2024 March 28
فاطمہ زہرا (ع) کا خلفا سے نزاع تا ابد باقی ہے ۔
مندرجات: ٢١٨٤ تاریخ اشاعت: ٠٨ December ٢٠٢٢ - ٠١:١٢ مشاہدات: 2189
وھابی فتنہ » پبلک
فاطمہ زہرا (ع) کا خلفا سے نزاع تا ابد باقی ہے ۔

نزاع تا ابد باقی

حضرت زہرا (ص)  اور جناب ابوبکر کے درمیان نزاع کے بارے میں

اہل سنت کے بعض مناظر ,مولوی اور مفتی حضرات کہتے ہیں  

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور خلیفہ جناب ابوبکر کے درمیان نزاع اور معاملہ اسی وقت ختم ہوا تھا..جناب سیدہ (ع) خلیفہ کے فیصلے پر راضی ہوئی تھیں....

لہذا یہ سب شیعوں کا شوشا ہے،  یہ اصحاب سے دشمنی اور خلفاﺀ پر اعتراض کے لئے شیعوں کی بنائی ہوئی جھوٹی کہانی ہے..

  شیعہ جواب دیتے ہیں

شیعہ موقف کو کمزور کرنے کے لئے اپنی کتابوںِ کی معتبر روایات کو ٹھکرانا عقلمندی نہیں ہے...

اگر ایسا ہے تو  شیعہ جو کہتے ہیں وہ سب اہل سنت کی معتبر کتابوں میں (بخارج اور مسلم میں) کہاں سے آئی ہیں...????

لوگوں کو حقیقت سے دور رکھنے کے لئے سب کچھ شیعوں کی گردن پر ڈالنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔۔۔

ہم جو کہتے ہیں وہ اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب صحیح مسلم اور بخاری  میں موجود جناب عائشہ کی معتبر حدیث کا مضمون ہے۔۔

 جناب عائشہ کی خبر اور گواہی

.. بخاری کی حدیث... ۔

3093 فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » . فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سِتَّةَ أَشْهُرٍ . قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ ، وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا ............

.{ صحيح البخارى  57 - فرض الخمس ۔ باب ۱ باب فرض الخمس  3093}

جناب عائشہ نقل کرتی ہے : ۔۔۔۔ فاطمه نے ابوبكر سے اپنے والد کی ميراث کا مطالبه کیا تو ابوبكر نے کہا : رسول خدا نے فرمایا ہے : ہم انبیاء کوئی چیز ارث چھوڑ کر نہیں جاتے ،جو چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقه ہے، فاطمه غضبناك ہوئیں اور ابوبکر کے ہاس سے ناراض ہوکر چلی گئیں اور دنیا سے جانے تک اسی حالت میں رہیں ۔ آپ رسول اللہ ص کے بعد چھے ماہ تک زندہ رہیں۔  

دقت کریں :

 کیا جناب عائشہ کی دی ہوئی خبر پر آپ لوگوں کو اعتماد نہیں؟ جناب عائشہ نے کیوں ایسا نہیں کہا کہ معاملہ اسی وقت ختم ہوا اور جناب سیدہ(ع) راضی ہو کر چلی گئیں؟

خلیفہ دوم کا اعتراف بھی سنیں

جناب خلیفہ دوم گواہی دئے رہا ہے کہ معاملہ جاری رہا ختم نہیں ہوا۔

 مسلم بن حجاج نيشابوري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے ،

 اميرالمؤمنين (ع) جناب فاطمہ( ع)  کے حق میراث کا مطالبہ خلیفہ اول سے خلیفہ دوم کے دور تک کرتے رہیں.

.... ... فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- « مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- وَ وَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا .

رسول خدا (صلي الله عليه وآله وسلم) کی وفات کے بعد ابوبكر نے کہا : میں رسول خدا کا ولی اور جانشین  ہوں ، تم دونوں  آئے اور ، اے عباس تم ! اپنے بتیجے کی میراث کا مطالبہ کر رہا تھا اور  اے علی ! تم فاطمہ بنت پیغمبر کی میراث کا مطالبہ کر رہا تھا.

ابوبکر نے کہا  : رسول خدا نے فرمایا ہے : ہم کوئی چیز ارث کے طور پر چھوڑ کر نہیں جاتے ،جو چیز  چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہوگی ۔

  تم دونوں نے اس کو جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا جبکہ اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر سچا ، دیندار اور حق کے پیرو تھا ۔۔

ابوبكر کی موت کے بعد میں نے کہا : میں پیغمبر اور ابوبکر کے ولی اور جانشین ہوا ہوں   ،لیکن پھر تم دونوں نے مجھے جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا  خائن سمجھا۔۔

مسلم ، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ) ، صحيح مسلم ، ج 3 ص 1378 ، ح 1757 ، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ ، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .

اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں

۔ www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

خلفا  کے بارے حضرت علی (ع) کا موقف

www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

 

مندرجہ بلا دو احادیث میں موجود قابل توجہ نکات  

خلیفہ دوم کے اس اعتراف میں بہت سے نکات پوشیدہ ہیں ؛

 

پہلا نکتہ :

 اس صحیح سند روایت میں ، خلیفہ دوم واضح انداز میں کہہ رہا ہے ابوبکر  نے جناب سیدہ (ع) کے مطالبے کو رد کرنے کے لئے رسول اللہ (ص) سے منسوب ایک حدیث سے استدلال کیا اور اپنے کو « ولي » اور رسول اللہ (ص) کا جانشین اور خلیفہ کہا ؛ لیکن امير المؤمنين عليه  السلام  اور  عباس نے اس ادعا کی تكذيب کی اور انہیں جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا...  

 جناب  عمر نے بھی اپنے آپ کو رسول خدا (ص) اور ابوبکر کا ولی اور جانشین کہا لیکن جس طرح ابوبکر کے ادعا کو امیر المومنین اور عباس نے رد کیا ، عمر کو بھی جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا .

 

دوسرا نکتہ :

   اگر خلیفہ کے اس جملے ’’ فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا’’ کا مطلب ان کی طرف سے خلافت اور جانشینی کے دعوے کو رد اور انہیں اس جہت سے کاذب ، خائن ۔۔۔ سمجھا نہ بھی ہو  پھر بھی اس جملے  سے کم از کم یہ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ معاملہ ختم نہیں ہوا تھا ورنہ یہ جناب خلیفہ کی غلط بیانی اور دوسروں پر الزام تراشی ہےْ

اس پر دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر معاملہ پیغمبر (ص) سے منسوب حدیث پر ختم ہوا تھا تو امیر المومنین(ص) اس مطالبے کو کیوں خلیفہ دوم کے دور تک کیوں دہراتا رہا??

 

 تیسرا نکتہ :

    اب جب معاملہ ختم نہیں ہوا تھا تو یقینا جناب سیدہ (ص) خلیفہ کو اپنے حق سے محروم کرنے والا ہی سمجھتی رہیں اور یہی عقیدہ جناب امیر المومنین علیہ السلام کا بھی تھا

لہذا خاص کر جناب سیدہ (ع) کی رضایت کو ثابت کرنے  والی سب کوششیںِ بیہودہ ہیں۔

 

چوتھا نکتہ :

مذکورہ حدیث سے استدلال مشکوک...

     کیونکہ اگر یہ حضرات اس حدیث کو نبی پاک (ص) کی ہی حدیث سمجھتے اور اس  کا معنی نبی (ص) کی بیٹی کا باب کی میراث سے محروم ہونا لیتے تو معاملہ ختم ہوجاتا اور  اس کوآگے نہیں بڑاتے۔۔۔

     کیا نبی پاک(ص) کے سب سے ممتاز شاگرد اور مکتب وحی کے سب سے عظیم تربیت یافتہ یہ دو ہستیاں دنیا کی خاطر اپنے عظیم استاد اور معلم انسانیت کی مخالفت کرسکتے ہیں??

     اگر ایسا کہنا قابل تصور ہے تو اس مذکورہ حدیث کا حضور (ص) کی طرف نسبت بھی مشکوک ہونا ممکن ہے..

     لہذا اس حدیث کو یہ ہستیاں قرآن کے مخالف سمجھتے تھے اور یہ کہتے کہ کیسے نبی پاک (ص) قرآنی حکم کی مخالفت کرسکتے ہیں۔۔

قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں کہ جو نبی کی اولاد کو ان کے والد کی میراث سے محروم ہونے کو بتائے ۔۔جبکہ قرآن میں اولاد کو باپ سے وراثت ملنے پر بہت سی روایات موجود ہیں۔

   جیساکہ انبیاﺀ کی تاریخ میں کوئی ایسا نمونہ نہیں ہے کہ کسی نبی کی وفات کے بعد ان کے اموال ان کے ورثہ کو ملنے کے بجائے بیت المال کا حصہ بنا ہو اور محتاجوں میں تقسیم ہوا ہو ان کی اولاد کو ان کے والد کی زمین اور جاگیر سے باہر کیا ہو۔۔۔

 

پانچواں نکتہ :

   شیعہ جو کہتے ہیں وہ سب اہل سنت کی معتبر کتابوں کی معتبر  احادیث میں موجود ہیں..

لہذا زیادہ شوشا کر کے عوام کو حقیقت سے دور رکھنے کوشش سے مسئلے مزید خراب ہوگا کیونکہ شیعہ  جو کہتے ہیں ان کا اہل سنت کی ہی کتابوں میں ہونے کا اگر لوگوں کو علم ہوجائے تو وہ شیعوں کو برا بلا کہنے کے بجائے اہل سنت کے مناظر، مفتی اور مولوی حضرات کو برا بلا کہنا شروع کریں گے ۔۔

لہذا لینے کے دینے پڑ جاو گے ۔۔

اسکین دیکھیں۔۔۔۔

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات