2024 March 29
قتل عثمان میں جناب عائشه کا کردار دیکھیں {اھل سنت کے علماء کی زبانی}
مندرجات: ١٩٨٠ تاریخ اشاعت: ١٦ June ٢٠٢١ - ١٨:٠٢ مشاہدات: 3174
مضامین و مقالات » پبلک
قتل عثمان میں جناب عائشه کا کردار دیکھیں {اھل سنت کے علماء کی زبانی}

 

قتل عثمان میں جناب عائشه کا کردار:

جناب عائشہ ان افراد میں سے ایک ہے جنہوں نے لوگوں کو جناب عثمان کے خلاف ورغلانے اور ان کو قتل کرانے میں اہل کردار اداء کیا۔ خلیفہ  نے جس وقت بیت المال سے جناب عائشہ کے حصے کو کچھ کم کیا اس وقت سے ہر روز جناب عائشہ خلیفہ کے خلاف بولتی تھی اور دینی دستورات کے خلاف انجام پانے والے خلیفہ کے کاموں کو لوگوں کے لئے بیان کرتی تھی ۔

کیونکہ جناب عائشہ حضور کی زوجہ بھی تھی اور کیونکہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی بیویوں کا خاص احترام رکھتے تھے اسی لئے ان کی باتیں لوگوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی تھیں۔یہی چیزیں سبب بنی ،لوگ دور دراز کے علاقوں سے مدینہ آئے اور عثمان کو قتل کیا۔

اہل سنت کے مشہور مفسر فخر رازی اس سلسلے میں لکھتا ہے :

الحكاية الثانية أن عثمان رضي الله عنه أخر عن عائشة رضي الله عنها بعض أرزاقها فغضبت ثم قالت يا عثمان أكلت أمانتك وضيعت الرعية وسلطت عليهم الأشرار من أهل بيتك والله لولا الصلوات الخمس لمشي إليك أقوام ذوو بصائر يذبحونك كما يذبح الجمل.

فقال عثمان رضي الله عنه: (ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَامْرَأَةَ لُوطٍ الآية. التحريم: 10/66.

فكانت عائشة رضي الله عنها تحرض عليه جهدها وطاقتها وتقول: ايّها الناس هذا قميص رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يبل وقد بليت سنّته اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا....

عثمان نے عائشہ کے اخراجات پورا کرنے میں کوتاہی کی ، اسی لئے جناب عائشہ ان سے ناراض ہوئی اور عثمان سے کہا: جو  چیز تیرے پاس امانت تھی اسے تو نے کھائی ہے، امت کو تو نے ذلیل کیا ہے۔تیرےخاندان کے برے لوگوں کو تو نے امت پر مسلط کیا ہے۔ اللہ کی قسم اگر تیرا یہی پانچ وقت کی نماز پڑھنا نہ ہوتا تو بعض لوگ تجھ پر حملہ کرتے اور تجھے اونٹ کی طرف ذبح کردیتے۔  

جناب عثمان بھی قرآن مجید کی ان دو آیتوں{ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَامْرَأَةَ لُوطٍ الآية. التحريم: 10/66.} کو ذکر کرتا {کیونکہ ان میں جناب نوح ع اور لوط ع کی بیویوں کی مذمت ہوئی ہے لہذا جناب عائشہ کو اس کے ذریعے سے جواب دیتا}

جناب عائشه بھی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکساتی اور کہتی: لوگو! رسول خدا (ص) کے لباس ابھی پٹھا اور پرانا نہیں ہوا ہے لیکن ان کی سنت کو ختم کیا ہے۔ اس  نعثل کو قتل کرو{نعثل ایک مصری یہودی مرد کی طرف اشارہ ہے جس کی رھاڑی لمبی تھی لیکن بےوقوف انسان تھا }  

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفاي604هـ) المحصول في علم الأصول، ج 4، ص 343، تحقيق: طه جابر فياض العلواني، ناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية - الرياض، الطبعة: الأولي، 1400هـ.

جناب عائشه، نے ہی  عثمان کے  قتل کا حکم دیا :

اميرمؤمنن علي عليه السلام نے عائشه کے نام اپنے ایک خط میں لکھا :

وأنت يا عائشة فإنّك خرجت من بيتك عاصية للّه ولرسوله تطلبين أمراً كان عنك موضوعا، ثم تزعمين انك تريدين الاصلاح بين المسلمين، فخبريني ما للنساء وقود الجيوش والبروز للرجال، والوقوع بين اهل القبلة وسفك الدماء المحرمة؟ ثم انك طلبت علي زعمك دم عثمان، وما انت وذاك؟ عثمان رجل من بني امية وانت من تيم،ثم بالامس تقولين في ملا من اصحاب رسول اللّه (ص): اقتلوا نعثلا قتله اللّه فقد كفر، ثم تطلبين اليوم بدمه؟ فاتقي اللّه وارجعي الي بيتك، واسبلي عليك سترك، والسلام.

اے عائشه! تو نے گھر سے نکلنے کے ذریعے اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کی اور وہ بھی ایسے کام کے لئے نکلی جو تیرا کام نہیں۔اور تو کہتی ہے : امت کی اصلاح کرنے نکلی ہوں،مجھے ذرا یہ تو بتاو: کہ عورتوں کو لشکر کی کمانڈری اور لوگوں کے درمیان اپنے اپ کو ظاہر کرنے  اور لوگوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور اہل قبلہ کے خون بہانے سے کیا کام ہے؟تیرا خیال ہے تو عثمان کے خون کے قصاص کے درپے ہو۔ عثمان کا تعلق بنی امیہ سے ہے اور تو قبیلہ بنی تمیم سے ہو ۔ کل تو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کے درمیان یہ کہتی تھی : اس نعثل کو قتل کرو، خدا اس کو مارڈالے ،یہ کافر ہوا ہے اور آج اس کے خون کا انتقام اور قصاص لینے کے چکر میں ہو؟ اللہ سے ڈرو اپنے گھر واپس جاو اور پردے میں رہو۔

سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص 69، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.

ابن قتيبه دينوري لکھتا ہے :

قال وذكروا أن عائشة لما أتاها أنه بويع لعلي وكانت خارجة عن المدينة فقيل لها قتل عثمان وبايع الناس عليا فقالت ما كنت أبالي أن تقع السماء علي الأرض قتل والله مظلوما وأنا طالبة بدمه فقال لها عبيد إن أول من طعن عليه وأطمع الناس فيه لأنت ولقد قلت اقتلوا نعثلا فقد كفر فقالت عائشة قد والله قلت وقال الناس وآخر قولي خير من أوله فقال عبيد عذر والله ضعيف يا أم المؤمنين ثم قال:

منك البداء ومنك الغير ومنك الرياح ومنك المطر

وأنت أمرت بقتل الإمام وقلت لنا إنه قد فجر

فهبنا أطعناك في قتله وقاتله عندنا من أمر

قال فلما أتي عائشة خبر أهل الشام أنهم ردوا بيعة علي وأبوا أن يبايعوه أمرت فعمل لها هودج من حديد وجعل فيه موضع عينيها ثم خرجت ومعها الزبير وطلحة وعبد الله بن الزبير ومحمد بن طلحة.

بہت سے لوگوں سے نقل ہوا ہے :جناب عائشه مدينه سے باہر تھی اور جب انہیں عثمان کے قتل کی خبر دی گئ اور یہ کہا گیا کہ لوگوں نے علي عليه السلام کی بیعت کی ہے، جناب عائشہ کہنے لگی: وہ دن زیادہ دور نہیں ہے کہ آسمان زمین پر گر جائے۔اللہ کی قسم عثمان کو ظلم کے ساتھ قتل کیا گیا،میں اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کروں گی۔ عبيد نے انہیں جواب دیا : آپ نے تو سب سے پہلے ان پر اعتراض کیا اور لوگوں کو اس کے خلاف اکسایا۔ آپ ہی نے کہی تھی: اس نعثل کو قتل کر دو یہ کافر ہوا ہے۔جناب عائشہ نے عبید کو جواب دیا ؛یہ میں نے بھی کہا اور لوگوں نے بھی لیکن یہ میری بعد والی راے پہلے والی راے سے بہتر ہے۔عبید نے جواب میں کہا : یہ ایک کمزور عذر اور بہانا ہے۔  پھر ایک شرع پڑھا "

آپ تو اپنی راے اور نظر سے پلٹ گئی، طوفان برپا کیا اور سب جگہ اب طوفاف کے لپیٹ میں ہیں۔ آپ نے ہی اس کے کفر کے بہانے اس کے قتل کا حکم دیا  اور ہم نے آپ کی اطاعت میں ایسا کیا، لہذا عثمان کا قاتل وہ ہے جس نے یہ حکم دیا ہے۔

اور جب جناب عائشہ تک یہ خبر پہنچی کی شام کے لوگوں نے علی علیہ السلام کی بیعت سے انکار کیا ہے تو انہوں نے ایک ایسا کجاوہ { اونٹ کی چھت دار کاٹھی جو عام طور پر پردہ ڈال کر اس پر عورتیں بیٹھتی ہیں }تیار کرنے کا حکم دیا کہ جو لوہے سے بنی ہو اور اس کے اطراف میں باہر دیکھنے کے لئے سوراخیں بھی ہو اور پھر بعد میں جناب عائشہ شہر سے باہر نکلی جبکہ زبیر ، طلحہ ،عبد اللہ بن زبیر  اور محمد بن طلحہ بھی ساتھ  تھے۔

الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 48، باب خلاف عائشة رضي الله عنها علي علي [عليه السلام]، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م؛

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 3، ص 100، با تفاوت جزئي، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

جناب عثمان کے قتل میں جناب عائشه کا کردار اتنا مشہور اور یقینی ہے کہ لغت اور آدب کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔

ابن اثير جزري لکھتے ہیں:

نعثل ( ه ) في مقتل عثمان لا يمنعنك مكان ابن سلام أن تسب نعثلا كان أعداء عثمان يسمونه نعثلا تشبيها برجل من مصر كان طويل اللحية اسمه نعثل وقيل النعثل الشيخ الأحمق وذكر الضباع ومنه حديث عائشة اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا تعني عثمان وهذا كان منها لما غاضبته وذهبت إلي مكة.

عثمان کے دشمن انہیں نعثل کہتے در حقیقت میں یہ لوگ عثمان کو ایک مصری شخص سے تشبیہ دیتے تھے کہ جس کی دھاڑی لمبی تھی، اور یہ کہا گیا ہے : نعثل یعنی بوڑھا اور بے وقوف شخص،  اور عائشه بھی کہتی تھی: نعثل کو قتل کرو، انہوں نے بھی اسی معنی کے مطابق یہ بات کہی ہے. کیونکہ جب خلیفہ نے جناب عائشہ کو ناراض کیا اور وہ مکہ کی طرف نکل گئی۔

الجزري، أبو السعادات المبارك بن محمد (متوفاي606هـ)، النهاية في غريب الحديث والأثر، ج 5، ص 79، تحقيق طاهر أحمد الزاوي - محمود محمد الطناحي، ناشر: المكتبة العلمية - بيروت - 1399هـ - 1979م.

ابن منظور نے لسان العرب میں لکھا ہے :

نعثل: رجل من أهل مصر كان طويل اللحية، قيل: إنه كان يشبه عثمان، رضي الله عنه هذا قول أبي عبيد، وشاتمو عثمان، رضي الله عنه، يسمونه نعثلا. وفي حديث عثمان: أنه كان يخطب ذات يوم فقام رجل فنال منه، فوذأه ابن سلام فاتذأ، فقال له رجل: لا يمنعنك مكان ابن سلام أن تسب نعثلا فإنه من شيعته،

وكان أعداء عثمان يسمونه نعثلا تشبيها بالرجل المصري المذكور آنفا. وفي حديث عائشة: اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا تعني عثمان، وكان هذا منها لما غاضبته وذهبت إلي مكة، وكان عثمان إذ نيل منه وعيب شبه بهذا الرجل المصري لطول لحيته ولم يكونوا يجدون فيه عيبا غير هذا.

نعثل ایک  مصری کا نام ہے کہ جس کی دھاڑی لمبی تھی ،کہا گیا ہے کہ عثمان کا ہم شکل تھا اور اسی نام کے ذریعے لوگ  عثمان کی مذمت کرتے تھے ۔ ایک دن عثمان تقریر کر رہا تھا ایک آدمی نے ایک بری بات کہہ کر اس کی تقریر کاٹ ڈالی ۔ابن سلام نے اس شخص کو روکنا چاہا ،ایک اور شخص نے کہا : ابن سلام عثمان کے حامیوں میں سے ہے،ابن سلام کی وجہ سے تم عثمان کی برائی بیان کرنے سے باز نہ آئے۔لہذا عثمان کے دشمن عثمان کو اسی مصری شخص سے تشبیہہ دیتے تھے اور اس کو نعثل کہتے تھے۔

 عائشہ سے نقل ہے : نعثل کو قتل کرو ۔ {اس سے ان کا مقصد عثمان ہی تھا}یہ اس وقت کہا جب جناب عائشہ ،عثمان سے ناراض اور غضبناک ہوگئ اور مدینہ چھوڑ کر چلی گئی۔

جو بھی عثمان سے ناراض ہوجاتا اور اس کی سرزنش کرنا چاہتا اس کو اسی مصری شخص سے تشبیہہ دیتا اور یہ تشبیہہ دھاڑی لمبی ہونے کی وجہ سے لوگ دیتے ،کوئی اور عیب اس میں یہ لوگ نہیں دیکھتے تھے۔

الأفريقي المصري، محمد بن مكرم بن منظور (متوفاي711هـ)، لسان العرب، ج 11، ص 670، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولي.

جناب عائشہ کا لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے کے کچھ نمونے:

عثمان کے خلاف لوگوں کو ورغلانے کے موارد میں سے ایک جناب عمار کی حمایت کا مسئلہ تھا

بلاذري نے انساب الأشراف میں نقل کیا ہے:

وبلغ عائشة ما صنع بعمار فغضبت وأخرجت شعراً من شعر رسول الله صلي الله عليه وسلم وثوباً من ثيابه ونعلاً من نعاله ثم قالت: ما أسرع ما تركتم سنة نبيكم وهذا شعره وثوبه ونعله ولم يبل بعد، فغضب عثمان غضباً شديداً حتي ما دري ما يقول، فالتج المسجد وقال الناس سبحان الله سبحان الله.

جب جناب عائشہ کو یہ معلوم ہوا کہ عثمان نے جناب عمار یاسر کی پٹھائی اور انہیں تکلیف پہنچائی ہے تو اس وقت جناب عائشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر کے بال اور آپ کے کپڑوں میں سے ایک کپڑا اور آپ کے جوتوں میں سے ایک جوتا لے کر آئی اور کہنے لگی:تم لوگوں نے اپنے نبی کی سنت کو کتنی جلدی بلادئی۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال ان کا لباس اور ان کی نعلین ہے ابھی یہ خراب نہیں ہوئی ہے ۔عثمان کو عائشہ پر سخت غصہ آیا اور اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کو کیا کہنا جائے۔ مسجد میں بھی بہت رش تھا لوگ سبحان الله، سبحان الله کہہ رہے تھے.

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 2، ص 275.

وليد بن عقبه کے شراب پینا کا واقعہ جب پیش آیا اور  خلیفہ نے اس کو مارنے اور کو سزا دینے سے اجتناب کیا تو جناب عائشہ نے آواز بلند کی اور کہا : عثمان نے اللہ کے حدود کو پامال کیا ہے اور اس واقعے کے گواہوں کو دھمکی ہے۔

قال أبو إسحاق: وأخبرني مسروق أنه حين صلي لم يرم حتي قاء، فخرج في أمره إلي عثمان أربعة نفر: أبو زينب وجندب بن زهير وأبو حبيبة الغفاري والصعب بن جثامة، فأخبروا عثمان خبره، فقال عبد الرحمن بن عوف: ما له أجُنَّ قالوا: لا، ولكنه سكر، قال: فأوعدهم عثمان وتهددهم وقال لجندب: أنت رأيت أخي يشرب الخمر؟ قال: معاذ الله، ولكني أشهد أني رأيته سكران يقلسها من جوفه وأني أخذت خاتمه من يده وهو سكران لا يعقل؛ قال أبو إسحاق: فأتي الشهود عائشة فأخبروها بما جري بينهم وبين عثمان وأن عثمان زبرهم، فنادت عائشة: إن عثمان أبطل الحدود وتوعد الشهود.

مسروق نے نقل کیا ہے: (وليد بن عقبه) نے نماز کے دوران قی کیا ، اور چار لوگ{ ابوزينب، جندب بن زهره، ابوحبيبه غفاري و صعب بن جثامه} عثمان کے پاس گئے اور واقعے کو ذکر کیا ۔ عبد الرحمن عوف نے کہا : پاگل ہوگیا ہے کیا ؟ انہوں نے کہا : نہیں؛ بلکہ مست ہوگیا ہے،مسروق کہتا ہے : عثمان نے انہیں دھمکی دی اور جندب سے کہا : کیا تم نے دیکھا ہے کہ میرا بھائی شراب پیتا ہے؟اس نے کہا : اللہ کی پناہ اور کہا : میں نے اس کو مست دیکھا اور یہ دیکھا کہ کوئی چیز اس کے منہ سے باہر نکل رہی تھی۔ میں نے اس کی انگلی کو اس کے منہ سے باہر نکالا لیکن اس کو پتہ نہیں چلا ،کیونکہ مست تھا اس کی عقل کام نہیں کررہی تھی.

ابو اسحاق کہتا ہے: یہ گواہی دینے والے جناب عائشه کے پاس گئے اور جو عثمان کے پاس پیش آیا،سب بتایا ۔ جناب عائشه نے فرياد بلند کی : عثمان نے اللہ کے حدود کو پامال کیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے.

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 2، ص 267.

ابو الفداء نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے:

وكانت عائشة تنكر علي عثمان مع من ينكر عليه، وكانت تخرج قميص رسول الله صلي الله عليه وسلم وشعره وتقول: هذا قميصه وشعره لم يبل، وقد بلي دينه.

عائشه ،عثمان کے مخالفوں کے ساتھ دیتی تھی، رسول خدا (ص) کے لباس اور بالوں کو باہر نکالتی اور کہتی تھی: یہ رسول خدا (ص) کے لباس اور بال ہے ۔یہ ابھی برانا اور خراب نہیں ہوا ہے لیکن ان کے دین کو خراب کیا ہے۔

أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص 118.

ابن أبي الحديد معتزلي شارح نهج البلاغه کہتا ہے:

قال كل من صنف في السير والأخبار: إن عائشة كانت من أشد الناس علي عثمان؛ حتي أنها أخرجت ثوباً من ثياب رسول الله صلي الله عليه وسلم، فنصبته في منزلها، وكانت تقول للداخلين إليها: هذا ثواب رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يبل، وعثمان قد أبلي سنته.

جس نے بھی تاريخ اور سيرت کے بارے میں کوئی کتاب لکھی ہے اس نے یہ بات بھی نقل کیا ہے کہ جناب عائشه، عثمان پر سخت تنقید کرنے والوں میں سے تھی،یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لباس باہر لے آتی اور اپنے گھر کے دروازے پر لٹکادیتی اور جو بھی آتا ، اس سے کہتی : یہ دیکھو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لباس ہےابھی یہ پھٹا پرانا نہیں ہوا ہے۔ لیکن عثمان نے اس کی سنت کو بلا دیا ہے۔

إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 6، ص 131، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1418هـ - 1998م.

عائشہ کے کاموں کا انجام اور جنگ جمل:

جناب عائشہ گھر سے نکلی اور ایسے شخص سے جنگ کرنے کے لئے میدان میں اتری کہ جو دوسرے خلفاء کی طرح (اهل سنت کے عقيدے کے مطابق) مسند خلافت پر بیٹھ گئے تھے اور لوگوں نے ان کی بیعت کی تھی ۔لہذا یہ واقعہ تاریخ اسلام کے فراموش نہ ہونے والے واقعات میں سے ہے، کوئی اس واقعے کا انکار نہیں کرسکتا ،یہاں تک کہ خاص ذہنیت اور خاص جہت سے تاریخ  لکھتے والے اور تاریخی حقائق میں تبدیلی کرنے والے مصنفین بھی اس واقعے کو نقل کیے بغیر نہ رہ سکے۔

 

ابن عبد ربّه اندلسي   عقد الفريد میں لکھتا ہے:

دخل المغيرة بن شعبة علي عائشة فقالت يا أبا عبد الله لو رأيتني يوم الجمل قد نفذت النصال هودجي حتي وصل بعضها إلي جلدي قال لها المغيرة وددت والله أن بعضها كان قتلك قالت يرحمك الله ولم تقول هذا قال لعلها تكون كفارة في سعيك علي عثمان.

مغيره بن شعبه عائشه کے پاس گیا : عائشہ نے کہا : اے مغيره! اگر تم جنگ جمل کے دن ہوتا اور یہ دیکھتا کہ کس طرح میری کجاوے پر تیروں اور نیزوں سے حملہ ہو رہا تھا بعض تو میرے بدن کے نذدیک بھی پہنچ گیا تھا۔ مغیرہ نے کہا : اللہ کی قسم تم اسی تیروں سے قتل ہوجاتی۔ عائشہ نے کہا :اللہ تم پر رحم کرئے ، تم نے ایسی بات کیوں کہی ؟ اس نے جواب دیا : شاید آپ کا قتل ہونا عثمان کے قتل میں آپ کی کوششوں کا کفارہ ہوتا۔

  الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي: 328هـ)، العقد الفريد، ج 4، ص 277، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م.

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کچھ نمونے ہیں تاریخی کتابوں میں موجود اس کے شواہد کو جمع کرئے تو شاید ایک جلد کتاب بن جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات