2024 April 20
شیعوں کا روزہ صحیح ہے یا اھل سنت کا؟
مندرجات: ٢١٠١ تاریخ اشاعت: ١٠ October ٢٠٢١ - ١٣:٣١ مشاہدات: 1731
وھابی فتنہ » پبلک
شیعوں کا روزہ صحیح ہے یا اھل سنت کا؟

مسافر روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں آزاد ہے۔

 

 اھل سنت کے چار فقہی مذاھب کے اماموں کا فتوا ہے کہ اگر مسافر سفر کی حالت میں ہو اور شرائط ہوری ہو تو مسافر کو روزہ رکھنے اور افطار کرنے میں اختیار حاصل ہے ۔

لیکن ان میں سے کونسا بہتر ہے اس میں ان کی راے مختلف ہے ۔

امام احمد اور اسحاق روزہ نہ رکھنے کو بہتر سمجھتے ہیں ولو روزہ مسافر کے لئے مشق اور سختی کا موجوب نہ بھی ہو ۔

امام مالک اور سفیان ثوری اور ابن مبارک وغیرہ رکھنے سکنے کی صورت میں روزہ رکھنے کو بہتر سمجھتے ہیں ۔

امام شافعی اور ابوحنیفہ نے روزہ رکھنے کو بہتر جانا ہے لیکن اس کو مشقت نہ ہونے کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔

لیکن شیعہ مسافر کے لئے شرائط مکمل ہونے کی صورت میں روزہ نہ رکھنے کو واجب سمجھتے ہیں ۔ اور اس سلسلے میں ائمہ اھل بیت علیہم السلام کی روایات کے علاوہ اھل سنت کی معتبر کتابوں سے بھی دلیل پیش کرتے ہیں ۔

انہیں میں سے ایک صحاح ستہ میں موجود یہ روایت ہے ؛

جس سال مکہ فتح ہوئی، یہ فتح رمضان کے مہینے میں ہوئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے روزہ کی حالت میں خارج ہوئے اور جس وقت كراع الغيم کے مقام پر پہنچے تو آپ نے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا اور اس  کو بلند فرما کر اس سے پانی پیا ۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! بعض لوگ روزے سے  ہیں اور افطار نہیں کیا ہے اور روزہ نہیں کھولا ہے ۔ تو آپ نے فرمایا : یہ لوگ گناہ گار اور نافرمان ہیں۔

 اسی سلسلے کی ایک اور روایت بھی اھل سنت کی معتبر کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور یہ مکتب فقہی اھل بیت علیہ السلام کی حقانیت پر دلیل ہے ؛ جناب  جابر نقل کرتے ہیں کہ

۔رسول خدا(ص) نے فرمایا : مسافر کا روزہ رکھنا اللہ کی اطاعت اور بندگی نہیں ہے .

لہذا مسافرت کی حالت میں روزہ رکھنا شرعی طور پر جائز نہیں ہے اور یہ روزہ  اللہ کی اطاعت اور عبادت نہیں ہے ۔

روایت کی غلط سوچ کے مطابق توجیہ

بعض نے اس روایت کی غلط توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے اور غیر علمی طریقے سے روایت کی توجیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے سفر میں سختی اور مشقت کی وجہ سے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔

 لہذا روزہ نہ رکھنے کے حکم کو سفر میں مشقت اور سختی کے ساتھ مقید کیا ہے ،یہی وجہ تھی کہ جب آپ نے دیکھا کہ بعض لوگ ایک آدمی کے ارد گرد جمع ہیں تو آپ نے فرمایا : کیا ہوا ہے؟ جواب دیا : یہ روزے سے ہے۔

 آپ نے فرمایا : اس قسم کے بندے کا روزہ بے فائدہ ہے اور عبادت اور اطاعت نہیں ہے ۔

لہذا روزہ اس وقت صحیح ہے جب یہ مشقت اور سختی کا  موجب نہ ہو ، بنابر این یہ نہی مطلق روزہ کو شامل نہیں ہے ۔

توجیہ کا رد ۔

واضح ہے کہ یہ توجیہ نص کے مقابلے میں اجتہاد اور واضح فرمان کے مقابلے میں اپنی راے کو اہمیت دینا ہے ۔ کیونکہ آپ نے مطلق طور پر فرمایا ہے اور روزہ کو مشقت اور سختی کے ساتھ مقید نہیں فرمایا ہے ،اگر اس قید کی ضرورت ہوتی تو آپ بیان فرماتے ۔

جیساکہ اس سلسلے کی پہلی روایت بہت واضح ہے ،اس میں واضح طور پر سفر کی حالت میں روزہ رکھنے والوں کو گناہ گار اور نافرمان کہا ہے  ، اب یہاں پر مشقت میں ہونے یا نہ ہونے کی تحقیق نہیں کی ۔

لہذا اس روایت کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مشقت کا موجب نہ ہونے کی صورت میں بھی لوگوں کو روزہ نہ رکھنے کا حکم دیا ۔

اوپر کے مطالب کی عربی ۔

تخير المسافر بين الصيام والإفطار

ذهب أئمة المذاهب الأربعة إلى أن المكلف إذا سافر بالشروط المذكورة في محلها فهو مخير بين الصيام والإفطار ، واختلفوا في أيهما الأفضل ،

 فذهب أحمد وإسحاق أن الفطر أفضل وإن لم يشق عليه الصوم .

وذهب مالك وسفيان الثوري وابن المبارك إلى أن من وجد قوة فالصيام له أفضل.

ذهب الشافعي  وأبو حنيفة إلى أن الصيام أفضل إلا إذا حصلت له مشقة فالفطر أفضل.

راجع أقوالهم في سنن الترمذي: 3 / 90 ، الفقه على المذاهب الأربعة 1 / 575 ، بداية المجتهد 1 / 296

وذهب الشيعة الإمامية إلى وجوب الإفطار ، وقد دلت عليه أحاديث رووها في كتبهم : منها : ما أخرجه مسلم في صحيحه ، والترمذي والنسائي والبيهقي في سننهم ، وابن خزيمة في صحيحه ، والطيالسي في مسنده ، وغيرهم عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج عام الفتح إلى مكة في رمضان ، فصام حتى بلغ كراع الغميم ، فصام الناس.

ثم دعا بقدح من ماء فرفعه حتى نظر الناس إليه ، ثم شرب فقيل له بعد ذلك : إن بعض الناس قد صام.

فقال : أولئك العصاة ، أولئك العصاة

صحيح مسلم 2 / 785 الصيام ، ب 15 ، ح 1114. سنن الترمذي 3 / 89 ح 710 قال الترمذي : حديث جابر حديث حسن صحيح

سنن النسائي 4 / 488 ح 2262 ( ط محققة ). وصححه الألباني في صحيح سنن النسائي 2 / 482 ح 2136. السنن الكبرى 4 / 241. مسند أبي داود الطيالسي ، ص 232 ح 1667

صحيح ابن خزيمة 3 / 255 ح 2019.  صحيح البخاري 2 / 578 الصوم ، ب 36 ، ح 1946. صحيح مسلم 2 / 786 الصيام ، ب 15 ، ح 1115. سنن الترمذي 3 / 90 ، ح 710

سنن النسائي 4 / 485 ، ح 2254 - 2261. سنن أبي داود 2 / 317 ح 2407

سنن ابن ماجة 1 / 532 ح 1664 ، 1665. مسند أحمد بن حنبل 5 / 434

سنن الدارمي 2 / 9. مسند أبي داود الطيالسي ، ص 191 ح 1343 ، ص 238 ح 1721

السنن الكبرى 4 / 242 - 243. المستدرك 1 / 433. صحيح ابن حبان 2 / 70 ح 355 ، 8 / 317 ، 320 ، 322 ح 3548 ، 3552 ، 3554 . المعجم الكبير للطبراني 12 / 374 ، 379 ، 446 ، ح 13387 ، 13403 ، 13618. إرواء الغليل 4 / 58. المصنف لابن أبي شيبة 2 / 279 ح 8959 ، 8960. صحيح ابن خزيمة 3 / 253 ، 254 ح 2016 ، 2017 ، 2018. مسند الحميدي 2 / 539 ح 1289

ومنها : ما أخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما ، والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجة والبيهقي في سننهم ، وأحمد والطيالسي في مسنديهما ، والحاكم في المستدرك ، وابن أبي شيبة في المصنف وغيرهم ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ليس من البر الصيام في السفر.

والبر هو الطاعة والعبادة كما نص عليه ابن الأثير وغيره.

قال ابن الأثير : وفي حديث الاعتكاف : البر يردن أي الطاعة والعبادة ، ومنه الحديث : ليس من البر الصيام في السفر

النهاية في غريب الحديث والأثر 1 / 116

وعليه لا يكون الصيام في السفر عبادة ولا طاعة ، فيكون غير مشرعا ولا مأمورا به ، فيتعين حينئذ الإفطار

وقالوا : إن النبي صلى الله عليه وسلم إنما قال ذلك لما رأى زحاما ورجلا قد ظلل عليه ، فقال : ما هذا؟

فقالوا : صائم، وهذا يدل على أن الصيام الذي هو ليس ببر إنما هو الصيام الذي تكون معه مشقة ، لا مطلق الصيام في السفر

وهذا مردود بأن خصوص المورد لا يخصص الوارد ، فإن لفظ ( الصيام ) في الحديث مطلق غير مقيد بحالة حصول المشقة والحرج ، فلا يصح تخصيصه بما حدث في تلك الواقعة

على أن الحديث الأول أوضح دلالة من هذا الحديث ، لأنه صلى الله عليه وآله وسلم وصف كل الصائمين بأنهم عصاة ، مع أنه لم يستعلم أحوالهم فوجدهم قد شق عليهم الصوم ، بل ظاهر الحديث أن صومهم لا مشقة فيه عليهم ، لأنهم لو وجدوا فيه أدنى مشقة وكانوا قد رأوا النبي صلى الله عليه وآله وسلم يفطر لأفطروا معه ، ولكنهم لما وجدوا في أنفسهم طاقة على الصوم بلا حرج عليه صاموا ، وهو واضح لا يحتاج إلى مزيد بيان 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات