2024 March 29
اصحاب کا پیغمبر [ص] کے ساتھ طرز عمل ؛
مندرجات: ٢١٣٩ تاریخ اشاعت: ٣٠ November ٢٠٢١ - ١٧:٠٦ مشاہدات: 1771
یاداشتیں » پبلک
اصحاب کا پیغمبر [ص] کے ساتھ طرز عمل ؛

اصحاب کا  پیغمبر [ص] کے ساتھ طرز عمل ؛

آج اگر ہم اصحاب کا احترام اور ان سے دفاع کو اپنے پر واجب جانتے ہیں تو یہ در حقیقت  اصحاب کی  خدمات اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کی وجہ سے ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی اس وقت تک حقیقت ایمان کی  لذت کو درک نہیں کرسکتا جب تک وہ  رسول پاک[ص] کی اطاعت اور پیروی کو واجب نہ جانتا ہو۔

قرآن کی کچھ آیات :

۱ : اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو خدا دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا. اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا [نساء  .۱۴].

۲:  اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی حکم دے تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں، جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا [  احزاب ۳۶] 

۳ ::   مومنو! خدا کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو [محمد ،۳۳]

چنانچہ یہ آیتیں رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   کی بے چوں چرا پیروی کے بارے میں قرآنی حکم  کی ایک جھلک  ہے کہ جن کے مطابق آپ کی نافرمانی  اور  آپ کی اطاعت سے منہ پھیر دینے والے کی گذشتہ نیکیاں برباد ہوجائیں گی اور  اسکا ٹھکانا بھی جہنم ہوگا، خواہ اس کا مصداق اصحاب ہو  یا کوئی اور   ہم اس مرحلہ میں  یہ دیکھنے کی کوشش کرینگے کہ اصحاب،  نبی اکرم  کی پیروی میں کس حد تک  مقید اور پابند تھے؟

  اگرچہ ایسا کہنا  سخت کہ ؛بعض  اصحاب  آپ کی پیروی اور اتباع  کو اہمیت نہیں  دیتے  تھے ،لیکن  تاریخی حقائق کے مطابق ان میں سے بعض نے   بہت سی جگہوں پر  آپ کے حکم کے برخلاف عمل کیا ہے ، ہم یہاں  ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں ؛

 اصحاب کا پیغمبر ص کے ساتھ رویہ :

1:  پیغمبر  اسلام ؐ اور  بہت سے اصحاب جب حج کے لئے مدینہ  سے نکلے، مکہ پہنچ کر  آپ نے حکم دیا کہ جو لوگ  اپنے ساتھ قربانی کے لیے جانور نہیں لائے ہیں  وہ حج کو عمرہ میں تبدیل کر  دیں،  جناب عمر سمیت  بعض اصحاب نے  اس حکم کو ماننے سے انکارکیا  ،آنحضرت کو   غصہ آیا اور کہنے لگے:  دیکھو  جو میں حکم دیتا ہوں اس پر عمل کریں؛ لوگوں نے آپ کی بات نہ مانی  ،آپ کو غصہ کی حالت میں دیکھ کر جناب عایشہ نے سوال کیا  کہ کس نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟  آپ نے فرمایا:  میں کیوں غصہ میں نہ آؤں، میں حکم دیتا ہوں لیکن لوگ اس پر عمل نہیں کرتے.(انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ فَغَضِبَ فَانْطَلَقَ...[1]

2: صلح حدیبیه کے موقع  پر بعض  اصحاب نے  اس  صلح کو ماننے سے انکار کیا  جناب خلیفہ دوم نے آپ پر   اعتراض بھی کیا یہاں تک کہ  آپ کی پیغمبری میں بھی  شک کرنے لگا اور  خلیفہ  اول کی وضاحت کے بعد خاموش ہوا . آنحضرت نے جناب خلیفہ دوم  کےجواب میں فرمایا: میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں میں اس کی مخالفت نہیں کرتا  ہوں( أنا عبد الله ورسوله، لن أخالف أمره ولن يضيعني[2] ۔

3:  . اسامہ بن زید کی  قیادت میں  لشکر کی روانگی کا مسئلہ:

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   نے آخری عمر میں  مسلمانوں کو  اسامہ کی قیادت میں روم کی طرف حرکت کرنے کا حکم دیا ، انصار اور مہاجرین میں  سے بڑے بڑے اصحاب کو خاص کر جناب خلیفہ اول اور دوم  اور ابو عبیدہ جراح کو  اسامہ کی قیادت میں جانے کا حکم دیا[3] . لیکن  ان تینوں سمیت بہت سے اصحاب نے اس میں شرکت نہیں  کی، جس پر آپ ان سے ناراض ہوئے  اور آپ  بیماری کی حالت میں  مسجد   گیے اور   فرمایا؛ أيها الناس فما مقالة بلغتني عن بعضكم في تأميري أسامة [4].

یہاں پیغمبر اسلام ؐ ایک طرف اپنی وفات کی خبر دے  رہے  ہیں تو  دوسری طرف بڑے بڑے اصحاب کا نام لے کر انہیں  مدینہ سے باہر جانے کا حکم دیتے  ہیں اور  جنکا خاص طور  سے نام لیا گیا تھا وہ لوگ اس لشکر میں شرکت تک نہیں کرتے اور بعد  میں سقیفہ میں آکر  خاص کرداربھی ادا  کرتے ہیں .

 یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے  کہ  جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جناب خلیفہ اول اور دوم کو  پیغمبر ؐکے پاس  ایک خاص مقام تھا اور وہی لوگ اصحاب میں سے سب سے زیادہ آنحضرت کے جانشینی کے لائق تھے ،اگر یہ حقیقت پر مشتمل ہے تو پیغمبر اکرمؐ نے آپنے آخری عمر میں انہیں شہر سے باہر جانے کا حکم کیوں دیا ؟  کیا سب سے قریبی اور جانشینی کے لائق افراد کو موت کے وقت اپنے سے دور  جانے کا حکم دیا جاتا ہے  یا قریب رہنے کی سفارش کی جاتی ہے  ؟

4 .. قلم و قرطاس کا مسئلہ :

پیغمبر اکرم ؐنے   اپنے  آخری لمحات میں لوگوں کو  کاغذ اور قلم لانے کا  دستور  دے کر  فرمایا:  تاکہ   ایک ایسی سند لکھ  دوں کہ میرے بعد تم لوگ گمراہ  نہ ہو جاؤ،  اس پر گھر میں موجود افراد  میں اختلاف ہوا ، خلیفہ دوم  کہنے لگا کہ پیغمبر پر مرض کا غلبہ ہوا ہے  خدا کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے [5] پیغمبر کو لوگوں کی اس نافرمانی اور اختلاف پر غصہ آیا اور آپ نے فرمایا   ؛  یہاں  سے  نکل جاؤ میرے پاس لڑائی جھگڑا  کرنا صحیح نہیں ہے[6] .

یہاں پر بھی  بعض  افراد اس کام  کے   انجام تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں .سوال یہ ہے کہ اصحاب پیغمبر کو آپ کے اس اہم خواہش  کے سلسلے میں کیسا رد عمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ؟ ہم اصحاب کے بارےمیں آنحضرت کی  اس خواہش کے سلسلے میں کیا توقع رکھتے ہیں ؟  تعجب کا مقام یہ ہے کہ  آنحضرت کی طرف بیماری کی وجہ سے ہزیان گوئی کی نسبت دی  جاتی ہے اور ان کی اس خواہش کو پورا  ہونے نہیں دیا جاتا ہے، آنحضرت بھی انہیں گھر سے نکال دیتے ہیں ،  جناب عمر  کا خصوصی طور پر  اس کام میں رکاوٹ بننے کی وجہ کیا تھی  ؟   آخر آنحضرت کیا لکھنا چاہتے تھے  اور ان لوگوں کو کس چیز کا خوف تھا کہ  جس کی بنا پر  وہ  پیغمبر کی طرف ہذیان کی نسبت دے کر ان کے اس کام کو بے اہمیت بنادے؟

5:  رسول پاک کی احادیث نقل کرنے پر پابندی .

شاید اصحاب کے بارے میں  اس بات کو قبول کرنا بہت  ہی سخت ہو کہ انہوں نے سنت پیغمبر کے نقل  کرنے پر بھی  پابندی لگا کر سنت کو نقل کرنے والوں پر سختی کی ہے جبکہ  سنت کو ٹھکرانا خود حکم خدا کو ٹھکرانا ہے.

 لیکن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خلیفہ اول اور دوم کے دور میں خاص طور پر  خود ان کی طرف سے سنت کی نقل پر پابندی لگائی گئی یہاں تک کہ بعض لوگوں نے خلیفہ دوم سے مخاطب ہو کر کہا : اے ابن خطاب  ؛ رَسُولِ اللَّهِ کے  اصحاب  کے لئے سختی اور   عذاب کا باعث  نہ بنیں «فَلاَ تَكُنْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ عَذَابًا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ [7].

چنانچہ  خلیفہ دوم سے  اس کام کی توجیہ میں مندرجہ ذیل کلمات نقل ہوئے ہیں.:

الف-  وإني والله لا أشوب كتاب الله بشيء أبدا[8] میں خدا کی کتاب کو کسی اور چیز کے ساتھ نہیں ملاؤں گا .

ب- لا كتاب مع كتاب الله [9] خدا کی کتاب کے ساتھ کوئی اور کتاب نہیں ہوگی

ج- مثناة  كمثناة أهل الكتاب [10] اہل کتاب کے علماء کی مکتوبات کی طرح کوئی مکتوب کی ضرورت نہیں .

د- عِنْدَكُمْ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ .[11]   تمہارے  پاس قرآن ہے اور  ہمارے لیے خدا کی کتاب کافی ہے{یعنی سنت کی ضرورت نہیں}لوگ اصحاب سے احادیث سننا چاہتے تھے اصحاب کہتے تھے  عمر نے ہمیں حدیث نقل کرنے سے منع کیا ہے :نهانا عمر،[12]

جناب عایشه  کہتی ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے اپنی جمع کی ہوئی پانچ سو احادیث کو طلب کیا اور سب کو جلا دیا[13] خلیفه دوم نے بھی اصحاب کے پاس موجود لکھی ہوئی احادیث کو جمع کرایا اور  بعد میں سب کو جلا دیا [14]. چنانچہ سنت کی نقل پر پابندی کا سلسلہ عمر بن عبد العزیر کے دور تک جاری رہا [تقریبا  اسی سال سے زیادہ کا عرصہ ] .لیکن ان تمام باتوں کے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ جو  ان خلفاء کی پیروی کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو اہل سنت کہتے ہیں.  کیا پیغمبر کی سنت کے نقل پر پابندی  لگنی چاہئے تھی  یا قرآنی کے مطابق اس کی حفاظت کا بند و  بست  ہونا چاہئے  تھا ؟

6: متعہ حج اور متعہ نساء  کی حرمت کو رواج دے کر  قرآن اور سنت پیغمبر کی مخالفت کرنا :

گرچہ یہ مشہور ہے کہ خاص کر   متعہ نساء  کا حرام ہونا  سنت  پیغمبر کی رو سے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ دوم نے اسےحرام قرار دیا ہے، جیساکہ اس سلسلے میں خلیفہ دوم سے کئی  جملے نقل ہوئے ہیں: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ وَأَصْحَابُهُ وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعْرِسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ ثُمَّ يَرُوحُونَ فِي الْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ [15] یعنی مجھے معلوم ہے کہ اس کو رسول پاک  اور ان کے اصحاب نے انجام دئے ہیں لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ لوگ غسل کا پانی  لے کر حج کرے.

خلیفہ دوم کہتا تھا ؛ دو متعے{ متعہ حج اور متعہ نساء} رسول اللَّه کے زمانہ میں  حلال تھا میں ان دونوں کو حرام قرار دیتا ہوں «متعتان كانتا على عهد رسول اللَّه وأنا أنهى عنهما وأُعاقب عليهما»[16]

اسی طرح نقل ہوا  ہے ؛  اللہ کی قسم میں متعہ  سے روکتا ہوں اور بتحقیق  اس کا حلال ہونا کتاب خدا کی رو سے ہے اور رسول خدا نے اس کو انجام بھی  دیا ہے[17]۔

خلیفہ دوم  نے اس سلسلے میں  اصحاب  کی اعتراض کے  جواب میں کہا [انا زمیل محمد][18]{صاحبان عقل خلیفہ کے  جملہ پر غور کریں}  

صحابی  پیغمبر  جناب جابر بن عبدالله انصاری سے منقول ہے کہ  ہم رسول اللہ ؐ کے زمانے میں اس کو انجام دیتے تھے  لیکن عمر نے عمرو بن حریث کے بارے میں اس سے منع کیا.[19]۔

آپ  نےاس بات  کی تصریح کی کہ  یہ رسول پاک، جناب ابوبکر حتی خود خلیفہ دوم کے دور خلافت کے شروع میں جائز تھا بعد میں خلیفہ دوم نے اس کو حرام قرار دیا [20]

    صحابی  پیغمبر  عمران بن حصین  سے بھی نقل ہواہے ، وہ کہتا تھا :  متعہ حلال ہونے کی آیت خدا کی کتاب میں ہے اور ہم نے بھی رسول اللہ ؐ کے زمانہ میں اس کو انجام دیا ہے اور قرآن میں کوئی ایسی آیت بھی نازل نہیں ہوئی جو اس کام سے لوگوں کو  منع کرے ،یہاں تک کی پیغمبر نے رحلت فرمائی،  ایک مرد نے اپنی مرضی سے جو کہنا تھا کہہ دیا [21]۔

اصحاب میں سے  امام علیؑ ، ابن عباس اور سعيد بن المسيب  زنا عام ہونے کی علت  خلیفہ دوم کی طرف سے متعہ پر پابندی کو قرار دیتے تھے [22].

بہت سے اصحاب  رسول پاک ؑ کے زمانے  اس کے حرام نہ ہونے کی تصریح کرتے اور  اس کے جائز ہونے کا فتوی دیتے ، دوسروں کی مخالفت کی پروا نہیں کرتے[23].جیساکہ امام علیؑ نے  متعہ حج کے بارے میں   خلیفہ دوم کی اس کام  کو واضح طور پر  سنت  کی مخالفت قرار دیتے ہوئے خلیفہ سوم  کی بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا ؛ میں کسی اور کی وجہ سے سنت رسول اللہ  سے ہاتھ نہیں اٹھا سکتا اس پر خلیفہ سوم سخت ناراض ہوا [24] ۔

تابعین میں سے بھی بہت سارے متعہ  کے حلال ہونے کا قائل تھے[25] جیساکہ ابن حزم اندلسی  نے اپنی کتاب ’’الایصال‘‘میں اس کے حلال ہونے کے بارے میں اصحاب اور تابعین کے اقوال کو نقل کیا ہے .

: 7

خلیفہ دوم آنحضرت سے زیادہ دین شناسی اور دین  کے ساتھ اخلاص اظہار کرتا تھا :

پیغمبر ص نے ابوھریرہ سے فرمایا : فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ.

جاو اور جو بھی لا الہ الا اللہ کی گواہی دئے اور دل و جان سے اس کو قبول کرئے تو اس کو جنت کی بشات دو  ۔

خلیفہ دوم نے آکر انحضرت کو اس کام سے روکنا چاہا ؛

قَالَ فَلاَ تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ[26].

 

عمر نے کہا: آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ایسا نہ کیجئیے کیونکہ میں ڈرتا ہوں، لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے ان کو عمل کرنے دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ان کو عمل کرنے دو۔

 

بخارى نے نقل کیا ہے :

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبد بن ابی کا نماز جنازہ پڑھنا چاہتے تھے لیکن خلیفہ دوم نے آپ کو اس کام سے منع کیا   

فَقَالَ (رسول اللّه لابن عبد اللّه بن أبي) آذِنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ. فَآذَنَهُ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَذَبَهُ عُمَرُ رضى الله عنه فَقَالَ: أَلَيْسَ اللَّهُ نَهَاكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ؟.

رسول خدا (ص) نے  عبد الله بن أبى کے بیٹے سے فرمایا : مجھے اجازت دو میں تیرے بابا پر نماز بڑوں ۔اس نے بھی اجازت دی ،جس وقت نماز پڑھنے لگے اس وقت عمر نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھنچا اور کہا : کیا اللہ نے آپ کو منافقوں پر ناز پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے ؟

 دوسری جگہ بخاری میں نقل ہے :

ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي عَلَيْهِ، فَأَخَذَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِثَوْبِهِ فَقَالَ تُصَلِّي عَلَيْهِ وَهْوَ مُنَافِقٌ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لَهُمْ[27].

پيامبر جنازہ پڑھنے کے لئے گھڑے ہوئے ، عمر  ابن خطاب نے آپ کا لباس کھینچا اور کہا : اس پر نماز پڑھ رہے ہو جبکہ یہ منافق ہے ،جبکہ اللہ نے آپ کو منافقوں کے لئے استغفار کرنے سے منع کیا ہے .

اب کیا یہ طریقہ رسول خدا صلى الله عليه وآله کے ساتھ غلط رویہ اور غلط طریقہ نہیں ہے ؟ کیا عمر بن خطاب شریعت کے بانی سے زیادہ شرعی احکام سے واقف تھا ؟ کیا عمر  رسول خدا صلى الله عليه و آلہ وآله کے لئے ذمہ داری اور شرعی حکم کا تعین کرسکتا ہے ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شرعی حکم کا علم نہیں تھا ؟

اہل سنت کی معتبر کتابوں میں ایسے بہت سے نمونے موجود ہیں کہ جن کے مطابق خاص کر خلیفہ دوم رسول اللہ ص کی مخالفت کرتے تھے اور پھر اللہ کی طرف سے خلیفہ دوم کی حمایت اور رسول اللہ ص کی مخالفت میں آیت نازل ہوتی تھی ۔

تبصرہ :  

ان چند حقائق کو دیکھنے کے بعد کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اصحاب سب کے سب بافضلیت اور اللہ اور اللہ کے رسول کے سو فیصد فرمانبردار تھے؟ گذشتہ کے چند موارد کے علاوہ اور  بھی  بہت سے شواہد قطعی موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اصحاب میں سے بہت سے  باآثر  لوگ پیغمبر کی راے اور نظر کے مقابلہ میں اپنی نظر  اور رای کو زیادہ  اہمیت دیتے تھےاور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے[28]. لہذا   بعض اصحاب  کا  آنحضرتؐ   کی راے کے مقابلہ میں اپنی راے  کو ترجیح دینے کی  فکر اور قبیلہ ای تعصب کی فضاء، خاص کر  قریش کی  امام علیؑ سے دشمنی نے  بہت سے لوگوں کو  پیغمبر اکرمؐ کے  فرامین پر عمل کرنے کے جذبہ کو  عملی جامعہ پہنے نہیں دیا  ،اہل بیت امیر المومنین علیہ السلام کے جانشینی اور ان کی اطاعت کے مسئلے  میں  پیغمبر اکرمؐ کے  واضح فرامین  کو پس  پشت ڈال دیا۔

اہل بیت کی جانشینی کے بارے میں ہمارے موقف کو اصحاب کی شان میں گستاخی کہنے والوں سے ہم  یہ سوال کرتے ہیں کہ جس طرح سے بعض اصحاب نے مندرجہ بالا  موارد میں رسول اللہ ؐ کے فرمان کے برخلاف عمل کیا ہے کیا ممکن نہیں کہ جانشینی کے مسئلہ میں بھی اسی کام کے مرتکب ہویے ہوں ؟ خاصکر عرب کی فکری اور معاشرتی  بناوٹ کے لحاظ  سے تو  اس فرمان کی خلاف ورزی کے مواقع زیادہ تھے ۔ جیساکہ خود سقیفہ میں اصحاب کے درمیان ہونے والی گفتگو اس بات پر شاہد ہے.

لہذا یہ شبھہ یہاں پر ختم ہوجاتا ہے :  اصحاب کی تقدس اور شان کے مطابق اصحاب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین کی مخالفت قابل تصور ہی نہیں ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ اصحاب نے رسول اللہ ص کی مخالفت کی اور آپ کے فرامین پر عمل نہیں کیا ہو؟

جیساکہ دوسرے موارد میں بھی خاص کر اہل بیت ؐکے  بارے میں رسول پاک ؐکی فرامین  اور نصیحتوں پر عمل نہیں ہوا  ، قرآن اور سنت کی رو  سے  اہل بیت علیہم السلام  سے محبت اور ان  کا احترام سب پر واجب ہے [29]،ان سے دشمنی اور جنگ کو آپ نے اپنے ساتھ جنگ اور دشمنی سے تعبیر فرما کر امت کو  اس چیز  سے سختی  سے  منع فرمایا تھا [30]۔ لیکن  ان میں سے کسی بھی فرمان پر عمل نہیں ہوا .اور اگر  عمل ہوا ہے تو کیوں اہل بیت  کے گھر کو  آگ لگانے کی دھکی دی گئی ؟کیوں آپ کی  بیٹی جو جنت کے عورتوں کی سردار تھی،  غضبناک حالت میں دنیا سے چلی گئی ؟ کیا  جنگ جمل اور صفین حضرت علیؑ اور اہل بیت ؑکے بارے میں رسول پاکؐ کے فرامین کی خلاف ورزی نہیں تھی؟ اہل بیت سے محبت اور ان کی پیروی کو  جرم قرار دینا،ان پر سب و شتم کو رواج دینا [31]، ان سے اظہار برائت نہ کرنے کے جرم میں لوگوں کو قتل کرنا  ،کیا  رسول پاکؐ کے فرامین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟کیا یہ سب خود اصحاب  کی توسط سے انجام نہیں پایا؟

اسی طرح کیا دوسرے موارد میں رسول پاک ؐ کے سارے فرامین پر سو فیصد عمل ہوا ؟ کیا خود اصحاب کو  خصوصی طور پر ایک دوسرے  جنگ نہ کرنے  کا حکم نہیں دئے تھے [32]، کیا  خلیفہ سوم کے قتل[33] ،جنگ جمل اور جنگ صفین ان فرمامین کی خلاف ورزی نہیں تھی ؟

جیساکہ  ان چیزوں کی توجیہ میں اگر کوئی  یہ کہے کہ یہ سب دوسروں کی سازشوں کا نتیجہ تھا تو  اولا یہ باتیں خود ان بزرگ اصحاب کی شان میں گستاخی ہے ،ثانیا  کیا یہی توجیہات خود سقیفہ اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے توسط سے اہل بیت کو درکنار کرنے کے مسئلے میں نہیں کہی جاسکتی؟

یہاں  عجیب  بات یہ ہے کہ خلافت کے مسئلہ میں بعض اصحاب کی طرف سے رسول پاکؐ کی نافرمانی کے عقیدے  کو بہانا بنا کر شیعوں پر اصحاب کی توہین اور ان کی شان میں گستاخی کا الزام لگانے والے خود اپنی  معتبر کتابوں میں موجود  اسی سلسلے کے دسوں نمونوں پر نطر نہیں کرتے ہیں.

لہذا بہتر ہے کہ  بعض اصحاب کا رسول پاک ؐ کی دستور سے روگردانی کے عقیدے کو  شیعوں کا اصحاب سے دشمنی  کی دلیل بتانے والے  اپنی معتبر ترین کتابوں میں  موجود اس قسم کی نافرمانی والی باتوں پر بھی ایک نظر ڈالیں.تاکہ  شیعوں پر الزام تراشی اور اہل بیت کے بارے میں رسول پاکؐ کی معتبر احادیث کی منگڑت  غیر منطقی تفسیر اور توجیہ سے باز آئے.

 



[1] -سنن ابن ماجه [9 /65] مسند أبي يعلى [4 /243] مسند أحمد [4 /286] سنن النسائي [6 /56]

[2] - [2] مسند أحمد بن حنبل – ج 4 ص 323- تاريخ الطبري – ج 2 ص 122- ، مرويات الإمام الزهري في المغازي - ج2 ص 584- السيرة الحلبية - ج2 ص 706- السيرة النبوية لابن هشام – ج 4 ص 284}

[3] ۔  تاريخ الإسلام [ص 361] أسد الغابة [1 /41] غزوات الرسول وسراياه [ص 91] الطبقات الكبرى ج2 ص190-- السيرة الحلبية ج 3 ص227- 361-

[4] -{ عيون الاثر ،ج2 ص352--  نهاية الأرب في فنون الأدب- ج17 ص262-  مغازي الواقدي - ج3 ص 1119- الطبقات الكبرى لابن سعد – ج 2ص190- تاريخ مدينة دمشق - ج2 ص 55- السيرة الحلبية – ج 3 ص 228 - عمدة القاري شرح البخاري – ج 26 ص 376 }

-  [5]  لما حضر النبي صلى الله عليه و سلم قال وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب قال ( هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ) . قال عمر إن النبي صلى الله عليه و سلم غلبه الوجع وعندكم القرآن . فحسبنا كتاب الله . واختلف أهل البيت اختصموا ../صحيح البخاري - (6 / 2680)صحيح مسلم - (3 / 1257) مسند أحمد - (5 / 135) السنن الكبرى للنسائي - (4 / 360)

 -[6]{«قوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع- مصنف عبد الرزاق – ج 5 ص 438 - صحيح البخارى – ج 19 ص 73 صحيح مسلم – ج 5 ص 76 - السنن الكبرى للنسائي – ج 3 ص 433 - البداية والنهاية – ج 5 س 227 -- مسند أحمد بن حنبل – ج 1 ص 324 - صحيح ابن حبان – ج 27 ص 234}

[7] -صحيح مسلم – ج 6 ص 180 مسند الصحابة– ج 32 ص 174 - الأنوار الكاشفة - ج1 ص 69}

[8]   طبقات ابن‌سعد، ج3، ص206 كنز العمال  - ج 10 ص 292 - عصر الخلافة الراشدة – ج 1 ص 309 - ،جامع بيان العلم وفضله – ج 1 ص64

[9] - جامع الأحاديث – ج 26 ص 66 -كنز العمال - ج10 ص 292 - جامع بيان العلم وفضله – ج 1 ص 64}.

[10]{تاريخ الإسلام للذهبي ،ج2 ص 336 سير أعلام النبلاء ،ج5 ص59- الطبقات الكبرى،ج 5 ص 188 -

[11] {مسند أحمد - (5 / 135) صحيح مسلم - (3 / 1257) صحيح البخاري - (6 / 2680) السنن الكبرى للنسائي - (4 / 360)

[12]- المستدرك على الصحيحين ج 1 ص 183 - معرفة السنن والآثار للبيهقي –ج 1 ص146 مشكل الآثار للطحاوي – ج 13 ص 257  -جامع بيان العلم وفضله – ج 2 ص 239 -تذكرة الحفاظ ،ج1 ص١۲

[13]- - جامع الأحاديث - ج25 ص 120 كنز العمال - ج10 ص 285 - ، الرياض النضرة في مناقب العشرة    ج 1 ص 93

تذكرة الحفاظ للذهبي – ج 1 ص 11 – العمري، أكرم بن ضياء ، عصر الخلافة الراشدة – ج 1 ص 309

[14] - أن عمر بن الخطاب أراد أن يكتب السنة ثم بدا له أن لا يكتبها ثم كتب في الأمصار من كان عنده منها شيء فليمحه  - كنز العمال ،ج10 ص 292- تقييد العلم ،ج1 ص 53- أبو خيثمة ،زهير بن حرب، العلم ،ص 11-جامع بيان العلم وفضله ،ج1 ص،274

[15] ۔ صحيح مسلم [6 /256] تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح  - مسند أحمد بن حنبل [1 /50] مسند البزار [1 /58] السنن الكبرى للنسائي [2 /349]قال الشيخ الألباني : صحيح سنن ابن ماجه [2 /992] 35 قال الشيخ الألباني : صحيح سنن النسائي - بأحكام الألباني [5 /153]

[16]   شرح معاني الآثار (2/ 144) مستخرج أبي عوانة - (4/ 258): إسناده صحيح على شرط مسلم رجاله ثقات رجال الشيخين غير أبي نضرة فمن رجال مسلم۔ مسند أحمد بن حنبل (1/ 52) مسند الفاروق (1/ 398) المسند الجامع (13/ 543) رواه أبو يعلى بسند صحيح ، ومسلم في صحيحه باختصار۔. إتحاف الخيرة المهرة (3/ 173 السنن الكبرى للبيهقي [5 /22]۔- كنز العمال - ج16 ص521 -تفسير القرطبي، ج2 ص  370 ، تفسیر الکبیر ج ‏2 ص 167}المحلى (7/ 107)

  -[17]: والله إنى لانهاكم عن المتعة وإنها لفى كتاب الله وقد فعلها النبي صلى الله عليه وسلم.}. إسناده جيد --السيرة النبوية لابن كثير [4 /252:--صحيح الإسناد--  سنن النسائي] تحقيق الألباني [6 /308] البداية والنهاية [5 /146]

-[18] - تاريخ الطبري ،ج2 ص579- غريب الحديث لابن قتيبة ،ج1 ص585- الزمخشري ،محمود بن عمر ،الفائق في غريب الحديث و الأثر ،ج2 ص 11

[19]  كُنَّا نَسْتَمْتِعُ بِالْقَبْضَةِ مِنْ التَّمْرِ وَالدَّقِيقِ الْأَيَّامَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ وَأَبِي بَكْرٍ حَتَّى نَهَى عَنْهُ عُمَرُ فِي شَأْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ {صحيح مسلم- ج2 ص1022--مصنف عبد الرزاق، ج7 ص 500 – }

[20] ۔ نَعَمْ اسْتَمْتَعْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَبِي بَكْرٍ ، وَعُمَرَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ خِلاَفَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ / صحيح مسلم (2/ 1023) مسند أحمد (3/ 380) مصنف عبد الرزاق الصنعاني (7/ 497)

[21] - أنزلت آية المتعة في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال رجل برأيه ما شاء -{ صحیح بخاری  کتاب التفسیر ، باب فمن تمتع ، - ج4 ص 1642}

[22] ۔ عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه أنه قال : لولا أن عمر نهى الناس عن المتعة ما زنى إلا شقي

تفسير الطبري (8/ 178) تفسير الثعلبي (3/ 286) التفسير الكبير (10/ 41)

. تفسير البحر المحيط (3/ 225) الدر المنثور في التفسير بالمأثور (2/ 486) التفسير الحديث (8/ 81 مصنف عبد الرزاق (7/ 500)14029  كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال (16/ 522)[ معمولی اختلاف کے ساتھ ]

عن بن عباس  «مَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ إِلَّا رَحْمَةً رَحِمَ اللهُ بِهَا هَذِهِ الْأُمَّةَ , وَلَوْلَا نَهْيُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْهَا مَا زَنَى إِلَّا شَقِيٌّ» شرح معاني الآثار (3/ 26) مصنف عبد الرزاق (7/ 496) تفسير القرطبي (5/ 130)

سعيد بن المسيب أنه قال رحم الله عمر لولا أنه نهى عن المتعة صار الزنى جهارا /  مصنف ابن أبي شيبة (3/ 551)

[23] ۔ ابو موسی ۔  أنه كان يفتي الناس في المتعة فقال له رجل : رويدك ، بعض فتياك فإنك لا تدري ما أحدث أمير المؤمنين في النسك صحيح مسلم [6 /256] تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح  - مسند أحمد بن حنبل [1 /50] السنن الكبرى للنسائي [2 /349]: سنن ابن ماجه [2 /992]

 ابْنَ عَبَّاسٍ: سُئِلَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ «فَرَخَّصَ»، فَقَالَ لَهُ مَوْلًى لَهُ: إِنَّمَا ذَلِكَ فِي الحَالِ الشَّدِيدِ، وَفِي النِّسَاءِ قِلَّةٌ؟ أَوْ نَحْوَهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «نَعَمْ» صحيح البخاري (7/ 12)

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَامَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: «إِنَّ نَاسًا أَعْمَى اللهُ قُلُوبَهُمْ، كَمَا أَعْمَى أَبْصَارَهُمْ، يُفْتُونَ بِالْمُتْعَةِ»، يُعَرِّضُ بِرَجُلٍ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَجِلْفٌ جَافٍ، فَلَعَمْرِي، لَقَدْ كَانَتِ الْمُتْعَةُ تُفْعَلُ عَلَى عَهْدِ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ - يُرِيدُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ لَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ: «فَجَرِّبْ بِنَفْسِكَ، فَوَاللهِ، لَئِنْ فَعَلْتَهَا لَأَرْجُمَنَّكَ بِأَحْجَارِكَ»،

 صحيح مسلم (2/ 1026)

عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، فَأَتَاهُ آتٍ، فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ اخْتَلَفَا فِي الْمُتْعَتَيْنِ، فَقَالَ جَابِرٌ: «فَعَلْنَاهُمَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَهَانَا عَنْهُمَا عُمَرُ،  » صحيح مسلم (2/ 1023)

سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الْمُتْعَةِ وَأَنَا عِنْدَهُ مُتْعَةِ النِّسَاءِ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا كُنَّا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَانِينَ وَلَا مُسَافِحِينَ  /مسند أحمد (11/ 473) مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (7/ 333)مسند أبي يعلى الموصلي (11/ 463، المسند الجامع (10/ 300)

. وعلى هذا جماعة من أهل البيت والتابعين / تفسير البحر المحيط ـ (3/ 175) أبو حيان محمد بن يوسف بن علي بن يوسف بن حيان أثير الدين الأندلسي (المتوفى: 745هـ)

  . [24] أنَّ عثمان كان ينْهَى عن المتُعَةِ ، وأن يُجمَع بيْنَ الحجَّ والعُمْرَةِ ، فقال عليُّ : لبَّيْكَ بِحَجَّةٍ وعمرةِ معا ، فقال عثمانُ : أتَفْعَلُها وأنا أنْهى عنها ؟ فقال عليُّ :« لم أكُنْ لأِدَعَ سُنَّةَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لأِحَدٍ من النَّاس ».

 جامع الأصول من أحاديث الرسول (أحاديث فقط) [3 /1396] سنن الدارمى [6 /55] شرح معاني الآثار [2 /140] - صحيح البخارى [6 /130] صحيح مسلم [4 /46] السلسلة الصحيحة 1-9 [2 /108]

[25] ۔ وَمِنْ التَّابِعِينَ: طَاوُوس، وَعَطَاءٌ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَسَائِرُ فُقَهَاءِ مَكَّةَ أَعَزَّهَا اللَّهُ / المحلى (9/ 520)

[26] ۔  صحيح مسلم، ج 1، ص 44، ح 54، (باب من لقى الله بالايمان و هو غير شاك)،  

 

[27] البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1716، ح4395، كتاب التفسير، باب ولا تُصَلِّ على أَحَدٍ منهم مَاتَ أَبَدًا ولا تَقُمْ على قَبْرِهِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987 .

[28] ۔تفصیل کے لئے  علامہ شرف الدین عاملی کی کتاب’’الاجہاد و النص ‘‘ کی طرف مراجعہ کریں۔

[29] ۔{شوری،‌23}

فرمان پیغمبر: وَأَحِبُّوا أهل بيتى بحبى سنن الترمذى [12 /260]. المعجم الكبير [3 /46] جامع الأصول

[30] - نظر النبي صلى الله عليه و اله و سلم إلى علي و فاطمة و الحسن و الحسين فقال : أنا حرب لمن حاربكم و سلم لمن سالمكم -  المستدرك على الصحيحين للحاكم [3 /161] صحيح ابن حبان [15 /433] مسند أحمد [15 /436] مسند ابن أبي شيبة [2 /38] المعجم الكبير [5 /184]

حرمت الجنة على من ظلم أهل وآذاني في عترتي    ---

الجامع لأحكام القرآن [16 /22]الكشاف [6 /191]  تفسير النيسابوري [6 /467]

و الذي نفس بيده لا يبغضنا أهل البيت أحد إلاأدخله الله النار -- هذا حديث صحيح على شرط مسلم و لم يخرجاه المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص [3 /162] 2488 صحيح -السلسلة الصحيحة - مختصرة [5 /643] قال شعيب الأرنؤوط : إسناده حسن- صحيح ابن حبان [15 /435]صحيح ابن حبان [28 /497] سير أعلام النبلاء [2 /123] 

۔امام علی کے بارے میں فرمایا ؛, اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ}{المعجم الكبير - ج4 ص 16 - سنن النسائي الكبرى - ج5 ص 134-   مسند أحمد - ج2 ص 468- مصنف ابن أبي شيبة – ج 6   

لا يبغضك مؤمن ولا يحبك منافق  - مسند أحمد بن حنبل [6 /292] مسند أبي يعلى [1 /250]  السنن الكبرى للنسائي [5 /137] سنن ابن ماجه [1 /127] سنن الترمذى [12 /198] 

- من سب عليًّا فقد سبني/  السنن الكبرى للنسائي [5 /133 المستدرك على الصحيحين [3 /130] مسند أحمد بن حنبل [6 /323

[31] ۔ اسی فصل کے آخری بحث میں ملاحظہ کریں ۔

[32] ۔ أَلاَ لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِى كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ».{صحيح البخاري [4 /1598] صحيح مسلم [4 /2228]سنن الترمذي [4 /486]المعجم الكبير [2 /307]

[33] ۔سابقہ ایڈر’’اصحاب کا طرز عمل ’’





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی