2024 April 20
کیا نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے ؟؟
مندرجات: ١٨٦٩ تاریخ اشاعت: ٠٨ February ٢٠٢١ - ١٨:٢٢ مشاہدات: 3490
یاداشتیں » پبلک
نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا
کیا نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے ؟؟

 اعتراض: شیعہ دوسرے مسلمانوں کے بر خلاف کیوں نماز ترایح  سے غافل ہیں اور اسے جماعت سے نہیں پڑھتے؟

 
 مذکورہ مسالہ ایک جزئی فقہی مسالہ ہے۔ فقہی اور فرعی مباحث کے درمیان فتووں میں اختلاف  ایک طبیعی بات ہے اور یہ اختلاف فقط اہل سنت اور شیعوں کے درمیان نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ایسے مسائل ہیں جن میں اہل سنت کے چاروں مذاہب کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

لیکن بعض لوگ اس طرح کے جزئی اختلافات کو اچھال کر اس کوشش میں ہیں کہ شیعوں کو نماز اور اجماع امت کا مخالف قرار دیں۔ گذشتہ کچھ سالوں میں  جن مسائل کو لے کر شیعوں کے خلاف  جو پروپگنڈے ہوئے ہیں  ان میں سے ایک شیعوں کو نماز تراویح کی جماعت میں شرکت نہ کرنا ہے۔ اس بحث میں شیعوں کے نماز تراویح میں شرکت نہ کرنے کے دلائل، کچھ نکات کے ذیل میں بیان کئے جائیں گے۔

پہلا نکتہ:"تراویح" لفظ "ترویحہ" کی جمع ہے ، اس کو "راحۃ "سے لیا گیا ہے اور اس کے معنیٰ آرام و سکون کے ہیں۔ ترویحہ کے معنی آرام سے بیٹھنے کے ہیں۔ لیکن  اس لفظ کو  مبارک رمضان کی راتوں میں چار رکعت مستحبی نماز کے بعد بیٹھ کر آرام کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ نمازی چار رکعت مستحبی نماز پڑھ کر کچھ دیر آرام کرتے ہیں۔ اور جب یہ نماز بیس رکعت ہوجاتی ہے تو اسے تواریح کہتے ہیں۔

ابن منظور اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:"والترویحۃ فی شھر رمضان: سمیت بذالک لاستراحۃ القوم بعد کل اربع رکعات و فی الحدیث  صلاۃ التراویح لانھم کانوا  یستریحون بین کل تسلیمتین۔[1]

در حقیقت لغوی معنیٰ ایک تناسب سےشرعی معنیٰ کی طرف منتقل ہوئے ہیں اس طرح سے کہ اگر مسلمانوں کے سامنے اس لفظ کو بغیر کسی قرینہ کے بیان کیا جاتا ہے تو ان کا ذہن  ماہ رمضان کی مستحبی نمازوں کی طرف جاتا ہے۔

دوسرا نکتہ: ماہ رمضان کی راتوں کی مستحب نماز کے جائز ہونے کے سلسلہ میں تمام اسلامی مذاہب متفق ہیں۔ اور اس کی اصل کے بارے میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ شمس الدین سرخسی (فقیہ حنفی)اس کے بارے میں کہتے ہیں:"والامۃ اجمعت علی شریعتھا و جوازھا؛تمام مذاہب کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔

2]  لیکن نووی عالم شافعی کا کہنا ہے کہ  فقط اہل سنت کا اجماع ہے۔[3]

صاحب جواہر بھی ماہ رمضان کی مستحبی نمازوں کے بارے میں کہتے ہیں:روایات اور فتووں میں مشہور قول یہ ہے کہ یہ نماز مستحب ہے۔ بلکہ یہ مستحبات مشہور اصحاب کے درمیان نقل ہونے اور شہرت کے حصول کے لحاظ سے اس طرح سے ہیں کہ گویا اجماع کے قریب ہیں۔ کلی طور پر شیخ صدوق کے علاوہ اس کا کوئی مخالف نہیں ہے۔[4]

اس بنا پر نوافل ماہ رمضان کی مشروعیت کے سلسلہ میں فقہاء شیعہ اور اہل سنت کے درمیان  کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگرچہ شیعہ اسے نوافل اور اہل سنت تراویح کے عنوان سے جانتے ہیں۔

تیسرا نکتہ: اہل سنت کے درمیان ان مستحی نمازوں کی رکعات کے بارے میں اختلاف ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر ص کی کوئی واضح حدیث اس سلسلہ میں وارد نہیں ہوئی ہے۔

مشہور نے بیس رکعت کہا ہے   اور بعض  36 رکعت کہتے ہیں، اور بعض دوسرے 23 رکعت بتاتے ہیں ایک گروہ کا کہنا ہے کہ 16 رکعت ہے۔ ایک کا کہنا ہے 13 رکعت ہے بعض 24 رکعت ،  بعض 34  اور بعض نے 41 رکعت تک بیان کیا ہے ۔

ابن قدامہ (اہل سنت کے مشہور فقیہ) کہتے ہیں: ابو عبداللہ کے نظریہ کے مطابق ماہ رمضان کی نوافل بیس رکعت ہے۔ اسی قول کو ثوری، ابوحنیفہ اور شافعی نے بھی انتخاب کیا ہے۔ لیکن مالک کا ماننا ہے کہ 36 رکعت ہے ان کا کہنا ہے کہ قدیم زمانہ سے یہی رائج تھا  اور  انھوں نے دلیل کے طور پر اہل مدینہ کے عمل کی طرف نسبت دی ہے۔[5]

محمد بن نصر مروزی ان نمازوں کی رکعات کی تعدار کے بارے میں مختلف روایات کو ذکر کیا ہے جو سب کی سب  اس نماز کی مختلف تعداد کو بیان کرتی ہیں۔ان کے بقول پیغمبر ص کے زمانہ میں 8 رکعت تھی، عمر بن خطاب کے دور میں 11، 13، 20 یا 23 رکعت پڑھی جاتی تھی۔ اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں 15 سے 30 رکعت  اور ایک دوسری حدیث کی بنیاد پر 36 رکعت پڑھی جاتی تھی۔ اور دوسرے صحابا اور تابعین سے بھی اس نماز کی رکعات کو 16، 20، 24،28،36، 38، 39،  40 اور 41 رکعت نقل کیا گیا ہے۔ آخر میں وہ شافعی کا قول نقل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے مدینہ میں لوگوں کو 39 رکعت پڑھتے دیکھا  لیکن میرے نزدیک20 رکعت محبوب ہے۔اور مکہ میں بھی اسی طرح پڑھتے تھے اگرچہ اس سلسلسہ میں کسی بھی طرح کی کوئی محدودیت نہیں ہے کیونکہ یہ نماز  مستحب ہے۔[6]

  قسطانی کہتے ہیں: مشہور یہ ہے کہ نماز تراویح دس سلام اور 5 ترویحہ (استراحت) 20 رکعت ہے اس بناپر ہر  ترویحہ چار رکعت ہے دو سلام کے ساتھ نماز وتر کے علاوہ جو 3 رکعت ہے۔وہ عایشہ کے اس قول کے بارے میں (پیغمبر ص رمضان اور دوسرے مہینوں میں11 رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے) کہتے ہیں : اصحاب نے اس قول کو وتر پر حمل کیا ہے۔[7]

سرخسی کا کہنا ہے کہ میری نظر میں وتر کے علاوہ رمضان کی نافلہ 20 رکعت ہے۔ لیکن مالک کا کہنا ہے کہ سنت 36 رکعت ہے۔[8]

عبدالرحمٰن جزیری لکھتے ہیں:نماز تراویح کی رکعات کی تعداد فقط پیغمبر ص کے ذریعہ پڑھی گئی آٹھ رکعت پر محدود نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ بچی ہوئی نمازوں کو گھر پر مکمل کرتے تھے عمر کے عمل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ نماز 20 رکعت ہے کیونکہ عمر نے اپنی عمر کے آخری ایام میں  لوگوں کو بیس رکعت نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جمع کیا اور صحابا نے بھی ان کی تائید کی۔ لیکن عمر بن عبد العزیز کے دور میں اس نماز کی رکعات کی تعداد 36 رکعت ہوگئی۔اس تعداد کو اضافہ کرنے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اہل مدینہ فضیلت میں اہل مکہ کے برابر ہوجائیں۔کیونکہ اہل مکہ نماز تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔اس لئے عمر بن عبد العزیز نے ایک طواف کے بدلے نماز تراویح میں چار رکعت نماز کا اضافہ کردیا۔[9]

اس شدید اختلاف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نماز تراویح کی رکعات کی تعداد میں بہت زیادہ لوگوں نے دخالت کی ہے۔

چوتھا نکتہ: اہل سنت کے درمیان یہ قول مشہور ہے کہ نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے ۔ اور وہ کئی قرن سے اس پر عمل بھی کررہے ہیں اگرچہ ان کے درمیان بھی یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس نماز کو جماعت سے پڑھنا افضل ہے یا فرادیٰ؟

شافعی کا کہنا ہے کہ میرے نزدیک نماز تراویح کو فرادی پڑھنا بہتر ہے۔[10]

اس سلسلہ میں علماء شافعی کے بھی دو قول ہیں۔ ابوالعباس اور ابو اسحاق  اور اکثر شافعی حضرات کا کہنا ہے کہ نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔ [11]لیکن دوسرا گروہ  شافعی کی بات کا تابع ہے وہ دو شرطوں کے ساتھ نماز تراویح کے فرادیٰ پڑھنے کو جماعت کے ساتھ پڑھنے سے افضل مانتے ہیں

1)   اس شخص کے لئے جو قرآن کو حفظ کرتا ہو   اور اس کی وجہ سے کمزوری سے نہ ڈرتا ہو۔

2)   کسی کا نماز جماعت میں شرکت نہ کرنا جماعت میں اختلال کا باعث نہ ہو۔

اگر یہ شرطیں نہ پائی جاتی ہوں تو جماعت سے پڑھنا افضل ہے۔ [12]

نووی(اہل سنت کے عالم) کا کہنا ہے کہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ نماز تراویح مستحب ہے فقط اختلاف اس بات میں ہے کہ اس کو گھر میں فرادیٰ پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں جماعت کے ساتھ۔ شافعی اور ان کے زیادہ تر شاگردوں اور ابوحنیفہ  ، احمد  اور بعض مالکی علماء کا ماننا ہے کہ تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا  افضل ہے۔ اور عمر ابن خطاب اور صھابا نے بھی اسی طرح پڑھا ہے اور مسلمانوں کی سیرت بھی یہی رہی ہے۔ کیونکہ یہ عمل دینی مظاہر اور نماز عید سے مشابہ ہے21۔ لیکن مالک، ابویوسف اور بعض شافعی علماء کا نظریہ ہے کہ   نماز تراویح کو فرادیٰ  گھر میں پڑھنا افضل ہے، کیونکہ پیغمبر ص نے فرمایا ہے: "افضل الصلاۃ صلاۃ المرء فی بیرہ الا المکتوبۃ ؛ نماز واجب کے علاوہ انسان کی بہترین نماز   وہ نماز ہے جو فرادیٰ  گھر پر پڑھی جائے۔[13]

جیسا کہ ملاحظہ فرمایا، شیعوں کے علاوہ اہل سنت کے دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی نماز تراویح کے جماعت سے پڑھنے کے قائل نہیں ہیں اس لئے اس مسالہ میں شیعوں کو متہم کرنے کا کوئی تک نہیں ہے۔

پانچواں نکتہ:مذہب حق کے ماننے والوں کے لئے یہی کافی ہے کہ پیغمبر اسلام ص نے اس عمل کو کبھی انجام نہیں دیا ہے۔اگر اس نماز کو جماعت سے پڑھنا صحیح ہوتا تو پھر پیغمبر ص نے اپنی پوری زندگی میں اس عمل کو کیوں انجام نہیں دیا؟  یہی نکتہ اس عمل کے شرعی نہ ہونے کے لئے کافی ہے۔ اور اگر شیعہ نماز تراویح کی جماعت میں شرکت سے پرہیز کرتے ہیں تو یہ پیغمبر اسلام ص کی پیروی کی بنا پر ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کی کتب آحادیث میں فقط تین روایت نقل ہوئی ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ پیغمبر ص کے زمانہ میں یہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی گئی ہے۔

پہلی روایت:مسلم نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے: "احتجر رسول اللہ (ص) حجیرۃبخصفۃاو حصیر فخرج رسول اللہ (ص)یصلی فیھا، قال فتتبع الیہ رجال و جائوا یصلون بصلاتہ، قال ثم جائوا لیلۃ فحضروا و ابطا رسول اللہ (ص) عنھم، قال: فلم یخرج الیھم فرفعوا اصواتھم و حصبوا الباب، فخرج الیھم رسول اللہ مغضبا، فقال لھم رسول اللہ(ص): ما زال بکم صنیعکم حتی ظننت انہ سیکتب علیکم، فعلیکم بالصلاۃ فی بیوتکم۔ فان خیر صلاۃ المرء فی بیتہ الا الصلاۃ المکتوبۃ۔ رسول خدا ص نے کھجور کی ٹہنیوں یا چٹائی سے ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا اور اس کے اندر نماز پڑھنے کے لئے داخل ہوئے۔ بعض لوگ بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے کمرے میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد لوگ دوسری شب بھی آئے لیکن رسول ص نے آنے میں تاخیر کی اور نماز کے لئے حاضر نہیں ہوئے۔ جب لوگوں نے اس وضعیت کو دیکھا تو چلانے  اور آپ کا دروازہ  پیٹنے لگے۔ رسول خدا  (ص) غصہ کی حالت میں باہر نکلے اور فرمایا: تم اپنے کام پر اتنا زیادہ مصر ہو کہ میں سوچ رہا تھا کہ  بہت جلدی خدا کی جانب سے تم پر کوئی چیز واجب ہونے والی ہے۔ تم اپنے گھر پر نماز پڑھو اس لئے کہ واجب نماز کے علاوہ بہترین نماز وہ نماز ہے جو گھر پر پڑھی جائے۔[14]

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے اس نماز کو پیغمبر کی اجازت کے بغیر فقط ایک بار جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔اور جب دوسری رات دوبارہ اس نماز کو جماعت سے پڑھنے کے لئے آئے تو  رسول نے آنے میں تاخیر کی اور گھر سے باہر نہیں نکلے اس لئے وہ لوگ چیخنے چلانے اوردروازہ پیٹنے لگے رسول خدا غصہ کی حالت میں گھر سے باہر نکلے اور ان مطالب کو بیان فرمایا۔

دوسری روایت:بخاری نے عروہ ابن زبیر اور انھوں نے عایشہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ص نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی لوگوں نے آپ کی اقتداء کی، دوسری رات بھی نماز پڑھی تو بہت سے لوگ نماز کے لئے جمع ہوگئے ۔ تیسری اور چوتھی شب میں بھی لوگ نماز کے لئے مسجد میں جمع ہوئے لیکن پیغمبر ص گھر سے باہر نہیں نکلے جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: میں نے تمہارے عمل کو دیکھا  میرے گھر سے باہر نہ نکلنے کی کوئی وجہ نہیں تھی میں فقط اس ڈر سے باہر نہیں نکلا کہ کہیں یہ عمل تم پر واجب نہ ہوجائے۔ یہ واقعہ ماہ رمضان میں پیش آیا۔[15] اس حدیث کو مسلم نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے۔[16]

تیسری روایت: بخاری نے عروہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عایشہ نے انھیں خبر دی کہ رسول خدا ص رات کی تاریکی میں گھر سے مسجد کے لئے نکلے۔ اور آپ نے نماز پڑھی  بعض لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی  ۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں کے درمیان اس سلسلسہ میں باتیں ہوئیں دوسری شب نماز کے لئے زیادہ لوگ آئے اور انھوں نے رسول کی اقتداء کی۔ دوسرے دن جب صبح ہوئی تو یہ خبر اور زیادہ پھیل گئی اس لئے تیسرے دن لوگ بہت زیادہ تعداد میں پیغمبر ص کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے آئے۔چوتھی شب میں تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا کہ مسجد میں نمازیوں کے آنے کی جگہ ہی نہیں بچی۔ پیغمبر ص نماز صبح کے لئے مسجد میں آئے اور نماز صبح پڑھنے کے بعد لوگوں کی طرف رخ کیا اور خدا کی وحدانیت کی گواہی دینے کے بعدفرمایا:"اما بعد، فانہ لم یخف علی مکانکم ولکنی خشیت ان تفرض علیکم فتعجزوا عنھا؛ تمہارا یہاں آنا میرے لئے مخفی نہیں تھا  لیکن مجھے خوف اس بات کا تھا کہ کہیں یہ عمل تم لوگوں کے لئے واجب نہ ہوجائے اور تم اس کو انجام نہ دے سکو اس کے بعد رسول ص کی وفات گئی لیکن لوگوں نے اس عمل کو جاری رکھا۔[17]

اس حدیث کو  مسلم نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔[18] اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر ص اس کام سے راضی نہیں تھے۔

بیہقی نے ابوذر سے نقل کیا ہے  کہ ہم  نے رسول خدا کے ساتھ روزے رکھے  لیکن پیغمبر ص نے ہمارے ساتھ ماہ رمضان کی نوافل نہیں پڑھیں  یہاں تک کہ ماہ رمضان کی فقط سات راتیں بچیں اس وقت آپ نے رات کے ایک تہائی حصہ میں ہمارے ساتھ نماز پڑھی۔ اس کے بعد اپ نے تیسری رات میں ہمارے سات ان نمازوں کو پڑھا ۔ اور پانچویں رات کے کچھ حصہ میں  نماز پڑھی۔ ہم لوگوں نے آپپ سے عرض کی: یا رسول اللہ ص اگر ہم باقی راتوں میں بھی اسی طرح نماز پڑھیں تو اس کا کیا حکم ہے؟اگر کوئی شخص اس وقت تک امام کے ساتھ نماز پڑھے جب تک وہ پڑھ رہا ہے تو اس کے حساب میں پوری رات نماز پڑھنے کا  ثواب لکھا جائے گا۔ اس کے بعد آپ نے ان نمازوں کو ہمارے ساتھ نہیں پڑھا یہاں تک کہ ماہ رمضان کے تین دن بچے تھے۔ان تین راتوں میں آپ نے ہمارے ساتھ ان نمازوں کو پڑھا اور اپنے اہل خانہ کو بھی نماز کے لئے بلایا اور اتنی زیادہ نماز یں پڑھی کہ ہمیں یہ ڈر ہونے لگا  کہ کہیں صبح نہ ہوجائے۔

ان روایات کے مطابق پیغمبر ص فقط ماہ رمضان کی،24(بعض لوگوں کے قول کے مطابق 23)،26اور 27 تاریخ کو نماز تراویح کے لئے گھر سے باہر نکلے۔

نقد و بررسی روایات:

یہ   وہ روایات ہیں جو اس موضوع کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں۔ لیکن ان روایات کے مضمون سے نماز تراویح کے جماعت سے اقامہ  کرنے کے استحباب کو درج ذیل دلائل کی بنیاد پر  ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

1)   ان روایات کے درمیان (تعارض) اختلاف

ان روایات کے درمیان تین جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔

ا)ان روایتوں میں  ان راتوں کی تعداد کے سلسلہ میں اختلاف ہے جن راتوں میں پیغمبر ص نماز تراویح کو جماعت سے پڑھا ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کہ اس واقعہ کے راویوں نے واقعیت کو دقیق طور پر نقل نہیں کیا ہے۔

2)ان روایات میں راتوں کی ترتیب میں اختلاف ہے؛  کیونکہ صحیح بخاری کی نقل کے مطابق  جن راتوں میں پیغمبر ص نے نماز تراویح  کو جماعت سے پڑھا وہ پے درپے ہیں۔ لیکن جناب ابوذر کی روایت کے مطابق وہ راتیں پے در پے نہیں تھی۔

3)ان روایات میں ان راتوں کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے۔ اکثر روایات سے جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر ص نے نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ ماہ رمضان کی ابتدا میں پڑھا ہے جبکہ جناب ابوذر کی روایت میں صراحت کے ساتھ نقل ہے کہ  حضور ص نے ماہ رمضان کے آخری دسویں میں اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھا  ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان آحادیث کے مضمون پر کیسے اطمینان کیا جاسکتا ہے؟

2)   تشریع احکام کا لوگوں کی رغبت سے وابستہ نہ ہونا

پیغمبر اسلام ص کا یہ قول: ("۔۔ ۔ ولکنی خشیت ان تفرض علیکم فتعجزوا عنھا؛ میں ڈر گیا کہ کہیں یہ عمل تم لوگوں پر واجب نہ ہوجائے اور تم اس کو انجام نہ دے سکو ۔)اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ  حکم شرعی کا تشریع ہونا لوگوں کےاس عمل کے بنسبت  استقبال کرنے یا نہ کرنے کا تابع ہے۔ اس قول کے معنی یہ ہیں کہ اگر لوگ کسی عمل کی طرف مائل ہونگے تو ممکن ہے وہ واجب ہوجائے جبکہ احکام شرعی کی ایجادلوگوں کے مائل ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں نہیں ہے  بلکہ یہ واقعی ملاکات کا تابع ہے ۔

3)   ان روایات کا دوسری روایات سے سازگار نہ ہونا

صاحبان صحاح (صحاح ستہ) اور سنن نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ شب معرج پیغمبر اکرم ص پر پچاس نمازیں واجب کی گئیں۔اس کے بعد ان کو کم کیا گیا تو کم ہوکر فقط پانچ بچی ۔ اس وقت آواز آئی ای محمد یہ حکم تبدیل نہیں ہوگا اور اپ کے لئے انھیں پانچ نمازوں میں پچاس نمازوں کا ثواب ہے۔[19]

عسقلانی کہتے ہیں کہ خطابی نے  اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ پیغمبر ص نماز تراویح کے واجب ہونے سے ڈرتے تھے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث اسراء (حدیث معراج) میں نقل ہے کہ واجب نمازیں پچاس تھیں جو  پانچ میں تبدیل  ہوگئیں اور یہ حکم نہیں بدلے گا؛ اس بنا پر جب نماز کی تعداد میں تبدیلی نہیں ہوگی تو پھر نما زکی تعداد میں اضافہ کا خو ف کیسے ممکن ہے۔ [20] قسطانی نے بھی "ارشاد الساری" میں صاحب "شرح التقریب" سے اس مسالہ کے سلسلہ میں بعض توجیہ پیش کی ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشکل مسالہ ہے اور کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جس نے اس کے راز سے پردہ ہٹایا ہو۔[21]

اگر ان روایات کے مضمون کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی ان روایات کی دلالت نمازتراویح کی جماعت  کے سلسلہ میں اتنی ہی مقدار پر ہوگی جتنی پیغمبر ص کے زمانہ میں پڑھی گئی ہے۔یعنی 8 رکعت جائز ہے۔ جبکہ اہل سنت نے اس عمل کی تشریع کو تمام رکعت میں اضافہ کردیا ہے۔ اور وہ تمام رکعات میں جماعت کو جائز مانتے ہیں۔

چھٹا نکتہ: صحیح روایات کی بنیاد پر پیغمبر ص اور خلیفہ اول کے زمانہ میں اور خلیفہ اول کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ماہ رمضان کی نوافل کے لئے جماعت قائم نہیں ہوئی۔ بلکہ مسلمان اس نماز کو اپنے گھروں یا مسجدوں میں فرادیٰ   پڑھتے تھے۔ لیکن خلیفہ دوم کی خلافت کے دو سال بعد  انھوں نے یہ فیصلہ لیا کہ تمام نمازیوں کو جمع کرکے اس نماز کو ایک امام کے ساتھ پڑھا جائ۔ مسلم اور بخاری نے جو روایتیں اس سلسلہ میں نقل کی ہیں وہ اس بات کی تائید کرتی ہیں۔

بخاری نے نقل کیا ہے کہ ابن شہاب کا  کہنا ہے:رسول خدا ص کی رحلت اور ابوبکر کی خلافت کے بعد ،عمر کی خلافت کی ابتداء میں لوگوں کو رویہ ایسا ہی تھا[22]

مسلم نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔[23]

اس حدیث کی شرح کرنے والوں نے اس جملہ "رسول خدا ص کی رحلت اور ابوبکر کی خلافت کے بعد ،عمر کی خلافت کی ابتداء میں لوگوں کو رویہ ایسا ہی تھا" کی تفسیر  اس طرح سے کی ہے  کہ مسلمان ان  دور میں اس نماز کو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے تھےاور رسول خدا ص لوگوں کو اس نماز کو جماعت سے پڑھنے کے لئے جمع نہیں کرتے تھے۔[24]

قسطانی نے بھی کہا ہے:یہ جملہ" لوگ اس طرح سے عمل کرتے تھے؛ یعنی نماز تراویح کو جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے تھے۔اور حضرت ابوبکر کے زمانہ میں بھی یہی طریقہ رائج تھا۔[25]

 نووی نے بھی مذکورہ جملہ کی تفسیر اس طرح سے کی  ہے: یہ عبارت " پیغمبر ص کی وفات کے بعد بھی لوگ اسی طرح سے عمل کرتے تھے؛ یعنی رسول خدا ص کی زندگی میں ہر شخص نوافل رمضان کو  اپنے گھروں پر فرادیٰ پڑھتے تھے۔لیکن حضرت عمر نے اپنی خلافت کے کچھ دن گزرنے کے بعد لوگوں کو جمع کیا اور اس نماز کو ابی بن کعب کی اقتداء میں پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد سے لوگ اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔[26]

نووی نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے بھی نقل کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان کی ایک رات ہم خلیفہ دوم کے ساتھ گھر سے باہر نکلے اور مسجد گئے ہم نے دیکھا بعض لوگ نوافل رمضان کو فرادیٰ پڑھ رہے تھے اور بعض ایک شخص کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ عمر نے کہا: میری نظر میں اگر لوگ ایک امام کی اقتداء کرتے تو بہتر تھا ۔ اس کے بعد آپ نے فیصلہ کیا کہ لوگوں کو ابی بن کعب کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جمع کرے۔ دوسری رات ہم پھر ان کے ساتھ گھر سے مسجد گئے تو دیکھا کہ لوگ نماز تراویح کو ابی بن کعب کی اقتداء میں پڑھ رہے ہیں۔ اس وقت عمر نے کہا: "نعمت البدعۃ ھٰذہ؛ یہ کام کتنی اچھی بدعت ہے۔ جو نماز سونے کے بعد پڑھتے ہیں بہتر ہے اسے سونے سے پہلے پڑھیں  عمر کی مراد یہ تھی کہ بہتر یہ ہے کہ اس نماز کو شب کے آخری حصہ میں پڑھنے کے بجائے رات کے پہلے حصہ میں پڑھا جائے۔[27]

یہ عبارت "کتنی اچھی بدعت ہے" سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ  یہ نماز خلیفہ دوم کی ایجاد کردہ   بدعتوں میں سے ایک بدعت ہے۔ اور شریعت سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے۔ بعض علماء نے اس کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

قسطانی (اہل سنت عالم) کہتے ہیں کہ اس نماز کو عمر نے بدعت کہا کیونکہ پیغمبر ص نے اپنے زمانی میں اس کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اسی طرح ابوبکر کے دور میں بھی  جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتی تھی ۔ اور نہ ہی یہ نماز رات کے پہلے حصہ میں تھی اور پوری رات بھی نہیں پڑھی جاتی تھی اور نماز کی رکعات کی تعداد بھی اتنی نہیں تھی ۔[28]

عینی نے بھی کہا ہے اس نماز کو عمر نے بدعت کہا کیونکہ پیغمبر ص نے اس کے جائز ہونے کا حکم نہیں دیا ۔ اسی طرح ابوبکر کے دور میں بھی یہ کام انجام نہیں پایا ۔  کیونکہ پیغمبر ص  کبھی مائل ہی نہیں تھے کہ اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھا جائے۔[29]

ابن قدامہ نے کہا ہے کہ تراویح کی نسبت عمر کی طرف دی گئی ہے کیونکہ اسی نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس نماز کو ابی بن کعب کی اقتداء میں جماعت کے ساتھ پڑھیں ۔ اور لوگ ایسا کرنے لگے۔[30]

ابن سعد، طبری اور ابن اثیر نے کہا ہے کہ یہ واقعہ سن 14 میں ہوا جب لوگوں کے لئے امام جماعت کو معین کیا گیا۔ایک امام مرردوں کے لئے اور ایک خواتین کے لئے۔[31]

ابن التین، ابن عبدالبر، کحلانی اور زرقانی نے بھی اسی مطلب کو بیان کیا ہے: کحلانی نے عمر کے اس قول "یہ اچھی بدعت ہے؛ کے بارے میں کہا ہے: بدعت کبھی بھی اچھی نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ گبراہی اور ضلالت ہوتی ہے۔[32]

ابن سعد نے عمر کی سیرت میں لکھا ہے:عمر پہلےشخص تھے جنھوں  نے نماز تراویح کو رائج کیااور لوگوں کو اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا   اور اس حکم کو اسلامی مملکت کے تما م حصوں میں بھیجا ۔یہ واقعہ چودھویں ہجری میں رونما ہوا۔[33]

ابن عبد البر نے عمر کی حالات زندگی میں لکھا ہے عمر وہ پہلا شخص ہے جس نے ماہ مبارک رمضان کی نمازوں کو جماعت کے ساتھ منور کیا۔[34]

ولید بن شحنہ تیئسویں ہجری کے واقعات کے ضمن میں عمر کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے ام ولد کی خرید و فروخت پر روک لگائی ۔ اور پہلے شخص تھے جنھوں نے لوگوں کو نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کے لئے جمع کیا۔[35]

یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جب کسی بھی شخص یہاں تک کہ رسول خدا ص کو  کسی بھی احکام شرعی کو وضع کرنے کا حق نہیں ہے اور اگر وہ بھی کسی حکم کو بیان کرتے ہیں تو  وہ خدا کی جانب سے ابلاغ کرتے ہیں تو کیا ایسی صورت میں خلیفہ کا کسی حکم کو وضع کرنا اس کی مشروعیت کے لئے کافی ہے؟

شیعوں کے عقیدہ کے مطابق  جو احکام پروردگار نے تشریع کیا ہیں وہ وحی کے ذریعہ پیغمبر ص تک پہونچے ہیں اور فقط پیغمبر ص کی ذات ہے جو وحی الہی کی حامل تھی  آپ کی رحلت کے بعد وحی اور حکم شرعی کو  وضع کرنے کا باب بند ہوگیا لھٰذا شریعت کے کامل ہوجانے کے بعد کوئی بھی احکام الہی میں دخالت کا حق نہیں رکھتا۔

شوکانی اس سلسلہ میں کہتے ہیں: حق یہ ہے کہ صحابی کا قول حجت نہیں ہے؛ کیونکہ پروردگار  نے پیغمبر ص کے علاوہ کسی کو بھی اس امت کے لئے نہیں بھیجا ہے صحابا اور دیگر افراد کا وظیفہ ہے کہ ان کی شریعت، کتا ب اور سنت کی پیروی کریں  اور اگر کوئی یہ کہے کہ دین خدا میں کتاب و سنت کے علاوہ بھی دوسری چیزوں سے دلیل قائم کی جاسکتی ہے  تو اس نے دین کے بارے میں ایسی بات کو کہا ہے جو ثابت نہیں ہوئی ہے اور اس نے ایسی شریعت کو ثابت کیا ہے جس کا خدا نے حکم ہی نہیں دیا ہے ۔[36]

نتیجہ:

اس پوری بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ  شیعہ حضرات ماہ رمضان کی نوافل کی فضیلت اور اس کی مشروعیت کا انکار نہیں کرتے۔ بلکہ جس چیز کا انکار کرتے ہیں وہ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنا ہے۔ جیسا کہ بعض اہل سنت علماء من جملہ شافعی اس نماز کو جماعت سے پڑھنا مکروہ سمجھتے ہیں اور بعض اس نماز کو  گھر پر فرادیٰ پڑھنا مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنے سے بہتر سمجھتے ہیں۔

اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ شیعہ اس بات پر اعتقاد رکھتے ہوئے کہ کسی بھی  شرعی حکم کو نافذ کرنے کا اختیار فقط پروردگار متعال کو ہے اور پیغمبر ص اس کے مبلغ ہیں، اس طرح کی نماز جماعت میں شرکت کو مشروع نہیں سمجھتے کیونکہ یہ بات پیغمبر ص کی کسی بھی روایت سے ثابت نہیں ہوتی۔ اور روایات کے مطابق خود جنھوں نے اس کا حکم دیا ہے انھوں نے خود اسے بدعت کہا ہے۔ اور بدعت کی پیروی نہیں کی جاسکتی چاہے وہ بدعت ممدوح ہی کیوں نہ ہو کیونکہ نام بدلنے سے  حقیقت نہیں بدلتی۔

 تحریر :۔۔۔۔ استاد رستمی نژاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔           ترجمہ ۔۔۔ اعجاز حیدر ۔۔سید میثم

 

 

1]۔ لسان العرب، ج 2 ص 462  

[2] ۔ المبسوط، ج 2، ص 131۔

[3] ۔ المجموع شرح المھذب، ج 4،ص 31۔

[4] ۔ جواھر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، ص 182۔

[5] ۔ المغنی، ج 2؛ ص 123۔

[6] ۔ قیام رمضان، س 51۔57ز

[7] ۔ ارشاد الساری، ج 3، ص 426۔

[8] ۔المبسوط، ج 2؛ ص131۔

[9] ،الفقہ علی المذاھب الاربع، ج 1؛ ص 310؛

[10] ۔ المجموع شرح المھذب، ج4 ، ص 5۔

[11] ۔ المجموع شرح المھذب، ج4 ، ص 32۔

[12] ۔ المجموع شرح المھذب، ج4 ، ص31۔

[13] ۔ المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، 6 ص 39۔

[14] ۔ صحیح مسلم، ج 1 ص 539۔

[15] ۔ صحیح بخاری، ج2؛ ص 50۔س

[16] ۔ صحیح مسلم؛ ج 1؛ ص 524۔

 

 
 
 

[17] ۔ صحیح  بخاری، ج 2؛ ص 50۔

[18] ۔صحیح مسلم، ج 1، ص 524۔

[19] ۔ سنن الترمزی، ج 1، ص 289، صحیح بخاری، ج 1، ص 78۔

[20] ۔ فتح الباری، ج 3، ص 13۔

[21] ۔ ارشاد الساری، ج3، ص 428۔

[22] ۔ صحیح بخاری، ج3، ص 44۔

[23] ۔ صحیح مسلم، ج 1، ص 523۔

[24] ۔ فتح الباری، ج 4، ص 252۔

[25] ۔ ارشاد الساری، ج 3؛ ص 425۔

[26] ۔ المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ج 6، ص 40۔

[27] ۔ صحیح بخاری، ج 3؛ ص 45

[28] ۔ ارشاد الساری، ج 3، ص 426۔

[29] ۔ عمدۃ القاری، ج 11، ص 126۔

[30] ۔ المغنی، ج 2، ص 122۔

[31] ۔ الطبقات الکبریٰ، ج 3، ص 281؛ تاریخ الامم والمملوک، ج4، ص 209؛ الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 59

[32] ۔ سبل الاسلام،  ج 2، ص 10۔

[33] ۔ الطبقات الکبریٰ، ج 3، ص281۔

[34] ۔ الاستیعاب، ج3، ص1145۔

[35] ۔ روض المناظر فی علم الاوائل و الاواخر، ص 109۔ النص والاجتھاد، ص 252

[36] ۔ ارشاد الفحول، ج 2 ص  188۔ 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی