2024 March 28
کیا جناب ابوبكر اور عمر کو خلافت کی بشارت دی گئی تھی ؟
مندرجات: ١٨٥٦ تاریخ اشاعت: ٢٨ November ٢٠٢٢ - ٠١:١٠ مشاہدات: 3137
سوال و جواب » صحابہ
کیا جناب ابوبكر اور عمر کو خلافت کی بشارت دی گئی تھی ؟

سوال کی وضاحت  :

کیا شیعہ منابع میں پيغمبر اسلام صلي الله عليه و آله و سلم کی طرف سے  ابوبكر اور عمر کو خلافت کی بشارت کی بات نقل ہوئی ہے ؟

في تفسير القمي علي بن إبراهيم قبحه الله في سبب نزول قوله تعالي (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ) (التحريم:1) " أن رسول الله صلي الله عليه وآله كان في بعض بيوت نسائه وكانت مارية القبطية تكون معه تخدمه وكان ذات يوم في بيت حفصة فذهبت حفصة في حاجة لها فتناول رسول الله مارية ، فعلمت حفصة بذلك فغضبت وأقبلت علي رسول الله صلي الله عليه وآله وقالت يا رسول الله هذا في يومي وفي داري وعلي فراشي فاستحيا رسول الله منها ، فقال كفي فقد حرمت مارية علي نفسي ولا أطأها بعد هذا أبداً وأنا أفضي إليك سراً فان أنت أخبرت به فعليك لعنة الله والملائكة والناس أجمعين فقالت نعم ما هو ؟ فقال إن أبا بكر يلي الخلافة بعدي ثم من بعده أبوك ...الخ " تفسير القمي

تفسیر قمی میں آیا ہے کہ سورہ  التحريم کی آیات اس لئے نازل ہوئی ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سلم جناب عمر کی بیٹی حفصہ کے حجرے میں تھے اور اس وقت پیغمبر ص کی دوسری زوجہ ماریہ بھی وہاں تھی ۔حفصہ اس وجہ سے ناراض ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتراض کیا :آج میری باری تھی اور یہ کمرہ بھی میرا ہے اور یہ میرے بستر پر ۔۔؟ پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھوڑا شرمندہ ہوئے ۔ آپ  نے فرمایا : آرام سے رہو آج سے میں ماریہ کو اپنے اوپر حرام کرتا ہوں۔اور میں چاہتا ہوں کہ تجھے ایک مطلب کی خبر دوں ، لیکن اگر تو نے وہ راز کسی کو بتایا تو پھر تم پر اللہ اور اللہ کے ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو ۔حفصہ نے کہا : جی ٹھیک ہے ۔۔

اس کے بعد فرمایا : میرے بعد ابوبکر خلیفہ بنے گا اور اس کے بعد تیرا باپ خلیفہ بنے گا۔۔۔۔۔

حفصہ نے پوچھا : یہ خبر آپ کو کس نے دی ہے ؟ فرمایا : اللہ نے یہ خبر دی ہے ۔

جناب حفصہ نے اسی وقت یہ خبر جناب عائشہ کو بتائی اور پھر جناب عائشہ نے ابوبکر کو خبر بتائی اور ابوبکر، عمر کے پاس آیا اور کہا : عائشہ نے حفصہ سے اور حفصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک بات نقل کی ہے، میں تو اس  کو نہیں مانتا ، تو خود جاکر حفصہ سے پوچھو ۔عمر اپنی بیٹی کے پاس آیا اور خبر کے بارے میں سوال کیا ،حفصہ نے شروع میں انکار کیا لیکن بابا کی اصرار دیکھ کر اقرار کیا ۔

ہمارا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں  :

جو مطلب بیان ہوا وہ سورہ تحریم کی ابتدائی آیات کے بارے میں ہے لیکن مکتب اہل بیت کےدشمن اسی سے فائدۃ اٹھاتے ہیں اور شیعوں کے خلاف اس کو بعنوان سند پیش کرتے ہیں۔

اس نقل کی وضاحت کے لئے پہلے علی ابن ابراہیم قمی کی تفسیر کے بارے میں مختصر وضاحت کریں گے اور پھرمذکورہ مطلب کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کریں گے ۔

الف : اہل تحقیق اوراہل انصاف اس کتاب کے تمام مطالب کو دقیق چھان بین کرنے کے بعد  اس حقیقت کاادراک کریں گے کہ  اس کتاب کو ابتدا سے انتہا تک صرف علی ابن ابراھیم نے اپنے قلم سے نہیں لکھا ہے بلکہ انہوں نے اپنے شاگرد ابوالفضل عباس ابن محمد ابن قاسم ابن حمزہ ابن موسی ابن جعفر(ع)  کو املاء کیا ہے یوں اس کتاب کو لکھنے میں ان کے قلم کا بھی کردار ہے۔

جیساکہ اس کتاب کے بعض صفحات پر" رجع الی تفسیر علی ابن ابراہیم  یا رجع الی روایۃ علی ابن ابراہیم " جیسے  کلمات اس مطلب کو بیان کرتے ہیں کہ اس تفسیر میں اس کے شاگرد اور دوسرے لوگوں کی طرف سے کچھ مطالب کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ اسی طرح ابوجارود کا امام  باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے شاگرد اور لکھنے والے نے اس میں کچھ اضافات کیے ہیں ۔

 ب :  شیعہ محدثین اور علم رجال کے ماہرین علی ابن ابراہیم کو قابل اعتماد علماء میں سے قرار دیتے ہیں اور ان کی طرف سے نقل شدہ احادیث کو قبول کرتے ہیں اور حدیث نقل کرنے میں ان کی وثاقت کو اعلی درجے کی وثاقت جانتے ہیں۔

لہذا جو روایات اس کتاب میں خود علی ابن ابراہیم کا اپنا املاء ہو اس کو اکثر محدیثین اور رجال کے علماء نے قبول کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بزرگان میں سے بعض نے  اس کتاب کی بعض روایات کے بارے میں نقد و اعتراض بھی کیا ہے۔

ج : اس کتاب میں بعض ایسے مطالب ہیں  جو معصوم سے منسوب نہیں ہیں انہیں میں سے بعض  آیات اور سوروں کے شان نزول کا مسئلہ ہے ۔

اس قسم کی باتیں اس کتاب میں سند کے بغیر عام حالت میں نقل ہوئی ہیں۔ لہذا اس قسم کی  باتوں کو سو فیصد یقینی مطالب اور ایسے قابل قبول مطالب کے طور پر پیش نہیں کرسکتے کہ جو جرح و تعدیل اور نقد و تحقیق کے قواعد اور اصولوں سے  بغیر کسی مشکل کے گذری ہوں  اور پھر ان پر کسی قسم کی جرح کی و تعدیل کی گنجائش نہ ہو ۔

مندرجہ بالا مطالب کی روشنی میں جو سورہ تحریم کے مذکورہ شان نزول  سے استدلال کرتے ہیں ،ان کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہے کہ جو مطلب اس کتاب میں نقل ہوا ہے وہ کسی معصوم کا کلام  نہیں ہے بلکہ یہ بغیر سند کے ایک عام بات ہے کہ جس کو تفسیر کشاف کے مصنف نے بھی نقل کیا ہے :

روي " أن رسول الله صلي الله عليه وسلم خلا بمارية في يوم عائشة ، وعلمت بذلك حفصة فقال لها : اكتمي علي وقد حرمت مارية علي نفسي ، وأبشرك أن أبا بكر وعمر يملكان بعد أمر أمتي.

الكشاف عن حقائق التنزيل وعيون الأقاويل - الزمخشري - ج 4 - شرح ص 124 - 129

اہل سنت کے بعض علماء تفسیر قمی میں موجود مذکورہ شان نزول سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوبکر اور عمر کی خلافت کی بشارت دی ہے :

اس روایت پر چند اہم اعتراضات ہوتےہیں ۔

1 ـ یہ مرسل ہے  ؛ کیونکہ مرحوم قمی نے اس بات کی سند ذکر نہیں کی ہے تاکہ یہ دیکھا جساکے کہ مذکورہ سند صحیح یا نہیں ہے ۔

2 ـ معصوم سے منسوب  نہیں ہے:

اس شان نزول کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معصوم کا قول نہیں ہے بلکہ یہ صاحب تفسیر نے یا ن کے کسی شاگرد  کی طرف سے نقل شدہ شان نزول کے طور پر ذکر ہوا ہے ۔

3 . اس میں کسی قسم کی بشارت موجود نہیں ہے  :

مذکورہ شان نزول کے الفاظ میں کسی قسم کی بشارت اور خوشخبری موجود نہیں ہے{البتہ تفسیر کشاف کی روایت میں بشارت موجود ہے لیکن یہ اہل سنت کی کتاب ہے } بلكه یہاں پيغمبر اكرم (ص) حفصه سے فرما رہے ہیں کہ میں ایک سری بات تجھے بتا رہا ہوں : أنا أفضي إليك سرّاً» لہذا یہ  ایک سری اور غیبی خبر کی طرح ہے کہ جو بعد میں رونما ہوگی جیساکہ ایک خواب کے ضمن میں آپ نے بنی امیہ کی نحس حکومت کے بارے میں خبر دی تھی اور آپ اس خواب کی وجہ سے پریشان ہوئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

(وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ طُغْيَاناً كَبِيراً) .الإسراء: 60.

اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے ۔

امام قرطبي نے اپنی تفسير میں لکھا ہے :

قال سهل: إنّما هذه الرّؤيا هي أنّ رسول الله (ص) كان يري بني أميّة ينزون علي منبره نزو القردة فاغتمّ لذلك وما استجمع ضاحكا من يومئذ حتّي مات (ص) ، فنزلت هذه الآية مخبرة أنّ ذلك من تملّكهم وصعودهم يجعلها الله فتنة للنّاس وامتحانا .

تفسير القرطبيّ- ج 10 ص283_282

پیغمبر گرامي (ص) نے خواب دیکھا کہ بني اميه بندر کی طرح آپ کے منبر پر اچھل کود  رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ حالت دیکھ کر پریشان ہوئے اور آخری عمر تک مسکراہٹ آپ کے چہرے پر ظاہر نہیں ہوئی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور بنی امیہ کی بادشاہت کی خبر دی اور اللہ نے اس کو لوگوں کے لئے باعث فتنہ اور امتحان قرار دیا ۔

اور اسی طرح آپ نے یہ خبر دی کہ اسلامی حکومت ۳۰ سال کے بعد ایک ظالمانہ بادشاہت میں تبدیل ہوجائے گی۔ 

ابن حجر اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

أخرجه أحمد وأصحاب السّنن وصحّحه ابن حبّان وغيره من حديث سفينة أنّ النّبيّ (ص) قال الخلافة بعدي ثلاثون سنة ثمّ تصير ملكا عضوضا .

فتح الباري ابن حجر ج 8 ص61 .

أحمد بن حنبل ، صاحبان سنن اور  ابن حبان نے  صحيح سند کے ساتھ  نقل کیا ہے کہ پيغمبر اکرم صلي الله عليه و آله و سلم نے فرمایا : میرے بعد خلافت کی مدت ۳۰ سال ہوگی اور اس کے بعد یہ بادشاہت اور ڈیکٹیٹر شب حکومت  میں تبدیل ہوجائےگی.

لہذا اس فرض کے ساتھ کہ اس مذکورہ شان نزول کا مضمون صحیح ہو بھی تو یہ صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشین گوئی کو بتاتی ہے  کہ جو بعد میں رونما ہوگی  لہذا اس میں بشارت کا پہلوموجود نہیں ہے .

4. اگر یہ بشارت کی کوئی خبر ہوتی تو کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو علی الاعلان بیان نہیں فرمایا ؟

اگر ابوبكر وعمر کی خلافت حق ہوتی تو پيغمبر اکرم صلي الله عليه و آله و سلم کو چاہئے تھا کہ اس کو علی الاعلان بیان فرماتے۔ اس کو مخفیانہ طور پر بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔

5. اس روایت کے مطابق حفصہ، اللہ تعالیٰ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت کی مستحق قرار پائے گی یوں اس روایت کا مضمون اہل سنت کے علماء کے نظریے کے برخلاف نکلتاہے کیونکہ اس نقل کے مطابق  رسول اكرم صلي الله عليه و آله و سلم نے حفصہ سے فرمایا :   فإن أنت أخبرت به فعليك لعنة الله والملائكة والناس أجمعين .

اگر اس غیبی اور سری خبر کو فاش کیا تو تجھ پر اللہ ،ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہوگی ۔

کیا اہل سنت کے علماء  اس مضمون کو ام المومنین کی نسبت سے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟

6. ابوبکر کو عائشہ پر اعتماد نہیں :

جب یہ خبر ابوبکر تک پہنچی تو وہ  جناب عمر کے پاس گیا اور کہا :

إنّ عائشة أخبرتني عن حفصة بشئ ولا أثق بقولها، فاسأل أنت حفصة.

عائشه نے ایک خبر حفصه سے سنی ہے مجھے اس کی بات پر اطمنان نہیں آپ خود ہی حفصہ سے پوچھ لو ۔

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کو اپنی بیٹی پر اعتماد نہیں تھا  اور اس کو جھوٹی خبر  سمجھتا تھا ۔

 اب بات یہ ہے کہ ابوبکر اپنی بیٹی کو دوسروں سے بہتر نہیں جانتا ہے اور اس پر اعتماد نہیں کرتا ہے تو کیوں اہل سنت ان کی ساری روایات کو بغیر چون و چرا قبول کرتے ہیں ؟  

  جناب عمر حفصہ سے بھی اس خبر کے بارے میں پوچھتا ہے وہ بھی شروع میں انکار کرتی ہے اورکہتی ہے:ما قلت لها من ذلك شيئاً. میں نے عائشہ کو ایسی کوئی بات نہیں بتائی ہے ۔

 لیکن اصرار کے بعد وہ اقرار کرتی ہے : نعم قد قال رسول اللّه . ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے:

مذکورہ کلمات میں پہلے جناب حفصہ جناب عائشہ پر جھوٹ کا الزام لگاتی ہے اور پھر بعد میں خود ہی اسی چیز  کا اعتراف کرتی ہے ۔

 اب آپ خود ہی فیصلہ کریں اس روایت اور شان نزول کو قبول کرنا چاہئے یا نہیں۔۔۔؟

 کیا اہل سنت والے  اس مزکورہ شان نزول کے سارے مضامین کے ساتھ اس روایت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہے؟ جی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتراض ۔۔۔آپ کی طرف سے بغیر کسی دلیل کے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنا، جناب حفصہ کا مستحق لعن قرار پانا، ایک دوسرے کو جھتلانا وغیرہ شامل ہیں ۔۔

کیا اس مرسل روایت کو شیعوں کے لئے حجت قرار دئے کر اس کو الزامی جواب کے طور پر پیش کرنا صحیح ہے ؟ 

فیصلہ آپ خود ہی کریں ۔

لیکن مہربانی روایت کو اس کے سارے مضامنین کے ساتھ یا قبول کریں یا رد کریں  ۔۔ گزشتہ بیان {خاص کر اعتراض 3} کی روشنی میں اس روایت کو قبول بھی کرے تو ہمارے لئے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ۔ آب لوگ اپنے بارے میں فیصلہ کریں ۔۔۔

التماس دعا ۔۔۔

شبہات کے جواب دینے والی ٹیم : تحقيقاتي ادارہ  حضرت ولي عصر (عج)






Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات