2024 March 28
جناب عائشہ پر تہمت لگانے اصحاب تھے ، شیعہ نہیں تھے ۔
مندرجات: ٢١٩٩ تاریخ اشاعت: ٠١ October ٢٠٢٢ - ٠٢:٥٢ مشاہدات: 1628
وھابی فتنہ » پبلک
جناب عائشہ پر تہمت لگانے اصحاب تھے ، شیعہ نہیں تھے ۔

جناب عائشہ پر  تہمت لگانے اصحاب تھے ، شیعہ نہیں تھے ۔

 ( جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو بھی شک ہوگیا تھا)

قرآن کی گواہی :

 ( بہتان باندھنے والے تم (اصحاب) میں سے ایک جماعت۔۔

(إِنَّ الَّذِينَ جَاؤُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ) (النور 11)

اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ لِکُلِّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ مَّا اکۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ ۚ وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۱

جن لوگوں نے یہ بہتان باندھا ہے وہ تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اسکو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا وبال ہے اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اسکو بڑا عذاب ہو گا۔

لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّ قَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۲

جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ کھلم کھلا بہتان ہے۔

اصحاب کی گواہی :

وَقَالَ عُرْوَةُ أَيْضًا: لَمْ يُسَمَّ مِنْ أَهْلِ الإِفْكِ أَيْضًا إِلَّا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَمِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ، وَحَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ، فِي نَاسٍ آخَرِينَ لاَ عِلْمَ لِي بِهِمْ، غَيْرَ أَنَّهُمْ عُصْبَةٌ، كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى، وَإِنَّ كِبْرَ ذَلِكَ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ .....

صحيح البخاري --- كتاب المغازي --- باب حديث الإفك: رقم الحديث: 4141

 عروہ نے پہلی سند کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ حسان بن ثابت ‘ مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش کے سوا تہمت لگانے میں شریک کسی کا بھی نام نہیں لیا کہ مجھے ان کا علم ہوتا۔ اگرچہ اس میں شریک ہونے والے بہت سے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (کہ جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ بہت سے ہیں)

کچھ سادہ سوالات :

کیا قرآنی کی گواہی اور اصحاب کی گواہی کو ٹھکرانا ممکن ہے؟

کیا جناب ام المومنین پر تہمت لگانے والے عادل ہوسکتے ہیں؟

 جس جرم کی سزا ،اللہ نے عَذَابٌ عَظِیۡمٌ قرار دیا ہے کیا ایسے کو عادل کہنا صحیح ہے ؟

کیا ایسے لوگوں کو ہدایت کے ستارے کہنا صحیح ہے ؟

 

اس روایت کا بقیہ حصہ بھی دیکھیں

( جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو بھی شک ہوگیا تھا)

 

 

قَالَتْ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ قَالَتْ وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ مَا قِيلَ قَبْلَهَا وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي بِشَيْءٍ قَالَتْ فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَلَسَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ قَالَتْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً فَقُلْتُ لِأَبِي أَجِبْ

رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي فِيمَا قَالَ فَقَالَ أَبِي وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لِأُمِّي أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَالَ قَالَتْ أُمِّي وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ مِنْ الْقُرْآنِ كَثِيرًا إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي أَنْفُسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي مِنْهُ بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي فَوَاللَّهِ لَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} ثُمَّ تَحَوَّلْتُ وَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي

 

جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی ‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا اور میرے بارے میں آپ کو وحی کے ذریعہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا امابعد اے عائشہ! مجھے تمہارے بارے میں اس اس طرح کی خبریں ملی ہیں ‘ اگر تم واقعی اس معاملہ میں پاک و صاف ہو تو اللہ تمہاری پاکی خود بیان کر دے گا لیکن اگر تم نے کسی گناہ کا قصد کیا تھا تو اللہ کی مغفرت چاہو اور اس کے حضور میں توبہ کرو کیونکہ بندہ جب (اپنے گناہوں کا) اعتراف کر لیتا ہے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ جناب عائشہ نے بیان کیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کلام پورا کر چکے تو میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے کہ ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے پہلے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے کلام کا جواب دیں۔ والد نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں کچھ نہیں جانتا کہ آپ  سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ اس کا جواب دیں۔ والدہ نے بھی یہی کہا۔ اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ اس لیے میں نے خود ہی عرض کیا۔ حالانکہ میں بہت کم عمر لڑکی تھی اور قرآن مجید بھی میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا کہ اللہ کی قسم! مجھے بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگوں نے اس طرح کی افوہوں پر کان دھرا اور بات آپ لوگوں کے دلوں میں اتر گئی اور آپ لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس تہمت سے بری ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اگر اور اس گناہ کا اقرار کر لوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ لوگ اس کی تصدیق کرنے لگ جائیں گے۔ پس اللہ کی قسم! میری اور لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏» (یوسف: 18) پس صبر جمیل بہتر ہے اور اللہ ہی کی مدد درکار ہے اس بارے میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔

 

 

 

اسکین

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات