2024 March 29
اھل سنت کے بزرگ علما اور ابوبکر کی خلافت پر اجماع کا انکار۔
مندرجات: ٢٠٩٩ تاریخ اشاعت: ٢٨ November ٢٠٢٢ - ٠١:٠٣ مشاہدات: 1762
وھابی فتنہ » پبلک
اھل سنت کے بزرگ علما اور ابوبکر کی خلافت پر اجماع کا انکار۔

اھل سنت کے بزرگ علما اور ابوبکر کی خلافت پر اجماع کا انکار۔

 اھل سنت والے آج کل جناب ابوبکر کی خلافت کو شرعی حیثیت دینے کے لئے ان کی خلافت پر اهل حلّ و عقد کے اجماع ہونے کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ،جبکہ خود اھل سنت کے مایانہ ناز علمی شخصیتیں ایسے اجماع کا منکر ہیں ۔

ماوردي شافعي ( متوفّاي 450 ) ،ابويعلي حنبلي ( متوفّاي 458 ) نے واضح طور پر کہا ہے  : کہ ابوبکر کی خلافت کے مسئلے میں کسی قسم کا اجماع قائم نہیں ہوا لہذا اجماع کی بات کرنا بیہودہ ہے۔

. « فقالت طائفة : لاتنعقد إلّا بجمهور أهل العقد والحلّ من كلّ بلد ، ليكون الرضا به عامّاً ، والتسليم لإمامته إجماعاً ، وهذا مذهب مدفوع ببيعة أبي بكر -رضي اللّه- عنه علي الخلافة باختيار من حضرها ، ولم ينتظر ببيعته قدوم غائب عنها » الأحكام السلطانيّة لماوردي ، ص 33 ، الأحكام السلطانيّة ، لأبي‏يعلي محمد ابن الحسن الفراء ، ص 117 . .
اب اجماع کا ادعا کرنے والے سچ بولتے ہیں یا اھل سنت کی یہ دو اہم شخصیتین ؟
اہل سنت کے لوگ کہتے ہیں : انصار اور مہاجرین میں سے صاحب نظر اصحاب نے ابوبکر کی بیعت کی اور یہ ان سب کی راے کے مطابق ہوا ہے ۔

جبکہ اھل سنت کے ہی اہم مفسر قرطبي ( متوفّاي 671 واضح طور پر اس کے منکر ہے اور اس چیز کو بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر کی خلافت  عمر کی بیعت سے منعقد ہوئی  ؛ « فإن عقدها واحد من أهل الحلّ والعقد فذلك ثابت ، ويلزم الغير فعله ، خلافاً لبعض الناس حيث قال : لا ينعقد إلّا بجماعة من أهل الحلّ والعقد ، ودليلنا : أنّ عمر ( رض ) عقد البيعة لأبي بكر » جامع أحكام القرآن ، ج 1 ، ص 272 - 269 . .
اھل سنت والے کس اجماع کی بات کرتے ہیں جبکہ اھل سنت کے ہی بزرگ متکلم  امام الحرمين ( متوفّاي 478 ) کہ جو امام غزالي کے استاد بھی ہیں ،انہوں نے اس اجماع کا انکار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں : خلافت کے لئے اجماع کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیساکہ ابوبکر کی خلافت اور امامت کسی اجماع کے بغیر اور اس کی خبر دوسری جگہوں پر موجود اصحاب تک پہنچنے سے پہلے انجام پائی اور دوسروں تک یہ خبر پہنچائی گئی ۔[ یعنی ان سے راے لینے کے بجائے انہیں اس کی صرف اطلاع دی گئی ۔]

 امام حرمین آخر میں نتیجہ لیتے ہیں کہ  امامت، اهل حلّ و عقد کے ایک آدمی کی تائید سے بھی ہوسکتی ہے ۔

 ؛ « اعلموا أنّه لا يشترط في عقد الإمامة ، الإجماع ، بل تنعقد الإمامة وإن لم تجمع الأمّة علي عقدها ، والدليل عليه أنّ الإمامة لمّا عقدت لأبي بكر ابتدر لإمضاء أحكام المسلمين ، ولم يتأن لانتشار الأخبار إلي من نأي من الصحابة في الأقطار ، ولم ينكر منكر . فإذا لم يشترط الإجماع في عقد الإمامة ، لم يثبت عدد معدود ولا حدّ محدود ، فالوجه الحكم بأنّ الإمامة تنعقد بعقد واحد من أهل الحلّ والعقد »

 الإرشاد في الكلام ، ص 424 ، باب في الاختيار وصفته وذكر ما تنعقد الإمامة . .
اھل سنت کے لوگ اجماع کو خلافت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ  عضدالدين ايجي ( متوفّاي 756 ) صاحب كتاب « المواقف » کہ جو علم کلام کے بنیاد گزاروں میں سے ہے وہ اس سلسلے میں کہتا ہے ۔ کوئی بھی عقلی اور نقلی دلیل اجماع کے دلیل ہونے پر نہیں ہے ۔ اهل حلّ و عقد میں سے ایک ، دو کی بیعت کافی ہے ۔ اسی سے امامت اور خلافت منعقد ہوتی ہے ۔،جیساکہ ابوبکر کی امامت عمر کی بیعت سے اور عثمان کی بیعت عبد الرحمن بن عوف کی بیعت سے منعقد ہوئی ۔

؛ « وإذا ثبت حصول الإمامة بالاختيار والبيعة ، فاعلم أنّ ذلك لا يفتقر إلي الإجماع ، إذ لم يقم عليه دليل من العقل أو السمع ، بل الواحد والإثنان من أهل الحلّ والعقد كاف ، لعلمنا أنّ الصحابة مع صلابتهم في الدين اكتفوا بذلك ، كعقد عمر لأبي بكر ، وعقد عبد الرحمن بن عوف لعثمان » .
قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ یہاں تک کہتے ہیں
کہ باقی شہروں کے لوگوں کے اجماع تو دور کی بات ہے، ابوبکر کی امامت  کے سلسلے میں خود اھل مدینہ کی اجماع کو بھی ضروری نہیں جانا گیا ۔
؛
« ولم يشترطوا اجتماع مَن في المدينة فضلاً عن اجتماع الأمّة . هذا ولم ينكر عليه أحد ، وعليه انطوت الأعصار إلي وقتنا هذا » المواقف في علم الكلام ، ج 8 ، ص 351 . !
ابن عربي مالكي ( متوفّاي 543 ) کہ جو اہل سنت کے بزرگ علما میں سے ہے وہ لکھتا ہے کہ امام کے انتخاب میں تمام لوگوں کا ہونا ضروری نہیں ہے ،یہاں تک کہ ایک یا دو نفر کی شرکت کافی ہے  :  « لا يلزم في عقد البيعة للإمام أن تكون من جميع الأنام بل يكفي لعقد ذلك إثنان أو واحد » شرح سنن الترمذي ، ج 3 ، ص 229 . !
« فاعتبروا يا أولي الأبصار » .
اب بتائے یہ علما صحیح کہہ رہے ہیں یا دوسرے لوگ ؟

اھل سنت کے لوگ کہتے ہیں کہ : ابوبكر کی بيعت تمام مهاجرين اور انصار کے اجماع سے قائم ہوئی لیکن اسی مسئلے میں سب سے زیادہ تک و دو کرنے شخصیت یعنی جناب عمر بن خطّاب کا کہنا ہے  : سارے انصار نے ابوبکر کی خلافت کا انکار کیا اور علي ( ع ) ، زبير اور ان کے حامی لوگ سب ابوبکر کی بیعت کے مخالف تھے: « حين توفي اللّه نبيّه -صلي اللَّه عليه وسلم- أنّ الأنصار خالفونا ، واجتمعوا بأسرهم في سقيفة بني ساعدة وخالف عنّا علي والزبير ومن معهما » المعجم‏الأوسط ، ج 7 ص 370 ، الجامع الصغير للسيوطي ، ج 2 ص 481 ، مجمع الزوائد ، ج 1 ص 157 ، سير أعلام النبلاء ، ج 4 ص 311 ؛ تذكرة الحفاظ ، ج 1 ص 87 ، عن الشعبي وليس في سنده موسي بن عبيدة . ‏ صحيح البخاري ، ج 8 ، ص 26 ، كتاب المحاربين ، باب رجم الحبلي من الزنا . .

اب جناب عمر بن خطاب کا کہاصحیح ہے یا اھل سنت کے لوگوں کا ؟؟؟

 اگر خلافت اھل حل و عقد کے ایک اور دو نفر کی بیعت سے منعقد ہوجاتی ہے اور باقی مسلمانوں سے مشورہ لینا ضروری نہیں ہے  اور اگر جناب ابوبکر کی بیعت قانونی طور پر منعقد ہوئی تھی تو کیوں جناب عمر بن خطاب نے دوبارہ اس طرح کی بیعت کرنے اور اس طرح کوئی خلیفہ بننے تو قتل کی دھمکی دی ؟  اور ابوبکر کی خلافت کو إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَة    یعنی مشورت کے بغیر انجام پانے والا ایک کام کہا ؛ اور اس قسم کے انتخاب کرنے والے کو قتل کی دھمکی دی۔

« من بايع رجلاً عن غير مشورة من المسلمين فلا يبايع هو ولا الذي بايعه ، تغرّة أن يقتلا » صحيح البخاري ، ج 8 ، ص 26 ، كتاب المحاربين ، باب رجم الحبلي من الزنا۔

اب اگر اس طرح سے بیعت کرنا اور کسی کو خلیفہ بنانا مھدور الدم کا سبب ہے اور اس کے خون کو اس وجہ سے بہانا صحیح ہے تو کیوں سقیفہ میں اس حکم کو لاگو نہیں کیا ؟

اب یہ جو کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کو اپنا جانشین نہیں بنایا تھا اور کسی خاص شخص کو جانشین بنانے کا حکم بھی نہیں دیا تھا ،بلکہ لوگوں نے ابوبکر کو خلیفہ بنایا ہے اور ابوبکر نے عمر کو اور چھے نفری کمیٹی نے عثمان کو خلیفہ بنایا ہے ، اب بات یہ ہےتو کیوں کہتے ہیں یہ لوگ رسول اللہ ص کے جانشین ہیں اور ان لوگوں کو « خليفة الرسول » کہتے ہیں ،کیا یہ رسول اللہ ص کی طرف جھوٹی نسبت نہیں ہے؟

جبکہ متواتر  حدیث « من كذب عليّ متعمّداً فليتبّؤ مقعده من النّار » 

صحيح البخاري ، ج 1 ص 36 ، 2 / 81 ، ج 4 ص 145 ، ج 7 ص 118 قال ابن الجوزي : رواه من الصحابة ثمانية وتسعون نفساً ، الموضوعات ، ج 1 ص 57 ، وقال النووي : قال بعضهم : رواه مائتان من الصحابة ، شرح مسلم للنووي ، ج 1 ص 68 .

اس حدیث کے مطابق آُپ کی طرف کوئی بھی جھوٹی نسبت دی جائے تو اس کا ٹھیکانہ جہنم ہوگا ۔

اب اگر یہ ادعا صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کو اپنا جانشین نہیں بنایا ہے تو کیوں بعض اصحاب کی راے کو سب کے لئے حجت جاننتے ہیں اور خلفا کی خلافت کو شرعی طور پر قبول نہ کرنے کو گمراہی یا کفر سے تعبیر کرتے ہیں ؟

اب  ابن حزم آندلسي کی بات پر توجہ کرئے ،وہ اجماع کے ادعا کرنے والوں اور اجماع کے بہانے عجیب و غریب قسم کے فتوا جاری کرنے والوں کے فتاوا پر اس طرح خط بطلان کھیچتا ہے ؛

 

ولعنة اللّه علي كلّ إجماع يخرج عنه علي بن أبي طالب ومن بحضرته من الصحابة

ایسے اجماع پر لعنت اور نفرین ہو جس اجماع میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہ ہو ۔

المحلي : ج 9 ، ص 345 ، با تحقيق احمد محمد شاكر ، چاپ بيروت - دارالفكر .

جبکہ خلیفہ اول خود ہی اعتراف کرتا ہے کہ انصار اور جناب امیر المومنین اور بنی ھاشم نے اھل سقیفہ کی مخالفت کی تھی ۔

« إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا » 

‏ صحيح البخاري ، ج 8 ، ص 26 ، كتاب المحاربين ، باب رجم الحبلي من الزنا . .





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات