2024 March 29
ولادت امام جواد (ع)، ولادت جود و سخا
مندرجات: ٦٩٢ تاریخ اشاعت: ١٢ February ٢٠٢٢ - ١٣:٤٥ مشاہدات: 7821
یاداشتیں » پبلک
ولادت امام جواد (ع)، ولادت جود و سخا

حالات زندگی 

اسم گرامی : محمد (ع)
لقب : جواد ، تقی
کنیت : ابو جعفر
والد کا نام : علی (ع)
والدہ کا نام : خیزران
تاریخ ولادت : 10 رجب 195 ہجری
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت: 17 سال
عمر مبارک : 25 سال
تاریخ شہادت : آخر ذیقعدہ 220 ہجری
شہادت کی وجہ : آپ کی زوجہ نے زہر دیکر شہید کیا تھا۔
روضہ اقدس : عراق ، کاظمین 
اولاد کی تعداد: 2 بیٹے اور2 بیٹیاں
بیٹوں کے نام : 1، علی 2، موسی مبرقع
بیٹیوں کے نام : 1، فاطمہ 2، امامہ
بیویاں :2 

انگوٹھی کے نگینے کا نقش : " حسبی اللہ"

ولادت:
10 رجب 195 ہجری کو مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی . اس وقت بغداد کے دار السلطنت میں ہارون رشید کا بیٹا امین تخت حکومت پر قابض تھا۔

نشو و نما اور تربیت:

 یہ ایک حسرت ناک واقعہ ہے کہ امام محمد تقی (ع) کو نہایت کمسنی ہی کے زمانے میں مصائب اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہونا پڑا تھا۔ انھیں بہت کم ہی اطمینان اور سکون کے لمحات میں باپ کی محبت، شفقت اور تربیت کے سائے میں زندگی گزارنے کا موقع مل سکا۔ آپ کا صرف پانچواں برس تھا کہ جب حضرت امام رضا ع مدینہ سے خراسان کی طرف سفر کرنے پر مجبور ہوئے تو پھر زندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا امام محمدتقی( ع) سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام رضا (ع )کی وفات ہو گئی۔ دنیا سمجھتی ہو گی کہ امام محمدتقی (ع) کے لیے علمی و عملی بلندیوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اس لیے اب امام جعفر صادق(ع) کی علمی مسند شاید خالی نظر آئے مگر خلق خدا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پہلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علماء سے فقہ حدیث، تفسیر اور کلام پر مناظرے کرتے اور سب کو قائل ہو جاتے دیکھا۔ اس کی حیرت اس وقت تک دور ہونا ممکن نہ تھی۔ جب تک وہ مادی اسباب کے آگے ایک مخصوص خدا وندی مدرسہ تعلیم و تربیت کے قائل نہ ہوتے، جس کے بغیر یہ معمّہ نہ حل ہوا اور نہ کبھی حل ہو سکتا ہے۔

عراق کا پہلا سفر:

 جب امام رضا (ع) کو مامون نے ولی عہد بنایا اور اس کی سیاست اس کی مقتضی ہوئی کہ بنی عباس کو چھوڑ کر بنی فاطمہ سے روابط قائم کیے جائیں اور اس طرح شیعیان اہل بیت (ع) کو اپنی جانب مائل کیا جائے تو اس نے ضرورت محسوس کی کہ خلوص و اتحاد کے مظاہرے کے علاوہ اس قدیم رشتے کے جو ہاشمی خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے ہے، کچھ جدید رشتوں کی بنیاد بھی قائم کر دی جائے چنانچہ اسی جلسہ میں جہاں ولی عہدی کی رسم ادا کی گئی، اس نے اپنی بہن ام حبیبہ کا عقد امام رضا (ع) کے ساتھ کیا اور اپنی بیٹی ام الفضل کی نسبت کا امام محمدتقی (ع) کے ساتھ اعلان کیا۔ غالباً اس کا خیال تھا کہ اس طرح امام رضا(ع) اپنے ہمنوا بنائے جا سکیں گے مگر جب اس نے محسوس کیا کہ یہ اپنے ان منصبی فرائض کو جو رسول کے ورثہ دار ہونے کی بنا پر ان کے ذمہ ہیں کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے اور اب عباسی سلطنت کارکن ہونے کے ساتھ ان اصول پر قائم رہنا مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں گوشہ نشینی کی زندگی بسرکرنے سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے تو اسے اپنے مفاد سلطنت کے تحفظ کی خاطر اس کی ضرورت ہوئی کہ وہ زہر دے کر حضرت ع کی زندگی کا خاتمہ کر دے مگر وہ مصلحت جو امام رضا (ع) کو ولی عہد بنانے کی تھی، یعنی ایرانی قوم اور جماعت شیعہ کو اپنے قبضے میں رکھنا وہ اب بھی باقی تھی۔ اس لیے ایک طرف تو امام رضا (ع) کے انتقال پر اس نے غیر معمولی رنج وغم کا اظہار کیا تا کہ وہ اپنے دامن کو حضرت کے خون ناحق سے الگ ثابت کر سکے، اور دوسری طرف اس نے اپنے اعلان کی تکمیل ضروری سمجھی کہ جو وہ امام محمدتقی( ع) کے ساتھ اپنی لڑکی سے منسوب کرنے کا کر چکا تھا، اس نے اس مقصد سے امام محمدتقی( ع) کو مدینہ سے عراق کی طرف بلوایا۔ اس لیے کہ امام رضا (ع) کی وفات کے بعد وہ خراسان سے اب اپنے خاندان کے پرانے دار السلطنت بغداد میں آ چکا تھا اور اس نے یہ ارادہ کر لیا کہ وہ ام الفضل کا عقد اس صاحبزادے کے ساتھ بہت جلد کر دے۔

علماء سے مناظرہ:

بنی عباس کو مامون کی طرف سے امام رضا (ع) کا ولی عہد بنایا جانا ہی ناقابل برداشت تھا امام رضا (ع) کی وفات سے ایک حد تک انھیں اطمینان حاصل ہوا تھا اور انھوں نے مامون سے اپنے حسب دلخواہ اس کے بھائی مؤتمن کی ولی عہدی کا اعلان بھی کرا دیا جو بعد میں معتصم بالله کے نام سے خلیفہ تسلیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ امام رضا ع کی ولی عہدی کے زمانہ میں عباسیوں کا مخصوص شعار یعنی کالالباس تبدیل ہو کر سبز لباس کا رواج ہو رہا  تھا، اسے منسوخ کر کے پھر سیاہ لباس کی پابندی عائد کر دی گئی، تا کہ بنی عباس کی روایات قدیمہ محفوظ رہیں۔ یہ باتیں عباسیوں کو یقین دلا رہی تھیں کہ وہ مامون پر پورا قابو پا چکے ہیں مگر اب مامون کا یہ ارادہ کہ وہ امام محمد تقی (ع) کو اپنا داماد بنائے، ان لوگوں کے لیے پھر تشویش کا باعث بنا۔ اس حد تک کہ وہ اپنے دلی رجحان کو دل میں نہ رک سکے اور ایک وفد کی شکل میں مامون کے پاس آ کر اپنے جذبات کا اظہار کر دیا۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ امام رضا کے ساتھ جو آپ نے طریقہ کار استعمال کیا وہی ہم کو ناپسند تھا۔ مگر خیر وہ کم از کم اپنی عمر اور اوصاف و کمالات کے لحاظ سے قابل عزت سمجھے بھی جا سکتے ہیں مگر ان کے بیٹے محمد تو ابھی بالکل کم سن ہیں ایک بچے کو بڑے بڑے علماء اور معززین پر ترجیح دینا اور اس قدر اس کی عزت کرنا ہرگز خلیفہ کے لیے زیبا نہیں ہے، پھر ام حبیبہ کا نکاح جو امام رضا (ع) کے ساتھ کیا گیا تھا اس سے ہم کو کیا فائدہ پہنچا تھا کہ جو اب ام الفضل کا نکاح محمد ابن علی علیہ السّلام کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

 مامون نے ان تمام تقریر کا یہ جواب دیا کہ محمد کمسن ضرور ہیں مگر میں نے خوب اندازہ کر لیا ہے، اوصاف و کمالات میں وہ اپنے باپ کے پورے جانشین ہیں اور عالم اسلام کے بڑے بڑے علماء جن کا تم حوالہ دے رہے ہو علم میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگر تم چاہو تو امتحان لے کر دیکھ لو۔ پھر تمہیں بھی میرے فیصلے سے متفق ہونا پڑے گا۔ یہ صرف منصفانہ جواب ہی نہیں بلکہ ایک طرح کا چیلنج تھا جس پر مجبورا ان لوگوں کو مناظرے کی دعوت منظور کرنا ہی پڑی حالانکہ خود مامون تمام سلاطین بنی عباس میں یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ مؤرخین نے اس کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں کہ :

کان بعد من کبار الفقھاء،

یعنی اس کا شمار بڑے فقیھوں میں ہوتا ہے۔

 اس لیے اس کا فیصلہ خود کچھ کم وقعت نہ رکھتا تھا، مگر ان لوگوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بغداد کے سب سے بڑے عالم یحییٰ بن اکثم کو امام محمد تقی (ع) سے بحث کے لیے منتخب کیا۔
مامون نے ایک عظیم الشان جلسہ اس مناظرے کے لیے منعقد کیا اور عام اعلان کرا دیا۔ ہر شخص اس عجیب اور بظاھر غیر متوازی مقابلے کے دیکھنے کا مشتاق ہو گیا جس میں ایک طرف ایک آٹھ برس کا بچہ تھا اور دوسری طرف ایک آزمودہ کار اور شہرۂ آفاق قاضی القضاة۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہر طرف سے خلائق کا ہجوم ہو گیا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ ارکان حکومت اور معززین کے علاوہ اس جلسے میں نو سو کرسیاں  فقط علماء و فضلاء کے لیے مخصوص تھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں اس لیے کہ یہ زمانہ عباسی سلطنت کے شباب اور بالخصوص علمی ترقی کے اعتبار سے زریں دور تھا اور بغداد دار السلطنت تھا جہاں تمام اطراف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین پہنچ کر جمع ہو گئے تھے۔ اس اعتبار سے یہ تعداد کسی مبالغہ پر مبنی معلوم نہیں ہوتی-

مامون نے حضرت امام محمد تقی (ع) کے لیے اپنے پہلو میں مسند بچھوائی تھی اور حضرت کے سامنے یحیی ابن اکثم کے لیے بیٹھنے کی جگہ تھی- ہر طرف کامل سناٹا تھا- مجمع ہمہ تن چشم و گوش بنا ہوا گفتگو شروع ہونے کے وقت کا منتظر ہی تھا کہ اس خاموشی کو یحیی کے اس سوال نے توڑ دیا جو اس نے مامون کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ حضور کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ابو جعفر سے کوئی مسئلہ دریافت کروں ؟

 مامون نے کہا: تم کو خود ان ہی سے اجازت طلب کرنا چاہیے،
یحیی امام کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ دریافت کروں ؟

فرمایا: تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہو،

یحیی نے پوچھا کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یحیی حضرت امام محمد تقی کی علمی بلندی سے بالکل واقف نہ تھا- وہ اپنے غرور علم اور جہالت سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ کمسن صاحبزادے ہی تو ہیں- روز مرہ روزے نماز کے مسائل سے واقف ہوں تو ہوں مگر حج وغیرہ کے احکام اور حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت ہے ان کے کفاروں سے بھلا کہاں واقف ہوں گے۔

امام (ع) نے اس کے جواب میں اس طرح سوال کے گوشوں کی الگ الگ تحلیل فرمائی، جس سے اصل مسئلے کا جواب دئیے بغیر آپ کے علم کی گھرائیوں کا یحیی اور تمام اہل محفل کو اندازہ ہو گیا۔ یحیی خود بھی اپنے کو سبک پانے لگا اور تمام مجمع بھی اس کا سبک ہونا محسوس کرنے لگا۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ تمھارا سوال بالکل مبہم اور مجمل ہے، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شکار حلّ ( حرم سے باہر ) میں تھا یا حرم میں، شکار کرنے والا مسئلے سے واقف تھا یا ناواقف، اس نے عمداً اس جانور کو مار ڈالا یا غلطی و بھولے سے قتل ہو گیا، وہ شخص آزاد تھا یا غلام، کمسن تھا یا بالغ، پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پہلے بھی ایسا کر چکا تھا، شکار پرندے کا تھا یا کوئی اور، چھوٹا تھا یا بڑا ، وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے، رات کو یا پوشیدہ طریقہ پر اس نے شکار کیا یا دن کی روشنی میں، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا ؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں اس مسئلہ کا کوئی ایک معین حکم نہیں بتایا جا سکتا۔

 یحیی کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہوتا بہر حال فقھی مسائل پر بھی کچھ نہ کچھ اس کی نظر تھی۔ وہ ان کثیر التعداد شقّوں کے پیدا کرنے ہی سے خوب سمجھ گیا کہ ان کا مقابلہ میرے لیے آسان نہیں ہے۔ اس کے چھرے پر ایسی شکستگی کے آثار پیدا ہوئے کہ جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کر لیا۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہ دیتا تھا۔ مامون نے اس کی کیفیت کا صحیح اندازہ کر کے اس سے کچھ کہنا بیکار سمجھا اور حضرت  سے عرض کیا کہ پھر آپ ہی ان تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیجئے، تا کہ سب کو استفادے کا موقع مل سکے۔ امام  نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جدا گانہ جو احکام تھے بیان فرمائے یحیی ہکا بکا امام (ع) کا منہ دیکھ رہا تھا اور بالکل خاموش تھا۔ مامون کو بھی ضد تھی کہ وہ اتمام حجت کو انتہائی درجے تک پہنچا دے اس لیے اس نے امام علیہ السّلام سے عرض کیا کہ اگر مناسب معلوم ہو تو آپ بھی یحیی سے کوئی سوال فرمائیں۔ حضرت ع نے اخلاقا یحیی سے یہ دریافت کیا کہ کیا میں بھی تم سے کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ یحیی اب اپنے متعلق کسی دھوکے میں مبتلا نہ تھا۔ اپنا اور امام (ع) کا درجہ اسے خوب معلوم ہو چکا تھا۔ اس لیے طرز گفتگو اس کا اب دوسرا ہی تھا۔ اس نے کہا کہ حضور دریافت فرمائیں اگر مجھے معلوم ہو گا تو عرض کر دوں گا ورنہ خود حضور ہی سے معلوم کر لوں گا۔ حضرت نے سوال کیا کہ جس کے جواب میں یحییی نے کھلے لفظوں میں اپنی عاجزی کا اقرار کیا اور پھر امام نے خود اس سوال کا حل پیش فرما دیا۔ مامون کو اپنی بات کے بالا رہنے کی خوشی تھی۔ اس نے مجمع کی طرف مخاطب ہو کر کہا:

دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ یہ وہ گھرانا ہے جو قدرت کی طرف سے علم کا مالک قرار دیا گیا ہے۔ یہاں کے بچوں کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مجمع میں جوش و خروش تھا۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ بے شک جو آپ کی رائے ہے وہ بالکل ٹھیک ہے اور یقیناً ابو جعفر محمد ابن علی کا کوئی مثل نہیں ہے۔ مامون نے اس کے بعد ذرا بھی تاخیر مناسب نہیں سمجھی اور اسی جلسے میں امام محمد تقی (ع) کے ساتھ ام الفضل کا عقد کر دیا۔ نکاح سے قبل جو خطبہ ہمارے یہاں عموماً پڑھا جاتا ہے وہی ہے جو کہ امام محمد تقی نے اس عقد کے موقع پر اپنی زبان مبارک پر جاری کیا تھا۔ یہی بطور یادگار نکاح کے موقع پر باقی رکھا گیا ہے مامون نے اس شادی کی خوشی میں بڑی فیاضی سے کام لیا۔ لاکھوں روپیہ خیر و خیرات میں تقسیم کیا گیا اور تمام رعایا کو انعامات و عطیات کے ساتھ مالا مال کیا گیا۔

مدینہ کی طرف واپسی:

 آپ شادی کے بعد تقریباً ایک سال تک بغداد میں مقیم رہے، اس کے بعد مامون نے بہت اہتمام کے ساتھ ام الفضل کو حضرت کے ساتھ رخصت کر دیا اور امام مدینہ میں واپس تشریف لے آئے۔

اخلاق و اوصاف:

امام محمد تقی (ع) اخلاق و اوصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول کا طرہ امتیاز تھی کہ ہر ایک سے جھک کر ملنا، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، مساوات اور سادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا، غربا کی پوشیدہ طور پر خبر لینا اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں سے بھی اچھا سلوک کرتے رہنا۔  مہمانوں کی خاطر داری میں توجہ اور علمی اور مذہبی پیاسوں کے لیے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا، آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پہلو تھا۔ بالکل ویسا ہی جیسے اس سلسلہ عصمت کے دوسرے افراد کا تھا۔

اہل دنیا کو جو کہ آپ کی بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے ، یہ تصور ضرور ہوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شہنشاہ کا داماد ہو جانا یقیناً اس کے چال ڈھال اور طور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈہل جائے گی۔ حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مقصد ہو سکتا ہے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا۔ بنی امیہ یا بنی عباس کے بادشاہوں کا آل رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا کہ جتنا ان کے صفات سے۔ وہ ہمیشہ اس کے در پے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے ، کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لیے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السّلام سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام رضا علیہ السّلام کو ولی عہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ، فقط ظاہری شکل و صورت میں ایک کا اندازہ معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ احترام کے روپ میں تھا، مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں میں ایک تھی۔ جس طرح امام حسین علیہ السّلام نے بیعت نہ کی تو وہ شہید کر دئیے گئے۔ اسی طرح امام رضا علیہ السّلام ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپ کو زہر کے ذریعے سے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔

اب مامون کے نقطہ نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رضا علیہ السّلام کا جانشین تقریبا آٹھ برس کا بچہ ہے جو تین برس پہلے باپ سے دور کر لیا جا چکا تھا۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقے پر لانا نہایت آسان ہے اور اس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتہائی خطر ناک قائم ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
مامون امام رضا علیہ السّلام کو ولی عہدی کی مہم میں اپنی ناکامی کو مایوسی کا سبب نہیں تصور کرتا تھا۔ اس لیے کہ امام رضا علیہ السّلام کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی۔ اس میں تبدیلی اگر نہیں ہوتی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی علیہ السّلام جو آٹھ برس کے سن میں قصر حکومت میں نشو نما پا کر بڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر برقرار رہے۔
سوائے ان لوگوں کے جوان مخصوص افراد کے خدا داد کمالات کو جانتے تھے۔ اس وقت کا ہر شخص یقیناً مامون ہی کا ہم خیال ہو گا۔ مگر دنیا تو حیران ہو گئی جب یہ دیکھا کہ وہ آٹھ برس کا بچہ جسے شہنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ہے، اس عمر میں اپنے خاندانی رکھ رکھاؤ اور اصول کا اتنا پابند ہے کہ وہ شادی کے بعد شاہی محل میں قیام سے انکار کر دیتا ہے اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رہتا ہے تو ایک علیحدہ  مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام فرماتا ہے۔ اس سے بھی امام علیہ السّلام کی مستحکم قوت ارادی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ عموما مالی اعتبار سے لڑکی والے کچھ بھی بڑا درجہ رکھتے ہوتے ہیں تو وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہیں وہیں داماد بھی رہے۔ اس گھر میں نہ سہی تو کم از کم اسی شہر میں اس کا قیام رہے، مگر امام محمد تقی ع نے شادی کے ایک سال بعد ہی مامون کو حجاز واپس جانے کی اجازت دینے پر مجبور کر دیا۔ یقینا یہ امر ایک چاہنے والے باپ اور مامون جیسے با اقتدار کے لیے انتہائی ناگوار تھا مگر اسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اور امام علیہ السّلام مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے۔

مدینہ میں تشریف لانے کے بعد امام کے گھر کا وہی انداز رہا جو اس سے پہلے تھا۔ نہ کوئی پہرے دار نہ کوئی خاص روک ٹوک، نہ احتشام نہ اوقات ملاقات، نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی تفریق، زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرت کی وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ راویان حدیث دریافت کرتے تھے۔ طالب علم مسائل پوچھتے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ آپ امام جعفر صادق علیہ السّلام ہی کے جانشین ہیں جو اسی مسند علم پر بیٹھے ہوئے ہدایت کا کام انجام دے رہے ہیں۔
امور خانہ داری اور ازدواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے اپنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا تھا، ان ہی حدود میں آپ نے ام الفضل کو رکھا ہوا تھا۔ آپ نے اس کی مطلق پروا نہیں کی کہ آپ کی بیوی ایک شہنشاہ وقت کی بیٹی ہیں۔ چنانچہ ام الفضل کے ہوتے آپ نے حضرت عمار یاسر کی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد بھی کیا اور قدرت کو نسل امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھا۔ یہی امام علی نقی علیہ السّلام کی ماں ہوئیں۔ ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکھ کر بھیجی۔ مامون کے دل کے لیے بھی یہ کچھ کم تکلیف دہ امر نہ تھا، مگر اسے اب اپنے کیے کو نباہنا تھا۔ اس نے ام الفضل کو جواب لکھا کہ میں نے تمہارا عقد ابو جعفر  علیہ السّلام کے ساتھ اس لیے نہیں کیا ہے کہ ان پر کسی حلال خدا کو حرام کر دوں۔ مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا۔
جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے۔ ہمارے سامنے اس کی نظیریں موجود ہیں کہ اگر مذہبی حیثیت سے کوئی با احترام خاتون ہوئی ہے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا گیا، جیسے پیغمبر کے لیے جناب خدیجة کبری ع اور حضرت علی المرتضی علیہ السّلام کے لیے جناب فاطمہ زہرا علیھا السّلام مگر شہنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیاز دینا صرف اس لیے کہ وہ بادشاہ کی بیٹی ہے، اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے آل محمد محافظ تھے اس لیے امام محمد تقی علیہ السّلام نے اس کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنا اپنا فریضہ سمجھا۔

تبلیغ و ہدایت:

 آپ کی تقریر و خطاب بہت دلکش اور پر تاثیر ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ زمانہ حج میں مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہو کر آپ نے احکام شرع کی تبلیغ فرمائی تو بڑے بڑے علماء دم بخود رہ گئے اور انہیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم نے ایسی جامع تقریر کبھی نہیں سنی۔ امام رضا علیہ السّلام کے زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا، جو امام موسی کاظم علیہ السّلام پر توقف کرتا تھا یعنی آپ کے بعد امام رضا علیہ السّلام کی  امامت کا قائل نہیں تھا اور اسی لیے واقفیہ کہلاتا تھا۔ امام محمد تقی نے اپنے کردار سے اس گروہ میں ایسی کامیاب تبلیغ فرمائی کہ سب اپنے عقیدے سے تائب ہو گئے اور آپ کے زمانہ ہی میں کوئی ایک شخص ایسا باقی نہ رہ گیا جو اس مسلک کا حامی و پیروکار ہو بہت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اہل بیت علیہ السّلام کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے جیسے مختصر حکیمانہ اقوال کا بھی ایک ذخیرہ ہے جیسے آپ کے جد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جناب امیر علیہ السّلام کے بعد امام محمد تقی علیہ السّلام کے اقوال کو ایک خاص درجہ حاصل ہے۔ الہیات اور توحید کے متعلق آپ کے بعض بلند پایہ خطبے بھی موجود ہیں۔

عراق کا آخری سفر:

 218 ہجری میں مامون نے دنیا کو خیر باد کہا۔ اب مامون کا بھائی اور ام الفضل کا چچا مؤتمن جو امام رضا کے بعد ولی عھد بنایا جا چکا تھا، تخت سلطنت پر بیٹھا اور معتصم بالله عباسی کے نام سے مشھور ہوا۔ اس کے بیٹھتے ہی امام محمد تقی علیہ السّلام سے متعلق ام الفضل کے اس طرح کے شکایتی خطوط کی رفتار بڑھ گئی۔ جس طرح کہ اس نے اپنے باپ مامون کو بھیجے تھے۔ مامون نے چونکہ تمام بنی عباس کی مخالفتوں کے  بعد بھی اپنی لڑکی کا نکاح امام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ کر دیا تھا، اس لیے اپنی بات اور کیے کی لآج رکھنے کی خاطر اس نے ان شکایتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں کی بلکہ مایوس کر دینے والے جواب سے بیٹی کی زبان بند کر دی تھی مگر معتصم کو جو امام رضا علیہ السّلام کی ولی عھدی کا داغ اپنے سینے پر اٹھائے ہوئے تھا اور امام محمدتقی علیہ السّلام کو داماد بنائے جانے سے تمام بنی عباس کے نمائندے کی حیثیت سے پہلے ہی اختلاف کرنے والوں میں پیش پیش رہ چکا تھا، اب ام الفضل کے شکایتی خطوں کو اہمیت دے کر اپنے اس اختلاف کو جو اس نکاح سے تھا، حق بجانب ثابت کرنا تھا، پھر سب سے زیادہ امام محمدتقی علیہ السّلام کی علمی مرجعیت، آپ کے اخلاقی اثر کی شہرت جو حجاز سے بڑھ کر عراق تک پہنچی ہوئی تھی وہ مخاصمت کی بنیاد جو معتصم کے بزرگوں کو امام محمد تقی علیہ السّلام کے بزرگوں سے رہ چکی تھی اور پھر اس سیاست کی ناکامی اور منصوبے کی شکست کا محسوس ہو جانا جو اس عقد کا محرک ہوا تھا جس کی تشریح پہلے ہو چکی ہے یہ تمام باتیں تھیں کہ معتصم مخالفت کے لیے آمادہ ہو گیا۔ اپنی سلطنت کے دوسرے ہی سال امام محمد تقی علیہ السّلام کو مدینہ سے بغداد کی طرف بلوا بھیجا۔ حاکم مدینہ عبد المالک کو اس بارے میں تاکیدی خط لکھا۔ مجبورا امام محمد تقی علیہ السّلام اپنے فرزند امام علی نقی علیہ السّلام اور ان کی والدہ کو مدینہ میں چھوڑ کر بغداد کی طرف روانہ ہوئے۔

شہادت:

بغداد میں تشریف لانے کے بعد تقریبا ایک سال تک معتصم نے بظاہر آپ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی مگر آپ کا یہاں کا قیام خود ہی ایک جبری حیثیت رکھتا تھا جسے نظر بندی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے اس کے بعد اسی خاموش حربے سے جو اکثر اس خاندان کے بزرگوں کے خلاف استعمال کیا جا چکا تھا، آپ کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا اور 29ذی القعدہ 220 ہجری میں زہر سے آپ کی شہادت ہوئی۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام  موسی کاظم کے پاس دفن ہوئے۔ آپ ہی کی شرکت کا لحاظ کرکے عربی کے قاعدے سے اس شہر کا نام کاظمین (دو کاظم یعنی غصہ کو ضبط کرنے والے) مشہور ہوا ہے۔ اس میں حضرت موسی کاظم  علیہ السّلام کے لقب کو صراحت کے ساتھ سامنے رکھا گیا جبکہ موجودہ زمانے میں اسٹیشن کا نام جوادّین (دو جواد یعنی فیاض) درج ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لقب کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چونکہ آپ کا لقب تقی بھی تھا اور جواد بھی۔
رضوی سیّد:

یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنے سادات رضوی کہلاتے ہیں، وہ در اصل تقوی ہیں یعنی حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کی اولاد ہیں۔ اگر حضرت امام رضا علیہ السّلام کی اولاد امام تقی علیہ السّلام کے علاوہ کسی اور فرزند کے ذریعے سے بھی ہوتی تو امتیاز کے لیے وہ اپنے کو رضوی کہتی اور امام محمد تقی علیہ السّلام کی اولاد اپنے کو تقوی کہتی مگر چونکہ امام رضا علیہ السّلام کی نسل صرف امام محمد تقی علیہ السّلام سے چلی اور حضرت امام رضا علیہ السّلام کی ذاتی شہرت سلطنت عباسیہ کے ولی عہد ہونے کی وجہ سے جمہور مسلمین میں بہت ہو چکی تھی اس لیے تمام اولاد کا حضرت امام رضا علیہ السّلام کی طرف منسوب کر کے تعارف کیا جانے لگا اور رضوی کے نام سے مشہور ہوئے۔

حضرت امام محمد تقی الجواد( ع) ہمارے نویں امام ہیں، آنحضرت کا نام محمد اور کنیت ابو جعفر الثانی اور القاب تقی ،جواد، مرتضی، مختار ،منتجب،قانع اور عالم ہیں، البتہ تقی اور جواد الآئمہ کا لقب زیادہ مشہور ہے، آنحضرت (ع) کے والد گرامی کا نام حضرت امام علی ابن موسی الرضا ع اور والدہ ماجدہ کا نام سبیکہ ہے، ( آپکی والدہ ماجدہ کے دوسرے نام" سکینہ" ، "مرضیہ" اور" درہ" بھی نقل کیے گئے ہیں) حضرت امام رضا ع نے اس عظیم خاتون کا نام " خیزران " رکھا تھا۔

منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص324؛

کشف الغمہ (علی ابن عیسی اریلی) ج3ص186

خیزران " شمالی افریقہ کے علاقے " نوبہ " اور پیغمبر اسلام(ص) کی ہمسر ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہیں اور وہ اپنے زمانے کی عظیم خاتون تھیں، پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے زمانے میں اس خاتون کے بارے میں پیشنگوئی کی تھی اور ایک حدیث میں فرمایا تھا کہ : بابی ابن خیرہ الاماء النوبیہ الطیبہ۔

میرے والد اس بہترین کنیز کے فرزند کے قربان جو " نوبہ " کی ہو گی اور پاکیزہ سرشت ہوگی،

 الارشاد (شیخ مفید) ص615؛

منتھی الامال (شیخ عباس قمی) ج2ص325

امام موسی کاظم (ع) نے بھی اس عظیم خاتون کے بارے میں پیشن گوئی کی ہے، امام (ع) نے ایک حدیث میں یزید بن سلیط سے فرمایا کہ: مکہ کے راستے سے جب میرے بیٹے علی ( امام رضا) کے ساتھ ملاقات کرو گے تو اسکو بیٹے کی بشارت دینا جو کہ امانتدار اور مبارک ہو گا، اس دن میرا بیٹا تجھے اس بات کی خبر دے گا کہ کس دن میرے ساتھ ملاقات کی اور کیا گفتگو ہوئی اور اس وقت تم بھی اسکو یہ خبر دینا کہ تمہارا بیٹا جس کنیز سے پیدا ہو گا وہ پیغمبر اسلام (ص) کی کنیز ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہو گی، اگر اس خاتون کو دیکھو گے تو اس تک میرا سلام پہنچا دینا۔

منتھی الامال (شیخ عباس قمی) ج2ص325

حضرت امام جواد علیہ السلام مدینہ منورہ میں امام رضا (ع) کے گھر میں پیدا ہوئے، البتہ تاریخ پیدایش کے حوالے سے مؤرخین اور سیرہ نویسوں کے درمیان اتفاق نہیں ہے، کیونکہ بعض نے 5 رمضان اور بعض نے 15 رمضان اور بعض نے تو 19 رمضان اور بعض دوسروں نے 10 رجب سن 195 ہجری کو حضرت کا یوم پیدائش لکھا ہے۔

منتھی الامال (شیخ عباس قمی)ج2ص325

ابن عیاش نے بھی انکا یوم پیدائش 10 رجب لکھا ہے اور زیارت ناحیہ مقدسہ میں اس کی تائید ہے، دعائے ناحیہ میں ہم پڑہتے ہیں کہ:

اللھم انی اسئلک بالمولودین فی رجب محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد المنتجب۔

مفاتیح الجنان( شیخ عباس قمی) رجب کی چھٹی دعا

کلیم بن عمران سے روایت ہے کہ: میں امام رضا ع کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام سے درخواست کی کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ آپ کو اولاد عطا فرمائے، امام رضا ع نے جواب میں فرمایا:

حق تعالی مجھے فرزند عطا کرے گا اور وہ میرا جانشین اور امامت کا وارث ہو گا، جب امام محمد تقی (ع) پیدا ہوۓ تو امام رضا ع نے فرمایا خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا کیا ہے کہ جسکی شباہت موسی ابن عمران سے ہے جس نے دریا کے دو ٹکڑے کیے اور اسکی مثال عیسی ابن مریم کے مانند ہے کہ خداوند نے اسکی والدہ کو پاکیزہ ، طاہر و مطہر خلق کیا ہے۔

منتھی الامال (شیخ عباس قمی) ج2ص326

امام رضا (ع) نے جب مامون کی درخواست پر خراسان (ایران )کا سفر کیا تو اس وقت انکے فرزند امام محمد تقی ع پانچ سال کے تھے اور جب حضرت امام رضا ع مامون کے ہاتھوں شہید ہوۓ اس وقت امام محمد تقی (ع) 8 سال کے تھے، امام محمد تقی ع بچپن میں ہی امامت کے منصب پر فائز ہوۓ، اور اس کم سنی میں تشیع کی کشتی کی ہدایت کے فریضہ کو بنحو احسن انجام دیا اور اپنے والد اور اجداد کے مانند عدالت کے طلب گاروں اور مکتب اہل بیت (‏ع) کے پیرو کاروں کی پناہ گاہ بنے رہے۔

 مامون عباسی جو کہ ایک زبردست دانشمند تھا اور اپنے زمانے کے خرد مندوں میں سے تھا، اس نے عباسیوں کی مخالفت کے باوجود اپنی بیٹی "ام الفضل" کا نکاح امام محمد تقی ع کے ساتھ کیا، امام کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ:

واما ابو جعفر محمد بن علی اخترتہ لتبریرہ عیی کااھل الفضل فی علم و الفضل مع صغر سنہ، والا عجوبہ فیہ بذالک، وانا ارجو ان یظھر للناس ما قد عرفتہ منہ،فیعلموا ان الرای ما رائت فیہ

یعنی : البتہ یہ کہ میں نے ابو جعفرمحمد بن علی کو اپنا داماد بنایا اور اس کو اپنی بیٹی ام الفضل کا شوہر انتخاب کیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کم سنی میں ہی تمام اہل فضل اور صاحبان علم و اندیشہ کے درمیان برتری حاصل کر چکا ہے وہ اپنے زمانے کا نابغہ ہے، مجہے امید ہے کہ جس طرح میں نے اسکے علمی کمالات کو سمجہا ہے اور لوگ بھی اس کو سمجہنے کی کوشش کریں اور جان لیں کہ صحیح وہی ہے جو میں پسند کروں۔

الارشاد (شیخ مفید) ص621

مامون عباسی کہ جس نے امام (ع) کا علمی مقام سمجھا تھا اور انھیں اپنی بیٹی ام الفضل کا شوہر انتخاب کیا تھا لیکن مامون کے مرنے کے بعد جب امام نے دوسری بار بغداد کا سفر کیا ام الفضل کے چچا نے اس کو امام (ع) کو مسموم کرنے کے لیے اکسایا اور اس طرح امام اپنی بیوی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہو گئے۔
الارشاد (شیخ مفید)ص621

ہمعصر خلفاء:

امام جواد علیہ السلام اپنے دور امامت میں دو عباسی خلفاء کے ہمعصر تھے:

1- مامون الرشید 193 ہجری سے 218 ہجری تک،

2- معتصم ( مامون کا بھائی ) 218 ہجری سے 227 ہجری تک،

امام علیہ السلام کے زندگی کا مختصر جائزہ:

علماء کا بیان ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام 10 رجب المرجب 195 ہجری یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے۔

کلینی ، اصول کافی ، ج1 ص 315 و 492 ، تهران ، مکتبه الصدوق ، 1381هـ ؛

 ابن شهر آشوب ، مناقب آل ابیطالب ، ج 4 ، ص 379 ، قم ، المطبعه العلمیه
شیخ مفید ، الارشاد ، ص 316 ، قم ، مکتبه بصیرتی .

بعض علماء نے آپ کی ولادت کو اسی سال کے 15 رجب کو قرار دیا ہے۔

طبرسی ، اعلام الوری ، ص 344 ، الطبعه الثالثه ، دارالکتب الاسلامیه
روضة الصفاء ج3 ص16

 شواہدالنبوت ص 204

انورالنعمانیہ ص 127

شیخ مفید فرماتے ہیں کہ: چونکہ حضرت امام علی رضا علیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی، اس لیے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں، یہ سن کر حضرت امام رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اولاد کا ہونا خداوند کی عنایت سے متعلق ہے، اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اور عنقریب میرے یہاں مسند امامت کا وارث پیدا ہو گا، چنانچہ آپ کی ولادت با سعادت ہوئی۔

ارشاد ص 473

علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ: حضرت امام رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ: میرے ہاں عنقریب جو بچہ پیدا ہو گا، وہ عظیم برکتوں کا حامل ہو گا۔

اعلام الوری ص 200

ولادت سے متعلق لکھا ہے کہ: امام رضا علیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلا کر کہا کہ آج تم میرے گھر میں حاضر رہو، کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کو خداوند مجھے ایک فرزند عطا فرمائے گا، میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چند عورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پر یکایک وضع حمل کے آثار نمودار ہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کو کمرے میں لے گئی، اور میں نے چراغ  جلا دیا تھوڑی دیر میں امام محمد تقی علیہ السلام پیدا ہوئے، میں نے دیکھا کہ وہ مختون اور ناف بریدہ ہیں، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جو چراغ روشن تھا وہ گل ہو گیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کو نہلا دیا۔ تھوڑی دیر میں میرے بھائی امام رضا علیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت جلدی کے ساتھ صاحبزادے کو کپڑے میں لپیٹ کر حضرت (ع) کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اور آنکھوں پر بوسہ دیے کر پھر مجھے واپس کر دیا، دو دن تک امام محمد تقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں، تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظر کی پھر داہنے بائیں دیکھ کر کلمہ شہادتین زبان پر جاری کیا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اور میں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزند حجت خدا اور وصی رسول خدا ہے، اس سے جو عجائبات ظہور پذیر ہوں، ان میں تعجب کیسا! محمد بن علی ناقل ہیں کہ:

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی، جس طرح دوسرے آئمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہوا کرتی تھیں۔

المناقب، ج4، ص394

آپ کی ازواج اور اولاد:

علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی چند بیویاں تھیں، ام الفضل بنت مامون الرشید اور سمانہ خاتون یاسری۔ امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جو کہ حضرت عمار یاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئی ہے، آپ کے اولاد کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ دو نرینہ اور دو غیر نرینہ تھیں۔

 ارشاد مفید ص 493

صواعق محرقہ ص 123

روضة الشہداء ص 438

نورالابصار ص 147

انوارالنعمانیہ ص 127

کشف الغمہ ص 116

اعلام الوری ص 205

پر برکت مولود:

امام رضا علیہ السلام کے خاندان اور شیعہ محافلوں میں ، حضرت امام جواد علیہ السلام کو مولود خیر پر برکت کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جیسا کہ ابو یحیی صنعانی کہتا ہے کہ: ایک دن میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا ابو جعفر جو کہ کمسن بچہ تھا، لایا گیا ، امام علیہ السلام نے فرمایا : ہمارے شیعوں کیلئے اس جیسا کوئی مولود با برکت پیدا نہیں ہوا ہے۔

شیخ مفید ، الارشاد ، ص 319 ، قم ، مکتبه بصیرتی ؛ طبرسی،

اعلام الوری ، ص 347 ، الطبعه الثالثه ، المکتبه الاسلامیه،

فتال نیشابوری ، روضه الواعظین ، ص 261 ، الطبعه الاولی ، بیروت ، موسسه الاعلمی للمطبوعات 1406 هـ،

کلینی ، اصول کافی ، ج1 ، ص 321 ، تهران ، مکتبه الصدوق،

علی بن عیسی الاربلی ، کشف الغمه ، ج3 ، ص 143 ، تبریز ، مکتبه بنی ہاشم 1381 هـ

شاید ابتداء میں یہ تصور ہو جائے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام پہلے تمام اماموں کی نسبت زیادہ با برکت ہیں، حالانکہ اس طرح نہیں ہے، بلکہ جب موضوع پر دقت کی جائے اور قرائن و شواہد ملاحظہ کیے جائیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام کی ولادت ایسے گھٹن حالات میں واقع ہوئی ہے کہ جو شیعوں کیلئے خاص خیر و برکت کا تحفہ کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ امام رضا علیہ السلام کا زمانہ ایک خاص عصر میں پڑھا تھا کہ آنحضرت (ع) اپنے بعد جانشین اور امام کے پہچنوانے میں مشکلات کا سامنا ہو چکا تھا، جو اس سے پہلے کے اماموں کے دور میں ایسا نہیں ہوا تھا، کیونکہ ایک طرف امام کاظم علیہ السلام کے شہادت کے بعد واقفیہ کا گروہ امام رضا علیہ السلام کی امامت کا منکر ہو چکا تھا، تو دوسری طرف امام رضا علیہ السلام 47 سال کی عمر شریف تک کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی، جس کی وجہ سے دشمن طعنہ دے رہا تھا کہ امام رضا مقطوع النسل ہیں اور اب خود بخود امامت زیر سوال آ چکی تھی کہ اس کے بعد کوئی امام کا نام و نشان نہیں ہے، جبکہ پیغمبر اسلام کی حدیث شریف کے مطابق بارہ امام ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی نسل سے 9 امام پیدا ہونگے۔

کمسنی امام :

امام جواد علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سب سے پہلے وہ امام ہیں کہ جو بچپن کے عالم میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے تھے اور لوگوں کیلئے یہ سوال بن چکا تھا کہ ایک نوجوان، امامت کی اس سنگین اور حساس مسئولیت کو کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ کیا کسی انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ اس کمسنی کی حالت میں کمال کی اس حد تک پہنچ جائے اور پیغمبر کا جانشین ہونے کے قابل بن جائے ؟ اور کیا اس سے پہلے کی امتوں میں بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے یا نہیں ؟
اس قسم کے سوالات محدود و مادی فکر رکھنے والے لوگوں کے اذہان میں آ کر اس دور کے اسلامی معاشرے مشکل کا شکار ہو چکی تھی لیکن جب قادر مطلق و حکیم کے خاص لطف و عنایت جو ہر زمانے میں جامعہ بشریت کیلئے ارمغان لا چکی ہے، اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا۔ اس مطلب کے ثبوت کیلئے ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشنی میں شواہد و دلائل فراوان موجود ہیں۔

1-  حضرت یحیی علیہ السلام :

یا یحیی خذالکتاب بقوۃ و آتیناہ الحکم صبیا۔

سورہ مریم آیہ12

2- حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپنی میں تکلم کرنا:

سورہ مریم آیات 30 سے 32 تک کا تلاوت یہ بات ہمارے آئمہ کے اقوال سے بھی استفادہ ہوتا ہے اور واقعات جو تاریخ میں موجود ہیں۔

امام رضا (ع) کا خط امام جواد (ع) کے نام:

بزنطی جو شیعہ دانشور راوی اور امام رضا علیہ السلام کے معتبر اورمطمئن صحابی ہیں ،بیان کرتے ہیں کہ: میں نے اس خط کو پڑھا ہے جو امام رضا علیہ السلام نے خراسان سے حضرت امام جواد علیہ السلام کو مدینہ بھیجا تھا، جس میں تحریر تھا کہ:

مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب آپ بیت الشرف سے باہر نکلتے ہیں اور سواری پر سوار ہوتے ہیں تو خادمین آپ کو چھوٹے دروازے سے باہر نکالتے ہیں، یہ ان کا بخل ہے تا کہ دوسرے آپ کے وجود سے فائدہ مند نہ ہو سکیں، میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاہتا ہوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کریں، اور رفت و آمد کے وقت اپنے پاس درہم و دینار رکھ لیا کریں تا کہ اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو اس کو عطا کر دو، اگر تمہارے چچا تم سے سوال کریں تو ان کو 50 دینار سے کم نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ہو، اور اگر تمہاری پھوپھیاں تم سے سوال کریں تو 25 درہم سے کم نہیں دیں، اگر زیادہ دینا چاہیں تو تمہیں اختیار ہے۔ میری آرزو ہے کہ خدا تم کو بلند مرتبے پر فائز کرے، لہذا راہ خدا میں انفاق کرو، اور خدا کی طرف سے تنگدسی سے نہ ڈرو!

کافی ج4،ص43،باب الانفاق ،حدیث 5

عیون اخبار الرضا ج2،ص8،باب 30،حدیث20

بحار الانوار ج93، ص121، باب14،حدیث24

اس حقیقت پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ قرآن مجید نے بہت سی آیات میں اس صدقہ سے منع کیا گیا ہے، جس میں دوسروں پر منت اور احسان یا اس میں اذیت پائی جاتی ہو، صدقہ و خیرات صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لیے ہونا چاہیے، اور صدقہ لینے والے دوسروں کی منت اور احسان جتانے کی شرمندگی سے محفوظ رہیں، ورنہ تو وہ صدقہ باطل و ضائع ہو جائے گا اور خداوند کی نظر میں اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہو گا۔

الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَہُمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ثُمَّ لاَیُتْبِعُونَ مَا َنفَقُوا مَنًّا وَلاَذًی لَہُمْ َاجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَ لاَ خَوْف عَلَیْہِمْ وَ لا ھمْ یَحْزَنُونَ.

' 'جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد احسان نہیں جتاتے اور اذیت بھی نہیں دیتے ان کے لیے پروردگار کے ہاں اجر بھی ہے اور ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی حزن ' '۔

سورۂ بقرہ آیت 262

یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالَاذَی....

' 'اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو منت گذاری اور اذیت سے برباد نہ کرو... ' '۔

سورۂ بقرہ آیت 264

بہر حال نماز، انفاق اور معنوی زیبائیوں میں سے جو کچھ بھی خداوند عالم نے انسان کو عطا فرمایا ہے، اور گناہوں سے توبہ و استغفار کے بعد ظاہر و باطن کے اصلاح کرنے کے راستہ ہیں۔
غیب پر ایمان رکھنا، نماز کا قائم کرنا، خدا داد نعمتوں میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنا، قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں اور آخرت پر یقین و ایمان، یہ تمام ایسے حقائق ہیں کہ جس انسان میں بھی پائے جائیں وہ راہ ہدایت پر ہے اور دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہے۔

اوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّہِمْ وَاوْلَئِکَ ھم الْمُفْلِحُونَ،

' 'یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں ' '۔

سورۂ بقرہ آیت 5

بعض اہل تحقیق جیسے راغب اصفہانی کے نزدیک فلاح و بہبودی کے معنی یہ ہیں کہ: فلاح یعنی ایسی زندگی جس میں موت نہ ہو، ایسی عزت جس میں ذلت نہ ہو، ایسا علم جس میں جہالت کا تصور نہ ہو، ایسی ثروت جہاں فقر و تنگدستی نہ ہو، اور یہ فلاح آخرت میں مکمل طریقے سے ان انسانوں کو نصیب ہو گی، جو لوگ غیب (خداوند، فرشتے، برزخ، محشر، حساب، میزان اور جنت و دوزخ) پر ایمان رکھتے ہوں، نماز قائم کرتے ہوں، زکوٰة ادا کرتے ہوں، صدقہ و انفاق کرتے ہوں، قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔

یہ بات بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کو بارگاہ الٰہی میں مقبول ہونے کے لیے صرف گناہوں سے توبہ کرنا اور گناہوں سے دوری کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کے مطابق، توبہ کے بعد اپنی حالت ،اقوال اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ عمل صالح، اخلاق حسنہ اور معنوی زیبائیوں کی طرف توجہ کے ذریعہ اپنی توبہ کو کامل کرے اور اپنے گزشتہ کی تلافی کرے اور برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے۔

اِلاَّ مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاوْلَئِکَ یُبَدِّلُ ﷲُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَ کَانَ ﷲُ غَفُورًا رَحِیمًا.

' 'علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے ، تو پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کر دے گا اور خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے ' '۔

سورۂ فرقان آیت 70

عمل صالح اور اخلاق حسنہ کے سلسلہ میں جو گناہوں سے توبہ کے بعد ظاہر و باطن کے اصلاح کے اسباب میں سے ہے ، قرآن مجید ماں باپ ، رشتہ دار، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی اور احسان، تمام لوگوں کے ساتھ نیک گفتار ، نماز قائم کرنے اور زکوة ادا کرنے کا حکم دیتا ہے، چونکہ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ لازمی حد تک قرآن مجید اور احادیث سے مدد لیتے ہوئے معنوی زیبائیوں کو بیان کریں تا کہ ہماری حالت اور عمل کی اصلاح ہو سکے،

قرآن مجید کی روشنی میں اخلاقی واقعیات:

لاَ تَعْبُدُونَ ِلاَّ ﷲَ وَ بِالْوَالِدَیْنِ ِحْسَانًا وَ ذِی الْقُرْبَی وَ الْیَتَامَی وَ الْمَسَاکِینِ وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَاقِیمُوا الصَّلاَةَ وَ آتُوا الزَّکَاةَ....

' 'خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ ، قرابتداروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔ لوگوں سے اچھی باتیں کرنا۔ نماز قائم کرنا۔ زکوٰة ادا کرنا... ' '۔

سورہ بقرہ آیت 83

گزشتہ صفحات میں عبادت خدا اور احکام الٰہی کی فرمانبرداری کے عنوان سے نماز اور انفاق کے سلسلہ میں لازمی حد تک وضاحت کی گئی ہے، لہٰذا مذکورہ آیت کے ذریعہ ماں باپ، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی اور احسان، نیز دوسرے لوگوں کے ساتھ نیک گفتار کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ہیں:

ماں باپ کے ساتھ نیکی قرآن مجید کی متعدد آیات نے تمام لوگوں کو خدا کی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم سے شرعی اور اخلاقی وجوب کی بُو آتی ہے، یہ ایک ایسا حکم ہے جس کی اطاعت خدا کی عین بندگی اور عبادت ہے اور اس کی مخالفت گناہ و معصیت اور روز قیامت کے عذاب کا باعث ہے۔

خداوند عالم کا ارشاد ہوتا ہے:

و اعْبُدُوا ﷲَ وَ لاَتُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَ بِالْوَالِدَیْنِ ِاحْسَانًا....

' 'اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو... ' '۔

سورۂ نساء آیت 36

ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا ان زحمتوں اور احسان کی تلافی ہے، جس کو ان دونوں نے اپنی اولاد کے ساتھ کیا ہے، جنھوں نے پیدائش کے وقت سے اب تک کسی بھی طرح کے احسان اور زحمت سے دریغ نہیں کیا۔

انھوں نے تمام مقامات پر اپنی اولاد کو اپنے اوپر مقدم کیا ہے، ان کے سلسلے میں ایثار کیا قربانیاں دیں اور اپنی طرف سے درگزر کی ہے، بلاؤوں کے طوفان اور سخت سے سخت حالات میں اولاد کی حفاظت کی، اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اپنی آغوش میں بٹھایا، اولاد کے چین و سکون کے لیے راتوں جاگتے رہے، اور سخت سے سخت حالات کی تلخیوں کو خوش ہو کر برداشت کیا، اس کی تربیت میں بہت سی مصیتیں برداشت کیں، اور اپنے خون جگر سے ان کو غذا دی، بہت سی سختیوں اور پریشانیوں کو تحمل کیا تا کہ اولاد کسی مقام پر پہنچ جائے، لہٰذا اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کر کے ان کی زحمتوں کے ایک معمولی سے حصہ کی تلافی کرے۔

و قَضَی رَبُّکَ َان لا تَعْبُدُوا ِالاَّ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ َاحَدُہُمَا َاوْ کِلَاہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَہُمَا ُافٍّ وَ لاَ تَنْہَرْ ہُمَا وَ قُلْ لَہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا٭ وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا.

' 'اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو خبر دار ان سے اف تک نہ کہنا اور انھیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا، اور ان کے لیے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انھوں نے پچپن میں مجھے پالا ہے ' '۔

سورۂ اسراء آیت24،23

حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ: ماں باپ کے سلسلہ میں جس احسان کی سفارش ہوئی ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ زندگی کرو، ان کو مجبور نہ کرو کہ وہ تم سے کسی چیز کا سوال کریں اگرچہ وہ بے نیاز ہوں، بلکہ ان کے کہنے سے پہلے ہی ان کی ضرورتوں کو پورا کر دو، کیا خداوند عالم نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا کہ:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ....

' 'تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو... ' '۔

سورۂ آل عمران آیت 92

ان کو ' 'اُف ' ' تک نہ کہو، اور ان کو اپنے سے دور نہ کرو، ان کو مایوس نہ کرو، اگر ان کی وجہ سے تم کو کوئی پریشانی ہے بھی تو اس کو برداشت کرو اور اپنی زبان پر کوئی ایسا لفظ نہ لاؤ، جس سے وہ ناراض ہوں، اگر انھوں نے تمہیں مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا یا تم کو مار بھی دیا ہو تو صبر کرو، اور ان سے جدا نہ ہوں، اور ایسی حالت میں ان سے کہو: خداوند عالم تم سے درگزر فرمائے، اور اپنی مغفرت میں جگہ عنایت فرمائے، کہ ' 'قول کریم ' ' سے مراد یہی ہے، پیار اور محبت بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا کرو، مہربانی کی نگاہ کے علاوہ ان کو نہ دیکھو، اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلند تر نہ کرو، ان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ اوپر نہ اٹھاؤ، اور ان کے چلتے ہوئے ان سے آگے آگے نہ چلو۔

کافی ج2،ص157، باب البر بالوالدین ،حدیث1

بحارالانوار ج71 ،ص39، باب2، حدیث3

حضرت امام صادق علیہ السلام نیکی اور احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اگر خداوند عالم کے نزدیک ' 'اُف ' ' سے کمتر کوئی لفظ ہوتا تو اولاد کو اپنے ماں باپ کے لیے کہنے سے منع فرماتا، نیز اولاد کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ عاق کا سب سے کم درجہ ماں باپ کے لیے لفظ ' 'اُف ' ' کا استعمال کرنا ہے۔

عن حدید بن حکیم عن ابا عبد اللہ علیہ السلام قال أدنی العقوق أف و لو علم اللہ عز و جل شیئا أھون منہ لنھی عنہ.

 کافی ج2،ص348،باب العقوق ،حدیث 1

بحار الانوار ج 71ص59،باب2،حدیث22

کتاب شریف ' 'کافی ' ' میں روایت بیان ہوئی ہے کہ ماں باپ کی طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھنا بھی عاق کا ایک مرحلہ ہے!.

کافی ج2، ص349، باب العقوق ، حدیث7

کافی ج2،ص 158، باب البر بالوالدین ، حدیث 5

بحار الانوار ج71،ص45،باب2،حدیث6

تفسیر صافی ج3، ص185، ذیل سورۂ اسرا، آیت 24

' 'أَفْضَلُ والِدَیْکُمْ وَ اَحَقُّھُما بِشُکْرِکُمْ مُحَمَّد وَ عَلِیّ ' '۔

' 'تمہارا سب سے بہترین باپ اور تمہارے شکریہ کے سزاوار ترین ذات محمد اور علی علیہ السلام ہیں ' '۔

تفسیر امام حسن عسکری ص330، حدیث 189، ذیل سورۂ اسرا آیت 24

بحار الانوار ج23،ص259، باب15، حدیث8

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے:

' 'اَنَا وَ عَلَیّ اَبَوَا ھٰذِہِ الْاُمَّةِ ،وَ لَحَقُّنا عَلَیْھِمْ اَعْظَمُ مِنْ حَقِّ اَبَوَیْ وِلَادَتِھِمْ فَاِنَّا نُنْقِذُھُمْ اِنْ اَطاعونا مِنَ النّارِ اِلیٰ دَارِ الْقَرارِ، وَ نُلْحِقُھُمْ مِنَ الْعُبودِیَّةِ بِخِیارِ الْاَحْرارِ ' '۔

' 'میں اور علی دونوں اس امت کے باپ ہیں، بے شک ہمارا حق اس باپ سے بھی زیادہ ہے جو اسے دنیا میں لانے کا سبب بنا، ہم اس امت کو آتش جہنم سے نجات دیتے ہیں اگر ہماری اطاعت کریں ، اور ان کو جنت میں پہنچا دیں گے اگر ہمارے حکم پر عمل کرے، اور ان کو عبادت کے سلسلہ میں منتخب بندوں سے ملحق کر دیں گے ' '۔

بحار الانوار ج23،ص259، باب15، حدیث8

 

 

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بعض کرامات:

صاحب تفسیر علامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی کرامات بے شمار ہیں.

 (روضة الشہدا ص 438)

بعض کرامات مندرجہ ذیل ہیں:

عبد الرحمن جامی نے لکھا ہے کہ:

1- مامون رشید کے انتقال کے بعد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اب تیس ماہ بعد میرا بھی انتقال ہو جائے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

2- ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ایک خاتون ام الحسن نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی پرانا لباس عطا کریں تا کہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب اس کام کی ضرورت نہیں ہے۔

روای کا بیان ہے کہ: میں وہ جواب لے کر جب واپس ہوا تو معلوم ہوا کہ 13 یا 14 دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کر چکی ہے۔

3- ایک شخص (امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اور حماد بن عیسی ایک سفر میں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ سے رخصت ہو لیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفر ملتوی کر دو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہر گیا، لیکن میرا ساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے سارا سامان سفر گھر سے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفر ملتوی کر دوں، یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گیا اور چلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اور وہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آ گیا،اور وہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کو بھی بہا کر لے گیا۔

 شواہدالنبوت ص 202

4- علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ: معمر بن خلاد کا بیان ہے کہ ایک دن مدینہ منورہ میں جب کہ آپ بہت کمسن تھے مجھ سے فرمایا کہ چلو میرے ہمراہ چلو! چنانچہ میں ساتھ ہو گیا حضرت نے مدینہ سے باہر نکل کر ایک وادی میں جا کر مجھ سے فرمایا کہ تم ٹہر جاؤ میں ابھی آتا ہوں چنانچہ آپ نظروں سے غائب ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس ہوئے واپسی پر آپ بے انتہاء ملول اور رنجیدہ  تھے، میں نے پوچھا: فرزند رسول ! آپ کے چہرہ مبارک سے آثار حزن و ملال کیوں ظاہر ہیں ارشاد فرمایا کہ اسی وقت بغداد سے واپس آ رہا ہوں وہاں میرے والد ماجد حضرت امام رضا علیہ السلام زہر سے شہید کر دئیے گئے ہیں۔ میں ان پر نماز وغیرہ ادا کرنے گیا تھا۔

5- قاسم بن عبد الرحمن کا بیان ہے کہ میں بغداد میں تھا میں نے دیکھا کہ کسی شخص کے پاس تمام لوگ مسلسل آتے جاتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ جس کے پاس آنے جانے کا تانتا بندھا ہوا ہے یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ابو جعفر محمد بن علی علیہ السلام ہیں ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ آپ ناقہ پر سوار اس طرف سے گذرے ، قاسم کہتا ہے کہ انہیں دیکھ کر میں نے دل میں کہا کہ وہ لوگ بڑے بیوقوف ہیں جو آپ کی امامت  کے قائل ہیں اور آپ کی عزت و توقیر کرتے ہیں، یہ تو بچے ہیں اور میرے دل میں ان کی کوئی وقعت محسوس نہیں ہوتی، میں اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ آپ نے قریب آ کر فرمایا کہ اے قاسم بن عبد الرحمن جو شخص ہماری اطاعت سے گریزاں ہے وہ جہنم میں جائے گا۔ آپ کے اس فرمانے پر میں نے خیال کیا کہ یہ جادوگر ہیں کہ انہوں نے میرے دل کے ارادے کو معلوم کر لیا ہے جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیا آپ نے فرمایا کہ تمہارے خیال بالکل غلط  ہیں تم اپنے عقیدے کی اصلاح کرو یہ سن کر میں نے آپ کی امامت کا اقرار کیا اور مجھے ماننا پڑا کہ آپ حجت اللہ ہیں۔

6- قاسم بن الحسن کا بیان ہے کہ میں ایک سفر میں تھا ، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مفلوج الحال شخص نے مجھ سے سوال کیا، میں نے اسے روٹی کا ایک ٹکڑا دیدیا ابھی تھوڑی دیر گذری تھی کہ ایک زبردست آندھی آئی اور وہ میری پگڑی اڑا کر لے گئی میں نے بڑی تلاش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہو سکی جب میں مدینہ پہنچا اورحضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ملنے گیا تو آپ نے فرمایا کہ اے قاسم تمہاری پگڑی ہوا اڑا لے گئی میں نے عرض کی جی حضور! آپ نے اپنے ایک غلام کو حکم دیا کہ ان کی پگڑی لے آؤ غلام نے پگڑی حاضر کی میں نے بڑے تعجب سے دریافت کیا کہ مولا! یہ پگڑی یہاں کیسے پہنچی ہے آپ نے فرمایا کہ تم نے جو راہ خدا میں روٹی کا ٹکڑا دیا تھا، اسے خدا نے قبول فرما لیا ہے، ایے قاسم خداوند عالم یہ نہیں چاہتا جو اس کی راہ میں صدقہ دیے وہ اسے نقصان پہنچنے دے۔

7-  ام الفضل نے حضرت امام محمد تقی کی شکایت اپنے والد مامون رشید عباسی کو لکھ کربھیجی کہ ابو جعفر میرے ہوتے ہوئے دوسری شادی بھی کر رہے ہیں اس نے جواب دیا کہ میں نے تیری شادی ان کے ساتھ اس نہیں کی حلال خدا کو حرام کر دوں انہیں قانون خداوندی اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسری شادی کریں، اس میں تیرا کیا دخل ہے دیکھ آئندہ سے اس قسم کی کوئی شکایت نہ کرنا اور سن تیرا فریضہ ہے کہ تو اپنے شوہر ابو جعفر کو جس طرح ہو راضی رکھ اس تمام خط و کتابت کی اطلاع حضرت کو ہو گئی۔

 کشف الغمہ ص 120

شیخ حسین بن عبد الوہاب نے لکھا ہے کہ: ایک دن ام الفضل نے حضرت کی ایک بیوی کو جو عمار یاسر کی نسل سے تھی دیکھا تو مامون رشید کو کچھ اس طرح سے کہا کہ وہ حضرت کے قتل پر آمادہ ہو گیا، مگر قتل نہ کر سکا۔

عیون المعجزات ص 154

امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں، امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی دختر اور امام رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ سیدہ حکیمہ فرماتی ہیں:

جب امام محمد بن علی (ع) کی ولادت کا وقت آن پہنچا تو امام رضا علیہ السلام نے مجھے بلوا کر فرمایا: بہن حکیمہ! بی‏بی خیزران اور دایہ کے ہمراہ ایک کمرے میں چلی جائیں، آپ (ع) نے ہمارے لیے ایک چراغ روشن کیا اور دروازہ بند کر کے چلے گئے۔ اسی وقت درد زہ کا آغاز بھی ہوا اور چراغ بھی بجھ گیا میں فکر مند ہوئی، لیکن امام جواد علیہ السلام نے چودھویں کے چاند کی مانند اچانک طلوع کیا جبکہ آپ (ع) کا بدن لطیف اور نرم و نازک سے کپڑے میں لپٹے نے لپٹا ہوا تھا اور بچے کے نور نے کمرے کو روشن کیا ہوا تھا۔ میں نے امام (ع) کو اٹھا کر اپنی گود میں لیا اور وہ نازک کپڑا آپ (ع) کے بدن سے الگ کیا کہ اتنے میں امام علی بن موسی الرضا  علیہ السلام اندر تشریف لائے اور آپ (ع) کو لے کر گہوارے میں ڈال دیا اور فرمایا: بہن! گہوارے کا خیال رکھنا۔ تین روز گذرنے کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنی آنکھیں آسمان کی جانب کھول دیں اور نگاہ دائیں اور بائیں طرف دوڑائی اور فرمایا:

اشہد ان لا الہ الا الہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ (ص).

گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کی سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے پیغمبر ہیں۔

 میں پریشان ہو کر اٹھی اور امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میرے مولا! میں نے اس بچے سے بہت حیران کن بات سنی ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: کونسی عجیب بات سنی ہے آپ نے ؟ میں نے جو سنا تھا نقل کر کے سنایا۔ امام (ع) نے فرمایا: اے حکیمہ! اس بچے سے جن عجیب چیزوں کا آپ مشاہدہ کریں گی، وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جو آپ نے سن لیا ہے۔

 مناقب، ج 4، ص 394

امام جواد علیہ السلام کی ولادت کی پیشین گوئی ابن ابی نجران نقل کرتے ہیں کہ: واقفیہ فرقے کے ایک راہنما "حسین بن قیاما" نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: کیا آپ امام ہیں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! میں ہی امام ہوں۔ اس شخص نے کہا: خدا کی قسم آپ امام نہیں ہیں۔ امام علیہ السلام چند لمحوں تک سر جھکا کر بیٹھے رہے اور پھر اس شخص سے فرمایا: تم کیوں سوچتے ہو کہ میں امام نہیں ہوں ؟ اس شخص نے کہا: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ " امام بانجھ نہیں ہو سکتا جبکہ آپ اس عمر میں بھی صاحب اولاد نہیں ہیں اور آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے"، امام رضا (ع) کی خاموشی اس بار طویل ہو گئی اور پھر سر اٹھا کر فرمایا: "خدا کی قسم! بہت زیادہ عرصہ نہیں لگے گا جب خداوند متعال مجھے ایک بیٹا عطا فرمائے گا"۔

ابن ابی نجران کہتے ہیں کہ: ہم نے اس کے بعد مہینے گننا شروع کئے اور ابھی ایک سال نہیں گذرا تھا کہ خداوند متعال نے امام رضا علیہ السلام کو امام جواد علیہ السلام عطا فرمایا۔

بحار الانوار، ج 49، ص 272، ح 18

 تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام جواد علیہ السلام سنہ 195 ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے مگر آپ (ع) کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے: محمد بن یعقوب کلینی نے الکافی میں،

شیخ مفید نے الارشاد میں،

شہید ثانی نے الدروس میں تحریر کیا ہے کہ:

امام جواد علیہ السلام ماہ مبارک رمضان سنہ 195 کو پیدا ہوئے۔ بعض مؤرخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان کو پیدا ہوئے ہیں۔ تاہم شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ امام جواد علیہ السلام کا یوم پیدائش 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔

بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14

 امام رضا علیہ السلام امام جواد علیہ السلام کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ کلیم بن عمران کہتے ہیں کہ: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ہی بیٹا ہے جو میرا وارث ہو گا۔ جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے، جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شگافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاہر متولد ہوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ہو گا اور بہت تھوڑے عرصے کے بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا۔ امام رضا علیہ السلام پوری رات گہوارے میں اپنے بیٹے سے بات چیت کیا کرتے تھے۔

بحار الانوار، ج 50، ص 15، ح 19

امام جواد علیہ السلام کی امامت کے آغاز میں شیعہ راہنماؤں کا اجتماع امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام جواد علیہ السلام کی عمر تقریباً سات برس تھی، اسی بنا پر بغداد اور دیگر شہروں میں لوگوں میں اختلافات ظاہر ہوئے۔ ریان بن صلت، صفوان بن یحیی، محمد بن حکیم، عبد الرحمن بن حجاج، یونس بن عبد الرحمن و دیگر نے عبد الرحمن بن حجاج کے گھر میں اجتماع کیا تا کہ اس سلسلے میں بات چیت کریں۔ تمام حاضرین امام رضا علیہ السلام کی شہادت کی مصیبت پر گریہ و بکاء کر رہے تھے۔ یونس بن عبد الرحمن نے کہا: رونے کا وقت نہیں ہے اس مسئلے کے بارے میں بات کرو کہ جب تک ابو جعفر بڑے ہونگے منصب امامت کس کے پاس رہے گا ؟ اور ہم اپنے سوالات کس سے پوچھیں گے ؟ ریان بن صلت یہ بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور یونس کا گریباں پکڑ لیا اور کہا: تم بظاہر ایمان کا مظاہرہ کرتے ہو لیکن باطن میں اہل تردید اور اہل شرک ہو۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اگر کوئی فرد خدا کی طرف سے امامت پر منصوب ہو وہ اگر ایک روزہ بچہ بھی ہو ایک بوڑھے عالم و دانشور کی مانند ہے اور اگر خدا کی جانب سے نہ ہو اور ایک ہزار برس تک بھی جیئے وہ بہر صورت ایک عام انسان ہی ہے اور ہمیں اس موضوع پر بحث کرنی چاہیے۔ ریان بن صلت کے بعد دوسروں نے بھی یونس بن عبد الرحمن کی ملامت کی۔

بحار الانوار، ج 50، ص 99، ح 12

امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی امامت پر تصریح فرمائی، عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ: میں صفوان بن یحیی کے ہمراہ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام جواد علیہ السلام کی عمر اس وقت تین برس سے زیادہ نہ تھی اور امام رضا علیہ السلام کے پہلو میں کھڑے تھے، ہم نے عرض کیا: ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، اگر آپ کو کچھ ہو جائے تو بعد میں کون امام ہو گا ؟، امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا یہ بیٹا اور امام رضا علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اور ہاں! اسی چھوٹی عمر میں ہی، خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو دو سال کی عمر میں نبوت کا عہدہ سونپ دیا تھا۔

بحار الانوار، ج 50، ص 35، ح 23

بحار الانوار، ج 50، ص 21، ح 8

کم سنی میں امامت کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات رسول اللہ ص کے وصال کے بعد سے پہلی مرتبہ اہل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا۔ کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت امام جواد علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ہی مرتبہ امامت پر فائز ہوئے۔ چونکہ اس سے پہلے آئمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لہذا اہل تشیع کے بعض گروہ بھی شک و شبہے کا شکار ہوئے اور امام جواد علیہ السلام نے خود ہی کئی مرتبہ اس شبہے کا ازالہ فرمایا۔ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کے عنوان سے اٹھے ہوئے سوال کا جواب ابراہیم بن محمود کہتے ہیں کہ: میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا کہ اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم کس سے رجوع کریں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے۔ اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لیے متعارف کر رہا ہوں۔

بحار الانوار، ج 50 ، ص 34 ، ح 20

امام جواد علیہ السلام کا اونچا مقام و مرتبہ ـ حدیث لوح امام جواد علیہ السلام سلسلہ امامت کی نویں کڑی ہیں اور آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے خاص قسم کی خصوصیات عطا ہوئی ہیں جن کے باعث آپ (ع) خداوند متعال کی بارگاہ میں بھی اور رسول اللہ ص، آئمۂ طاہرین اور اپنے والد بزرگوار کے نزدیک بھی اونچے مقام و منزلت کے مالک ہیں۔ آپ کے بعض مقامات کی مختصر مثالیں امام جواد علیہ السلام حدیث کی روشنی  میں ابو بصیر کہتے ہیں کہ: ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے فرمایا: اے جابر! کون سا وقت آپ کے لیے مناسب ہے کہ میں خلوت میں آپ سے کچھ پوچھ لوں ؟ جابر نے عرض کیا: جب بھی آپ مناسب سمجھیں۔ ابو بصیر کہتے ہیں کہ: اس کے بعد امام علیہ السلام جابر سے خلوت میں ملے اور فرمایا: آپ نے میری والدہ ماجدہ حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ ص کے ہاتھ میں ایک "لوح" کو دیکھا تھا اس کے بارے میں اور جو کچھ میری والدہ نے آپ سے فرمایا تھا، اس کے بارے میں مجھ آگاہ کریں۔ جابر نے کہا کہ: اللہ کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں حضرت رسول اللہ ص کی حیات کے ایام میں امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت پر مبارکباد عرض کرنے سیدہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ سیدہ (س) کے دست مبارک میں سبز رنگ کی ایک لوح تھی (یا تختی تھی) میں سمجھا کہ وہ لوح زمرد کی بنی ہوئی ہے اور میں نے اس لوح پر سورج کی طرح چمکتی تحریر دیکھی۔ میں نے عرض کیا: اے دختر رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں یہ لوح کیا ہے ؟ سیدہ (س) نے فرمایا: یہ ایسی لوح ہے جو خداوند متعال نے اپنے رسول (ص) پر تحفے کے طور پر نازل فرمائی تھی۔ اس لوح میں میرے والد، میرے شوہر اور میرے دو بیٹوں کے ناموں کے ساتھ میرے فرزندوں میں سے ہی رسول اللہ ص کے دیگر اوصیاء اور جانشینوں کے نام درج ہیں اور یہ لوح والد ماجد نے امام حسیں علیہ السلام کی ولادت پر تحفے کے طور پر مجھے عطا فرمایا ہے۔ جابر کہتے ہیں: اے فرزند رسول اللہ (ص)! آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ زہراء (س) نے وہ لوح مجھے دی اور میں نے وہ پڑھ لیا اور اس پر لکھی عبارتیں بھی لکھ لیں۔ میں خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ اس لوح پر مرقوم تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط ہے خداوند عزیز حکیم کی جانب سے اس کے نبی و حبیب محمد (ص) کے نام ... میں اس، علی بن موسی الرضا کو اس کے بیٹے، جانشین اور اس کے علوم کے وارث "محمد" کے توسط سے، مسرور کروں گا اور اپنے خاندان میں سے ایسے ستر افراد کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کروں گا، چاہے وہ سارے کے سارے اہل جہنم ہی کیوں نہ ہوں۔

 اصول کافی، کتاب الحجہ، ج 2، ص 473، ح 3

والد ماجد کے سائے سے محرومی:

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اپنے والد ماجد کے سایہ عاطفت سے ان کی زندگی ہی میں محروم ہو گئے تھے، ابھی آپ کی عمر 6 سال کی بھی نہ ہونے پائی تھی کہ آپ اپنے پدر بزرگوار کی شفقت و عطوفت سے محروم کر دیئے گئے اور مامون رشید عباسی نے آپ کے والد ماجد حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو اپنی سیاسی غرض کے ما تحت مدینہ سے خراسان طلب کر لیا، اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی کہ آپ کے بال بچے مدینہ ہی میں رہیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ سب کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر خراسان تشریف لے گئے اور وہیں عالم غربت میں سب سے دور مامون رشید کے ہاتھوں ہی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔

امام کی ثقافتی اور سیاسی تحریکیں:

امام محمدتقی (ع) کے زمانے میں مختلف فرقے و مذاہب اور مکاتب فکر، طرح طرح کے عوامل و اسباب کی بنا پر وجود میں آئے، جن میں سے ایک اسلامی دنیا کی گسترش، دوسرے مذاہب و ادیان کے عقائد وغیرہ کا داخل ہونا، یونانی فلاسفہ کے آثار کا ترجمہ ہونا اور فرقہ بندی اور لوگوں کا مختلف دہڑوں میں تقسیم ہونا ہے۔

 امام محمد تقی (ع) اپنے والد بزرگوار کی طرح دو سیاسی و فکری اور ثقافتی محاذ پر کام کر رہے تھے۔ زيديہ، واقفيہ، غالیوں اور مجسمہ جیسے فرقوں کے شبہات و اعتراضات نیز ان کا  اپنے فرقے کے دفاع کی وجہ سے امام (ع) کی ذمہ داری تھی کہ ان کے مقابلے میں شیعہ عقائد اور ثقافت کو واضح اور شفاف طریقہ سے بیان کریں۔ 

امام (ع)نے فرقہ زیدیہ کے متعلق جو منصب امامت کا حقدار امام زين  العابدين علیہ السلام کے بعد زید کو جانتے تھے، ان لوگوں کو اس آیت کریمہ"وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ، اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے"۔  کی تفسیر میں فرقہ زیدیہ  کو ناصبیوں کے ردیف میں شمار کیا ہے۔  

حضرت (ع) نے فرقہ واقفيہ کے بارے میں کہ جو لوگ امام موسی كاظم (ع) کی غیبت کے قائل تھے اور اسی بہانہ کی وجہ سے بہت زیادہ شرعی رقوم کو ہڑپ لیا تھا، ایسے لوگوں کو اس آیت شریفہ"وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ، اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے"۔  کا مصداق شمار کیا ہے اور ایک جگہ فرمایا کہ شیعوں کو ان لوگوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہیے۔ 
حضرت (ع) نے اپنے زمانے کے غالیوں کو جنہوں نے ابو الخطاب کی رہنمائی میں حضرت علی (ع) کو الوہيت اور ربوبيت کی حد تک پہنچا دیا تھا، امام جواد (ع) نے فرمایا: ابو الخطاب، اس کے ساتھیوں اور جو لوگ اس پر لعنت کرنے میں توقف کریں یا شک کریں، ان سب پر خدا کی لعنت ہو۔  اس فرقہ کے متعلق حضرت (ع) کا سخت رویہ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ آپ (ع) اسحاق انباری سے ایک روایت میں فرماتے ہیں:" ابو المہري اور ابن ابی الرزقاء کو جس طرح بھی ہو سکے قتل کیا جائے"۔

امام (ع)نے مجسمہ فرقہ کو جو مندرجہ ذیل آیات:

"يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ"۔  اور "الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى"۔

 سے غلط مطلب نکالتے ہوئے خداوند عالم کے جسم کے قائل تھے، ان کے بارے میں آپ (ع) نے فرمایا:" جو لوگ خدا کے جسم کے قائل ہیں شیعوں کو ان کے پیچھے نماز نہیں پڑہنی چاہیے اور زکوٰۃ بھی نہیں دینی چاہیے"۔

معتزلہ جو ایک کلامی فرقہ ہے یہ عباسیوں کے حکومت پر پہنچنے کے بعد میدان میں آیا اور عباسیوں کی خلافت کے سو سال کے اندر اپنے عروج تک پہنچ گیا، یہ بھی امام محمد تقی (ع) کے زمانے کے فکری و عقائدی حوادث میں سے ایک ہے۔ اس زمانے میں امام محمد تقی (ع) کا سلوک، اعتقادی حوادث کے مقابلہ میں اپنے والد بزرگوار کی طرح بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہاں تک کہ یحییٰ بن اکثم جو اپنے زمانے کا بہت بڑا فقیہ شمار ہوتا تھا، اس سے امام محمد تقی (ع) کے مناظرے کو خالص شیعہ افکار و اصول سے معتزلیوں کی محاذ آرائی قرار دی جا سکتی ہے جس میں کامیابی ہمیشہ امام محمد تقی (ع) کے ساتھ رہی ہے۔

امام محمدتقی (ع) نے خالص شیعہ ثقافت کو پھیلانے کے لیے عباسیوں کے مختلف بڑے بڑے علاقوں میں اپنے نمائندوں اور کارکنوں کو معین کیا اور بھیجا، یہاں تک کہ امام نے مختلف علاقوں میں جیسے اہواز، همدان، رے، سيستان، بغداد، واسط، سبط، بصره اور شیعہ نشین علاقے جیسے كوفہ و قم وغیرہ میں فعال و سرگرم وکیل موجود تھے۔

امام محمد تقی (ع) نے بنی عباس کی حکومت میں شیعوں کے نفوذ اور مختلف علاقوں میں شیعوں کی فریاد رسی و مدد کے لیے "احمد ابن  حمزه قمی" جیسے افراد کو عہدوں کی ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دی تھی، یہاں تک کہ "نوح  ابن  دراج" جو امام (ع) دوستوں میں سے تھے یہ کچھ زمانے تک بغداد کے قاضی رہے اس کے بعد کوفہ کے قاضی بنے، بعض بزرگ اور مورد اعتماد شیعہ جیسے "محمد ابن اسماعيل ابن بزيع نيشابوری" یہ خلفائے عباسی کے وزیروں میں شمار ہوتے تھے، یہ امام محمد تقی (ع) رابطہ رکھتے تھے، انہوں نے امام (ع) سے ایک پیراہن مانگا تا کہ مرنے کے بعد اس سے انہیں کفن دیا جائے اور حضرت (ع) نے ان کی درخواست پوری کرتے ہوئے اپنا پیراہن ان کے پاس بھیج دیا۔  
افراد کے انتخاب کرنے میں امام (ع) کی فکری و سیاسی روش بالکل پوسیدہ اور پردہ راز میں رہتی تھی، یہاں تک کہ جب ابراہیم بن محمد کو خط لکھتے ہیں تو ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب تک "یحیی بن ابی عمران" (امام (ع) کے صحابی) زندہ ہیں خط کو نہ کھولیں۔ چند سال کے بعد جب یحیی کا انتقال ہوتا ہے تو ابراہیم بن محمد خط کو کھولتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ حضرت (ع) نے خط میں ان کو مخاطب کر کے لکھا ہے: جو کام اور ذمہ داریاں یحیی بن ابی عمران کے ذمہ تھیں اب سے وہ تمہارے ذمہ ہیں۔

یہ چیزیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ حضرت (ع) بنی عباس کی حکومت کے پُرآشوب اور گھٹن کے حالات اور ماحول میں کس قدر اپنے ماننے والوں پر عنایت رکھتے تھے، تا کہ کسی کو ان کے نمائندوں کی جانشینی کی اطلاع نہ مل سکے۔       

امام محمد تقی  (ع) کی سياسی سيرت:

امام جواد  (ع) کی سياسی حکمت عملی امامت کے فروغ کا باعث بني اور مقام امامت کيلئے انکی شائستگی اور لياقت کو ثابت کر گئی-

شيعيان خاص طور پر علويان جن کي سربراہی آئمہ معصومين (ع) کے ہاتھوں ميں تھی بنی اميہ کے دور حکومت اور منصور عباسی اور مہدی عباسی کی حکومت ميں شديد ترين حالات سے روبرو تھے۔ شيعہ تحريکيں مسلسل اور يکے بعد ديگرے اٹھتی تھيں اور حکومت کی جانب سے کچل دی جاتی تھيں۔ شيعہ ہونا بہت بڑا جرم بن چکا تھا جسکی پاداش ميں قيد کر دينا، قتل کر دينا، تمام اموال کا ضبط کر لينا اور انکے گھروں کو مسمار کر دينا حکومت کا قانونی حق بن چکا تھا۔ آئمہ معصومين عليھم السلام بھی تقيہ کی حالت ميں تھے اور شيعيان کے ساتھ انکے روابط مخفيانہ طور پر انجام پاتے تھے۔

امام موسی کاظم  (ع) کے بعد جب آئمہ معصومين عليھم السلام کی زير نگرانی سياسی فعاليت کے نتيجے ميں شيعيان ايک حد تک طاقتور ہو چکے تھے، وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ اظہار وجود کر سکيں اور انکی تعداد بھی کافی حد تک بڑھ چکی تھی- لہذا شيعيان کئی سال تک آئمہ معصومين عليھم السلام سے کھل کر اظہار عقيدت کرنے کی طاقت سے محروم ہونے کے بعد اب ايسے مرحلے تک پہنچ چکے تھے کہ آئمہ معصومين عليھم السلام کی اجتماعی منزلت اس حد تک بلند ہو چکی تھی کہ خلفاء بنی عباس اعلانيہ طور پر ان سے اپنی دشمنی کا اظہار کرنے سے کتراتے تھے۔ دوسری طرف بنی عباس آئمہ معصومين عليھم السلام کو اپنے حال پر بھي نہيں چھوڑنا چاہتے تھے تا کہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنی مرضی سے جو چاہيں انجام دے سکيں۔ لہذا انہوں نے فيصلہ کيا کہ آئمہ معصومين عليھم السلام کو اپنے قريب رکھيں تا کہ انکی سر گرميوں پر کڑی نظر رکھ سکيں۔

چنانچہ مامون عباسی نے امام علی رضا  (ع) کو مدينہ سے طوس آنے پر مجبور کر ديا۔ يہی چيز علويان کے اجتماعی اثر و رسوخ ميں اضافے کا باعث بنی۔ امام علی رضا  (ع) خراسان ميں مستقر ہوئے اور آپ اور اپکے فرزند امام محمد تقی  (ع) کے وکلاء کا نيٹ ورک اسلامي سرزمين کے کونے کونے تک پھيل گيا۔ شيعيان اس قابل ہو گئے کہ ہر سال حج کے موقع پر مکہ مکرمہ اور مدينہ منورہ ميں امام جواد  (ع) سے براہ راست ملاقات کر سکيں۔

امام محمد تقی (ع) کے ماننے والے بغداد، مدائن، عراق اور مصر تک پھيل گئے اور خراسان اور رے دو بڑے شيعہ مراکز کے طور پر ظاہر ہوئے۔ شيعيان امام جواد  (ع) کے وکلاء کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے کے علاوہ حج کے موقع پر خود امام  (ع) سے بھی ملاقات کرتے رہتے تھے اور ان سے براہ راست رابطہ قائم رکھتے تھے۔ قم شيعوں کے بڑے اور اصلی مراکز ميں سے ايک تھا۔ قم کے شيعوں نے بھی امام محمد تقی  (ع) کے ساتھ براہ راست رابطہ برقرار کر رکھا تھا۔ دوسری طرف قم کے لوگ مامون عباسی کی حکومت کی مخالفت کا بھی اظہار کرتے تھے۔ نوبت يہاں تک پہنچی کہ مامون عباسی نے علی ابن ہشام کی سربراہی ميں قم پر فوجی حملے کا حکم دے ديا ليکن اسے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح فارس، اہواز، سيستان اور خراسان ميں مختلف شيعہ گروہ وجود ميں آئے جو امام جواد  (ع) سے مکمل رابطے ميں تھے۔

مامون عباسی جو بنی عباس کا سب سے زيادہ چالاک اور دور انديش حکمران تھا خود کو علم اور آزادی بيان کا حامی ظاہر کرتا تھا جسکا مقصد اقتدار پر اپنے قبضے کو باقی رکھنا اور ايسے حقائق کو مسخ کرنا تھا جو بنی عباس کی سياسی بقا کيلئے خطرہ تھے۔ مامون عباسی امام محمد تقی  (ع) کے دوران امامت ميں حکم فرما تھا اور انکی زندگی کا بڑا حصہ مامون کے دوران حکومت ميں گزرا۔ مامون عباسی نے شيعہ تفکر پر مکمل غلبہ پانے کيلئے امام علی رضا  (ع) اور امام محمد تقی  (ع) کے دوران امامت ميں بہت سے اقدامات انجام ديئے۔ اس نے کوشش کی کہ گذشتہ حکمرانوں کے رويے کے برعکس آئمہ معصومين عليھم السلام کے ساتھ نئے انداز سے پيش آئے اور انہيں اپنے زمانے کے نامور دانشور اور علماء حضرات کے ساتھ علمی مناظروں کی دعوت ديتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ امام علی رضا  (ع) اور امام محمد تقی (ع) جن کی عمر بھی کم تھی کو کسی طرح علمی ميدان ميں شکست سے دوچار کر سکے۔ مامون عباسی آئمہ معصومين عليھم السلام کی علمی شخصيت کو خدشہ دار کر کے تشيع کو جڑ سے اکھاڑ پھينکے کی سازشوں ميں مصروف تھا۔

امام علی رضا  (ع) کی شہادت کے بعد بھی بنی عباس کی شيعہ مخالف سازشيں جاری رہيں۔ مامون عباسی کا طريقہ يہ تھا کہ اس نے ہر شخص پر ايک جاسوس مقرر کر رکھا تھا اور يہ کام وہ اپنی کنيزوں سے ليا کرتا تھا۔ وہ جسکی جاسوسی کرنا چاہتا تھا اسے اپنی ايک کنيز تحفے کے طور پر پيش کرتا تھا، يہی کنيز اسکے بارے ميں تمام معلومات مامون عباسی تک پہنچاتی رہتی تھی۔ لہذا امام محمد تقی  (ع) کی سرگرميوں پر نظر رکھنے کيلئے مامون عباسی نے انکی شادی اپنی بيٹی ام الفضل سے کروا دی جيسا کہ امام علی رضا  (ع) کے دور ميں بھی انکی شادی اپنی دوسری بيٹی ام حبيبہ سے کروا چکا تھا۔

امام محمد تقی (ع) جو کم عمر ہونے کے باوجود امامت کے منصب پر فائز تھے:

امام محمد تقی (ع) جو چھوٹی عمر ہونے کے باوجود امامت کے منصب پر فائز تھے اور قيادت کی ذمہ دارياں ادا کر رہے تھے۔ نظام حاکم کيلئے بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ مامون عباسی اہل تشيع کی جانب سے بغاوت سے سخت خوفزدہ تھا لہذا انہيں اپنے ساتھ ملانے کيلئے مکاری اور فريبکاری سے کام ليتا تھا۔ اس مقصد کيلئے اس نے امام علی رضا  (ع) کو عمر ميں خود سے کہيں زيادہ بڑا ہونے کے باوجود اپنا وليعہد بنايا اور انکے نام کا سکہ جاری کيا اور اپنی بيٹی سے انکی شادی کروائی۔ مامون نے امام محمد تقی  (ع) سے بھی يہ رويہ اختيار کيا اور 211 ہجری ميں انہيں مدينہ سے بغداد بلوا ليا تا کہ انکی سرگرميوں پر کڑی نظر رکھ سکے۔

مامون عباسی چاہتا تھا کہ دھمکيوں اور لالچ جيسے سياسی ہتھکنڈوں کے ذريعے امام جواد  (ع) کو اپنا حامی بنائے۔ اسکے علاوہ وہ يہ بھی چاہتا تھا کہ اہل تشيع کو خود سے بدبين نہ ہونے دے اور امام علی رضا  (ع) کو شہيد کرنے کا الزم بھی اپنے دامن سے دھو سکے۔

امام محمد تقی  (ع) اسکی توقعات کے برعکس اپنی تمام سرگرمياں انتہائی ہوشياری اور دقيق انداز ميں انجام ديتے تھے۔ وہ حج کے بہانے بغداد سے خارج ہو کر مکہ آ جاتے تھے اور واپسی پر کچھ عرصہ کيلئے مدينہ ميں رہ جاتے تھے تا کہ مامون کی نظروں سے دور اپني ذمہ دارياں انجام دے سکيں-

مامون عباسی کے بعد اسکا بھائی معتصم بر سر اقتدار آيا۔ اس نے مدينہ کے والی عبد الملک ابن زياد کو لکھا کہ امام محمد تقی ع اور انکی اہليہ ام الفضل کو بغداد بھجوا دے۔ معتصم عباسی کے اقدامات کے باوجود امام محمد تقی  (ع) کی محبوبيت ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گيا۔ حکومت کيلئے جو چيز سب سے زيادہ ناگوار تھی وہ يہ کہ امام جواد  (ع) چھوٹی عمر کے باوجود سب کی توجہ کے مرکز بنتے جا رہے تھے اور دوست اور دشمن ان کے علم اور فضيلت کے قائل ہو رہے تھے۔ جب امام جواد  (ع) بغداد کی گليوں ميں جاتے تھے تو سب لوگ آپکی زيارت کيلئے چھتوں اور اونچی جگہوں پر جمع ہو جاتے تھے۔

اسی طرح بنی عباس کے حکمرانوں کی سازشوں کے باوجود امام محمد تقی  (ع) کے اثر و رسوخ ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گيا۔ معتصم انتہائی پريشان تھا کيونکہ وہ ديکھ رہا تھا کہ امام جواد  (ع) انتہائی عقلمندی سے اسکے تمام منصوبوں پر پانی پھير رہے ہيں۔

سيستان کا رہنے والا بنی حنيفہ قبيلے کا ايک شخص کہتا ہے: ايک بار امام جواد  (ع) کے ساتھ حج پر گيا ہوا تھا۔ ايک دن دسترخوان پر بيٹھ کر کھانا کھا رہے تھے، معتصم کے دربار کے کچھ افراد بھی موجود تھے۔ ميں نے امام جواد (ع) سے کہا کہ ہمارا حکمران اہلبيت (ع) سے محبت رکھنے والا شخص ہے، اس نے مجھ پر کچھ ٹيکس لگائے ہيں، آپ مجھے اسکے نام ايک خط لکھ ديں تا کہ ميرے ساتھ اچھا رويہ اختيار کرے۔ امام جواد  (ع) نے لکھا: بسم اللہ الرحمان الرحيم- اس خط کا حامل شخص تمہارے بارے ميں اچھی رائے رکھتا ہے۔ تمہارے لیے فائدہ مند کام يہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ نيکی سے پيش آؤ۔

وہ شخص کہتا ہے کہ جب ميں سيستان آيا اور حکمران کو خط ديا تو اس نے وہ خط اپنی آنکھوں سے لگايا اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مسئلہ کيا ہے ؟ ميں نے کہا کہ تمہارے افراد نے مجھ پر بہت بھاری ٹيکس لگايا ہے، آپ دستور ديں کہ يہ ٹيکس ختم کر ديا جائے۔ اس نے کہا کہ جب تک ميں حکمران ہوں تم ٹيکس ادا نہ کرو۔

اس واقعہ سے اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ امام جواد  (ع) کا اثر و رسوخ کس حد تک تھا۔ امام محمد تقی  (ع) نے امامت کی بنيادوں کو مستحکم کيا اور اہلبيت (ع) کی موقعيت کو حفظ کيا۔ اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء اور دانشور حضرات جيسے يحيی بن اکثم جو ايک بڑا فقيہ تھا، کے ساتھ مناظروں کے ذريعے امام جواد  (ع) نے اہلبيت ع کا پيغام سب لوگوں تک پہنچايا۔ بنی عباس کے حکمران کسی صورت نہيں چاہتے تھے کہ امام جواد  (ع) کی عظيم شخصيت سے لوگ آشنائی پيدا کريں لہذا انکو شہيد کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔

معتصم عباسی نے اپنے ايک وزير کے ذريعے امام محمد تقی  (ع) کو زہر کھلا کر شہيد کروا ديا۔ شہادت کے وقت امام جواد  (ع) کی عمر 25 سال اور کچھ ماہ تھی۔

باب الحوائج:

آپ کے دو مشهور لقب تھے، جواد اور تقی ، آپ کی ولادت باسعادت رمضان المبارک  195 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ نے خلیفہ مامون کے زمانہ میں اپنی زندگی کا آغاز کیا وہ مامون جو اہل بیت  (ع) اور ان کی ولایت کا جھوٹا مظاہرہ کر رہا تھا۔

اور جس وقت امام رضا علیہ السلام کی وفات واقع وئی تو لوگوں کی زبان پر امام علیہ السلام کے قتل کا الزام مامون پر لگایا جا رہا تھا چنانچہ مامون نے اس افواہ کو جھوٹا ثابت کرنے اور عملی طور پر دلیل قائم کرنے کی کوشش کی اور اس نے امام تقی علیہ السلام سے محبت کا اظھار کیا اور اپنی بیٹی امّ الفضل سے آپ کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تا کہ دونوں خاندانوں میں جدید رشتہ داری کی بنا پر محبت پیدا ہو جائے، لیکن اس کام کے لیے دوسرے عباسیوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کی اور اصرار کیا کہ اس شادی سے صرف نظر کرے اور یہ مطالبہ کیا کہ علویوں کے ساتھ گذشتہ خلفاء کا رویہ اختیار کرے یعنی ان کے ساتھ جنگ و دشمنی کی جائے، لیکن مامون نے ان کی یہ بات نہ سنی اور ان کو جنگ و دشمنی سے روکا کیونکہ اسے آل علی (ع) سے قطع تعلق کی کوئی خاص وجہ نہیں دکھائی دی اور ان کے سامنے وضاحت کی کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی عاطفہ اور محبت کی بنا پر نہیں کر رہا ہوں بلکہ امام علیہ السلام کی شخصیت و فضیلت تمام علماء اور ماہرین پر واضح ہے در حالیکہ ان کا سن بھی کم ہے۔

لیکن جب ان لوگوں نے مامون کو اپنے فیصلہ پر مصمم پایا تو کہا کہ امام علیہ السلام کو مزید علم و فقہ میں مہارت حاصل کرنے دو اس وقت مامون نے کہا:

  یہ اہل بیت  (ع) کی ایک فرد ہیں ان کا علم خداوند کی طرف سے ہوتا ہے اور اگر تم نہیں مانتے تو ان کا امتحان کر لو تا کہ تم پر بھی حقیقت واضح ہو جائے۔

چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ امام علیہ السلام کا امتحان لیا جائے اور ان میں سے بعض لوگ امتحان کے لیے تیار ہو گئے، اور قاضی القضاة یحی بن اکثم کو آمادہ کیا کہ وہ امام علیہ السلام سے سوال کر کے شکست دیدے، چنانچہ امتحان کی تاریخ پہنچ گئی اور امام و یحی بن اکثم کے درمیان مناظرہ ہوا جس کے نتیجہ میں یحی بن اکثم کو منہ کی کھانی پڑی اور امام علیہ السلام کی شخصیت فقہ اسلامی کے میدان میں روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی، اس مناظرہ میں امام علیہ السلام کی قابلیت کو دیکھ کر مامون نے اپنی لڑکی سے شادی کر دی اور امام و مامون کے درمیان تعلقات بہتر ہو گئے۔

لیکن جب مامون کے بعد معتصم کو خلافت ملی تو اس نے امام علیہ السلام کو بغداد بلا لیا اور آپ کو ایک مخصوص گھر میں رکھا گیا لیکن آپ کی وفات ان مبھم حالات میں ہوئی جن کی بنا پر معتصم پر الزام لگایا جانے لگا کہ اس نے ام الفضل کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زہر پلایا۔

لقب باب الحوائج کی وجہ:

علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ: کثرت عبادت کی وجہ سے عبد صالح اور خدا سے حاجت طلب کرنے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کہا جاتا ہے،کوئی بھی حاجت ہو جب آپ کے واسطے سے طلب کی جاتی تھی تو ضرور پوری ہوتی تھی۔

ملاحظہ ہو (مطالب السول ص 278 ، صواعق محرقہ ص 131) ۔

فاضل معاصر علامہ علی حیدر نے لکھا ہے کہ: حضرت کا لقب باب قضاء الحوائج یعنی حاجتیں پوری ہونے کا دروازہ بھی تھا حضرت کی زندگی میں تو حاجتیں آپ کے توسل سے پوری ہوتی تھیں، شہادت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور اب بھی ہے۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے حکمت آمیز فرامین:

یہ ایک مسلہ حقیقت ہے کہ بہت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اہل بیت کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے حکیمانہ فرامین کا ایک ذخیرہ ہے، جیسے آپ کے جد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے فرامین بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جناب امیر علیہ السلام کے بعد امام محمد تقی علیہ السلام کے فرامین کو ایک خاص درجہ حاصل ہے۔ بعض علماء نے آپ کے فرامین کی تعداد کئی ہزار بتائی ہے۔

علامہ شبلنجی بحوالہ فصول المہمہ تحریر فرماتے ہیں کہ: حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا اراشاد ہے کہ :

1- خداوند عالم جسے جو نعمت دیتا ہے بہ ارادہ دوام دیتا ہے ، لیکن اس سے وہ اس وقت زائل ہو جاتی ہے جب وہ لوگوں یعنی مستحقین کو دینا بند کر دیتا ہے ۔

2- ہر نعمت خداوندی میں مخلوق کا حصہ ہے جب کسی کو عظیم نعمتیں دیتا ہے تو لوگوں کی حاجتیں بھی کثیر ہو جاتی ہیں، اس موقع پر اگر صاحب نعمت (مالدار) عہدہ برآ ہو سکا تو خیر ورنہ نعمت کا زوال لازمی ہو جاتا ہے۔

3- جو کسی کو بڑا سمجھتا ہے، تو اس سے ڈرتا بھی ہے۔

4- جس کی خواہشات زیادہ ہوں گی، اس کا جسم موٹا ہو گا۔

5- صحیفہ حیات مسلم کا سرنامہ ،حسن خلق، ہے۔

6- جو خداوند کے بھروسے پر لوگوں سے بے نیاز ہو جائے گا، لوگ اس کے محتاج ہوں گے۔

7- جو خداوند سے ڈرے گا تو لوگ اس سے محبت کریں گے۔

8- انسان کی تمام خوبیوں کا مرکز و محور، اسکی زبان ہے۔

9- انسان کے کمالات کا دار و مدار عقل کے کمال پر ہے ۔

10- انسان کے لیے فقر کی زینت، عفت ہے، خدائی امتحان کی زینت، شکر ہے، حسب کی زینت، تواضع اور فرتنی ہے، کلام کی زینت، فصاحت ہے، روایات کی زینت، حافظہ ہے، علم کی زینت، انکساری ہے، ورع و تقوی کی زینت، حسن ادب، ہے قناعت کی زینت، خندہ پیشانی، ہے ورع و پرہیزگاری کی زینت، تمام فضول کاموں سے کنارہ کشی کرنا ہے۔

11- ظالم اور ظالم کا مددگار اور ظالم کے فعل کے سراہانے والے ایک ہی زمرے میں ہیں، یعنی سب کا جرم اور عذاب برابر ہے۔

12- جو زندہ رہنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ برداشت کرنے کے لیے اپنے دل کو صبر آزما بنا لے۔

13- خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے تین چیزیں ہونی چاہیں اول، استغفار دوم، نرمی اور فرتنی سوم، کثرت صدقہ۔

14- جو جلد بازی سے پرہیز کرے گا لوگوں سے مشورہ لے گا ، اللہ پر بھروسہ کرے گا وہ کبھی شرمندہ نہیں ہو گا۔

15- اگر جاہل زبان بند رکھے تو اختلافات نہ ہوں گے۔

16- تین باتوں سے دلوں کو جیتا جا سکتا ہے: ۱ ۔ انصاف کرنا، ۲ ۔ مصیبت میں ہمدردی کرنا، ۳ ۔ پریشانی میں مدد کرنا، ۔

17- جو کسی بری بات کو اچھی نگاہ سے دیکھے گا، وہ اس میں شریک سمجھا جائے گا۔

18- کفران نعمت کرنے والا خدا کی ناراضگی کو دعوت دیا ہے۔

19۔ جو تمہارے کسی احسان پر شکریہ ادا کرے، گویا اس نے تمہیں اس سے زیادہ دیدیا ہے۔

20۔ جو اپنے بھائی کو پوشیدہ طور پر نصیحت کرے، وہ اس کا احسان ہے، اور جو علانیہ نصیحت کرے، گویا اس نے اس کے ساتھ برائی کی۔

21۔ عقلمندی اور حماقت جوانی کے قریب تک ایک دوسرے پر انسان پر غلبہ کرتے رہتے ہیں اور جب 18 سال پورے ہو جاتے ہیں تو استقلال پیدا ہو جاتا ہے اور راہ معین  ہو جاتی ہے ۔

22- جب کسی بندہ پر نعمت کا نزول ہو اور وہ اس نعمت سے متاثر ہو کر یہ سمجھے کہ یہ خدا کی عنایت و مہربانی ہے تو خداوند عالم کا شکر کرنے سے پہلے اس کا نام شاکرین میں لکھ لیتا ہے اور جب کوئی گناہ کرنے کے ساتھ یہ محسوس کرے کہ میں خدا کے ہاتھ میں ہوں، وہ جب اور جس طرح چاہے عذاب کر سکتا ہے تو خداوند عالم اسے استغفار سے قبل بخش دیتا ہے۔

23- شریف وہ ہے جو عالم ہے اور عقلمند وہ ہے، جو متقی ہے۔

 24- جلد بازی کر کے کسی امر کو شہرت نہ دو، جب تک تکمیل نہ ہو جائے ۔

25- اپنی خواہشات کو اتنا نہ بڑھاؤ کہ دل تنگ ہو جائے۔

 26- اپنے ضعیفوں پر رحم کرو اور ان پر رحم کے ذریعہ سے اپنے لیے خدا سے رحم کی درخواست کرو۔

27- عام موت سے بری موت وہ ہے، جو گناہ کے ذریعے سے ہو اور عام زندگی سے خیر و برکت کے ساتھ والی زندگی بہتر ہے۔

28- جو خدا کے لیے اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچائے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے اپنے لیے جنت میں گھر بنا لیا ہو۔

29- جو خدا پر اعتماد رکھے اور اس پر توکل اور بھروسہ کرے خدا اسے ہر برائی سے بچاتا ہے اور اس کی ہر قسم کے دشمن سے حفاظت کرتا ہے۔

30- دین عزت ہے، علم خزانہ ہے اور خاموشی نور ہے۔

 31- زہد کی انتہا ورع و تقوی ہے۔

32- دین کو تباہ کر دینے والی چیز بدعت ہے۔

33- انسان کو برباد کرنے والی چیز لالچ ہے۔

34- حاکم کی صلاحیت رعایا کی خوشحالی کا دار و مدار ہے۔

 35- دعا کے ذریعہ سے ہر بلا ٹل جاتی ہے ۔

36۔ جو صبر و ضبط کے ساتھ میدان میں آ جائے، وہ کامیاب ہو گا-

37- جو دنیا میں تقوی کا بیج بوئے گا، آخرت میں دلی مرادوں کا پھل پائے گا۔

نورالابصار ص 148

التماس دعا.....

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی