2024 April 26
کیا توسل شرک ہے ؟
مندرجات: ١٨٧٤ تاریخ اشاعت: ١٤ February ٢٠٢١ - ٠٨:٤٨ مشاہدات: 2975
یاداشتیں » پبلک
کیا توسل شرک ہے ؟

 

اعتراض:

توسل الی اللہ صرف اعمال صالحہ کے ذریعے جائز ہے لیکن شیعہ مادی اور معنوی مشکلات کے حل کے لیے اشخاص سے متوسل ہوتے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جسے مکہ کے مشرکین انجام دیتے تھے اور خدا نے قرآن میں  انہیں ان کاموں سے منع کیا ہے ۔خدا مکہ کے مشرکین سے جو فرشتوں یا بتوں کی پوجا کرتے تھے نقل کرتا ہے:

 ما نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونا إِلَى اللَّهِ زُلْفى‏، (ان کا کہنا ہے کہ) ہم انہیں صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔


[1]

وَ أَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَد، اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو![2]

 وَ الَّذينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لا يَسْتَجيبُونَ لَهُمْ بِشَيْ‏ءٍ، اور وہ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہیں وہ انہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔[3]

شیعہ اپنے اماموں کے قبر کے کنارے  جو کام کرتے ہیں عصر جاہلیت کے جاہلانہ کاموں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

تحلیل اور جائزہ

توسل کا موضوع  ایسا ہے جس پر وہابیت نے وسیع انداز میں اعتراضات کیے ہیں۔ ان میں سے ہر اعتراض ایک چھوٹے اعتراض میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر اعتراض کا الگ جواب دیا گیا ہے۔ اس باب میں چند بنیادی نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف بنیادی اعتراض کا جواب دیا جائے گا:

پہلا نکتہ:

لغت میں توسل سے مراد "وسیلہ کا انتخاب" ہے۔ وسیلہ ایسی چیز ہے جس کی مدد سے انسان کسی مقصد یا کسی چیز تک پہنچتا ہے یا اس کے قریب ہوجاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وسیلہ عمل ہو یا فعل، ذات ہو یا شخص۔

جوہری  صحاح میں "وسل" کے لفظ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

"توسل الیہ بوسیلۃ ای تقرب الیہ بعمل ، اس سے کسی ذریعہ سے متوسل ہوا یعنی کسی عمل کے ذریعے کسی سے قریب ہوا۔ نیز لکھتے ہیں: "الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر، وسیلہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان کسی دوسرے کے قریب ہوجاتا ہے۔[4]

لسان العرب میں بیان ہوا ہے: " توسل الیہ بکذا، تقرب الیہ بحرمۃ آصرۃ تعطفہ علیہ، کسی چیز کے وسیلے کسی سے متوسل ہوا، کسی کی شان اور احترام کے خاطر جو دوسرے کو مجذوب کرتا ہے اس کے قریب ہوا"[5] ان جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ"وسیلہ تقرب" کا معنی بہت وسیع ہے۔ لہذا"وسیلہ تقرب" انسانی اعمال ہوسکتا ہےیا انسانی ذات بھی ہوسکتی ہے۔ لہذا توسل لغوی اعتبار سے صرف اعمال میں منحصر نہیں ہے بلکہ اشخکو بھی شامل ہوتا ہے۔

دوسرا نکتہ:  "وسیلہ" کا لفظ قرآن میں دوبار استعمال ہوا ہے۔ ایک سورہ مائدہ میں جہاں فرماتا ہے:

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ، اسے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا) ذریعہ تلاش کرو۔[6]

آیت مطلق ہےاور ہر قسم کے وسیلہ تقرب کو شامل ہوتی ہے۔ چاہے اعمال کے واسطے متوسل ہوں یا مقدس انسانوں کی ذات سے متوسل ہوں۔[7]

دوسری بار سورہ اسراء میں یہ لفظ آیا ہے: اس سورت میں پہلے خدا فرماتا ہے:

قُلِ ادْعُوا الَّذينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لا تَحْويلاً، ۔کہدیجئے:جنہیں تم اللہ کے سوا (اپنا معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، پس وہ تم سے نہ کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ ـ(ہی اسے) بدل سکتے ہیں۔[8]

(قُلِ ادْعُوا الَّذينَ) کے جملے میں(الذین) کے لفظ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں صاحب عقل و شعور معبود مراد ہے۔ کیونکہ(الذین) عاقل افراد کے لیے استعمال ہونے والا اسم موصول ہے۔ لہذا اس جملے میں ( وہ جن کو پوجتے ہیں) سے مراد بت وغیرہ نہیں ہے بلکہ یہاں فرشتے یاحضرت عیسی مسیح اور اسی طرح دوسرے عقل و شعور رکھنے والی موجودات مراد ہے۔

لہذا اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ فرشتے یا حضرت عیسی جیسے معبود اکیلے اپنی مشکلات حل نہیں کرسکتے۔

اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

أُولئِكَ الَّذينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلى‏ رَبِّهِمُ الْوَسيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَب، جن (معبودوں) کو یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے۔[9]

اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ممکن ہے آیت کا معنی کچھ اس طرح سے ہو: خداوند نے فرشتوں اور انسانوں جیسے عیسی مسیح سے دفع ضُرّ(مصیبت کو دور کرنے) کی توانائی کو نہیں بلکہ مالکیت کو سلب کیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ (فَلا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ) کی عبارت اس بات کو بیان کرتی ہے کہ وہ استقلالی طور پر ضُرّ کو رفع دفع کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، اگرچہ ممکن ہے خدا کے اذن سے یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔

یہی عبارت پیغمبر اکرمﷺ کے بارے میں بھی ہے: قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسي‏ نَفْعاً وَ لا ضَرًّا، کہدیجیے: میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔" اس کے بعد فرماتا ہے: إِلاَّ ما شاءَ اللَّه،  البتہ اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔[10]

اس آیت میں ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ جو چیز پیغمبرﷺ نے خود سےسلب کیا ہے وہ " توانائی نفع و نقصان " نہیں بلکہ مالکیت نفع و نقصان ہے، إِلاَّ ما شاءَ اللَّه،  کی عبارت اسی بات کی تصدیق کرتی ہے۔

اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آیت میں مالکیت دفع ضُرّ کی نفی کی گئی ہے۔

المختصر یہ کہ ان جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیائے الہی اگرچہ خارق العادہ امور انجام دے سکتے ہیں لیکن وہ استقلالاً کوئی کام نہیں کرسکتے لہذا ان آیات میں "استقلال" کی نفی ہوئی ہے۔ لیکن بطور مطلق کام کی نفی نہیں ہوئی بالخصوص اگروہ خدا کی  مشیت اور ارادے کے حدود سے میں ہو۔

سورہ اسراء آیت 57میں ذکر ہوا ہے کہ: فرشتے اور عیسی مسیح خود بھی خدا کے نزدیکتر وسیلےسے متوسل ہوتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں خدا کے نزدیکتر وسیلہ کے لیے ضمیرجمع عاقل (ایھم اقرب) سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اور عیسی مسیح، خود سے برتر اور مقرب تر اولیاء سے متوسل ہوتے ہیں۔!! دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر نزدیکتر وسیلہ سے "بت" مراد ہوتا تو (ایھا اقرب) سے استفادہ کرنا چاہیے تھا نہ کہ(ایھم اقرب) سے۔ لہذا یہ دعوا کیا جاسکتا ہے کہ (ایھا) کی جگہ(ایھم) کی ضمیر سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ یہ جو وسیلہ اقرب ہے وہ اشخاص اور عاقل ذات سے توسل یا کم سے کم عاقل ذات اور اشخاص سے توسل کو شامل ہوتا ہے۔

تیسرا نکتہ:

سورہ مائدہ آیت 35 میں توسل کے متعلق ذکر ہوا ہے: ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ، اللہ کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو!۔ اس آیت میں بطور مطلق وسیلہ ڈھونڈنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا توسل کے تمام اقسام کو شامل ہوتی ہے۔ اسے کسی خاص چیز سے مختص یا مقید کرنے کے لیے خاص دلیل کی ضرورت ہے، لیکن چونکہ کوئی دلیل نہیں ہے اور کوئی قید و شرط بھی نہیں ہے لہذا ہر قسم کے وسیلے کو شامل ہوتی ہے۔

دینی مصادر کے مطالعے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ خدا سے تقرب کے اسباب اور وسائل بہت زیادہ اور گوناگوں ہیں، آیت، اطلاق کی وجہ سے من جملہ ان امور کو شامل ہوتی ہے:

1۔ شائستہ اعمال سے متوسل ہونا

شائستہ اعمال سے توسل پر تمام مسلمانوں کا اتفاق نظر ہے یہاں تک کہ وہابی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔  مثلا کوئی نماز پڑھے، روزہ رکھے اور اللہ کی راہ میں نیک کام انجام دے اور ان عبادات و اعمال سے درگاہ الہی میں تقرب مانگے۔

جلال الدین سیوطی نے (ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ) کے ذیل میں قتادہ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:(قولہ تعالی: ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ، قال: تقربوا الی اللہ بطاعۃ و العمل بما یرضیہ ، قول خداوند(اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو) سے یہ مراد ہے: خدا کی اطاعت اور اس کے پسندیدہ اعمال کے ذریعے اس کی قربت حاصل کرو۔"[11]

حضرت علیؑ، خدا  اور رسولﷺپر ایمان، اللہ کی راہ میں جہاد، نماز قائم کرنا، زکات دینا اور اسی قسم کے دوسرے اعمال کو تقرب الہٰی کےلیے بہترین اسباب جانتے ہیں۔ آپ اس بارے میں فرماتے ہیں:

ان افضل ماتوسل بہ المتوسلون الی اللہ سبحانہ و تعالی الایمان بہ و برسولہ و الجھاد فی سبیلہ فانہ ذروۃ الاسلام و کلمۃ الاخلاص فانہ الفطرۃ و اقام الصلاۃ فانھا الملۃ و ایتاء الزکاۃ۔۔۔، سب سے زیادہ برتر چیز جس کے ذریعے توسل کرنے والے خدا سے قربت مانگتے ہیں وہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان، راہ خدا میں جہاد، جو باعث عزت اسلام ہے، کلمہ توحید(لا الہ الااللہ) جو کہ فطری ہے، نماز قائم کرنا جو کہ آئین ہے،  اور زکات دینا ہے۔[12]

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت علیؑ ان کاموں کو تقرب الہٰی کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن توسل کو انہیں میں منحصر نہیں جانتے۔ دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ(افضل مایتوسل) کا جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کاموں کے علاوہ اور بھی چیزیں ہیں جن سے تقرب الہی کے لیے متوسل ہوسکتے ہیں۔

یہاں یادہانی ضروری ہے کہ (ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ) سے مراد صرف اعمال صالح نہیں ہوسکتے کیونکہ اس سے پہلے(اتقوااللہ) کا جملہ آیا ہے لہذا(ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ) کا جملہ نئے مفاد پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ آیت کے تسلسل میں پڑھتے ہیں( وَ جاهِدُوا في‏ سَبيلِه(جو اس بات کی علامت ہے کہ (ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ) صرف اعمال صالح میں منحصر نہیں ہے۔ کیونکہ ایک عمل صالح راہ خدا میں جہاد ہے۔ لہذا کلام میں تکرار اور لغویت سے پرہیز کی خاطر ضروری ہے کہ(ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ) ذات انسانی سے توسل کو بھی شامل ہوں۔

2۔ دوسروں کی دعاؤں سے توسل

توسل کی ایک اور قسم یہ ہے کہ دوسروں سے اس کے حق میں دعا کرنے کو کہے اور خدا سے اس کے گناہوں کے لیے خدا سے مغفرت طلب کریں۔

قرآن حضرت یوسف کے بھائیوں کی زبانی نقل کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد یعقوب نبی سے خدا کے حضور ان کے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی: قالُوا يا أَبانَا اسْتَغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا إِنَّا كُنَّا خاطِئين قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبىّ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم ،بیٹوں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کیجیے، ہم ہی خطاکار تھے٩٨۔(یعقوب نے) کہا: عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروںگا،وہ یقینا بڑا بخشنے والا،مہربان ہے[13]۔

اس آیت سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب کے بیٹے درگاہ الہی میں توبہ و انابہ کے لیے اپنے باپ یعقوب سے متوسل ہوئے اور ان سے دعا کی درخواست کی، حضرت یعقوب نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا اور انہیں استغفار کا وعدہ دیا۔

 توسل کے اس معنی میں بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہ ہر کسی کے لیے الگ راہ توبہ کھلی ہے اور گناہ گار خود خدا کی درگاہ میں جا کر توبہ کی درخواست کرسکتا ہے لیکن اس راہ کے کنارے ایک اور راہ بھی ہے  اور وہ یہ کہ اولیائے الہی کے دامن کو پکڑ لے کہ وہ ذریعہ بن کراس کی مغفرت اور بخشش کی دعاکریں۔ وہ کام جو حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کے لیے انجام دیا۔

قرآن میں امت اسلامی کے گناہ گاروں کی بخشش کے لیے اولیائے الہی  کی وساطت واضح طور پر بیان ہوئی ہے:

 وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحيما، اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔[14]

خدا سے بخشش کی دونوں راہ اس آیت میں موجود ہے۔ خود گناہ گار انسان (عمل صالح سے توسل) استغفار کرے یا پیغمبرﷺ کے استغفار (دعائے پیغمبرﷺ سے توسل)کروائے۔

شاید اسی لیے اس آیت کا اختتام(لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحيما) پر ہوا ہے۔ ایسا جملہ جو قرآن میں کہیں اور نہیں آیا ہے۔ گویا گناہ گار شخص کا استغفار اورپیغمبرﷺ کے توسط بخشش کی درخواست دونوں مل کر یقینی نتیجہ ملنے کا باعث بنتے ہیں۔ لہذا اس جملے پر( لو وجدوا، یقینا پاتے) آیت ختم ہوئی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے حضور رسول اکرمﷺ   کی شان و مرتبہ اسقدر اعلی ہے کہ  آپ کے واسطے کی جانے والی دعا یقینا قبول ہوگی۔

3۔ اولیائے الہی کی ذات سے توسل

وہابی توسل کے بارے میں جس چیزسے سب سے زیادہ انکار کرتے ہیں وہ توسل کی  یہی قسم ہے۔ یعنی  پروردگار کی درگاہ میں اولیائے الہی کی شخصیت ، شان اور مرتبے سے متوسل ہونا۔ مثلا یہ کہنا: اللهم انی اتوسل الیک بنبیک ، تیرے نبی ؐکے ذریعے تجھ سے متوسل ہوتا ہوں۔ یا یوں کہے:انی  اتقرب الیک بنبیک، تیرے نبیؐ کے وسیلے تجھ سے تقرب چاہتا ہوں۔

وہابیت بہت شدیدطریقے سے  اس قسم کے توسل  کا انکار کرتے ہیں۔اسی لیے دوسرے مسلمانوں کو مشرک کہتے ہیں جبکہ(ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ) جیسی آیات کا اطلاق دوسرے اقسام کی طرح  اس قسم کو بھی شامل ہوتا ہے کیونکہ آیت میں کوئی حصر اور قید موجود نہیں ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ خدا قرآن میں مشرکین سے عذاب کو دفع کرنے کے لیے دو چیزوں کو وسیلہ  بیان کیا ہے: ایک پیغمبرﷺ کی ذات دوسرا عمل صالح یعنی استغفار۔

قرآن اس بارے میں فرماتا ہے:

وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فيهِمْ وَ ما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُون،۔اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں"[15]

یہ آیت بیان کرتی ہے جس طرح دفع عذاب کے لیےاستغفار عمل صالح ہونے کیو جہ  سے اثر گذار ہے  پیغمبرﷺ کی ذات بھی مؤثر ہے۔ اس کے علاوہ اعمال صالح سے توسل کا معیار ، اولیائے الہی کی ذات سے توسل میں زیادہ نمایاں ہے کیونکہ اعمال صالح سے توسل کا معیار یہ  ہےکہ وہ اعمال خدا کے نزدیک محبوب ہیں اور چونکہ محبوب ہیں لہذا ان سےتوسل کرنا درست ہے، اگر توجہ کریں تو اولیاء سے توسل میں یہ معیار زیادہ  نمایاں اور اعلی طریقے سے موجود ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی عمل  اور شخص پیغمبرﷺ سے زیادہ خدا کے نزدیک محبوب نہیں ہے۔ آپؐ حبیب خدا ہیں جو قرب کے درجہ کمال کو پہنچے ہوئےہیں۔

اگر عمل صالح سے توسل اس کی محبوبیت کی وجہ سے درست ہے تو ذات پیغمبرﷺ سے توسل کیوں جائز نہیں ہے جبکہ پیغمبرﷺ سے زیادہ محبوب خدا کے نزدیک کوئی اور نہیں ہے۔

مزید یہ کہ پیغمبرﷺ اور ائمہ سے توسل کرنا یہی اعمال صالح سے توسل کرنا ہے کیونکہ جو کوئی بھی پیغمبرﷺ سے توسل کرتا ہے دو چیزوں کی خاطر ہے :

1       ۔ اس لیے کہ اسے معلوم ہے پیغمبرﷺ اپنے اعمال کی وجہ سے محبوب خدا ہیں۔

2۔  اس لیے کہ پیغمبرﷺ محبوب خدا ہیں ان سے متوسل ہوتے ہیں اور یہ توسل"حب فی اللہ" کے باب سے متعلق ہے  جو کہ ایک بہترین عمل ہے۔

لہذا "توسل بہ ذات" حقیقت میں" توسل بہ عمل" کی طرف بازگشت کرتی ہے۔

 اس کے علاوہ سورہ اسرا آیت 57 میں بیان ہوا ہے: أُولئِكَ الَّذينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلى‏ رَبِّهِمُ الْوَسيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَب، جن (معبودوں) کو یہ پکارتے  ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے۔[16]

جیسا کہ بیان کرچکے اگر یہاں (ایھم اقرب) سے مراد صرف اعمال صالح یا صالحین کی  دعا سے متوسل ہونا تھا تو ضروری تھا کہ(ایھا اقرب) کا جملہ لے آتے جبکہ یہاں(ایھم اقرب) کی تعبیر بیان ہوئی ہے جو ذات اور اشخاس سے توسل سےمناسبت رکھتی ہے۔کیونکہ"ھم" کی ضمیر عاقل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔لہذا اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ اشخاص کی ذات سے توسل پسندیدہ کام ہے۔

چوتھا نکتہ:

قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر و شرک کے حدود اسبا ب اور وسائط کو مستقل جاننے اور نہ جاننے پر منحصر ہے۔ یعنی یہ کہ الہی تصور کائنات میں کوئی بھی سبب چاہےطبیعی ہو یا ماوراء طبیعی خدا کے عرض میں نہیں ہے بلکہ  تمام اسباب سببیت کو خدا سے کسب کرتے ہیں اور تمام قسم کے تاثیر و تاثرخدا پر ختم ہوتی ہے، اب اگر کوئی استقلالی نگاہ سے ان اسباب سے متوسل ہوجائے تو بے شک وہ مشرک ہوجاتا ہے لیکن اگر غیر اسقلالی نگاہ( واسطہ اور ذریعہ) سے دیکھے تو عین توحید ہے۔

الہٰی اور مادی تصور کائنات میں فرق اسی نکتے میں پوشیدہ ہے، خدا پرست کسی بھی سبب کے لیے استقلال کے قائل نہیں، لیکن مادہ پرست، مادی علل و اسباب کے لیے استقلال  اور اصالت کے قائل ہے لہذامادہ پرست  شرک سے دوچار ہوجاتا ہے۔ واضح ہے کہ کوئی بھی مسلمان پیغمبرﷺ یا اولیائے الہی سے متوسل ہوتے وقت انہیں مستقل نہیں سمجھتے، چونکہ وہ خدا کے بہترین بندے ہیں لہذا انہیں واسطہ قرار دے کر خدا سے حاجت طلبی کرتا ہے اور اس واسطے کے لیے کسی قسم کے استقلال کا قائل نہیں ہے۔ یہ معنی توسل کے تمام اقسام میں جاری ہے۔

وہابیت کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ وہ سوچتے ہیں پیغمبرﷺ یا ائمہ سےتوسل کا معنی مسلمانوں کے نزدیک یہ ہے کہ وہ انہیں مستقل مانتے ہیں جبکہ اس قسم کا خیال کسی بھی مسلمان کے ذہن میں خطور نہیں کرتا ہر مسلمان اولیائے الہی کو ایک واسطے سے زیادہ نہیں سمجھتے ہیں۔

اسی غلطی کے باعث وہابیت توسل کے انکار میں، مشرکین سے متعلق قرآنی آیات  سے مسلسل استناد کرتے ہیں ، مشرکین بتوں کو معبود اورتاثیر گذاری میں مستقل مانتے تھے لیکن مسلمان رسول اکرمﷺ کو معبود نہیں مانتے اور نہ ہی تاثیر گذاری میں مستقل مانتے ہیں۔

لہذا یہ  آیات : ما نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونا إِلَى اللَّهِ زُلْفى‏، ہم انہیں صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں"[17] جو مشرکین کے متعلق ہے  اورمسلمانوں کے توسل سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے کیونکہ مشرکین نہ صرف بتوں سے متوسل ہوتے تھے بلکہ ان کی پوجا کرتے تھے اور انہیں تاثیرگذاری میں مستقل مانتے تھے۔

پانچواں نکتہ: توسل کے بارے میں قرآنی اطلاقات اور عمومات کے علاوہ فریقین کی کتب میں بہت زیادہ احادیث بیان ہوئی ہیں جو اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ آیات عمومیت پر باقی  ہیں اور توسل کی کوئی بھی قسم  اطلاق آیات سے خارج نہیں ہوئی ہیں بطور نمونہ دو روایت کی طرف اشارہ کریں گے:

1۔ احمد بن حنبل(حنابلہ کے امام) نے مسند میں اور ابن ماجہ نے سنن میں عثمان بن حنیف سے نقل کیا ہے:

 ((ان  رجلا ضریر البصر اتی النبی  فقال: ادع اللہ ان یعافینیی ! قال: ان شئت دعوت لک  و ان شئت اخّرت ذاک، فھو خیر۔ فقال: ادعہ فامرہ ان یتوضا فیحسن وضوءہ و صلی رکعتین  و یدعو بھذا الدعا: اللھم انیّ اسئلک و اتوجہ بنبیک محمد نبی الرحمۃ  یا محمد انیّ توجھت بک الی ربیّ فی حاجتی ھذہ  فتقضی لی اللھم شفعّہ فیّ، ایک نابینا شخص پیغمبرﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: خدا سے دعا کریں  کہ وہ  مجھے صحت عطا کرے، پیغمبرﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو  تو دعا کروں گا اور اگر چاہو تو اسے تمہارے لیے ذخیرہ کرونگا کہ یہ بہتر ہے۔ اس شخص نے کہا: میرے لیے دعا کریں! پیغمبرﷺ نے اسے وضو کرنے اور اس پر توجہ کرنے کا حکم دیا پھر دو رکعت نماز پڑھ کر اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا: پروردگارا میں تجھ سے مانگتا ہوں، محمد، پیغمبر رحمت کے واسطے  تیری طرف آتا ہوں، اے محمد میں آپ کے واسطے پروردگار کی جانب جاتا ہوں، اے اللہ انہیں میرا شفیع قرار دیں۔[18]

یادہانی کی جاتی ہے کہ بہت سے اہل سنت دانشوروں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ ترمذی [19] اور ابن ماجہ[20] نے بھی اسے صحیح تسلیم کرلیا ہے۔

تعجب  کی بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے:و  اما حدیث الاعمیٰ۔۔۔ فالذی فی الحدیث متفق علی جوازہ ، جو کچھ اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ اس کے جائز ہونے پر سب متفق ہیں۔[21]

نیز ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

" وقدروی الترمذی حدیثاً صحیحاً عن النبی انّہ علّم رجلا ان یدعو فیقول: اللھم انیّ اسئلک و اتوجٗہ بنبیک محمد نبی الرحمۃ  یا محمد یا رسول اللہ انیّ اتوسل بک الی ربیّ فی حاجتی لتقضی لی اللھم فشفعّہ فیّ، ترمذی نے ایک صحیح حدیث میں پیغمبرﷺ سے نقل کیا ہے کہ: آپ نے ایک شخص کو اس دعا کی تعلیم دی: پروردگارا میں تجھ سے مانگتا ہوں، محمد، پیغمبر رحمت کے واسطے  تیری طرف آتا ہوں، اے محمد اے رسول خدا میں آپ کو وسیلہ بنا کر پرورگار سے دعا کرتا ہوں تاکہ میری حاجت روا ہو، اے اللہ !ان کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما ۔[22]

محمد نسیب رفاعی( معاصر وہابی عالم) اپنی کتاب التوصل الی الحقیقۃ التوسل میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

لا شک ان ھذا الحدیث صحیح و مشہور، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے۔ مزید لکھتےہیں کہ: اس حدیث میں ثابت ہوا ہے کہ یہ شخص حضورﷺ کی دعا سے دوبارہ بینا ہوگیا تھا۔[23]

قابل توجہ بات یہ ہے کہ پیغمبر نے اس شخص کو یہ سکھایا کہ وہ ان جملوں کے ذریعے(اسالک بنبیک)( اتوجہ الیک بنبیک)(محمد نبی الرحمۃ) پیغمبرﷺ کی ذات اور اوصاف حمیدہ سے متوسل ہوں۔ یہ وہی توسل ہے جسے وہابی شرک مانتے ہیں تعجب کی بات ہے کہ وہ اس توسل کو شرک مانتے ہیں جبکہ خود اس حدیث کی درستی کو تسلیم کرتے ہیں۔

عثمان بن حنیف(مذکورہ بالا حدیث کے راوی) اس قسم کے توسل کو ایک حلاّل مشکل نسخے کی مانند سب کو سکھاتا پھرتا تھا۔ منجملہ طبرانی نقل کرتا ہے: عثمان کے دور خلافت میں ایک شخص کسی کام کی خاطر کئی بار عثمان کے پاس جاتا رہا لیکن اس کی مشکل حل نہ ہوئی، ایک دن عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اسے داستان سنا دی، عثمان نے اسے حکم دیا کہ وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھ کر اس دعا کو پڑھے: اللھم انیّ اسئلک و اتوجٗہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ  یا محمد انی اتوجہ بک الی ربیّ فی لتقضی حاجتی پروردگارا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، محمد، پیغمبر رحمت کے واسطے  تیری طرف آتا ہوں، اے محمد میں آپ کو وسیلہ بنا کر پرودگار سے دعا کرتا ہوں تاکہ میری حاجت روا ہو، اس شخص نے اس پر عمل کیااور خلیفہ کے پاس گیا، پس عثمان بن حنیف سے ملاقات کیااور دعا کی سند مانگ لی عثمان بن حنیف نے اسے نابینا شخص کی داستان سنا دی ۔[24]

2۔ محمد بن اسماعیل بخاری نے صحیح میں روایت کیا ہے کہ: خشک سالی کے ایام میں عمر بن خطاب پیغمبرﷺ کے چچا عباس سے متوسل ہوئے اور کہا: اللھم کنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا و انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا فیسقون، خدایا پیغمبرﷺ کے زمانے میں تیری قربت کے لیے پیغمبرﷺ سے متوسل ہوتے تھے اور تو باران رحمت نازل کرتا، اب تیری قربت کے لیے پیغمبرﷺ کے چچا سے متوسل ہوئے ہیں پس  ہمیں سیراب کر، پس سیراب ہوگئے۔[25]

یہ توسل، توسل کی تیسری قسم ہے یعنی کسی شخص کی ذات سے متوسل ہونا جس سے وہابی انکار کرتے ہیں۔پیغمبرﷺ کے چچا  عباس سے توسل، پیغمبرﷺ سے متعلق ہونے کی وجہ سے تھا جو کہ توسل بذات کی قسم سے ہےاگر غیر خدا سے توسل جائز نہ تھا تو عمر غیر خدا سے متوسل کیوں ہوا؟

نتیجہ:

اولیائے الہی سے توسل کے بارے میں عقلی اور شرعی دالائل موجود ہیں اور قرآن وسنت سے اس کے جواز پر واضح دلیل ہےوہابیوں نے جن دلائل کو توسل کے شرک ہونے پر بیان کیا ہے ان کے دعوے پر دلالت نہیں کرتی۔

مزید مطالعہ کے لیے کتب

التوسل و جھلۃ الوہابیین، ابو حامد بن مرزوق

التوسل، جعفر سبحانی

الغدیر ج 5، علامہ امینی

کشف الارتیاب، محسن امین

شیعہ جواب دیتے ہیں ، مکارم شیرازی

تحریر : استاد رستمی نژاد            ۔۔۔ ترجمہ اعجاز حیدر 

 

 

 

 



[1][1] ۔زمر/ 3

[2] . جن/18

[3] ۔رعد/14

[4] ۔ الصحاح ج 5ص 1841"وسل"

[5] ۔لسان العرب ج11 ص724"وسل"

[6] ۔مائدہ/35

[7] ۔ مزید تفصیل تیسرے نکتے میں بیان کریں گے۔

[8] ۔ اسراء/56

[9] ۔اسرراء/ 57

[10] ۔ اعراف/188

[11] ۔الدر المنثور ج2 ص280

[12] ۔نہج البلاغہ خطبہ 110

[13] .یوسف/ 97-98

[14] ۔نساء/ 64

[15] ۔انفال/33

[16] ۔اسرراء/ 57

[17] ۔زمر/3

[18] ۔مسند احمدج 4ص138، سنن ابن ماجہ ج 1ص441حدیث 1385

[19] ۔سنن ترمذی ج 5ص223

[20] سنن ابن ماجہ ج1ص441-442

[21] ۔مجموعہ الرسائل و المسائل  ج 1ص19

[22] ۔۔مجموعہ  الرسائل و المسائل ج 1ص12-13

[23] ۔ التوصل الی الحقیقۃ التوسل ج 1ص166

[24] ۔مسند احمد ج4ص138، المعجم الکبیر ج 9ص30-31، حدیث:8311، المستدرک الصحیح ج1 ص519

[25] ۔صحیح بخاری ج2ص16





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی