2024 March 29
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی کو بیان کرنے والی کی تصحیح اور اس میں تحریف اور حیر پھیر ۔
مندرجات: ١٨٣٦ تاریخ اشاعت: ٠٨ December ٢٠٢٢ - ١١:٠٩ مشاہدات: 4427
مضامین و مقالات » پبلک
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی کو بیان کرنے والی کی تصحیح اور اس میں تحریف اور حیر پھیر ۔

مصنف ابن ابی شیبہ کی نقل شدہ روایت کی تصحیح اور تحریف۔

 

 ابن أبی شیبه کوفی اور اہل سنت کے دوسرے بزرگ علماء نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ دوم جناب فاطمہ زہرا(س) کے گھر آیا اور یہ دھمکی دی کہ اگر ابوبکر کی مخالفت کرنے والے لوگ گھر سے باہر نکل کر بیعت کرنے نہ جائے تو گھر کو آگ لگا دوں گا۔

 اہل سنت کے بعض بزرگ محقق علماء نے اس روایت کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔لیکن بعض نے اس روایت میں حیر پھیر کیا ہے۔

ابن أبی شیبه کوفی (متوفاي235 هـ)اہل سنت کے بزرگ علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی معتبر کتاب«المصنف في الأحاديث والآثار» میں جناب صدیقه شهیده سلام الله علیها کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی پر مشتمل روایت کو صحیح سند نقل کیا ہے.

اہل سنت کے بعض معتبر محقق علماء ، حتی وہابی علماء نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ہم ذیل میں اس روایت کی سند  صحیح کے سلسلے میں اہل سنت کے علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں ۔

اصل روایت:

حدثنا محمد بن بِشْرٍ نا عُبيد الله بن عمر حدثنا زيد بن أسلَم عن أبيه أسلم أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لأِبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلان عَلى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ في أَمرِهِمْ، فَلَمَّا بَلَغَ ذالِكَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلى فَاطِمَةَ، فَقَالَ: يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) مَا مِنَ الْخَلْقِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَينا مِنْ أَبِيكِ، وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبُّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ، وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَ بِمَانِعِيَّ إِنِ اجْتَمَعَ هؤُلاَءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ أَنْ آمُرَ بِهِمْ أَنْ يُحْرَقَ عَليْهِمُ الْبَيتُُ، قَالَ فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاؤُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيَحْرِقَنَّ عَلَيكُمُ الْبَيْتَ، وَايْمُ اللَّهِ لَيُمْضِيَنَّ مَا حَلَفَ عَلَيْهِ.

فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ، فِرُّوا رَأْيَكُمْ وَلاَ تَرْجِعُوا إِلَيَّ، فَانْصَرَفُوا عَنْهَا وَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لأَبِي بَكْرٍ.

«جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ابوبکر کے لئے بیعت لی جارہی تھی اس وقت حضرت علی(ع) اور جناب زبیر اور دوسرے لوگ حضرت زہراء(س)  کے گھر میں ان سے مشورت اور آپس میں گفت و شنید کرنے لگے ،یہ خبر عمر ابن خطاب تک پہنچی ۔وہ جناب فاطمہ(س)  کے گھر آیا اور کہنے لگا: اے دختر رسول خدا (ص) ! ہمارے لئے محبوبترین فرد آپ کے والد اور ان کے بعد آپ ہیں۔لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس کام کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ اگر یہ افراد آپ کے گھر میں اکٹھے ہوجائیں تو میں حکم دوں کہ گھر کو ان کے ساتھ جلا ڈالیں۔

عمر نے یہ جملہ کہا اور باہر چلا گیا اور جس وقت حضرت علی(ع)  اور زبیر گھر واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی نے حضرت علی (ع)  اور جناب زبیر سے یہ کہا : عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر اس گھر میں اجتماع کا سلسلہ جاری رہا تو گھر کو تم لوگوں کے ساتھ آگ لگاوا دوں گا۔اللہ کی قسم عمر نے جو قسم کھائی ہے اس کو انجام ہی دے گا۔»

جائیں اور اپنی راے کے مطابق عمل کریں اور دوبارہ میرے پاس واپس نہ آئیں۔ پس یہ لوگ وہاں سے چلے گئے اور پھر واپس نہیں آئے،یہاں تک کہ ابوبکر کی بیعت کردی۔

إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 7، ص 432، ح37045، کتاب المغازي، باب ما جاء في خلافة ابي بکر وسيرته في الرده، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

 

  


روايت کی تصحيح:

پہلے ہم اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے اھل سنت کے علما کی راے بیان کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس کے سارے راوی اھل سنت کے علما کی نظر میں ثقہ ہے لہذا اس کی سند صحیح ہے ، دوسرے مرحلے میں اس کی صحت کے بارے اھل سنت کے علما کی راے پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

سند کی تحقیق :

 

ابن ابی شيبہ نے اس روایت کی سند کو ایسے نقل کیا ہے:

حدثنا محمد بن بشر نا عبيد الله بن عمر حدثنا زيد بن أسلم عن أبيه أسلم،

۔۔۔
محمد ابن بشیر:

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

قال عثمان بن سعيد الدارمي ، عن يحيي بن معين : ثقة .

و قال أبو عبيد الآجري : سألت أبا داود عن سماع محمد بن بشر من سعيد بن أبي عروبة فقال : هو أحفظ من كان بالكوفة،

ابو عبيد کہتا ہے کہ: میں نے داود سے محمد ابن بشير عن سعيد ابن ابی عروبہ کی نقل کردہ روایت کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا: وہ قوت حافظہ کے لحاظ سے تمام اہل کوفہ سے برتر ہے۔

تهذيب الكمال ، ج24 ، ص533

اور ابن حجر نے کتاب تہذيب التہذيب میں محمد ابن بشیر کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ:

و كان ثقة ، كثير الحديث .

و قال النسائي ، و ابن قانع : ثقة .

و قال ابن شاهين في " الثقات " : قال عثمان بن أبي شيبة : محمد بن بشر ثقة ثبت .

تهذيب التهذيب ، ج9 ، ص 74

عبيد الله ابن عمر ابن حفص ابن عاصم ابن عمر ابن الخطاب :

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

و قال أبو حاتم : سألت أحمد بن حنبل عن مالك ، و عبيد الله بن عمر ، و أيوب أيهم أثبت في نافع ؟ فقال : عبيد الله أثبتهم وأحفظهم وأكثرهم رواية .

و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : قال يحيي بن معين : عبيد الله بن عمر من الثقات .

و قال أبو زرعة ، و أبو حاتم : ثقة .

و قال النسائي : ثقة ثبت .

و قال أبو بكر بن منجويه : كان من سادات أهل المدينة و أشراف قريش فضلا و علما و عبادة و شرفا و حفظا و إتقانا .

تهذيب الكلمال ، ج19 ، ص127 .

اور ابن حجر نے تہذيب التہذيب میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

قال ابن منجويه : كان من سادات أهل المدينة و أشراف قريش : فضلا و علما و عبادة و شرفا و حفظا و إتقانا .

و قال أحمد بن صالح : ثقة ثبت مأمون ، ليس أحد أثبت في حديث نافع منه .

تهذيب التهذيب ، ج7 ، ص 40 .

زيد ابن اسلم القرشی العدوی :

یہ کتاب صحیح بخاری، صحیح مسلم اور اہل سنت کی دوسری کتب صحاح ستہ کے راویوں میں سے ایک راوی ہے۔ اسی وجہ سے اس شخص کے ثقہ ہونے میں کسی قسم کا شک و تردید نہیں ہے۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل عن أبيه ، و أبو زرعة ، و أبو حاتم ، و محمد بن سعد ، و النسائي ، و ابن خراش : ثقة .

و قال يعقوب بن شيبة : ثقة من أهل الفقه والعلم ، و كان عالما بتفسير القرآن ، له كتاب فيه تفسير القرآن .

تهذيب الكمال ، ج10 ، ص17 .

اسلم القرشی العدوی ، ابو خالد و يقال ابو زيد ، المدنی ، مولی عمر ابن الخطاب :

یہ بھی کتاب صحیح بخاری، صحیح مسلم اور اہل سنت کی دوسری کتب صحاح ستہ کے راویوں میں سے ایک راوی اور صحابی بھی ہے، اور کیونکہ اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ عادل ہیں، اسی وجہ سے اس راوی کے ثقہ ہونے میں شک نہیں کیا جا سکتا۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

أدرك زمان النبي صلي الله عليه وسلم .

و قال العجلي : مديني ثقة من كبار التابعين . و قال أبو زرعة : ثقة .

تهذيب الكمال ، ج2 ، ص530

زید نے اس کو اپنے والد اسلم سے نقل کیا ہے ؛  یہ خلیفہ دوم کا غلام ہے وہ بھی ثقہ ہے ۔اس کے بارے میں امام ذھبی لکھتا ہے : أَسْلَمُ العَدَوِيُّ العُمَرِيُّ مَوْلَى عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ * (ع)
الفَقِيْهُ، الإِمَامُ، أَبُو زَيْدٍ - وَيُقَالُ: أَبُو خَالِدٍ - القُرَشِيُّ، العَدَوِيُّ، العُمَرِيُّ، مَوْلَى عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ.

لہذا اوپر ذکر کی گئی روایت کے راویوں کے بارے میں علم رجال کی روشنی میں ثقہ ثابت ہونے کے بعد نتیجے کے طور پر یہ روایت صحیح ہو گی۔

 

اھل سنت کے علما کا اعتراف ۔۔

اہل سنت کے بعض بزرگ علماء نے ،یہاں تک کہ بعض وہابیوں نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

سعد بن ناصر الششری

پروفیسر سعد بن ناصر بن عبد العزیز الششری ،وہابی بڑے نامور علماء اور سابق سعودی عرب کے مفتی تھا ، یہ سعودی کے وہابی مفتی عبد العزیز بن باز اور عبد العزیز بن عبد الله آل الشیخ کے بھی شاگرد ہے۔اس نے ابن ابی شیبہ کی کتاب المصنف کی تحقیق کی ہے اور اس کتاب کے حاشیے میں لکھتا ہے:

صحيح؛ أخرجه أحمد في فضائل الصحابه  وابن عبد البر في الإستذكار 3/975 ، وابن أبي عاصم في الآحاد (2952).

یہ روایت صحیح ہے اس کو احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ (532)میں اور  ابن عبد البر نے اپنی کتاب الاستذکار3/975  میں اور اب ابی عاصم نے الآحاد(2952). میں اس کو نقل کیا ہے۔

 



عمرو بن عبدالمنعم المصری 

شیخ عمرو بن عبدالمنعم بن عبدالعال المصری، عصر حاضر کے مصری علماء میں سے ہے، انہوں نے ابن أبی عاصم کی کتاب «المذکِّر والتذکیر والذکر» کی تحقیق کی ہے، وہ اس کتاب کے حاشیے میں اس روایت کے بارے میں لکھتا ہے:

إسناده صحیح.

 اس کی سند صحیح ہے۔

  



 
 


 عصر حاضر کے ہی اہل سنت کے مشہور عالم حسن بن فرحان المالکی

ڈاکٹر حسن بن فرحان مالكي،کہ جو ریاض میں تعلیم و تربیت کے شعبے کے استاد اور محقق ہے، اپنی کتاب «کتاب قراءة فی کتب العقائد المذهب الحنبلی نموذجا»میں وہ یہ واضح طور پر لکھتا ہے کہ حضرت زہرا علیہا السلام کے گھر پر حملے کا واقعہ صحیح سند نقل ہوا ہے۔

ولكن حزب علي كان أقل عند بيعة عمر منه عند بيعة أبي بكر الصديق نظراً لتفرقهم الأول عن علي بسبب مداهمة بيت فاطمة في أول عهد أبي بكر، وإكراه بعض الصحابة الذين كانوا مع علي على بيعة أبي بكر، فكانت لهذه الخصومة والمداهمة، وهي ثابتة بأسانيد صحيحة وذكرى مؤلمة لا يحبون تكرارها.

طرفداران علی (علیه‌السّلام) در زمان بیعت با عمر، کمتر از زمان بیعت با ابوبکر بودند؛ چون در آغاز خلافت ابوبکر به خانه فاطمه (سلام‌الله‌علیها) هجوم برده شد و به همین جهت بعضی از صحابه از بیعت با ابوبکر اکراه داشتند. این مدعا با سندهای صحیحی که وجود دارد، ثابت شده است و خاطره دردناکی است که تکرار آن را دوست ندارند۔

« حضرت علي (عليه السلام) کی طرفداری کرنے والے لوگ عمر کی بیعت کے وقت، ابوبکر کی بیعت کرنے والوں کی نسبت سے کم تھے۔ کیونکہ ابوبکر کی خلافت کے شروع میں حضرت زہرا علیہا السلام کے گھر ہر حملہ ہوا لہذا بعض اصحاب ابوبکر کی بیعت کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس مدعی متعدد صحیح اسناد سے ثابت ہے۔اور یہ درد ناک واقعہ ہے جس کے تکرار کو پسند نہیں کرتے۔

پھر حسن فرحان مالکی حاشیے میں لکھتا ہے :

 كنت أظن المداهمة مكذوبة لا تصح، حتى وجدت لها أسانيد قوية منها ما أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف بسند صحيح عن أسلم مولى عمر وغير ذلك.

« میں شروع میں یہ سمجھتا تھا کہ جناب زہرا سلام علیہا کے گھر پر حملے کا واقعہ ایک جھوٹی داستان ہے،یہاں تک کہ مجھے اس کے بارے میں محکم اور مضبوط سند ملی۔اور انہیں میں سے ایک وہ روایت ہے جس کو  ابن أبی شیبه نے اپنی  کتاب المصنف میں عمر کے غلام اسلم کے توسط سے صحیح سند نقل کیا ہے۔


 

 

 روایت کی تحریف اور روایت میں تبدیلی:

بعض دوسرے وہابی علماء نے سند کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان لوگوں نے جناب خلیفہ دوم کی عزت بچانے کے لئے روایت کے متن میں حیر پھیر کرنے کی کوشش کی ہے۔

علی محمد محمد الصلابی:

لیبیا کے مفتی شیخ ڈاکٹر محمد علی الصلابی  نے اپنی کتاب  «أسمی المطالب فی سیرة أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب ، شخصیته وعصره دراسة شامله» میں ابن أبی شیبه کی روایت کی سند کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔لیکن ساتھ ہی روایت کے شروع الفاظ میں حیر پھیر کیا ہے؛ اور آخر میں بھی یہ کہا ہے: اس روایت کا آخری حصہ جو گھر کو آگ لگانے کی دھمکی پر مشتمل ہے اس کو شیعوں نے اضافہ کیا ہے۔

روایت کی ابتداء میں وہ اس طرح حیر پھیر کرتا ہے:  

وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبُّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ و کلمها.

« میرے نذدیک کوئی بھی آپ کے والد کے آپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور عمر نے جناب فاطمہ سے بات کی ۔

جبکہ اصل روایت اس طرح ہے :

وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبُّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ، وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَ بِمَانِعِيَّ إِنِ اجْتَمَعَ هؤُلاَءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ أَنْ آمُرَ بِهِمْ أَنْ يُحْرَقَ عَليْهِمُ الْبَيتُ...

« میرے نذدیک کوئی بھی آپ کے والد کے بعد آپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے؛ لیکن اللہ کی قسم اگر یہ لوگ آپ کے گھر میں یوں ہی جمع ہوں {اور بیعت سے منہ موڑے} تو یہ میری محبت اس چیز میں رکاوٹ نہیں ہے کہ میں گھر کو اس میں موجود افراد سمیت آگ لگانے کا حکم دوں».

پھر وہ اس روایت کی سند کے بارے میں لکھتا ہے:

هذا هو الثابت الصحيح والذي مع صحة سنده ينسجم مع روح ذلك الجيل وتزكية الله له

روایت کو صحیح قرار دینے کے شیعوں پر الزام لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ شیعوں نے اہل سنت کی روایت میں دست اندازی کی ہے اور اپنی طرف سے اس میں مطالب کا اضافہ کیا ہے۔ !!!!

وقد زاد رواة الشيعة الرافضة في هذه الرواية واختلقوا إفكاً وبهتاناً وزوراً وقالوا بأن عمر قال: إذا اجتمع عندك هؤلاء النفر فسأحرق عليهم هذا البيت، لأنهم أرادوا شق عصى المسلمين بتأخرهم عن البيعة ثم خرج عنها، فلم يلبث أن عادوا إليها، فقالت لهم: تعلمون أن عمر جاءني وحلف بالله لأن أنتم عدتم إلى هذا البيت ليحرقنه عليكم وايم الله أنه ليصدقن فيما حلف عليه، فانصرفوا عني فلا ترجعوا إليّ، ففعلوا ذلك، ولم يرجعوا إليها إلا بعدما بايعوا.

وهذه القصة الباطلة لم تثبت عن عمر رضي الله عنه، ودعوى أن عمر رضي الله عنه همّ بإحراق بيت فاطمة، من أكاذيب الرافضة.

« یہ وہی چیز ہے جو ثابت ہے اور صحیح بھی ہے۔اور یہ اس کی  سند کی صحت کے ساتھ ساتھ اس گروہ کی روح اور مزاج اور اللہ کی طرف سے اس گروہ کو پاکیزہ کرنے کے ساتھ بھی مطابقت رکھتی ہے۔

لیکن شیعہ راویوں نے اس روایت میں اضافہ کیا ہے اور بہت بڑا جھوٹ اور الزام تراشی کے مرتکب ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمر نے اس طرح کہا ہے:

«اگر اس دفعہ یہ افراد آپ کے گھر پر جمع ہوں تو میں ان لوگوں کو گھر سمیت آگ لگوا دوں گا۔

کیونکہ یہ لوگوں بیعت میں تاخیر کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا ارادہ رکھتے تھے۔عمر،جناب فاطمہ(س) کے پاس سے چلا گیا ۔کچھ دیر بعد حضرت علی اور زبیر جناب فاطمہ کے پاس آئے ۔جناب فاطمہ(س) نے ان سے کہا :عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر یہاں پر جمع ہونے کا سلسلہ جاری رہا تو گھر کو آپ لوگ سمیت آگ لگوا دوں گا ۔اللہ کی قسم اس نے جو قسم کھائی ہے اس پر عمل بھی کرئے گا۔میرے پاس سے چلے جائیں اور واپس نہ آئیں۔ ان لوگوں نے بھی ایسا کیا اور بیعت کرنے کے بعد ہی جناب فاطمہ(س)  کے پاس واپس آیے۔

 یہ ایک باطل داستان ہے عمر سے ایسا کہنا ثابت نہیں ہے ۔اور یہ کہنا کہ جناب عمر جناب فاطمہ(س)  کے گھر کو آگ لگانا چاہتا تھا ،یہ رافضیوں کی جھوٹی باتوں میں ہے۔

 اور کتاب کے حاشیے میں کہتا ہے:

أخرجه ابن أبي شيبة: «المنصف» (14/567)، وإسناده صحيح.

اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب المصنف میں نقل کیا ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے۔

 

 

 

 

واضح سی بات ہے کہ اس طرح  سے خیالات کا اظہار کرنا، جناب صلابی اور اس کے ہفکر لوگوں کے لئے کوئی فائدہ نہیں دیتا۔  کیونکہ ا بن أبی شیبه کی جس روایت کی سند کو آپ نے صحیح قرار دیا ہے اسی سند کو اہل سنت کے دوسرے بزرگ علماءنے اسی طرح نقل کیا ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ خلیفہ دوم نے جناب صدیقه شهیده سلام الله علیها کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی دی تھی۔

شیخ حسن الحسینی:

ڈاکٹر شیخ حسن الحسینی، عصر حاضر کے مشہور وہابی کہ جو  «الحسن والحسین»‌ نامی فیلم کے شرعی اور تاریخی امور کے مشاور بھی تھا وہ اپنی کتاب «موسوعة الحسن والحسین» کے شروع میں اسی روایت کو نقل کرتا ہے اور لکھتا ہے  :

فهذا هو الثابت الصحيح... یہ روایت ثابت ہے اور صحیح ہے۔

لیکن افسوس کے ساتھ وہ آگے جاکر روایت کو کاٹ دیتا ہے تاکہ لوگ یہ نہ جاننے کہ خلیفہ دوم نے جنت کی عورتوں کی سردار جناب فاطمہ(س)  کو گھر جلانے کی دھمکی دی تھی۔

  

 

 

نتیجہ گیری: جناب صدیقه شهیده سلام الله علیها کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی پر مشتمل روایت صحیح سند ہے اور یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ جناب ابوبکر کی خلافت کو شرعی حیثت دینے والی اہل سنت کی تنہا دلیل یعنی"احماع صحابہ" ایک افسانہ اور جھوٹ ہے۔ 

 

اللهم عجل لولیک الفرج.

 اے اللہ ! آپ کے ولی جناب امام  مہدی علیہ السلام  کے ظہور میں تعجیل فرما

اللہ آپ کو کامیاب کرئے۔

شبهات کے جواب دینے والی ٹیم۔

تحقیقاتی ادارہ حضرت ولی عصر (عج) ۔

 



چٹیں: فاطمہ


Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات