2024 March 29
خلافت کی تاریخی حقیقت
مندرجات: ٢١١٩ تاریخ اشاعت: ٢٨ November ٢٠٢٢ - ٠١:٠٤ مشاہدات: 1751
یاداشتیں » پبلک
خلافت کی تاریخی حقیقت


خلافت کے مسئلے میں سقیفہ کے واقعے پر ایک تبصرہ 

 

خلافت اور سقیفہ کی داستان :

سقیفہ بنی ساعدہ  کی داستان بہت سے تاریخی حقائق کو اپنے دامن میں سمٹی ہوئی ہے،   اگر  اس داستان کا صحیح تجزیہ اور اس کی دقیق تحلیل کی جائے تو معلوم ہوگا کہ  یہ واقعہ کوئی معمولی  واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ  خلافت اور دینی پیشوائی کے مسئلہ میں اکثر مسلمانوں کے عقائد کی بنیاد ہے.

 

تاریخی حقائق کے مطابق اس داستان کا خلاصہ  کچھ اس طرح سے  ہے.

 

رسول پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی وفات کے بعد  جس وقت  ان کے پاکیزہ خاندان  کے افراد  آپ کی فراق میں غمگین تھے  اور آپ کی    تجہیز و تکفین میں  مصروف تھے ، عین اسی وقت  یہ  آواز  آئی کہ  توجہ؛   توجہ؛   لوگوں نے  ابوبکر کی بیعت  کر لی ہے، خبر  نگاروں  نے خبر  دی کہ  سقیفہ میں   بعض لوگوں نے جناب ابوبکر کے  ہاتھوں بیعت کر لی ہے ،  جبکہ خاندان پیغمبر  کے افراد   اور  آپ کے  ارد گرد لوگ  آپ کے غم میں مغموم  تھے   انہیں اس ماجرا کی خبر تک نہ تھی ، کیونکہ سب نے یہی نقل کیا ہے کہ انصار کے ایک گروہ کے سقیفہ میں جمع ہونے کی  خبر    مخفیانہ طور پر جناب خلیفہ اول، دوم اور ابو عبیده جراح  تک پہنچی  اور مہاجرین میں سے صرف یہی تین حضرات  خلیفہ کے انتخاب  میں شریک تھے .

جب سقیفہ میں   انصار کے اجتماع میں،  مہاجرین میں سے  یہ تین  افراد   پہنچے  تب  انصار  میں سے حباب بن المنذر کہ جو قبيله خزرج کے بزرگوں میں سے تھے،  انصار سے خطاب کرتے ہوے کہا : اے گروہ انصار، اپنا حق لے لو؛  اس لیے کہ یہ لوگ تم لوگوں کے مرہون منت ہیں کسی میں بھی تمہاری مخالفت کی جرات نہیں ہے.تم لوگ ہی با عزت ،باشرافت ، باقدرت  ہو۔[1]

خلیفہ اول  نے  انصار کے مقابلہ میں  قریش کی برتری کو بیان کرتے ہوے کہا  :  یہ عہد خلافت  قریش کے علاوہ کسی اور کے لیے مناسب نہیں اس  لیےکہ وہ نسب اور شہر کے لحاظ سے سب پر  شرف رکھتے ہیں.(ولم تعرف العرب هذا الامر الا لهذا الحى من قريش هم اوسط العرب نسبا ودارا [2]

خليفه دوم نے بھی  انصار  کے سوال  کا یوں جواب دیا:   خدا کی قسم؛ عرب ہرگز اس بات کو قبول نہیں کریں گے کہ حکومت تمہاے حوالہ کر دی جاے ،کیونکہ پیغمبر  کا تعلق تم لوگوں میں سے نہیں ، البتہ ان کے لیے اس بات میں کوئی قباحت  بھی تو نہیں کہ حکومت اور زمام اقتدار ان افراد  کے سپرد کردیا جاے کہ جن سے پیغمبر کا تعلق تھا، ہمارے پاس اس سلسلے میں مخالفین کے لیے واضح اور روشن دلیل موجود ہے، ہم ان کے دوست اور خاندان والے ہیں [3]

انصار نے جواب میں کہا  :  ایک امیر تم لوگوں میں سے ہو اور ایک امیر ہم میں سے .. ہمیں اس بات  کا ڈر  ہے  کہ  کہیں ایسا نہ ہو کہ   ان کے بعد وہ  لوگ بر سر اقتدار آجائیں کہ جن  کے باپ اور بھائیوں کو ہم نے قتل کیا تھا[4]

  خلیفہ اول اور دوم نے جواب میں کہا:  امیر ہم میں سے ہو جبکہ  وزیر  تم میں سے ہو[5]  بعض  تواریخ میں منقول ہے کہ  انصار  کے تمام  افراد یا ان میں سے بعض سقیفہ میں اصرار کر رہے تھے کہ  ہم علی ؑکے علاوہ کسی اور کی بیعت نہیں کرتے[6]

  انصار اور مہاجرین کے درمیان  یہ کشمکش  اس حد تک پہنچ گئی کہ انصار کی طرف سے  خلیفہ اول اور دوم  کو اس طرح جواب ملا  :  کہ اگر  قریش ان کی باتوں کو نہ مانیں تو یا  طاقت  کا استعمال کیا جاے یاا نہیں مدینہ سے باہر نکال دیا جاے[7]

جس چیز نے ابوبکر کے  خلیفہ بننے میں اہم کردار  ادا کیا ،وہ  خود انصار کے درمیان  اختلاف کا  وجود میں آنا  تھا، دور جاہلیت میں موجود رنجشوں کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ سے  انصار عملا دو گروہوں میں بٹ کر رہ گئے تھے ،   حتی خود قبیلہ خزرج میں ایک دوسرے کے ساتھ اندرونی کشمکش کی وجہ سے بشير بن سعد نے کہ جو قبيله خزرج کے بزرگوں میں سے تھا  ،  جلدی میں  جناب ابوبکر کی بیعت کی کیونکہ انصار سعد بن عبادہ کی بیعت کے لئے مہاجرین کی  آمد سے پہلے آمادہ تھے  ،  بشير  کی یہ حرکت دیکھ کر حباب بن المنذر نے  اس سے مخاطب ہوکر کہا ؛ چچا زاد بھائی کی حکومت کے حسد نے تمہیں اس کام پر ابھارا ہے اورجب  بزرگان اوس میں سے أسيد بن حضير نے یہ دیکھا کہ خزرج والوں نے بیعت میں پہل کی ہے تو  اپنے  قبيله والوں سے کہا :خدا کی قسم؛  اگر خزرجی ایک دفعہ بھی تم پر حاکم بنیں گے  تو وہ  ہمیشہ تم پر برتری جتایا کریں گے اور حکومت میں تمہیں کسی قسم کا حصہ نہیں دیں گے اٹھو اور ابوبکر کی بیعت کرو.[8]

جناب خلیفہ دوم سقیفہ میں   پیش آنے والے اس  کش مکش   کی یوں  تصور کشی کرتا ہے  : [فكثُرَ اللَّغطُ وارتفعتِ الأصواتُ حتى فَرِقْتُ من الاختلاف، فقلتُ: ابْسُط يَدَكَ يا أبا بكرفبسطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ [9]

یعنی  ایک ہنگامہ اور شور و غل کا سماں تھا، اسی ماحول  میں جناب  عمر نے خلیفہ اول کا ہاتھ تھام کر ان کی بیعت کی اور  یہ ماحول اس قدر  پریشان کن تھا کہ خلیفہ دوم  ایسے ہی اس ماحول کو ترک کرنے  کو فتنہ اور فساد کا باعث جانتے تھے.[10]

یہاں تک کہ  خود خلیفہ دوم کی ر ای   اس جیسے  ماجری کے بارے میں یہ تھا  کہ اگر  اس کے بعد لوگوں سے صلح و مشورہ کے بغیر  کسی اور خلیفہ کی  بیعت  کی جاے تو  ایسی صورت میں اس کی  یہ بیعت نہ صرف  بیعت نہیں بلکہ  وہ مستحق قتل بھی  ہے )فمن بايعَ رجلا على غير مَشورَةٍ من المسلمين فلا يُتَابَع هُو ، ولا الذي بَايَعهُ ، تَغِرَّة أن يُقتَلا[11]

سقیفہ کی داستان اور  چند   اہم نکات :

خلافت کے مسئلہ میں پیش آنے والے  اس کشمکش  کا تجزیہ کیا  جاے تو  مندرجہ ذیل  نکات بطور   نتیجہ سامنے آتے ہیں .

الف: جیساکہ سقیفہ میں  رد و بدل ہونے والی باتیں  اس مطلب کو بیان کرتی ہیں کہ   اس وقت  زمانہ جاہلیت   کی قبیلہ ای   رقابت اور کشمکش ،  لوگوں کے ذہنوں پر   مسلط ہوچکی تھی  اور  ماحول مجموعی طور پر  عربوں کے درمیان موجود  قبائلی اور نسلی رقابتوں کی نذر ہوچکا تھا کیونکہ  سقیفہ میں دونوں طرف سے  صرف  قبیلہ کی برتری جتانے اور ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرنے کی باتیں ایک دوسرے کے درمیان رد و بدل ہوئیں  ،ان کا ہم و غم  یہی تھا کہ کسی طرح سے بھی  ہو یا   حکومت  کو  خود ہاتھ میں لے یا کم از کم    اقتدار   اپنے  رقیب تک نہ پہنچے  اور یہ وہ تاریخی حقیقت ہے، جس کی خبر خود ر  سول پاک   امت کو دے چکے تھے  آپ نے فرمایا تھا  ؛ تم لوگ عنقریب حکومت اور اقتدار کے حریص ہونگے اور یہ  حسرت اور ندامت کا باعث ہوگا[12]۔

 

ب: سقیفہ کی اس  داستان کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ  اول کی خلافت ، قبائلی کش مکش  اور چند سرداروں کے ناگہانی  فیصلہ کے نتیجہ میں عمل میں آیا ہے، یہاں تک کہ سقیفہ  کا  اصلی پرچمدار خلیفہ دوم  نے ہی  اس کام کے دوبارہ تکرار کرنے والے کے قتل کا حکم دیا  [13]لہذا  سقیفہ میں   ایسا نہیں ہوا کہ جناب ابوبکر کے خلیفہ  انتخاب کرنے پر سب  نے پہلے اتفاق کیا ہو اور بعد میں اسی اتفاق کے نتیجہ میں ان کی بیعت کی ہو.

 

ج : سقیفہ کی ایک اہم  بات یہ بھی ہے کہ وہاں جناب ابو بکر  کی خلافت کے اثبات  کے لئے آیات قرآن  اور پیغمبر اکرمؐ  کے احادیث سے استناد نہیں کیا گیا  ،  لہذا یہاں سے معلوم ہوتا  ہے کہ قرآن اور سنت میں ان کی خلافت پر کوئی دلیل نہیں تھی کیونکہ   اگر ایسی دلیل ہوتی تو  قرآن  و سنت   کو چھوڑ کر دوسری باتوں   کو بیان کرنا  قرآن  و سنت کو  نظر انداز کرنا ہے ،  لہذا خلیفہ اول کی خلافت پر نص نہ ہونا اصحاب کی سیرت ،خود خلفاء کی سیرت   اور جمہور اہل سنت کا عقیدہ ہے کیونکہ کسی نے بھی ان کی خلافت پر نص کے ذریعے سے  استدلال نہیں کیا ہے جیساکہ بہت سے    اہل سنت کے علماء نے بھی  اس بات کا اعتراف   کیا ہے [14]یہاں سے یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ خلفاء کی خلافت  کے بارے میں نقل ہونے والی  ساری روایتیں بعد کی پیداوار ہیں.  

د : سقیفہ  کے مطابق  خلافت کا عقیدہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول پاکؐ نے اپنی  جانشینی کے مسئلے  میں امت کی رہنمائی  کیے   بغیر انہیں  سرگرداں حالت میں چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے  لہذا    رسول پاک ؐ نے خلیفہ اول کو  اپنا جانشین بنانے کے لئے کوئی حکم نہیں دیا تھا .

 

ھ:  اس داستان میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ  یہاں خلیفہ کے انتخاب میں افضلیت نام کی کوئی چیز   معیار قرار نہیں پائی، جیساکہ  خود انصار،مہاجرین میں سے    خلیفہ  اول وغیرہ کے آنے سے پہلے  سعد بن عبادہ کی بیعت کے لئے  مشہورہ کر رہے تھےاسی طرح  قبیلہ کی   برتری جتانے  والی  باتیں  خود اس پر بہترین شاہد ہے کہ  وہاں خلیفہ  کی انتخاب میں  اس کی فضیلت کو معیار نہیں بنایا گیا اور  بعد  کی بحث میں بھی  بیان ہوگی کی بہت سے لوگوں نے اس انتخاب کو قبول کرنے سے انکار کیا،  ان انکار کرنے والوں میں بڑے بڑے اصحاب  شامل تھے   لہذا اگر یہ لوگ  خلیفہ اول کو  ہی اصحاب میں سب سے زیادہ بافضیلت  مانتے تو   اس انتخاب پر اعتراض  کرنا ان کی شان کے خلاف کام شمار ہوگا . ہم بعد میں بیان کرینگے  کہ یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا ؛  اگر  ایسا تھا تو  کیوں دوسرے اصحاب نے  اس انتخاب  کے خلاف عملی اقدام نہیں کیا اور کیوں   بعد میں ان کی بیعت کر  کے ان   کے  کاموں میں ان کی مدد کی ؟. اس قسم کی قضاوت اور نتیجہ گیری  اس دور کے حالات اور ماحول  سے قطع نظر کر کے نہیں کیا جاسکتا .

 

 

جیساکہ تاریخی حقائق کے مطابق بہت سے لوگ سقیفہ کے اس انتخاب کے مخالف تھے اور واضح انداز میں اصحاب نے اھل سقیفہ کی مخالفت کی ۔۔۔۔ عربی متن اور فارسی ترجمے کے ساتھ ایک تفصیلی مقالہ www.valiasr-aj.com/persian/shownews.php

 



[1]- یامعشر الانصار املکو علیکم امرکم... انتم اهل‌العز والثروه و اولو العدد»

الامامة والسياسة – ج 1 ص 15-  تاريخ الطبري – ج 2 ص 243 - الكامل في التاريخ ،ج2 ص193

 -[2] السيرة الحلبية [3 /480] السيرة لابن حبان [ص 419]السيرة النبوية لابن كثير [4 /488] تاريخ الطبري [2 /446] 

[3] - والله لا ترضى العرب أن تؤمركم ونبينا من غيركم ولا تمتنع العرب أن تولي أمرها من كانت النبوة فيهم ولنا بذلك الحجة الظاهرة على من ينازعنا سلطان محمد ونحن أولياؤه وعشيرته تاريخ الطبري ،ج2 ص243- الكامل في التاريخ ،ج2 ص 193

[4]  - [منَّا أمير ومنكم أمير... ولكنّا نخاف أن يليه أقوام قتلنا آباءهم وإخوتهم أنساب الأشراف [1 /250]  الطبقات الكبرى لابن سعد [3 /182]  حياة الصحابة للكاندهلوى [1 /434] تاريخ دمشق [30 /275]

[5] -وَلَكِنْ مِنَّا الأُمَرَاءُوَمِنْكُمُ الْوُزَرَاءُ.مصنف عبد الرزاق [5 /439] الثقات لابن حبان [2 /155] تاريخ الطبري [2 /443]

 - [6] تاريخ الطبري [2 /233] الكامل في التاريخ [2 /189] شرح نهج البلاغة [ ج ،۱ ص 348] فقالت الأنصار أو بعض الأنصار لا نبايع إلا عليا  

[7]  - { يا معشر الانصار ..فإن أبو اعليكم فأجلوهم من بلادكم  و إلا أجلبنا الحرب فيما بيننا وبينكم جذعا -مصنف عبد الرزاق [5 /439] البغدادي- الفصل للوصل المدرج [1 /493]  {وإلا أعدنا }  مسند البزار 10 [1 /301]- فكثر القول حتى كاد ان يكون بينهم حرب فوثب عمر فأخذ بيد أبي بكر -فتح الباري [7 /31] والله وإن شئتم لنقيمها جذعة السيرة الحلبية [3 /481]

-[8] والله لئن وليتها الخزرج عليكم مرة لا زالت لهم .. الكامل في التاريخ [1 /360] تاريخ الطبري [2 /458] الامامة والسياسة [1 /26]

 -[9] جامع الأصول في أحاديث الرسول [4 /90] صحيح ابن حبان [2 /150] صحيح البخاري [6 /2503] مسند أحمد بن حنبل [1 /55]  السيرة النبوية لابن كثير [4 /489]    تاريخ مدينة دمشق [30 /279]تاريخ الخلفاء [ص 63]المنتظم [1 434]البداية والنهاية [5 /267]السيرة النبوية لابن هشام [6 /81] مصنف عبد الرزاق [5 /439] البغدادي- الفصل للوصل المدرج [1 /493]

  -  [10] {وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِى بَكْرٍ خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلاً مِنْهُمْ بَعْدَنَا ، فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لاَ نَرْضَى ، وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَاد مسند أحمد [1 /56] صحيح البخاري [6 /2503] السنن الكبرى [4 /273] مصنف عبد الرزاق [5 /439]

-[11] جامع الأصول في أحاديث الرسول [4 /90] المسند الجامع [13 /305]صحيح البخاري [6 /2503]   أنساب الأشراف [1 /252]تاريخ الإسلام للإمام الذهبي [3 /8]السيرة الحلبية [3 /490]   السيرة لابن حبان [ص 419]السيرة النبوية لابن هشام [6 /80]

[12] - إنكم ستحرصون على الإمارة وستصير حسرةً وندامةً --صحيح البخاري – ج 6 ص2613 - صحيح ابن حبان – ج 10 ص 334 - - مسند أحمد، ج 2  448-  مصنف ابن أبي شيبة - ج12 ص 215)- - السنن الكبرى للنسائي – ج 4 ص 436- - سنن البيهقي الكبرى – ج 3 ص 129-

 -[13]إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ يَقُولُ وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلَانًا فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ يَقُولَ إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا-

 تاريخ الإسلام للذهبي [1 /362] البداية والنهاية [5 /267] السيرة النبوية لابن كثير [4 /489] السيرة النبوية لابن هشام [6 /80] ، مسند أحمد [1 /56] صحيح البخاري [6 /2503]جامع الأصول في أحاديث الرسول [4 /90]السنن الكبرى للنسائي [4 /273

 

[14] ۔ شرح المقاصد، ج‏5، ص:   255 ، النص منتف في حق أبي بكر

فخرالدین رازی، الاربعين في اصول الدين، ج‏2، ص 274: انه لا يمكن اثباتها بالنص، لأنه لو كان منصوصا عليه بالامامة، لكان  توقيفه يوم السقيفة إمامة نفسه على البيعة، من أعظم المعاصى و ذلك يقدح فى إمامته   

 جیساکہ خود خلیفہ دوم سے نقل ہوا ہے کہ رسول پاک نے کسی کو اپنا چانشین نہیں بنایا تھا ۔۔۔۔فان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف // السنن الكبرى للبيهقي (8/ 149سنن أبى داود (3/ سنن الترمذى (8/ 440،صحيح مسلم / 1/396

النووي اسی حدیث کی ضمن میں لکھتا ہے : هَذَا الْحَدِيثِ دَلِيلٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنُصَّ عَلَى خَلِيفَةٍ وَهُوَ إِجْمَاعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَغَيْرِهِم ۔ شرح على مسلم (12/ 206۔

ابن حجر عسقلانی  اس حدیث کی ضمن میں جناب عمر کی طرف سے کسی کو خلیفہ معین نہ کرنے کی وجہ بیان کرتا ہے :

فأخذ من فعل النبي صلى الله عليه و سلم طرفا وهو ترك التعيين ۔ فتح الباري - ابن حجر (13/ 207

جیساکہ  جناب عایشہ سے بھی   نقل ہوئی ہیں/

عَنِ ابْنِ أَبِى مُلَيْكَةَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ وَسُئِلَتْ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مُسْتَخْلِفًا لَوِ اسْتَخْلَفَهُ قَالَتْ أَبُو بَكْرٍ. فَقِيلَ لَهَا ثُمَّ مَنْ بَعْدَ أَبِى بَكْرٍ قَالَتْ عُمَرُ. ثُمَّ ۔۔ذَا/  صحيح مسلم (7/ 109  ح 6329 ( صحيح )  البانی ۔ مشكاة المصابيح (3/ 333)





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی