا 200 شیعہ شہید ہوئے 2008 سے 2013 تک شہادتوں کی تعداد 120 ہے

2013 سے 2018 تک 250 شیعہ شہید ہو چکے ہیں ، یہ اعداد صرف ڈیرہ کے ہیں ، اس میں اگر ٹانک، کلاچی اور پروا کے علاقوں کی شہادتیں بھی شامل کی جائیں تو پچھلے پانچ سالوں میں ڈیرہ میں 550 سے زائد شیعوں کو شہید کیا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کی قومی شناخت سرائیکی ہے اور ان میں سے ہر ایک کا جُرم شیعہ ہونا ہے ۔ جیسے کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کو لشکرِجھنگوی کھلے عام دھمکی آمیز خط لکھ چُکی ہے، ویسے ہی ڈی آئی خان میں شیعوں کو کالعدم سپہ صحابہ اہلسنت و الجماعت مسلسل دھمکیوں کی زد پر رکھتی ہے اور موقع ملتے ہی جان سے مار دیتی ہے ۔ اگر کوئی شیعہ جوان مارے جانے سے بچ جاتا ہے تو اسے ریاستی ادارے اٹھا لے جاتے ہیں ، اسوقت بھی کم سے کم پچیس شیعہ افراد کئی سالوں سے ’’مسنگ‘‘ ہیں ۔
یوں تو پاکستان کے ہر شہر میں شیعہ نسل کشی منظم طریقے سے جاری ہے لیکن ڈیرہ وہ بد قسمت شہر ہے جہاں پہلے لاش گرائی جاتی ہے ، پھر موٹر سائیکل سے اتر کر لاش پر تسلی سے مزید گولیاں برسائی جاتی ہیں اور قاتل سی سی ٹی میں چہرہ دکھاتے آرام سے واپس لوٹ جاتے ہیں ۔ ڈیرہ وہ بد قسمت شہر ہے جہاں اپنے آپکو سلطانِ دو عالم سمجھنے والے متکبر عمران خان کی حکومت ہے ، جہاں پرویز خٹک جیسے بے حس آدمی کی وزارت ہے : وہ بے شرم حکمران جو لاشیں گرنے پر کہتے ہیں کہ لوگ تو مرتے رہتے ہیں اب ہم ہر جگہ تو نہیں جا سکتے ۔ وہ جھوٹے بے غیرت حکمران ، جو پولیس کی محض وردیاں بدل کر انہیں مثالی پولیس کہتے ہیں ، وہ ڈھکوسلا انصاف جس کا کہیں دور دور تک کوئی ذکر نہیں ۔
ڈیرہ اس بد قسمت صوبے کا شہر ہے جہاں کالعدم دہشتگرد جماعتوں کو دعوت دیکر سیکیورٹی اجلاسوں میں بلایا جاتا ہے ، جہاں لدھیانوی، فاروقی جیسے قاتلوں کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں ، جہاں جیل توڑ کر دہشتگردوں کو آزاد کروایا جاتا ہے ، جہاں طالبان کے باپ سمیع الحق کو سینیٹر بنایا جاتا ہے ، جہاں تکفیری دہشتگرد مدرسوں کو کروڑوں کے فنڈز دئے جاتے ہیں ، اور پھر دس پندرہ جھوٹے، فریبی ، مکار سیاستدانوں کا گروہ اپنے متکبر لیڈر کے زیرِ سایہ پریس کانفرنسوں میں انصاف کے جھوٹے لالی پاپ دیتا ہے ۔ کیا بدقستی ہے ، کیا بد نصیبی ہے !
کوئی تحریکِ تکبر اور طالبان خان سے سوال کرے کہ ابتک سینکڑوں کی تعداد میں مارے جانے والے سرائیکی شیعوں کے قاتل آزاد کیوں ہیں؟ دوسری پارٹیوں کو مغلظات سے نوازنے اور چیخنے والے طالبان خان اور انکے نو رتن پچھلے ایک ہفتے میں مسلسل چار شہادتوں پر ایک بھی بیان دینے سے قاصر کیوں ہیں؟ ہزاروں پاکستانیوں کی قاتل جماعتوں اور انکے ہم فکروں سے سیاسی اتحاد کرنے میں آخر کیا مجوری ہے ؟ حق یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت شہریوں کو تحفظ دینے اور انصاف فراہم کرنے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے (نہ ہی عمران خان و دیگر کو اس کام میں کوئی دلچسپی ہے) ۔
یہی سوال وفاقی حکومت ، سیکیورٹی و ریاستی اداروں سے بھی بنتے ہیں: کہاں ہے نیشنل ایکشن پلان؟ کہاں ہے رد الفساد؟ کہاں ہے ضربِ عضب؟ کہاں ہے شکریہ راحیل شریف؟ اور کچھ نہیں تو چیف جسٹس ہی ڈی آئی خان میں جاری یکے بعد دیگرے ہونے والی ہلاکتوں کا نوٹس لے لیں؟ اور کچھ نہیں تو میڈیا ہی اس علاقے کی حالتِ زار پر بول دے ؟ اور کوئی نہیں تو میک اپ زدہ سول سوسائٹی ان مظلوموں کا ساتھ دیدے ؟ ڈی آئی خان پر ہی کیا موقوف، پورے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں، صوفی سنیوں، کرسچنز ، احمدی ، ہندو کسی کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اگر آزاد اور محفوظ ہیں تو صرف تکفیری دہشتگرد جماعتیں ۔ پھر کیوں نہ عام پاکستان سوچے کہ یہ نیشنل ایکشن پلان تکفیریوں کو ہی سپورٹ کرنے کیلئے بنایا گیا ہے نہ کہ انہیں نکیل ڈالنے کیلئے ۔ کالعدم اہلسنت و جماعت سپہ صحابہ کے پالے دہشتگردوں کی خون کی پیاس اتنی شدت سے بھڑکی ہوئی ہے کہ اگر فورا انہیں لگام نہ ڈالی گئی تو خدا جانے مزید کتنے خاندانوں کے چراغ بجھیں گے ۔




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات