2024 March 29
· کیا امام علی علیہ السلام بعض شرعی احکام کو نہیں جانتے تھے ؟
مندرجات: ١٩٧٤ تاریخ اشاعت: ١٤ June ٢٠٢١ - ١٧:٥٨ مشاہدات: 2120
سوال و جواب » امام حسین (ع)
· کیا امام علی علیہ السلام بعض شرعی احکام کو نہیں جانتے تھے ؟

 

·         کیا امام علی علیہ السلام بعض شرعی احکام کو نہیں جانتے تھے ؟

سوال کی وضاحت :

کیا  امیرالمؤمنین علیه السلام  بعض شرعی احکام سے مثلا مذی کے حکم سے ناواقف تھے اور پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم سے اس کا حکم پوچھتے تھے ؟

جواب :

بعض نے شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں موجود بعض روایات سے اسناد کرتے ہوئے   امیرالمؤمنین علیه السلام کے علمی مقام کو زیر سوال قرار دینے کے ذریعے اہل سنت کے خلفاء{جنکا کوئی علمی مقام نہیں تھا} سے دفاع کرنے کی کوشش کی ہے ، یہ لوگ کہتے ہیں کہ  امیرالمؤمنین علیه السلام بعض شرعی احکام مثلا مذی کے حکم سے جاہل تھے اور اس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھتے تھے۔

جواب :

پہلا نکتہ : اس قسم کی روایات اہل سنت کی کتابوں میں آئی ہے جیساکہ صحیح بخاری میں ہے :

عن مُحَمَّدِ بن الْحَنَفِيَّةِ قال قال عَلِيٌّ كنت رَجُلًا مَذَّاءً فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بن الْأَسْوَدِ فَسَأَلَهُ فقال فيه الْوُضُوءُ وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عن الْأَعْمَشِ

محمد بن حنفیه سے نقل ہوا ہے : میرے والد حضرت علی علیہ السلام  نے کہا: میں مذی زیادہ دیکھتا تھا مجھے شرم آئی کہ میں اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خود ہی پوچھوں ۔میں نے مقداد بن اسود سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس کا حکم پوچھ لے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اس کے بعد وضو کرے۔

صحيح البخاري ج 1، ص 77 و ص 105، البخاري  ، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفاى256هـ)، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

یہی حدیث شیعہ کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے ۔لیکن یہ اہل سنت کی روایات کی طرح ہے لہذا قابل قبول نہیں ہے ۔ کیونکہ ائمہ علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ جو روایت اہل سنت کے موافق ہو اس کو چھوڑ دو۔

دوسرا نکتہ : اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس مسئلے کا حکم شریعت میں بیان ہوا اور امیر المومنین علیہ السلام اس کے حکم سے ناواقف تھے ۔ روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے ۔بلکہ اس روایت سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس وقت تک اس کا حکم بیان نہیں ہوا تھا کیونکہ مقداد کو بھی اس کا حکم نہیں جانتا تھا۔ لہذا امیر المومنین علیہ السلام مقداد سے اس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کرنے کے لئے کہتے ہیں تاکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قانون گزار اور شرعی احکام کے شارع ہونے کے اعتبار سے اس مسئلے کا حکم بیان فرمائیں اور   دوسرے بھی اس کو یاد کر لے، کیونکہ احکام بیان کرنا رسول اللہ ص کا کام ہے۔

تیسرا نکتہ : یہ روایت امیر المومنین ع کے علمی وسعت کے ساتھ منافات بھی نہیں رکھتی کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے علم کے علوم کا سرچشمہ ہے ،جیساکہ اس سلسلے میں بہت سی روایات موجود ہیں ۔امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :    

عن أبي جعفر عليه السلام قال قال علي عليه السلام علمني رسول الله صلى الله عليه وآله ألف باب يفتح ألف باب

رسول خدا صلی الله علیه و آله نے علم کے ہزار بابوں کی مجھے تعلیم دی،ان  میں سے ہر ایک باب سے ہزار ہزار علم کے باپ کھلتے ہیں۔

الخصال جلد ۲ صفحه ۱۷۹، الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاى381هـ)، تحقيق: علي أكبر الغفاري، ناشر: جماعة المدرسين في الحوزة العلمية ـ قم، 1403هـ ـ 1362ش

اہل سنت کے منابع میں بھی ہے :

عن بريدة الأسلمي قال سمعت رسول الله يقول لعلي إن الله أمرني أن أعلمك

بریده اسلمی کہتا ہے : پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمؤمنین علیه السلام سے فرمایا : اللہ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں آپ کو تعلیم دوں .

جامع البيان عن تأويل آي القرآن (تفسير الطبري)، ج 29، ص 56، الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفاى310)، ناشر: دار الفكر، بيروت – 1405هـ

چوتھا نکتہ : اگر یہ کہا جائے کہ یہ روایت ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی وسعت علمی کے مخالف ہے تو پھر بھی اس روایت کا اعتبار ختم ہوگا اوراس پر توجہ نہیں دی جائے گی۔ کیونکہ یہ روایت امام علی ع کے علم کے بارے میں موجود دوسری یقینی اور متواتر روایات کے مخالف ہے ۔

اس سلسلے میں نیچے کی لینگ پر کلیک کریں

https://www.valiasr-aj.com/persian/shownews.php?idnews=5038

 
 

 

 
 

 

 
 

پانچواں نکتہ :بعض وہابی اور اہل سنت والے مندرجہ بالا اعتراض امام علی کے علم کےسلسلے میں بیان تو کرتے ہیں، لیکن اس چیز کی طرف توجہ نہیں دیتے کہ خلفاء کی علمی کمزوری کے بیان میں بہت سی روایات اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں ،ہم ان میں سے چند نمونے یہاں بیان کرتے ہیں۔

 

الف) رسول خدا صلی الله علیه و آله تیمم کا حکم جناب عمر کو تعلیم دے چکے تھے لیکن انہوں نے اس پر توجہ نہیں دی ،یہاں تک کہ اس کے اپنے دور حکومت میں جب کسی نے اس مسئلے کے بارے میں انہیں سے سوال کیا ۔تو  جناب خلیفہ نے جواب میں کہا : جب مجھے پانی نہ ملے تو میں نماز نہیں پڑھتا ہوں۔لیکن عمار یاسر نے خلیفہ کے اس غلط جواب کو ٹھیک کیا اور اس کا صحیح جواب انہیں یاد دلاِیا :  

عن عبد الرحمن بن أبزي قال كنا عِنْدَ عُمَرَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فقال يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ رُبَّمَا نَمْكُثُ الشَّهْرَ وَالشَّهْرَيْنِ ولا نَجِدُ الْمَاءَ فقال عُمَرُ أَمَّا أنا فإذا لم أَجِدْ الْمَاءَ لم أَكُنْ لِأُصَلِّيَ حتى أَجِدَ الْمَاءَ فقال عَمَّارُ بن يَاسِرٍ أَتَذْكُرُ يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ حَيْثُ كُنْتَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا وَنَحْنُ نَرْعَى الْإِبِلَ فَتَعْلَمُ أَنَّا أَجْنَبْنَا قال نعم أَمَّا أنا فَتَمَرَّغْتُ في التُّرَابِ فَأَتَيْنَا النبي صلى الله عليه وسلم فَضَحِكَ فقال إن كان الصَّعِيدُ لَكَافِيكَ وَضَرَبَ بِكَفَّيْهِ إلى الأرض ثُمَّ نَفَخَ فِيهِمَا ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ وَبَعْضَ ذِرَاعَيْهِ فقال اتَّقِ اللَّهَ يا عَمَّارُ فقال يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إن شِئْتَ لم أَذْكُرْهُ قال لا وَلَكِنْ نُوَلِّيكَ من ذلك ما تَوَلَّيْتَ

عبدالرحمٰن بن ابزی نقل کرتا ہے: ہم عمر کے پاس تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: امیر المؤمنین! بسا اوقات ہمیں ایک ایک دو دو مہینہ بغیر پانی کے رہنا پڑ جاتا ہے، (تو ہم کیا کریں؟  تو جناب عمر نے جواب میں کہا: رہا میں تو جب تک پانی نہ پا لوں نماز نہیں پڑھتا ہوں، اس پر عمار بن یاسر نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد ہے؟ جب آپ اور ہم فلاں اور فلاں جگہ اونٹ چرا رہے تھے، تو آپ کو معلوم ہے کہ ہم جنبی ہو گئے تھے، کہنے لگے: ہاں، تو رہا میں تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے (اور ہم نے اسے آپ سے بیان کیاتو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہنس کر فرمایا: ”تمہارے لیے مٹی سے اس طرح کر لینا کافی تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ  و آلہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری پھر اپنے چہرہ کا اور اپنے دونوں بازووں کے کچھ حصہ کا مسح کیا، اس پر عمر نے کہا: عمار! اللہ سے ڈرو، تو انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! اگر آپ چاہیں تو میں اسے بیان نہ کروں، تو عمر  نے کہا: بلکہ جو تم کہہ رہے ہو ہم تم کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں۔   

سنن النسائي (المجتبى)، ج 1، ص 168، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن النسائي الوفاة: 303 ، دار النشر : مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب - 1406 - 1986 ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : عبدالفتاح أبو غدة

یہ روایت واضح طور پر کہتی ہے جناب عمر اس حکم کو نہیں جانتا تھا جبکہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہی حکم خود اسی کے لئے بیان کیا تھا اور جب جناب عمار نے یہ حکم بیان کیا تو اس سے اس مسئلے انہیں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیتاہے گویا دوبارہ بیان کرنے سے منع کرتا ہے اور اس کو سیکھنا نہیں چاہتا ۔

ب) خلیفہ دوم ایک ایسی پاگل عورت کو سنگسار کرنا چاہتا تھا جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہوگی تھی لیکن امیر المومنین امام علی علیہ السلام آتے ہیں اور اس کام سے منع فرمایا اور یہ اور یہ یاد دلایا کہ کسی پاکل کو سزا نہیں دی جاتی :

و قال عَلِيٌّ لِعُمَرَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عن الْمَجْنُونِ حتي يُفِيقَ وَ عَنْ الصَّبِيِّ حتي يُدْرِكَ وَ عَنْ النَّائِمِ حتي يَسْتَيْقِظَ

امام نے عمر سے کہا : کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ دیوانہ سے قلم اٹھایا گیا ہے یہاں تک کہ اسے عقل آ جائے اور بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے۔

صحيح البخاري ج6، ص2499، البخاري الجعفي، ابوعبدالله محمد بن إسماعيل (متوفاى256هـ)، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

یہی روایت  سنن ابی داود میں مفصل طور پر نقل ہوئی ہے:

عن بن عَبَّاسٍ قال أُتِيَ عُمَرُ بِمَجْنُونَةٍ قد زَنَتْ فَاسْتَشَارَ فيها أُنَاسًا فَأَمَرَ بها عُمَرُ أَنْ تُرْجَمَ فمر بها علي عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عليه فقال ما شَأْنُ هذه قالوا مَجْنُونَةُ بَنِي فُلَانٍ زَنَتْ فَأَمَرَ بها عُمَرُ أَنْ تُرْجَمَ قال فقال ارْجِعُوا بها ثُمَّ أَتَاهُ فقال يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَلَمَ قد رُفِعَ عن ثَلَاثَةٍ عن الْمَجْنُونِ حتي يَبْرَأَ وَعَنْ النَّائِمِ حتي يَسْتَيْقِظَ وَ عَنْ الصَّبِيِّ حتي يَعْقِلَ قال بَلَي قال فما بَالُ هذه تُرْجَمُ قال لَا شَيْءَ قال فَأَرْسِلْهَا قال فَأَرْسَلَهَا قال فَجَعَلَ يُكَبِّرُ

عبداللہ بن عباس  کہتے ہیں کہ عمر کے پاس ایک پاگل عورت لائی گئی جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا، آپ نے اس کے سلسلہ میں کچھ لوگوں سے مشورہ کیا، پھر آپ نے اسے رجم کئے جانے کا حکم دے دیا، تو اسے لے کر لوگ علی بن ابی طالب علیہ السلام  کے پاس سے گزرے تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک پاگل عورت ہے جس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے، عمر نے اسے رجم کئے جانے کا حکم دیا ہے، تو علی علیہ السلام  نے کہا: اسے واپس لے چلو، پھر وہ عمر کے پاس آئے اور کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ قلم تین شخصوں سے اٹھا لیا گیا ہے: دیوانہ سے یہاں تک کہ اسے عقل آجائے، سوئے ہوئے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، اور بچہ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، کہا: کیوں نہیں؟ ضرور معلوم ہے، تو بولے: پھر یہ کیوں رجم کی جا رہی ہے؟ بولے: کوئی بات نہیں، تو علی  علیہ السلام نے کہا: پھر اسے چھوڑیئے، تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا، اور اللہ اکبر کہنے  لگا ۔

سنن أبي داود ج4، ص140، السجستاني الأزدي، ابوداود سليمان بن الأشعث (متوفاى 275هـ)، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.

المصنف ج7، ص80، الصنعاني، ابوبكر عبد الرزاق بن همام (متوفاى211هـ)، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

فضائل الصحابة ج2، ص707، الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاى241هـ)، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ – 1983م.

مسند أحمد بن حنبل ج1، ص140، الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاى241هـ)، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

خلیفہ دوم کا شرعی احکام سے جاہل ہونے کے اور بھی موارد سے آشنائی کے لئے مندرجہ ذیل لینگ پر کلیک کریں۔

https://www.valiasr-aj.com/persian/shownews.php?idnews=8268#_Toc437086179

 
 

 

 
 

 

 
 

اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو

شبہات کے جواب دینے والی ٹیم

تحقیقی ادارہ حضرت ولی عصر (عجل الله تعالی فرجه الشریف)

 

 
 
 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات