2024 April 19
حديث ثقلين اور امت کے نام حضور پاک ص کا تاریخ ساز پیغام ۔
مندرجات: ٢٠٦٨ تاریخ اشاعت: ٢٢ September ٢٠٢١ - ١٧:٣٧ مشاہدات: 3034
مضامین و مقالات » پبلک
حديث ثقلين اور امت کے نام حضور پاک ص کا تاریخ ساز پیغام ۔

مطالب کی فہرست :

 حدیث ثقلین کی سند

حدیث ثقلین کا مضمون اور پیغام

اہل سنت کے علما کی نگاہ میں حدیث ثقلین کا معنی 

خلاصہ اور نتیجہ 

ایک اہم سوال:

 

حديث ثقلين

شیعہ جن احادیث سے ائمہ اھل بیت علیہم السلام کی امامت ،جانشینی ،دینی پیشوائی اور وصایت پر استدلال کرتے ہیں ان میں سے ایک حدیث ثقلین ہے ؛

 پیغمبر اكرم (صلي الله عليه و آله) نے فرمایا:

إني تارك فيكم الثقلين ما إن تمسكتم بهما لن تضلوا: كتاب الله و عترتي أهل بيتي و أنهما لن يفترقا حتي يردا علي الحوض.

 میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت اھل بیت، اگر ان دونوں کی پیروی کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے ۔

یہ حدیث کا ایک طریق سے یوں نقل؛ ہوئی ہے ؛  

حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا بن نُمَيرٍ ثنا عبد الْمَلِكِ بن أبي سُلَيمَانَ عن عَطِيةَ العوفي عن أبي سَعِيدٍ الخدري قال قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم اني قد تَرَكْتُ فِيكُمْ ما ان أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بعدي الثَّقَلَينِ أَحَدُهُمَا  أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إلي الأَرْضِ وعترتي أَهْلُ بيتي الا وانهما لَنْ يفْتَرِقَا حتي يرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.

 

ابو سعید خدری سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ: میں تمہارے لیے دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ ان میں سے ایک چیز دوسری سے رتبے و مقام میں بڑی ہے، ایک قرآن کریم اور دوسری میرے اہل بیت ہیں، اگر ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے.......

الشيباني، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج3، ص59، ح11578، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر.

ترمذی نے اپنی سنن اور طبرانی نے کتاب معجم الكبير، اور بعض دوسروں نے اسی حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:

الترمذي السلمي، ابوعيسي محمد بن عيسي (متوفي 279هـ)، سنن الترمذي، ج5، ص663، ۔

 

 

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الكبير، ج5، ص153، ۔

 

حدیث ثقلین کی سند

 

حديث ثقلين ان احادیث میں سے ایک ہےکہ جس کو شیعہ اور اہل سنت دونوں نے معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور بعض نے اس کے متواتر ہونے کا ادعا کیا ہے۔

اھل سنت کے بزرگوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ ان میں سے بعض کے قول کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں ؛

 

إبن كثير دمشقي سلفي کہ جو أهل بيت (عليهم السلام) کے خلاف ہمیشہ اپنی تلوار نیام سے باہر نکالے رہتا ہے اور کسی نے کسی طریقے سے ان کے فضائل کی حدیث کو خراب کرنا چاہتا ہے وہ اپنی تفسیر میں اس روایت کے بارے میں لکھتا ہے :

و قد ثبت في الصحيح أن رسول الله صلي الله عليه و سلم قال في خطبته بغدير خم: «إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله و عترتي و إنهما لم يفترقا حتي يردا علي الحوض».

صحیح حدیث سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ  پیغمبر(صلي الله عليه و سلم) نے غدير خم  کے دن اپنے خطبے میں فرمایا : «میں دو قیمتی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ،اللہ کی کتاب اور میری عترت ، یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرئے ۔

ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج4، ص114، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1401هـ.

اسی طرح " البداية و النهاية، جلد 5، صفحه 228 میں واضح طور پر کہتا ہے :

قال شيخنا أبو عبد الله الذهبي: و هذا حديث صحيح.

ہمارے استاد ذھبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح سند ہے .

ناصر الدين الباني کہ جس کو بخاري عصر کہا جاتا ہے اور بن باز اس کے بارے میں کہتا تھا:

يليق أن يعبر عنه بالإمام في الحديث.

مناسب یہ ہے کہ اس کو علم حدیث کے امام کہا جائے ۔

 البانی نے اس حدیث کو صحیح سند حدیث قرار دیا ہے ۔ :

وإسناده صحيح، رجاله رجال الصحيح. وله طرق أخرى عند الطبراني۔۔

                           سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (4/ 356):

ہيثمی  نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں اس روایت میں کہ جس میں لفظ خلیفتین آیا ہے، کی سند کو واضح طور پر معتبر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ:

         رواه أحمد وسنده جيد.

اس حدیث کو احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب مسند احمد میں نقل کیا ہے اور اسکی سند اچھی و ٹھیک ہے۔

 

الهيثمي، ابو الحسن علي بن أبي بكر (متوفي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص163، ناشر: دار الريان للتراث، دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.

حاكم نيشابوري نے بھی حدیث ثقلین کو صحیح مسلم اور بخاری کی معیار کے مطابق صحیح حدیث کہا ہے

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين.

المستدرك علي الصحيحين للحاكم النيشابوري، ج 3، ص 109

امام سیوطی نے حدیث ثقلین کے حسن و صحیح ہونے کے بارے میں ترمذی اور حاکم کے کلام کو نقل کیا ہے اور انکے کلام کو بالکل ردّ نہیں کیا اور انکے کلام پر کسی قسم کا اعتراض و اشکال بھی نہیں کیا:

  وأخرج الترمذي وحسنه والحاكم وصححه عن زيد بن أرقم أن النبي صلي الله عليه وسلم قال (إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وأهل بيتي)

السيوطي، أبو الفضل جلال الدين عبد الرحمن أبي بكر (متوفي 911هـ)، الخصائص الكبري، ج2، ص466، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1405هـ - 1985م.

  حدیث ثقلین کا مضمون اور پیغام

ہم اس سلسلے میں مختصر طور پر یہاں کچھ مطالب نقل کرتے ہیں ،

جیساکہ یہ حدیث مختلف انداز اور الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے ،اس حدیث کی ایک نقل میں یہ تعبیر موجود ہے ؛

ما إن أخذتم به لن تضلوا بعدي.

اگر ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے.......

سنن الترمذي، ج 5، ص 328 ـ مسند احمد للإمام احمد بن حنبل، ج 3، ص 59

بعض جگہوں پر یہ تعبیر موجود ہے :

ما إن تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي.

اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے......

سنن الترمذي، ج 5، ص 329 ـ الدر المنثور لجلال الدين السيوطي، ج 6، ص 7 ـ تفسير القران العظيم لإبن كثير الدمشقي، ج 4، ص 123

بعض جگہوں پر یوں نقل ہوئی ہے ؛

لن تضلوا إن اتبعتم و استمسكتم بهما.

ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج 1، ص 113

ایک جگہ پر یوں نقل ہوئی ہے ؛

لن تضلوا إن اتبعتموهما.

اگر اللہ کی کتاب اور میری عترت کی پیروی کرو تو ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے ۔

المستدرك علي الصحيحين للحاكم النيشابوري، ج 3، ص 110 ـ تاريخ دمشق لإبن عساكر، ج 42، ص 216

بعض جگہوں پر اس تعبیر کے ساتھ نقل ہوئی ہے ؛  و أنهما لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض.

مسند احمد للإمام احمد بن حنبل، ج 5، ص 182 ـ مجمع الزوائد و منبع الفوائد للهيثمي، ج 1، ص 170 و ج 9، ص 162 ـ المعجم الكبير للطبراني، ج 5، ص 153

لہذا اگر ہم یہ کہے : آج قرآن ہے لیکن عترت نہیں ہے تو اس کا لازمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول کی تکذیب ہے ۔

 

حدیث کا واضح پیغام

حدیث کے مختلف نقلوں اور تعبیرات کو سامنے رکھے تو صاف ظاہر ہے کہ اس حدیث میں قرآن و اہل بیت علیہم السلام  کی پیروی کی صورت میں امت کو گمراہی سے بچنے کی ضمانت دی ہے ۔

اور یہی در واقع عترت اہل بیت علیہم السلام کے دینی پیشوائی کا اعلان بھی ہے ۔ اور واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح قرآن کی پیروی امت پر فرض ہے ،عترت اھل بیت علیہم السلام کی پیروی بھی امت پر فرض ہے ۔

اہل سنت کے علما کی نگاہ میں حدیث ثقلین کا معنی

جیساکہ اھل سنت کے ہی بڑے بڑے علما نے  بھی اس حدیث کا یہی معنی کیا ہے ؛ ہم ذیل میں اھل سنت کے بعض علما کے بیانات کو نقل کرتے ہیں ۔

 اہل سنت کے بڑے عالم مناوی نے اس سلسلے میں کہا ہے ؛

و قد جعل رسول الله (صلي الله عليه و سلم) أهل بيته عدلا للقرآن و التمسك بهم منقذا عن الضلالة.

رسول الله (صلي الله عليه و سلم) نے اھل بیت علیہ السلام کو قرآن کا ہمطراز اور ہم پلہ قرار دیا ہے  است اور ان کی پیروی کو گمراہی سے نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے .

فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي، ج 2، ص 174

 انہوں نے ایک اور جگہ کتاب جواہر العقدین سے علامہ سمہودی کے کلام کو حدیث ثقلین کے بارے میں اس طرح سے نقل کیا ہے کہ:

۔إنَّ ذلك يفهم وجود من يكون أهلاً للتمسك من أهل البيت والعترة الطاهرة في كلِّ زمان وجدوا فيه إلي قيام الساعة حتَّي يتوجَّه الحثُّ المذكور إلي التمسك به، كما أنَّ الكتاب العزيز كذلك، ولهذا كانوا كما سيأتي أمانًا لأهل الأرض، فإذا ذهبوا ذهب أهل الأرض.

اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ رسول خدا کے اہل بیت میں سے ہر زمانے میں ایک ایسا فرد ہونا چاہیے کہ جس سے تمسک کرنا بھی صحیح و شرعی ہو، اور وہ قیامت تک باقی بھی رہے، تا کہ اس حدیث میں تمسک کرنے کا حکم اپنا معنی دے سکے، جس طرح کہ قرآن کریم بھی ایسا ہی ہے، اسی وجہ سے بعض روایات میں اہل بیت کو زمین کے لیے امان قرار دیا گیا ہے کہ جب بھی وہ سارے زمین سے چلے جائیں تو زمین اپنے اہل کے ساتھ نابود ہو جائے گی۔

          المناوي، محمد عبد الرؤوف بن علي بن زين العابدين (متوفي 1031هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج3، ص15، ناشر: المكتبة التجارية - مصر، الطبعة: الأولي، 1356هـ.

ابن حجر ہيثمی کہ جو اہل سنت کا محدث ہے، حدیث ثقلین کو نقل کرنے کے بعد امام کے وجود پر اس طرح سے استدلال کرتا ہے:

والحاصل ان الحث وقع علي التمسك بالكتاب والسنة وبالعلماء بهما من أهل البيت ويستفاد من مجموع ذلك بقاء الأمور الثلثة إلي قيام الساعة.

وہ جو اس روایت سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت اور رسول خدا کہ اہل بیت کہ جو قرآن و سنت کے عالم ہیں، سے تمسک کرنے کی تشویق و ترغیب دلائی گئی ہے، اور ساری اس بات سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں یعنی قرآن و سنت و اہل بیت یہ قیامت تک باقی رہیں گی۔

الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2، ص439، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1997م.

اہل بیت سے تمسک کرنے کے بارے میں چند دوسری روایات کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر کہتا ہے کہ:

        وفي أحاديث الحث علي التمسك بأهل البيت إشارةٌ إلي عدم انقطاع متأهل منهم للتمسك به إلي يوم القيامة، كما أنَّ الكتاب العزيز كذلك، ولهذا كانوا أماناً لأهل الأرض كما يأتي، ويشهد لذلك الخبر السابق: في كل خلَفٍ من أمتي عدول من أهل بيتي.

جن احادیث میں اہل بیت سے تمسک کرنے کے بارے میں حکم دیا گیا ہے، ان میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ زمین ہدایت کرنے والے اہل بیت سے کبھی بھی خالی نہیں ہو گی، جس طرح کہ قرآن بھی ایسے ہی ہے، اور اسی وجہ سے اہل بیت کو زمین کے لیے امان قرار دیا گیا ہے۔ اس بات پر دلیل گذشتہ روایت ہے کہ جس میں فرمایا ہے کہ: میری امت کی ہر قوم کے درمیان میرے عادل اہل بیت موجود ہوں گے۔

        الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2، ص442، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1997م.

اھل سنت کے مشہور عالم دین تفتازاني کہ جو علم کلام کے بہت بڑے عالم ہیں ،وہ لکھتے ہیں؛

ألا يري أنه عليه الصلاة و السلام قرنهم بكتاب الله في كون التمسك بهما منقذا من الضلالة و لا معني للتمسك بالكتاب إلا الأخذ بما فيه من العلم و الهداية فكذا في العترة.

کیا نہیں دیکھتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیروی اور تمسک کی صورت میں گمرہی سے نجات کے سلسلے میں اہل بیت کو قرآن کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا؟ لہذا قرآن کے ساتھ تمسک قرآن کے علوم اور ہدایت کی پیروی کے بغیر معنی نہیں رکھتا ، اھل بیت علیہم السلام کے ساتھ تمسک کا بھی یہی معنی ہے ۔

شرح المقاصد في علم الكلام للتفتازاني، ج 2، ص 303

ملا علي قاري كه جو  أهل سنت کے بزرگ علماء  میں سے ہیں ،انہوں نے اس سلسلے میں کہا ہے

وَالْمُرَادُ بِالْأَخْذِ بِهِمُ التَّمَسُّكُ بِمَحَبَّتِهِمْ وَمُحَافَظَةُ حُرْمَتِهِمْ وَالْعَمَلُ بِرِوَايَتِهِمْ وَالِاعْتِمَادُ عَلَى مَقَالَتِهِمْ۔

 یہ جو رسول اللہ (صلي الله عليه و سلم) نے فرمایا : [ما إن أخذتم ]یہاں اخذ سے مراد عترت اھل بیت سے محبت ،ان کا احترام اور ان کی روایات پر عمل اور ان کی گفتار پر اعتماد کرنا ہے ۔

مرقاة المفاتيح، ج 10، ص 530 ـ تحفة الأحوذي للمباركفوري، ج 10، ص 196

ابن مالک سے نقل ہوا ہے :

وقال بن الملك التمسك بالكتاب العمل بما فيه وهو الائتمار بأوامر الله والانتهاء عن نواهيه ومعنى التمسك بالعترة محبتهم والاهتداء بهديهم وسيرتهم

قرآن  سے تمسک کا معنی قرآن پر عمل کرنا ،قرآن کے اوامر کو انجام دینا اور نواہی سے  سے بچنا ہے اور عترت سے تمسک کا معنی بھی ان سے محبت اور ان کی ہدایت کے مطابق چلنا اور ان کی سیرت پر عمل کرنا ہے ۔

تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي (10/ 178):

 

خلاصہ اور نتیجہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق جس طرح قرآن کی تعلیمات اور قرآنی ہدایت کے مطابق چلنا امت کے لئے ضروری ہے ،ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات اور ان کے سیرت اور فرامین کے مطابق چلنا بھی ضروری ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ۔لہذا ان دونوں کی پیروی کی صورت میں ہی گمراہی سے نجات ملے گی۔۔۔۔

ایک اہم سوال:

 اھل بیت علیہم السلام کی پیروی کے لئے ان کی تعلیمات اور ان کی سیرت کا موجود ہونا ضروری ہے ۔ لیکن اھل سنت کی معتبر کتابیں ان کی تعلیمات سے خالی ہیں ۔ اب اھل سنت والوں کے پاس گمراہی سے نجات کے لئے کونسی ضمانت موجود ہے ؟

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات