2024 April 19
فدک کا عطاﺀ الرسول (ص) اہل سنت کی 8 اور اہل تشیع کی 2 روایات
مندرجات: ٢١٧٢ تاریخ اشاعت: ٢٣ December ٢٠٢١ - ١٦:٥٦ مشاہدات: 3209
مضامین و مقالات » پبلک
فدک کا عطاﺀ الرسول (ص) اہل سنت کی 8 اور اہل تشیع کی 2 روایات

 

فدک کا عطاﺀ الرسول (ص)  

اہل سنت کی  8  اور اہل تشیع کی 2 روایات

شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات میں بیان ہوا ہے کہ خیبر کے یہودیوں نے رسول خدا (ص) کو جب فدک دیا تھا تو انھوں نے فدک کو اپنی بیٹی زہرا کو عطا کر دیا تھا۔

اس سلسلے میں متعدد روایات شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔

اہل سنت کی کتابوں سے اس سلسے میں آٹھ روایات اور شیعہ کتابوں سے دو روایات ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں اور خاص کر عطیہ عوفی کی روایت پر ابن کثیر کے اشکالات کا جواب بھی دیں گے ۔

پہلی روایت :   ابو سعید خدری: (با سند صحیح)

ابو یعلی موصلی نے کہ جو اہل سنت کے بزرگان میں سے ہے، اس نے ابو سعید خدری سے روایت کو نقل کیا ہے کہ:

قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَینِ بْنِ یزِیدَ الطَّحَّانِ فَقَالَ: هُوَ مَا قَرَأْتُ عَلَى سَعِیدِ بْنِ خُثَیمٍ، عَنْ فُضَیلٍ، عَنْ عَطِیةَ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتِ الآیةُ: وَ آتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ. دَعَى النَّبِی صلی الله علیه و سلم فَاطِمَةَ وَ أَعْطَاهَا فَدَكَ.

رسول خدا کے معروف صحابی ابو سیعد خدری نے کہا ہے کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی کہ "ذوی القربی کا حصہ انکو عطا کر دیں" تو رسول خدا نے حضرت فاطمہ کو اپنے پاس بلا کر فدک انکو عطا کر دیا۔

أبو یعلى الموصلی التمیمی، أحمد بن علی بن المثنى (متوفی307 هـ)، مسند أبی یعلى، ج 2، ص 334

اور ج 2، ص 534، تحقیق: حسین سلیم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 هـ – 1984م.

اسی طرح اسی روایت کو تھوڑی عبارت کی تبدیلی کے ساتھ ایک دوسری جگہ پر اسطرح نقل کیا ہے کہ:

قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَینِ بْنِ یزِیدَ الطَّحَّانِ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ خُثَیمٍ، عَنْ فُضَیلٍ، عَنْ عَطِیةَ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِی، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآیةُ: " وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ " دَعَا النَّبِی صلی الله علیه و سلم فَاطِمَةَ وَ أَعْطَاهَا فَدَكَ "

أبو یعلى الموصلی التمیمی، أحمد بن علی بن المثنى (متوفی307 هـ)، مسند أبی یعلى، ج 2، ص 534، تحقیق: حسین سلیم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 هـ – 1984م.

سیوطى کہ اہل سنت کا معروف عالم ہے، اس نے اپنی کتاب الدر المنثور میں اہل سنت کے چند علماء کے نام کو ذکر کیا ہے کہ جہنوں نے اپنی کتب میں ابو سعید کی روایت کو نقل کیا ہے:

و أخرج البزار و أبو یعلى و ابن أبی حاتم و ابن مردویه عن أبی سعید الخدری رضی الله عنه قال: لما نزلت هذه الآیة «و آت ذا القربى حقه» دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم فاطمة فأعطاها فدك.

بزار، أبو یعلى، ابن أبی حاتم اور ابن مردویہ نے ابو سعید کے ذریعے سے اس واقعے کو نقل کیا ہے کہ ابو سعید نے کہا ہے کہ: جب آیت و آت ذا القربى حقه، نازل ہوئی تو رسول خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ کو اپنے پاس بلا کر فدک انکو عطا کر دیا۔

السیوطی، عبد الرحمن بن الكمال جلال الدین (متوفی911هـ)، الدر المنثور، ج 5، ص 273، ناشر: دار الفكر - بیروت – 1993.

  «ابن کثیر» کے شبھات۔۔۔

 «ابن کثیر دمشقی» نے سوره إسراء آیه 26 کے ذیل میں لکھا ہے :

«قال الحافظ أبو بکر البزار حدثنا عباد بن یعقوب حدثنا أبو یحیی التیمی حدثنا فضیل بن مرزوق عن عطیة عن أبی سعید الخدری...»   «قال لما نزلت (وآت ذا القربی حقه)...»

«دعا رسول الله (صلی الله علیه و آله و سلم) فاطمة فأعطاها فدک»

۔۔۔عطیہ نے ابو سعید خذری سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلاکر فدک انہیں عطاﺀ فرمایا۔

ابن کثیر نے اس حدیث کو رد کرنے کے لئے کچھ شبھات بیان کیے ہیں۔

پہلا شبھہ :

«وهذا الحدیث مشکل لو صح إسناده»

یہ حدیث سند کے اعتبار سے بھی اگر صحیح ہو تو پھر بھی اس کو قبول کرنا مشکل ہے .

دوسرا شبھہ

«لأن الآیة مکیة وفدک إنما فتحت مع خیبر سنة سبع من الهجرة»

کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ فدک خیبر کے ساتھ 7 ہجری کو فتخ ہوا ہے .

تفسير القرآن العظيم، : إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي أبو الفداء، دار النشر: دار الفكر - بيروت – 1401؛ ج 3، ص 37

یعنی فدک یہود کی ملکیت تھی اور یہ مدینہ میں خیبر کے فتح کے وقت آپ کو ملا ہے جبکہ آیہ مکہ میں نازل ہوئی ہے . لہذا آیہ کی شان نزول میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بخش دیا ہو۔

سند کی تحقیق :

 ابوبکر بزار۔۔ سب کے نذدیک قابل قبول شخصیت ہے ۔

 «عباد ابن یعقوب الرَّوَاجِنِيُّ» :

ذهبی: «الشَّيْخُ، العَالِمُ، الصَّدُوْقُ، مُحَدِّثُ الشِّيْعَةِ،» قَالَ الحَاكِمُ(نیشابوری):كَانَ ابْنُ خُزَيْمَةَ يَقُوْلُ:حَدَّثَنَا الثِّقَةُ فِي رِوَايَتِهِ،المُتَّهَمُ فِي دِيْنِهِ،عَبَّادُبنُ يَعْقُوْبَ

  سير أعلام النبلاء- ج11، ص  536ا  : شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى : 748هـ)- المحقق :   الشيخ شعيب الأرناؤوط  الناشر : مؤسسة الرسالة-

«ثقةٌ صالحٌ کثیر الحدیث»

تذكرة الحفاظ، اسم المؤلف: أبو عبد الله شمس الدين محمد الذهبي، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى؛ ج 1، ص 396

ثقہ ، نیک اور ان لوگوں میں سے ہے جس سے زیادہ احادیث نقل ہوئی ہے ۔

أَبُو يَحْيَى التَّيْمِيُّ الکوفی

« قَالَ أَحْمَدُ العِجْلِيُّ: كُوْفِيٌّ، ثِقَةٌ، رَجُلٌ صَالِحٌ، مُتَقَشِّفٌ »

«قَالَ ابْنُ سَعْدٍ: هُوَ مِنْ مَوَالِي تَيْمِ اللهِ، وَكَانَ رَجُلاً صَالِحاً، ثِقَةً»

الكتاب : سير أعلام النبلاء- المؤلف : شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى : 748هـ)- المحقق : مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرناؤوط

« فُضَيْلُ بنُ مَرْزُوْقٍ العَنَزِيُّ مَوْلاَهُم »

وَثَّقَهُ: سُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ، وَيَحْيَى بنُ مَعِيْنٍ.وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: أَرْجُو أَنَّهُ لاَ بَأْسَ بِهِ.

الكتاب : سير أعلام النبلاء- المؤلف : شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى : 748هـ)- المحقق : مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرناؤوط

ابن حبان نے لکھا ہے :

«فیه تشیع و هو کوفی وفی موضع آخر کوفی ثقة»

معرفة الثقات؛ ج 2، ص 208؛ دار النشر: مكتبة الدار - المدينة المنورة - السعودية - 1405 - 1985، الطبعة: الأولى، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي؛

« عَطِيَّةُ بْنُ سَعْدِ بْنِ جُنَادَةَ الْعَوْفِيُّ الکوفی »!

  اہل سنت کے علماﺀ کا عطیہ عوفی کو ثقہ قرار  دینا:

سب سے زیادہ اشکال عطیہ عوفی پر کرتے ہیں اور ان کی تضعیف کے ذریعے سے حدیث انا مدینہ العلم ۔۔۔۔ وغیرہ کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں .

جبکہ اہل سنت کے بہت سے بزرگوں نے اس کی روایت کو صحیح یا حسن کہا ہے اور اس کے ثقہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔

عطیہ: اسکا مکمل نام عطیہ بن سعد بن جنادہ ہے۔ علمائے اہل سنت نے اس کا شمار بزرگ راویوں میں کیا ہے اور اسکو ثقہ قرار دیا ہے۔ اب ہم ان علماء کے اقوال کو ذکر کرتے ہیں:

1. توثیق ہیثمی:

خود ہیثمی نے عطیہ بن سعید کو کہ اس روایت میں ضعیف کہا ہے، اسی نے عطیہ کو ایک دوسری جگہ پر ثقہ کہا ہے:

رواه أحمد و فیه عطیة بن سعید و فیه كلام و قد وثق.

اس روایت کو احمد نے نقل کیا ہے اور اسکی سند میں عطیہ ذکر ہوا ہے کہ اسکے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن تحقیق یہ ہے کہ وہ ایک ثقہ راوی ہے۔

مجمع الزوائد، ج 3، ص 120

2. توثیق عجلی کوفی:

عجلی نے اپنی کتاب «معرفة الثقات من رجال أهل العلم و الحدیث» میں عطیہ کا نام ذکر کیا ہے اور واضح طور پر اسکو ثقہ کہا ہے:

عطیة العوفی كوفى تابعی ثقة و لیس بالقوی.

عطیہ عوفی کہ جو اہل کوفہ ہے، وہ تابعی و ثقہ ہے، لیکن زیادہ قوی نہیں ہے۔

العجلی، أبی الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم و الحدیث و من الضعفاء و ذكر مذاهبهم و أخبارهم، ج 2، ص 1253، تحقیق: عبد العلیم عبد العظیم البستوی، ناشر: مكتبة الدار - المدینة المنورة - السعودیة، الطبعة: الأولى،

3. ملا على قارى:

اس نے عطیہ کے بارے میں کہا ہے کہ:

عطیة بن سعد العوفی، و هو من أجلاء التابعین .

       عطیہ بن سعد عوفی، وہ بزرگ تابعین میں سے ہے۔

القاری ، ملا علی (وفات 1104) ؛شرح مسند أبی حنیفة، ص 292 ، ناشر : دار الکتب العلمیة بیروت

4. توثیق محمد بن جریر طبری :

اس نے عطیہ کے بارے میں کہا ہے کہ:

منهم عطیة بن سعد بن جنادة العوفى ... و کان کثیر الحدیث ثقة إن شاء الله.

ان میں سے ایک عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی ہے.... اس نے بہت سی روایات کو نقل کیا ہے اور وہ انشاء اللہ ثقہ ہے۔

الطبری، محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر (متوفی310هـ) المنتخب من ذیل المذیل ، ج 1، ص 304، الجامع الکبیر کی سی ڈی کیمطابق،

5. توثیق ابن سعد:

اس نے اپنی کتاب الطبقات میں عطیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

عطیة بن سعد بن جنادة العوفی ... و کان ثقة إن شاء الله و له أحادیث صالحة.

عطیہ بن سعد... انشاء الله ثقہ ہے، اور اس نے اچھی روایات کو نقل کیا ہے۔

الزهری، محمد بن سعد بن منیع ابو عبد الله البصری (متوفى230هـ)، الطبقات الکبرى، ج6، ص 304 ، ناشر: دار صادر - بیروت.

6. یحیى بن معین :

یہ علم رجال کا بزرگ عالم ہے اور روایوں کے بارے میں بہت ہی احتیاط سے کام لینے میں مشہور ہے، اس نے عطیہ کو صالح کہا ہے:

قیل لیحیى کیف حدیث عطیة قال صالح.

یحیی بن معین سے کہا گیا کہ عطیہ کی روایات کیسی ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ صالح ہے یعنی روایات کو نقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یحیى بن معین أبو زکریا ( متوفی233هـ)، تاریخ ابن معین (روایة عثمان الدارمی)، ج 3 ، ص 500، تحقیق: د. أحمد محمد نور سیف، دار النشر: دار المأمون للتراث - دمشق

ابن جعد نے بھی یحیی بن معین کے قول کو نقل کیا ہے :

حدثنا بن زنجویه نا زید بن الحباب نا فضیل بن مرزوق الأغر الرؤاسی نا أبو إسحاق و حدثنا عباس سمعت یحیى بن معین یقول عطیة العوفی هو عطیة الجدلی قیل لیحیى کیف حدیث عطیة قال صالح.

یحیی بن معین سے کہا گیا کہ عطیہ کی روایات کیسی ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ صالح اور اچھا راوی ہے، یعنی روایات کو نقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

الجوهری البغدادی، علی بن الجعد بن عبید ابوالحسن (متوفى230هـ) مسند ابن الجعد، ج 1، ص 302 ، تحقیق: عامر أحمد حیدر، ناشر: مؤسسة نادر - بیروت، الطبعة: الأولى، 1410هـ – 1990م.

7. ترمذی کا عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دینا:

ترمذی کہ اسکی کتاب صحاح ستہ میں سے ایک کتاب ہے، اس نے عطیہ کی روایات کو صحیح قرار دیا ہے:

حدثنا أبو کُرَیبٍ حدثنا مُعَاوِیةُ بن هِشَامٍ عن شَیبَانَ عن فِرَاسٍ عن عَطِیةَ عن أبی سَعِیدٍ قال قال رسول اللَّهِ صلى الله علیه و سلم من یرَائِی یرَائِی الله بِهِ وَ مَنْ یسَمِّعْ یسَمِّعْ الله بِهِ قال و قال رسول اللَّهِ صلى الله علیه و سلم من لَا یرْحَمْ الناس لَا یرْحَمْهُ الله و فی الْبَاب عن جُنْدَبٍ وَ عَبْدِ اللَّهِ بن عَمْرٍو قال أبو عِیسَى هذا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ من هذا الْوَجْهِ،

......، اس سند میں کہ عطیہ موجود ہے، روایت کی سند اس طریق سے حسن و صحیح ہے۔

الترمذی السلمی، ابوعیسی محمد بن عیسی (متوفى 279هـ)، سنن الترمذی، ج 4 ، ص591 ، تحقیق: أحمد محمد شاکر وآخرون، ناشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت.

اور بہت سی جگہ پر اس نے عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے، جیسے:

سنن الترمذی  ج 4، ص 670 ش 2522،

سنن الترمذی  ج 4، ص 693 ش 2558 ،

8. حاكم نیشاپوری کا عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دینا:

حاكم نیشاپوری نے بھی عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے:

أخبرنا عبد الله بن الحسین بمرو ثنا الحارث بن أبی أسامة ثنا هاشم بن القاسم ثنا أبو عقیل عبد الله بن عقیل الثقفی عن ربیعة بن یزید وعطیة بن قیس عن عطیة بن سعد رضی الله عنه و كان من أصحاب رسول الله صلى الله علیه و سلم أنه قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم إن الرجل لا یكون من المتقین حتى یدع ما لا بأس به حذرا لما به بأس،

 هذا حدیث صحیح الإسناد و لم یخرجاه.

اس روایت کے راویوں میں سے ایک عطیہ بن سعد ہے، لہذا اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن بخاری و مسلم نے اس روایت کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔

المستدرك على الصحیحین  ج 4 ، ص 355

9. قطیعی اور ترمذی کا عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دینا:

 احمد ابن حنبل نے ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں روایت کو نقل کیا ہے کہ اہل سنت کے دوسرے علماء نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، وہ روایت یہ ہے کہ:

حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی أبی ثنا بن فُضَیلٍ ثنا سَالِمٌ یعنی بن أبی حَفْصَةَ وَ الأَعْمَشُ وَ عَبْدُ اللَّهِ بن صُهْبَانَ وَ كَثِیرٌ النَّوَّاءُ وابن أبی لَیلَى عن عَطِیةَ العوفی عن أبی سَعِیدٍ الخدری قال قال رسول اللَّهِ صلى الله علیه و سلم ان أَهْلَ الدَّرَجَاتِ العلی لَیرَاهُمْ من تَحْتَهُمْ كما تَرَوْنَ النَّجْمَ الطَّالِعَ فی أُفُقٍ من آفَاقِ السَّمَاءِ أَلاَ و ان أَبَا بَكْرٍ وَ عُمَرَ منهم وَ أَنْعَمَا،

عطیہ نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: جو جنت میں بلند درجے پر ہوں گے وہ نیچے درجے والوں کو دیکھ سکتے ہوں گے، جس طرح کہ وہ آسمان پر طلوع ہونے والے ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ابوبکر اور عمر بھی ان افراد میں سے ہیں۔

مسند أحمد بن حنبل  ج 3، ص 93

بدر الدین عبد الله بدر کہ جو کتاب ، جزء الالف دینار، کا محقق ہے، اس نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے:

حدثنا الفضل قال حدثنا عثمان بن عبد الله البیتامی قال حدثنا سلمة ابن سنان الأنصاری عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم ( إن أهل الدرجات العلى لیراهم من هو أسفل منهم كما تراءون الكوكب الدری فی أفق السماء و إن أبا بكر و عمر منهم و أنعما) صحیح.

اس روایت کا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے......،

القطیعی، أبو بكر أحمد بن جعفر بن حمدان (متوفی368هـ)، جزء الألف دینار وهو الخامس من الفوائد المنتقاة والأفراد الغرائب الحسان، ج 1، ص 238، تحقیق: بدر بن عبد الله البدر، دار النشر: دار النفائس – الكویب، الطبعة: الأولى،

البتہ اسی محقق نے اسی کتاب میں اس روایت کو دوسری دو جگہ پر بھی، صحیح قرار دیا ہے:

جزء الألف دینار، ج 1،  ص 288    ْ  جزء الألف دینار، ج 1،  ص 441

بغوی نے بھی روایت کو حسن کہا ہے:

هذا حدیث حسن.

البغوی، الحسین بن مسعود (متوفى516هـ)، شرح السنة، ج 14، ص 100، تحقیق: شعیب الأرناؤوط - محمد زهیر الشاویش، ناشر: المكتب الإسلامی - دمشق _ بیروت، الطبعة: الثانیة، 1403هـ - 1983م.

10. زیلعی کا عطیہ کی روایت کو صحیح قرار دینا:

 زیلعی عالم بزرگ اہل سنت نے بھی عطیہ کی روایت کو حسن قرار دیا ہے:

حدیث آخر أخرجه الترمذی عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم ان أحب الناس إلى الله یوم القیامة و ادناهم مجلسا منه امام عادل قال بن القطان فی كتابه و عطیة العوفی مضعف و قال بن معین فیه صالح فالحدیث به حسن انتهى،

یہ روایت اس سند کے ساتھ حسن ہے، کہ اس سلسلہ سند میں ایک راوی عطیہ عوفی بھی ہے۔

الزیلعی، عبدالله بن یوسف ابومحمد الحنفی (متوفى762هـ)، نصب الرایة لأحادیث الهدایة، ج 4، ص 68، تحقیق: محمد یوسف البنوری، ناشر: دار الحدیث - مصر – 1357هـ.

11. البانی وہابی کا عطیہ کی روایات کو صحیح قرار دینا:

البانی وہابی نے عطیہ کی بہت سی روایات کو صحیح قرار دیا ہے:

روایت اول:

 ( صحیح )

 حدثنا القاسم بن زکریا بن دینار حدثنا عبد الرحمن بن مصعب ح و حدثنا محمد ابن عبادة الواسطی حدثنا یزید بن هارون قالا حدثنا إسرائیل أنبأنا محمد بن جحادة عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم أفضل الجهاد کلمة عدل عند سلطان جائر (صحیح ) ...

صحیح سنن ابن ماجة للالبانی ش 3240-4001

روایت دوم:

 ( سنن الترمذی )

حدثنا زیاد بن أیوب البغدادی حدثنا محمد بن ربیعة عن فضیل بن مرزوق عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال كان نبی الله صلى الله علیه وسلم یصلی الضحى حتى نقول لا یدع ویدعها حتى نقول لا یصلی قال أبو عیسى هذا حدیث حسن غریب .

تحقیق الألبانی :

صحیح ، ابن ماجة

صحیح و ضعیف سنن الترمذی - ج 1  ص 477

 ( سنن الترمذی )

حدثنا ابن أبی عمر حدثنا سفیان عن مطرف عن عطیة العوفی عن أبی سعید الخدری قال قال رسول الله صلى الله علیه و سلم كیف أنعم و قد التقم صاحب القرن القرن وحنى جبهته و أصغى سمعه ینتظر أن یؤمر أن ینفخ فینفخ قال المسلمون فكیف نقول یا رسول الله قال قولوا حسبنا الله و نعم الوكیل توكلنا على الله ربنا و ربما قال سفیان على الله توكلنا قال أبو عیسى هذا حدیث حسن و قد رواه الأعمش أیضا عن عطیة عن أبی سعید .

تحقیق الألبانی :

صحیح ، الصحیحة

صحیح و ضعیف سنن الترمذی، ج 7  ص 243

اور اسکے علاوہ دوسری روایات.......

پس عطیہ عوفی اہل سنت کے علماء رجال کی نظر میں موثق ہے، خاص طور پر اس جگہ میں بہت ہی ثقہ ہے کہ جب اس نے ابوبکر اور عمر کے فضائل کو نقل کیا ہو۔ جس طرح کہ آپ نے اوپر عبارت میں ایک نمونے کو ملاحظہ کیا ہے۔

البتہ بعض دوسرے علماء نے بھی عطیہ عوفی کی روایات کو صحیح اور معتبر قرار دیا ہے، لیکن عطیہ عوفی کے ثقہ ہونے کے واضح ہونے کی وجہ سے ہم فقط اتنی ہی مقدار میں علماء کے کو ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

عطیہ کا جرم کیا ہے ؟

  «طبقات کبری» میں «ابن سعد» متوفای 230 نے  «عطیة بن سعد عوفی» کے بارے میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ  حجاج بن یوسف ثقفی نے عطیہ کے بارے میں یہ حکم نامہ لکھا :  وہ علی بن أبی طالب پر لعن کرئے ،اگر ایسا نہ کرئے تو  اس کو  400 کوڑے لگائے اور اس کے سر اور دھاڑی کے بال صاف کر دئے ۔

عرب میں یہ رسم تھی کہ اگر کسی کو ذلیل اور خوار کرنا ہو تو اس کو گنجا کر کے کلی کوچہ میں پھراتے تھے ۔

«فأقرأه کتاب الحجاج»  حجاج کا خط عطیہ کے لئے سنایا ۔

عطیہ نے جواب دیا : میں ہر گز ایسا نہیں کروں گا ۔۔۔

«فضربه أربعمائة وحلق رأسه ولحیته»

اس کو 400 کوڑے مارے  اور اس کے سر اور دھاڑی کے بال صا کر دیے۔

الطبقات الکبری، اسم المؤلف: محمد بن سعد بن منیع أبو عبدالله البصری الزهری، دار النشر: دار صادر – بیروت، ج 6، ص 304

اس کی تضعیف کی بنیادی وجہ بھی  «فیه تشیعٌ»  تشیع  ہے اور ان کی تضعیف کرنے والوں نے خاص طور  یہی ذکر کہا ہے کہ اس نے امیرالمؤمنین (علیه السلام) پر لعن کرنے کو قبول نہیں کیا۔ لہذا  اس کے بدلے کوڑے کھائے  اور اگر یہ کوڑے نہ کھاتے اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر نعوذ باللہ لعن کرتے تو یقینا اس پر شیعہ اور رافضیت کا مھر نہ لگتا اور ان کی توثیق کرتے ۔

عجیب بات یہ ہے کہ زہری کو ایک جگہ ایسا واقعہ پیش آیا تو اس نے حضرت علی علیہ السلام کو برا بلا کہہ کر آپنی جان بچائی ۔۔لیکن اس طرح تقیہ بازی سے کام لینے کے باوجود اہل سنت کے علماﺀ اس کے ثقہ ہونے پر متفق القول ہیں ۔۔۔۔۔

عن مجالد عن الشعبي قال: قدمنا علي الحجاج البصرة، وقدم عليه قراء من المدينة من أبناء المهاجرين والأنصار، فيهم أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه... وجعل الحجاج يذاكرهم ويسألهم إذ ذكر علي بن أبي طالب فنال منه ونلنا مقاربة له وفَرَقاً منه ومن شره....

ہم نے بھی حجاج کو راضی کرنے اور اسکی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے، علی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا....،

أنساب الأشراف بلاذري (متوفاي279هـ) ، ج 4، ص 315؛  

اس پر تدلیس ، عجائب نقل کرنے اور امیر المومنین علیہ السلام کو باقی سب پر مقدم سمجھے اور شیعہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور اس کی مذکورہ روایت کو خاص طور پر ضعیف اور غیر قابل احتجاج  قرار دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اس مقصد کے لئے خود اپنے مسلمہ حدیثی اور رجالی قواعد سے منہ موڑ کر دھرا معیار اپناتے ہیں ۔۔۔۔

حقیقت یہ ہے کہ نہ اس کا مدلس ہونا ثابت ہے نہ شیعہ ہونا ۔۔۔۔  اس پر جو الزامات اہل سنت کے علم رجال کے علماﺀ کی طرف سے لگائے ہیں ان میں سے کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہے ۔بلکہ اس کا جرم محمد و ال محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سے محبت کرنا ہے اور اس وجہ سے اس کی روایت کی تضعیف اہل سنت کے لئے باعث نگ و عار ہے ۔ عطیہ کا وہ مجاہد ہیں جس نے علی مرتضی علیہ السلام سے عشق و محبت کی وجہ سے 400 کوڑے کھائے اور ذلت شکنجوں کو برداشت کیا ۔۔۔

ہم بحث کے آخری حصے میں ایسے قواعد کی طرف بھی اشارہ کریں گے کہ جن کے اعتبار سے ظاہری طور پر عطیہ کی روایت ضعیف بھی ہو پھر بھی حجت ہے اور فدک کا عطاﺀ الرسول ہونا ثابت ہے ۔۔۔۔

ابن کثیر کا دوسرا اشکال : آیت مکی ہے فدک مدینہ میں ۔۔۔

یہ آیت مکی ہے جبکہ فدک ہجرت کے بعد ہاتھ میں آیا ہے لہذا مندرجہ روایت تاریخی حقیقت سے ٹکراتی ہے ۔

 شبھے کا جواب :

ہم اس شبھے کے متعدد جوابات یہاں پیش کریں گے ۔

پہلا جواب :  حکم سے پہلے آیت کا نزول ممکن ہے۔

جیساکہ  «زرکشی» نے  کتاب «البرهان فی علوم القرآن» میں لکھا ہے :

«قد يكون النزول سابقا على الحكم»

ممکن ہے آیت کا نزول پہلے ہو اور حکم بعد میں لاگو ہو ۔

انہوں نے یہ مثال دی ہے :(قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى)سوره اعلی (87): آیه 14 و 15

البرهان في علوم القرآن؛ اسم المؤلف: محمد بن بهادر بن عبد الله الزركشي أبو عبد الله الوفاة: 794، دار النشر: دار المعرفة - بيروت - 1391، تحقيق: محمد أبو الفضل إبراهيم، ج1، ص32

«بغوی کہ جو اہل سنت کے معتبر مفسرین میں سے ہیں ،انہوں  نے اس سلسلے میں لکھا ہے :«يجوز أن يكون النزول سابقا على الحكم :

حکم کے لاگو ہونے سے پہلے آیت کا نزول ممکن ہے ۔ انہوں نے مثال دی ہے كما قال (لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ، وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ) سوره بلد (90): آیه 1 و 2

«فالسورة مكية وظهر أثر الحل يوم الفتح»

سوره «مکی» میں نازل ہوئی ہے  اور آیت مکیہ ہے ۔ لیکن اس پر عمل فتح مکہ کے وقت ہوا۔

اسی طرح :  وَكَذَلِكَ نَزَلَ بِمَكَّةَ (سَيهْزَمُ الْجَمْعُ وَيوَلُّونَ الدُّبُرَ)سوره قمر (54): آیه 45

تفسير البغوي؛ اسم المؤلف: البغوي الوفاة: 516، دار النشر: دار المعرفة - بيروت، تحقيق: خالد عبد الرحمن العك، ج 4، ص 477

  یہ  آیت جنگ بدر کے متعلق ہے لیکن یہ مکہ میں نازل ہوئی ہے . اب اگر «فدک» کے سلسلے  میں موجود آیت  (وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ) سوره اسراء (آیه 26):    «مکه» میں نازل ہوئی ہو تو کیا اشکال ہے ؟

 سیوطی نے ایسی بہت سے آٰیات کا «الاتقان» میں ذکر کیا ہے کہ جو آیات «مکه» میں نازل ہوئی ہیں لیکن  «مدینه» میں وہ عملی ہوئی  ۔

جیساکہ اسی آیت (وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ)؛ میں یہ جو ذوی القربی کو ان کا حق دینے کا حکم ہوا،اب اگر یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے تو اس وقت آپ کے پاس اتنے  مالی امکانات نہیں تھے کہ آپ اپنے قرابت داروں کا حق  ادا کرسکے، ہجرت کے بعد جنگ اور غنائم وغیرہ کے کی وجہ سے آپ کے پاس مالی امکانات آئے لہذا آپ مدینہ میں اس آیت کے حکم پر آپ عمل کرسکے ۔

جیساکہ«سیوطی» نے  کتاب « الاتقان» میں ذکر کیا ہے کہ زکات والی آیت  «مکه» میں نازل ہوئی لیکن مکہ میں مسلمانوں کے پاس زکات ادا کرنے کے امکانات نہیں تھے اور یہ کام  بعد میں «مدینه» میں ہی امکان پزیر ہوا.

نماز جمعه  کے بارے میں آیت «مکه» میں نازل ہوئی لیکن مکہ میں نماز جمعہ ادا کرنا ممکن نہیں تھا مدینہ میں ہجرت کے بعد اس حکم پر عمل ہوا  ۔

دوسرا جواب  ۔۔۔۔ـ

ایسی آیات بھی ہیں کہ جو دو یا تین مرتبہ نازل ہوئی اور یہ مکہ میں بھی نازل ہوئی اور مدینہ میں بھی نازل ہوئی۔

سیوطی نے «الاتقان» میں لکھا ہے :

«صرح جماعة من المتقدمين والمتأخرين بأن من القرآن ما تكرر نزوله قد يتكرر نزول الآية تذكيرا وموعظة»

متقدمین اور متاخرین میں سے ایک گروہ نے اس بات پر تصریح کی ہے کہ قرآن کی بعض آیات کئی مرتبہ نازل ہوئیں اور کبھی یہ نزول  یاد دہانی اور وعظ و نصیحت کے لئے تھی۔

الكتاب: الإتقان في علوم القرآن- المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (911هـ)- المحقق: محمد أبو الفضل إبراهيم- الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب-ج 1،ص 130

مثلا  سوره نحل کی آخری آیت ،سوره روم کی پہلی آیت  اسی طرح

  سوره اسراء کی آیه نمبر 85  اور سورہ فاتحه، مکہ اور مدینہ دونوں میں نازل ہوئی ہے

بعض نے (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَي النَّهَارِ) سوره هود (11): آیه 114

 کے بارے میں کہا ہے یہ «مکه» میں بھی نازل ہوئی اور «مدینه» میں بھی نازل یوئی ۔

 تیسرا جواب :

ممکن ہے ایک مکی آیت مدنی سورہ کا جز ہو یا مدنی آیت مکی سورہ  کا جز ہو۔۔

 ابن کثیر کس بنیاد پر کہتا ہے کہ یہ زیر بحث آیت  «مکه» میں نازل ہوئی  ہے ؟

 کیا اس کی دلیل سورہ اسراء  کا«مکی» سورہ ہونا ہے  ؟

جبکہ ہمارے پاس آیسی آیات بھی ہیں کہ جو  «مکه» میں نازل ہوئیں  لیکن «مدنی»  سورے میں یہ آیات موجود ہیں اسی طرح بعض آیات ایسی ہیں کہ جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں لیکن یہ مکی سوروں کا حصہ ہے۔۔ جیساکہ «الاتقان» میں سیوطی نے نقل کیا ہے :

«قال البيهقي في الدلائل : في بعض السُوَر التي نَزَلت بمكة، آياتٌ نَزَلت بالمدينة، فألحقت بها»

«بیهقی» نے «الدلائل » میں کہا ہے کہ ایسے سوریں ہیں کہ جو «مکه» میں نازل ہوئی ہیں لیکن سورہ مکہ میں مکمل نہیں ہوئی اس کی بعض آیات مدینہ میں نازل ہوئی اور بعد میں ان آیات کو «مکی» سوروں کے ساتھ ملحق کیا .

مثلاً سوره فاتحه، کے بارے میں ہے :

«تقدم قول أن نصفها نزل بالمدينة والظاهر أنه النصف الثاني ولا دليل لهذا القول»

الكتاب: الإتقان في علوم القرآن- المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (م911)- المحقق: محمد أبو الفضل إبراهيم- الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب- ج1، ص56

وَأَخْرَجَ أَبُو الشَّيْخِ عَنِ الْكَلْبِيِّ قَالَ: نَزَلَتِ الْأَنْعَامُ كُلُّهَا بِمَكَّةَ إِلَّا آيَتَيْنِ نَزَلَتَا بِالْمَدِينَةِ فِي رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ وَهُوَ الَّذِي قَالَ: {مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ} .

وَقَالَ الْفِرْيَابِيُّ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ لَيْثٍ عَنْ بِشْرٍ قَالَ: الْأَنْعَامُ مَكِّيَّةٌ إِلَّا: {قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ} وَالْآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا.

الْأَعْرَافِ: أَخْرَجَ أَبُو الشَّيْخِ بْنُ حَيَّانَ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: الْأَعْرَافُ مَكِّيَّةٌ إِلَّا آيَةَ: {وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ} . وَقَالَ غَيْرُهُ مِنْ هُنَا إِلَى: {وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ} مَدَنِيٌّ.

الكتاب: الإتقان في علوم القرآن- المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (م911)- المحقق: محمد أبو الفضل إبراهيم- الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب- ج1، ص57

اسی طرح اور بھی اس سلسلے میں مثالیں موجود ہیں .

مثلا  «تفسیر طبری» در جلد 18، صفحه 366 ،میں قتادۃ سے نقل ہے کہ سورہ عنکبوت کی 10 آیات مدنی ہیں .

«قرطبی» نے اپنی تفسیر جلد 10، صفحه 346 میں کہا ہے کہ بعض نے سورہ کہف کے آٹھ آیات کے بارے میں یہ بات کی ہے ۔۔۔

  چوتھا جواب  :

کسی سورہ کا مکی یا مدنی ہونے کے معیارات مختلف ہیں لہذا یقینی طور پر کسی سورہ کے بارے میں واقعی معنوں میں مکی یا مدینی نہیں کہہ سکتا کیونکہ ممکن ہے ایک معیار کے مطابق ایک سورہ مکی ہو دورسے معیار کے مطابق وہ مدنی ہو ۔۔

جیساکہ کتاب «الإتقان» میں اس سلسلے کے متعدد معیارات بیان ہوئے ہیں.

اعْلَمْ أَنَّ لِلنَّاسِ فِي الْمَكِّيِّ وَالْمَدَنِيِّ اصْطِلَاحَاتٌ ثَلَاثَةٌ:...

الكتاب: الإتقان في علوم القرآن- المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)- المحقق: محمد أبو الفضل إبراهيم- الناشر: الهيئة المصرية العامة للكتاب ج 1، ص 36،37،38

ہجرت سے پہلے یا ہجرت کے بعد کا معیار ۔ نازل ہونے کی جگہ کا معیار ہونا  اگرچہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہو لیکن مکہ میں نازل ہو تو وہ پھر بھی مکی نہیں ہے۔ خطاب کا معیار ،مثلا اہل مکہ سے خطاب ہو تو مکی ہے اور اہل مدینہ سے خطاب ہو تو مدنی ہے اسی طرح کےاور بھی معیارات موجود ہیں ۔

  لہذا کوئی ثابت معیار نہیں ہے ۔

پانچواں جواب :

کسی سورہ کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر موجود ہے ، کسی نے ایک سورہ کو مکی کہا ہے جبکہ دوسرے نے اسی کو مدنی کہا ہے ۔ مثلاً‌ سوره فاتحه کو اکثر مفسرین نے «مکی» کہا ہے جبکہ مجاهد نے اس کو مدنی کہا ہے ۔۔

لہذا کوئی دقیق معیار نہیں ہے کہ جس سے یقینی طور پر سوروں کے مدنی یا مکی ہونے کو معین کرسکے ۔

نتیجہ :   اس کثیر کا یہ ادعا ہی باطل ہے کہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور فدک سات ہجری کو ملا ہے ہے اسی لئے  ان دو واقعات میں تضاد موجود ہے ۔

والأشبه أنه من وضع الرافضة»

اشبہ اور مناسب یہ ہے کہ یہ واقعہ رافضیوں کے بنائے ہوئے جھوٹا داستان ہے

تفسير القرآن العظيم؛ اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي أبو الفداء الوفاة: 774، دار النشر: دار الفكر - بيروت – 1401، ج3، ص37

 لہذا  ابن کثیر کے یہ شبھات کار ساز نہیں ہیں اور اس کو رافضیوں کا جعلی واقعہ کہنا صرف خلفاﺀ پر طعن کے دروزے کو بند کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے ورنہ اصل اس کا عطائ الرسول ہونا قابل انکار نہیں ۔۔۔

 دوسری :   ابن عباس سے

شوکانی نے ابن عباس کے ذریعے سے روایت کو نقل کیا ہے کہ جس میں رسول خدا (ص) کی طرف سے حضرت زہرا (س) کو فدک کے دئیے جانے کے بارے میں واضح طور پر بیان ہوا ہے:

و أخرج ابن مردویه عن ابن عباس قال لما نزلت (و آت ذا القربى حقه) أقطع رسول الله صلى الله علیه و سلم فاطمة فدك.

ابن مردویہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ: جب آیت ، و آت ذا القربى حقه، نازل ہوئی تو رسول خدا نے فدک کو فاطمہ کو دینے کے لیے الگ کر دیا۔

الشوكانی، محمد بن علی بن محمد (متوفی1255هـ)، فتح القدیر الجامع بین فنی الروایة و الدرایة من علم التفسیر، ج 3، ص 224، ناشر: دار الفكر – بیروت.

 تیسری روایت  :   مالک بن جعونہ سے :

بلاذری نے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے فدک کو اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے ابوبکر سے مطالبہ کیا تھا:

      وَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَیمُونٍ الْمُكْتِبُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفُضَیلُ بْنُ عَیاضٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ جَعْوَنَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ لأَبِی بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله جَعَلَ لِی فَدَكَ، فَأَعْطِنِی إِیاهُ، وَشَهِدَ لَهَا عَلِی بْنُ أَبِی طَالِبٍ، فَسَأَلَهَا شَاهِدًا آخَرَ، فَشَهِدَتْ لَهَا أُمُّ أَیمَنَ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتِ یا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ أَنَّهُ لا تَجُوزُ إِلا شَهَادَةُ رَجُلَینِ أَوْ رَجُلٍ وَامْرَأَتَینِ، فَانْصَرَفَتْ.

مالك بن جعونہ نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ: فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو، اور علی (ع) نے حضرت زہرا کے لیے گواہی دی۔ ابوبکر نے ایک دوسرا گواہ طلب کیا تو، ام ایمن نے بھی گواہی دی۔ ابوبکر نے کہا کہ: اے رسول خدا کی بیٹی آپ کو تو معلوم ہے کہ دو مرد اور ایک عورت کی گواہی قبول کی جاتی ہے۔ حضرت زہرا ابوبکر کی یہ بات سن کر وہاں سے چلی گئیں۔

         البلاذری، أحمد بن یحیى بن جابر (متوفی279هـ)، فتوح البلدان، ج 1، ص 44، تحقیق: رضوان محمد رضوان، ناشر: دار الكتب العلمیة - بیروت – 1403هـ

 چوتھی :   جعفر بن محمد سے :

بلاذرى نے ایک دوسری روایت کو اسطرح نقل کیا ہے کہ:

وَ حَدَّثَنِی رَوْحٌ الْكَرَابِیسِی، قَالَ: حَدَّثَنَا زَیدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ رَجُلٍ حَسِبَهُ رَوْحٌ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِی اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لأَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ: أَعْطِنِی فَدَكَ، فَقَدْ جَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم لِی، فَسَأَلَهَا الْبَینَةَ، فَجَاءَتْ بِأُمِّ أَیمَنَ، وَرَبَاحٍ مَوْلَى النَّبِی صلی الله علیه وسلم فَشَهِدَا لَهَا بِذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لا تَجُوزُ فِیهِ إِلا شَهَادَةُ رَجُلٍ وَامْرَأَتَینِ.

جعفر بن محمد نے کہا ہے کہ: فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو۔ یہ سن کر ابوبکر نے ان سے گواہوں کو طلب کیا۔ اس پر فاطمہ نے ام ایمن اور رسول خدا کے غلام رباح کو پیش کیا اور انھوں نے گواہی دی ہے کہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو حضرت زہرا کو عطا کیا تھا۔ اس پر ابوبکر نے کہا کہ: وہ گواہی قابل قبول ہوتی ہے کہ جو دو مرد اور ایک عورت گواہی دیں۔

      البلاذری، أحمد بن یحیى بن جابر (متوفی279هـ)، فتوح البلدان، ج 1، ص 44، تحقیق: رضوان محمد رضوان، ناشر: دار الكتب العلمیة - بیروت – 1403هـ.

 پانچویں:   ابی بكر بن عمرو سے :

طبری نے ایک دوسری روایت کو ابی بکر بن عمرو کے طریق سے نقل کیا ہے کہ:

و عن عبد الله بن أبی بكر بن عمرو بن حزم عن أبیه قال جاءت فاطمة إلى أبی بكر فقالت اعطنی فدك فإن رسول الله صلى الله علیه وسلم وهبها لی قال صدقت یا بنت رسول الله صلى الله علیه وسلم ولكنی رأیت رسول الله صلى الله علیه وسلم یقسمها فیعطی الفقراء والمساكین وابن السبیل بعد ان یعطیكم منها.

فاطمہ نے ابوبکر سے کہا کہ: رسول خدا نے فدک کو مجھے دیا تھا، لہذا تم اس فدک کو مجھے واپس کر دو۔ ابوبکر نے کہا کہ: اے رسول خدا کی بیٹی، آپ نے صحیح کہا ہے، لیکن میں نے خود دیکھا تھا کہ رسول خدا نے فدک میں سے آپ کے حصے کو دینے کے بعد، اسکو فقراء، مساکین اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

      الطبری، ابوجعفر محب الدین أحمد بن عبد الله بن محمد (متوفى694هـ)، الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ج 2، ص 126، تحقیق: عیسی عبد الله محمد مانع الحمیری، ناشر: دار الغرب الإسلامی - بیروت، الطبعة: الأولى، 1996م.

 چھٹی روایت :   موسی بن عقبہ سے :

بلاذری نے ایک دوسری روایت کو موسی بن عقبہ سے نقل کیا ہے کہ:

الْمَدَائِنِی ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ خَالِدٍ مَوْلَى خُزَاعَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، قَالَ : دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِی بَكْرٍ حِینَ بُویعَ . فَقَالَتْ : إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ وَرَبَاحًا یشْهَدَانِ لِی أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِی فَدَكَ . فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا خَلَقَ اللَّهُ أَحَبَّ إِلَی مِنْ أَبِیكِ، لَوَدِدْتُ أَنَّ الْقِیامَةَ قَامَتْ یوْمَ مَاتَ ، وَ لَأَنْ تَفْتَقِرَ عَائِشَةُ أَحَبُّ إِلَی مِنْ أَنْ تَفْتَقِرِی ، أَفَتَرَینِی أُعْطِی الأَسْوَدَ وَ الأَحْمَرَ حُقُوقَهُمْ وَ أَظْلِمُكِ وَ أَنْتِ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ إِنَّمَا كَانَ لِلْمُسْلِمِینَ ، فَحَمَّلَ مِنْهُ أَبُوكِ الرَّاجِلَ وَ ینْفِقُهُ فِی السَّبِیلِ ، فَأَنَا إِلَیهِ بِمَا وَلِیهُ أَبُوكِ ، قَالَتْ : وَاللَّهِ لا أُكَلِّمُكَ قَالَ : وَاللَّهِ لا أَهْجُرُكِ . قَالَتْ : وَاللَّهِ لأَدْعُوَنَّ اللَّهَ عَلَیكَ . قَالَ : لأَدْعُوَنَّ اللَّهَ لَكِ.

موسی بن عقبہ نے کہا ہے کہ: جب ابوبکر کی بیعت ہو گئی تو  حضرت زہرا اس کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا کہ: ام ایمن اور رباح گواہی دینے کو تیار ہیں کہ رسول خدا نے فدک کو مجھے عطا کیا تھا۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم خداوند نے میرے لیے تمہارے باپ سے بڑھ کر کسی کو محبوب خلق نہیں کیا، میں تو چاہتا تھا کہ انکی وفات والے دن، قیامت برپا ہو جاتی۔ میں عایشہ کو تو فقیر اور محتاج دیکھ سکتا ہوں، لیکن میں تم کو فقیر اور محتاج نہیں دیکھ سکتا۔

کیا تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ میں سرخ اور کالے لوگوں کو تو انکے حقوق عطا کرتا ہوں اور کیا میں آپکو آپکا حق نہیں دوں گا ؟ حالانکہ کہ تم رسول خدا کی بیٹی ہو۔ یہ مال ( یعنی باغ فدک ) تمام مسلمانوں کا حق ہے، اور تمہارے والد نے فدک کو خدا کی راہ میں مجاہدین پر انفاق کر دیا تھا، یعنی رسول خدا فدک کی آمدنی کو جنگ میں مجاہدین پر خرچ کرتے تھے، میں بھی وہی کام انجام دوں گا جو تمہارے والد انجام دیتے تھے۔ یہ سن کر فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم آج کے بعد میں تم سے بات نہیں کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، میں  تمہارے لیے بد دعا کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔

     البلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر (متوفى279هـ)، أنساب الأشراف، ج3، ص 316، الجامع الكبیر کی سی ڈی کیمطابق،

ساتویں روایت: ہشام بن محمد سے  :

جوہری نے بھی نقل کیا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے ابوبکر سے فدک کو اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے مطالبہ کیا تھا:

و روى هشام بن محمد، عن أبیه قال: قالت فاطمة، لأبی بكر: إن أم أیمن تشهد لی أن رسول الله (صلى الله علیه وآله)، أعطانی فدك، فقال لها: یا ابنة رسول الله، والله ما خلق الله خلقا أحب إلی من رسول الله (صلى الله علیه وآله) أبیك، ولوددت أن السماء وقعت على الأرض یوم مات أبوك، والله لأن تفتقر عائشة أحب إلی من أن تفتقری، أترانی أعطی الأحمر والأبیض حقه وأظلمك حقك، وأنت بنت رسول الله (صلى الله علیه وآله وسلم)، إن هذا المال لم یكن للنبی (صلى الله علیه وآله وسلم)، وإنما كان مالا من أموال المسلمین یحمل النبی به الرجال، وینفقه فی سبیل الله، فلما توفی رسول الله (صلى الله علیه وآله وسلم) ولیته كما كان یلیه، قالت: والله لا كلمتك أبدا، قال: والله لا هجرتك أبدا، قالت: والله لأدعون الله علیك، قال: والله لأدعون الله لك، فلما حضرتها الوفاة أوصت ألا یصلی علیها، فدفنت لیلا، وصلى علیها عباس بن عبد المطلب، وكان بین وفاتها ووفاة أبیها اثنتان وسبعون لیلة .

فاطمہ (س) نے ابوبکر سے کہا کہ: ام ایمن گواہی دینے کو تیار ہیں کہ رسول خدا نے فدک کو مجھے عطا کیا تھا۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم خداوند نے میرے لیے تمہارے باپ سے بڑھ کر کسی کو محبوب خلق نہیں کیا، میں تو چاہتا تھا کہ انکی وفات والے دن، قیامت برپا ہو جاتی۔ میں عایشہ کو تو فقیر اور محتاج دیکھ سکتا ہوں، لیکن میں تم کو فقیر اور محتاج نہیں دیکھ سکتا۔

کیا تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ میں سرخ اور کالے لوگوں کو تو انکے حقوق عطا کرتا ہوں اور کیا میں آپکو آپکا حق نہیں دوں گا ؟ حالانکہ کہ تم رسول خدا کی بیٹی ہو۔ یہ مال ( باغ فدک ) رسول خدا کی ملکیت نہیں تھی، بلکہ تمام مسلمانوں کا حق ہے، کہ جو لوگ لے رسول خدا کے پاس آتے تھے اور وہ بھی اسکو خدا کی راہ میں انفاق کرتے تھے۔ اب انکی وفات کے بعد میں اس فدک کا عہدے دار ہوں، جسطرح کہ رسول خدا اپنی زندگی میں، اس فدک کے عہدے دار تھے۔

فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، آج کے بعد میں تم سے بات نہیں کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: خدا کی قسم میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ فاطمہ نے فرمایا کہ: خدا کی قسم، میں تمہارے لیے بددعا کروں گی۔ ابوبکر نے کہا کہ: میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔

جب فاطمہ (س) کا وفات کا وقت نزدیک آیا تو، انھوں نے وصیت کی کہ ابوبکر میرے جنازے میں شریک نہ ہو اور مجھ پر نماز نہ پڑھے، پس انکو رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا اور عباس بن عبد المطلب نے ان پر نماز پڑھی۔ رسول خدا اور حضرت فاطمہ کی وفات میں 72 دن کا فاصلہ تھا۔

 الجوهری، أبی بكر أحمد بن عبد العزیز (متوفی323هـ)، السقیفة وفدك، ص 104، تحقیق: تقدیم وجمع وتحقیق: الدكتور الشیخ محمد هادی الأمینی، ناشر : شركة الكتبی للطباعة والنشر - بیروت – لبنان، الطبعة الأولى 1401 ه‍ - 1980م / الطبعة الثانیة 1413 ه‍ . 1993م

 

آٹھویں  روایت:  زید بن علی  

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ قَالَ: حَدَّثَنِي النُّمَيْرِيُّ بْنُ حَيَّانَ قَالَ: قُلْتُ لِزَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ: وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُهَجِّنَ أَمْرَ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ انْتَزَعَ مِنْ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَدَكَ. فَقَالَ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ رَجُلًا رَحِيمًا، وَكَانَ يَكْرَهُ أَنْ يُغَيِّرَ شَيْئًا تَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْهُ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي فَدَكَ فَقَالَ لَهَا: هَلْ لَكِ عَلَى هَذَا بَيِّنَةٌ؟ فَجَاءَتْ بِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَشَهِدَ لَهَا، ثُمَّ جَاءَتْ بِأُمِّ أَيْمَنَ فَقَالَتْ: أَلَيْسَ تَشْهَدُ أَنِّي مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ أَبُو أَحْمَدَ: يَعْنِي أَنَّهَا قَالَتْ ذَاكَ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَتْ: فَأَشْهَدُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهَا فَدَكَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَبِرَجُلٍ وَامْرَأَةٍ تَسْتَحِقِّينَهَا، أَوْ تَسْتَحِقِّينَ، بِهَا الْقَضِيَّةَ؟۔۔۔۔۔۔

تاريخ المدينة لابن شبة (1/  199  المؤلف: عمر بن شبة (واسمه زيد) بن عبيدة بن ريطة النميري البصري، أبو زيد (المتوفى: 262هـ) حققه: فهيم محمد شلتوت، طبع على نفقة: السيد حبيب محمود أحمد – جدة ۔عام النشر: 1399 هـ 

اس روایت کے مطابق ،فدک جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے چھین لیا ،یعنی یہ آپ کے ہاتھ میں تھا ۔

اس پر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے عطاﺀ الرسول ہونے کا ادعا کیا اور جناب امیر المومنین علیہ السلام اور ام ایمن نے گواہی دی ۔۔۔۔

ابن حجر ھیثمی لکھتا ہے:

و أخرج الحافظ عمر بن شبة أن زيدا هذا الإمام الجليل قيل له إن أبا بكر انتزع من فاطمة فدك فقال إنه كان رحيما وكان يكره أن يغير شيئا تركه رسول الله فأتته فاطمة رضي الله عنها فقالت له إن رسول الله أعطاني فدك فقال هل لك بينة فشهد لها علي وأم أيمن فقال لها فبرجل وامرأة تستحقيها ثم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی نے ان سے پوچھا کہ ابوبکر نے فدک کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے چھین لیا۔۔۔ تو اس کے جواب میں زید نے کہا : ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا آئی اور یہ فرمایا : فدک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے عطاﺀ کی ہے ۔۔۔ آپ سے گواہ کا مطالبہ کیا تو آپ نے گواہ کے طور پر حضرت علی علیہ السلام اور ام ایمن کو پیش کیا ابوبکر نے ان گواہوں کی گواہی کو قبول نہیں کیا ۔۔۔

   الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة(1/ 157   المؤلف : أبي العباس أحمد بن محمد بن محمد بن علي إبن حجر الهيتمي  الناشر : مؤسسة الرسالة – بيروت  الطبعة الأولى ، 1997

نوٹ ـ

 جناب زید کی روایت میں جو باتیں زید  سے  ابوبکر کے فیصلے کی حمایت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں،اگر یہ نسب ٹھیک ہو تو یہ اس کی اپنی نظر ہے  ۔۔۔ جب سیدہ کہہ رہی ہے کہ اللہ کے رسول [ص] نے مجھے دی ہے تو پھر صداقت کے پیکر سے گواہ کا مطالبہ کرنا ہی غلط ہے  اور گواہ قائم کرنے کے بعد ان کی گواہوں کو ٹھکرانا بھی غلط ہے۔۔۔۔

شیعہ کتب سے چند روایات

 : از امام صادق (ع):

شیعہ کتب میں بھی رسول خدا (ع) کے حضرت زہرا (س) کو فدک دینے کے بارے میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں۔ ان روایات میں سے ایک طولانی روایت ہے کہ جو امام صادق (ع) سے نقل ہوئی ہے، کہ اس روایت کے ایک حصے میں امام نے فرمایا ہے کہ:

... فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ علیها السلام فَقَالَ یا بُنَیةِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَفَاءَ عَلَى أَبِیكِ بِفَدَكَ وَ اخْتَصَّهُ بِهَا فَهِی لِی خَاصَّةً دُونَ الْمُسْلِمِینَ أَفْعَلُ بِهَا مَا أَشَاءُ وَ إِنَّهُ قَدْ كَانَ لِأُمِّكِ خَدِیجَةَ عَلَى أَبِیكِ مَهْرٌ وَ إِنَّ أَبَاكِ قَدْ جَعَلَهَا لَكِ بِذَلِكِ وَ نَحَلْتُكِهَا تَكُونُ لَكِ وَ لِوُلْدِكِ بَعْدَكِ قَالَ فَدَعَا بِأَدِیمٍ عُكَاظِی وَ دَعَا عَلِی بْنَ أَبِی طَالِبٍ علیه السلام فَقَالَ اكْتُبْ لِفَاطِمَةَ بِفَدَكَ نِحْلَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وَ شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ عَلِی بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَ مَوْلًى لِرَسُولِ اللَّهِ وَ أُمُّ أَیمَنَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ جَاءَ أَهْلُ فَدَكَ إِلَى النَّبِی صلی الله علیه وآله فَقَاطَعَهُمْ عَلَى أَرْبَعَةٍ وَ عِشْرِینَ أَلْفَ دِینَارٍ فِی كُلِّ سَنَةٍ.....،

رسول خدا (ص) جب غزوے سے واپس آئے تو حضرت زہرا کے پاس گئے اور فرمایا کہ: اے میری بیٹی ! خداوند نے فدک کو تیرے باپ کو بخشا ہے اور اس کے ساتھ خاص کیا ہے اور اس فدک میں کسی دوسرے مسلمان کا کوئی حق نہیں ہے۔ تم اس فدک کے بارے میں جو کچھ کرنا چاہتی ہو، انجام دے سکتی ہو، کیونکہ میں تیری ماں خدیجہ کو اس کا حق مہر ادا کرنے کا مقروض تھا، اسلیے میں فدک کو تیری ماں کے مہر کے بدلے میں تجھے عطا کرتا ہوں کہ یہ فدک تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے ہو گا۔ اسکے بعد ایک کھال کی بنی ہوئی چیز کو لے کر علی (ع) کو دیا اور ان سے فرمایا کہ: لکھو کہ رسول خدا نے فدک کو اپنی بیٹی  فاطمہ کو عطا کر دیا ہے۔ علی (ع) نے لکھنے کے بعد رسول خدا کے غلام اور ام ایمن کو اس تحریر پر گواہ بنایا۔ رسول خدا نے ام ایمن کے بارے میں فرمایا ہے کہ: ام ایمن اہل بہشت میں سے ہے۔ اہل فدک آئے اور انھوں نے رسول خدا کے ساتھ ہر سال میں 24،000 دینار دینے کے بدلے میں، اتفاق اور صلح کر لی۔

الراوندی، قطب الدین (متوفى573هـ)، الخرائج والجرائح، ج‏1، ص 113، تحقیق و نشر: مؤسسة الإمام المهدی علیه السلام ـ قم، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں آیت «فَآتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَ الْمِسْكِینَ وَ ابْنَ السَّبِیلِ‏» کی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:

حَدَّثَنِی أَبِی عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَیرٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِیسَى وَ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ لَمَّا بُویعَ لِأَبِی بَكْرٍ وَ اسْتَقَامَ لَهُ الْأَمْرُ عَلَى جَمِیعِ الْمُهَاجِرِینَ وَ الْأَنْصَارِ بَعَثَ إِلَى فَدَكَ فَأَخْرَجَ وَكِیلَ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله مِنْهَا- فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ علیها السلام إِلَى أَبِی بَكْرٍ، فَقَالَتْ یا أَبَا بَكْرٍ مَنَعْتَنِی عَنْ مِیرَاثِی مِنْ رَسُولِ اللَّهِ وَ أَخْرَجْتَ وَكِیلِی مِنْ فَدَكَ فَقَدْ جَعَلَهَا لِی رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله بِأَمْرِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهَا هَاتِی عَلَى ذَلِكَ شُهُوداً- فَجَاءَتْ بِأُمِّ أَیمَنَ فَقَالَتْ لَا أَشْهَدُ- حَتَّى أَحْتَجَّ یا أَبَا بَكْرٍ عَلَیكَ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله فَقَالَتْ أَنْشُدُكَ اللَّهَ، أَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله قَالَ إِنَّ أُمَّ أَیمَنَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ بَلَى، قَالَتْ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله «فَآتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ» فَجَعَلَ فَدَكَ لِفَاطِمَةَ بِأَمْرِ اللَّهِ- وَ جَاءَ عَلِی علیه السلام فَشَهِدَ بِمِثْلِ ذَلِكَ- فَكَتَبَ لَهَا كِتَاباً بِفَدَكَ وَ دَفَعَهُ إِلَیهَا- فَدَخَلَ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَذَا الْكِتَابُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ فَاطِمَةَ ادَّعَتْ فِی فَدَكَ وَ شَهِدَتْ لَهَا أُمُّ أَیمَنَ وَ عَلِی فَكَتَبْتُ لَهَا بِفَدَكَ، فَأَخَذَ عُمَرُ الْكِتَابَ مِنْ فَاطِمَةَ فَمَزَّقَهُ وَ قَالَ هَذَا فَی‏ءُ الْمُسْلِمِین‏.....،

امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: جب ابوبکر کی بیعت کی گئی اور اسکی خلافت کا زبردستی اعلان ہو گیا تو، اس نے اپنے بندوں کو باغ فدک بھیجا اور انھوں نے باغ فدک میں کام کرنے والے حضرت زہرا کے کاریگروں کو وہاں سے زبردستی نکال دیا۔ فاطمہ ابوبکر کے پاس گئیں اور اس سے فرمایا کہ: اے ابوبکر! تم نے مجھے رسول خدا کی میراث سے محروم کر دیا ہے اور میرے مزدوروں کو بھی وہاں سے نکال دیا ہے، حالانکہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو مجھے دیا تھا۔

ابوبکر نے کہا کہ: اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لیے گواہ لے کر آؤ۔ حضرت زہرا نے ام ایمن کو پیش کیا۔ اس نے کہا کہ: میں رسول خدا (ص) کے اس فرمان پر گواہی دیتی ہوں تا کہ تمہارے سامنے احتجاج کر سکوں۔ ام ایمن نے کہا کہ: اے ابوبکر میں تم کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم نے رسول خدا سے نہیں سنا کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ: ام ایمن اہل جنت میں سے ہے ؟ ابوبکر نے جواب دیا: ہاں سنا ہے، ام ایمن نے کہا کہ: میں گواہی دیتی ہوں کہ: خداوند نے اپنے رسول کو وحی کی کہ اپنے ذوی القربی کا حق انکو دے دو، اس پر رسول خدا نے فدک کو خداوند کے حکم کے مطابق اپنی بیٹی فاطمہ کو دے دیا، پھر علی آئے اور انھوں نے  بھی ام ایمن کی طرح گواہی دی۔ یہ سن کر ابوبکر نے حضرت زہرا کے لیے ایک حکم نامہ لکھا اور انکو دیا کہ، جس میں لکھا تھا کہ، فدک انکو واپس کر دیا جائے۔ اسی وقت عمر ابوبکر کے پاس آیا اور کہا: یہ کیسا حکم نامہ ہے ؟ ابوبکر نے کہا کہ: فاطمہ نے فدک کے بارے میں ایک دعوی کیا تھا اور اپنے اس دعوی پر ام ایمن اور علی (ع) کو گواہی کے لیے بھی پیش کیا ہے اور انھوں نے گواہی دی ہے کہ رسول خدا نے خداوند کے حکم کے مطابق فدک کو حضرت زہرا کو عطا کیا تھا، میں نے اسی وجہ سے اس حکم نامے کو لکھ کر حضرت زہرا کو دیا ہے۔ یہ سن کر عمر نے فاطمہ (س) سے حکم نامہ لے کر اسکو پھاڑ کر کہا کہ یہ فدک تمام مسلمانوں کا حق ہے......،

         القمی، أبی الحسن علی بن ابراهیم (متوفى310هـ) تفسیر القمی، ج‏2، ص 156، تحقیق: تصحیح وتعلیق وتقدیم: السید طیب الموسوی الجزائری، ناشر: مؤسسة دار الكتاب للطباعة والنشر - قم، الطبعة: الثالثة، صفر 1404.

نتیجہ

 لہذا ان رواہات کے مطابق رسول خدا (ص) نے اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو فدک ہدئیے کے طور پر عطا کیا تھا تو، اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ فدک حضرت زہرا (س) کی ملکیت تھا اور فقط وہ اسکی مالک تھیں اور دوسرا جو بھی باغ فدک میں کوئی بھی کام انجام دینا چاہتا ہو تو، وہ حضرت زہرا کی اجازت کے ساتھ انجام دے گا اور باغ فدک لینا یا اس پر قبضہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے، کوئی بھی انکی اجازت کے بغیر کوئی  کام بھی اس باغ میں انجام نہیں دے سکتا تھا۔

لیکن رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد جب ابوبکر زبردستی خلیفہ بن گیا تو اس نے باغ فدک میں کام کرنے والے حضرت زہرا (س) کے بندوں کو زبردستی نکال کر فدک کو اس کے مالک کی مرضی و رضایت کے خلاف مسلمانوں کے عمومی اموال میں قرار دے دیا۔

اس واضح غصب کے بعد حضرت زہرا (س) نے اپنے حق فدک کو واپس لینے کے لیے اپنے مطالبات کا آغاز کیا۔

یہ نکتہ مہم اور قابل توجہ ہے کہ حضرت زہرا (س) کی طرف سے چند مرحلوں میں اور مختلف عنوانات کے ساتھ بار بار فدک کو واپس لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ آپ نے پہلے مرحلے میں اس کو عطاﺀ رسول کے عنوان سے مطالبہ کیا ۔ لیکن جب یہ منظور نہ ہوا تو آپ نے اس کو میراث کے عنوان سے مطالبہ کیا

پہلے مرحلے میں حضرت زہرا (س) نے ابوبکر سے فدک کا اپنے والد سے لیے گئے ہدئیے کے عنوان سے مطالبہ کیا، لیکن ابوبکر نے حضرت زہرا سے کہا کہ اپنے اس دعوی پر گواہ لے کر آئے۔ حضرت زہرا نے علی (ع)، ام ایمن اور رسول خدا (ص) کے غلام رباح کو اپنے گواہوں کے طور پر پیش کیا۔

 بعض دوسری روایات کے مطابق حضرت زہرا (س) گواہی کے لیے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو اپنے ساتھ لے گئیں، لیکن بہت ہی افسوس کہ ابوبکر نے مختلف بہانوں سے انکی گواہی کو جھٹلا دیا۔

 

قواعد کے اعتبار سے  فدک کا عطاﺀ الرسول ہونا ثابت ہے ۔

 اھل سنت کے علماء کے بنائے ہوئے قواعد کی روشنی میں ہم اس کو اہل سنت کے لئے  حجت کے طور پر پیش کرسکتے ہیں ۔

اس سلسلے میں ہم تین قواعد کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جس کو اہل سنت کے علماﺀ دوسرے موارد میں استعمال کرتے ہیں لیکن عطیہ کے بارے میں اس کی رعایت نہیں کرتے ۔۔۔

  پہلا قانوں : راوی مختلف فیہ کی روایت حسن کا درجہ رکھتی ہے ۔

راوی مختلف فیہ کی روایات کو اہل سنت کے علماء حسن کا درجہ دیتے ہیں۔ عطیہ کو بعض نے  ثقہ کہا ہے بعض نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔لہذا یہ مختلف فیہ راویوں میں سے ہے۔ اس قسم کے راوی کی روایت کو  جعلی کہنا تو دور کی بات اس کو ضعیف بھی کہنا صحیح نہیں ہے

دیکھیں  اہل سنت کے مایہ ناز عالم ابن حجر یہی قانون دوسرے راوی کے بارے میں جاری کرتا ہے اور اس کی روایت کو حسن کہتا ہے ۔

 ابن حجر عسقلاني نے  «القول المسدد في الذب عن مسند للإمام احمد» میں «قزعة ابن سوید» کے بارے میں لکھا ہے:

« وَأَمَّا قَزَعَةُ بْنُ سُوَيْدٍ فَهُوَ بَاهِلِيٌّ بَصْرِيٌّ يُكَنَّى أَبَا مُحَمَّدٍ رَوَى أَيْضًا عَنْ جَمَاعَةٍ مِنَ التَّابِعِينَ وَحَدَّثَ عَنْهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الأَئِمَّةِ وَاخْتُلِفَ فِيهِ كَلامِ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ فَقَالَ عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ عَنْهُ ضَعِيفٌ وَقَالَ عُثْمَانُ الدَّارِمِيُّ عَنْهُ ثِقَةٌ وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ مَحَلُّهُ الصِّدْقُ وَلَيْسَ بِالْمَتِينِ يُكْتَبُ حَدِيثُهُ وَلا يُحْتَجُّ بِهِ وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ لَهُ أَحَادِيثُ مُسْتَقِيمَةٌ وَأَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْس بِهِ وَقَالَ الْبَزَّار لَمْ يَكُنْ بِالْقَوِيِّ وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَقَالَ الْعِجْلِيُّ لَا بَأْسَ بِهِ وَفِيهِ ضَعِيفٌ فالحاصل من كلام هؤلاء الأئمة فيه أن حديثه في مرتبة الحسن»

القول المسدد في الذب عن المسند للإمام أحمد؛ اسم المؤلف: أحمد بن علي العسقلاني أبو الفضل الوفاة: 852، دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة - 1401، الطبعة : الأولى، تحقيق: مكتبة ابن تيمية، ج 1، ص 30

 «ابن حجر» نے «تهذیب التهذیب» میں «عبدالله ابن صالح» کے بارے میں بھی یہی  بات کی ہے :

«وقال ابن القطان هو صدوق ولم يثبت عليه ما يسقط له حديثه إلا أنه مختلف فيه فحديثه حسن »

 تهذيب التهذيب؛ اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي الوفاة: 852، دار النشر: دار الفكر - بيروت - 1404 - 1984، الطبعة : الأولى، ج5، ص228

اور حسن روایت حجت ہونے کے اعتبار سے صحیح روایت کی طرح ہے ۔

« الحسن وهو في الاحتجاج به كالصحيح عند الحمهور. » : اختصار علوم الحديث - ج1، ص37

لہذا صاف واضح ہے کہ اہل سنت کے علماء عطیہ اور  حق حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی بات جب آتی ہے تو اس قسم کے سارے قواعد بول جاتے ہیں

دوسرا قانون: جعلی اور ضعیف روایت میں فرق ہے۔۔

   کسی مختلف فیہ راوی کی روایت کو ضعیف کہنے کا معنی اس کا جعلی ہونا نہیں ہے ۔جعلی اور ضعیف کی اصطلاح میں واضح فرق ہے۔  سند کے اعتبار سے ضعیف  ہونے  کی صورت میں دوسرے قرائن اور شواہد کو بھی دیکھ کر اس کی ضعف اور کمزوری کا علاج بھی کرسکتا ہے۔   جبکہ جعلی روایت ایک مردہ شخص کی طرح ہے قابل علاج نہیں ہے ۔ جیساکہ بہت سے ایسی رویات موجود ہیں کہ جو اس روایت کی ضعف کو دور کر سکتی ہیں ۔

جیساکہ اس سلسلے کی باقی اسناد اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے ۔

اس سلسلے کی دوسری روایات اور اہل سنت کے علماﺀ کے اقوال کو ہم نے ایک الگ سے مقالے میں جمع کیا ہے ۔

      فدک ھبہ یا  وراثت؟ اصل معاملہ کیا تھا ؟www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

تیسرا قانون : 

 متعدد طرق سے  روایت نقل ہونا روایت کی ضعف کا جبران کرتا ہے ۔

 روایت کم از کم تین متعدد اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ اگر مثال کے طور پر فرض بھی کر لیں کہ ان تینوں سندوں میں کوئی نہ کوئی علمی مسئلہ ہے تو پھر بھی ہم اس روایت کے حجت نہ ہونے کو قبول نہیں کر سکتے، کیونکہ اہل سنت کے علم رجال کے قواعد کے مطابق، اگر ایک روایت کی تین سے زیادہ اسناد ہوں اور وہ تمام کی تمام اسناد ضعیف بھی ہوں تو ، پھر بھی وہ اسناد ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں اور نتیجے کے طور وہ روایت صحیح و حجت ہو جاتی ہے۔

 جیسا کہ بدر الدين عينی (متوفي 855 ہجری) نے کتاب عمدة القاری میں محيی الدين نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وقال النووي في (شرح المهذب): إن الحديث إذا روي من طرق ومفرداتها ضعاف يحتج به، علي أنا نقول: قد شهد لمذهبنا عدة أحاديث من الصحابة بطرق مختلفة كثيرة يقوي بعضها بعضا، وإن كان كل واحد ضعيفا.

نووی نے کتاب شرح مہذب میں کہا ہے کہ: اگر ایک روایت متعدد سندوں کے ساتھ نقل ہو ، لیکن اسکے بعض راوی ضعیف ہوں، پھر بھی اس روایت کے ساتھ استدلال کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ہم کہتے ہیں کہ: کچھ روایات صحابہ اور دوسرے راویوں سے نقل ہوئی ہیں کہ وہ روایات ایک دوسرے کی تائید اور تقویت کرتی ہیں، اگرچہ ان روایات میں سے ہر ایک ضعیف ہی کیوں نہ ہوں۔

العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 307، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

ابن تيميہ حرّانی ناصبی نے اپنی کتاب مجموع فتاوی میں لکھا ہے کہ:

تعدّد الطرق وكثرتها يقوي بعضها بعضا حتي قد يحصل العلم بها ولو كان الناقلون فجّارا فسّاقا فكيف إذا كانوا علماء عدولا ولكن كثر في حديثهم الغلط.

روایات کا متعدد اور کثیر واسطوں (اسناد) سے نقل ہونا، یہ ایک دوسرے کی تائید و قوی کرتے ہیں کہ اس سے اس روایت کے صحیح (معتبر) ہونے کا علم حاصل ہو جاتا ہے، اگرچہ وہ راوی فاسق اور فاجر بھی ہوں، تو پھر کیسے وہ روایات صحیح نہ ہوں کہ جنکو عالم و عادل راویوں نے نقل کیا ہو، لیکن انکی نقل کردہ احادیث میں خطائیں بہت زیادہ بھی ہوں۔

ابن تيميه الحراني، أحمد عبد الحليم أبو العباس (متوفي 728 هـ)، كتب ورسائل وفتاوي شيخ الإسلام ابن تيمية، ج 18، ص 26، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ناشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية.

جب ایک روایت کی متعدد اسناد ہوں اور اسکے تمام راوی فاسق اور فاجر بھی ہوں، تو وہ اسناد ایک دوسرے کی تائید و محکم کرتی ہیں اور ان روایات میں نقل شدہ مطلب و بات صحیح و حجت ہو جاتی ہے، تو ابوبکر کے اقرار و اعتراف والی روایت کی اسناد میں صرف ایک راوی کو منکر الحدیث کہا گیا ہے تو ایسی روایت سو فیصد اور قطعی طور پر صحیح و حجت ہو گی۔

محمد ناصر البانی نے کتاب ارواء الغليل میں ایک روایت کی متعدد اسناد کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

وجملة القول: أن الحديث طرقه كلها لا تخلو من ضعف ولكنه ضعف يسير إذ ليس في شئ منها من اتهم بكذب وإنما العلة الارسال أو سوء الحفظ ومن المقرر في « علم المصطلح » أن الطرق يقوي بعضها بعضا إذا لم يكن فيها متهم.

یعنی اس حدیث کی تمام اسناد ضعیف ہیں، اگرچہ وہ ضعف بھی معمولی سا ضعف ہے، کیونکہ ان اسناد میں کوئی راوی بھی کاذب و جھوٹا نہیں ہے اور ان اسناد کے ضعیف ہونے کی علت یا روایات کا مرسلہ ہونا ہے یا پھر راوی کا کم حافظہ ہونا ہے۔ علم رجال کے ثابت شدہ قواعد میں سے یہ ہے کہ جب روایت کی متعدد اسناد میں کسی راوی پر کوئی بھی تہمت نہ لگائی گئی ہو تو، وہ اسناد ایک دوسرے کو محکم و قوی کرتی ہیں۔

الباني، محمد ناصر، إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل، ج 1، ص 160، تحقيق: إشراف: زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1405 - 1985 م.

نتیجے کے طور پر فدک عطاﺀ الرسول کو بیان کرنے والی روایات اگر الگ الگ سند کے لحاظ سے ضعیف بھی ہوں تو پھر بھی یہ روایات صحیح، حجت اور قابل استدلال ہیں کیونکہ اس کے مختلف طرق ہیں۔۔۔ جناب ابوسعید خذری ، ابن عباس ،جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ،امیر المومنین علیہ السلام، جناب ام ایمن سے بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے  اور  دوسرے ائمہ اہل بیت سے یہ یہی ادعا ثابت ہے  ۔۔۔۔۔

لہذا یہ روایات تعدد طرق اور اسناد کی بنا پر حجت ہے بعض روایت بعض کے ضعف کا جبران کرتی ہے ۔

تین  اہم نکتے   :

 پہلا نکتہ  :

جیساکہ اس سلسلے کی ساری روایات میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا فدک کا عطاﺀ الرسول ہونے کا ادعا کرتی ہیں۔ خلیفہ اس ادعا کے مقابلے میں حدیث نحن معاشر الانبیاﺀ۔۔۔ سے استدلال نہیں کرتا ہے بلکہ آپ کے ادعا کو رد کرنے کی کوشش میں کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور اپنے مشاہدے سے استدلال کرتا ہے، کبھی جناب سیدہ  کےگواہوں کو کافی نہیں سمجھتا ہے ۔۔لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے شروع میں فدک کو میراث کے  طور پر مطالبہ نہیں کیا تھا لہذا خلیفہ نے آپ کے اس ادعا کو رد کرنے کے لئے حدیث نحن معاشر الانبیاﺀ سے استدلال نہیں کیا ۔۔۔

  دوسرا نکتہ :

  جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے فدک کو اپنا حق اور اپنے والد کی عطاﺀ کے طور پر اس کا مطالبہ فرمایا تو  ان کا یہی ادعا اس واقعے میں سب سے بنیادی دلیل ہے۔ کیونکہ جناب سیدہ کہ جو جنت کی عورتوں کی سردار اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون ہیں ،آپ کیسے ایسی چیز کا ادعا کرسکتے ہیں جو آپ کا حق نہیں ہے ؟ ساتھ ہی جناب امیر المومنین علیہ السلام اور جناب ام ایمن نے اس چیز کی گواہی دی ہے۔۔۔۔

تیسرا نکتہ :

 اہلسنت کے علماﺀ نے اس چیز کا اعتراف کیا ہے کہ فدک حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتی ملکیت شمار ہوتا تھا ۔۔ ملاحظہ کریں ۔۔۔www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

۔لہذا یہاں انہیں حضرات کی گواہی اور ادعا ہی کافی ہے، جیساکہ والد جب اپنے کسی فرزند کو کوئی چیز دیتے ہیں تو گھر کے افراد کو ہی گواہ بناتے ہیں ،دوسروں کو اس سلسلے میں اطلاع دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب والد کے مرنے کے بعد باہر سے آکر کوئی گھر والوں سے یہ کہے کہ فلان زمین کا آپ کے والد کی طرف سے ھدیہ اور عطاﺀ ہونے پر گواہ پیش کرو تو یہ غیر منطقی اور عقلی طریقہ ہے۔۔۔۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات