2024 March 29
کیا حضرت علی علیہ السلام، انبیاء سے افضل ہیں؟
مندرجات: ١٠٠ تاریخ اشاعت: ١٥ August ٢٠١٦ - ١١:٠٢ مشاہدات: 4953
سوال و جواب » پبلک
سوالات و جوابات
کیا حضرت علی علیہ السلام، انبیاء سے افضل ہیں؟

قار ئین کرام ! شاید آپ اس موضو ع کو سن کرکہ : علی علیہ السلام،رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ تمام انبیاء علیھم السلام  سے افضل ہیں - تعجب کریں اور بغیرکسی تحقیق و مطالعہ کے ہم پر غلو اور  دائرہ اسلام سے خار ج ہو نے کا الزام لگادیں - لیکن آپ سے ہماری گزارش ہے کہ کسی بھی قسم کے فیصلہ سے پہلے، ھماری باتوں کو سنیں تا کہ استدلال و برھان کےذریعہ حقیقت سامنے آسکے۔ پھر آپ خود ہی محسوس کریں گے کہ حقیقت تک پھنچنا زیادہ مشکل نھیں ہےبلکہ شک و شبھات سے نکل کر آسان بھی ہے۔

 کیونکہ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے علاوہ، علی علیہ السلام کی تمام بنی آدم  پر فضیلت و برتری ایک ایسی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جس کی تصدیق و تائیدخود قرآن اور سنت کرتے ہیں- اگرچہ ناپاک ہاتھوں نے ہمیشہ اس مرد الھی کے فضائل و مناقب کو چھپا نے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور تاریخی حقائق کی تحریف کرکے بہت سے مسلمانوں کے ذھن و فکرکو گمراہ کیا ہے۔

لھذا علی علیہ السلام کی تمام انبیاء {علیھم السلام } اور انسانوں پر فضیلت و برتری کو ثابت کرنے کے لئے ہم تین محور [ ادلہ ] یعنی: قرآن ، سنت ، اور عقل سے بحث کریں گے :

 

قرآن میں علی علیہ السلام کی برتری و فضیلت

 الف. آيه تطهير

قرآن کریم کی بہت سی آیات کے درمیان پہلی آیت جو مفسرین و محدثین کے بقول، امیر المومنین علی علیہ السلام  کے معنوی مقام و منزلت

کی برتری و فضیلت کی تشریح و توصیف کرتی ہے یہ آیت ہے:

 «انما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيرا»

[ اللہ کا بس یہ ارادہ ہے ا ے اہل بیت تم سے ھر قسم کی [ظاھری و باطنی ] برائی کو دور رکھے اور ایسا ہاک و ہاکیزہ رکھے کہ جو پاک و ہاکیزہ رکھنے کا حق ہے ] ۔

سوره احزاب: آیت 33.

یہ آیت، آیہ تطھیر کے نام سے مشھور ہے کہ جس میں علی اور ان کی معصوم اولاد علیھم السلام کو، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے علاوہ سب پر برتری و فضیلت دی گئی ہے کیونکہ خداوند عالم نے اس آیت میں مکمل وضاحت کے ساتھ صاف الفاظ میں، اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طھارت و پاکیزگی اور عصمت کا اعلان کیا ہے ۔

  الفاظ ، خود بولتے ہیں :

اس آیت کے مھم الفاظ و اصطلاحات جیسے : انّما، يريد، ليذهب، الرجس, اهل البيت ، فھم آیت کے راز و رموز ہیں کہ جن کے سمجھے بغیر، آیت کے،صحیح اورعمیق مفھوم کو سمجھنا ممکن نہیں ہے لہذا پہلے ہم، ان الفاظ و اصطلاحات کی تشریح و تفسیر بیان کریں گے:

 ۱۔  لفظ  "انّما" کی حصر و حد پر دلالت

آیت کے آغاز میں لفظ انما، موضو ع اور اس  سے متعلق مواد کی خصوصیت کو بیان کرتا ہے کیونکہ یہ لفظ، آیت کے مفھوم و معنی میں محدودیت و محصوریت ایجادکرتا ہے اور معنی و مطلب کی عظمت و بلندی کو بھتر طو ر سمجھا تا ہے۔

 ابن منظور کا کہنا  ہے :

 ومعني إنما إثبات لما يذكر بعدها ونفي لما سواه كقوله : وإنما يدافع عن أحسابهم أنا أو مثلي المعني : ما يدافع عن أحسابهم إلا أنا أو من هو مثلي ، و

لفظ انما اپنے بعد آنے والے مفھوم و معنی کو ثابت کرتا ہے اور اپنے علاوہ کی نفی کرتا ہے جیسے کوئی کہے: میں اور میر ے جیسا اپنی عزت و شرف سے دفاع کرتے ہیں حقیقت میں وہ کہنا  چاہتا ہےکہ : صرف میں اور میر ے جیسا ایسے ہیں نہ کہ کوئی دوسرا۔

لسان العرب ، ج 13 ص 31، اسم المؤلف: محمد بن مكرم بن منظور الأفريقي المصري الوفاة: 711 ، دار النشر : دار صادر - بيروت ، الطبعة : الأولي.

اس نکتہ پر توجہ ضروری ہے کہ اس آیت میں حصر،موضوع میں حصرحکمی کی قسم میں سے ہے جیسے کہ آیہ ولایت میں ہے : «انّما وليّكم اللّه و رسوله والذين آمنوا...» اس آیت میں بھی ولایت صرف اللہ و رسول اور مومنین سے مخصوص کی گئی ہے مومنین سے بھی وہ مومن کہ جو خاص طریقہ سے یعنی حالت رکوع میں زکات دے۔

یقینی طور پر اس آیت میں، تطھیر {خدا کا اھل بیت کو پاک رکھنے کا حکم } حصر حکمی ہے نہ کہ حصر موضوعی ۔ یعنی طھار ت و پاکیزگی اور ہر قسم کی برائی اور نجاست سے دوری، ان افراد سے مخصوص ہے کہ جو اھل بیت کے عنوان میں داخل ہیں اور وہی اس خصوصیت { تطھیر } کے مالک ہیں اور ان کے علاوہ کسی دوسر ے کو شامل نہیں ہوسکتی۔۲

۲۔ضمير کی تاکید محصوریت پر

 لفظ انّما سے حصر کے معنی کے علاوہ، لفظ «عنكم» بھی  زیادہ حصر ہر دلالت کرتا ہے کیونکہ فعل «ليُذهب» کا مفعول الرجس ہے کہ جسے فعل کے بعد آنا چاھئے تھا لیکن آیت میں ایسا نہیں ہے بلکہ «عنكم» کے ذریعہ فعل اور مفعول کے درمیان فاصلہ ہے، ظاھر ہے کہ یہ بغیر حکمت اورسبب کے نہیں ہے { کیونکہ قرآن، خدائےحکیم کا کلام ہے } چونکہ اہل فن کے قول کے مطابق :«تقديم ما هو حقه التاخير يفيد الحصر» یعنی: جس وقت کسی لفظ کی جگہ، آخر کلمہ ہو اور وہ پہلے آجائے تو یہ اس جملہ میں،حکم اور مفھوم کے منحصر اور محدود ہو نے پر دلالت کرتا ہے۔

ابن حجر، اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فضیلت میں نازل شدہ آیات کی فصل میں لکھتے ہیں :

 الآية الأولي: قال الله تعالي: إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا.

الأحزاب 33

 أكثر المفسرين علي أنها نزلت في علي وفاطمة والحسن والحسين لتذكير ضمير عنكم وما بعده

 اکثر مفسرین، کا نظریہ یہ ہے کہ آیت { تطھیر } ، علي و فاطمه و حسن و حسين علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ان مفسرین کی دلیل یہ ہے کہ آیت میں، «عنكم» مذکر کی ضمیر ہے اور عنکم کے بعد بھی تمام ضمیریں مذکر کی ہیں۔

 الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة ، ج 2 ص 421، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي الوفاة: 973هـ ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط.

 الصواعق المحرقة - (ج 2 / ص 421)

ابن حجر اس کے بعد لفظ قیل { یعنی کہا گیا ہے } کہکر کچھ  محتملات ذکر کرتے ہیں کہ جن کی نسبت [ کہنے والا ] معلوم نہیں ہے۔ پھر وہ بعض روایتیں نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نسبی و سببی رشتہ دار یعنی ازواج اور تمام بنی ہاشم  کے بارے میں نازل ہوئی۔

یہاں پر،ابن حجر اور ان کے دوسر ے ھمفکر و ھمنوا افراد سےکہ جو اس عظیم اور مھم فضیلت میں معمو لی اورنا اہل افراد کو شامل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں سوال کیا جا سکتا ہے کہ :

با وجود اس کے کہ اکثر مفسرین نے اعتراف کیا ہے کہ یہ آیت تطھیر خاندان رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نسبی رشتہ دار اور خاص افراد [ یعنی علی و فاطمہ و حسن حسین علیھم السلام ] کی شان میں نازل ہوئی ہے آپ کیوں اقلیت اور مجھول الحال افراد کو دلیل بنا رہے ہیں اور  اسی نظریہ کو قوی بنا نے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ کیا آپ کا یہ طریقہ، علی و فاطمہ اور ان کی اولاد [ علیھم السلام ] سے عناد و دشمنی کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے؟

 جناب ابن حجر، آخر کلام میں اس آیت کو اہل بیت عليهم السلام کے تمام فضائل کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں اور اس کےحصر { محدودیت } کو جو لفظ انما  سے شروع ہوا ہے وضاحت و صراحت کے ساتھ اہل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہونے کا اعلان و اظھارکرتے ہیں:

 ثم هذه الآية منبع فضائل أهل البيت النبوي لاشتمالها علي غرر من مآثرهم والاعتناء بشأنهم حيث ابتدئت بإنما المفيدة لحصر إرادته تعالي في أمرهم علي إذهاب الرجس الذي هو الإثم أو الشك فيما يجب الإيمان به عنه وتطهيرهم من سائر الأخلاق والأحوال المذمومة.

یہ آیت خاندان نبوت کے تمام فضائل و کمالات کا سرچشمہ ہے اور { آنحضرت کے } اہل بیت پرخاص توجہ رکہتی ہے کیونکہ لفظ انما کے ذریعہ ان سے ھر قسم کی برائی اور نجاست و شک کی نفی کرتی ہے اور ھر قسم کے ناپسند اور برے اخلاق سے طھارت و پاکیزگی کو ثابت کرتی ہے۔

 

الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة ، ج 2 ص 425 - 426 ، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي الوفاة: 973هـ ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط

 

۳.  خدا کا اراده

 آیت کے اس جملہ، يريد الله میں ارادہ خدا وندی ارادہ تکوینی ہے نہ کہ تشریعی - کیونکہ ارادہ تشریعی کی صورت میں تمام بندگان الھی مخاطب قرار پائیں گے اور کوئی ایک بھی مستثنی نہیں ہوگا،لیکن ارادہ تکوینی میں ضروری نہیں کہ سب کو شامل ہو۔ اور خداوندعالم، اس بات پر قادر ہے کہ مخصوص افرادکو کسی حکم یا خاص فضیلت کا حامل قرار د ے جبکہ دوسر ے اس سے محروم ہوں۔

 اسی بنا ہر اس آیت میں صرف،ارادہ تکوینی ہےچونکہ ھر قسم کی برائی اورنجاست سے دوری،اور پاک رکھنے کا حکم،عام اور کلی چیز نہیں ہے کہ جس میں تمام انسان یا ایک مذھب کے پیروکار شامل ہوں، پھر رجس کے معنی ھر قسم کی برائی اور نجاست ہے کہ جو قابل نفرت ہے اور اللہ کی خالص بندگی و عبادت سے دور کر تی ھے۔اور یہ حقیقت [ھر قسم کی ظاھری و باطنی نجاست سے دوری اور پاک رکھنے کا حکم ]خداوندعالم کے ارادہ تکوینی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی اور خدا کے ارادہ میں ھرگز،خلاف ورزی ممکن نہیں ہے۔

  4 ۔ اِذهاب رجس

  لفظ «اِذهاب» یہاں پر، کسی چیز کا پیدا ہونے اور وجود میں آنے سے پہلے ختم کرنے اور دور کرنے کے معنی میں ہے،کیونکہ یہ روز مرہ کے کلام اور گفتگو میں اسی مقصد کے لئے استعمال ہوتاہے مثلا اگر کوئی کہتا ہے: «أذهب اللّه عنكم الداء والسوء»، یعنی اللہ تم سے بیماری و پریشانی کو دور کر ے، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ شخص اس وقت بیماراور پریشان ہے لھذا کوئی دعا کررہا ہےتاکہ آپ سے بیماری و پریشانی دور ہو جائے۔ نہیں بلکہ یہ دعا اور آرزو، بیماری و پریشانی کے نہ ہوتے بھی کی جا سکتی ہے ۔

 لھذا، اذهاب کے معنی کسی چیز کو وجود میں آنے سے پہلے دفع کرنا اور اس کو موجود ہونے کے موانع سے روکنا ہے۔نہ کہ اس معنی میں کہ پیدائشاور وجود میں آنے کے بعد ختم کرنا  اسی بنا پر آیہ کریمہ میں «ليذهب» آیا ہے نہ کہ «ليزيل» { چونکہ لیزیل کے معنی پیدائش اور وجود میں آنےکے بعد ختم  کرنا ہے اور لیذھب کے معنی کسی چیز کو پیدائش اور وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم کرنے کے ہیں۔}

 ۵. رجس و پليدی

 اس آیت کے مھم الفاظ میں ایک لفظ «رِجس» ہے ۔

 مشھور لغت دان، فیومی نے لکہا ہے:

  « الرجس: النتن. و الرجس: القذر. قال الفارابيّ: كلّ شي ء يستقذر فهو رجس».

 رجس یعنی : کسی چیز کی بدبو یا غلاظت، اور فارابی کا کہنا ہے : جس چیز کو انسان کی طبیعت و فطرت برا سمجھے اسے رجس و پلیدی کہتے ہیں۔

 احمد بن محمد الفيومي، المصباح المنير، ج 1، ص 219، مؤسسة دار الهجرة، قم، چاپ اول، 405 هـ..

كتاب العين { لغت کی قدیمی اور تاریخی کتاب} کے مصنف کا کہنا ہے :

 « رجس: كل شي ء يستقذر فهو رجس كالخنزير، و قد رجس الرجل رجاسة من القذر، و إنه لرجس مرجوس. و الرجس في القرآن العذاب كالرجز، و كل قذر رجس. و رجس الشيطان وسوسته و همزه...».

ہر نجس اور گندی چیز کو رجس کہا جاتا ہے جیسے: خنزیر ،اور کہا جاتا ہےکہ فلاں آدمی گندگی سے نجس ہو گیا،اور قرآن حکیم میں رجس،عذاب کے معنی میں آیا ہے جیسے رجز ہے،اور ہر قسم کی گندگی، رجس کہلاتی ہے۔

 كتاب العين 8 مجلدات ، ج 6 ص 52، اسم المؤلف: الخليل بن أحمد الفراهيدي الوفاة: 175هـ ، دار النشر : دار ومكتبة الهلال ، تحقيق : د مهدي المخزومي / د إبراهيم السامرائي.

 

راغب اصفهاني نے رجس کو تین اقسام: طبيعي و عقلي و شرعی میں تقسیم کیا ہے اور رجس کی تعریف میں لکہا ہے :

  « الرجس الشيء القذر».

ھر نجس اور گندی چیز کو رجس کہتے ہیں۔

 المفردات في غريب القرآن ، ج 1 ص 188، اسم المؤلف: أبو القاسم الحسين بن محمد الوفاة: 502هـ ، دار النشر : دار المعرفة - لبنان ، تحقيق : محمد سيد كيلاني

لھذاجیسے کہ لغت کے علماء و دانشوران کے نظریات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے رجس یعنی : ھر وہ چیز کہ جس کا وجود انسان کے اندر نقص پیدا کر ے اور انسان کی روح کے لئے باعث اذیت و آزارھو اور لوگوں کی نفرت اور دوری کا سبب بنے وہ چاہے گناہ اور معصیت ھو یا شیطانی جال اور وسوسوں میں گرفتاری کا مسئلہ ہو۔

اگرچہ بعض خود غرض افراد نےکوشش کی ہے کہ آیت کے مفھوم و مصداق کے دائرہ کو تنگ کر کے رجس کے معنی کو شرک میں محدود کردیں اور آیت کے مقصد کو صرف اس معنی میں تفسیر کریں کہ:اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شرک خدا  سے پاک و پاکیزہ ہیں اور کہیں کہ  اھل بیت گناہوں سے دور ہیں تاکہ شاید،اس طریقہ سے بعض سببی رشتہ دار آیت میں شامل ہو جا ئیں لیکن لفظ «الرِجس» کا مطلق ہونا اور رجس پر الف لام  کا آنا کہجو عموم کا فائدہ دیتا ہے بلا شک و شبہ اس کا مقصد ہر طرح کی مادی و معنوی نجاست و برائی، اور ہر قسم کا ظاہری و باطنی نقص و عیب اور ہر زمانے میں ہر قسم کے انحراف کی نفی و تردید ہو نا چاہئے کہ جس کا نتیجہ تمام گناہوں سے مقام عصمت تامہ کا ثابت ہونا ہے۔


علماء تفسیر کا اظھار نظر

 خوش قسمتی سے علماء اہل سنت نے علماء شیعہ کی طرح اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رجس کا مصداق نہ صرف یہ کہ شرک تک محدود نہیں ہے بلکہ رجس سے مراد ہر قسم کی ظاھری و باطنی برائی اور نجاست، اور ہر قسم کا گناہ ہے کہ جس کے ذیل میں ہم کچھ علماء کے نظریات کو بیان کریں گے :

 

 فخر راز، اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں بیان کرتے ہیں :

 

فقوله تعالي : { لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرجس } أي يزيل عنكم الذنوب ويطهركم أي يلبسكم خلع الكرامة...

 خدا وند عالم نے تم کو ہر قسم کے گناہ سے دور رکھا ہے اور تم کو لباس کرامت و بزرگی سے آراستہ کیا ہے ۔

 

الرازي الشافعي ، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاي604هـ) ، التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ، ج22 ص201، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت ، الطبعة : الأولي ، 1421هـ - 2000م

 اہل سنت کے ایک دوسر ے مفسر، جصاص اپنی کتاب احکام القرآن میں تحریر کرتے ہیں :

 

قال تعالي ( إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا) يحتمل التطهير من الذنوب.

احتمال ہے کہ [ آیت میں ] طھارت سے مراد برائی اور نجاست سے دوری اور [ ہر قسم کے ] گناہوں سے پاک ہونا ہو ۔

أحكام القرآن ، ج 4 ص 33، اسم المؤلف: أحمد بن علي الرازي الجصاص أبو بكر، الوفاة: 370 ، دار النشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت - 1405 ، تحقيق : محمد الصادق قمحاوي.

  نیز شوکانی [ عالم اہل سنت ] نے فتح القدیر میں ذکر کیا ہے :

 

« والمراد بالرجس الإثم والذنب المدنسان للأعراض الحاصلان بسبب ترك ما أمر الله به وفعل ما نهي عنه فيدخل تحت ذلك كل ما ليس فيه لله رضا ».

رجس سے مراد وہ گناہ ہیں کہ جو خدا کی نافرمانی اور خلاف مرضی  انجام پائیں ۔

فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير ، فتح القدير ج 4 ص 278، اسم المؤلف: محمد بن علي بن محمد الشوكاني الوفاة: 1250 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت.

 دوسر ے مفسرین جیسے : ابن عطیہ اندلسی اور ثعالبی نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے :

 

« و الرِّجْسَ اسم يقع علي الإثم و علي العذاب و علي النجاسات و النقائص، فأذهب اللّه جميع ذلك عن أَهْلَ الْبَيْتِ ».

رجس، وہ اسم ہے کہ جو عذاب و نجاسات اور ہر قسم کے نقص کو شامل ہوتا ہے خدا وند عالم نے ان تمام چیزوں سے اہل بیت کو دور رکھا ہے ۔

المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، اسم المؤلف: أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطية الأندلسي الوفاة: 546هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية - لبنان - 1413هـ- 1993م ، الطبعة : الاولي ، تحقيق : عبد السلام عبد الشافي محمد.

عبدالرحمن بن محمد ثعالبي، جواهر الحسان في تفسير القرآن، ج 4، ص 346.

 

آلوسی نے بھی اپنی تفسیر میں اسی مفھوم کے ساتھ ،اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ان کا کہنا ہے :

 

والرجس في الأصل الشيء القذر...، وقيل : إن الرجس يقع علي الإثم وعلي العذاب وعلي النجاسة وعلي النقائص ، والمراد به هنا ما يعم كل ذلك ... وأل فيه للجنس أو للاستغراق ، والمراد بالتطهير قيل: التحلية بالتقوي ، والمعني علي ما قيل: إنما يريد الله ليذهب عنكم الذنوب والمعاصي فيما نهاكم ويحليكم بالتقوي تحلية بليغة فيما أمركم ، وجوّز أن يراد به الصون ، والمعني إنما يريد سبحانه ليذهب عنكم الرجس ويصونكم من المعاصي صوناً بليغاً فيما أمر ونهي جل شأنه .

 رجس در اصل، نجس چیز کو کہا جاتا ہے  ۔ ۔ ۔ اور کہا گیا ہے کہ گناہ اور عذاب،اور ہر قسم کے نقص کو شامل ہے اور آیہ تطھیر میں رجس سے مراد ان معانی سے عام ہیں ۔  ۔ ۔ اور الرجس میں الف و لام، جنس اور شمولیت کے لئے ہے، یعنی خداوند عالم نے ارادہ کیا ہے ا ے اہل بیت تم سے ہر طرح گناہوں کو دور رکھے اور تقوا سے آراستہ کر ے اور ہر قسم کی برائی اور نجاست سے محفوظ رکھے ۔

روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 22 ص 12، اسم المؤلف: العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود الألوسي البغدادي الوفاة: 1270هـ ، دار النشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت.

 اہل سنت کے ایک دوسر ے مفسر، جو تفسیر قرآن میں صاحب نظر ہیں وہ لکھتے ہیں :

 

 « و الرجس في الأصل : يطلق علي كل شئ مستقذر. وأريد به هنا : الذنوب والآثام وما يشبه ذلك من النقائص والأدناس».

  رجس در اصل، ہر نجس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس آیت [ تطھیر ]  میں رجس سے مراد، ہر قسم کے گناہ اور نقص و عیب سے پاک ہونا ہے ۔

 طنطاوی، سید محمد، التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، ج ۱۱، ص ۲۰۔

 

 

6. اهل البيت

 

لغت میں لفظ اہل، ان افراد کے لئے آتا ہے کہ جن کی بہ نسبت ایک قسم کی جسمی، روحی، فکری، دینی و عقائدی اور خاندانی وابستگی ہو ۔ لہذا خاندان کے تمام افراد جیسے : زوجہ، اولاد، پوتے پوتیاں و ۔ ۔ ۔ چونکہ انسان، ان سے انس اور تعلق رکھتا ہے یہ سب اس کے اہل، شمار ہو تے  ہیں لہذا کہا جا سکتا ہے کہ : اہل کے معنی میں بنیادی نکتہ، وابستگی، انس اور تعلق کا پایا جانا ہے ۔ اگرچہ ممکن ہے کبھی کبھی اپنے خاندان اور نزدیکی افراد کے علاوہ بھی بعض لوگ اہل کے معنی میں داخل ہوجائیں جیسے : سلمان فارسی کہ جنھیں [ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ]  نے " منّا اهل البيت " کہ کر اہل بیت میں شامل کیا ۔ لیکن اس کے مقابل میں،ممکن ہے کچھ لوگ خاندانی افراد میں ہوتے ہوئے، خدا کی نافرمانی اور باپ کی مرضی کے خلاف ورزی کے سبب، انسان کے اہل بیت میں شمار نہ ہوں جیسے حضرت نوح کا بیٹا کہ جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے : « انّه ليس من أهلك ». یہ لفظ خاندانی نسبت ہونے کے علاوہ، بعض مواقع پر دوسرے معانی بھی رکھتا ہے کہ جو اپنے بعد والے لفظ یعنی مضاف الیہ کے ذریعہ معین ہوتا ہے مثلآ: ہر آسمانی کتاب یا دین کے پیرو کار افراد کو ان کے اہل سے پکارا جاتا ہے: جیسے کہا جاتا ہے اہل اسلام، ایل کتاب، اہل انجیل، اہل القری، اہل مدینہ، اہل جنت، اہل نار  ۔ ۔ ۔ یہ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے ۔

  ہم پہلے، لفظ اہل کی وضاحت کے سلسلے میں اہل لغت کے نظریات کو بیان کریں گے اس کے بعد اجمالی طور پر قرآنی محققین، اور مورخین و محدثین کے آثار پر بھی ایک نظر ڈالیں گے ۔

ابن منظور اور دیگر لغت دان افراد لکھتے ہیں :

 أَهْل الرجل عَشِيرتُه وذَوُو قُرْباه.

اھل الرجل [ مرد کے اہل ] اس کا خاندان اور نزدیکی افراد ہیں ۔

لسان العرب ، ج 11 ص 28، اسم المؤلف: محمد بن مكرم بن منظور الأفريقي المصري الوفاة: 711 ، دار النشر : دار صادر - بيروت ، الطبعة : الأولي.

تاج العروس من جواهر القاموس ، ج 28 ص 40، اسم المؤلف: محمد مرتضي الحسيني الزبيدي الوفاة: 1205 ، دار النشر : دار الهداية ، تحقيق : مجموعة من المحققين.

القاموس المحيط ، ج 1 ص 1245، اسم المؤلف: محمد بن يعقوب الفيروزآبادي الوفاة: 817 ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت

فروق اللغه کے مصنف اہل اور آل کے فرق کے سلسلے میں لکھتے ہیں :

 أن الاهل يكون من جهة النسب والاختصاص.

الفروق اللغويه: ج 1 ص 309، اسم المؤلف: العسكري ، دار النشر.:

اہل، نسب اور خصوصیات [ افراد خاندان کے درمیان ] کی بنا پر ہے ۔

 مرحوم طريحي کا کہنا ہے  :

 (أهل) أهل الرجل: آله. و هم أشياعه و أتباعه و أهل ملته...و قد مر في (امر): أنهم أهل بيته خاصة.

اہل رجل [ مرد کے اہل ] یعنی مرد کا خاندان اور اس کے پیر و کار افراد ۔

مجمع البحرين - الطريحي - (ج 5 / ص 203)

 آیت تطھیر کے الفاظ کی تحقیق اور علما ئے لغت کے نظریات و آراء پر اجمالی نظر کے بعد، اس آیت کے شان نزول کے بارے میں اشارہ کریں گے تاکہ معلوم ہو سکے کہ رسول خدا [ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ] اور فاطمہ اور ان کی اولاد [ علیھم السلام ] کے ناموں کے ساتھ علی [ علیہ السلام ] کا نام آتا ہے کہ وہ بھی اس عظیم فضیلت کے مالک ہیں یا نہیں ؟

علامه جلال الدين سيوطي اپنی کتاب تفسير الدر المنثور میں مختلف طریقوں [ اسناد ] سے بیس روایتیں نقل کرتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد رسول خدا، علی، فاطمہ، اور حسن و حسین [ علیھم السلام ] ہیں اس سلسلے مین صرف ایک روایت کی طرف اشارہ کریں گے : 

أخرج ابن جرير وابن أبي حاتم والطبراني وابن مردويه عن أم سلمة رضي الله عنها زوج النبي صلي الله عليه وسلم : « أن رسول الله صلي الله عليه وسلم كان ببيتها علي منامة له عليه كساء خيبري ، فجاءت فاطمة رضي الله عنها ببرمة فيها خزيرة فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم » ادعي زوجك ، وابنيك ، حسناً ، وحسيناً ، فدعتهم فبينما هم يأكلون إذ نزلت علي رسول الله صلي الله عليه وسلم { إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيراً } فأخذ النبي صلي الله عليه وسلم بفضلة ازاره ، فغشاهم إياها ، ثم أخرج يده من الكساء وأومأ بها إلي السماء ، ثم قال : اللهم هؤلاء أهل بيتي وخاصتي ، فاذهب عنهم الرجس ، وطهرهم تطهيراً ، قالها ثلاث مرات . قالت أم سلمة رضي الله عنها : فادخلت رأسي في الستر فقلت : يا رسول الله وأنا معكم فقال : إنك إلي خير مرتين « » .

ام سلمہ سے منقول ہےکہ : رسول خدا صلي الله عليه و آله و سلم میرے گھر میں تھے اور خیبری ردا پہنے ہوئے تھے کہ فاطمہ [ علیھا السلام ] داخل ہوئیں تو آنحضرت نے فرمایا : اپنے شوہر اور حسن و حسین کو بلاو، حضرت فاطمہ نے ان کو بلایا اور [ پیغمبر اسلام و فاطمہ و حسن و حسین ] کھانا کھانے میں مشغول ہو گئے کہ اچانک یہ آیت نازل ہوئی : اللہ کا صرف یہ ارادہ ہے اے اہل بیت تم سے ہر قسم کی برائ اور نجاست کو دور رکھے اور ویسا پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے - رسول خدا [ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ] نے ردا کو ان کے سروں پر ڈال دیا اور سب ردا کے نیچے آگئے پھر آنحضرت نے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور فرمایا : خدایا٫یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر قسم کی برائ اور نجاست کو دور رکھ اور ایسا پاک و پاکیزہ رکھ جو حق ہے ۔ آنحضرت نے تین بار یہی جملہ تکرار فرمایا، ام سلمہ نے کہا : کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں ؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ نے فرمایا : تم خیر کے راستہ پر ہو، اور اسی جملہ کی تین بار تکرار فرمائ ۔

 الدر المنثور ، ج 6 ص 603، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

  حسکانی اہل سنت کے ایک دوسر ے عالم جو آیات قرآن کے ذیل میں روایتیں نقل کرتے ہیں وہ اس آیت کے ذیل میں کچھ روایتیں نقل کرتے ہیں منجملہ :

  جابر بن عبدالله انصاري سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :

نزلت هذه الآية علي النبي ص و ليس في البيت إلا فاطمة و الحسن و الحسين و عليّ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً فقال النبي ص: اللهم هؤلاء أهلي ».

 جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت فاطمه، حسن، حسين اور علي [ علیھم السلام ] کے علاوہ گھر میں کوئی موجود نہیں تھا، پیغمبر اسلام [ص] نے فرمایا : اے خدا یہ میرے اہل بیت ہیں ۔

 حسكاني، حاكم، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، ج 2، ص 29، ح 64

آیت تطھیر کی تحقیق کے اس سلسلے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم  اور اپنی زوجہ اور اپنے دونوں فرزندوں کے ساتھ ایک زمرہ میں ہیں کہ جن کو خدا وند عالم کی طرف سے بہت عظیم فضیلت اور منقبت کی بشارت دی گئی ہے اور وہ ہر طرح کی نجاست اور برائی سے دور، اور پاک و پاکیزہ رکہنا ہے کہ جو حق ہے، یہ خود علی علیہ السلام کی تمام انبیاء پر فضیلت و برتری کو بیان کرتا یے [ اگر چہ وہ،پیغمبرنہیں ہیں صرف امامت و خلافت اور جانشینی کا عھدہ رکھتے ہیں ]۔


ب. آيه مباهله

آیہ مباھلہ قرآن کریم کی ان آیتوں میں سے پے کہ جو امیر المومنین علی علیہ السلام کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ تمام انبیاء پر فضیلت و برتری کو ثابت کرتی ہے :

فمن حاجك فيه من بعد ماجاءك من العلم فقل تعالوا ندع ابناءنا وابناءكم و نساءنا ونساءكم وانفسنا وانفسكم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله علي الكاذبين .آل عمران: 61.

 پس اگر کوئی علم آنے کے بعد اس [ قرآن یا حضرت عیسی]  کے بارے تم سے بحث و مناظرہ کرے تم کہدو : تم اپنے بیٹوں کو لاو ہم اپنے بیٹوں کو لائیں، تم اپنی عورتوں کو لاو ہم اپنی عورتوں کو لائیں، تم اپنے نفسوں کو لاو ہم اپنے نفسوں کو لائیں پھر مباھلہ کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں ۔

 شأن نزول

بلا شک و شبہ آیہ مباھلہ اہل کسا اور اللہ کے برگزیدہ پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی، چونکہ اس بات کو بہت سارے محدثین، مفسرین، مورخین، اور متکلمین نے کتابوں میں ذکر کیا ہےاور اس مسئلہ کو ان مسائل میں جانتے ہیں کہ جو مسلم اور شک و شبہ سے دور ہے، اور دوسری طرف اہم ترین کتابوں میں موجود تاریخی اور تفسیری آثار اس بات کے گواہ ہیں کہ نصارای نجران سے مباھلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  عورتوں میں سے اپنی پارہ جگر فاطمہ علیھا السلام کو بیٹوں میں سے حسن و حسین علیھما السلام کو اور نفسوں میں [ نفس رسول ص] علی علیہ السلام کو ساتھ لے گئے ۔

 مسلم اپنی کتاب صحیح مسلم میں لکھتے ہیں :

ولمّا نزلت هذه الآية : (فقل تعالوا ندع أبنائنا وأبنائكم) دعا رسول اللّه ص عليّاً وفاطمة وحسناً وحسيناً فقال : اللهمّ هؤلاء أهلي.

جب یہ آیت [ مباھلہ ] نازل ہو ئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین [ علیھم السلام ] کو بلایا اور دعا کی : خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں ۔

صحيح مسلم: 7/120 ح 6373، (5/23 ح32) كتاب فضائل الصحابة، باب فضائل علي رضي اللّه عنه، مسند أحمد: 1/185، صحيح الترمذي: 5/596، المستدرك علي الصحيحين: 3/150، فتح الباري: 7/60، تفسير الطبري: 3/212، الدر المنثور: 2/38، الكامل في التاريخ: 2/293.

أخرج الحاكم وصححه وابن مردويه وأبو نعيم في الدلائل عن جابر قال » قدم علي النبي صلي الله عليه وسلم العاقب ، والسيد ، فدعاهما إلي الإِسلام فقالا : أسلمنا يا محمد قال : كذبتما إن شئتما أخبرتكما بما يمنعكما من الإِسلام . قالا : فهات . قال : حب الصليب ، وشرب الخمر ، وأكل لحم الخنزير ، قال جابر : فدعاهما إلي الملاعنة ، فوعداه إلي الغد ، فغدا رسول الله صلي الله عليه وسلم ، وأخذ بيد علي ، وفاطمة ، والحسن ، والحسين ، ثم أرسل إليهما فأبيا أن يجيباه ، وأقرا له ، فقال : والذي بعثني بالحق لو فعلا لأمطر الوادي عليهما ناراً . قال جابر : فيهم نزلت { تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم . . . } الآية . قال جابر : أنفسنا وأنفسكم رسول الله صلي الله عليه وسلم وعلي ، وأبناءنا الحسن والحسين ، ونساءنا فاطمة.

 عیسائیوں کی دو مشھور شخصیتیں جن کا نام، عاقب اور سيّد تھا رسول خدا صلي اللّه عليه و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : ہم مسلمان ہیں ، آنحضرت نے فرمایا : تم جھوٹ بولتے ہو اگر چاہو تو دلیل سے ثابت کروں کہ تم مسلمان نہیں ہو، ان دونوں نے کہا : ثابت کیجیے، تو آپ نے فرمایا : صلیب سے تمھاری محبت و انس، شراب نوشی، اور خنزیر کا گوشت کھانا - جابر کا کہنا ہے کہ اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کو مباھلہ کی دعوت دی، اور طے پایا کہ اگلے دن صبح میدان میں حاضر ہوں، اگلے دن صبح آنحضرت اس حال میں مدینہ سے باہر نکلے کہ علی علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے اور فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام آپ کے ہمراہ تھے، اور عاقب و سید کو مباھلہ کی دعوت دی، لیکن انھوں نے مباھلہ کرنے سے انکار کردیا اور تسلیم ہو گئے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اس پروردگار کی قسم جس نے مجھے بر حق مبعوث کیا اگر وہ [ عاقب و سید ] مباھلہ کر تے تو ان کے اوپر آسمان سے آگ برستی، جابر کہتے ہیں : یہ آیت [ تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم  ۔ ۔ ۔ ] اہل بیت پیامبر کے بارے میں نازل ہوئی، پھر جابر کہتے ہیں : انفسنا سے مراد رسول خدا [صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ] اور علی [ علیہ السلام ] ہیں اور ابناءنا سے مراد حسن و حسین [ علیھما السلام ] اور نساءنا سے مراد فاطمہ [ علیھا السلام ] ہیں ۔

الدر المنثور ، ج 2 ص 230، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

أخرج الحاكم وصححه عن جابر » أن وفد نجران أتوا النبي فقالوا : ما تقول في عيسي؟ فقال : هو روح الله ، وكلمته ، وعبد الله ، ورسوله ، قالوا له : هل لك أن نلاعنك أنه ليس كذلك؟ قال : وذاك أحب إليكم؟ قالوا : نعم . قال : فإذا شئتم . فجاء وجمع ولده الحسن والحسين ، فقال رئيسهم : لا تلاعنوا هذا الرجل فوالله لئن لاعنتموه ليخسفن بأحد الفريقين فجاؤوا فقالوا : يا أبا القاسم إنما أراد أن يلاعنك سفهاؤنا ، وإنا نحب أن تعفينا . قال قد أعفيتكم ثم قال : إن العذاب قد أظل نجران.

اپل نجران کا ایک گروہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : عیسی [ علیہ السلام ] کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ آنحضرت نے فرمایا : وہ روح خدا، کلمہ خدا، بندہ خدا اور رسول تھے۔ گروہ نجران نے کہا : ہم آپ سےمباھلہ کرنے کے لئے تیار ہیں کہ عیسی علیہ السلام ایسے نہیں تھے [ جیسے آپ کہ رہے ہیں ]، تو پیغمبر نے فرمایا : جیسا چاہو میں تیار ہوں، نصاراے نجران نے کہا : ٹھیک ہے، اس کے بعد آنحضرت نے مباھلہ کے لئے اہنے دونوں فرزند حسن و حسین [ علیھما السلام ] کو آمادہ کیا تاکہ مباھلہ کریں،لیکن نصارائے نجران نے مباھلہ کرنے سے انکار کردیا اور تسلیم ہو گئے ۔

الدر المنثور ، ج 2 ص 231، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

 

علامه حسكاني نے مذکورہ روایات کے علاوہ دوسری روایتیں تھو ڑ ے مضمون کے فرق کے ساتھ نقل کی ہیں جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے چونکہ سب کا مضمون ایک ہی ہے اس لئے ترجمہ کی ضرورت نہیں یے :

وأخرج أبو النعيم في الدلائل من طريق الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس أن وفد نجران من النصاري قدموا علي رسول الله صلي الله عليه وسلم وهم أربعة عشر رجلا من أشرافهم منهم السيد وهو الكبير والعاقب وهو الذي يكون بعده وصاحب رأيهم فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لهما : أسلما قالا : أسلمنا قال : ما أسلمتما قالا : بلي قد أسلمنا قبلك قال : كذبتما يمنعكم من الإسلام ثلاث فيكما : عبادتكما الصليب وأكلكما الخنزير وزعمكما أن لله ولدا ونزل ) إن مثل عيسي عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ( الآية) فلما قرأها عليهم قالوا : ما نعرف ما تقول ونزل ) فمن حاجك فيه من بعد ما جاءك من العلم ( يقول : من جادلك في أمر عيسي من بعد ما جاءك من العلم من القرآن ) فقل تعالوا ( إلي قوله ) ثم نبتهل ( يقول : نجتهد في الدعاء أن الذي جاء به محمد هو الحق وأن الذي يقولون هو الباطل فقال لهم : إن الله قد أمرني إن لم تقبلواهذا أن أباهلكم فقالوا : يا أبا القاسم بل نرجع فننظر في أمرنا ثم نأتيك فخلا بعضهم ببعض وتصادقوا فيما بينهم قال السيد للعاقب : قد والله علمتم أن الرجل نبي مرسل ولئن لاعنتموه إنه ليستأصلكم وما لاعن قوم قط نبيا فبقي كبيرهم ولا نبت صغيرهم فإن أنتم لم تتبعوه وأبيتم إلا إلف دينكم فوادعوه وارجعوا إلي بلادكم وقد كان رسول الله صلي الله عليه وسلم خرج ومعه علي والحسن والحسين وفاطمة فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم : إن أنا دعوت فأمنوا أنتم فأبوا أن يلاعنوه وصالحوه علي الجزية

الدر المنثور ، ج 2 ص231 - 232، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

وأخرج أبو نعيم في الدلائل من طريق عطاء والضحاك عن ابن عباس أن ثمانية من أساقف العرب من أهل نجران قدموا علي رسول الله صلي الله عليه وسلم منهم العاقب والسيد فأنزل الله ) فقل تعالوا ندع أبناءنا ( إلي قوله ) ثم نبتهل ( يريد ندع الله باللعنة علي الكاذب فقالوا : أخرنا ثلاثة أيام فذهبوا إلي بني قريظة والنضير وبني قينقاع فاستشاروهم فأشاروا عليهم أن يصالحوه ولا يلاعنوه وهو النبي الذي نجده في التوراة فصالحوا النبي صلي الله عليه وسلم علي ألف حلة في صفر وألف في رجب ودراهم.

الدر المنثور ، ج 2 ص 232، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

أخرج مسلم والترمذي وابن المنذر والحاكم والبيهقي في سننه عن سعد بن أبي وقاص قال : « لما نزلت هذه الآية { فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم } دعا رسول الله صلي الله عليه وسلم علياً ، وفاطمة ، وحسناً ، وحسيناً ، فقال » اللهم هؤلاء أهلي « » .

الدر المنثور ، ج 2 ص 232، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

وأخرج ابن جرير عن غلباء بن أحمر اليشكري قال « لما نزلت هذه الآية { فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم . . . } الآية . أرسل رسول الله صلي الله عليه وسلم إلي علي ، وفاطمة ، وابنيهما الحسن ، والحسين ، ودعا اليهود ليلاعنهم فقال شاب من اليهود : ويحكم أليس عهدكم بالأمس إخوانكم الذين مسخوا قردة وخنازير؟ لا تلاعنوا . فانتهوا »

الدر المنثور ، ج 2 ص 233، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

علي عليه السلام نَفسِ رسول خدا ہیں

قرآن کی ان آیات میں سے ایک آیت کہ جس سے علی علیہ السلام کی رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کےعلاوہ تمام نوع بنی انسانی پر فضیلت و برتری ثابت ہوتی ہے وہ آیہ مباھلہ ہے کیونکہ خدا وند عالم نے اس آیت میں علی علیہ السلام کو نفس پیامبر کہا ہے اور محدثین و مورخین کی روایات اور نظریات سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت میں انفسنا سے مراد علی علیہ السلام ہیں ۔

 ابن كثير نے لکھا ہے :

قال جابر: (أنفسنا وأنفسكم) رسول اللّه وعلي بن أبي طالب (وأبنائنا) الحسن والحسين (ونسائنا) فاطمة. وهكذا رواه الحاكم في مستدركه... ثمّ قال: صحيح علي شرط مسلم ولم يخرجاه.

جابر نے کہا ہے : أنفسنا و أنفسكم سے مراد رسول خدا [ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ] اور علی [علیہ السلام ] اور أبنائنا سے مراد حسن و حسین [ علیھما السلام ] اور نسائنا سے مراد فاطمہ [ علیھا السلام ] ہیں ۔

 اس روایت کو حاکم نے المستدرک میں نقل کی ہے اور کہا ہے : شرائط صحیح مسلم [ کتاب صحیح مسلم ]  کے مطابق یہ روایے صحیح ہے اگر چہ اس نے اور بخاری نے اسے نقل نہیں کیا ہے [ لیکن صحیح مسلم کے شرائط کے مطابق ہے ] ۔

  تفسير ابن كثير:1/379 ط. دار المعرفة ـ بيروت و1/370 ط مصطفي محمد بمصر، ورواه السيوطي قائلا: وصحّحه الحاكم. الدر المنثور: 2/39. هكذا الشوكاني في فتح القدير: 1/348.

زمخشري لکھتے ہیں :

وفيه دليل لا شئ أقوي منه علي فضل أصحاب الكساء عليهم السلام.

یہ آیت [ مباھلہ ] اصحاب کساء [علیھم السلام ] کی فضیلت و برتری پر سب سے قوی اور مضبوط دلیل ہے ۔

الكشاف: 1/370.

 محمد بن طلحه شافعي اس آیت میں حضرت زھرا علیھا السلام کی فضیلت کے ضمن میں لکھتے ہیں : یہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [ مباھلہ میں ] فاطمہ علیھا السلام کو کہ جنھیں آپ اپنی روح و جان کہتے تھے اپنے اور علی علیہ السلام  کے درمیان قرار دیتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت چاہتے تھے فاطمہ علیھا السلام ہر طرف سے محفوظ رہیں اور اس طریقہ سے ان کی شان و منزلت اور فضیلت ظاہر ہو چونکہ انفس کے ذریعہ حفاظت، ابناء کے ذریعہ حفاظت سے زیادہ ہے ۔

 مطالب السئول: 7.

ابن حجر هيتمي [ مشھور عالم اہل سنت ] کا کہنا ہے :

وأخرج الدارقطني أن عليا قال للستة الذين جعل عمر الأمر شوري بينهم كلاما طويلا من جملته أنشدكم بالله هل فيكم أحد قال له رسول الله صلي الله عليه وسلم ( يا علي أنت قسيم الجنة والنار يوم القيامة غيري قالوا اللهم لا ) .

  دارقطني نے روایت کی ہے کہ : علی [ علیہ السلام ] نے روز شورا [ سقیفہ میں ] حاضرین سے احتجاج کرتے ہوئے کہا : میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا ہے کہ جو مجھ سے زیادہ  نسبی اعتبار سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قریب ہو ؟ اور کیا کوئی شخص ہے کہ جس کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا نفس قرار دیا ہو اور اس کے بیٹوں کو اپنے بیٹے قرار دئے ہوں اور اس کی زوجہ کو اس کے شوھر جیسابلکہ اس سے بھی بھتر قرار دیا ہو ؟ حاضرین نے کہا :  نہیں، خدا کی قسم [ آپ کے علاوہ ایسا کوئی نہیں ہے ] ۔

الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة ، ج 2 ص 369، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي الوفاة: 973هـ ، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط.

 فخر رازي کا نظریہ

فخر رازي نے اپنےحسب ذیل نظریہ میں گویا حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے اور اپنی ہمیشگی عادت کے برخلاف کہ جو بات شیعہ اور ان کے عقائد کے حق میں ہو اس کی تنقید یا بہت تلاش و کوشش کے ساتھ اس کو رد کردیتے تھے لیکن اس مقام پر شیعوں کے حق بجانب نظریہ کےمقابل کوئی قابل قبول نظریہ نہیں رکھتے اور صرف اجماع سے استدلال کرتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی علی علیہ السلام کی پیدایش سے پہلے فضیلت و برتری بیان کرکے گزر جاتے ہیں اور کوئی مناسب جواب نہیں دیتے، وہ لکھتے ہیں :

المسألة الخامسة : كان في الري رجل يقال له : محمود بن الحسن الحمصي ، وكان معلم الاثني عشرية ، وكان يزعم أن علياً رضي الله عنه أفضل من جميع الأنبياء سوي محمد عليه السلام ، قال : والذي يدل عليه قوله تعالي : { وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ } وليس المراد بقوله { وَأَنفُسَنَا } نفس محمد صلي الله عليه وسلم لأن الإنسان لا يدعو نفسه بل المراد به غيره ، وأجمعوا علي أن ذلك الغير كان علي بن أبي طالب رضي الله عنه ، فدلت الآية علي أن نفس علي هي نفس محمد ، ولا يمكن أن يكون المراد منه ، أن هذه النفس هي عين تلك النفس ، فالمراد أن هذه النفس مثل تلك النفس ، وذلك يقتضي الاستواء في جميع الوجوه ، ترك العمل بهذا العموم في حق النبوة ، وفي حق الفضل لقيام الدلائل علي أن محمداً عليه السلام كان نبياً وما كان علي كذلك ، ولانعقاد الإجماع علي أن محمداً عليه السلام كان أفضل من علي رضي الله عنه ، فيبقي فيما وراءه معمولاً به ، ثم الإجماع دل علي أن محمداً عليه السلام كان أفضل من سائر الأنبياء عليهم السلام فيلزم أن يكون علي أفضل من سائر الأنبياء.

ر ے شھر میں محمود بن حسن حمصي نام کا ایک شخص تھا کہ جو شیعوں کا معلم تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ علی علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ تمام انبیاء سے افضل ہیں اس کی دلیل آیہ انفسنا تھی ۔ وہ کہتا تھا انفسنا سے مراد خود آنحضرت صلي الله عليه و آله و سلم نہیں ہو سکتے چونکہ انسان خود اپنے کو دعوت نہیں دے سکتا لہذا کوئی دوسرا مراد ہے اور تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس سے مراد علی رضی اللہ عنہ ہیں اس بنا پر آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفس علی [ علیہ السلام ] بعینہ نفس محمد صلیہ اللہ علیہ و آلہ و سلم یے، اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ نفس علی [ علیہ السلام ] عین نفس رسول [ صلی اللہ علیہ و آلن و سلم ] ہو، لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ نفس علی [ علیہ السلام ] نفس رسول [ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ] کی طرح ہے اور یہ ہر رخ سے رسول اور علی [ علیھما السلام ] کے درمیان برابری و مساوات کو بیان کرتی ہے لیکن نبوت و فضیلت کا مسئلہ اس عمومیت سے خارج ہے [ کہ دونوں برابر ہوں ] کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نبی تھے اور علی علیہ السلام نبی نہیں تھے نیز اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، علی علیہ السلام سے افضل ہیں اب رہے بقیہ فضائل تو اس میں دونوں بربر ہیں ، چونکہ اس بات پر  اجماع ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ و آلہ تمام انبیاء سے افضل ہیں لہذا علی علیہ السلام بھی تمام انبیاء سے افضل ہیں ۔

 التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب: ج 4 ص 241، اسم المؤلف: فخر الدين محمد بن عمر التميمي الرازي الشافعي الوفاة: 604 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1421هـ - 2000م ، الطبعة : الأولي

فخر رازی اس کےجواب میں کہتے ہیں :

 والجواب : أنه كما انعقد الإجماع بين المسلمين علي أن محمداً عليه السلام أفضل من علي ، فكذلك انعقد الإجماع بينهم قبل ظهور هذا الإنسان ، علي أن النبي أفضل ممن ليس بنبي ، وأجمعوا علي أن علياً رضي الله عنه ما كان نبياً ، فلزم القطع بأن ظاهر الآية كما أنه مخصوص في حق محمد صلي الله عليه وسلم ، فكذلك مخصوص في حق سائر الأنبياء عليهم السلام .

 اس استدلال کا جواب یہ ہے : جس طرح مسلمانوں کے درمیان اس بات پراجماع ہے کہ محمد صلي الله عليه و آله و سلم، علی [ علیہ السلام ] سے افضل ہیں اسی طرح اس بات پر بھی اجماع ہے کہ ہر نبی اس شخص سے افضل ہے کہ جو نبی نہیں ہے اور سب کا اس پر بھی اجماع ہے کہ علی رضي الله عنه نبی نہیں تھے لہذا آیت کا ظاہر اس بات کو بیان کرتا ہے کہ جس طرح محمد صلي الله عليه و آله و سلم، علی [ علیہ السلام ] سے افضل ہیں اسی طرح تمام انبیاء، علی سے افضل ہیں ۔

 التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب: ج 4 / ص 242 ، اسم المؤلف: فخر الدين محمد بن عمر التميمي الرازي الشافعي الوفاة: 604 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1421هـ - 2000م ، الطبعة : الأولي

 فخر رازي کے نظریہ پر تنقید

علامه مجاهد شيخ محمد حسن مظفر رحمه الله، فخر رازی کے نظریہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : آیت کی تفسیر کے ذیل میں رازی کے آراء و نظریات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اس نے علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پر افضلیت کو تسلیم کیا ہے کیونکہ اس نے شیخ محمود حمصی کے استدلال کو نقل کیا ہے کہ چونکہ علی [علیہ السلام ]  نفس رسول [ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ] ہیں اور رسول [ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ] تمام انبیاء سے افضل ہیں لہذا علی [ علیہ السلام ] بھی تمام انبیاء سے افضل ہیں نیز شیعوں سے نقل کیا ہے کہ وہ اسی آیت سے علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پر افضلیت ثابت  کرتے ہیں اور فخر رازی نے صرف پہلا مطلب [ یعنی علی علیہ السلام کی تمام انبیاء پر افضلیت ] رد کیا ہے اور علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پر افضلیت کو تسلیم کیا ہے اور دوسر ے مطلب کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے، لیکن یہ جو رازی دعوا کرتے ہیں کہ شیخ محمود حمصی کے وجود سے پہلے اجماع موجود تھا کہ تمام انبیاء دوسرے لوگوں سے افضل ہیں یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اجماع اس بات پر ہے کہ صنف انبیاء، دوسری صنف انسان سے افضل ہے اور ہر پیغمبر اپنی امت کے افراد سے افضل ہوتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہر پیغمبر، غیر پیغمبر سے افضل ہو، اگرچہ وہ غیر پیغمبر دوسری امت کے افراد میں سے ہو ۔ ۔ ۔ نیز امیر المومنین علی علیہ السلام کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ تمام انبیاء پر فضیلت و برتری شیخ محمود حمصی سے مخصوص نہیں ہے جو اس اجماع کے دعوی سے منافات رکھتی ہو جو فخر رازی نے کیا ہے بلکہ شیعہ حضرات، شیخ محمود حمصی کے وجود سے پہلے اور اس کے بعد بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور اس کے ثبوت میں آیہ مباھلہ اور دوسری آیات سے استدلال کرتے رہے ہیں ۔

 دلائل الصدق: 2/86.

علامه سيد شرف الدين بھی رازی کے نظریہ کو نقل کرنے بعد لکھتے ہیں : غور کریں، دیکھیں فخر رازی واضح طور پر آیت کی دلالت کو علی علیہ السلام کی افضلیت پر جانتے ہیں اور نادانستہ طور پر اس کے صحیح ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، فخر رازی نے جو کچھ گذشتہ اور حال میں شیعوں کے بارے میں نقل کیا ہے اس میں تعارض نہیں کیا ہے ، اس کا اعتراض صرف شیخ محمودبن حسن حمصی ہر ہے ، جبکہ جس اجماع کو رازی نے بہانہ بناکرحمصی پر حملہ کیا ہے وہ ایسی چیز ہے کہ جو محمود حمصی کے نزدیک نہ قابل قبول ہے اور نہ اس کے عقیدہ کے مطابق ہے ۔

 الكلمه الغراء: 5.

ج. آيه خير البرية

يكي ديگر از آياتي كه دليل بر برتري علي عليه السلام از همه افراد بشر از گذشته و آينده حتي پيامبران اولوا العزم عليهم السلام به جز خاتم انبيا صلي الله عليه و آله و سلم است اين آيه است : «ان الذين آمنوا وعملوا الصالحات اولئك هم خير البرية »

سوره البينه: 7.

( آنان كه ايمان آوردند و كارهاي شايسته كردند ، آنان بهترين آفريدگانند ) .

شأن نزول

شأن نزول آيات قرآن در بسياري از موارد كمك به فهم مراد و مقصود از آيه را دارد و در واقع پلي است براي عبور و ورود به گذشته تاريخ و زمان نزول، اما حكم و يا هر نكته ي ديگري كه به عنوان پيام در آيات وحي وجود دارد، در محدوده زمان و يا هر چيز ديگري محبوس و مدفون نمي شود، آيه مورد بحث نيز از جمله آياتي است كه مصداق خير البريه را به روشني بيان مي كند.

وأخرج ابن مردويه عن عائشة قالت : قلت يا رسول الله : من أكرم الخلق علي الله قال : يا عائشة أما تقرئين ) إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية (

وأخرج ابن عساكر عن جابر بن عبد الله قال كنا عند النبي صلي الله عليه وسلم فأقبل علي فقال النبي صلي الله عليه وسلم : والذي نفسي بيده إن هذا وشيعته لهم الفائزون يوم القيامة ونزلت ) إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية ( فكان أصحاب النبي صلي الله عليه وسلم إذا أقبل علي قالوا : جاء خير البرية

وأخرج ابن عدي وابن عساكر عن أبي سعيد مرفوعا : علي خير البرية

وأخرج ابن عدي عن ابن عباس قال : لما نزلت ) إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية ( قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لعلي : هو أنت وشيعتك يوم القيامة راضين مرضيين

وأخرج ابن مردويه عن علي قال : قال لي رسول الله صلي الله عليه وسلم : ألم تسمع قول الله : ) إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية ( أنت وشيعتك وموعدي وموعدكم الحوض إذا جئت الأمم للحساب تدعون غرا محجلين

أخرج ابن مردويه عن عائشة قالت : « قلت يا رسول الله : من أكرم الخلق علي الله؟ قال : » يا عائشة أما تقرئين { إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية } .

وأخرج ابن عساكر عن جابر بن عبد الله قال : « كنا عند النبي صلي الله عليه وسلم فأقبل عليّ فقال النبي صلي الله عليه وسلم : » والذي نفسي بيده إن هذا وشيعته لهم الفائزون يوم القيامة ، ونزلت { إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية } فكان أصحاب النبي صلي الله عليه وسلم إذا أقبل عليّ قالوا : جاء خير البرية .

عائشه مي گويد: از رسول خدا پرسيدم: گرامي ترين آفريده نزد خدا چه كسي است؟ فرمود: مگر اين آيه قرآن را نخوانده اي؟ { إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية }.

ابن عساكر از جابربن عبد الله روايت كرده است كه گفت : ما نزد پيامبر صلي الله عليه و آله و سلم بوديم كه علي از راه رسيد ، پيامبر صلي الله عليه و آله و سلم فرمود : سوگند به آن كه جانم به دست او است ، اين و شيعيان اويند كه در روز قيامت رستگارند . و اين آيه نازل شد : ان الذين آمنوا . . . و ياران رسول خدا هر گاه علي از راه مي رسيد مي گفتند : بهترين آفريدگان آمد ،

الدر المنثور ، ج 8، ص 589، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

وأخرج ابن عدي وابن عساكر عن أبي سعيد مرفوعاً : عليّ خير البرية .

وأخرج ابن عدي عن ابن عباس قال : « لما نزلت { إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية } قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لعلي : » هو أنت وشيعتك يوم القيامة راضين مرضيين « » .

وأخرج ابن مردويه عن عليّ قال : قال لي رسول الله صلي الله عليه وسلم : « ألم تسمع قول الله : { إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية } أنت وشيعتك وموعدي وموعدكم الحوض إذا جئت الأمم للحساب تدعون غرّاً محجلين » .

و نيز ابن عدي و ابن عساكر از ابو سعيد به سند مرفوع روايت كرده اند كه : علي بهترين آفريدگان است.

ابن عدي از ابن عباس روايت كرده كه گفت : چون آيه خير البريه نازل شد رسول خدا صلي الله عليه و آله و سلم به علي فرمود : اينان تو هستي و شيعيان تو كه در روز قيامت خشنود و پسنديده اند.

ابن مردويه از علي عليه السلام آورده است كه رسول خدا صلي الله عليه و آله و سلم فرمود : آيا اين آيه را نشنيده اي : ان الذين آمنوا . . . آنان تو و شيعيان تو هستند، قرارگاه من وتو وشيعيانت حوض كوثر است .

الدر المنثور ، ج 8، ص 589، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي الوفاة: 911 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1993.

طبري در تفسير آيه مي گويد:

قوله:( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ )

يقول تعالي ذكره: إن الذين آمنوا بالله ورسوله محمد، وعبدوا الله مخلصين له الدين حنفاء، وأقاموا الصلاة، وآتوا الزكاة، وأطاعوا الله فيما أمر ونهي( أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ) يقول: من فعل ذلك من الناس فهم خير البرية. وقد: حدثنا ابن حميد، قال: ثنا عيسي بن فرقد، عن أبي الجارود، عن محمد بن عليّ( أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ) فقال النبي صلي الله عليه وسلم: "أنْتَ يا عَلي وَشِيعَتُكَ".

خداي متعال مي فرمايد : آنان كه به خدا و رسولش محمد صلي الله عليه و آله و سلم ايمان آوردند و خدا را خالصانه و يگانه و بدون شريك پرستيدند ، و نماز را به پاداشتند و زكات دادند ، و خدا را در همه اوامر و نواهي او اطاعت نمودند ، آنانند كه بهترين آفريدگانند . مي گويد : از مردم آنان كه چنين كنند بهترين آفريدگانند .

ابن حميد از عيسي بن فرقد از ابوالجارود از محمدبن علي ( امام باقر عليه السلام ) مرا حديث كرد كه پيامبر صلي الله عليه و آله و سلم فرمود : اي علي ، خيرالبريه تو و شيعيان تو هستند .

جامع البيان عن تأويل آي القرآن ، ج 30 ص264، اسم المؤلف: محمد بن جرير بن يزيد بن خالد الطبري أبو جعفر الوفاة: 310 ، دار النشر : دار الفكر - بيروت - 1405.

علامة گنجي نقل مي كند:

أخبرنا إبراهيم بن بركات القرشي ، أخبرنا الحافظ علي بن الحسن الشافعي ، أخبرنا أبو القاسم بن السمرقندي ، أخبرنا عاصم بن الحسن ، أخبرنا الحافظ أبو العباس ، حدثنا محمد بن أحمد القطواني ، حدثنا إبراهيم بن الأنصاري ، حدثنا إبراهيم بن جعفر بن عبد الله بن محمد بن مسلمة عن أبي الزبير عن جابر بن عبد الله قال : كنا عند النبي صلي الله عليه وآله فأقبل علي بن أبي طالب فقال صلوات الله عليه : قد أتاكم أخي ثم التفت إلي الكعبة فضربها بيده ثم قال : والذي نفسي بيده ان هذا وشيعته هم الفائزون يوم القيامة ثم إنه أولكم ايمانا وأوفاكم بعهد الله وأقومكم بأمر الله وأعدلكم في الرعية وأقسمكم بالسوية وأعظمكم عند الله مزية قال : ونزلت : ( ان الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم خير البرية ).

جابربن عبد الله مي گويد: ما نزد پيامبر صلي الله عليه و آله و سلم بوديم كه علي بن ابي طالب عليه السلام از راه رسيد ، پيامبر صلي الله عليه و آله و سلم فرمود : برادرم نزد شما آمد . آن گاه رو به كعبه نمود و دست به آن زد و فرمود : سوگند به آن كه جانم به دست او است ، اين و شيعيان اويند كه در روز قيامت رستگارند ، او نخستين ايمان آورنده شما ، و وفادارترين شما به عهد خدا ، و قيام كننده ترين شما به امر خدا ، و عادل ترين شما در ميان رعيت ، و مساوي تقسيم كننده ترين شما ، و ارجمندترين شما در نزد خداست . آن گاه اين آيه نازل شد :ان الذين آمنوا ...

كفايه الطالب، طبع الغري: 118.

خير البرية كيست و چيست؟

ازميان دهها روايت پيرامون آيه خير البريه شماري از آن را ملاحظه نموديد كه با صراحت مصداق و فرد مورد نظر خداوند را معرفي مي كرد كه براي اهل فكر و تحقيق بايد كافي باشد و در نوع خود مشت تحريف گران و بد خواهان علي و فرزندان او را باز و رسوا مي كند و از سوئي بر تري آن امام همام را بر پيامبران، غير از رسول خاتم و منصب نبوت اثبات مي كند، چرا كه جمله «خير البريه» به معناي برترين آفريده است و صفتي است كه بدون شك از آغاز خلقت تا پايان نظام هستي را شامل مي شود واين افتخاري است كه نصيب علي بن ابوطالب عليه السلام شده است.

سيماي برتر علي عليه السلام در حديث

تصوير چهره ملكوتي امير مؤمنان علي عليه السلام و بازخواني سيماي معنوي و ومجسم ساختن زيبائيهاي رفتاري و عملي و گفتاري او از ميان هزاران سخن رسول گرامي اسلام نيازمند خلق و آفرينش كتابها است، اگر چه بزرگاني در گذشته و حال به اين مهم دست يازيده اند، احاديث و سخنان پيامبر اعظم، مربي و معلم امير مؤمنان علي عليه السلام در بيان شخصيت و فضائل آن حضرت از حد و اندازه خارج است، كه از بين اين روايات حديث ذيل را كه موافق و مخالف نقل كرده اند و سند گويائي است بر مدعاي ما و در حقيقت مكمل آيات پيشين و در وصف برتري امام علي عليه السلام بر تمام پيامبران غير از خاتم انبيا است، به تفسير و توضيح آن مي پردازيم.

«من أراد أن يري آدم في علمه ، ونوحاً في طاعته ، وإبراهيم في خلته ، وموسي في هيبته ، وعيسي في صفوته ، فلينظر إلي علي بن أبي طالب رضي الله عنه »

( هر كس به خواهد علم آدم ، طاعت نوح ، محبوبيت ابراهيم ، هيبت موسي و برگزيدگي عيسي را ببيند بايد به علي بن ابي طالب بنگرد ) .

قوله صلي الله عليه وآله وسلم : ( من أراد أن ينظر إلي نوح في عزمه ، والي آدم في علمه ، والي إبراهيم في حلمه ، والي موسي في فطنته ، والي عيسي في زهده ، فلينظر إلي علي بن أبي طالب ) . أخرجه البيهقي في صحيحه ، والإمام أحمد بن حنبل في مسنده ).

اين حديث را همانگونه كه در پايان حديث قبل مشاهده مي كنيد از دو تن محدث و نويسنده مشهور و صاحب آثار و تاليفات معتبر يعني احمد حنبل و بيهقي نقل كرده اند كه متاسفانه در چاپهاي فعلي ديده نمي شود و گويا دست تحريف اين حديث را نيز به سرنوشتي همانند تحريف و اسقاط ديگر احاديث و منقولات تاريخي در فضائل اهل بيت و علي عليهم السلام دچار كرده است.

ابن ابي الحديد معتزلي با اعتراف به ويژگيهاي برتر امير المؤمنين عليه السلام و بدون هيچ گونه شبهه اي اين حديث را با استناد به همان دو شخصيت نقل كرده است.

الخبر الرابع : من أراد أن ينظر إلي نوح في عزمه ، وإلي آدم في علمه ، وإلي إبراهيم في حلمه ، وإلي موسي في فطنته ، وإلي عيسي في زهده ، فلينظر إلي علي بن أبي طالب ' .

رواه أحمد بن حنبل في المسند ، ورواه أحمد البيهقي في صحيحه .

شرح نهج البلاغة ، اسم المؤلف: أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد بن أبي الحديد المدائني الوفاة: 655 هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - 1418هـ - 1998م ، الطبعة : الأولي ، ج 9 ص 100، تحقيق : محمد عبد الكريم النمري.

فخر رازي در ادامه داستان محمود حمصي كه در استدلال به آيه مباهله سخن وي را نقل كرديم مي گويد:

ويؤيد الاستدلال بهذه الآية ، الحديث المقبول عند الموافق والمخالف ، وهو قوله عليه السلام : ( من أراد أن يري آدم في علمه ، ونوحاً في طاعته ، وإبراهيم في خلته ، وموسي في هيبته ، وعيسي في صفوته ، فلينظر إلي علي بن أبي طالب رضي الله عنه ) فالحديث دل علي أنه اجتمع فيه ما كان متفرقاً فيهم ، وذلك يدل علي أن علياً رضي الله عنه أفضل من جميع الأنبياء سوي محمد صلي الله عليه وسلم...

در تأييد اين استدلال به آيه شريفه حديثي است كه مورد قبول موافق و مخالف است و آن سخن رسول خدا صلي الله عليه و آله و سلم است كه فرمود : ( هر كه مي خواهد به علم آدم ، طاعت نوح ، محبوبيت ابراهيم ، هيبت موسي و برگزيدگي عيسي بنگرد بايد به علي بن ابي طالب بنگرد ) . زيرا اين حديث دلالت دارد كه همه اين صفاتي كه در اين پيامبران به طور پراكنده موجود است يك جا در علي عليه السلام گرد آمده است ، و همين دليل است كه علي عليه السلام از همه پيامبران جز پيامبر ما صلي الله عليه و آله و سلم افضل است .

التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب ، ج 8 ص 72. اسم المؤلف: فخر الدين محمد بن عمر التميمي الرازي الشافعي الوفاة: 604 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1421هـ - 2000م ، الطبعة : الأولي

ابو حيان آندلسي صاحب تفسير البحر المحيط چاره اي نديده است جز اينكه اصل حديث را انكار و آن را از احاديث موضوعه معرفي كند، كه البته ديدگاه افرادي از اين قبيل كاملا روشن است، چون موضوع حديث بيان مناقب علي عليه السلام از زبان فرستاده خدا و پيامبر بزرگ الهي رسول خاتم است و آثاري از اين قبيل بايد محكوم به جعل و وضع گردد. وي مي گويد:

وأما الحديث الذي استدل به فموضوع لا أصل له . وهذه النزغة التي ذهب إليها هذا الحمصي من كون علي أفضل من الأنبياء عليهم السلام سوي محمد صلي الله عليه وسلم ) ، وتلقفها بعض من ينتحل كلام الصوفية ، ووسع المجال فيها ، فزعم أن الولي أفضل من النبي...هذه المقالة مخالفة لمقالات أهل الإسلام . نعوذ بالله من ذلك...

حديث برتري علي بر پيامبران جعلي و ساخته صوفي مسلكان است...فكر برتري وليّ برنبي با عقائد اسلامي سازگاري ندارد.

تفسير البحر المحيط: ج 2 ص 504 ، اسم المؤلف: محمد بن يوسف الشهير بأبي حيان الأندلسي الوفاة: 745هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت - 1422هـ -2001م ، الطبعة : الأولي ، تحقيق : الشيخ عادل أحمد عبد الموجود - الشيخ علي محمد معوض، شارك في التحقيق 1) د.زكريا عبد المجيد النوقي 2) د.أحمد النجولي الجمل

نويسنده و شارح كتاب «شرح احقاق الحق» مرحوم مرعشي، با تحقيقي عميق و مفصل به استخراج اين حديث با الفاظ متنوع آن از منابع روائي اهل سنت پرداخته است كه به دو حديث اكتفا نموده و به منابع ذكر شده از سوي ايشان اشاره مي كنيم:

الحديث الرابع والعشرون ( من أراد أن ينظر إلي آدم ، إلي نوح ، إلي إبراهيم ، إلي موسي ، إلي عيسي ، فلينظر إلي علي بن أبي طالب عليه السلام ) رواه جماعة من أعلام العامة في كتبهم : منهم العلامة المولوي ولي الله اللكنهوئي في ( مرآة المؤمنين في مناقب أهل بيت سيد المرسلين ) ( ص 35 ) قال : ( في حديث ) قال صلي الله عليه وسلم : من أراد أن ينظر إلي آدم في علمه وإلي نوح في تقواه وإلي إبراهيم في حلمه وإلي موسي في هيبته وإلي عيسي في عبادته فلينظر إلي علي بن أبي طالب .

(هر كس به خواهد علم آدم ، تقواي نوح ، بردباري ابراهيم ، هيبت موسي و عبادت عيسي را ببيند بايد به علي بن ابي طالب بنگرد ) .

سپس مرحوم مرعشي منابع متنوع و فراواني از بزرگان اهل سنت كه اين حديث را با مضامين متعدد نقل كرده اند نام مي برد كه در ذيل مشاهده مي فرمائيد:

علامة شهاب الدين أحمد حسيني شافعي شيرازي في ( توضيح الدلائل ) ( ص 232 نسخة مكتبة الملي بفارس )و علامة أبو حفص عمر بن محمد بن خضر ملا موصلي في ( الوسيلة) ( ص 168 ط حيدر آباد الدكن )، علامة شريف سيد حسين علي شاه بن سيد روشن علي شاه حسيني نقوي بخاري حنفي هندي، متوفي سنة 1322 في ( تحقيق الحقايق ، كلزار مرتضوي ، محبوب القلوب ) ( ص 9 ط لاهور )، علامة سيد أحمد بن محمد بن أحمد حسيني شافعي در ( التبر المذاب ) ( ص 33 نسخة مكتبتنا العامة بقم ). علامة جمال الدين محمد بن مكرم أنصاري جزرجي في ( مختصر تاريخ دمشق ) ( ج 17 ص 148 نسخة طوب قبوسراي بإسلامبول )، علامة يحيي بن موفق بالله شجري متوفي سنة 499 في ( الأمالي ) ( ج 1 ص 133 ) علامة شيخ حسام الدين مردي حنفي في ( آل محمد ) ( ص 424 نسخة مكتبة السيد الأشكوري ) علامة شريف أبو المعالي مرتضي محمد بن علي حسيني بغدادي في ( عيون الأخبار في مناقب الأخيار ) ( ص 26 نسخة مكتبة الفاتيكان ).

شرح احقاق الحق للمرعشي: 22/ 296 - 300.

علامه اميني نويسنده اثر گران سنگ و ماندگار «الغدير» نيز با نقل اين حديث از منابع گوناگون اهل سنت همچون مسند احمد و فضائل الصحابه بيهقي و مناقب خوارزمي و... گوشه اي از امتيازات و برتريهاي امر مؤمنان را اثبات و بر صحت حديث مُهر تاييد مي زند.

1 - أخرج إمام الحنابلة أحمد عن عبد الرزاق بإسناده المذكور بلفظ : من أراد أن ينظر إلي آدم في علمه ، وإلي نوح في فهمه ، وإلي إبراهيم في خلقه ، وإلي موسي في مناجاته ، وإلي عيسي في سنته ، وإلي محمد في تمامه وكماله ، فلينظر إلي هذا الرجل المقبل . فتطاول الناس فإذا هم بعلي بن أبي طالب كأنما ينقلع من صبب ، و ينحط من جبل.

و نيز برخي از مشاهير اهل سنت در آثار خويش با الفاظ مشابه و گاه با تغيير آن را نقل كرده اند كه از جمله آنان افراد ذيل است:

أبو بكر أحمد بن حسين بيهقي متوفاي 458 در ( فضايل الصحابة ).

حافظ أحمد بن محمد عاصمي در كتاب [ زين الفتي في شرح سورة هل أتي ].

خوارزمي مالكي متوفاي 568 در ( المناقب ) ص 49 (83ح 70). و ص 39 (88 ح 79).

أبو سالم كمال الدين محمد بن طلحة شافعي متوفاي 652 در ( مطالب السئول ) به نقل از كتاب ( فضايل الصحابة ) بيهقي.

عز الدين ابن أبي الحديد متوفاي 655 در ( شرح نهج البلاغة ) ج 2 ص 236 ودر ج 2 ص 449 به نقل از أحمد و بيهقي .

حافظ أبو عبد الله گنجي شافعي متوفاي 658 ، در ( كفاية الطالب ) ص 45 .

حافظ أبو عباس محب الدين طبري متوفاي 694 در ( الرياض النضرة ) 2 ص 218 .

شيخ الاسلام حموئي متوفاي 722 ، در ( فرايد السمطين )

قاضي عضد أيجي شافعي متوفاي 756 ، در ( المواقف ) ج 3 ص 276

تفتازاني شافعي متوفاي 792 في ( شرح المقاصد ) 2 ص 299.

ابن صباغ مالكي متوفاي 855 در ( الفصول المهمة ) ص 21 به نقل از [ فضايل الصحابة ] بيهقي.

سيد محمود آلوسي متوفاي 1270 در شرح عينية عبد الباقي عمري ص 27.

صفوري در ( نزهة المجالس ) 2 ص 240.»

سيد أحمد قادين خاني در ( هداية المرتاب ) ص 146 .

العلامه الاميني، الغدير: ج 30، ص 355- 360.

نتيجه و خلاصه

شهادت خداوند به پاكي و طهارت خاندان پيامبر اعظم و شخص امير مؤمنان علي بن ابوطالب عليه السلام و ملقب شدن به نفس رسول خدا كه برترين مقام معنوي براي آن حضرت است و حديث معروف (أشباه) كه در آن از ويژگيهاي بارز و ممتاز پيامبران بزرگي همچون آدم، نوح، موسي، عيسي، ابراهيم و...عليهم السلام، ياد شده و در آن فرد شايسته اي كه نمادي از اين امتيازات و ويژگيهاي بي مانند است معرفي مي شود، تمامي اين اوصاف و امتيازات گوياي برتري او بر همه آنان غير از رسول اعظم است.




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات