2024 March 28
سقیفے کے مخالفین سے بیعت لینے کا واقعہ :
مندرجات: ٢١٢٠ تاریخ اشاعت: ٢٥ October ٢٠٢١ - ٢٠:٢٧ مشاہدات: 1812
یاداشتیں » پبلک
سقیفے کے مخالفین سے بیعت لینے کا واقعہ :

سقیفے کے مخالفین  سے بیعت لینے کا واقعہ :

 جیسا کہ بیان ہوا کہ سقیفے میں قریش   اور  اوس  و  خزرج  کے درمیان  موجود قبائلی رنجشوں  کی وجہ سے   ایک شور و غل  کی  فضا قائم ہوئی جناب عمر  کی تائید اور بیعت کے نتیجہ میں خلیفہ اول کا انتخاب عمل میں آیا  ۔

اس کے بعد  لوگوں کو بیعت کرنے کی دعوت دی گئی ۔لہذا ایسا نہیں ہوا  تھا کہ سقیفہ میں  سب نے جناب ابوبکر کو خلافت  کا اہل سمجھ کر  اس کی بیعت کی ہو۔   اسی لئے بہت سے  اصحاب  نے اس  انتخاب پر عدم رضایت کا  اظہار اور  اس پر احتجاج کئے [1] بعض  تواریخ میں منقول ہے کہ  انصار  کے تمام  افراد یا ان میں سے بعض سقیفے  میں اصرار کر رہے تھے کہ  ہم علی ؑکے علاوہ کسی اور کی بیعت نہیں کرتے[2]  .

 

  قتل کی دھمکی اور منافقت کا الزام

 

جنہوں نے بیعت سے انکار کیا  ان کو  قتل تک کی  دہمکی بھی  دی گئی ، بعنوان مثال :   سقیفے میں سب سے   زیادہ  سعد بن عبادہ نے سختی سے  اس بیعت کی مخالفت کی تو  اس  کے  رد  عمل میں خلیفہ دوم کی مندرجہ ذیل باتیں تاریخ نے نقل کی ہیں  :  ہم  نے اس پر حملہ کیا   کسی نے کہا تم لوگوں نے  سعد بن عبادہ کو قتل کیا  تب  میں نے کہا اللہ نے اس کو قتل کیا ہے :و نَزَوْنَا عَلَي سَعْدِ بْنِ عُبَادَهَ فَقُلْتُ قَتَلَ اللَهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَه ‘‘ ۔[3]

  اس کو قتل کریں ، خدا اس کو قتل کرے وہ فتنہ و فساد پھلانے والا ہے (اُقْتُلُوهُ،قَتَلَهُ اللَّهُ[4] فإنه صاحب فتنةو شر[5]  سعد بن عبادہ منافق ہے خدا اسے قتل کرے(فقال عمرقتله الله إنه منافق[6] جب تک وہ بیعت نہیں کرتا اسے نہیں چھوڑینگے(لاتدعه حتى يبايع۔[7]  .

 

ان سےایسے کہا گیا   :   اگر تم نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا اور جماعت سے الگ ہوئے تو میں تمہارا سر کاٹ دونگا ’’ لئن نزعت يدا من طاعة أو فرقت جماعة لنضربن الذي فيه عيناك [8]   یہاں تک کہ  آخر کار  سعد بن عبادہ  کو قتل بھی کر دیا  گیا ۔

خلیفہ دوم  نے یہ اعلان کیا که جو بھی ان کی مخالفت کرے گا  اسے قتل کیا جائے گا(لاوالله لا يخالفنا أحدا لاقتلناه[9]  .

 لیکن اتنی  سختی کے باوجود بھی انھیں  اپنی  ناکامی کا خوف تھا۔ یہاں تک کہ  قبیلہ بنی اسلم  والے جو   ان دنوں اتفاق  سے   مدینے  میں اشیاء خورد و نوش   کی چیزیں خریدنے آئے ہوےتھے ان کی مدد سے خلیفہ اس کام میں کامیاب ہوئے   اور اس سے  جناب ابوبکر کی پارٹی مضبوط ہوئی  ۔

جیساکہ نقل ہوا ہے (فكان عمر يقول ماهو إلا أن رأيت أسلم فأيقنت بالنصر[10] یعنی جب قبیلہ اسلم کو دیکھا تو  کامیابی کا یقین ہوا (وجاءت أسلم فبايع تفقوي أبوبكربهم وبايع الناس بعد[11].  تاریخ نے اس مدد کی نوعیت بھی بیان کی ہے کہ وہ لوگ اس  سلسلے میں پولیس کا کام انجام دیتے تھے،  لوگوں کو بیعت کے لیے  پکڑ پکڑ  کرلے آتے تھے   ، خواہ لوگ مانیں یا نہ مانیں    ان سے بیعت لیتے تھے   { لايمرون بأحد إلاخطبوه.[12]  .

 

بیعت لینے کے لئے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ

مخالفین سے بیعت لینے  کے سلسلے کا ایک  اہم  واقعہ سقیفے سے باہر جناب فاطمہؑ کے گھر کے سامنے پیش آیا  ، سقیفہ  کے مخالفین میں سے ایک تعداد   جناب فاطمہؑ کے گھر  پر جمع تھی  ،جب دوسروں سے بیعت لینے کا کام ایک حد تک مکمل ہوا  تو خلیفہ اول نے جناب  فاطمہؑ کے گھر میں موجود لوگوں سے  بیعت  لینےکی خاطر خلیفہ دوم  کو  چند دوسرے افراد  کے  ساتھ روانہ کیا  ۔ خلیفہ دوم  نے آکر  جناب فاطمہؑ کے گھر پر مخالفین کے اجتماع کو   بیعت نہ کرنے کی صورت میں گھر سمیت آگ لگانے کی دہمکی بھی  دی۔[13][  جناب  زبیر  مخالفت کرتے ہوئے   باہر نکلے تو   ان کو گرفتار کر کے بیعت کے لیے مسجد لے جایا گیا۔( خذواسيفه واضربوابه الحجر ثم أتاهم عمرفأخذه ملل بيعة[14][

جب مخالفین کو گھر سمیت آگ لگانے کی دہمکی دی گئی تو وہ لوگ  مجبور ہوکر وہاں سے نکل کر مسجد میں بیعت کرنے  چلےگئے۔[15][15]یہاں تک کی  خود  علی بن ابیطالب ؑ کو بھی قتل کی دھمکی دی گئی(فقالوا له : بايع فقالإن أنا لم أفعل فمه:قالوا:إذا والله الذي لا إله إلا هو نضرب عنقك[16][

جناب فاطمہ ؑکے گھر میں زور سے داخل ہونے کا مسئلہ خلیفہ کو بعد میں اتنا گراں گذرا  کہ  آخری عمر میں بھی افسوس کرتا تھا :  اے کاش میں ایسا نہ کرتا ، فاطمہ کے گھر کا پاس رکھتا(وددت أني لم أكن كشفت بيت فاطمةوتركته و  أن  أغلق علي الحرب[17] ۔

شاید یہی وجہ تھی کہ خلیفہ دوم بھی آخری عمر میں   اہل بیت ؑ کے ساتھ کئے ہوئے سلوک کی وجہ سے اپنے کو عذاب کا مستحق سمجھتا تھا [18] ۔

مدینہ سے باھر لوگوں سے بیعت کا واقعہ

اگر   اس سلسلے میں مدینے سے باہر   لوگوں سے بیعت لینے کی صورت حال کا بھی  جائزہ لیا  جائے تو  مالک بن نویرہ کی داستان نمایاں حیثیت کی حامل ہے ،قصہ یوں ہے :مالک بن نویرہ پیغمبر  اسلامؐ کی طرف  سے اپنے  قبیلے میں  لوگوں سے  زکات لینے پر مامور تھے۔ جب سقیفے  کی خبر ان تک پہنچی تو انہوں نے جناب ابوبکر  کو زکوۃ دینے سے انکار کیا،  اس پر خلیفہ نے ان سے جنگ کرنے کی قسم کھائی اور خالد بن ولید کی سرپرستی میں ان کے قبیلے  پر لشکر کشی  کا حکم دیا، جبکہ وہ  لوگ دین اسلام سے خارج نہیں  ہوئے تھے۔  اسی لئے ان لوگوں نے  نماز  خالد  کی اقتدا میں ادا کی ۔یہ  لوگ شہادتین کا اقرار  بھی کرتے تھے  اور   اصل  زکات  کے بھی  منکر نہیں تھے،بلکہ وہ لوگ  صرف ابوبکر کو اس مقام کا لائق نہ جانتے ہوئے زکات دینے سے انکار کررہے  تھے،لیکن لشکر کے کمانڈر نے ان سب کو پناہ دینے کے بعد وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  مردوں کو قتل کر کے مالک بن نویرہ کی بیوی کے ساتھ اسی رات ہمبستری کی ، جب اس واقعے   کی خبر مدینے   میں پہنچی  تو  خلیفہ نے  اصحاب  کی  رأی  کے بر خلاف ،  خالد  کے اس کام کو اس کی اجتہادی  غلطی قرار دیا[19] ۔

جیساکہ ان کے علاوہ بھی  بہت سے ایسے لوگوں  سے   جنگ کی گئی جنہوں نے   سقیفے کے اس انتخاب پر اعتراض کیا  اور جناب ابوبکر کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا ان میں سے بہت سے لوگ باقاعدہ طور  پر اہل بیت کی حمایت اور اطاعت کا  اعلان بھی  کرتے تھے[20][  لیکن انھیں بھی مرتد کہا گیا ۔

 

مخالفین کیا کرسکتے تھے ؟

 

یقینا اس طریقے سے مخالفین کو کچلنے کی  کوشش کرنے  کی وجہ سے بہت سے مخالفین نے اپنی  خاموشی میں ہی مصلحت دیکھی، یہ الگ بات ہے کہ سقیفےکی حمایت کرنےوالے آج صرف اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر  جانشینی کے مسئلے میں اصحاب غلطی کے مرتکب ہوچکے  ہوتے تو  دوسروں کو چاہیے تھا کہ اس کام سے انھیں روک دیتے  ،لیکن اس قسم کے کامو ں کے مرتکب خالد   جیسے افراد کے جرائم انھیں دکھائی نہیں دیتے ۔

لہذا تاریخی شواہد کے مطابق سقیفہ اور سقیفے  کے بعد  خلیفہ  کے انتخاب   کے مسئلے میں اجماع نام کی کوئی چیز  واقع نہیں ہوئی  ،  نہ اصحاب  سے مشورہ  لیا گیا اور  نہ  ہی کسی کو  آزادی سے بحث اور انتخاب کا موقع فراہم کیا گیا، خصوصا آنحضرت ؐ کے خاندان والوں کو سرے سے ہی  اس امر  سے  بے دخل رکھا گیا ۔ اس سلسلے میں  کسی کے اعتراض پر کان تک نہیں دھرا ۔

  عجیب بات  تو یہ ہے کہ بعد میں اس کو اصحاب کا اجماع کہہ کر متعارف کرایا اور اسے  شرعی حیثیت دے دی گئی،  بیعت لینے کو بیعت کرنے سے تعبیر کیا گیا  ، یہاں تک کہ جس چیز کو  خلیفہ دوم نے  ناگہانی کام کہا تھا اس کے مطابق عقیدہ رکھنا ،ایمان کا معیار اور میزان قرار  پایا  .

 


 
منابع کی فہرست :
 

[1][1]۔وكانت بنوفزاره  وأسد يقولون و الله لانبایعاباالفضیلیعنونابابکر۔ ابوحاتم محمد بن حبان بن أحمد الثقات، ج 2، ص 166/  تاريخ الطبري، ج 2، ص 261

تخلف عن بيعة أبي بكر يومئذ سعد بن عبادة وطائفة من الخزرج وعلي بن أبي طالب وابناه والزبير ...

الرياض النضرة في مناقب العشرة، ج2، ص 214،/ سمط النجوم العوالي ، ج 2، ص 332،

أن الأنصار خالفونا واجتمعوا بأسرهم في سقيفة بني الخزرج و علی بن ابی طالب  ساعدة وخالف عنا علي والزبير ومن معهما - صحيحالبخاري (6/ 2503)

تخلف عن بيعة أبي بكر يومئذ سعد بن عبادة وطائفة من وابناه والزبير والعباس عم رسول الله وبنوه من بني هاشم وطلحة وسلمان وعمار وأبو ذر والمقداد وغيرهم وخالد بن سعيد بن العاص ۔/ سمط النجوم العوالي  ، ج 2، ص332/ المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص107/ تاريخ اليعقوبي، ج2، ص 124 تاريخ ابن الوردي (1/ 134)

كان أبان أحد من تخلف عن بيعة أبي بكر لينظر ما يصنع بنو هاشم / أسد الغابة (1/ 22   التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة (1/ 35،  

ان خالد بن سعيد لما قَدِمَ مِنَ الْيَمَنِ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَرَبَّصَ بِبَيْعَتِهِ شَهْرَيْنِ

/ تاريخ الطبري (3/ 387)

 

.[2][2]تاريخ الطبري [2 /233] الكامل في التاريخ [2 /189] فقالت الأنصار أو بعض الأنصار لا نبايع إلا عليا/ شرح نهج البلاغة [ ج ،۱ ص 348]

 

[3][3]۔صحيح البخاري (6/ 2503) مسند أحمد (1/ 56) صحيح ابن حبان (2/ 157)

 - [4][4]مصنف ابن أبي شيبة [14 /566] السيرة الحلبية [3 /482]فتح الباري - ابن حجر [7 /32] المسند الجامع [32 /187]  تاريخ ابن خلدون [2 /487]الكامل في التاريخ [3 /444]  نهاية الأرب في فنون الأدب [5 /183]تاريخ الطبري [2 /459]

 

[5][5]۔ صحيح ابن حبان (2/ 147) تاريخ دمشق (30/ 283)

-[6][6]تاريخ الطبري - (2 / 244)

 

[7][7]تاريخ الطبري - (2 / 244)السيرة الحلبية [3 /483]  الكامل في التاريخ [1 /361]  

 

- [8][8]نهاية الأرب في فنون الأدب ـ (19 / 22) المنتظم - (1 / 434) فتحالباري - ابن حجر - (7 / 31)  تاريخ الطبري [2 /244]

 

- [9][9]فتح الباري [7 /31] سمط النجوم العوالي - (1 / 375) الاكتفاء بما تضمنه من مغازي [2 /355] سبل الهدى والرشاد [12 /313]

 

-[10][10]تاريخ الطبري [2 /459] نهاية الأرب في فنون الأدب ـ [19 /21] الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي، ج 14، ص 99،

 

-[11][11]الكامل في التاريخ [2 /194] شرح نهج البلاغة - ابن ابي الحديد [ص 366]

 

- [12][12]نثر الدر [1 /87] السقيفة وفدك [4 /3]  شرح نهج البلاغة - ابن ابي الحديد [ص 210]

 

[13][13]۔ إِنِ اجْتَمَعَ هؤُلاَءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ أَنْ آمُرَ بِهِمْ أَنْ يُحْرَقَ عَليْهِمُ الْبَيتُ. /    المصنف، ج 7، ص 432، ح37045،)، كنز العمال ، ج 5، ص 259، جامع الاحاديث ، ج 13، ص 267.

إن أبا بكر بعث عمر بن الخطاب إِلى علي ومن معه ليخرجهم من بيت فاطمة رضي الله عنها، وقال: إِن أبوا عليك فقاتلهم. فأقبل عمر بشيء من نار على أن يضرم الدار، فلقيته فاطمة رضي الله عنها وقالت: إِلى أين يا ابن الخطاب؟ أجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم -  المختصر في أخبار البشر (1/ 107

فقالت فاطمة: يابن الخطاب! أتراک محرّقا عليّ بابي؟! قال: نعم/ أنساب الأشراف، ج1، ص252.

والله لأحرقن عليكم أو لتخرجن إلى البيعة / تاريخ الطبري، ج2، ص233

 

-[14][14]تاريخ الطبري [2 /233] الكامل في التاريخ [2 /189] الامامة والسياسة [1 /19] نهاية الأرب في فنون الأدب [19 /23]

 

  -[15][15]فانصرفوا  عنها فلم يرجعوا إليها حتى بايعوا لابي بكر- مصنف ابن أبي شيبة [8 /572] الإستيعاب في معرفة الأصحاب [1 /298] الوافي بالوفيات [5 /428] نهاية الأرب   [19 /24] أتى عمر بن الخطاب منزل .. فقال : والله لأحرقن عليكم أو لنخرجن إلى البيعة/

 تاريخ الطبري [2 /116]

 

[16][16]۔ قال : إذا تقتلون عبد الله وأخا رسوله . وأبو بكر ساكت لا يتكلم / الإمامة والسياسة، ج 1، ص 16

   حديث أبي بكر رضي الله عنه أنه قال: لا يفعل خالد ما أمر به، سألت الشريف عمر بن إبراهيم الحسيني بالكوفة عن معنى هذا الاثر فقال: كان أمر خالد بن الوليد أن يقتل عليا ثم ندم بعد ذلك فنهى عن ذلك. ۔ الأنساب للسمعاني (3/ 95)

 

 - [17][17]المعجم الكبير [1 /62] شرح نهج البلاغة - ابن ابي الحديد [ص 5733 تاريخ دمشق [30 /421] الأحاديث المختارة [1 /10] تاريخ الإسلام للإمام الذهبي [3 /118] تاريخ الطبري [2 /619] العقد الفريد [2 /78]مروج الذهب [1 /290] الأموال لابن زنجويه [1 /387]

 

[18][18]۔ جب جناب خلیفہ دوم زخمی حالت میں رو رہا تھا تو ابن عباس نے انھیں  رسول اللہ کے صحابی ہونے اور جناب ابو بکر کے  ساتھی ہونے کے زریعے ، تسلی دینا چاہا تو خلیفہ دوم نے کہا یہ سب درست ہے لیکن میں جس چیز کی وجہ سے رورہا ہوں وہ تمہاری اور تمہارے خاندان کی وجہ سے ہے ، قسم بخدا میں آرزو کرتا ہوں کہ یہ سارے کرہ ارض سونا بن جاتا اور وہ سب میں راہ خدا میں سخاوت کرتا ، قبل اس کے کہ عذاب خدا میرے اوپر نازل ہوتا  ۔

فإنما ذاك من من الله تعالى من به علي وأما ما ذكرت من صحبة أبي بكر ورضاه فإنما ذاك من من الله جل ذكره من به علي وأما ما ترى من جزعي فهو من أجلك وأجل أصحابك والله لو أن لي طلاع الأرض ذهبا لافتديت به من عذاب الله عز و جل قبل أن أراه۔

 صحيح البخاري (3/ 1350)،کتاب فضائل صحابه ،باب مناقب عمربن الخطاب

3-تاريخ الإسلام لذهبي، ج 3 ص 36 /الكامل في التاريخ،  ج 2 ص 217/ وفيات الأعيان،  ج 6 ص 15

[20][20]۔اس سلسلے میںچندنمونے: الْحَارِثُ بْنُ مُعَاوِيَةَ::

 لا وَاللَّهِ، مَا أَزَلْتُمُوهَا عَنْ أَهْلِهَا إِلا حَسَدًا مِنْكُمْ لَهُمْ  وَمَقَالُنَ ا أَنَّ النَّبِيَّ مُحَمَّدًا ... صَلَّى عَلَيْهِ اللَّهُ غَيْرُ مُكَلِّفِ

- إِنْ كَانَ لابْنِ أَبِي قُحَافَةَ إِمْرَةٌ ... فَلَقَدْ أَتَى فِي أَمْرِهِ بِتَعَسُّفِ

 - أَمْ كَيْفَ سَلَّمْتَ الْخِلافَةَ هَاشِمٌ ... لِعَتِيقِ تَيْمٍ كَيْفَ مَا لَمْ تَأْنَفِ

كتاب الردة للواقدي (ص: 177) الفتوح ابن الاعصم الکوفی ،ج 1 ص 58/ 60

حَارِثَةُ بْنُ سُرَاقَةَ ۔۔قَالَ۔۔،نَحْنُإِنَّمَاأَطَعْنَارَسُولَاللَّهِصَلَّىاللهعليهوآلهوَسَلَّمَإِذْكَانَحَيًّا،وَلَوْقَامَرَجُلٌمِنْأَهْلِبَيْتِهِلأَطَعْنَاهُ، وَأَمَّا [ابْنُ] أَبِي قُحَافَةَ فَمَا لَهُ طَاعَةٌ فِي رِقَابِنَا وَلا بَيْعَةٌ ۔۔۔كتاب الردة للواقدي (ص: 171)

أطعنا رسول الله ما كان بيننا ... فيا لعباد الله ما لأبي بكر

أيورثها بكراً إِذا مات بعده ... وتلك لعمر الله قاصمة الظهر

المختصر في أخبار البشر (1/ 187) تاريخ الطبري (3/ 246) البداية والنهاية (6/ 313)

فقلت خذوا أموالكم غير خائف ... ولا ناظر فيما يجيء من الغد

فإن قام بالدين المحوق قائم ... أطعنا وقلنا الدين دين محمد۔

 المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام (18/ 453) كتاب الردة للواقدي (ص: 105)





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی