2024 March 29
معاویہ کا انجام : صادق و آمین کی خبر کیا معاویہ غیر مسلمان دنیا سے چلا گیا ہے؟
مندرجات: ١٩٩٥ تاریخ اشاعت: ٢٧ June ٢٠٢١ - ١٨:٤٥ مشاہدات: 2640
مضامین و مقالات » پبلک
معاویہ کا انجام : صادق و آمین کی خبر کیا معاویہ غیر مسلمان دنیا سے چلا گیا ہے؟


کیا معاویہ جہنم میں آگ کی تابوت میں ہوگا؟

 معاویہ کا انجام :  صادق و آمین کی خبر

مطالب کی فہرست :

اہل سنت کے علماء  اور «انساب الأشراف» کی تعریف :

پہلی روايت:  { میری ملت اور آئین کے ساتھ نہیں مرے گا}

سند کی تحقیق :

دوسری روايت: معاويه ایک تابوت میں بند اور جنہم میں ہوگا ۔

سند کی تحقیق :

نتيجه

 

سوال کی وضاحت :

کیا «انساب الأشراف بلاذري » کی ان دو  روایتوں کی سند صحیح ہے کہ جن میں آنحضرت نے فرمایا : معاویہ کافر ہوکر دنیا سے جائے گا ۔۔۔ معاویہ جہنم میں سب سے نچلے طبقے میں آگ کے ایک تابوت میں ہوگا ؟

جواب :

اہل سنت کی کتابوں میں موجود یہ دونوں روایتیں ان کے اصول کے مطابق صحیح سند ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے «انساب الأشراف» میں موجود  روایت کے راویوں کی زندگی نامے کی تحقیق کیجائے ۔

اہل سنت کے علماء  اور «انساب الأشراف» کی تعریف :

أبي جرادة عقيلي:

اس نے اس کتاب کے مصنف بلاذري اور اس کی کتاب" انساب الأشراف"میں لکھا ہے:

وقيل أبو جعفر، وقيل أبو الحسن، البلاذري البغدادي الكاتب، كاتب، أديب، شاعر، مصنف، له كتب حسنة (116- ظ) منها كتاب «أنساب الأشراف» وهو كتاب ممتع كثير الفائدة والنفع ومات ولم يتمه؛ وكتاب «البلدان وفتوحها وأحكامها» وهو أيضا كتاب كثير الفوائد.

بلاذري کے لئے دو کنیہ ذکر ہوا ہے، ابوجعفر اور  ابو الحسن. بلاذري بغدادي، رائڑ اور اہل ادب اور شاعر اور صاحب کتاب ہے۔ اس کی اچھی کتابوں میں سے ایک "انساب الاشراف" ہے۔یہ کتاب بہت ہی سود مند ہے،اس کتاب کو مکمل کرنے سے پہلے وہ دنیا سے چلا گیا ۔اسی کی کتاب  "البلدان و فتوحها و احکامها" بھی بہت ہی عمدہ اور فائدہ مند کتاب ہے .

كمال الدين عمر بن أحمد بن أبي جرادة (متوفاي660هـ)، بغية الطلب في تاريخ حلب، ج3، ص1219 ، تحقيق: د. سهيل زكار، دار النشر: دار الفكر.

حاجي خليفه:

اہل سنت کے عالم حاجی خلیفہ " انساب الاشراف کے بارے میں لکھتا ہے:

أنساب الأشراف : لأبي الحسن: أحمد بن يحيى البلاذري ... وهو: كتاب كبير، كثير الفائدة.

انساب الاشراف، احمد بن يحيي بلاذری کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔۔۔۔بڑی کتاب ہے اور بہت سود مند اور فائدہ والی کتاب ہے.

القسطنطيني الرومي الحنفي، مصطفي بن عبدالله (معروف به حاجي خليفه) (متوفاى1067هـ)، كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون، ج 1 ص 179 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1413 – 1992.

صديق حسن خان قنوجي:

عصر حاضر کے اہل سنت کے عالم ،صديق حسن خان قنوجي اس کتاب کی تعریف میں لکھتا ہے:

منها: أنساب الأشراف لأبي الحسن أحمد بن يحيى البلاذري وهو كتاب كبير كثير الفائدة.

علم انساب، کی کتابوں میں سے ایک " انساب الاشراف بلاذري" ہے جو ایک بڑی اور فائدہ مند کتاب ہے ۔.

القنوجي البخاري، أبو الطيب السيد محمد صديق خان بن السيد حسن خان (متوفاى1307هـ)، أبجد العلوم الوشي المرقوم في بيان أحوال العلوم ، ج 2 ص 114 ، تحقيق : عبد الجبار زكار ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت – 1978م.

كتبي:

کتبی بھی اہل سنت کے ہی عالم ہے ، وہ بھی " انساب الاشراف" کے بارے میں لکھتا ہے : وله من الكتب كتاب البلدان الصغير كتاب البلدان الكبير ولم يتم كتاب جمل أنساب الأشراف وهو كتابه المعروف المشهور كتاب الفتوح.

بلاذری کی کتابوں میں سے ایک ، کتاب البلدان الصغير و کتاب البلدان الکبير ہے، لیکن اس نے اپنی کتاب " جمل انساب الاشراف کی جو ایک مشہور اور معروف کتاب ہے ،اس کو مکمل نہیں کیا  یہ کتاب فتوحات کے بارے میں ہے ۔

الكتبي،‌ محمد بن شاكر بن أحمد (متوفاي764هـ) فوات الوفيات، ج 1 ص 191 ، تحقيق: علي محمد بن يعوض الله/عادل أحمد عبد الموجود، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت،‌ الطبعة: الأولي2000م .

صفدي:

صفدي نے اس کتاب کی مشہور ہونے کے بارے لکھا ہے:  

وله من الكتب كتاب البلدان الصغير كتاب البلدان الكبير ولم يتم كتاب جمل نسب الأشراف وهو كتابه المعروف المشهور به كتاب الفتوح.

اس کی کتابوں میں سے " البلدان الصغير  اور  کتاب البلدان الکبير اور "جمل انساب الاشراف" ہیں ، جمل انساب الاشراف کو مکمل نہیں کیا اور یہ فتوحات کے بارے میں ہے .

الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاى764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 8 ص 157 ، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

أكرم بن ضياء العمري:

أكرم بن ضياء العمري نے بھی " انساب الاشراف" کی تعریف میں لکھا ہے:

ويعد البلاذري أبرز المؤرخين المسلمين بعد الطبري من حيث سعة المعلومات التي دونها والفترات التاريخية التي غطاها، لكن كتابه (أنساب الأشراف) أحسن انتقاء للروايات وأنقى أسانيد وأكثر اتفاقاً مع روايات أهل الثقة والصدق من تأريخ الطبري.

  بلاذري طبری کے بعد مسلمان تاریخ نگاروں میں زیادہ معلومات کی جمع آوری اور تاریخی ادوار کے احاطہ کے اعتبار سے انہیں نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ ان کی کتاب " انساب الاشراف " تاريخ طبري کی نسبت سے ، اس میں بہتر طور پر روایات کو معتبر سندوں سے انتخاب کیا ہے، سچے اور معتبر  راویوں سے روایات نقل کرنے کے اعتبار سے یہ طبری سے زیادہ کامیاب رہا ہے ۔

العمري، أكرم بن ضياء، عصر الخلافة الراشدة محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين، ج 1 ص 15 ، دار النشر: مكتبة العبيكان – الرياض، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م .

مطلوبہ روايت کی تحقیق :

یہاں ہم اصل روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس روایت کے راویوں کے بارے میں تحقیق کریں گے۔

پہلی روايت:  { میری ملت اور آئین کے ساتھ نہیں مرے گا}

وحدثني إسحاق وبكر بن الهيثم قالا حدثنا عبد الرزاق بن همام انبأنا معمر عن ابن طاوس عن أبيه عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يطلع عليكم من هذا الفج رجل يموت على غير ملتي، قال: وكنت تركت أبي قد وضع له وضوء، فكنت كحابس البول مخافة أن يجيء، قال: فطلع معاوية فقال النبي صلى الله عليه وسلم : هو هذا.

عبد الله بن عمرو بن العاص کہتا ہے : میں رسول خدا صلي الله عليه و آله کے پاس تھا  ،رسول اللہ ص نے فرمایا : ایسا شخص آنے والا ہے جو مرتے وقت اسلام کے ساتھ نہیں مرے گا { جو میری ملت اور آئین کے ساتھ نہیں مرے گا }

. [عبد الله بن عمرو بن العاص] کہتا ہے: میں نے اپنے والد کو وضو کرنے کے لئے پانی تیار کیا ہوا تھا اور سخت پیشاب آرہا تھا لیکن اس ڈر سے کہ کہیں میرے والد اس شگاف سے بارہر نہ آئے میں پیشاب کو روکا ہوا اور انتظار میں تھا ، عبد الله بن عمرو بن العاص کہتا ہے : اتنے میں معاويه آیا  اور  پيامبر صلي الله عليه و آله نے فرمایا : یہ وہی شخص ہے  [کہ جو میرے دین اور آئین پر نہیں مرے گا بلکہ کافر مرے گا ].

أنساب الأشراف ، ج 2 ص 120 ، اسم المؤلف: أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري (المتوفى : 279هـ) الوفاة: 279 ، دار النشر : طبق نرم افزار الجامع الکبير.

سند کی تحقیق :

أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري

ابن سعد:

محمد بن سعد نے اس کتاب کے لکھنے والا بلاذری کے بارے میں لکھا ہے :

أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري (ت 279هـ) المؤرخ المعروف، صاحب (فتوح البلدان) و (أنساب الأشراف).

أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري متوفاي 279 هجري قمري، مشہور تاریخ نگار اور " فتو ح البلدان اور  انساب الاشراف" کے مصنف ہے .

أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ)، الطبقات الكبرى، القسم المتمم لتابعي أهل المدينة ومن بعدهم، ص 53، دار النشر: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة، الطبعة: الثانية، 1408.

شمس الدين ذهبي:

شمس الدين ذهبي اہل سنت کے بڑے علماء میں سے ہے وہ بلاذري کے بارے میں لکھتا ہے :

البَلاَذُرِيُّ أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ يَحْيَى بنِ جَابِرٍ: العَلاَّمَةُ، الأَدِيْبُ، المُصَنِّفُ، أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ يَحْيَى بنِ جَابِرٍ البَغْدَادِيُّ، البَلاَذُرِيُّ، الكَاتِبُ، صَاحِبُ (التَّارِيْخِ الكَبِيْرِ).

بلاذري؛ ابوبکر، احمد بن يحيي بن جابر ، بہت زیادہ علم والا ،  اديب اور  مصنف ہے اور وہ  تاريخ الکبير کے مصنف بھی ہے .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج13، ص162، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ. .

ذہبی سير اعلام النبلاء میں اس کے بارے میں لکھتا ہے:

فَأَمَّا البَلاَذُرِيُّ الكَبِيْرُ، فَهُوَ أَحْمَدُ بنُ يَحْيَى صَاحبُ (التَّارِيْخِ الكَبِيْرِ) حَافظٌ أَخبارِيٌّ عَلاَّمَةٌ، أَدْرَكَ عَفَّانَ بنَ مُسْلِمٍ وَمَنْ بَعْدَهُ، يُعَدُّ مِنْ طَبَقَةِ أَبِي دَاوُدَ (صَاحبِ السُّنَنِ).

بلاذري بزرگ، احمد بن يحيي ہے کہ جو " تاريخ الکبير "کا رائٹر ہے. وہ  حافظ، اخباري اور علامه ہیں . اس نے  عفان بن مسلم اور اس کے بعد کا دور دیکھا ہے  اور ابي داود { سنن کے مصنف} کے طبقے{ کے ہم عصر } کا  ہے ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج16، ص36، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ. .

صفدي:

صفدي شافعي بلاذري نے بلاذری کے بارے میں لکھا ہے:

وَكَانَ أَحْمد بن يحيى بن جَابر عَالما فَاضلا شَاعِرًا راوية نسّابة متقناً.

     احمد بن يحيي بن جابر [بلاذري] عالم ، فاضل ، شاعر ، راوي ، نسب شناس  اور پختہ کار، ماہر و حاذق آدمی ہے ۔

الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاى764هـ)، الوافي بالوفيات، ج8 ، ص156 ، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

ياقوت حموي:

ياقوت حموي، نے بلاذري کی شخصيت کے بارے میں لکھا ہے :

وكان أحمد بن يحيى بن جابر عالما فاضلا شاعرا راوية نسابة متقنا.

احمد بن يحيي بن جابر [بلاذري] عالم ، فاضل ، شاعر ، راوي ، نسب شناس  اور پختہ کار، ماہر و حاذق آدمی ہے ۔

الرومي الحموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله، معجم الأدباء أو إرشاد الأريب إلى معرفة الأديب ، ج 2 ص 50 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة : الأولى 1411 هـ - 1991م .

سيوطي:

جلال الدين سيوطي نے بھی بلاذري کی فضیلت یوں بیان کی ہے :

وَالْكَبِير: أَحْمد بن يحيى صَاحب التَّارِيخ فِي طبقَة أبي دَاوُد السجسْتانِي حَافظ أخباري عَلامَة.

 سيوطي نے چھوٹا بلاذري کی زندگی نامہ لکھنے کے بعد یوں لکھا ہے: بڑا بلاذري ، احمد بن يحيي ہے کہ جو  تاريخ کی کتاب کے مصنف اور  ابو داود سجستاني کے طبقے کا ہے اور احادیث کے حافظ اور حدیث شناس اور علامہ ہے۔

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاى911هـ)، طبقات الحفاظ، ص 366 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ. .

پہلا راوي:

إسحاق بن منصور بن بهرام

یہ  صحيح بخاري، صحيح مسلم، سنن ترمذي، سنن نسائي اور سنن ابن ماجه کے رایوں میں سے ہے اور اہل سنت کے اپنے اصول کے مطابق اس کے بارے میں تحقیق کی ضرورت نہیں ،کیونکہ ان کے اصول کے مطابق جس راوی سے بخاري اور مسلم نے روایت نقل کی ہو اس کی تحقیق کی ضرورت ہی نہیں ۔

اين حجر اس سلسلے میں لکھتا ہے :

قال ابن حجر: وقد نقل ابن دقيق العيد عن ابن المفضل وكان شيخ والده انه كان يقول فيمن خرج له في الصحيحين هذا جاز القنطرة.

ابن حجر کہتا ہے : ابن دقيق العيد نے  ابن مفضل سے {جو اس کے والد کے  استاد تھے} نقل کیا ہے کہ  وہ صحيحين ک راوی کے بارے میں کہتا تھا  : « وہ پل سے گزرے لوگ ہیں»یعنی اب ان کی تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 13، ص 382 ، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.

ابن قيم جوزيه نے بھی اس سلسلے میں لکھا ہے :

ورجال الصحيحين قد جاوزوا القنطرة فلا التفات الي کلام من تکلم فيهم بما يقتضي رد حديثهم.

صحيح بخاري اور مسلم کے راویوں نے پل عبور کیا ہے  (یعنی وہ توثیق شدہ ہیں) پس ایسے کی باتوں پر توجہ نہیں دی جائے کہ جو ان کے راوی کے بارے میں اعتراض کرتا ہے اور ان کتابوں کے کسی راوی کے توثیق میں شک کرتا ہے ۔

ابن قيم الجوزية، محمد بن أبي بكر أيوب الزرعي أبو عبد الله، رفع اليدين في الصلاة، ص240 دار النشر: دار عالم الفوائد.

لیکن اس کے باوجود ہم اس راوی کے بارے میں اہل سنت کے علماء کی راے یہاں ذکر کرتے ہیں:

ابن حجر عسقلاني نے اس کے بارے میں  لکھا ہے :

إسحاق بن منصور بن بهرام الكوسج أبو يعقوب التميمي المروزي ثقة ثبت.

إسحاق بن منصور بن بهرام الكوسج أبو يعقوب التميمي المروزي قابل اعتماد اور ثابت شخص ہے ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ج 1 ص 103 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

مزي نے بھی اس کے زندگی نامے میں لکھا ہے :

خ م ت س ق : إسحاق بن منصور بن بهرام الكوسج ، أبو يعقوب التميمي المروزي ، نزيل نيسابور... قال مسلم : ثقة مأمون ، أحد الائمة من أصحاب الحديث. وَقَال النَّسَائي : ثقة ثبت. وَقَال أبو حاتم : صدوق.

بخاري ، مسلم ،ترمذي ،نسائي  اور ابو داود کے راوی ہے : إسحاق بن منصور بن بهرام الكوسج ، أبو يعقوب التميمي المروزي نیشاپور میں رہتا تھا ... مسلم کہتا ہے: وہ ایک قابل اعتماد ،امانت دار ، حدیث کے علماء کے اماموں میں سے ہیں، نسائي نے اس کے بارے میں کہا ہے : وہ ایک قابل اعتماد اور  ثابت شخص ہے  اور  ابو حاتم نے بھی کو ایک سچا انسان کہا ہے ۔

المزي،  ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 2 ص 474 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ابن حبان نے بھی ان کو قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں میں سے قرار دیا ہے:

 إسحاق بن منصور بن بهرام التميمي الكوسج كنيته أبو يعقوب من أهل مرو .

إسحاق بن منصور بن بهرام التميمي الكوسج ، اس کا کنیہ ابو يعقوب تھا اور مرو کے رہنے والا تھا .

التميمي البستي، ابوحاتم محمد بن حبان بن أحمد (متوفاى354 هـ)، الثقات، ج 8 ص 118 ، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.

سيوطي نے بھی اس کے بارے میں لکھا ہے :

إسحاق بن منصور بن بهرام الكوسج أبو يعقوب التميمي المروزي ... قال مسلم ثقة مأمون أحد الأئمة من أصحاب الحديث وقال الحاكم أحد الأئمة من الزهاد والمتمسكين بالسنة.

إسحاق بن منصور بن بهرام الكوسج أبو يعقوب التميمي المروزي ... کے بارے میں مسلم نے کہا ہے : : وہ ایک قابل اعتماد ،امانت دار ، حدیث کے علماء کے اماموں میں سے ہیں۔ امام  حاکم نے اس کے بارے میں کہا ہے: وہ زاہد اماموں میں سے ایک ہے وہ ان میں سے تھا جو سنت سے تمسک کرتے تھے ۔

السيوطي، جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاى911هـ)، طبقات الحفاظ، ج 1 ص ص 233 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ. .

دوسرا راوي:

عبد الرزاق بن همام بن نافع

یہ بھی اہل سنت کے صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے ۔

ابن حجر نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميري مولاهم أبو بكر الصنعاني ثقة حافظ مصنف شهير.

عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميري ،قبيله حمير کے آزاد شدہ ہے، ابوبکر صنعاني ایک قابل اعتماد شخص ہیں ۔ وہ حافظ اور مصنف ہیں .

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص354  ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

ابي حاتم  نے  الثقات میں اس کو ذکر کیا ہے :

عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميري الصنعاني.

التميمي البستي، ابوحاتم محمد بن حبان بن أحمد (متوفاى354 هـ)، الثقات، ج8 ص412 ، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.

حاكم نيشابوري نے محمد بن إسماعيل الصراري، سے نقل کیا ہے :

فخرجت من صنعاء إلى مكة فوافقت بها يحيى بن معين وقلت له يا أبا زكريا ما الذي بلغنا عنكم في عبد الرزاق فقال ما هو فقلنا بلغنا انكم تركتم حديثه ورغبتم عنه فقال يا أبا صالح لو ارتد عبد الرزاق عن الإسلام ما تركنا حديثه.

صنعاء سے ہم  مکه کی طرف نکلے ، يحيي بن معين سے ہماری ملاقات ہوئی ،میں نے اس سے کہا : اے ابا زکريا ! عبدالرزاق کے بارے میں اپ کی کچھ باتیں ہم تک پہنچی ہیں؟ اس نے پوچھا : کیا چیز ؟. ہم تک یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ اس سے حدیث نقل نہیں کرتے اور ان سے دوری اختیار کرتے ؟ يحيي بن معين نے اس سے کہا : اے ابا صالح! اگر عبدالرزاق مرتد بھی ہوجائے پھر بھی ہم اس کی حدیث کو نہیں چھوڑتے۔

الحاكم النيسابوري،  ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفاى 405 هـ)، معرفة علوم الحديث ، ج 1 ص 139 ، تحقيق : السيد معظم حسين ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت ، الطبعة : الثانية ، 1397هـ - 1977م.

تیسرا راوي:

معمر بن راشد

وہ بھی اہل سنت کے صحاح ستہ {صحيح بخاري، صحيح مسلم، سنن ترمذي، سنن ابو داود، سنن نسائي و سنن ابن ماجه} کے راوی ہے.

ابن حجر عسقلاني نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

معمر بن راشد الأزدي مولاهم أبو عروة البصري نزيل اليمن ثقة ثبت فاضل.

معمر بن راشد الأزدي ، قبيله ازد کے آزاد شدہ ہے، أبو عروة البصري یمن کا رہنے والا تھا، وہ قابل اعتماد ، استوار اور  فاضل شخص ہے.

ثقہ :۔  ایسا راوی جس میں عدالت، ضبط تام اور اتقان جیسی اعلی صفات موجود ہوں

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ، ج1 ص541 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

عجلي کوفي نے اس کے بارے میں لکھا ہے:

معمر بن راشد يكنى أبا عروة بصرى سكن اليمن ثقة رجل صالح.

معمر بن راشد ،جس کا کنیہ ابا عروة بصري؛ یمن کا رہنے والا ثقہ اور نیک انسان ہے۔

العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفاى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج2 ص290 ، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.

ابن حبان نے اس کو  ثقات میں شمار کیا ہے :

معمر بن راشد مولى.

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاى354 هـ)، الثقات، ج7 ص484 ، تحقيق: السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.

ذهبي نے اس کو  امام و احد الاعلام  کے عنوان سے یاد کیا ہے :

معمر بن راشد الامام الحجة أبو عروة الأزدي مولاهم البصري أحد الاعلام وعالم اليمن.

معمر بن راشد أبو عروة الأزدي بصرہ کا رہنے والا اور قبیلہ ازد کا آزاد شدہ ہے . وہ  امام  ، حجت اور یمن کے بزرگ علماء سے ایک ہے .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج1 ص190 ، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى.

ذهبي نے واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی امام ہو تو اس کے بارے میں دوسروں کی باتوں پر توجہ نہیں دی جائے گی ۔

لكن إذا ثبتت إمامة الرجل وفضله ، لم يضره ما قيل فيه.

اکر  کسی کی امامت اور فضیلت ثابت ہو جائے تو اس کے خلاف کسی کی بات پر توجہ نہیں دی جائے گی ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 8 ص 448 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

صحیح مسلم کے راویوں کی تحقیق پر مشتمل کتابوں میں اس کے بارے میں نقل ہوا ہے

معمر بن راشد ... وكان فقيها متقنا حافظا ورعا.

معمر بن راشد ایک فقیہ ، متقن ، حافظ، اور با تقوا شخص ہے.

الأصبهاني، أبو بكر أحمد بن علي بن منجويه، (متوفاى: 428هـ) رجال صحيح مسلم، ج2 ص227 ، تحقيق: عبد الله الليثي، دار النشر: دار المعرفة - بيروت ، الطبعة : الأولى، 1407 هـ .

ذهبي سے اس کی زندگی نامہ میں لکھا ہے :

معمر بن راشد أبو عروة إمام ثقة .

معمر بن راشد أبو عروة امام اور قابل اعتماد شخص ہے .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردهم، ج1 ص166 ، تحقيق: محمد إبراهيم الموصلي، دار النشر: دار البشائر الإسلامية - بيروت – لبنان، الطبعة : الأولى1412هـ - 1992م .

چوتھا راوي:

عبد الله بن طاوس بن كيسان

وہ تابعی ہونے کے علاوہ صحاح سته کے راویوں میں سے ہے .

ابن حجر نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

عبد الله بن طاوس بن كيسان اليماني أبو محمد ثقة فاضل عابد .

عبد الله بن طاوس بن كيسان اليماني أبو محمد ، ایک قابل اعتماد ، صاحب فضیلت و اهل عبادت ہے .

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ج 1 ص 308 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

ابن حجر نے بھی  عبد الله بن طاوس کے نام کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:

وقال النسائي في الكنى ثقة مأمون وكذا قال الدارقطني في الجرح والتعديل وقال العجلي ثقة وذكره بن حبان في الثقات.

نسائي نے کتاب "کُني" میں اس طرح لکھاہے : [عبدالله بن طاوس] ایک قابل اعتماد اور امانتدار انسان ہے ۔ . دار قطني نے كتاب "الجرح و التعديل" میں یہی بات کی ہے ؛ عِجلي نے بھی اس کو ثقہ کہا ہے ،   ابن حبان نے بھی اس کو مورد اعتماد افراد میں قرار دیا ہے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 5 ص 234 ، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.

عجلي نے بھی لکھا ہے :

عبد الله بن طاوس بن كيسان اليماني ثقة.

عبد الله بن طاوس بن كيسان اليماني قابل اعتماد ہے .

العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفاى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج2 ص 38 ، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.

ابن حبان نے بھی ان کو ثقہ افراد میں شمار کیا ہے:

عبد الله بن طاوس بن كيسان الخولاني.

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاى354 هـ)، الثقات، ج 7 ص 4 ، تحقيق: السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.

ذهبي نے تاريخ الاسلام میں واضح طور پر کہا ہے کہ وہ  ائمه اهل سنت میں سے اور قابل اعتماد ہیں :

عبد الله بن طاوس بن كيسان أبو محمد اليماني.

قال معمر : كان من أعلم الناس بالعربية وأحسنهم خلقاً ما رأينا ابن فقيه مثله .

قلت : وثقوه .

عبد الله بن طاوس بن كيسان أبو محمد اليماني، معمر نے ان کے بارے میں کہا ہے: وہ عربی جاننے والے اہم علماء میں سے ہے اور اخلاقی اعتبار سے بھی بہت اچھا آدمی ہے میں نے فقہ میں ان جیسا فقیہ نہیں دیکھا۔

ذھبی خود کہتا ہے : علماء نے اس کو قابل اعتماد قرار دیا ہے ۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج8 ص463 ، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.

اسی طرح خود ذهبي نے ان کے بارے میں لکھا ہے  :

طاوس بن كيسان الإمام أبو عبد الرحمن اليماني من أبناء الفرس وقيل اسمه ذكوان فلقب فقال بن معين لأنه كان طاوس القراء عن أبي هريرة وابن عباس وعائشة وعنه الزهري وسليمان التيمي وعبد الله ابنه قال عمرو بن دينار ما رأيت أحدا مثله قط مات بمكة.

طاوس بن كيسان ، وہ  امام أبو عبد الرحمن اليماني اور فارسی ہے  . کہا گیا ہے :اس کا نام  ذکوان تھا بعد میں طاوس کے لقب سے اس کو یاد کیا گیا . يحيي بن معين نے اس کے بارے میں کہا ہے : او ابوهريره ، ابن عباس اور  عايشه کی احادیث کی قرائت کرتا تھا ۔ زهري ، سليمان تيمي  اور اس کے بیٹے عبدالله نے اس سے روایت نقل کی ہے . عمر بن دينار نے اس کے بارے میں کہا ہے : ان جیسا کسی کو میں نے نہیں دیکھا ۔ مکہ میں دنیا سے چلا گیا ۔.  

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1 ص512 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.

ابن حجر عسقلاني نے بھی اس کے بارے میں لکھا ہے:

طاوس بن كيسان اليماني أبو عبد الرحمن الحميري مولاهم الفارسي يقال اسمه ذكوان وطاوس لقب ثقة فقيه فاضل من الثالثة.

طاوس بن كيسان اليماني ابو عبد الرحمن حميري، اهل فارس اور قبيله حمير کا غلام تھا . کہا گیا ہے اس کا نام ذکوان اور اس کا لقب طاوس تھا . وہ ایک قابل اعتماد ، فقيه ، فاضل تھا ۔ وہ  راویوں کے تیسرے طبقے سے اس کا تعلق ہے .

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص281 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

مزي نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

وَقَال إسحاق بن منصور عن يحيى بن مَعِين ، وأبو زُرْعَة : ثقة.

اسحاق بن منصور نے يحيي بن معين سے نقل کیا ہے : ابو زرعه قابل اعتماد شخص تھا ۔

المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج13 ص360 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ابن حبان نے بھی ان کو ثقات میں شمار کیا ہے :

طاوس بن كيسان اليماني الهمداني .

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد ابوحاتم (متوفاى354 هـ)، الثقات، ج4 ص391 ، تحقيق: السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ – 1975م.

 

پانچواں راوي:

عبد الله بن عمرو بن العاص

وہ  پيامبر صلي الله عليه وآله کے  اصحاب میں سے ہے ۔اہل سنت کے اصول کے مطابق تمام اصحاب عادل ہیں اور یہ صحاح ستہ کے راویوں میں سے بھی ہے۔

ذهبي نے ان کے زندگی نامے میں لکھا ہے :

عبد الله بن عمرو بن العاص ...الإمام الحبر العابد صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم .

وله مناقب وفضائل ومقام راسخ في العلم والعمل حمل عن النبي صلى الله عليه وسلم علما جما .

عبد الله بن عمرو بن العاص... امام، عالم، عبادت گذار  اور  رسول خدا صلي الله عليه و آله [و سلم] کے اصحاب میں سے تھا۔

خوبیوں اور فضیلت والا ، علم اور عمل میں پختہ ، بلند مقام والا اور رسول اللہ کے اصحاب میں سے ہے اور آپ سے بہت زیادہ علم کسب کیا ہے ۔  

 الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج3 ص80 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

نتیجہ : اس روایت کے سارے راوی اہل سنت کے اصول کے مطابق ثقہ اور قابل اعتماد ہیں اور اس روایت کی سند صحیح ہے ۔

 

دوسری روايت: معاويه ایک تابوت میں بند اور جنہم میں ہوگا ۔

 

دوسری روایت کی سند بھی پہلی والی روایت کی طرف معتبر ہے :

حدثني خلف بن هشام البزاز حدثنا أبو عوانة عن الأعمش عن سالم بن أبي الجعد قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " معاوية في تابوت مقفل عليه في جهنم.

پيامبر اکرم صلي الله عليه و آله و سلم نے فرمایا : معاويه ایک تابوت میں بند اور جنہم میں ہوگا ۔

 البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاى279هـ)، أنساب الأشراف، ج 2 ص 121 .

سند کی تحقیق :

پہلا راوي:

خلف بن هشام بن ثعلب

یہ صحيح مسلم اور  سنن أبي داود کے راوی ہے .

ابن حجر عسقلاني نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

خلف بن هشام بن ثعلب ... ثقة.

خلف بن هشام بن ثعلب ... قابل اعتماد شخص ہے.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص194 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

  تهذيب التهذيب میں بھی کہا ہے :

م د مسلم وأبي داود، خلف بن هشام بن ثعلب ويقال طالب بن غراب البزار البغدادي المقري.

مسلم  اور ابي داود کے راوی ہے : خلف بن هشام بن ثعلب ان کو طالب بن غراب بزار بغدادي مقري، بھی کہا جاتا ہے.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج3 ص134 ، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.

مزي نے بھی نسائي اور دارقطني سے ان کے بارے میں نقل کیا ہے :

وَقَال النَّسَائي : بغدادي ثقة.

وَقَال الدار قطني : كان عابدا فاضلا .

نسائي نے کہا ہے : وہ بغدادی اور قابل اعتماد ہے.

دار قطني نے کہا ہے: وہ  عبادت گزار اور صاحب فضیلت شخص ہے .

المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج8 ص302 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ابن الجوزي نے بھی اس کے بارے میں لکھا ہے :

خلف بن هشام بن ثعلب ويقال خلف بن هشام بن طالب بن غراب أبو محمد البزار المقرىء ... وكان ثقة فاضلا عابدا.

خلف بن هشام بن ثعلب؛ کو  خلف بن هشام بن طالب بن غراب ابو محمد بزار مقرى ... بھی کہا جاتا ہے  وہ ایک قابل اعتماد ، فاضل اور عابد شخص تھا.

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاى 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج11 ص145 ، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.

ابن مفلح نے بھی کہا ہے :

وقال يحيى بن معين أنه الصدوق الثقة وقال الدارقطنى كان عابدا فاضلا.

يحيي بن معين نے کہا ہے :  وہ ایک سچا انسان  اور قابل اعتماد شخص ہے۔  دار قطني نے کہا ہے : وہ عابد اور فاضل شخص ہے .

الإمام برهان الدين إبراهيم بن محمد بن عبد الله بن محمد بن مفلح (متوفاي884هـ)، المقصد الأرشد في ذكر أصحاب الإمام أحمد، ج1 ص378 ، تحقيق: د عبد الرحمن بن سليمان العثيمين، دار النشر: مكتبة الرشد - الرياض – السعودية، الطبعة: الأولى1410هـ - 1990م .

 دوسرا راوي:

وضاح بن عبد الله

یہ بھی صحاح ستہ کے رایوں میں سے ہے ۔

ذهبي نے اس کے بارے میں لکھا ہے : وضاح بن عبد الله الحافظ ...ثقة متقن.

وضاح بن عبد الله  ، ایک لاکھ حدیث کے حافظ ، قابل اعتماد اور پختہ اور ماہر شخص ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج2 ص349 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.

ذهبي نے ایک اور جگہ لکھا ہے :

وضاح بن عبد الله أبو عوانة ثقة حجة.

وضاح بن عبد الله أبو عوانة قابل اعتماد اور حجت ہے .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، المغني في الضعفاء، ج2 ص720 ، تحقيق: الدكتور نور الدين عتر.

ابن حجر عسقلاني نے بھی لکھا ہے :

ع الستة الوضاح بن عبد الله اليشكري.

وقال أبو زرعة ثقة. وقال بن سعد كان ثقة صدوقا.

وضاح بن عبد الله يشكري، صحاح ستہ کے راوی ہے. ابوزرعه نے اس کو قابل اعتماد شخص جانا ہے ۔ابن سعد نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے : وہ قابل اعتماد اور سچا آدمی ہے .

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تهذيب التهذيب، ، ج11 ص103 ، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.

مزي نے بھی تهذيب الکمال میں اس طرح لکھا ہے :

قال أبو حاتم الرازي: سمعت هشام بن عُبَيد الله الرازي يقول : سألت ابن المبارك : من أروى الناس وأحسن الناس حديثًا.

ابو حاتم رازي نے کہا ہے : هشام بن عبيد رازي سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا:  میں نے  ابن المبارک سے سوال کیا تو مجھے جواب دیا  :  وہ ایسے افراد میں سے ہے جنہوں نے بہت زیادہ روایت نقل کی ہے  اور وہ بہت ہی اچھے محدثین میں سے ہے۔

المزي، ابوالحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمن (متوفاى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 30 ص 445 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

 تیسرا راوي:

سليمان بن مهران (اعمش)

یہ بھی صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے ۔

عجلي نے ان کے بارے میں لکھا ہے :

سليمان بن مهران الأعمش يكنى أبا محمد ثقة كوفي وكان محدث أهل الكوفة في زمانه.

سليمان بن مهران اعمش کی کنیت ابا محمد ہے، وہ  کوفه  کے رہنے والا اور قابل اعتماد شخص ہے وہ اپنے زمانے میں کوفہ والوں کے محدث تھے .

العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفاى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج1 ص432 ، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.

ابن ابي حاتِم نے يحيي بن معين سے نقل کیا ہے :

عن يحيى بن معين انه قال سليمان بن مهران الأعمش ثقة .

    : سليمان بن مهران اعمش قابل اعتماد شخص ہے .

ابن أبي حاتم الرازي التميمي، ج4 ص146 ، ابومحمد عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس (متوفاى 327هـ)، الجرح والتعديل، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولى، 1271هـ ـ 1952م.

ابن حجر عسقلاني نے بھی لکھا ہے :

سليمان بن مهران الأسدي الكاهلي أبو محمد الكوفي الأعمش ثقة حافظ.

سليمان بن مهران اسدي کاهلي ابو محمد کوفي اعمش ، ایک قابل اعتماد اور حافظ انسان ہے ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص254 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

ابن حجر نے لسان الميزان میں لکھا ہے :

سليمان بن مهران الأسدي الكاهلي مولاهم أبو محمد الكوفي الأعمش أحد الاعلام الحفاظ والقراء.

سليمان بن مهران الأسدي الكاهلي کا آقا، ابو محمد كوفي اعمش تھا اور وہ بزرگ حفاظ م اور احادیث قرائت کرنے والوں میں سے تھا ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852 هـ)، لسان الميزان، ج7 ص238 ، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ – 1986م.

ذهبي نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

سليمان بن مهران الحافظ أبو محمد الكاهلي الأعمش أحد الأعلام.

سليمان بن مهران ابو محمد كاهلي اعمش، حدیث کے حافظ اور مشہور علماء میں سے تھا.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1 ص464 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.

اسی طرح ذھبی نے ہی تذکرة الحفاظ میں اس طرح لکھا ہے :

ع الأعمش الحافظ الثقة شيخ الإسلام أبو محمد سليمان بن مهران الأسدي الكاهلي.

اعمش ابو محمد سليمان بن مهران الأسدي الكاهلي، صحاح سته کے راویوں میں سے ہے ، وہ حدیث کے حافظ اور قابل اعتماد اور شيخ الاسلام ہے.

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج1 ص154 ، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى.

اسی طرح  ذهبي نے ہی لکھا ہے :

 ع سليمان بن مهران الأعمش ثقة جبل.

   اعمش ، صحاح ستہ کے راوی ، قابل اعتماد اور علم کے پہاڑ ہے .

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، المغني في الضعفاء، ج1 ص283 ، تحقيق: الدكتور نور الدين عتر.

ابن خلکان نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

أبو محمد سليمان بن مهران مولى بني كاهل من ولد أسد المعروف بالأعمش الكوفي الإمام المشهور كان ثقة عالما فاضلا.

أبو محمد سليمان بن مهران بني کاهل کے غلام ، اسد کے فرزند اور اعمش کے نام سے مشہور ہے ،کوفہ کے رہنے والا ، مشہور پیشوا ، قابل اعتماد ،عالم اور فاضل شخص ہے۔

إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج2 ص400 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

ابو الفرج نے ان کے بارے میں لکھا ہے :

سليمان بن مهران الأعمش الأسدى

يكنى أبا محمد مولى لبنى كاهل عن عيسى بن يونس قال ما رأينا في زماننا مثل الأعمش

إبراهيم بن عرعرة قال سمعت يحيى القطان إذا ذكر الأعمش قال كان من النساك وكان محافظا على الصلاة في الجماعة وعلى الصف الأول قال يحيى وهو علامة الإسلام .

اس کی کنیت ابا محمد ،بني کاهل کا آزاد شدہ ، عيسي بن يونس سے نقل ہوا ہے : ہمارے زمانے میں ہم نے اعمش جیسا نہیں دیکھا ۔

ابراهيم بن عرعره کہتا ہے : میں نے  يحيي بن قطان سے سنا ہے : اس کے پاس جب اعمش کا ذکر ہوا تو اس نے کہا : وہ ایک پرہیزگار شخص تھا، وہ نماز کی پہلی صف میں ہوتا تھا ۔وہ اسلام کا علامہ  تھا۔

صفة الصفوة ، ج3 ص117 ، اسم المؤلف:  عبد الرحمن بن علي بن محمد أبو الفرج ، دار النشر : دار المعرفة - بيروت - 1399 - 1979 ، الطبعة : الثانية ، تحقيق : محمود فاخوري - د.محمد رواس قلعه جي.

چوتھا راوي:

سالم بن رافع

یہ تابعی اور صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے ۔

ذهبي نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

 سالم بن أبي الجعد الأشجعي مولاهم الكوفي عن عمر وعائشة وهو مرسل وعن بن عمر وابن عباس وعنه منصور والأعمش توفي سنة مائة ثقة ع.

سالم بن أبي الجعد الأشجعي غلام اشجعي، کوفه کے رہنے والا ، عمر اور عايشه سے اس کی روایت مرسل ہیں ۔ ابن عمر اور ابن عباس سے روایت نقل کی ہے اور منصور اور اعمش نے اس سے روایت نقل کی ہے اور وہ  100 ہجری کو دنیا سے چلا گیا . وہ ایک قابل اعتماد شخص اور صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج1 ص422 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.

اسی طرح ذہبی نے سير أعلام النبلاء میں لکھا ہے:

سالم بن أبي الجعد الأشجعي الغطفاني مولاهم الكوفي الفقيه أحد الثقات.

سالم بن أبي الجعد الأشجعي غلام غطفاني، از اهالي کوفه فردي فقيه و يکي از افراد مورد اعتماد بود.

کوفہ کے رہنے والا ، فقیہ اور مورد اعتماد لوگوں میں سے ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج5 ص108 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

ابن کثير نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

( سالم بن أبي الجعد الأشجعي ) مولاهم الكوفي أخو زياد وعبد الله وعبيد الله وعمران ومسلم وهو تابعي جليل روى عن ثوبان وجابر وعبد الله بن عمر وعبد الله بن عمرو والنعمان ابن بشير وغيرهم وعنه قتادة والأعمش وآخرون وكان ثقة نبيلا جليلا.

سالم بن أبي الجعد الأشجعي غلام اشجعي، کوفہ کے رہنے والا اور زياد ، عبدالله ، عبيدالله ، عمران اور مسلم کے بھائی ہے ،وہ تابعی اور بلند مرتبہ شخص ہے . ثوبان ، جابر ،  عبدالله بن عمر ، عبدالله بن عمرو  اور  نعمان بن بشير وغیرہ سے اس نے روایت نقل کی ہے، قتاده  اور اعمش وغیرہ اس کے شاگرد ہیں وہ قابل اعتماد، صاحب فضیلت اور بلند مرتبہ والا شخص ہے.

ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفاى774هـ)، البداية والنهاية، ج9 ص190 ، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

ابن حجر نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

سالم بن أبي الجعد رافع الغطفاني الأشجعي مولاهم الكوفي ثقة.

سالم بن أبي الجعد رافع غطفاني اشجعي، قبیلہ اشجع کے آزاد شدہ ، کوفہ کے رہنے والا  اور قابل اعتماد آدمی ہے ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ص226 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.

ابن حجر نے ہی لکھا ہے :

ع الستة سالم بن أبي الجعد رافع الأشجعي ...قال بن معين وأبو زرعة والنسائي ثقة... وكذا قال بن حبان في الثقات وقال بن سعد كان ثقة كثير الحديث... .

سالم بن أبي الجعد رافع اشجعي ، صحاح ستہ کے راوی  ہے ... ابن مَعين ، ابو زرعه  اور  نسائی نے ان کو قابل اعتماد کہا ہے . اسی طرح ابن حبان نے ان کو قابل اعتماد لوگوں میں شمار کیا ہے ۔ ابن سعد نے کہا ہے: وہ قابل اعتماد اور زیادہ حدیث نقل کرنے والوں میں سے ہے ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج3 ص373 ، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.

عجلي نے اس کے بارے میں لکھا ہے :

سالم بن أبي الجعد الغطفاني كوفى تابعي ثقة.

سالم بن أبي الجعد الغطفانی، کوفه کے رہنے والا ، اس کا شمار تابعین میں ہوتا ہے اور قابل اعتماد ہے ۔

العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفاى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج1 ص382 ، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.

ابن حجر نے لکھا ہے :

سالم بن أبي الجعد أحد ثقات التابعين.

سالم بن أبي الجعد قابل اعتماد اور تابعی میں سے ہے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاى852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج3 ص274 ، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ - 1992م.

کیا تابعی رسول خدا صلي الله عليه وآله سے حدیث نقل کرے تو یہ قابل حجت ہے  ؟!

سالم بن ابی الجعد کا شمار تابعی میں ہی ہوتا ہے اور تابعی مستقل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے روایت نقل نہیں کرسکتا لیکن اہل سنت کے علماء تابعی کے مرسل حدیث کو قبول کرتے ہیں ۔

تابعين کے مرسل احادیث کا حجت ہونا :

ہم اس بحث میں اہل سنت کے بعض علماء کی نظر کو نقل کرتے ہیں کہ جو تابعی کے مرسل حدیث کو حجت مانتے ہیں۔:

1.   ابن بهادر

ابن بهادر نے قاضي ابوبکر سے نقل کیا ہے :

لكن قال القاضي أبو بكر في التقريب الجمهور على قبول المرسل ووجوب العمل به إذا كان المرسل ثقة عدلا وهو قول مالك وأهل المدينة وأبي حنيفة وأهل العراق.

قاضي ابوبکر نے تقريب میں کہا ہے:

جب قابل اعتماد اور عادل شخص مرسل روایت نقل کرے تو جمهور علما [علماء کی اکثریت] مرسل قول کو قبول کرتے ہیں۔ علماء کی اکثریت اس روایت پر عمل کو واجب سمجھتے ہیں اور یہ مالک اور مدینہ کے علماء ، ابوحنیفہ اور عراق کے علماء کا نظریہ ہے

بدر الدين أبي عبد الله محمد بن جمال الدين عبد الله بن بهادر (متوفاي794هـ)، النكت على مقدمة ابن الصلاح، ج 1 ص 491 ، تحقيق: د. زين العابدين بن محمد بلا فريج، دار النشر: أضواء السلف – الرياض، الطبعة: الأولى1419هـ - 1998م 

2.   ملا علي قاري

ملا علي قاري نے تابعین کے مرسلات کے حجت ہونے کے بارے میں جمہور کے نظریے کو نقل کیا ہے :

وأيضاً مراسيل الصحابة معتبرة إجماعاً بخلاف مرسل التابعي فإنه حجة عند الجمهور خلافاً للشافعي . ولا بد في كونه حجة أقله أن يكون إسناده حسناً.

علماء  کا  اس بات پر اجماع ہے کہ صحابه کی مرسل روایات حجت ہیں ۔ لیکن تابعی کے مرسل روایات جمہور{ علماء کی اکثریت} کے نذدیک حجت ہے اور امام شافعی نے اس کو حجت نہیں جانا ہے ۔  لیکن کم از کم بات اس سلسلے میں یہ کہی جاسکتی ہے کہ تابعی کی مرسل روایت حسن { معتبر احادیث کی ایک قسم} اور حجت ہے ۔

ملا علي القاري، نور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد الهروي (متوفاى1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 6 ص 134 ، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .

 ایک اور جگہ وہ لکھتا ہے :

مرسل التابعي حجة عند الجمهور .

تابعی کی مرسل روایت جمہور { اکثر علماء } کے نذدیک حجت ہے .

ملا علي القاري، نور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد الهروي (متوفاى1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 9 ص 434 ، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .

 اسی طرح ملاقاری ،صحابہ کی مرسل روایات کے حجت ہونے ہونے پر اجماع ہونے کو بیان کرنے کے بعد ،تابعی کی مرسل روایت کے حجت ہونے کے بارے میں لکھتا ہے :

إذ مراسيل الصحابة حجة مقبولة اتفاقاً بخلاف مراسيل التابعين فإنها معتبرة عند الجمهور.

اصحاب کی مرسل  روایات کے حجت ہونے پر سب کا اتفاق ہے لیکن تابعی کی مرسل روایات جمہور کی نظر میں معتبر اور حجت ہے ۔

ملا علي القاري، نور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد الهروي (متوفاى1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ، ج 8 ص 368 ، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .

3.   ابوبکر سرخسي

سرخسي حنفی مذہب کے علماء میں سے ہے  انہوں نے  دوسری قرن اور تیسری قرن یعنی تباعی اور تباعی کے تابعی کی مرسل روایات کے حجت ہونے کے بارے میں لکھا ہے :

فأما مراسيل القرن الثاني والثالث حجة في قول علمائنا رحمهم الله .

دوسری اور تیسری قرن کی مرسل روایات [يعني تابعين اور تابعينِ کے تابعين کی مرسل روایات] ہمارے علماء کی نگاہ میں حجت اور قابل اعتماد ہیں.

السرخسي الحنفي، شمس الدين ابوبكر محمد بن احمد بن أبي سهل (متوفاى483هـ )، أصول السرخسي ، ج 1 ص 360 ، ناشر : دار المعرفة – بيروت.

4.   ابو سعيد علائي

انہوں نے بھی  مرسلات کے حجت ہونے کے سلسلے میں لکھا ہے :

أما القائلون بقبول مراسيل التابعين وأتباعهم دون أهل القرن الرابع وهو ما حكاه جماعة من الأصوليين عن عيسى بن أبان ولم يحكه أبو بكر الرازي إلا عن بعض شيوخهم والذي حكاه عن ابن أبان أنه قال من أرسل من أهل زماننا حديثا عن النبي صلى الله عليه وسلم فإن كان من أئمة الدين وقد نقله عن أهل العلم فإن مرسله مقبول كما يقبل مسنده.

جنہوں نے چوتھی قرن سے پہلے کی مرسل روایات{ تباعی اور تباعی کے تابعی کی مرسل روایات} کو قبول کیا ہے اور حجت جانا ہے ،اصول کے بعض علماء نے اس نظریہ کو عیسی بن ابان سے نقل کیا ہے اور ابوبکر رازی نے بھی اسی نظریے کو اپنے بعض استادوں سے  نقل کیا ہے ،کہ ہمارے زمانے میں کوئی رسول اللہ سے حدیث نقل کرئے اور یہ نقل کرنے والا ائمہ دین میں سے ہو اور اس نے اہل علم سے اس کو نقل کیا ہو تو اس کی مرسل حدیث بھی اس کی مسند حدیث کی طرح حجت ہے ۔

كيكلدي أبو سعيد العلائي، أبو سعيد بن خليل، جامع التحصيل في أحكام المراسيل، ج 1 ص 83 ، الوفاة: 761 ، تحقيق : حمدي عبدالمجيد السلفي، دار النشر : عالم الكتب - بيروت - 1407 - 1986 ، الطبعة : الثانية ،

5.   مولوي محمد عمر سربازي

یہ ایران کے صوبہ بلوچستان کے عصر حاضر کے علماء میں سے ہے ،انہوں نے بھی مرسل روایات کی حجت ہونے کے بارے میں لکھا ہے:

المرسل کی حجية :

مرسل روایات کی حجية  کے سلسلے میں  ائمہ اربعہ میں سے صرف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تنہا ہے آپ مرسل کو حجت نہیں ماننتے۔ امام احمد رحمه اللہ سے بھی مرسل روایت کے حجت نہ ہونے کا قول نقل ہوا ہے لیکن ان کے نذدیک بھی بہتر قول حجت ہونا ہی ہے. ابوداود نے ابن جرير سے نقل کیا ہے : امام شافعي سے پہلے سلف کا مرسل روایات کے حجت ہونے پر اجماع تھا ۔

سربازي، محمد عمر، فتاواي منبع العلوم کوه ون، ج 5 ص 33 ، مدرسه ديني منبع العلوم کوه ون، سرباز، چاپ اول، زمستان 1384 شمسي.

لہذا گرچہ یہ روایت ایک مرسل روایت ہے لیکن اہل سنت کے علماء مرسل روایت کو قبول کرتے ہیں اور حجت مانتے ہیں ۔

نتيجه:

پس مندرجہ بالا دونوں روایات کی سند معتبر اور حجت ہے اور اس سلسلے میں کوئی اعتراض قابل قبول نہیں ہے اور یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ثابت شدہ کلام ہیں ۔

۔۔۔۔لہذا  کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ یہ شیعوں کا کام ہے اور اصحاب سے بغض و عناد کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔

جیساکہ گزشتہ صفحات کے مطالب گواہ ہیں کہ یہ سب اھل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں اور اھل سنت کے علماء کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق یہ روایات صحیح سند اور حجت ہیں ۔

شیعہ کم از کم اھل سنت سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ تو سارے اصحاب کو جنتی سمجھتے ہیں اور شیعوں پر اصحاب سے بغض کا الزام لگاتے ہیں جبکہ آپ کی ہی کتابوں میں ایسی روایات موجود ہیں کہ جو واضح طور پر معاویہ کے دین اسلام سے خارج ہونے اور اس کے جہنمی ہونے کو بیان کرتی ہیں ۔۔

 

و ما علینا الا البلاغ ۔۔۔۔و سلام علی من اتبع الھدی ۔۔۔

 

التماس دعا ۔۔۔۔

 

شبہات کے جواب دینے والی ٹیم

تحقیقاتی اداری ، حضرت ولي عصر عجل الله تعالي فرجه الشريف






Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات