2023 March 26
آراء کی فہرست

سے: تک: عبارت کو شامل: عبارت کی جگہ: مشاہدات کی تعداد:

1
مندرجات کا کوڈ: 1984 - عنوان: کیا رسول اللہ {ص} نے جنگ جمل ، صفین اور نہروان میں امیر المومنین {ع} کی حمایت کا حکم دیا تھا ؟
مکمل نام : شمریزعلی - تاریخ اشاعت: 20:51 - 16 January 2022
قیس بن حازم کا جنگ جمل میں ہونا ثابت ہے؟
دلائل کے ساتھ جواب دیں
جواب:
سلام علیکم ۔۔۔۔۔
محترم مقالے کا عنوان دیکھیں پھر اسی حساب سے سوال پوچھیں ۔۔۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جنگیں امیر المومنین علیہ السلام اور آپ کے حامی اصحاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے لڑی ہے ۔۔۔۔ لہذا ان جنگوں کا فیصلہ اور ان میں حق اور باطل کا تعین حضور پاک (ص) خود ہی فرماگئے ہیں ۔۔۔۔جیساکہ شیعوں کا بھی یہی نظریہ ہے ۔۔۔ لیکن اہل سنت حضور پاک (ص) کے واضح فرامین کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں اور دونوں کو اہل حق سمجھتے ہیں ۔۔۔
۔۔۔
اس سلسلے کی روایات قیس بن حازم کے صفیں میں ہونے اور نہ ہونے سے مربوط نہیں نہیں ہیں ۔۔۔۔
ایک نمونہ ۔۔۔

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: ثنا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عَلِي بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَلِي، قَالَ: " عَهِدَ إِلَي رَسُولُ اللَّهِ (ص) فِي قِتَالِ النَّاكِثِينَ، وَالْقَاسِطِينَ، وَالْمَارِقِينَ ".

علي (عليه السلام) نے فرمایا : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے، ناكثين ، قاسطين اور مارقين سے جنگ کرنے کا عہد و پیمان لیا ہے اور وصیت فرمائی ہے .

البزار، أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق (متوفاي292 هـ)، البحر الزخار (مسند البزار)، ج3، ص26ـ 27، ح774، تحقيق: د. محفوظ الرحمن زين الله، ناشر: مؤسسة علوم القرآن، مكتبة العلوم والحكم - بيروت، المدينة الطبعة: الأولي، 1409 هـ.

طبراني نے المعجم الأوسط میں لکھا ہے :

حَدَّثَنَا مُوسَي بْنُ أَبِي حُصَيْنٍ، قَالَ: نا جَعْفَرُ بْنُ مَرْوَانَ السَّمُرِي، قَالَ: نا حَفْصُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: " أُمِرْتُ بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ، وَالْقَاسِطِينَ، وَالْمَارِقِينَ "

مجھے ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے ۔

  • الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الأوسط، ج 8، ص213، ح8433، تحقيق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني، ناشر: دار الحرمين - القاهرة - 1415هـ.
  1. هيثمي نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے :

رواه البزار والطبراني في الأوسط وأحد إسنادي البزار رجاله رجال الصحيح غير الربيع بن سعيد ووثقه ابن حبان.

اس روایت کو بزار اور طبراني نے نقل کیا ہے اور بزار کے نقل کردہ دو سندوں میں سے ایک کی سند کے راوی بخاری کے راوی ہیں ، سوای ربیع بن سعید کے ،ابن حبان نے اس کو ثقہ کہا ہے .

  • الهيثمي، أبو الحسن علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج7، ص 238، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.

دوسری بات
آگرآپ حواب کے کتوں اور جناب عائشہ کے واقعے کو رد کرنے کے لئے اس سلسلے کی روایات کو رد کرنا چاہتے ہیں تو یہاں بھی چند نکات قابل ملاحظہ ہیں۔۔۔
پہلا نکتہ : اس سلسلے کی روایات صحیح السند ہیں ،لہذا قیس بن حازم جمل میں نہ بھی ہو تو بھی انکی صحت پر فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ کیونکہ قیس ثقہ اور قابل اعتماد راوی ہے ۔۔۔۔ ممکن ہے ہے یہ وہاں تک تو ساتھ ہو لیکن پھر جنگ جمل میں شریک نہ ہوا ہو۔۔۔ کیونکہ اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جناب عائشہ آگے بڑھنے سے انکار کر رہی تھیں ،اگرچہ عبد اللہ ابن زبیر کی طرف سے پیش کردہ جھوٹے گواہوں کی وجہ سے جناب عائشہ نے اس سفر کو جاری رکھا ،،،، اب ممکن ہے قیس جیسے لوگوں کو حقیقت کا پتہ چلنے کے بعد اس سے آگے جناب عائشہ کا ساتھ نہ دیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیساکہ خود زبیر بن العوام اس سفر میں ساتھ لیکن جنگ میں شریک نہیں ہوا اور میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا جنگ جمل میں اس کا شریک ہونا ثابت نہ بھی ہو پھر بھی واقعہ صحیح سند روایات سے ثابت ہے ۔۔۔۔
دوسرا نکتہ : کیونکہ یہ روایت صحیح السند ہیں لہذا یہی روایات خود اس سلسلے کے دوسرے احتمالات کو رد کر دیتی ہیں ۔۔۔لہذا اس صحیح سند کوملاک اور معیار قرار دینا چاہئے دوسرے شبھات کو بنیاد بنا کر اس کو رد کرنا عقلمندی اور علمی طریقہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جیساکہ اہل سنت کے بہت سے علما نے انہیں روایات کو بنیاد بنا کر اس واقعے کو نبوت کی دلائل میں سے قرار دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

2
مندرجات کا کوڈ: 633 - عنوان: شہادت حضرت فاطمہ زہرا (س) ایک انكار ناپذیر حقیقت
مکمل نام : اشرف خان - تاریخ اشاعت: 17:26 - 11 January 2022
اھل سنت کی کسی بھی معتبر کتاب میں حضرت فاطمہ کی شہادت کا ذکر نہیں ھے۔
جواب:
سلام علیکم :
اہل سنت کی کتابوں میں بعد از رسول (ص) ان پر آنے والے مصائب اور مشکلات کا ذکر ہے ۔ان کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی کا ذکر ہے ،ان کی طرف سے خلفا کو اپنے حق سے محروم کرنے والے سمجھ کر خلفا سے مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے جانے کا ذکر ہے ۔۔ خلیفہ کی طرف سے زندگی کے آخری ایام میں جناب فاطمہ سلام علیہا کے گھر کی حرمت کا خیال نہ رکھنے پر اظہار پشیمانی کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف سے خلفا کو نماز جنازے سے دور رکھنے کی وصیت کا ذکر ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ شیعہ یہ تو نہیں کہتے کہ جناب سیدہ (ع) خلیفہ کی تلوار سے میدان جنگ میں زخمی ہوئیں اور اسی وجہ سے آپ شہید ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔

3
مندرجات کا کوڈ: 1976 - عنوان: حضرت علی نے کیوں اپنی حکومت کے دور میں فدک واپس نہیں لیا
مکمل نام : ,aners - تاریخ اشاعت: 07:25 - 06 January 2022
اچھا ھے ماشاء اللہ
جواب:
سلام علیکم ۔۔۔
اس سلسلے میں تفصیلی جواب ایک اور مقالے میں ہم نے دیا ہے۔۔۔
دیکھیں۔۔

فدک اگر حق زہرا (ع) تھا تو امیر المومنین (ع) نے فدک واپس کیوں نہیں لیا ؟

www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

4
مندرجات کا کوڈ: 2013 - عنوان: کیا شیعہ بھی انبیاء کی مالی وراثت کے قائل نہیں؟
مکمل نام : نوررحمان - تاریخ اشاعت: 20:08 - 03 January 2022
شیعہ مذھب کے اصول اربعہ کی اوّل کتاب اصول کافی میں موجود ہے : محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن محمد بن خالد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا، وإنما أورثوا أحاديث من أحاديثهم، فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه؟ فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق (رضی الله تعالی عنہ) نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں ۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا ، اس نے کافی حصہ پا لیا ۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو ۔ ہم اہل بیت کےخلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اورجابلوں کی تاویلوں کو ۔ (اصول الکافی الشیخ الکلینی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 17،چشتی)
یہی روایت شیعہ کے جیّد عالم شیخ مفید نے اپنی کتاب “الخصاص” میں بھی بیان کی ہے : وعنه، عن محمد بن الحسن بن أحمد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن السندي بن محمد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذلك أن العلماء لم يورثوا درهما ” ولا دينارا ” وإنما ورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا “، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء بیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بنانے دربم یا دینار کا، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا، اس نے کافی حصہ پا لیا۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو۔ ہم اہل بیت کے خلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اور جابلوں کی تاویلوں کو ۔ (كتاب الاختصاص – الشيخ المفيد – الصفحة 16)

شیعہ مذھب کی کتاب اصول الکافی میں موجود ہے جس میں نبی کریم سے واضح الفاظ میں مروی ہے کہ انبیاء کرام درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑتے :محمد بن الحسن وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن جعفر بن محمد الأشعري، عن عبد الله بن ميمون القداح، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن القداح، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به (3) طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به (4) وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر ۔
ترجمہ : رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا دین کے عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جس طرح ستاروں پر چاند کی فضیلت اور چاندنی رات پر فضیلت ہے اور علماء وارث انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں چھوڑتے اپنی امت کے لئے درہم و دینار ، بلکہ وہ وراثت میں چھوڑتے ہیں علم دین کو۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا ، اس نے بڑا حصہ پا لیا ۔ (کتاب اصول الكافي – الشيخ الكليني – ج ۱ – الصفحة ۱۹) ، اصول الکافی کی اس حدیث کو خمینی نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے ۔

شیعہ مذھب کی مشہور کتاب قرب الاسناد میں موجود ہے اور علامہ الحمیری القمی نے بحار الانوار کے حوالے سے بیان کی ہے : جعفر، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔
ترجمہ : حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عیوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے ۔ (قرب الاسناد الحمیری القمی ص 91,92،چشتی)(بحوالہ المجلسي في البحار 16: 219 / 8)

کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن من العقار شيئا) علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى ، عن يونس، عن محمد بن حمران، عن زرارة عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔ عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا ۔ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں ، ان کے چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ (الفروع من الکافی کتاب المواریث ج ۷ ص ۱۳۷،چشتی)

يونس بن عبد الرحمان عن محمد بن حمران عن زرارة ومحمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔
ترجمہ : حضرت امام باقر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا عورت زمین و جائیداد میں سے کسی کی وارث نہیں ۔ (کتاب تھذیب الاحکام الشیخ الطوسی ج 9 ص 254)

جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے ، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے : میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا ۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے ۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے ۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین‘‘ ص ۲۰۱، ۲۰۲ ترجمہ از فارسی)

جواب:
سلام علیکم :
جناب پہلی بات تو یہ ہے کہ ارث کا قانون ایک عمومی قانون ہے اس میں نبی اور غیر نبی میں فرق نہیں ہے ۔۔
شریعت نے دین اولاد کو والدین کی ارث سے محروم قرار دیا ہے ،
ولد الزنا ْْ۔۔ والدین کا قاتل ۔۔۔۔ کافر اولاد۔۔
ان وراثت سے محروم کرنا ایک قسم کی سزا ، عیب اور معاشرے کو برائیوں سے دور رکھنے کے لئے شریعت کی طرف سے چارہ جوئی ہے۔۔۔ انبیا کی اولاد کا کیا جرم ہے ؟ کیا ان کو وراثت کی ضرورت نہیں ؟ کیا انبیا کی وراثت بیت المال کا حصہ بننے اور فقرا میں تقسیم ہونے پر انبیا کی تاریخ سے کوئی ایک نمونہ دکھا سکتے ہو۔۔۔۔۔۔
دوسری بات :
قرآن میں ارث کےحکم کو بتانے والی دس سے زیادہ آیات موجود ہیں لیکن ایک آیت بھی انبیا کی مالی وراثت کی نفی پر نہیں ہے لہذا یہ حکم قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔۔۔۔
ہم قرآنی حکم کے خلاف کوئی حدیث ہو تو اس کو قبول نہیں کرتے کیونکہ ہمارے ائمہ قرآن کے خلاف نہیں بولتے ۔۔
تیسری بات :
آپ نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اصول کافی کی حدیث کا معنی غلط کیا ہے ۔ایک سادہ ادبی تحلیل کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔
دیکھیں : إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما۔۔۔۔ آپ نے اس کا ترجمہ کیا ہے :۔۔۔ وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ترجمہ میں (کسی کو وارث نہیں بناتے) غلط ترجمہ ہے ۔۔۔۔ صحیح ترجمہ ۔۔۔ انبیاء علماء کو درھم و دینار ارث میں چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا آپ نے اپنے مقصد کے لئے ( لم يورثوا) کا دوسرا مفعول کسی کو کیا ہے جبکہ اس کا دوسرا مفعول العلماء کی طرف پلٹنے والی ضمیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اس سلسلے میں تفصیل جواب اسی مقالے میں دیا ہے ۔۔۔ اگر مطالعہ کرتے تو تکراری بات نہ کرتے ۔۔۔۔
چھوتھی بات :
یہ حدیث علم اور عالم کی فضیلت سے متعلق ہے اس کا مالی وراثت سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ یہی حدیث آپ کی کتابوں میں بھی ہے لیکن آپ کے کسی محدث اور صحاح ستہ کے مصنف نے اس کو ارث کے باب میں ذکر نہیں کیا ہے بلکہ سب نے اصول کافی کے مصنف کی طرح اس کو علم و عالم کی فضیلت کے ابواب میں ذکر کیا ہے ۔۔۔ اگر آپ اپنے بزرگوں کے فھم و درک کے خلاف استدلال کرنا چاہئے تو ہم آپ کو نہیں روکتے ۔۔
پانچویں بات :
قرب الاسناد کی روایت : ن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔۔
پہلا نکتہ : تو یہ ہے کہ اس کی سند میں حسین بن علوان ہے یہ سنی راوی ہے اور ہمارے علما نے اس کی توثیق نہیں کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کسی نے توثیق کی ہے تو یہ روایت قرآن کے خلاف ہے ۔۔۔۔
دوسرا نکتہ : اس روایت میں انبیاء کی مالی وراثت کی نفی نہیں ہوئی ہے بلکہ مندرجہ چیزوں کو وراثت میں چھوڑ کر جاننے کی نفی کی ہے ۔۔۔۔ ۔
چھٹی بات :
کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن ۔
عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔
۔۔۔۔ اس سلسلے میں موجود شبھہ کا بھی ہم نے تفصیلی جواب دیا ہے ۔۔۔۔۔
یہ بیوی سے متعلق موضوع ہے ،ہمارا آپ لوگوں سے نزاع بیٹی کی وراثت کے بارے میں ہے ۔۔
تفصیل دیکھیں ْْْwww.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php